قسط 39
بلو ڈینم عبایا اور بلو ڈینم ماسک میں لپٹی عزہ نور اور عروج سر پر نارنجی فراگی اسٹائل اسکارف پہنے لمبا سا نارنجی ٹاپ جینز کے ساتھ اور جاگرز پہنے کھڑی الف اور سفید اور گلابی پھولدار شرٹ بلو جینز میں ملبوس فاطمہ ، ست رنگا ٹاپ سفید ٹائٹس کے ساتھ پہنے واعظہ ۔
اتنئ ورائٹی دیکھ کر ٹیکسی ڈرائیور کا منہ کھلا رہ گیا
آپ سب اکٹھے جائیں گی؟
پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
نہیں ایک پیچھے بھاگی بھاگی آئے گی۔
ماسک پہن کر عروج کو لگتا تھا کہ دنیاآسے دیکھ نہیں سکتی جبھئ مزے سے جملہ چست کردیا۔
عزہ الف عروج فاطمہ نور آرام سے پیچھلی نشست پر براجمان ہوئیں تو واعظہ نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا۔
ڈرائیور کا اس اوور لوڈنگ پر منہ کھلنے کو تھا
ابھئ ابیہا ہمارے ساتھ نہیں ورنہ تو ڈرائیور بے ہوش ہوجاتا۔
عزہ نے کھی کھی کی
فلیش بیک میں ابیہا اپنا اسمارٹ فون دکھا کر بتا رہی تھی
یہ دیکھو یہ سیکنڈ ایئر کی طالبہ پاکستانئ لڑکی ایمن سلیم نےورلڈ ریکارڈ بنایا تھا 2010 میں انیس لڑکیاں دو دروازوں والی اسمارٹ کار میں بیٹھی تھیں۔۔
ہم پاکستانی لڑکیاں ہیں 2010 میں انیس پاکستانی لڑکیوں نے دو دروازوں والی اسمارٹ کار میں بیٹھنے کا ریکارڈ بنایا تھا ہم تو بس چھے ہیں۔
واعظہ کو بھی ابیہا یاد آئی تھی شائد جبھی جتاتے ہوئے اگلی نشست پر براجمان ہوگئ۔
میری قسمت میں نمونے لکھے ہیں۔
ڈرائیور نے ہنکارا بھرتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی مگر بڑبڑانا جانے کیوں ضروری سمجھا۔
عروج اور واعظہ نے گھور کر دیکھا۔
تو کیا تم واقعی سمجھے تھے کہ ہم میں سے ایک پیچھے میراتھن دوڑ لگاتی آئے گی؟
خالص ہنگل میں دونوں چنکی منکی کی طرح اکٹھے بولی تھیں ۔ انکے تیوروں نے ڈرائیور کو گڑبڑا دیا ۔
ایک تو ہنگل سب فورا سیکھ لیتے ہیں کوریا آکر ۔ کوئی پرائیویسی ہی نہیں رہی۔
اس بارعقل کا استعمال کرتے ہوئے منہ کا استعمال نہیں کیا تھا صرف سوچ کر رہ گیا۔
وہ لوگ کوایکس مال آئی تھیں… ہر مال کی طرح کا یہ مال بھی مہنگے برانڈ کی شیشوں سے سجی دکانوں سے بھرا تھا۔ وہ دلچسپی سے ونڈو شاپنگ کرنے لگیں۔
یہ بیگ اچھا ہے ۔۔ عزہ گلاس ڈور کے بالکل ساتھ لگے شوکیس میں سجے بیگ کی جانب لپکی تبھی گلاس ڈور کھولتی بڑے سے اسٹور سے بڑا سا بیگ تھامے الابلا خرید کر اپنی دھن میں نکلتی لڑکی نےسرتاپا لبادے میں ملبوس لڑکی کو دیکھ کرننجا ٹرٹلز کی چھوٹی بہن سمجھتے ہوئے زور دار آواز میں کم چاک گیا کہہ کر بیگ پھینک کردھڑ دھڑ کرتا دل تھاما تھا۔ یک نہ شد دو شد اور عروج کو ملا کر تین شد۔ اسکی حیرت آہستہ آہستہ الجھن میں بدلی پھر دوبارہ حیرت میں بدلنے لگی کیونکہ اب اسکی نگاہیں فاطمہ واعظہ اور الف سے الجھ رہی تھیں۔عزہ نے منہ بنایا جو یقینا اسے نظر نہ آیا۔ فورا بیگ بھول بھال مڑ کر واعظہ سے پیر پٹخ کر بولی
ہم مال کیوں آئے ہیں؟ مجھے مالز میں پھرنا بالکل پسند نہیں۔
کوئی زندگی میں ڈھنگ کی چیز پسند تمہیں؟
فاطمہ نے فورا اعتراض جڑا۔
مجھے بھی مالز نہیں پسند عجیب خلائی مخلوق کی طرح دیکھتے ہیں لوگ ہمیں۔۔ نور بھنائی
حالانکہ کالے عبایا نہیں ہیں ہمارے۔ عروج نے اس لڑکی کو ہاتھ ہلا دیا جوابا وہ منہ ہی منہ میں بڑ بڑاتی جھک کر سامان اٹھانے لگی۔
مجھے بھی۔ واعظہ فورا متفق ہوئی۔
عجیب احساس کمتری ہوتا ہے یہاں لوگوں کو مہنگی مہنگی چیزیں سستے ترین انداز میں برانڈز کے بیگز لہرا لہرا کر چھچھوروں کی طرح پھرتے دیکھ کر۔
فخریہ لہجے میں کہہ کر اس نے جیسے اترا کر کہا تھا
اسکی بات پر وہ سب اسکی جانب یوں گھومی تھیں جیسے اسکے سینگ نکل آئے ہوں۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا تم ہمیں یہاں لیکر آئی ہو۔
عروج نے یاد کرایا
پھر ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ الف نے ناک سکوڑی۔
ہم سمندری مخلوق دیکھنے آئے ہیں۔
اس نے سامنے ایکوریم کے چمکتے ہوئے بورڈ کی جانب اشارہ کیا۔
ہم ایکوریم دیکھنے آئے ہیں؟ عزہ کو یقین نہ آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب کو ٹکٹ لینے کھڑے دیکھ کرٹکٹ افسر نے بڑئ عجیب سی نگاہ ڈالی تھی ان پر۔
یہ ہمیں ننجا ٹرٹلز تو نہیں سمجھ رہا؟
عزہ منمنائی۔
ہم برقع ایونجرز ہیں۔ نور نے گردن اکڑائئ۔
تم لوگ ٹکٹ لو ہم تصویر بنواتے ہیں تب تک۔
فاطمہ اور واعظہ کو چھوڑ کر وہ چاروں داخلی رستے کی طرف چلی آئیں۔۔۔
کریڈٹ کارڈ ڈینائیڈ۔
کارڈ چپکا کر اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو واعظہ گہری سانس لیکر اپنا دوسرا کارڈ نکالنے لگی۔
تم دن بہ دن غریب ہوتی جا رہی ہو۔ میں تم سے تعلقات ختم کر لوں گی۔ مجھے غربت اور غریب دونوں سے ڈر لگتا ہے۔
بیگ میں عمرو عیار کی زنبیل سے بھی ذیادہ چیزیں بھری تھیں۔
ہے بھی دوسرا کارڈ کہ نہیں؟ دیکھو پیسے نہیں تو میں تمہیں نہیں جانتی بھئ۔ ابھی تو میری نوکری شروع ہوئی ہے مہینے بھر بعد ہی تنخواہ ملے گی اور خیالوں ہی خیالوں میں میں اپنی تنخواہ خرچ بھی کر چکی ہوں۔
اسکیلن ترانی سے بے نیاز واعظہ اب اپنے بیگ کو کائونٹرپر رکھ کر تندہی سے ڈھونڈنے لگی۔
یہ میری دور کی جاننے والی ہے۔ میں تو بس ویسے ہی سلام۔کرنے آئی تھی بس۔ یونہی کبھی سر راہ ملاقات ہوجاتی یے۔ زیادہ نہیں جانتی میں اسے۔
فاطمہ ٹکٹ چیکر سے مخاطب تھی۔ انگریزی میں وہ بھی ۔ اب جانے اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ٹھس سا پکا سا منہ بنائے خاموش کھڑا تھا
جتنی دیر میں اس نے کارڈ نکالا فاطمہ اس سے تعلقات ختم کر چکی تھئ۔
اگر میں بس ایک ٹکٹ لوں تو کوئی ڈسکائونٹ ملے گا؟ اب میں یہاں تک آئی ہوں تو دیکھ ہی لوں نا۔ بس فری لوڈر مجھے پسند نہیں اپنے لیئے ہی لوں گی بس۔ پیسے تو بہت ہیں میرے پاس مگر اب کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو تو اپنے خرچے پر مزے نہیں کروا سکتی نا۔اے لڑکی وقت ضائع کیوں کر رہی ہو پیسے نہیں تو ہٹو۔
اصولا اب مجھے چھے کی۔بجائے پانچ ٹکٹ لینے چاہیئیں۔
کارڈ نکالتے ہوئے واعظہ نے گھور تے ہوئے کہا جس پر اس نے ڈھٹائی سے بتیس دانتوں کی نمائش کی۔
یہ میری بہن ہے۔ ہم بچپن میں اکٹھے چھپن چھپائی کھیلتے تھے۔
فاطمہ نے اس ٹھس سے کھڑے ٹکٹ چیکر کو بتایا تو اتنی دیر سے اسکی سب بکواس پر پکا سا منہ بنائے کھڑے اس چندی آنکھوں والے کے چہرے پر مسکراہٹ آہی گئی۔
اوئے اسے انگریزی سمجھ آرہی تھی۔
واعظہ کے بازو میں زبردستی بازوڈال کرفاطمہ نے سرگوشیانہ انداز میں اردو میں اطلاع دی تھی۔
جتنئ دیر میں فاطمہ اور واعظہ ٹکٹ لے کر پلٹیں وہ سب داخلی راستے کے باہر لگے بڑے بڑے چوڑے گلاس کے ستونوں میں تیرتی مچھلیوں کے ساتھ آدھی درجن تصاویر بنوا چکی تھیں۔
یار یہ مچھلی تیرتی ہوئی جب آئے تب تصویر لینا ۔ الف ایکوریم کی جانب پشت کیئے کھڑی تھی۔ بالشت بھرکی نیلے رنگ کی روشنیوں میں تیرتی رنگ برنگی مچھلیاں گول گول گھومی جا رہی تھیں۔اس نے ان کے چکر سے اپنی ٹائمنگ ملائی تھی جیسے ہی گھوم کر آئی پورا منہ کھول کر عین اسی وقت الف نے بھی منہ کھولا
بہت بہت مزے کی تصویر آئی ہے ۔۔ نور خوشی سے وہیں اچھلنے لگی تھئ۔
دکھائو دکھائو۔ الف بھاگی بھاگی آئی۔
فالتو میں ٹکٹ لیئے تم لوگوں نے تو یہیں تصویریں بنوا لیں ۔ واپس کرا آئوں۔
واعظہ نے شرارتا سنجیدگی سے پوچھا۔
ہاں اب ایکوریم کیلئے ہم ٹکٹ لیکر کر دیکھیں گے اندر بھی تو ایسی ہی مچھلیاں ہوں گئ۔
نور نے کندھے اچکائے۔ واعظہ مسکرا دی۔
مگر اندر دنیا ہی اور تھی۔ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ایکوریم میں بھانت بھانت کی سمندری حیات موجود تھی۔ مچھلیوں کی ہی نجانے کتنی درجن اقسام تھیں۔چھوٹے چھوٹے ایکوریم میں چھوٹی چھوٹی مچھلیوں سے شروع ہوا تھا سفر آہستہ آہستہ ایکوریم کا حجم اور مچھلیوں کا حجم بھی بڑھتا گیا۔ سمندری پودے جو زمین پر موجود پودوں سے کہیں مختلف تھے رنگ اور شکل کے اعتبار سے جگہ جگہ انکے ماڈلز رکھے تھے کہیں ایکوریم میں بہار دکھا رہے تھے اور ساتھ ایک بورڈ بھی تھا جو ایکوریم میں موجود حیات کی تفصیلات بھی بتا رہا تھا کونسا رنگ کونسی نسل کہاں کتنی تعداد میں پائی جاتی ہیں ۔ وہ سب بہت دلچسپی سے دیکھ رہی تھیں۔
ایک۔جانب گلہری کا گھر تھا۔ عزہ بہت شوق سے اسکی جانب بڑھی۔
مائک کی طرح اسکی جانب مٹھی بڑھا کر پوچھا
کیا آپکے ٹوتھ پیسٹ میں نمک ہے؟
گلہری نے دانت نکوس کر دیکھا پھر غرا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا یوں لپکی جیسے عزہ کی ناک کاٹ دے گی۔عزہ اچھل کر پیچھے ہوئئ۔
بد تمیز دانت صاف نہیں کرتی ہوگی جبھی میرے سوال پر غصہ آگیا۔
اس نے مڑ کر ڈھٹائی سے الزام لگایا۔
یار یہ سفید مچھلیاں کتنی ڈرائونی ہیں۔
نور ایکوریم کی شیشے کی دیوار سے ناک چپکائے کھڑی تھی۔
سفید مچھلیاں اپنے سے ڈرائونی مخلوق دیکھ کرتتر بتر ہونے لگیں
کیوں مچھلیوں کو ڈرا رہی ہو نور۔ ایک تو
الف مزید بھی کچھ کہتی جو اگر بالکل سامنے والے ایکوریم پر نگاہ نہ پڑ جاتی ۔جملہ ادھورا چھوڑ کر چیخ مار کر بھاگئ
نیمو۔ ۔۔۔۔ اتنے سارے نیمو۔ ۔
نیمو ۔۔۔
اسکے یوں بے ساختہ انداز پر ان سب کے ساتھ ساتھ دیگر سیاح بھی گردن گھما کر متوجہ ہوئے۔
الف بانہیں پھیلائے ایکوریم کو گلے سے لگائے چمٹی کھڑی تھی۔
سب سکھیاں منہ کھولے دیکھ رہی تھیں۔
نور میری نیمو کے ساتھ تو تصویر لو۔ ہمارے تو کپڑے بھی آج میچنگ میچنگ ہیں۔۔
اتنی ڈرامہ بازی کے بعد وہ اب مڑ کر آنکھیں پٹپٹا کر فرمائش کر رہی تھی۔ نارنجی دوپٹہ لہرا کر۔لہرائی تو سارے نیمو اسی سے دور بھاگنے لگے
کہاں چلے نیمو۔۔ اسے تشویش ہوئی تو ایکوریم کھٹکا نے لگی۔ مگر ان ڈھیر ساری کلائون فشزمیں جو فائنڈنگ نیمو کی وجہ بلا وجہ ہی خود کو سیلیبریٹیز سمجھنے لگی تھیں زرا بھی حس مزاح نہیں تھی۔ جبھئ ڈر کر باہر نکلنے کو تیار ہوگئیں۔
بنائو پوز میں لوں تمہاری نیمو کے ساتھ تصویر
نور دانت کچکچا کر کیمرہ سنبھالنے لگی۔
نیمو۔ الف دونوں ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ ٹکائے دوپٹہ لہراتی۔
رنگین آنچل رنگین مچھلیاں دوپٹہ اڑے تو جیسے تتلی کے پیر پھیلے ہوں ایسے پھیلا ہو اور پیچھے سے مچھلیوں کا غول آرہا ہو۔
دونوں کی بحث پوز بنانے پر ہورہی تھی عروج اور عزہ سیلفیاں لے ریی تھیں
واعظہ اور فاطمہ پاس سے گزرتے پریشانی سے تکتے لوگوں کو تسلی دے رہی تھیں
ذہنی طور پر نا پختہ ہیں بس تھوڑی سی پاگل نہیں ہیں یہ لڑکیاں گھبرانے کی بات نہیں۔
خدا خدا کرکے انکا فوٹو شوٹ مکمل ہوا تو آگے بڑی مچھلیوں کی باری آئی۔ ایک ایکوریم میں ٹیلی فون بوتھ بھی لگا رکھا تھا۔
مچھلیاں کسے فون کرتی ہوںگی؟
عروج کو تجسس ہوا۔
انکےرشتے دار تو سمندر میں ہونگے نا انکا احوال پوچھتی ہوں گئ۔
عزہ نے اندازہ لگایا۔
انکے پاس موبائل فون نہیں ہوتےجو بوتھ استعمال کرتی ہیں؟
نور کو تشویش ہوئئ
تم اپنا دے جائو کم از کم اس ایکوریم کا بھلا ہو جائے گا۔
فاطمہ نے کہہ کر اسکا فون چھینا اور ایکوریم میں ڈالنے لگئ۔
نہیں۔ نور نے دہائی دی۔
ان سب کے شغل کو کچھ لوگ دلچسپی سے کچھ بیزاری سے بھی دیکھ رہے تھے۔
آپ لوگ ایک طرف ہو جائیں ہم بھی ایکوریم دیکھنے آئے ہیں۔
ان چندی آنکھوں والی دو لڑکیوں نے منہ پورا کھول کر بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
ہاں ہاں ضرور دیکھئے اپنا ہی ملک سمجھیئے۔
عروج اور طنز سہہ جاتی مسکرا کر دل جلانے والے انداز میں ہنگل انڈیلی ان پر اور سر جھٹکتی شان سے آگے بڑھ گئ جوابا یہ سب اس سے ترجمہ پوچھنے کو بھاگیں ایسا کیا کہہ گئیں عروج کیونکہ جوابا وہ لڑکیاں کہہ سیکی اور جانے کیا کیا بڑ بڑا رہی تھیں۔
آگے سب سے بڑا حصہ تھا جہاں کئی کئی فٹ کی مچھلیاں تھیں۔سور کے منہ والی مچھلی ان کو حیرت میں ڈال گئ تھئ۔
عزہ نے بڑے شوق سے اسکے ساتھ تصویر بنوائئ۔ وقت گزرنے کا انہیں بالکل پتہ نہ لگا۔۔۔انکے گرد اب رش بڑھنے لگا تھا۔
دیو ہیکل مچھلیوں کے جھرمٹ میں تصویریں بنواتے فاطمہ نے اسکی کمی محسوس کی۔
متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا تو ایک کونے میں رکھے ایکوریم کے ساتھ سہولت سے آلتی پالتی مارے دونوں ہتھیلیاں زمین پر ٹکائے بازو سیدھے کیئے ان کے سہارے لیئے اطمینان سے بیٹھئ ایک ٹک کسی سمندری مخلوق کو گھورتی نظر آئی۔
ایک تصویر نہیں بنوائئ تم نے ہم کیا ثبوت پیش کریں گے کہ ہمارے سنگ ایک عدد بوڑھئ روح واعظہ بھی ایکوریم کی سیر کو آئی تھی۔
وہ اسکے قریب آکر زور سے بولتے ہوئے ایکوریم کی جانب پشت کرکے واعظہ کے عین سامنے دھم سے بیٹھی تھی مقصد چونکانا تھامگر مجال ہے اسے کوئی چونکا جائے۔ آرام سے گردن موڑ کر اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
کسے دیکھ رہی ہو اتنے غور سے۔ ہائے اللہ۔
وہ ایکوریم کے بالکل نزدیک تھی مڑ کر اسکی دلچسپی کا منبع جاننا چاہا تو لمحہ بھر کو دل اچھل کر حلق میں ہی آگیا۔
بڑی بڑی مونچھوں والا دیو ہیکل سرمئی بڑا سا اود بلائو منہ کھول کر جمائی لیتے ہوئے تیر کر اوپر ہولیا۔
تم بیٹھئ اود بلائو کو دیکھ رہی تھیں۔ فاطمہ کو اسکی ذہنی حالت پر شک نہیں یقین آگیا تھا کہ خراب ہے۔
ایک سے ایک خوبصورت مچھلی آکٹوپس سمندری مخلوق موجود ہے تمہیں یہاں یہ اود بلائو ہی دیکھنے کو ملا۔ توبہ استغفار اللہ کی مخلوق ہے ایسا کہنا نہیں چاہییے مگر اچھا خاصا عجیب سا ہے بلکہ ہیں۔
وہ مڑ کر ان دو تین موٹے موٹے اود بلائو اور کئی چھوٹے موٹے اود بلائو کو دیکھ رہی تھی۔
ان بظاہر خوش رنگ مخلوق کو دیکھنے کیلئے ایک دنیا امڈ بھی تو آئی ہے۔ بس یہی جگہ خالی اور پرسکون تھی اسلیئے میں یہاں آئی۔۔۔۔
اسکے انداز پر واعظہ ہلکے سے ہنس دی۔ پھر سیدھی ہوکر بیٹھئ۔۔
لیکن مجھے یہاں آکر پتہ لگا کہ اس مخلوق کو ہماری توجہ چاہیئے۔۔ان خوبصورت مچھلیوں کے پاس جائو تو ہماری توجہ سے بیزار دور ہو جاتئ ہیں جبکہ انکو دیکھو۔
وہ بے حد اشتیاق سے ایکوریم کے قریب آکر اپنی ہتھیلی شیشے کے قریب لا کر دکھانے لگی تو کئی اود بلائو جیسے خوشی سے بے تاب ہوتے ہوئے پاس آئےیوں منہ کھولنے لگے جیسے کچھ کہنا چاہ رہے ہوں۔
اس نے ہلکے سے انگلیوں کو جنبش دی تو اسکی انگلیوں کے ساتھ سر ہلاتے بے معنی آوازیں نکالتے۔۔ وہ جیسے خوش سے ہوگئے تھے۔ فاطمہ مبہوت سی دیکھنے لگی۔ عام سا سمندری جانور جسے شائد کبھی کوئی پسندیدگئ کی نظر سے نہیں دیکھتا کتنا معصوم سا پیارا سا لگ رہا تھا۔
واہ۔
وہ بے اختیار شیشے کی جانب ہاتھ بڑھا بیٹھی تو نرمی سے واعظہ نے تھام لیا۔
شیشے کو مت چھونا ابھی انتظامیہ کا کوئی آجائے گا۔
ان سے کچھ فاصلے پر انتظامیہ کا رکن شائد اسے ٹوکنے ہی کیلئے الرٹ ہوا تھا مگر پھر رک گیا۔
تبھئ انہیں نور کی چیخ سنائی تھی پھر پے در پے چیخیں ہی بلند ہوتی گئیں۔وہ دونوں ایکدم سے اٹھ کر انکی۔جانب بھاگیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہنگن دریا کے کنارے انہوں نے کیمپ لگایا تھا ۔دسترخوان پر سیخ کباب تکے بیف پلائو مچھلی سلاد رائتے کے ساتھ سجا رکھا تھا۔ یہ کھانا وہ ریستوران سے پیک کروا کر لائی تھیں ۔میٹھے کیلئے واعظہ کا وعدہ تھا واپسی پر آئیسکریم کھلائے گئ۔ موسم آج تھوڑا تپش لیئے ہوئے تھا دوپہرڈھل رہی تھی
دھوپ بہت تیز چبھتی نہیں تھی ڈھلتے سورج کا منظر دریا کے پانیوں میں دیکھنا یقینا بے حد دلچسپ تجربہ ہونا تھا مگر فضا میں بیک گرائونڈ میں نور کی سسکیاں نہ چل رہی ہوتیں تو۔
چھوڑو بھئ نور کھانا تو کھالو۔ بھوک نہیں لگ رہی تمہیں۔
الف نے چمکارا۔
نہیں مجھے نہیں کھانا مجھے گھن آرہی ہے۔
وہ منہ بسور رہی تھی
چکھو تو سہی یہ چھپکلی اوہو ۔مچھلی۔۔۔ عروج نے ایک مچھلی کا ٹکڑا اسکی جانب بڑھایا مگر عین وقت پر زبان پھسل گئ۔
باقی سب نے تو کھی کھی کی نور کو اور رونا آگیا۔
اس کو۔دیکھ کر تو مجھے اور گھن آرہی ہے بار بار وہی منظر۔ آخ۔۔
چکن تو کھالو۔
الف نے بھی بہلانا چاہا۔
چاول تو چمچ سے کھالو ۔
عزہ نے مشورہ دیا۔وہاں وہی مرغے کی ایک ٹانگ
واعظہ اطمینان سے کھانا کھارہی تھئ ایک دفعہ بھی اسے نہ پچکارا نا سمجھایا۔
جلدی کھانا کھائو اور گھر چلو۔
نور نے تاکید کی جس پر۔عمل کا انکا کوئی ارادہ نہیں تھا دریا کنارے کھاتے پیتے سبک رو ہوا سے محظوظ ہوتے کس کافر کا دل چاہے گا واپسی کا۔
ان سب نے تھک ہار کر اسے اسکے حال پر چھوڑا اور دسترخوان کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ خوب ڈٹ کر کھا کر حواس ٹھکانے پر آنا شروع ہوئے۔
چلو اب ذرا دریا کنارے چلیں۔ عروج نے کہا تو وہ سب ہاں میں ہاں ملاتی اٹھ کھڑی ہوئیں
میں کب سے کہہ رہی ہوں مجھے گھر جانا ہے اب تو کھا پی بھی لیا ہے اب تو گھر چلو۔
نور کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا
دیکھو جو ہونا تھا ہوگیا آج آخری دن ہے تمہارا کوریا میں صبح یہاں سے چلی جائو گی پھر جانے کب کوریا آنے کا موقع ملے ہم سے ملنے کا موقع ملے اٹھو انجوائے کرو۔
عروج نے کہا تو وہ چٹخ کر بولی
بھرپائی میں سیر و تفریح سے۔بس چلو واپس۔۔ بلکہ اگر اتنا تم لوگوں نے انجوائے کرنا تو میں بابا کو فون کرتی ہوں وہ مجھے پک کر لیں گے یہاں سے۔
وہ مصمم ارادہ کرتی اپنا بیگ ٹٹولنے لگی۔
اور سامان کا کیا ہوگا؟ وہ تو فلیٹ میں ہے نا۔
عزہ نے یاد کرانا چاہا۔ نور کے ہاتھ سست پڑے۔
ہاں یار انکل کو پریشان مت کرو یہی پلان ہے نا انکل رات کو تمہیں پک کر لیں گے ابھی ہمارے ساتھ شام کا لطف اٹھائو دیکھو کتنی اچھی ہوا۔۔۔
الف نے سمجھانا چاہا تو وہ مزید بگڑ گئ
میں جا رہی ہوں تم لوگ تو یہیں ہوں گے پھر آجانا یہاں کوئی اندازہ ہے میری کیا حالت ہو رہی ہے ایک منٹ مجھ سے یہاں بیٹھا نہیں جا رہا کوئی احساس
وہ پھر رونے لگ گئ
بس کرونور ایسی بھی کوئی بڑی بات نہیں ہوگئ۔
فاطمہ سے اب مزید چپ رہا نہیں جانا تھا۔
ایسی چھوٹئ موٹی چیزیں تو ہوتی رہتی ہیں زندگی میں۔۔
یہ یہ چھوٹی چیز ہے؟
نور بات کاٹ کر چلا اٹھئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصویریں بناتے انکو احساس نہ ہوا کہ انکے گرد اچھا خاصا جمگھٹا سا لگ گیا ہے۔ مچھلیوں کے ساتھ پوز بنواتے وہ کسی کی لائیو اسٹریمنگ کا حصہ بن چکی تھیں۔ تو کسی کی تصویر کا بیک گرائونڈ۔
وہ لڑکا ویڈیو بنا رہا ہے۔
عزہ نے احساس ہوتے ہی نور کے کان میں سرگوشی کی
نور نے پلٹ کر دیکھا تو وہ کوئی چندی آنکھوں والا لڑکا اپنے ہی وی لاگ میں مگن تھا۔ مچھلیوں کی ویڈیو بناتے بورڈ پڑھتے وہ شائد جب لانگ شاٹ لے رہا ہو تو وہ بھی آگئ ہوں گی۔
خیر ہے چہرہ تک تو ڈھکا ہوا ہے ہمارا۔
نور مطمئن تھئ۔ عروج اور الف الگ ایک دوسرے کی تصاویر بنانے میں مگن تھیں۔
اچھا اب ایک میری تصویر بھی لو۔
نور نے عزہ کو کیمرہ پکڑایا اور خود تھوڑا پرے ہو کر دیوار کے قریب لگے ایکوریم کے قریب پلر کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ اندرسیاہ مچھلیاں تھیں لمبی جسامت کی مچھلی سے ذیادہ چھپکلی سے مشابہت تھی۔
یہ پردہ پوش یہاں بھی پھر رہی ہیں خدا خیر کرے مچھلیاں خیریت سے رہیں۔
ہاں اتنا کچھ لپیٹا ہوا ہے خود پر اندر بم ہی چھپا رکھا ہوگا۔
ہونہہ۔
نیلی آنکھوں بھورے بالوں والی وہ خوب گوری انگریزنیں انکے حلیئے کا مزاق اڑاتی ٹھٹھے لگاتی اتنی اونچی آواز میں بولتی گزری تھیں کہ دونوں آسانی سے سن لیں۔
عزہ نے دانت کچکچائے۔
اپنی زبان سنبھال لو ورنہ تم سے لپٹ کر ہی پھٹوں گئ میں۔
عزہ کی جانب سے جواب انکے لیئے غیر متوقع تھا۔
وہاٹ ؟ تم دھمکی دے رہی ہو بم سے اڑانے کی۔۔ دماغ ٹھیک ہے
کہیں واقعی بامبر تو نہیں۔ ایک۔خوفزدہ بھی ہوگئ
ہاں یہاں ہے جیکٹ اندر سوسائیڈ جیکٹ ۔ٹھاہ۔
نور کیوں پیچھے رہتی سینہ ٹھونک کر بولی
سو سائڈ بامبر ہو تم؟ آئی ایس آئی ایس کی رکن ہو کیا تم
سیکیورٹئ
وہ دونوں حلق کے بل چلانے لگیں ۔
اگر واقعی امریکہ ہوتا تو سی آئی اے نمودار ہو چکی ہوتی انکے بم اور آئی ایس آئی ایس کی پکاریں مارتے دیکھ کر مگر ان انگریزنیوں کوکسی نے سنجیدہ نہیں لیا کہ وہاں کوئی انکی زبان سمجھتاہی نہیں لوگ انکی چیخ و پکار کو ناپسندیدگی اور ناگواری سے دیکھتے گزر رہے تھے۔
عزہ نے ہاتھ ہلا وش کیا انکو مزید جلایا
دفع کرو انہیں عزہ میری تصویر لو۔ یہ پیچھے سے ایکوریم بھی آئے۔ فرمائش ۔۔۔
نور نے بازو جھٹکے تبھی اسے اپنے سر پر سرسراہٹ سی ہوئی۔
ستون سے تو دور ہٹو۔ عزہ نے کہا پھر ساکت سی ہوگئ
سی دوز گرلز ۔
انکے شور پر انتظامیہ کا اہلکار انکی جانب بھاگا آیا تھا دونوں گٹ پٹ شکایت میں لگی تھیں۔
نور چھپکلی۔
کیمرہ نیچے کرکے وہ سرسراتی سی آواز میں بولی۔
چھوگیو
سیکیورٹی اہلکار نور کی۔جانب آرہا تھا
جلدی تصویر لو یقینا یہ ایکوریم سے دور ہٹنے کو کہے گا آکر۔
نور جھلائی۔
عزہ ایک قدم پیچھے ہوئی
نور چھپکلی۔
ہاں یہ کالی مچھلیاں عجیب سی ہی ہیں لمبی پتلی پانی پر تیرتی چھپکلی ہی لگ رہی۔ل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہہہہہ
سرسراہٹ اسکے سر سے کندھوں پر آئی یونہی اس نے گردن نیچے کی تو موٹی سی پیلی چھپکلی اسکے متوجہ ہونے پر گھبرا کر اسکے جسم کو ستون کا حصہ سمجھتے واپس اوپر کی جانب پلٹی
آخ۔ چیختے چلاتے وہ بری طرح اپنے ہاتھ جھٹک رہی تھی۔
اسکو ایکوریم سے فاصلہ رکھنے کی ہی ہدایت کرنے آیا اہلکار اسے ہراساں دیکھ کر مددکی۔نیت سے آگے بڑھا
مگر وہ موقع نہیں دے رہی تھی۔ اس سے ذیادہ گھبرائی چھپکلی اپنی زلزلے میں آئی نئی پناہ گاہ سے خوف کھاتی اس پر دوڑتی پھر رہی تھی نور نے بازو جھٹکا عزہ اسکی جانب لپکی چھپکلی خود ہی زمین پر جا گری۔
اب چھپکلی جانے کہاں گئ ایک دنیا اس چیخ چیخ کر بے حال ہوتی لڑکی کے پاس آن جمع ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا عبایا اتارو اور اسکارف بھئ۔
واعظہ سنجیدگی سے انکی بات کاٹ کر مخاطب ہوئی نور سے
کیوں؟
نور نے اچنبھے سے دیکھا
میں جو کہہ رہی ہوں۔ یہ ٹینٹ لگا ہوا ہے اپنا عبایا اور اسکارف اتارو اندر جا کر بیٹھو کھانا کھائو۔ ہم تب تک ساحل کا چکر لگا کر آتے ہیں۔
واعظہ نے کہا تو انکو بھی اسکی بات سمجھ آئی
تو اور کیا۔ چھپکلی تمہارے اوپر گری زیادہ سے زیادہ عبایا گندا ہوا اسے اتارو اپنا ماسک بھی اور آرام سے اندر بیٹھ کر کھانا کھائو۔ اتنا مسلئہ بنایا ہوا ہے تب سے۔
عروج نے بھی تائید کی تو عزہ نے بھی ہمت کی
اور کیا میرے ساتھ بیٹھ کر آئی ہو اس طرح تو میرا عبایا بھی گندا ہو گیا ہوگا اب کیا میں کھانا ہی نہ کھاتی اس چکر میں۔
مگر میرے ہاتھ ۔۔۔۔۔ نور نے کہا تو واعظہ نے بچ جانے والی منرل واٹر کی بوتل گہری سانس لیکر دسترخوان سے اٹھائی۔
اب نور کو کچھ اطمینان ہوا۔
اندر ٹینٹ میں بیٹھ کر اپنا عبایا اسکارف ماسک سب اتار کر شاپر میں ڈالا۔ منرل واٹر سے ہاتھ دھوئے اب ٹھنڈا کھانا کھانے بیٹھ گئ۔
واپسی پر کیا کروں گئ؟
نئی فکر۔
واعظہ نے اپنا اسکارف اتار کر گولا بنا کر اسکے منہ پر مارا۔
اسی سے منہ بھی ڈھک لینا اب خدا کا واسطہ ہے کھانا کھائو۔
وہ دانت کچکچا رہی تھی۔ اس نے اپنا کدو جیسا سر ہلایا اور کھانا شروع کر ہی دیا آخر۔
اسکو اطمینان سے اس جھونپڑے میں چھوڑ کر وہ سب گھومنے آگے بڑھیں تو نور بڑ بڑائی۔۔
یہ۔کام۔پہلے نہیں کرسکتی تھی۔ بھوک سے آنتیں پلٹ گئیں میری۔۔
دریا کنارے چہل قدمی کرتے فاطمہ نےبہت سنجیدگی سے پوچھا
یار عزہ نے تو عبایا پہنا تھا نور میرے بھی تو ساتھ بیٹھی تھی کپڑے تو میرے بھی۔۔۔۔۔
اسکا جملہ یہیں تک پہنچا تھا واعظہ نے اسکو سیدھا ہیڈ لاک لگایا تھا۔ساحل کنارے دو لڑکیاں ایک دوسرے کو پکڑ پکڑ کر دھو رہی تھیں
یار یہ دونوں مارپیٹ پر کیوں اتر آتی ہیں فورا۔
انکی لڑائی کی وجہ سے لاعلم عزہ نے تاسف سے عروج سے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکل باہر منے صوفے پر۔بیٹھے تھے یہ سب عروج کے کمرے میں گھسی تھیں۔
عروج عزہ واعظہ فاطمہ الف سب نے علیحدہ علیحدہ تحفے دیئے تھے اسے۔
بہت یاد آئوگئ نور۔ الف اس سے لپٹ کر بولی تو نور کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔ عروج بھئ آبدیدہ ہو کر ان دونوں سے لپٹ گئ۔ عزہ اور فاطمہ نے بھی تقلید کی۔ واعظہ گہری سانس بھر کر اپنا موبائل سنبھالنے لگی۔ ان سب نے لپٹ کر ایک چھوٹا موٹا گلوب ہی بنا لیا تھا۔ ہیومن گلوب۔ تو تصویر تو بنتی ہی تھی۔
میں بھئ۔ یہاں گزرا ایک ایک پل یاد گار ہے میرے لیئے۔
چند لمحے جذباتی ہوئے رہنے کے بعد نور نے خود کو سنبھالا۔
میری جانب سے تم سب کیلئے۔
اس نے ایک بڑا سا باکس اپنے بیڈ سے اٹھا کر انکے آگے بڑھایا۔
کیا ہے اس میں۔ الف کواشتیاق ہوا۔
جو بھئ ہے میرے جانے کے بعد کھول کر دیکھنا پلیز۔
اس نے لگے ہاتھوں تنبیہہ بھی کردی۔
اب زرا یہ سب رکھنے میں مدد بھی کروائو۔
اس نے اپنا اٹیچی بیڈ پر رکھا۔ سب کے تحفے رکھنے لگی تو اٹیچی نے مینار کھڑا کر دیا۔
عقل بڑی کہ بھینس۔
واعظہ آگے بڑھ کر اسے گھورنے لگی۔
کھولو سب گفٹس ابھی دیکھ کر لگے ہاتھوں شکریہ ادا کرو اور آرام سے رکھو انہیں۔
اسکے ڈانٹنے پر کھسیا سی گئی نور مگر سر ہلا کر کھولنے لگی۔
سب سے بڑا الف کا گفٹ تھا سب سے پہلے وہی کھولنے لگی تو الف سٹپٹا گئ۔
یہ تو پاکستان جا کر کھولنا نا۔ اسکے کہنے پر ان چاروں پانچوں نے گھور کر دیکھا۔
مطلب سرپرائز ہے نا۔
وہ سر کھجا کے رہ گئ۔
بڑا سا دودھ کے چھے ڈبوں والے کارٹن کو اس نے گفٹ ریپ سے بند کیا تھا۔
ہے تو ہلکا سا کیا ہے اس میں؟ نور نے اٹھا کر وزن کا اندازہ کرنا چاہا۔
تمہارا ہی کوئی دوپٹہ اس نے واپسی کی نیت سے پیک کر دیا ہوگا۔ عزہ نے کہا تو سوائے الف کے سب کھل کر ہنسی تھیں الف اسے گھور رہی تھی مگر عزہ حیران ہو کر پوچھ رہی تھی کیوں ہنس رہی ہو تم سب مزاق نہیں کر رہی میں سنجیدہ ہوں۔۔
خیر تحفہ کھلا اور نور کا منہ بھی۔
اتنے بڑے ڈبے میں ایک معصوم چھوٹا سا پیکٹ تھا جس میں ایک عدد خوبصورت سا برسیلیٹ تھا۔
وہ اس کے ساتھ ڈبہ تھا نہیں اور گھر سے یہی ڈبہ ملا مجھے۔ الف کھسیائی۔۔
نور گھور کر رہ گئ
بریسلٹ واقعی پیارا تھا۔
عروج نے پرفیوم دیا تھا ، فاطمہ نے کورین میک اپ کٹ جس پر نور نے جھٹ پوچھا تھا
اس میں حلال اجزا ء تھے نا؟ میں نے سنا ہے یہ لوگ میک اپ میں کیڑے مکوڑوں اور گھونگھوں کا استعمال بھی کرتے ہیں۔
صحیح سنا ہے رہنے دو میں خود استعمال کر لوں گی ان کیڑے مکوڑوں کو۔
حسب توقع فاطمہ نے اسکے ہاتھ سے کھینچ لینا چاہا۔
نہیں یہ تو تمہاری یاد دلائے گا اسکو سنبھال کر رکھوں گی۔
نور کے انداز میں شرارت تھئ۔
عزہ نے پھولدار پرنٹ کا خوبصورت اسکارف دیا تھا۔
واعظہ نے بے حد خوبصورت سا فوٹو فریم دیا تھا جس کے ساتھ ننھا سا لیمپ بھی لگا تھا۔
نکال کر بے ساختہ وائو نکلا تھا اسکے منہ سے پھر منہ بناکر دیکھنے لگی۔ کیونکہ فوٹو فریم میں اسکی ہی تصویر لگی تھی بڑے سے ماسک سے منہ ڈھکے ہوئے ہی۔
میرے پاس یہی اکیلی تصویر تھی تمہاری۔
اس نےکندھے اچکا دیئے تھے۔ فریم کو اس نے اسی کی پیکنگ میں رکھ کر احتیاط سے کپڑوں کے بیچ میں دبا دیا تھا تاکہ ٹوٹے نا۔ اب سب چیزیں آرام سے اسکے اٹیچی میں آگئ تھیں۔
ابیہا سے ملنا پہلی فرصت میں۔جب سے گئ ہے بے مروت نے ایک فون تک نہیں کیا۔عروج نے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
سہیلیوں کے جھرمٹ میں وہ اپنا اٹیچئ سنبھالتی کمرے سے نکلی تھی۔ ابا اسے دیکھتے ہی فورا کھڑے ہو گئے تھے۔
طوبی انکے پاس کھڑی ان سے ہی باتیں کر رہی تھی۔ فورا اسکی جانب ایک شاپنگ بیگ بڑھا دیا۔
یہ تمہارے لیئے۔
وہ کارڈیگن لائی تھی۔ گو اب یہاں موسم معتدل تھا مگر یہاں کے کارڈیگن وغیرہ جتنے گرم تھے اسکا بس نہیں تھا ایک آدھ بازار بھی اپنے ساتھ پیک کر کے لےجائے
خیر دوبارہ اٹیچی کھولی گئ کارڈیگن رکھا اٹیچی اب بند نہیں ہو رہا تھا۔
اسکو پہن لو ۔ واعظہ کا مشورہ تھا۔ پہلے تو اس نے یوں دیکھا جیسے اسکے سر پر سینگ اگ آئے ہو مگر پھر یہی کرنا پڑا۔
ہم ائیر پورٹ پر بھی چھوڑنے آئیں گے۔
دروازے سے نکلتے نکلتے بھی وہ سب لپٹ لپٹ رہی تھیں۔اسکے بابا پیار بھرے انداز میں انکی محبت کو دیکھ رہے تھے۔
نہیں بیٹا صبح سات بجے کی فلائیٹ ہے دبئی کی۔ آپ لوگ پریشان ہوگی بس یہیں سے خدا حافظ کہہ دو۔
انکل نے نرمی سے ٹوکا۔ صبح تو پیر کا دن تھا یقینا سب کو اپنے اپنے کام پر جانا ہوگا یہی سوچ کر انہوں نے سہولت سے منع کیا تھا۔ عزہ سر ہلاتے پھر ںور سے لپٹ گئ۔
اب پورا بیڈ میرا ہوگا۔
الف گلے ملتے سرگوشی سے باز نہ آئی۔ نور نے غصے سے گھورنا چاہا مگر اسکے کھلکھلاتے چہرے پر نم آنکھوں نے اسے غصہ کرنے نہ دیا۔
ہمیشہ اسکو گلہ رہا کہ یہ اکلوتی کیوں ہے مگر مجھے یقین ہے اتنی پیاری بہنیں ملنے کے بعد تمہارا شکوہ دور ہو گیا ہوگا۔
بابا نے کہا تو وہ آنکھیں پونچھ کر مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلانے لگی۔
اوکے خدا حافظ۔
سب سے بالمشافہ ملنے کے بعد اس نے ہاتھ ہلایا۔ اٹیچی گھسیٹتے وہ قصدا رخ موڑ گئ ۔جانے کہاں کہاں سے آنسو امڈ رہے تھے کہ آنکھیں خشک ہو ہی نہ پارہی تھیں۔ اسے لگا کہ مڑ کر دیکھا تو جانا مشکل ہوجائے گا۔ اسکے ساتھ قدم بڑھاتے انکل نے لمحہ بھر کو رک کر اسکی تیزی کو دیکھا پھر پلٹ کر آئے واعظہ کے پاس۔
تمہارا بہت بہت شکریہ بیٹا تم نے جو کیا نور کیلئے اسکا تو میں بدلہ نہیں چکا سکتا یہ ایک چھوٹا سا تحفہ رکھ لو۔
ارے انکل اسکی ضرورت نہیں۔اس نے صاف انکار کیا مگر انکل اسکی نا نا کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تحفہ تھما دیا۔ ان سب کے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ خدا حافظ کہہ کر نور کا بیگ سنبھالتے لفٹ کی جانب بڑھ گئے جہاں نور بٹن پر ہاتھ رکھے انکا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح وہی معمول کے مطابق تھی۔ بس ایک فرد کم تھا۔ عزہ اور الف پہلی دفعہ باتھ روم پہلے جانے کی بحث میں نہیں پڑیں۔ عروج کی آج سے نائیٹ تھی سو اس وقت اس نے اٹھنا نہیں تھا۔سو آج کئ لڑائی بس ان دونوں کے درمیان ہونی تھی۔ مگر آج جب عزہ باتھ روم جا رہی تھی الف نے حسب عادت چھلانگ مار کر راستہ نہیں روکا وہ پھر بھی رک گئ اور اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب انتہائی شرافت سے الف اسے جانے کا اشارہ کرتی کمرے سے باہر نکل گئ۔ اسکا ارادہ آج واعظہ کا اٹیچ باتھ استعمال کرنے کا تھا۔ فاطمہ ڈبل بیڈ پر خوب پھیل کر لیٹی تھی تو واعظہ اپنے بیڈ پر نیم دراز موبائل استعمال کرنے میں لگی تھی۔
سو جائو اب تو۔
اس نے جھلا کر ٹوکا یقینا وہ ابھی تک سوئی نہیں تھی واعظہ نے شائد سنا بھی نہیں اثر لینا دور کی بات۔
ابیہا عشنا اور اب نور فلیٹ خالی ہوتا جا رہا ہے
اسے اس وقت کی خاموشی کھلی تھئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروگرام ختم کرتے ہی وہ عجلت میں اپنا پرس سمیٹتی باہر نکل آئی۔ ژیہانگ نے اسکی عجلت کو محسوس بھی کیا کچھ کہنے کیلئے منہ بھی کھولا مگر چپ ہو رہا۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی عمارت سے باہر نکل آئی۔ شام کے دھندلکے رات کے اندھیروں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ خنک سرد ہوا جسم سے ٹکراتی تو جھر جھری سی آجاتی۔
یہاں کی گرمیاں سردیاں مزاق ہیں بس ۔ صحیح کہہ رہی تھی نور مجھے سارے پیسے گرمیوں کے کپڑوں کے برباد کرکے بھئ کوئی خاص فرق تو نہیں پڑا۔ سردیوں کے کپڑے بھی چل گئے آرام سے۔
وہ اپنے اپر کی زپ بند کرتی سوچ رہی تھی۔
پیدل چلتے اسٹاپ پر آکر اس نے یونہی موبائل نکال کر دیکھا تو تین مسڈ کالز پڑی تھیں۔ ژیہانگ۔۔۔
اس نے زیر لب دہرایا۔
تبھئ ایک بار پھر کال آنے لگی۔
اس کا موبائل سائیلنٹ تھا اس نے لمحہ بھر سوچا پھر اٹھا لیا۔
کہاں ہو؟ میں گاڑی لایا ہوں گھر ڈراپ کردیتا ہوں۔
اس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
آں وہ مجھے آج زرا جلدی تھی تو نکل آئی اب تو بس میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔۔ وہ آخر میں ہلکا پھلکا انداز اپنانے کو ہنس بھی دی۔
اچھا چلو ٹھیک ہے۔ خیریت سے جائو اپنا خیال رکھنا خدا حافظ۔
اس نے ذیادہ اصرار نہیں کیا۔ اسکے جواب کا انتظار کیئے بنا فون رکھ دیا وہ جو جواب دینے کیلئے منہ کھول ہی رہی تھی گہری سانس لیکر رہ گئ۔
بس آکر رکی تو وہ سست سے قدم اٹھاتی بس میں چڑھ گئ۔
سڑک کے دوسری طرف گاڑی میں بیٹھے ژیہانگ نے اسکی بس چلنے کے بعد ہی گاڑی اسٹارٹ کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد ۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔