Site icon Urduz Web Digest

Salam Korea Episode 20

Salam Korea
by Vaiza Zaidi

قسط20

New Urdu Web Travel Novel : Salam Korea Featuring Seoul Korea. Bookmark : urduz.com kuch acha perho Salam Korea is urdu fan fiction seoul korea based urdu web travel novel by desi kimchi. A story of Pakistani naive girl and a handsome korean guy

صبح سورج کی کرنیں اسکے منہ پر پڑیں تو اسکی آنکھ کھلی۔۔ اس نے کسمسا کر آنکھیں کھول دی تھیں۔۔ سیدھا لیٹے لیٹے اسکی گردن اکڑ گئ تھی۔۔ اس نے کراہ کر اپنی گردن سیدھی کی اور سہلانے لگا۔۔ سر کھجاتا سیدھا ہوا تو چونکا۔۔ وہ اپنے بیڈ سے نہیں اٹھا تھا۔۔ اس نے چونک کر برابر میں نگاہ کی۔ وہ ابھی بھی بے خبر سوئی تھی۔شاپر کو کسی ٹیڈی بئر کی طرح سینے سے لگائے بچوں کی طرح پرسکون اور گہری نیند سوتی بے حد معصوم سی لگ رہی تھی۔
وہ اسےیونہئ دیکھتا رہ گیا تھا۔۔
اسکا الارم بجا تھا آٹھ بج گئے تھے۔۔ وہ چونک کر ہڑ بڑا کر فون اٹھانے لگا۔ فورا بھی بند کرتے کرتے بھی اتنا شور مچ چکا تھا کہ اس سلیپنگ بیوٹی کی آنکھ کھل ہی گئ۔۔
کسمسا کر اس نے آنکھیں کھول دی تھیں۔۔
پہلی نظر ہایون پر ہی پڑی تھی۔۔
اس کی پوری آنکھیں کھل۔گئیں۔۔ارد گرد اجنبی ماحول دیکھا وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔
گڈ مارننگ۔۔ ہایون نے خوشگوار مسکراہٹ سے اسے وش کیا۔۔
میں گاڑی میں ہی سو گئی تھی۔۔ وہ حیران ہوئی۔
ہاں۔۔ ہایون اسکی حیرت پر ہنسا۔۔
تو اٹھا دیتے۔۔ وہ بولتی اب گاڑئ سے باہر جھانکتی جگہ پہچان رہی تھی۔۔ یہ گوارا والی بلڈنگ تو نہیں تھی۔۔
بہت کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس نے سادگی سے کہا تو وہ مڑ کر اسے دیکھنے لگ گئی۔۔
میں بڑبڑائی تو نہیں۔۔۔ اسکے لب نیم وا سے ہوئے۔۔اپنی گہری نیند سے اسے یہی خوف لاحق رہتا تھا
بےفکر رہو سمجھ نہیں آیا مجھے جو بھی کہا تم نے۔۔ وہ اسکی حیران نگاہوں کو محظوظ سے انداز میں دیکھ رہا تھا۔
شکر ہے۔ اس نے سکھ کا سانس لیا۔
یہ ویسے کونسی جگہ ہے؟ اس نے اچک اچک کر باہر دیکھا۔جدید طرز کا خاصا بڑا بنگلہ تھا۔۔
یہ میرا گھر ہے۔۔ چلو فریش ہو جائو۔ ناشتہ۔کر لو پھر تمہیں گھر چھوڑ آتا ہوں۔۔
وہ سہولت سے کہتا اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکال کر کھڑا ہو گیا۔۔
وہ انکار کرنا چاہتی تھی مگر اس نے موقع نہیں دیا تھا سو خاموشی سے خود بھی باہر نکل آئی۔۔
گومو وویو۔۔
اسے نکلتے دیکھ کر ہایون اسکی رہنمائی کو اسکے آگے چلنے لگا۔۔ جب اس نے جھک کر اسے کہا۔۔
وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگا تو اریزہ کو احساس ہوا۔۔
نہیں۔۔ آنیو۔۔ اسکی ار دو اور ہنگل آپس میں ٹکرا گئیں۔۔
معزرت۔۔ اس نے انگریزی کا سہارا لیا۔
میری وجہ سے تمہیں کافی تکلیف اٹھانی پڑی۔۔۔ وہ سوچ سوچ کے بول رہی تھئ ہایون نےاسکی بات اچک لی
گاڑی میں سوئے۔۔ زندگی میں پہلی بار اپنے ہی گھر کے گیراج میں۔
وہ سنجیدہ ہوا۔ اریزہ فق چہرے سے اسے دیکھنے لگی ۔۔
ایم سوری۔ وہ حقیقتا شرمندہ ہوئی۔۔
وہ سنجیدگی بھلا کر ہنس پڑا۔۔
جسٹ جوکنگ چلو اندر تو چلو۔
اریزہ نے سر ہلا کر اسکی تقلید کی۔
اسے اندازہ تو تھا ہایون امیر ہے مگر اتنا امیر۔۔
کیا عالیشان گھر تھا اسکا۔۔ تین ملازموں نے محض اندر لاونج تک آتے جھک کر سلام کیا تھا۔۔ قیمتی فرنیچر اور پچاس انچ ایل ای ڈی سے سجا لائونج دیدہ زیب فانوس بیچوں بیچ جھول رہا تھا۔۔
۔۔ کوریائی طرز تعمیر میں بنا گھر جو وسیع و عریض ہونے کے باوجود جگہ کے لحاظ سے شائد اسکے ہی۔گھر کے برابر ہوگا۔۔ مگر قیمت کے لحاظ سے ہر چیز انمول ہی لگ رہی تھی۔۔ وہ بہت شوق سے اسکا گھر دیکھ رہی تھئ۔۔ ہایون نے اسکی دلچسپی دیکھی تو اسے تعارف کراتا لایا یہ اس طرف کچن ہے یہ اس طرف لابی اور پچھلے لان کا دروازہ وہاں گلاس وال سے سوئمنگ پول بھی نظر آرہا تھا۔۔ سیڑھیاں چڑھ کر ایک جانب انی کا کمرہ تھا دوسری جانب اسکا وہ سر ہلا رہی تھی۔۔

Shop Amazon – Create an Amazon Baby Registry

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اسے مہمان کمرے میں لے آیا تھا۔۔
تم فریش ہو جائو۔۔ اسے دیکھتے خیال آیا۔۔ تو ایک منٹ رکنے کا کہہ کر پلٹ گیا۔۔
وہ یونہی کمرے کا جائزہ لینے لگی۔۔ کھلا ڈلا سا کمرہ تھا نہ فرنیچر کی زیادتی نہ کمی مناسب سا آرام دہ بیڈ ایک جانب صوفے بڑی بڑی فرنچ ونڈو جن پر سے بھاری پردے ہٹے تھے اور باریک پردوں سے چھن چھن کر آتی دھوپ کمرہ کو روشن کر رہی تھی۔۔
یہ لو۔۔ وہ ہینگ ہوا جوڑا لایا تھا۔
گرے اور پنک کنٹراسٹ لانگ اسکرٹ اور لانگ سا بلائوز ساتھ ہی میچنگ پرنٹڈ اسکارف ۔۔
یہ ۔۔ وہ حیران رہ گئ۔۔
نونا کے ہیں۔۔ اس نے مسکرا کر بتایا۔۔
شکریہ۔۔ اسکا شاور لینے کا دل کر تو رہا تھا۔۔
تم فریش ہو جائو میں بھی فریش ہو کر آتا ہوں۔۔ وہ کافی با ادب تھا۔۔
اریزہ اسکی میزبانی سے کافی متاثر ہوئی تھی۔۔
باتھ روم بھی کافی کھلا ڈلا تھا۔۔
ایک جانب باتھ ٹب شیمپو کنڈشنر نجانے کیا کیا پراڈکٹس۔۔ وہ رشک سے دیکھتی رہی۔۔
نہا کر تیار ہو کر باہر نکلی بال تولیہ سے خشک کیئے۔۔
زندگئ میں پہلی بار مغربی طرز کی لانگ اسکرٹ پہنی تھی سو خود کو آئنے میں گھوم گھوم کر دیکھ رہی تھی۔۔
اسکارف ۔۔ ہاتھ میں پکڑتے اسے ہنسی سی آئی۔۔
اسکا دوپٹہ کافی مشہور ہوتا جا رہا تھا۔۔ اس نے اپنے کپڑے تہہ کر کے ڈریسنگ ٹیبل سے ایک شاپر نکال کر اس میں رکھے جب اسکے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔۔
یس۔ اسے اندازہ تھا ہایون ہی ہوگا۔ اسکا اندازہ درست تھا۔۔
ہایون کی معیت میں وہ کچن میں چلی آئی۔۔
اسے بتا دو کیا کھانا۔۔ ملازمہ اسکے سامنے جھک کر مئودب ہوئی۔۔

میں خود بنا لوں ناشتہ؟۔۔ اس نے مڑ کر ہایون سے اجازت مانگی تھی۔۔

………………………………………………………..
ہایون نے ملازمہ کو بھیج دیا تھا۔۔ ملازمہ اسکی فرمائش کردہ سب اشیاء فراہم کر کے ہی گئ تھی۔
وہ تندہی سے آٹا گوندھ رہی تھی۔۔ ہایون کچن میں ہی موجود میز کرسی پر بیٹھا مٹھی پر تھوڑی جمائے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔۔
تم نے اس دن جو کھائی تھی نا وہ روٹی تھی۔ اسے ہم روٹی کہتے۔۔ آج اس پر گھی بھی ہوگا تو یہ بن جائے گا پراٹھا۔۔
وہ اسے بتاتئ بھئ جا رہی تھی۔۔
آملیٹ کھاتے ہو نا؟۔ اس نے مڑ کر پوچھا۔۔ ہایون نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
میرے ہاتھ کا کھا کے دکھائو تو مان جائوں۔۔ وہ کہتے ہوئے زور سے ہنسی تھی۔۔
کیوں؟۔۔ ہایون نے پوچھا تو وہ مزے سے بولی۔۔
دیکھنا۔۔ ویسے میں تمہارے لیئے علیحدہ آملیٹ بنائوں گی۔۔
اس نے ایک انڈے میں پیاز پنیر اور نمک مرچ ڈال۔کر پھینٹ دیا تھا۔ اب جلدی سے پراٹھے تل رہی تھی۔۔ اس نے ہاتھ پر پراٹھا بڑھا کرفرائی پان پر ڈالا۔تو ہایون کو لگا اس نے ہاتھ ہی رکھ دیا ۔۔
دیکھ کر۔۔ وہ بے ساختہ چلایا اور بھاگ کر قریب آیا۔
اریزہ زور سے ہنسی

دیکھنا میں ابھی اسے ہاتھ سے ہی پلٹ دوں گی۔۔
اس نے گردن اکڑائی پھر ہاتھ سے ہی پلٹ کر دکھایا۔۔
وہ ایک بڑے سے فرائینگ پین میں تل رہی تھی ۔۔
ہمارا توا ہوتا۔۔ یہاں تو شائد نہیں ہوتا ہوگا۔۔ اسکے ایسے کنارے نہیں ہوتے۔۔ یہاں آکر فرائینگ پین پر پراٹھے بنا بنا کر عادت ہو گئ ہے۔۔
اس نے اسکا پراٹھا بنا کر ایک طرف رکھ دیا۔۔
پھر اسکیلئے آملیٹ تل کر میز پر سجا کر رکھ دیا۔۔
شروع کرو گرم گرم میں تب تک اپنا بنا کر آتی۔ہوں۔۔
اس نے کہا تو ہایون نے اصاف منع کر دیا۔۔
تم بھی بنا لو اکٹھے ناشتہ کریں گے۔۔
ٹھنڈا اچھا نہیں لگے گا۔۔ اریزہ نے کہا تو وہ الٹا حیران ہو گیا۔۔
گرم کیسے کھایا جائے گا؟۔۔ اسکو ہاتھ سے کھانا ہے نا؟۔۔
اب بحث بے کار تھی اس نے بس سر ہلا دیا۔۔ ایک طرف ابلتے دودھ میں پتی ڈالی ایک طرف پراٹھا ۔۔ وہ پوری طرح مصروف تھی اسکی پھرتی ہایون کافی حیران سا دیکھ رہا تھا۔۔
اب بننے لگا تھا اریزہ کا آملیٹ۔۔
اس نے ٹماٹر پیاز کاٹ کر تیل میں گرم کیا۔۔ تھوڑی سے پیاز تل گئ تو ہری مرچ کاٹ کرچھڑک دی اب بھر بھر کر نمک مرچ ڈلا۔۔ ہایون کی آنکھیں پھیل کر بر صغیر کے لوگوں جیسی ہو گئیں۔۔
تھوڑی پنیر اوپر سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ڈالی گھی پہاز ٹماٹر گھی چھوڑ چکے تو اس نے علیحدہ سے اوپر انڈہ توڑ کر ڈال دیا۔۔ جب تھوڑا سا فرائی ہو گیا تب زردی توڑ دی۔۔
ہم اسکو پھینٹ کر ڈالتے جیسے ابھی تم نے میرے لیئے بنایا۔۔ وہ کہے بغیر نہ رہ سکا۔۔
ہم بھی۔۔ مگر یہ۔میری خاص ترکیب ہے
۔ اریزہ کھلکھلائی۔۔ انڈہ تیار ہو چکا تھا بھاپ اڑاتا انڈا پراٹھا۔۔ اس نے جلدی سے دو کپ چائے نکالی اور میز پر لا۔کر سجا دی۔۔
چلو۔۔ بسم اللہ۔ اس نے مصروف سے انداز میں کہتے بھاپ اڑاتے پراٹھے کا نوالہ توڑا اپنے گرم گرم آملیٹ سے نوالہ بنایا منہ میں رکھا ساتھ ہی چائے کا بھی گھونٹ بھر لیا۔۔
ہایون اسے دیکھ رہا تھا تو اس نے منہ چلاتے ہوئے اس سے آنکھوں سے اشارے سے پوچھا کیون نہیں کھا رہے۔۔
اس نے اریزہ کی دیکھا دیکھی نوالہ بنا کر منہ مین رکھ لیا۔۔ کافی جھجکتے ہوئے نوالہ منہ میں ڈالا تھا مگر اتنا برا کوئی تجربہ نہ ہوا۔۔ چائے کے نام پر جو دودھ پتی بنا کر دی تھی وہ بھی ذائقے میں بری نہیں تھی۔۔
اچھا ہے۔۔ اسے واقعی مزے کا لگا تھا۔۔
وہ مسکرا دی۔۔ وہ مگن سے انداز میں ناشتہ کر رہی تھی جب ہایون نے نوالہ توڑ کر ہاتھ بڑھا کر اسکی پلیٹ سے نوالہ بنا لیا۔۔
اریزہ چونکی پھر اپنی پلیٹ تھوڑا سا اسکی جانب کھسکا دی۔۔
اس نے نوالہ چبایا پھر اسکے منہ کے زاوئے دیکھنے والے تھے۔۔ اس نے چبا کر نگل ہی لیا مگر اسکی آنکھیں سرخ ہو گئیں بری طرح کھانسی لگ گئ۔۔
کین چھنا۔ اریزہ گھبرا کر خیریت پوچھنے لگی۔۔
۔ اسے بہت زور کا پھندا لگا تھا۔۔ وہ اٹھنا چاہ رہا تھا شائد فریج سے پانی لینے۔۔
بیٹھو میں پانی لاتی ہوں۔۔
وہ جلدی سے اٹھ گئ۔۔ گلاس بھر کر لائی اتنی ہی دیر میں اسکا کافی براحال ہو گیا تھا۔۔
اریزہ نے گلاس تھمایا تو ایک سانس میں پو را پی گیا تھا۔۔
اتنی مرچیں تم کیسے ۔۔ وہ کہہ کر پھر کھانسنے لگا۔۔
اسکے منہ میں ابھی بھی آگ سی لگی تھی۔۔
بیانئے۔۔ وہ شرمندہ ہوئی۔۔
مجھے میری امی بھی کافی ڈانٹتی ہیں اتنی ہری مرچ نہ کھایا کرو۔۔
ہایون ابھی بھی منہ کھول کھول کر ہانپ رہا تھا۔۔
ایک۔منٹ۔۔ اسے خیال آیا۔۔ جھٹ سے نوالہ توڑا
میز پر موجود پنیر سے نوالہ بنا کر اسکے منہ میں دے دیا۔
پنیر منہ میں گھلی تو مرچیلہ ذائقہ مندمل ہونا شروع ہوا۔۔
اسکے سرخ ہوتے چہرے کی رنگت بحال ہونا شروع ہوئی۔۔
گومو وویو۔۔ وہ کافی شکر گزار ہوا۔
اریزہ مسکرا دی۔۔
یہ ویسے کافی گھی والا ناشتہ نہیں؟۔۔ میرا مطلب ۔۔ وہ گڑ بڑایا۔۔ برا نہ مان جائے اسکے علاقے کی پسندیدہ خوراک کو ٹوکنا۔۔
تم لوگوں کی صحت اچھی ہوگی۔۔
اریزہ ہنس دی۔۔
ہم موٹے ہوتے۔۔ سب کے اتنے اتنے پیٹ باہر۔۔
اس نے مزاحیہ انداز میں کہا تو ہایون بھی ہنس پڑا۔۔
مگر یہ ہے بہت مزے کا یہ الگ بات مجھے آج جم میں زیادہ دیر کام کرنا پڑے گا۔۔ وہ آدھا پراٹھا کھا کر چھوڑ چکا تھا۔۔ اریزہ البتہ مزے لے کر پراٹھا ختم کر رہی تھی۔۔ اس نے بڑی تمیز سے انڈا سمیٹا تھا آخری نوالے میں۔۔
ہایون سے چائے بھی ختم نہیں ہو رہی تھی۔۔
چھوڑ دو اگر نہیں پی جا رہی۔۔ اریزہ نے اسکی مشکل سمجھ لی تھی
نہیں۔۔ وہ کھسیایا۔۔
پھر چائے ختم کر ہی لی۔۔
میں کمرے سے موبائل لے آئوں چارجنگ پر لگا ہے پھر چلتے ہیں۔۔ اس نے کہا تو اریزہ نے سر ہلا دیا۔۔ وہ موبائل لینے چلا گیا تو اس نے حسب عادت میز سمیٹنی شروع کر دی۔۔
جھوٹے برتن اٹھا کر سنک میں رکھ رہی تھئ جب کوئی ایکدم سے آکر اسکے پیچھے کچھ بولا۔۔
گنگشن۔۔
اسے پورے جملے میں بس یہی سمجھ آیا۔۔
وہ فورا پلٹی۔۔
وہ شائد ہایون کی امی تھیں۔۔ گوری چٹی لانگ سکرٹ اور بلائوز میں ملبوس اسے دیکھ کر حیرت سے گنگ ہی ہو گئیں۔۔
تم کون ہو۔۔وہ ابھی بھی ہنگل میں ہی بولی تھیں۔۔
اسلام و علیکم۔۔ اس نے سر کو ہلکا سا خم دے کر پر تپاک سلام جھاڑا۔۔
وہ اور حیران ہوئیں۔۔
اسے خیال آیا۔۔
آننیاگ ہاسے او۔
اس نے اب کوریائی طرز کا جھک کر سلام جھاڑا۔
میں ہایون کی کلاس فیلو ہوں۔ اریزہ نام ہے میرا۔۔
اس نے انکی الجھن دور کرنا چاہی۔۔
آپ شائد اسکی والدہ۔۔ وہ اندازہ لگا رہی تھی جب اسے عجیب سی نظر سے دیکھتے دیکھتے وہ یکدم پلٹ کر سیڑھیوں سے اتر کر انکے پاس آتے ہی ہایون کو گھورنا۔۔ شروع کر دیا تھا
مجھے آج تک شک ہی تھا تم لی جیانگ کے بیٹے ہو مگر آج تم نے ثابت کر ہی دیا۔۔ تیسری دنیا کی تیسرے درجے کی لڑکی ہی ملی تھی عیاشی کرنے کیلیئے اوپر سے اسے اٹھا کر گھر بھی لے آئے۔۔
وہ حلق کے بل چلائی تھیں۔۔ ہایون کا چہرہ ایکدم سرخ پڑا تھا۔۔
دفع ہو جائو ابھی اور اسی وقت اس لڑکی کو لے کر اور آئندہ جو بھی عیاشی کرنی ہو گھر کے باہر کرکے آنا سمجھے۔۔
اریزہ کو انکا ایک لفظ سمجھ نہیں آیا تھا مگر انکا طیش سے سرخ پڑا چہرہ اور زہر زہر لہجہ غماز تھا کہ وہ اسکی یہاں موجودگی پر ہی چراغ پا ہوئی ہیں۔۔
ہم جا ہی رہے ہیں۔۔ اس نے لب بھینچ کر کس طرح اپنے طیش پر قابو کیا تھا وہی جانتا تھا۔۔
آنٹی ہایون کی کوئی غلطی نہیں وہ بس میں۔۔ اس نے صفائی دینی چاہی وہ غصے سے بل کھاتی اسے مڑ کر گھورنے لگیں تو باقی الفاظ اسکے منہ ہی میں دم توڑ گئے زہن صفا چٹ ہو گیا۔۔
وہ شاید انگریزی سمجھ بھئ نہیں سکتی تھیں۔۔
چلو اریزہ۔۔ ہایون اسے کہتا تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکلتا چلا گیا۔۔
وہ سٹپٹا کر ہاتھ مسلتی دیکھتی رہ گئ۔۔ وہ خاتون اب بھی اسے شرر بار نظروں سے گھور رہی تھیں۔۔
خدا حافظ۔۔
اس نے کہہ کر بڑھنا چاہا۔۔ پھر خیال آیا۔۔مڑی۔
گڈ بائے۔۔
وہ یونہی کھڑی گھور رہی تھیں۔۔
آننیانگ واسے او۔۔
اب جاتے ہوئے اور کیا کہتے ہنگل میں یاد نہیں تھا سو سلام بھیج دیا۔۔ جوابا انہوں نے زور سے ہونہہ کی اور ہیل کی ٹک ٹک کرتی چلی گئیں۔۔
بنیادی غصہ ور تاثرات کافی ملتے جلتے میں پاکستانیوں اور کورین کے۔۔
اس نے با آواز بلند سوچا پھر خود بھی انکی طرح ہونہہ کرکے مڑ گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ تمہاری امی تھیں؟۔۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔
ہاں بھی نہیں بھی۔۔ وہ سوچ کر رہ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا
اس نے جواب نہیں دیا۔۔
بات سنو۔۔ اس نے اسٹیرنگ پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا۔۔
وہ شائد ناراض ہو گئی ہیں ۔۔ میں انکو بتانا چاہ رہی تھی مگر شائد انہیں انگریزی سمجھ نہیں آتی۔۔ ہم دونوں چل کر انکی غلط فہمی دور کر دیتے ہیں۔۔
اریزہ نے سادہ سے انداز میں کہا تھا مگر ہایون کا جیسے دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔۔
کیا اسے پتہ چل گیا ان محترمہ نے کیا کیا کہہ ڈالا ہے۔۔؟
کیسی غلط فہمی۔۔ اس نے دھڑ دھڑ کرتے دل سے پوچھا

جیسے وہ شائد برا مان گئی ہیں تم اپنی لڑکی کلاس فیلو کو صبح صبح گھر میں ناشتہ کرا رہے ہو۔۔ پاکستانی امی بھی ہوتیں تو ایسے ہی برا مان جاتیں ۔بلکہ شائد اگر یہاں کوئی پاکستانی امی ہوتیں تو طمانچہ بھی لگا دیتیں۔۔ اس نے خیال ظاہر کیا۔۔
میں انکو بتا دیتی ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔
ہایون کی جان میں جان آئی تھی۔۔ سو موڈ بحال ہوا شرارت سے اسکا جملہ اچک لیا۔۔
کہ ہم نے اکٹھے رات گزاری ہے گاڑی میں۔۔
کیا؟۔۔ وہ چیخی۔
واٹ ۔۔۔ نہیں میرا مطلب ہاں نہیں ایسا۔۔
وہ گھبرا گئ تھی۔۔ ہایون زور سے ہنس دیا۔۔
مزاق کر رہا تھا۔۔
اریزہ گھور کر رہ گئ۔۔
بھول جائو۔۔ وہ کوئی اور بات کر رہی تھیں۔۔
اس نے گہری سانس لےکر گاڑی اسٹارٹ کر دی تھی۔۔
……………………………………………………….

وہ اور ہایون سیدھا یونیورسٹی آئے تھے۔ گاڑی سے اتر کر دروازہ بند کرتے اسکی یونہی گاڑی کی آرام دہ نشست پر نگاہ پڑی تو دانت کچکچا کر بولی
تمہاری تو ۔ میری توبہ جو آئیندہ اس گاڑی میں بیٹھئ۔ اور دروازہ دھاڑ سے بند کردیا۔ گاڑی لاک کرکے گھوم کے آتے ہایون نے حیرت سے اسے دیکھا تو وہ بری طرح شرمندہ ہوگئ۔
معزرت۔ وہ غلطی۔ سے۔
اوہ تمہارا سامان۔
ہایون کو یاد آیا تو آگے بڑھ کر پچھلی نشست سے سودا اٹھانے لگا۔۔۔
اریزہ کو سخت خجالت محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے شاپر نکالے ضرور مگر اسکو پکڑائے نہیں۔
اسکو ہاسٹل لیکر جانا ہے آئو میں پہنچا دیتا ہوں۔
آنیا۔ اس نے فورا منع کیا۔۔
میں اٹھا لوں گی۔ ہلکے سے شاپر ہیں۔
اس نے اصرار کرنا چاہا مگر وہ سہولت سے منع کرکے آگے قدم بڑھانے لگا۔ اسے ناچار تقلید کرنی پڑی۔
اتنا ویل مینرڈ ہے یہ اتنے امیر خاندان کا چشم و چراغ ہے یا لے پالک بیٹا ہے۔ آنٹی تو اتنی بد لحاظ اور خرانٹ ہیں۔ یقینا اسکے بابا نیک انسان ہوں گے۔
اس لانبے بانس جیسے لڑکے کو دیکھتے اس نے یونہی سوچ لیا تھا۔ہایون نپے تلے قدم اٹھا رہا تھا۔ یقینا اس پر احسان کر رہا تھا۔ ورنہ یوں ۔۔۔
بس اب مجھے دے دو۔
اس نے ایکدم سے آگے آکر فیصلہ کن انداز میں کہا۔
ہایون ٹھٹک کر رکا
مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا یوں تم میرا سامان اٹھائو۔
اسکا انداز ایسا جارحانہ تھا کہ جیسے گن پوائنٹ پر اس سے سامان چھین لے گی۔ ہایون نے حیران ہوتے ہوئے شاپر اسکی جانب بڑھا دییئے۔
گوما وویو۔
اس نے ہلکا سا سر جھکا کے کوریائی انداز میں کہا تو ہایون کو بے ساختہ ہنسئ آگئ۔
آہش۔ مجھے لگا تھا اب تم یقینا میرے سر پر کچھ اٹھا کے دے ماروگئ۔
کیوں بھلا۔ اس کو برا لگا۔ ایک تو اتنی تمیز سے شکریہ ادا کیا۔
میں پاگل ہوں کیا جو۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی جب اسے کسی نے پکارلیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایڈون اور سالک سامنے سے آرہے تھے اسے دیکھا تو دوڑ کے قریب آئے۔
کہاں تھیں تم اریزہ؟ اتنے پریشان تھے ہم سب۔
دونوں کے چہرے سے پریشانی ہویدا تھی۔
کیوں کیا ہوا؟ وہ حیران ہوئی۔
گوارا آئی تھئ ہمارے پاس کہ تم کو یقینا اسکی روم میٹ نے کچھ کہہ دیا ہے اور تم غصے میں واپس آگئ ہو مگر سنتھیا بتارہی تھی تم ہاسٹل بھی واپس نہیں آئیں۔ کہاں رہ گئ تھیں ؟
ایڈون نے بتفصیل بتایا تو وہ سٹپٹا سی گئ۔
فون تک بند جا رہا ہے تمہارا ہم اتنے پریشان تھے کہ ابھی پولیس میں جانے والے تھے۔
سالک نے جتایا تو وہ اپنے بیگ میں فون ٹٹولنے لگی۔ فون کی شائد چارجنگ ختم ہوگئ تھئ یا ویسے ہی مسنگ کر رہا تھا۔
اریزہ کو بھوک لگی تھی سو کھانا لینے باہر آگئ تھی۔ میں نے کہا دیر تو ہو رہی ہے سو یونیورسٹی ہی آگئے سیدھا۔
ہایون نے اسکی مشکل آسان کی۔ دونوں چونکے۔پھر اس سے ہاتھ ملا کر مصافحہ بھی کر لیا۔
اوہ۔ گومو ووئو۔ ایڈون متشکر ہوا پھر اریزہ سے اردو میں بولا۔ مگر یار بتا کے تو جانا چاہیئے تھا گوارا بہت پریشان تھی تمہاری وجہ سے۔
ایڈون کی باہ پر تو وہ سچ مچ شرمندہ ہوگئ۔
یہ میری غلطی ہے میں گوارا سے بات کر لیتی ہوں۔
وہ شرمندہ لگ رہی تھی۔ ایڈون نے اسکے ہاتھ سے شاپر لے لیے۔
کیا لینا ایسا ضرورئ تھا۔ آئیندہ لسٹ بنا دیا کرنا ہم سامان پہنچا دیں گے ہاسٹل۔۔ یوں نکلنے کی ضرورت نہیں۔ ایڈون کا خیال رکھنے والا موڈ آن ہو چکا تھا۔ اب وہ اردو بول رہا تھا ہایون کو بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ سو چپ ہی رہا۔
چلو چلیں ۔ ایڈون سالک کہتے آگے ہوئے ہایون اور اریزہ نے بھی تقلید کئ۔۔ اریزہ کا اسکارف سبک ہوا سے اڑنے لگا تو وہ ذرا سا رکی۔ ہایون بھئ رکا ایک نظر ان دونوں پر ڈالی پھر اسکی جانب ذرا سا جھک کربھنچی آواز میں بولا
اب تمہاری فیمنسٹ ایگو دھاڑے نہیں مار رہی کہ لڑکا تمہارا سامان اٹھا رہا ہے۔
اریزہ نے سرعت سے سر اٹھایا وہ یقینا تپا تپا کھڑا تھا۔دانت کچکچا کر بولتا اسکی سفید رنگت میں سرخی سی گھل رہی تھی ۔ اب تک شائد پہلی بار اس کو مسکرائے بنا نارمل انسان جیسا دیکھا تو شرارت کی رگ پھڑک اٹھی۔ آواز دبا کر رازدارانہ انداز میں بولی
یہ پاکستانی لڑکے ہیں۔ بوجھ اٹھانے کے عادی ہیں کیونکہ ہم انکے ساتھ گدھے سا ہی سلوک کرتے ہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈورم میں واپس آکر وہ سامان ٹھکانے لگانے لگی۔ سنتھیا واش روم میں سے نکلی تو حیران رہ گئ۔
تم کہاں چلی گئ تھیں۔
وہ بے ساختہ پوچھ بیٹھئ۔ جوابا اریزہ اسے دیکھ کر ان دیکھا کرتی سیڑھیوں کی جانب بڑھی سنتھیا نے پیچھے سے آکر اسکو بانہوں میں بھر لیا۔
تم کل والی بات پر ناراض ہونا۔ آئی ایم سوری۔
اریزہ چپ ہی رہی۔
سنتھیا اسکی بچپن کی دوست تھی اسکی رگ رگ سے وہ واقف تھئ۔ اسکی غلطی نہ بھی ہو تو اریزہ کو منانے کیلئے وہ معافیاں مانگ سکتی تھی اب تو سچ مچ اس نے دل دکھا دیا تھا۔ اسکی بچپن کی دوستی یآد کرکے بھی اریزہ کیلئے اپنا غصہ فوری طور پر ختم کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
تم کل واپس ہاسٹل بھی نہیں آئیں۔ گوارا بتا رہی تھی تم اسکے فلیٹ سے بھی چلی گئیں تم کہاں تھیں۔ میں اتنا پریشان ہورہی تھی۔
وہ اس سےلگے لگے ہی بولے جا رہی تھی اریزہ نے خود کو چھڑایا
بے فکر رہو ایڈون کے ساتھ نہیں تھی میں۔
اسکا انداز سخت ہی تھا۔ سنتھیا گڑ مرنے والی ہوگئ۔۔
میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ میں پریشان ہوگئ تھی سچی۔ اریزہ مججے معاف کردو اگر میں نے تمہارا دل دکھا دیا ہے۔ مجھے آجکل خود سمجھ نہیں آرہی ہے مجھے کیا ہوگیا ہے۔ میں ایکدم سے غصے میں آجاتی ہوں۔ میرا بس نہیں چلتا۔۔ کچھ بھی کہہ جاتی ہوں۔ میں شائد پاگل ہوگئ ہوں۔
وہ کہتے کہتے ایکدم جزبات سے مغلوب ہو کر رو پڑی تھی۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی خود اپنی۔
اریزہ اسے چند لمحے دیکھتی رہی تو دل پگھل ہی گیا۔ آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔
…..

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولائی شروع ہوتے ہی کورین مختلف میلے منعقد ہونا شروع ہو گئے تھے۔ قدیمی ثقافتی ہفتے میں یون بن اور گوارا کی پرفارمنس تھی یونیورسٹی کی سطح پر ہی پروگرام تھا یون بن اور گوارا اپنے مخصوص کوریائی ثقافتی لباس میں ملبوس ڈرامے کی تیاری کر رہے تھے۔۔ کم سن اور اریزہ اسٹیج پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے انکی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔۔
شہزادی۔۔ تمہاری دنیا اور میری دنیا بہت الگ ہے۔۔
ہماری حیثیتیں ہمیں ایک ہونے نہیں دے گیں۔۔
یون بن محافظ کے لباس میں ملبوس تلوار زمیں پر ٹکائے کھڑا بے بسی سے کہہ رہا تھا۔۔
مگر میرا دل ٹوٹ کر جو بکھر رہا اسکا کیا۔۔ گوارا بلک اٹھی تھی۔۔
خود کو سنبھالیئے شہزادی صاحبہ۔۔
محافظ نے پشت کر لی تھی۔۔
گوارا اسکی پشت سے سر ٹکا کر بلک اٹھی۔۔
ہاش۔۔ یون بن کسمسا کر آگے ہوا۔۔
گوارا گد گدی ہو رہی ہے۔۔ اس نے کھلکھلا کر کہا تھا
گوارا نے اسکو جکڑ لیا اور گد گدی کرنے لگی۔۔ دونوں ہنس ہنس کر بے حال ہوگئے۔۔
تم دونوں اسٹیج پر بھی یہی کرنا۔۔ چوتھی بار دیکھ رہا یہیں آکر ہنس پڑتے ہو دونوں۔تم دونوں کو اس ڈرامے میں رکھا کس نے تم لوگ اسے بھئ ذلیل کرائوگے۔ کم سن اور اریزہ انکے بر عکس سنجیدگی سے چپس کھاتے دیکھ رہے تھے انہیں۔۔
انہیں غیر سنجیدہ دیکھ کر کم سن نے بلا لحاظ ڈانٹا۔۔
نہیں یہ انکے سامنے سنجیدگی سے کر رہا تھا یہ تم لوگوں کو دکھاتے ہوئے مستی کر رہا ہے۔ ہم نے اتنی ریہرسل کی ہے کہ سب رٹ گیا ہے ہمیں۔
گوارا نے اسکو دھپ لگاتے ہوئے صفائی دی۔۔
مجھے تو اس بکواس کہانی کو ڈرامہ ٹائز کرنا ہی فلاپ خیال لگ رہا۔۔ یون بن ہنسی روکتا منہ بناتا انکے پاس ہی آکر دھم سے بیٹھ گیا۔۔
گوارا کو بھی اندازہ ہوا اب مزید کوئی تیاری نہ ہو پائے گی سو اس نے بھی تقلید کی۔۔
تم دونوں بے حد پیارے لگ رہے ہو اس لباس میں۔۔
اریزہ کو انکی باتیں تو سمجھ نہ آئیں سو جو محسوس کیا کہہ دیا۔۔
تمہیں تو پسند آنا ہی ہے یہ لباس ۔۔ خود بھی تو شامیانے لپیٹے پھرتی ہو۔۔ گوارا نے ہنس کر چڑایا۔۔
اریزہ ناک پھلا کر رہ گئ۔۔
گوارا گرمی سے پاگل ہو رہی تھی۔۔ اپنے ہنبک کی لمبی گھیر دار آستین کو پنکھے کی طرح جھل۔رہی تھی۔۔
اریزہ نے حسب عادت موبائل میں درجہ حرارت دیکھا پھر گہری سانس لے کر اسے دیکھنے لگی۔۔
گوارا کے گال گلابی ہورہے تھے۔۔
ہم اے سی اتنے درجہ حرارت پر چلاتے ہیں۔۔
اس نے چوبیس درجہ حرارت والا صفحہ اسکے سامنے لہرایا۔۔ گوارا نے اسکا موبائل جھپٹا اور نیچے کرکے اسکے نشان زدہ شہر راولپنڈی کا درجہ حرارت دیکھا آرام سے پینتالیس ۔۔ اس نے آنکھیں پھاڑیں۔۔
یار یہ کیا ہے۔۔؟۔۔ جبھی تو اسے گرمی نہیں لگتی یہاں۔۔ وہ اب جل رہی تھی اریزہ سے۔۔
تم تصویریں لے رہی تھیں ابھی ہماری دکھائو۔
گوارا کو اب تصویریں دیکھنی تھیں۔ سو موبائل اسکی جانب بڑھا کر بولی۔
اریزہ نے گیلری نکال کر واپس تھما دیا ۔۔ اس نے اچھی خاصی تصویریں لی تھیں۔ وہ سب ایک ایک کرکےدیکھ رہی تھی
دکھائو۔۔ یون بن اور کم سن کو بھی دلچسپی ہوئی۔ تینوں اسکے موبائل پر جھکے تھے۔۔
اریزہ یونہی چپس کھاتی دیکھتی رہی۔۔ سوائپ کرتی گوارا ٹھٹکی تھئ سر اٹھا کر اسے دیکھا
یون بن نے ہنگل میں کچھ کہا گوارا کو اس نے مزے سے سر ہلا دیا۔۔ کم سن بھی شائد اسے کچھ کہہ رہا تھا۔۔ پھر اس نے اریزہ کو دیکھا ۔۔پھر واپس اپنی جگہ آبیٹھا۔۔
کیا ہوا۔ اریزہ نے پوچھا ابھی کم سن کچھ کہنے ہی لگا تھا
بس۔۔ یون بن نے گوارا کے ہاتھ سے موبائل چھین کر اریزہ کو تھما دیا ۔۔ وہ گھورتے ہوئے گوارا کو کچھ کہہ رہا تھا۔۔
گوارا نے جوابا منہ بنا کر کچھ جواب دیا۔۔
اریزہ نے نہ سمجھتے ہوئے موبائل دیکھا۔۔ اسکی دلہن بنی تصویر سامنے تھی۔۔ سنتھیا اسکے کندھے سے جھول رہی تھی۔۔
یہ تو دلہن کا اوتار ہے نا ؟۔۔ گوارا نے تائید چاہی۔۔
اریزہ نے گہری سانس لی اور اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
تم شادی شدہ ہو؟۔۔ گوارا حیرت سے چیخی
طلاق یافتہ بھی۔۔ اریزہ مسکرا دی۔۔
یون بن نے ٹوکا۔۔
تمہیں اسکی ذاتی زندگی سے کیا۔لینا دینا۔
کم سن بغور اریزہ کو دیکھ رہا تھا۔۔ وہ آرام سے آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔۔ انداز میں کوئی یاسیت مایوسی کا دکھ نہیں تھا۔۔
کون احمق تھا جس نے اتنی حسین لڑکی کو چھوڑ دیا۔۔
گوارا کہے بغیر نہ رہ۔سکی۔۔
اس بار اریزہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئ۔۔
میرا مطلب بڑی بڑی آنکھیں ستوان ناک ایسی صورت تو نایاب ہوتی ۔ اتنی پیاری ناک ۔۔۔ گوارا حسب عادت اسکی ناک کو دیکھتے کھو گئ۔۔
میری ایسی ناک کیوں نہیں بنائی ؟؟۔ اسے پھر شکوہ ہوا خدا سے۔
اریزہ ہنس دی۔۔
یہاں نایاب ہوگی پاکستان میں سب کے ایسے ہی خدو خال ہوتے۔۔
اسکا انداز بے نیاز تھا۔۔
تمہاری ناک تمہارے چہرے پر ٹھیک لگتی اپنے بے کار احساس کمتری سے نکلو۔۔ کم سن نے ڈانٹ ہی تو دیا اسے۔۔
ہایون کی گرل فرینڈ یاد تمہیں؟۔۔ یون بن کو خیال آیا۔۔
اتنی پیلی دھنسے ہوئے گالوں والی اسکی ناک اسکے چہرے پر ہاتھی کی سونڈھ جیسی لگتی اس کو دیکھو اور عبرت پکڑو بہت بہتر شکل ہے تمہاری۔۔ یون۔بن کو ہوپ یاد آئی۔۔
ہوپ؟۔ وہی تو ہے میری نئی کرائے دار۔۔ گوارا نے منہ بنایا۔۔
اس شکل کے ساتھ اسکے نخرے عروج پر ہیں۔۔ سیدھے منہ بات نہیں کرتی کچھ بھئ کہو تو بد مزاج لڑکی لڑنے لگتی۔۔ تبھئ تو مجھے اسی پر شک ہوا تھا کہ اس نے کچھ ایسا کہا جو اریزہ ناراض ہو کر چلی آئی فون بھئ نہیں اٹھا رہی مرا
گوارا تپی ہی تو بیٹھی تھی۔۔ شروع ہو گئ۔
ناحق تم نے اسے برا بھلا کہا بے چاری۔ اریزہ کو ترس بھی آرہا تھا۔
کم سن جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔
کیا ہوا۔۔ تینوں چونک کر اسے دیکھنے لگے۔۔
میں زرا ہاسٹل جا رہا کچھ کام۔۔ اس نے بمشکل بہانہ بنایا۔۔
ٹھیک ہے۔۔ اس نے سر ہلایا تو وہ لمبے ڈگ بھرتا نکل گیا۔۔
اسے کیا ہوا۔۔ گوارا نے حیرانی سے اسے جاتے دیکھا۔۔
یون بن بھی اٹھ کھڑا ہوا
میں بھی کپڑے تبدیل کر لوں بہت گرمی لگ رہی۔۔
میں بھی آتی ہوں۔ گوارا بھی فورا اٹھی۔۔
آخری بار تمہارے کہنے پر ایسے کسی بے کار ڈرامے میں حصہ لے رہا ہوں۔۔ یون بن نے کہا تو وہ چڑ ہی تو گئ۔۔
دفع ہو جائو نام۔کٹوا لو اپنا مجھ پر مزید احسان نہ دھرو۔۔
اس نے بھنا کر کہا یون بن کا کام ہو گیا تھا۔۔مزید چڑانے کو معصومیت سے بولا۔۔
اب تو کر لیا احسان ۔۔
مرو۔۔ دونوں لڑتے بھڑتے اسٹیج کے پیچھے سنگھار کمرے میں چلے گئے تھے۔۔
ہاش۔۔ اس نے چپس کا خالی پیک بیگ میں ڈالا اور خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جھوم کر شہزادی کی کہانی کو اپنے ہاتھوں اور بازوئوں کے اشاروں سے بیان کرنا شروع کیا۔۔
وہ آج جینز اور گلابی لمبا سا کرتا پہنے تھی۔ گلابی دوپٹہ لہرا لہرا کر وہ کبھی شہزادی کے ڈرے سہمے انداز کو بیان کرتی کبھی محافظ کے اکھڑ کھردرے رویے کو۔
جب محافظ اسکے بازو میں دم تو ڑ گیا تو وہ جیسے تھک کر گری اور سسک اٹھی۔۔
اتنی دیر گھوم گھوم کر ناچنے سے اسکی سانس پھول گئ تھئ۔۔ کتنی ہی دیر وہ بیٹھی سانس بحال کرتی رہی۔۔ یونہی سر اٹھایا تو دوبارہ سانس رک گئ۔۔
ایڈون سالک شاہزیب ہایون کم سن سب اسکے سامنے شائقین کی نشستوں کے پاس کھڑے تھے۔۔
کم سن نے فورا تالیاں بجا کر اسکی حوصلہ افزائی کی تھی۔۔ ہایون نے دز دیدہ نظروں سے ان تینوں کو دیکھا جنہوں نے تالیاں بجانے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔ اس نے اپنے بھی اٹھتے ہاتھ نیچے کر لیئے۔۔ اریزہ کا چہرہ سرخ پڑ گیا تھا۔۔
یہ رقص کی کونسی قسم تھی؟۔۔ کوئی کہانی بیان کر رہی تھیں نا تم دکھی سی۔۔ ہیرو مر گیا۔۔ مجھے بس اتنا سمجھ آیا۔۔
کم سن انکے بر عکس کافی خوشگوار انداز میں اسکے پاس اسٹیج پر چڑھ آیا۔۔ اسکے سامنے اکڑوں بیٹھ کر وہ بولا۔
کتھک۔۔ اس نے دھیرے سے جواب دیا۔۔ اسکی اتنی مہارت تھی کہ وہ سمجھ گیا پوری کہانی۔۔ اسے کافی حیرت ہوئی۔۔
ہمم ۔۔ کم سن نے سر ہلایا۔۔ اور اپنا ہاتھ بڑھایا تھا اسے سہارا دے کر اٹھنے کو۔۔
اریزہ نے ایک نظر اسکی پھیلی ہتھیلی کو دیکھا پھر زمین کا سہارا لیتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ کمر پر ایک کندھے سے گزار کر باندھا دوپٹہ کھول کر سینے پر پھیلاتے وہ خود کو درجنوں بار کوس چکی تھی۔۔
لعنت ہی ہو تم پر اریزہ۔۔ بس نہ چلا تو بڑبڑا بھی گئ۔۔
کم سن نے حیرت سے اسکے محتاط انداز کو دیکھا
پھر خود بھی اٹھ کھڑا ہوا۔باقی تینون بھی اوپر چڑھ آیئے۔۔
تم ویسے اچھا ڈانس کر لیتی ہو۔۔ سالک نے سادہ سے انداز میں کہا تھا۔۔ اریزہ نے ہونٹ بھینچ لیئے۔۔ وہ تو خود کو اکیلا سمجھ کر شروع ہو گئی تھی۔۔
کیا خبر تھی سب سر پر آن دھمکیں گے۔۔
ایڈون کو اندازہ تھا تعریف اسے مزید چلو بھر پانی میں ڈبو دے گی۔۔سو اپنے توصیفی الفاظ منہ میں ہی دبا کر بات بدل گیا۔
ہم تینوں اس کلچرل ویک میں پاکستانی جھنڈا لہرائیں گے اور ترانہ گائیں گے۔۔ یہ دیکھو لائٹس لائے ہیں ہم
ایڈون نے اسے شاپر تھمایا۔ ہری اور سفید امتزاج کی وہ لائٹ اسٹکس بے حد خوبصورت تھیں۔ وہ بہت شوق سے دیکھ رہی تھی۔۔
کسٹمائز ہیں پانچ بنوائیں ہیں ہم نے کہہ کر ان لائٹس میں سے چاند تارا بنتا ۔۔ سالک نے خالی دیوار پر روشنی کا چاند تارے والا سایہ سا دکھایا۔
کتنے پیسے ہوئے؟
اریزہ نے فورا پوچھا تو ایڈون چڑ گیا
بس پیسے دینے لگ جائو تم بہت مہنگی ہیں یہ کروڑ روپے کی۔۔۔
اسکے چڑنے کی وجہ سمجھ نہ آسکی اسے۔ سالک اور شاہزیب نے بھئ ایڈون کے غصے کو حیرانی سے دیکھا۔
انکےبدلے ہم سب کو ڈنر کرادینا۔
سالک نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
اس میں جھنڈا تو ہے نہیں۔۔ اس نے سب چیزیں احتیاط سے واپس ڈالتے ہوئے پوچھا۔۔
۔ شاہزیب کے ہاتھ میں بھی شاپر تھا۔۔
ہم جھنڈے بھئ پانچ لائے ہیں یہ رہا تمہارا پرچم اور بیج ۔۔ شاہزیب نے ایک بڑا سا شاپر لا کر اسکو تھمایا۔۔ اس نے شاپر ایڈون کو واپس کرتے ہوئے شاہزیب کا دیا شاپر بڑے شوق سے کھولا۔۔ کمسن اور ہایون بہت حیرت سے انکے جوش و خروش کو دیکھ رہے تھے۔۔
تم لوگ جھنڈے کو دیکھ کر اتنے پرجوش کیوں ہو؟
ہایون کہے بغیر نہ رہ سکا۔۔
ہم بہت احترام کرتے ہیں جھنڈے کا کبھی پاکستان آکر دیکھنا۔۔ بلکہ اگست میں دیکھنا ہم یہاں بھئ اپنا قومی اس سے بھی ذیادہ جوش و خروش سے منائیں گے۔
سالک نے فخریہ انداز میں کہا۔۔ اریزہ مگن چیزیں دیکھ رہی تھی۔۔
کئی گز کا بڑا سا پرچم ساتھ ایک چھوٹا سا کیس تھا۔۔ اس نے کھولا تو نہایت خوبصورت ایر رنگ تھے جن پر چاند اور ستارہ لڑیوں میں جھول رہا تھا۔۔ ایک چھوٹا سا پرچم کا ہی بیج بھی تھا۔۔ اسکے نیچے لڑی میں پاکستان کے انگریزی حروف تہجی جھول رہے تھے۔۔
اف بہت خوبصورت۔۔ وہ فدا ہی تو ہو گئی تھی۔۔
تھینک یو سو مچ۔۔
یہ شاہزیب کا آیڈیا تھا۔۔ آرڈر دے کر بنوایا ہے۔۔
ایڈون نے کہا تو وہ متاثر سے انداز میں بولی۔۔
واہ ۔۔۔۔ کمال۔۔۔
کمال؟۔۔ ہایون نے فورا پوچھا۔۔
کمال مطلب۔۔۔ ایڈون سوچ میں پڑا۔۔
اریزہ نے پرچم نکال کر دوپٹے کے انداز میں اوڑھا۔۔ یہ دوپٹے کے حساب سے تھوڑا بڑا تھا۔ وہ کھولتے کھولتے تھوڑا پیچھے ہوئی۔۔ پرچم پیر میں آنے لگا پیر نہ لگ جائے وہ ایکدم پیچھے ہو کر لہرائی۔ ایڈون ساتھ ہی کھڑا تھا۔۔
ارے۔۔ اسکے دیکھتے دیکھتے ہی وہ دھپ سے گر کر جیسے فرش پر بیٹھ ہی گئ۔۔
گرے گی یہ ۔۔ پکڑو۔
کم سن کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔
ہایون بھی بات بھول کر ایک قدم آگے ہوا۔ جیسے سہارا دینا چاہتا ہو مگر وہ جب تک آگے ہوا حادثہ رونما ہو چکا تھا۔۔
کین چھنا ۔۔ اس نے فورا پوچھا۔۔
ہاں۔۔ اریزہ نے سر ہلایا۔۔ خفت زدہ سی ہوئی تو تھی ۔مگر سنبھل کر خود ہی کھڑی ہوئی اور پرچم چوم کر تہہ کرنے لگی۔۔
ایڈون سیدھا کھڑا رہا تھا۔۔
میں قریب کھڑا ہوتا تو تمہیں گرنے نہ دیتا۔۔ کم سن نے حیرت سے ایڈون کو دیکھتے ہوئے اریزہ سے کہا تھا۔۔
کوئی بات نہیں مجھے چوٹ نہیں لگی۔۔
اریزہ بے نیازی سے کہتی شاپر سمیٹ رہی تھی۔۔ پرچم چوم کر شاپر میں ڈال دیا۔
یہ کیا کر رہی ہو۔۔ ہایون نے کہا تو وہ مسکرا دی۔۔
پرچم پیر کے نیچے آگیا تھا۔۔ اسکی تحقیر ہو گئ تھی۔ ہم اسے بہت مقدس چیز کی طرح برتتے ہیں اسلیئے
چوما۔۔
اس نے تفصیل سے بتایا۔۔ ان دونوں نے بے یقینی سے لڑکوں کو دیکھا۔۔ تو انہوں نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔۔
عجیب۔۔ دونوں کے منہ سے اکٹھے نکلا۔۔
یہ لوگ ہنس دیئے۔۔
اریزہ تم وقت پر آنا۔۔ ہم سب مل کر ترانہ گائیں گے۔۔ سداکو بھی ہمارا ساتھ دےگا۔۔
سالک نے کہا تو اسے خوشگوار حیرت ہوئی
واقعی۔۔؟۔۔
ٹھیک ہے۔۔ اسے کیا اعتراض ہونا تھا۔۔
اریزہ معزرت کرتی اسٹیج سے اتر کر گوارا کے پاس ڈریسنگ روم میں چلی گئ۔۔
اریزہ کو کتھک آتا ہے مجھے اندازہ نہیں تھا۔۔ شاہزیب کا مخاطب ایڈون تھا اس نے اردو میں ہی کہا تھا۔۔
تمہیں کیوں اندازہ ہوتا ؟۔۔ وہ ابھی بھی کر اسی لیئے رہی تھی کہ اکیلی تھی اسے اندازہ نہیں تھا ہم اچانک آجائیں گے۔۔ کتنا شرمندہ ہوگئ تھی۔۔ سالک نے فورا ٹوکا۔
اریزہ کو اچھا نہیں لگا تھا نا ہمارا اسے ڈانس کرتے دیکھ لینا۔ ہایون نے اچانک ہی ان سے پوچھا تھا۔۔
تینوں چونک گئے تھے۔۔
ہاں۔۔ آیڈون نے گہری سانس لیکر کہا۔۔
کیوں؟۔ کم سن مزید حیران ہوا۔۔
وہ لڑکیوں کا ڈانس کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا اسلیئے۔ وہ اکیلے کر رہی تھی اسے اندازہ نہیں تھا ہم آجائیں گے۔۔ ایڈون نے انکو بتایا۔۔
اس میں کیا برائی ہے۔۔ کم سن حیران ہوا۔۔
بس کچھ لوگ پسند نہیں کرتے۔۔ سالک نے سرسری سے انداز میں کہا۔۔
ہاتھ پکڑنا بھی؟۔ کم سن نے غور سے ایڈون کو دیکھا۔۔
ایڈون جو جھک کر شاپر ایک طرف رکھ رہا تھا چونکا۔۔
میں نے ابھی اریزہ کے آگے ہاتھ بڑھایا اسے سہارا دینے کو اس نے نہیں تھاما ابھی وہ گر ہی گئ تم اسے تھام کر سہارا دے سکتے تھے مگر تم سیدھے کھڑے رہے مجھے لگا تھا اس نے میرے اجنبی ہونے کی وجہ سے میری مدد نہ لی مگر تم تو اسکے ہم وطن ہو۔۔
کم سن کو بہت حیرت ہوئی تھی سو پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔۔
پاکستانی لڑکیاں ہاتھ نہیں ملاتیں۔۔ لڑکوں سے۔۔ اگر ایڈون اسے تھام لیتا تو اسے گرنے سے زیادہ برا لگتا اسلیئے ایڈون نے اسے تھامنے کی کوشش نہیں کی۔۔
ایڈون نے جواب دینے کیلیئے منہ کھولا ہی تھا کہ شاہزیب نے فورا کہا۔۔
مگر سنتھیا تو ہاتھ ملا لیتی میں نے اس سے کئی بار ہاتھ ملایا ہے۔۔ کم سن نے جھٹلایا۔ ایڈون نے ہونٹ بھینچ لیئے۔۔ شاہزیب بھی کچھ کہتے کہتے رک گیا۔۔
سنتھیا اسکارف بھی نہیں لیتی۔۔ ہایون کو یاد آیا۔۔
سنتھیا۔۔ کرسچن ہے۔۔ ایڈون نے گہری سانس لی
اریزہ مسلمان ہے۔۔ یہاں مزہب کا فرق آگیا ہے۔۔
اسلام میں ایسی معمول کی بہت سی چیزیں ہیں جو منع ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
ہایون اور کم سن بے حد حیران ہوئے تھے۔۔

۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفید لانگ ٹاپ اور جینز ساتھ سفید ہی لانگ شرگ اپنے گھنے سیاہ بال کھول رکھے تھے۔۔ خراماں خرامان چل کر آتی سنتھیا۔۔ شاہزیب اور سالک نے سفید شلوار قمیص پہنی تھی ساتھ سبز کیپ پہن رکھی تھی انکا ارادہ ہرے پٹکے پہننے کا تھا مگر وہ مل نہ سکے تھے سو سبز کیپ پہن رکھی تھی اور کیپ کے شیڈ پر جھنڈے کا چھوٹا سا بیج لگایا ہوا تھا۔ انکے حلیے سجاوٹ طلبا کو متوجہ کر رہی تھی کئی طلبا ان سے جھنڈیاں اور بیج لینے آپہنچے تھے تو کئی انکی تصویریں بنا رہے تھے ایک ہلچل سی تھی۔۔ ایڈون نے خود تو سفید جینز پہنی تھی مگر اسکو ہری سادی سی ٹی شرٹ مل گئ تھی اسکو ہری کیپ نہیں مل سکی تھی سو سفید کیپ پہنےتھا۔ اایڈون اسے آتے دیکھ کر فورا اسکی جانب متوجہ ہوا مسکرا کر اپنی چیزیں چھوڑ چھاڑ خود بھی اسکی جانب بڑھنے کو تھا جب اسے سالک کی آواز آئئ
یار کتنا پر وقار انداز ہے اسکا۔۔ یار واقعی اسکی شخصیت میں کوئی بات ہے۔۔
اس نے چونک کر مڑ کردیکھا تھا مگر سالک کا مرکز نگاہ کوئی اور ہی تھا اس نے اسکی نظروں کے تعقب میں دیکھا تو نظر پلٹنا بھول گئ۔۔
سفید لانگ فراک ٹاپ اور ٹایٹس کے ساتھ اس نے بڑا سا جھنڈا دوپٹے کی طرح اوڑھ رکھا تھا بالوں کی ڈھیلی سی پونی ہوا سے اڑتا اسکا فلک کانوں میں جھولتے ستارہ و ہلال سفید سادا سی سینڈل میں اسکا اٹھتا ہر قدم نپا تلا تھا۔
اسکا ٹاپ۔۔ اس نے پلٹ کر سنتھیا پر نظر ڈالی تھی۔
وہ بالکل ویسا ہی ٹاپ پہنے تھی۔۔ مگر سنتھیا جتنی مغربی طرز کی بجائے دوپٹے سے وہ بالکل پاکستانی کسی فراک اور تنگ پاجامے میں ملبوس لگ رہی تھی۔۔
سنتھیا خود کو مرکز نگاہ جان کر جہاں اترائی تھی وہیں اسکی نظروں کا زاویہ بدلتے دیکھ کر تھم سی گئ ۔۔
پلٹ کر دیکھا تو کینہ توز نظریں خود بخود نرم پڑ گئیں۔۔
سفید ٹاپ میں جہاں اریزہ کی گوری رنگت دمک اٹھی تھی وہاں اسی لباس میں اسکا رنگ مزید دھیما پڑ گیا تھا ۔۔ اس نے استہزائیہ سا مسکرا کر اپنا سانولا ہاتھ دیکھا۔۔ تو میں کچھ بھی کر لوں کچھ بھی۔۔ میں تمہارئ برابری نہیں کر سکتی۔۔ تلخ سوچ نے زہر خند مسکراہٹ چہرے پر سجا دی۔
اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایڈون درمیانی فاصلہ ختم کرتا عین اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔
اسکو دیکھتے عجیب سا احساس ہوا تھا۔۔
رنگ روپ ثانوی چیز ہے تاثرات چہرے کو خوبصورت یا بد صورت بناتے ہیں۔۔ اس زہر خند سی مسکراہٹ میں اریزہ بھی شائد اسے زہر ہی لگتی۔ ایڈون نے اسے گہری نظر دیکھ کر سوچا تھا
جی ہائے کہہ رہی تھی تمہاری طبیعت خراب تھی؟۔۔ کیا ہوا تھا؟۔۔ اسکی دو دن بعد ملاقات ہو رہی تھی وہ متفکر تھا۔۔
سزا ملی تھی۔۔ تھوڑا جلدی مل۔گئ ۔۔ وہ مسکرا کر کہتی اسے ایک نظر دیکھ کر شاہزیب وغیرہ کی جانب بڑھ گئ۔۔
اے۔۔ کیا مطلب ہوا اس بات کا۔۔ سنتھیا۔۔ وہ حیران ہو کر اسے پکار رہا تھا اس نے یکسر نظر انداز کیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔
………………………………………………..
کم سن یون بن گوارا جی ہائے ہایون اپنی نشستوں سے پاکستانی جھنڈے انکے لیئے لہرا رہے تھے۔ دیگر طلبا انکو دلچسپی سے پاکستان پاکستان والا نغمہ گاتے دیکھ رہے تھے۔۔
ایڈون سالک شاہزیب اورسداکو ادب سے اسٹیج پر کھڑے گا رہے تھے۔۔ ہایون تو انکی ویڈیو بھی بنا رہا تھا۔۔
ایڈون کی آواز سب سے اچھی تھئ۔ مصرعہ وہی اٹھاتا تھا بعد میں یہ سب کورس گاتے گانے کے بعد ۔۔ سب نے سر کو ہلکا سا خم دے کر اٹھایا تو وہ سب پر جوش انداز میں تالیاں بجانے لگے تھے۔۔
ہایون نے ویڈیو بند کر دی۔ انکے لیئے فراخ دلی سے سب نے تالیاں بجائی تھیں۔ وہ سب خوشی سے سرخ چہرے لیئے انکے پاس آئے تھے۔ گوارا اور یون بن کی پرفارمنس ہو چکی تھی۔ سو وہ سب باہر نکل آئے۔ اب مزید طلباء کی پرفارمنس میں انکو دلچسپی نہ تھی۔

گوارا اور یون بن نے اپنی پرفارمنس کی خوشی میں کیک منگوایا تھا۔ مگر ان لوگوں کو سرپرائز دینے کیلئے آرڈر دے کر جھنڈے کی شکل کا بڑا سا کیک بنوایا تھا۔آدھا کورین جھنڈا آدھے کیک پر پاکستانی۔۔۔۔
اریزہ پاکستان تو تم لوگ کھاتے ہی رہتے ہوگے اب کوریا کھاکے بتائو کیسا لگا ۔ گوارا حصے کر رہی تھی کیک کا ٹکڑا بڑھاتے ہنس کر بولی
گوارا کے کہنے پر وہ پانچوں مسکرا کر رہ گئے۔ خاصا ذو معنی جملہ تھا۔۔اریزہ بھی اسکی مدد کرانے لگی۔
پاکستانی جھنڈے کا ٹکڑا سب سے پہلے اس نے سداکو کو دے کر شکریہ ادا کیا جوابا وہ خوشدلی سے مکمل جاپانی انداز میں تقریبا آدھا جھک سا گیا۔۔ سب طلبا بہت شوق سے کیک کو تبرک۔کی طرح وصول رہے تھے
۔۔ کوئی رہ۔تو نہیں گیا۔۔ کیک کا بس ایک۔چوتھائی حصہ بچا تھا جب اریزہ نے اٹھ کر آواز لگائی
سب خوش گپیوں میں مگن تھے کسی نے سنا بھی تو جواب نہ دیا وہ کندھے اچکا کر ایک چھوٹا سا ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈالنے لگی تھی کہ ہایون سامنے آگیا۔۔
کوریا والا حصہ بھی تھوڑا سا بچا تھا تھوڑا سا پاکستان کا جھنڈا۔۔ ان لوگوں نے بہت تمیز سے کھایا تھا۔ سب نے کھا بھی لیا اور بچا بھی تھا۔
مجھے بھئ پاکستان کھانا ہے۔۔ اسکئ مخصوص مسکراہٹ۔۔
وہ سر ہلا کر ٹکڑا میز پر رکھ کر مزید حصے کرنے لگی۔۔
تم نے اس مغربی طرز کے لباس کو بھی روائتی رنگ دے دیا۔۔ وہ ہنس کر کہہ رہا تھا۔
اریزہ مسکرا دی۔۔
اریزہ خود کو نمایاں کرنا جانتی ہے۔۔
سنتھیا نے خاصے طنزیہ انداز میں انکی گفتگو میں حصہ لیا۔۔
اریزہ مڑ کر حیرت سے اسکی شکل دیکھنے لگی۔
ہر کسی کو یہ ہنر نہیں آتا۔ ۔۔۔ سک نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تھا۔ اریزہ ایک چپ سو سکھ کے تحت اسے مکمل نظر انداز کر دینا چاہتی تھی۔۔جانے کیا مسلئہ تھا اسکے ساتھ۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔
بہت اچھی لگ رہی ہو اریزہ۔۔ یہ ایڈون تھا۔۔ سنتھیا کو چبا چبا کر کچھ بولتے دیکھ کر سیدھا انکے پاس آگیا تھا۔۔
اریزہ یوں ہوگئی جیسے سنا ہی نہیں۔۔
اریزہ ایڈون نے تعریف کی ہے تمہاری شکریہ ہی کہہ دو۔۔ سنتھیا نے جیسے اسے جان کے چڑایا۔۔
اریزہ نے نظر بھر اسے دیکھا۔۔ اسکے دیکھنے پر سنتھیا چند لمحے تو تمسخر بھرے انداز میں دیکھتی رہی پھر جب لگا کہ مزید اریزہ کی آنکھوں میں جھانکا تو شائد رو دے گی تو خود کو سنبھالتی زور سے اریزہ سے ٹکرا کر کندھا مارتی آگے بڑھ گئ۔
ایڈون نے ہونٹ بھینچ کر اسکی حرکت کو دیکھا اور پکارتا ہوا اسکے پیچھے نکل گیا۔۔
اریزہ جھٹکے کےلیئے تیار نہیں تھی بری طرح لڑکھڑا کر گرنے لگی خود کو بچانے کو ہاتھ بڑھایا تو ہایون کے بازو کو ہی دبوچ بیٹھی۔۔
سوری۔۔ سنبھلتے ہی اس نے معزرت کی
آنیا۔۔۔ اٹس اوکے۔۔ وہ بھی ناگواری سے ان کو ہی جاتے دیکھ رہا تھا سنبھل کر فورا اسکی شرمندگی دور کی۔

……………………….۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب اس مشہور پاکستانی ریستوران آئے تھے۔۔
چکن کڑاہی کباب بریانی تکے دل بھر کر منگوائے تھے۔۔ یہ ٹریٹ پاکستانیوں کی جانب سے تھی۔۔ سنتھیا کے علاوہ سب موجود تھے سداکو بھی۔۔
وہ سب خوب شوق سے پاکستانی کھانے کھا رہے تھے۔۔ واپسی پر لڑکوں کا ڈرنک کا پروگرام بن گیا اریزہ کافی تھک چکی تھی مگر گوارا کا موڈ نہیں تھا ابھی واپسی کا۔۔
دریا کنارے چل کر پیتے ہیں۔۔ کیا خیال ہے۔۔ یہ یون بن نے کہا تھا۔۔
سب کو اسکا خیال کافی پسند آیا تھا۔۔
سب گاڑی میں بھر کر جب دریا کنارے پہنچے تو رات کے گیارہ ہو چکے تھے۔۔
ہوا میں خنکی آچکی تھی۔۔ کوریائی باشندوں نے تو شراب کے کین خریدے تھے یہ پاکستانی کوک پر گزارا کر رہے تھے یہاں تک کے ایڈون نے بھی کوک ہی لی۔۔
شاہزیب اور سالک نے اسے کہا بھی شراب لے لو۔۔ مگر اس نے نظر انداز کر دیا۔۔
اسے سنتھیا کی کافی فکر ہو رہی تھی دوپہر میں وہ اسکا ہاتھ جھٹک کر ہاسٹل چلی گئی اسکا فون بھی نہیں اٹھا رہی تھی۔۔ اریزہ سے ہاسٹل جا کر اسکی خیریت پوچھنے کا کہنے کی اب ہمت نہیں تھی۔۔ جی ہائے بھی ہاسٹل نہیں گئ تھی۔۔یہ سب یہاں پارٹی کرنے آئے تھے۔۔ہانگان پارکس اس دریا کے کنارے خاص کر پکنک کے ارادے سے آئے لوگوں کیلئے ایک بہترین تحفہ تھے۔ سب سیول باسی بدلتے موسموں کا مزا لینے یہاں بڑے شوق سے رات گئے پارٹی کرتے ہیں۔دریا کنارہ صاف شفاف ریت ایک جانب چہل قدمی کے رستے دوسری جانب بنچز۔۔ انکا ارادہ رات گئے ہی اٹھنے کا تھا۔ کم سن کو شوق اٹھا تھا پانی میں پائوں لٹکا کر بیٹھنے کا سالک نے بھی اسکی دیکھا دیکھی پائوں ڈال لیئے مگر تھوڑی ہی دیر میں اسکی بس ہو گئ۔۔
کیا ہوا۔۔ کم سن نے پوچھا تو وہ منہ بنا کر بولا۔۔
اتنا ٹھنڈا پانی ہے۔۔ ہوا بھی خنک ہے تم لوگوں کو ٹھنڈ نہیں لگتی یا گینڈے کی کھال لگوا کر آئے ہو اوپر سے۔۔
اس نے اتنا چڑ کر کہا تھا کہ ان سب نے کھل کر قہقہہ لگایا۔۔
ابھی سے ٹھنڈ۔۔ آگے جب برف پڑے گی تو کیا کروگے؟۔۔ ہایون نے مزاق اڑایا تھا۔۔
کم ازکم جیکٹ وغیرہ تو پہنی ہوگی۔۔ اس نے کان سے مکھی اڑائی۔۔
تھوڑی سی پی۔لو اگر زیادہ ٹھنڈ لگ رہی۔۔ کم سن نے خلوص سے اپنا کین اسکی جانب بڑھایا۔۔
نہ بابا۔ وہ اچھل کر پیچھے ہٹا جیسے اسے بچھو پکڑانے کی کو شش کی گئ ہو۔۔
گوارااور جی ہائے لڑکوں کے پاس بیٹھی ڈرنک کر رہی تھیں ۔ یہ لوگ کوئی کورین کھیل کھیل رہے تھے۔ انتاکشری کی طرح کا۔ لفظ سے لفظ جوڑتے تھے اور غیر متعلقہ لفظ بولنے والے کو ماتھے پر انگوٹھے اور انگلی ملا کر ٹھونگا مارتے۔ لڑکے لڑکی کی تشخیص نہ تھی۔ بنا لحاظ جی ہائے کو مار رہے تھے۔ جوابا وہ بھی پوری جان لگا کر مارتی سب کی پیشانیاں سرخ ہو چکی تھی۔ وہ ہمیشہ یسو پنجو کھیلتے بھی اس مار کٹائی سے سخت اکتاتی تھئ۔ اسکے حصے کی مار بھی صارم کو کھانی پڑتی تھئ۔ کزنز میں۔ اسے انہیں دیکھتے اپنے خاندان کی تقریبات یاد آنے لگیں جب سب کزنز مل کر یسو پنجو یا انتاکشری کھیلتے تھے مگر پٹائی میں کبھی انکے میل کزنز نے لڑکیوں کو مارا نہیں تھا۔ انکو سزا کے طور پر چائے بنانے بھیج دیتے تھے اور تب جو بنا لحاظ لڑکے ایک دوسرے کی ٹھکائی کرتے تھے وہ الگ ہی شغل ہوتا تھا۔ ۔وہ تھوڑی دیر انکے پاس بیٹھ کر بور ہو کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ گاڑیاں کافی دور پارک کرنی پڑی تھیں اتنی دور جا کر اکیلے بیٹھنا گاڑی میں مناسب نہیں لگا اس کو ہلکی ہلکی ٹھنڈ لگ رہی تھی۔۔ اس نے موبائل میں درجہ حرارت دیکھا تو آنکھ کچھ زیادہ ہی بڑی کھل گئ۔۔ چودہ بلکہ اپ ڈیٹ کیا تو گیارہ ڈگری ہی رہ گیا۔۔
میرے خدا۔۔ ستمبر تک تو قلفی جمنے لگے گی مجھے سردیوں کی شاپنگ کر لینی چاہیئے۔۔
اس نے سوچا۔۔ ابھی کیا کروں۔۔ اس نے پہلے سوچا جا کر واپس لڑکوں کے پاس بیٹھ جائے مگر انکے قہقہے اور مستی کی آوازیں سن کر ارادہ بدل کر مخالف سمت آہستہ آہستہ ٹہلنے لگی۔۔
ہایون کی گھونٹ بھرتے اس پر نظر پڑی تھی۔۔
سرسراتے ہیولے کے کپڑے ہی کپڑے نظر آرہے تھے۔۔ اس نے جھنڈے کو شال کی طرح لپیٹا ہوا تھا۔۔ آہستہ آہستہ چلتی وہ اکیلی اندھیرے میں گم ہو رہی تھی۔
اسے دیکھتا وہ بھی اسی اندھیرے میں گم ہورہا تھا۔۔
ہے نا۔۔ یون بن نے کندھے پر ہاتھ مار کر اس سے تائید چاہی تھی۔۔ وہ سر ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔
میں آتا ہوں۔۔ اس نے اخلاقا بتایا تھا مگر وہ سب اپنی خوش گپیوں میں مگن تھے ۔۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اریزہ کے پاس چلا آیا۔۔
کیا ہوا ٹھنڈ لگ رہی ہے؟۔ اس نے پوچھا تو وہ چونک کر کھسیا سی گئ۔۔
ہاں۔۔
ہایون ہنسا۔۔ کین سے گھونٹ بھرنے لگا پھر خیال آیا تو کین جھک کر زمین پر رکھ دیا۔۔ سیدھا ہوتے ہوئے جانے کیا خیال آیا اسے چھیڑنے کی غرض سے بولا۔۔
اگر سردیاں ہوتیں تو میں جیکٹ اتار کردیتا مگر میں نے بس یہ شرٹ ہی پہنی ہوئی ہے۔۔ کہو تو اتار کر دوں۔۔
اسکا انداز شرارت بھرا تھا۔۔
خبر دار۔۔ اس نے فورا وارننگ دی۔۔
مجھے زہر لگتے وہ لڑکے جو بنا شرٹ گھومتے۔۔
ہایون نے کھل کر قہقہہ لگایا۔۔
میں برا نہیں لگتا۔۔ سکس پیکس ہیں میرے بہت سمارٹ ہوں میں۔۔
لگتا تو نہیں۔۔ اس نے منہ بنا کر اسے غور سے دیکھا۔۔
لمبا سا دبلا سا ہایون۔۔ سکس پیک والے تو اتنے موٹے مسلز والے ہوتے۔۔
اسے غور سے خود کو دیکھتا پایا تو شرارت سے شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔۔
یقین نہیں آرہا دکھاتا ہوں۔۔ اس نے واقعی اریزہ کے نا نا کرنے کے باوجود شرٹ کے بٹن کھول دیئے۔۔
یہ دیکھو۔۔ اسکی بظاہر دبلی جسامت کے برعکس اسکے پیٹ کے مسلز صحیح اکڑے ہوئے تھے۔۔ اس نے اپنی بنیان تھوڑی اونچی کر کے باقاعدہ مسلز سانس پھلا کر دکھایا۔۔
اریزہ بس دیکھ کر رہ گئ۔۔
یقین آیا۔۔ وہ بچوں کے سے اشتیاق سے پوچھ رہا تھا۔۔
ہاں۔۔ اسے بے ساختہ صارم پھر یاد آیا تھا۔۔ شروع شروع میں جم لگا کر روز اس سے تصدیق کرواتا تھا دیکھو میرے پیکس بنے یا نہیں۔۔ اور اسکے بن بھی گئے تھے تب بھی وہ نفی میں سر ہلا کر اسے چڑاتی تھی۔۔ صارم کی بات یاد کرکے اسکے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئ۔۔ بالکل اسی طرح کرتا تھا۔۔
مرتی ہیں لڑکیاں میری جسامت پر۔۔ وہ مزید اترایا۔۔
کوئی نہیں۔۔بالکل بھی متاثرکن نہیں ہو تم۔۔ اسے تو عادت تھی چڑانے کی۔۔ مسکراہٹ دبا کر لاپروا بن گئ۔۔
ہاہ۔۔ وہ حیران رہ گیا۔۔
وہ لاپروا بنی دوبارہ آہستہ آہستہ ٹہلتی آگے بڑھی۔۔
وہ بھی حیرت کے دریا مین غوطہ زن اسکے پاس آیا۔۔
ہے ۔۔ ابھی کوئی اور لڑکی ہوتی تو مر جاتی مجھ پر میری کشش میرا حسن تمہیں قدر نہیں۔۔
وہ مایوس ہوا۔۔
شرٹ لیس لڑکے کو دیکھ کر پاکستانی لڑکیاں نہیں مرنے لگتیں۔۔ وہاں چھے مہینے ہم لڑکوں کو ایسے ہی دیکھتی ہیں۔۔
اس نے کانوں سے مکھی اڑائی۔۔
ہایون کی حیرانی دو چند ہوگئ
مطلب؟۔۔ مجھے تو لگا تو مسلم قدامت پسند ہوتے۔۔ وہ جھجک کر بولا۔۔
اریزہ گڑبڑائی۔۔
ہاں مگر وہاں گرمی پڑتی تو مرد اکثر گھروں میں بنا قمیض گھومتے گرمی میں۔۔ مگر سب نہیں۔۔
وہ۔کھسیا سی گئ تھی روانی میں منہ سے نکلا تھا۔۔۔
پڑھے لکھے گھروں میں ایسا کم ہوتا۔۔ جیسے میرا گھر میرے پاپا صارم وغیرہ کبھی کم کپڑوں میں نہیں گھومتے۔۔ اسکے زہن کے پردے پرشارٹس پہنے گھومتا صارم لہرایا۔ اس نے آنکھ میچ لی۔۔
کیا سوچتا ہوگا۔۔ پاکستانی ننگے پھرتے۔۔
اسے خیال ہی آیا تھا مگر ہایون نے سوچ بھی لیا اور تصدیق چاہی۔
اوہ گرمی بہت پڑتی ہے وہاں۔۔ ۔۔ گرمی میں تو پھر خواتین کا لباس بھی ویسا ہی ہوتا ہوگا نا۔۔
نہیں۔۔ وہ چیخ پڑی۔۔
حد ہے۔۔ یہ اس نے نفی میں سر ہلاتے اردو میں کہا تھا۔۔ وہ ہایون کو گھور رہی تھی۔۔ جو اسکے ایکدم چلانے پر حیران دیکھ رہا تھا۔۔
ایسا ہی لباس ہوتا گرمی میں بھی۔۔ اس نے اپنے لباس کی جانب اشارہ کر کے بتایا۔۔ پھر خیال آیا جینز اور ٹاپ پہنے کھڑی ہے۔۔
میں جو لمبے دوپٹے اور لمبی قمیض پہنے ہوتی نا جیسے۔۔ وہ سوچ میں پڑی۔۔
جیسے میں یونیورسٹی تیار ہوکر آتی نا ویسا
سمجھ گیا۔۔ اس نے اسکی مشکل دور کی۔۔
مگر میرا مطلب یہاں بھی لڑکیاں گرمیوں میں فراک شارٹ اسکرٹ وغیرہ پہنتی ہیں مگر جب آگے سردیاں آئیں گی تو انکا لباس سردیوں کی مناسبت سے ہوگا۔۔ تم لوگ گرمی میں بھی اتنا لپیٹ کر میرا مطلب برا مت ماننا مگر گرمی نہیں لگتی کم از کم یہ پردہ۔۔ ۔۔ ا سے مراد اسکی دوپٹہ تھی۔۔
اوپر سے نہ اوڑھو۔۔
ہمیں عادت ہے۔۔ اریزہ نے مختصر جواب دیا اور مسکرا دی۔۔
مجھے تو یہاں اتنا کچھ پہن کر بھی ٹھنڈ لگ رہی۔۔۔ اس نے دور بیٹھی گوارا اور جی ہائے کو دیکھا دونوں ہی گھٹنوں تک کی فراک جیسے ٹاپ میں ملبوس تھیں۔

اسے جھر جھری لیتے دیکھ کر ہایون مسکرا یا۔۔
گاڑی میں چل کر بیٹھو گی؟۔۔
اس نے پوچھا تو وہ ایکدم ہاں کہتے کہتے رکی۔۔ سب باہر بیٹھے تھے ایویں کیا سوچتے۔۔ وہ ہایون کے ساتھ گاڑی میں اکیلی بیٹھی تھی۔۔
آنیو۔۔ اس نے فورا انکار کیا۔۔ حالانکہ وہ کوریا میں تھی ان سب نے دھیان بھی نہیں دینا تھا اس پر۔۔
تیزتیز واک کر لو جسم گرم ہو جائے گا۔ آجائو۔۔
ہایون کہہ کر مڑا اور واقعی تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔۔ ہیں۔۔ وہ پہلے تو نا سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگی پھر خیال آیا توخود بھی رفتار بڑھا لی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڑھ بجے کے قریب وہ لوگ اپارٹمنٹ میں پہنچی تھیں۔۔ہاسٹل تو بند ہوچکا تھا۔
اف بہت تھک گئ سیدھا بستر پر گروں گی۔۔
گوارا با آواز بلند کہتی داخل۔ہوئی۔۔
شش۔۔ اس نے ٹوکا مگر گوارا نے سنا نہیں۔۔ اپارٹمنٹ میں ملگجا اندھیرا تھا۔۔ یعنی ہوپ سو چکی تھی۔۔
اف ویسے مزا بڑا آیا ہے نا اریزہ۔۔ گوارا اسی انداز میں اونچی آواز میں کہتی کمرے میں داخل ہوئی اور بتی بھی جلا دی۔۔اسکے پیچھے پیچھے آتی وہ ٹوکنے کو منہ کھول کر ہی رہ گئ۔۔
روشنی کے جھماکے ہوپ نیند سے جانے کیا سمجھی یکدم اٹھ بیٹھی۔۔ جی ہائے نے اسکی شکل دیکھی تو گوارا کو ایک کندھے پر جما دی
شرم کرو۔
تم جنوبی کوریائی لوگوں میں تمیز نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی کیا۔ جانور میں بھئ دوسرے جانور کیلئے خیال ہوتا ہے۔۔
ہوپ بھنا کر بولی۔
گوارا اور اریزہ ایک دوسرے کو نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھ کر رہ گئیں۔۔ جی ہائے نے ہونٹ بھینچے۔۔
گوارا کی غلطی ہے اسے برا کہو پورے جنوبی کوریا کو کیوں لپیٹ میں لے لیا۔۔
کیا کہہ رہی ہے یہ؟۔۔ اریزہ نے پوچھا تو وہ کندھے اچکا گئ
مجھے کیا پتہ۔۔
ہوپ کینہ توز نظروں سے گھور رہی تھئ۔۔

کین چھنا؟۔۔ گوارا نے پوچھا مگر وہ بال سمیٹتی اٹھنے لگی۔
اریزہ نے سائڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس بھر کر اسکی جانب بڑھایا۔۔
معزرت گوارا کو یقینا دھیان نہیں رہا کہ تم سورہی ہو۔۔
ہوپ نے اسکی معزرت کو خاصے اچنبھے سے دیکھا مگر گلاس پکڑلیا۔
شکریہ۔۔ وہ سنبھل کر اب انگریزی میں بولی۔۔
تم چینی زبان بھی جانتی ہو۔۔ بیڈ پر بیٹھ کر سینڈل اتارتی ہوئی گوارا نے سرسری سے انداز میں پوچھا تھا۔۔ ہوپ سن سی رہ گئ
ہیں۔۔ یہ چینی زبان تھی؟۔۔ اریزہ بھی حیران ہوئی۔۔ جی ہائے نے ناک چڑھائئ۔
ہاں ورنہ ابھئ گھمسان کی جنگ چھڑتی۔۔
جبھی میں کہوں تھوڑا بہت تو سمجھ آجاتی ہنگل یہ ابھی کیا کہہ رہی تھی ایک لفظ پلے نہیں پڑا۔۔
ہوپ ساکت سی بیٹھی تھی۔۔
اب انکا کیا ردعمل ہوگا۔۔ اسکا دل سوکھے پتے کی طرح لرزرہا تھا۔۔
نارتھ کورین ڈیفیکٹر۔ شمالی کوریائی محاجر ۔ یا اسپائی۔جاسوس جو بھی سمجھیں گی نفرت ہی کریںگی۔۔ اس نے سوچا۔۔
تم لوگ کتنے با صلاحیت ہوتے ہو کتنی زبانیں جانتے ایک میں احمق آج تک انگریزی بھی اچھی طرح سیکھ نہیں پائی۔۔ اریزہ نے منہ بنایا۔۔ وہ کمرے کے اکلوتے صوفے پر گر کر سینڈل اتارتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔
ہم سے مراد تمہاری کس سے ہے؟۔۔
شمالی کوریائی سے یا جنوبی کوریائی سے؟۔۔ جی ہائے بڑے جتانے والے انداز میں ایک نظر ہوپ کو دیکھ کر اس سے مخاطب ہوئی۔۔
مطلب۔۔ اریزہ سمجھی نہیں۔۔
مطلب اگر جنوبی کوریا کی بات کرو تو ہم بس ہنگل جانتے انگریزی اتنی جانتے کہ کام آجائے بس وہ بھی اگر ہم پر زبردستی تدریس میں شامل کرکے نہ سکھائی جائے تو اتنی بھی نہیں آتی۔۔ ہاں شمالی کوریا کی بات الگ یہ لوگ اپنے ملک سے بھاگ کر ارد گرد کے ممالک جا پہنچتے وہاں کی زبان سیکھ جاتے تو نکالے جاتے پھر بھاگتے تو کسی نئے ملک جاتے وہاں کی زبان سیکھنی پڑتی ۔۔ گوارا کا انداز تھوڑا عجیب تھا۔۔ ہوپ کے چہرے کے زاویئے بن بگڑ رہے تھے۔۔
تم شمالی کوریائی ہو؟۔۔ اریزہ بس اتنا ہی سمجھی ہوپ سے پوچھا۔۔ ہوپ نے چونک کر اسکی شکل دیکھی صرف تجسس تھا۔۔ یونہی پوچھ رہی تھی شائد وہ۔۔ اسے ناگواری کا شائبہ تک نہ ہوا۔۔
ظاہر ہے۔۔ اسکی شکل دیکھ کر نہیں لگتا۔۔
جواب جی ہائے کی جانب سے آیا تھا
کیا ہے میری شکل کو؟۔۔ ہوپ تپ کر اسکی جانب مڑ
پیلی پھٹک ہے رخسار کی ہڈیاں نکلی ہوئی ہیں۔۔ جیسے فاقہ کشی کرتی رہی ہوآنکھیں الگ بے رونق ہیں۔۔ گوارا کا انداز سادہ سا تھا
گوارا۔۔ اریزہ نے حیرت سے ٹوکا یہ کس طرح بات کر رہی تھی۔۔
گوارا مطمئن سے انداز میں بازو سینے پر لپیٹ کر جواب طلب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
شکر ہے جیسی بھی ہوں اپنی شکل پر مطمئن ہوں۔۔ اپنی غلافی آنکھوں چپٹی ناک پر مجھے کوئی شرمندگی نہیں کہ پلاسٹک سرجری کا سوچ لوں
تم۔۔ گوارا کے تن بدن میں آگ لگ گئ تھی۔۔
تمہاری جرات۔۔ وہ دانت پیس رہی تھی
سچ کڑوا لگا نا۔۔ مجھے اپنے شمالی کوریائی باشندے ہونے پر اپنے مخصوص نقوش پر فخر ہے ۔میں محنت کش مھر خود دار لڑکی ہوں اپنی زندگی کی جنگ خود لڑنے والی بہادر میں تم جیسی باربی سے کہیں بہتر ہوں جس کو دنیا کی ہر نعمت میسر ہے مگر اسکی لالچ ختم نہیں ہورہی۔۔ جو اپنی شکل اپنے وطن اپنے نقوش پر فخر کرنے کی بجائے ان پر شرمندہ ہے۔۔
بکواس بند کرو تم۔۔ گوارا تپ کر اس پر ہاتھ اٹھانے بڑھی۔۔
کیا ہوگیا ہے کس بات پر لڑ رہی ہو۔۔ اریزہ گھبرا کر دونوں کے بیچ آئی۔۔ دونوں ہنگل میں لڑ رہی تھیں اسے پلے نہ پڑا تھا۔۔
میں شمالی کوریائی محاجر ہوں کوئی اعتراض ہے؟۔۔ ہوپ اریزہ کی آنکھوں میں جھانک کر مضبوط لہجے میں بولی۔۔
آنیو۔۔ اریزہ بمشکل سر ہلا کر بولی۔۔
جئ ہائے ناک سکوڑ کر سونے کیلئے جی ہائے کی خالی کی گئ جگہ پربیڈ پر دراز ہوگئ۔

.———————————————————————————————-

ہوپ کرائے دار تھئ۔ جی ہائے اپنا حق وصول کر چکی تھی۔ بیڈ پر دونوں خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھیں۔۔ اریزہ نے حسرت سے بیڈ کو دیکھا۔۔ گوارا کو آداب میزبانی سب یاد تھے سو اسے اور اریزہ کو لائونج میں بستر بچھا کے سونا پڑا۔۔
صبح معمول کے مطابق تھی۔۔ مگر خنک۔۔ وہ رات کو خنکی کے باعث کپکپا رہی تھی مگر ہمت نہیں تھی اٹھ کر کچھ ڈھونڈ کر اوڑھنے کی۔۔ اوڑھتی بھی کیا۔۔ پھر جانے کب آنکھ لگی کچھ پتہ نہیں چلا صبح الارم پر پہلا احساس یہی ہوا ابھی تو آنکھ لگی تھی۔۔ اس نے کسمسا کر انگڑائی لی اور سستی سے اٹھ گئی۔۔ منہ ہاتھ دھو کر سب سے پہلے ٹیرس میں چلی آئی۔۔ کالے بادل چھائے تھے دھوپ کا نام و نشان تک نہیں تھا۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔۔ وہ کانپتی دروازہ بند کرتی اندر چلی آئی۔۔ کمرے میں جھانکا تو جی ہائے بے خبر سو رہی تھئ۔
ناشتہ بنایا میز پر رکھ رہی تھی تب تک گوارا اور جی ہائے بھی سٹر پٹر کرتی چلی آئیں۔
صبح بخیر۔۔ اس نے جتنی خو شدلی سے کہا تھا گوارا کا اتنا ہی مرے مرے انداز میں جواب آیا۔۔ وہ نیند سے جھوم رہی تھی۔۔

آج یونیورسٹی جانے کا دل نہیں کر رہا۔۔ جمائی روکتی وہ سستی سے بولی۔۔
رات کی اتری نہیں سر گھوم رہا۔۔ اس نے سر تھاما۔۔
اریزہ مسکرائی۔۔
رات کا منظر تازہ ہوا زہن میں۔۔
تو چڑھی ہوئی تھی موصوفہ کو۔۔ اس نے دل میں سوچا۔۔
ہینگ اوور سوپ تو بنانا آتا نہیں سر درد ہم پاکستانیوں کے خیال میں ہوتا ہی چائے پینے کیلیئے ہے تو یہ لو۔۔ اس نے بھاپ اڑاتا مگ سامنے رکھا آملیٹ اور پراٹھے پہلے ہی میز پر موجود تھے گوارا نے بھی پھر تکلف نہیں کیا۔۔ جی ہائے نے پراٹھے دیکھ کر منہ بنایا تو اسکے سامنے ڈبل روٹی لارکھی۔
کوئی حیرت نہیں تم یہ سب کھا کھا کے ہی اتنی موٹی ہو۔
جی ہائے نے بلا لحاظ ٹوکا۔ اریزہ جو پراٹھے کا نوالہ توڑ رہی تھی خفت زدہ سی ہوگئ۔
گوارا نے جی ہائے کو ٹہوکا دیا۔ اس نے بھنوئیں اچکائیں جیسے پوچھ رہی ہو کیا ہوا۔۔
میں یہاں جب آتی ہوں تب بس ناشتہ کرتی ہوں ہاسٹل میں تو ڈبل روٹی ہی کھاتی ہوں۔
اس نے جانے کیوں صفائی دی۔
جی ہائے لاپروائئ سے گوارا کی پلیٹ سے آملیٹ اٹھا کر دو سلائس میں رکھتئ اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں تو چھٹی نہیں کر سکتی آگے ہی حاضری کم ہوجانی میری سو چلتی ہوں۔۔
رکو میں بھی چلتی ہوں مجھے بھی یونیورسٹی جانا۔۔
اریزہ نے کہا تو اس نے غور سے دیکھا۔
جب تک تیار ہوگی تم تب تک میں یونیورسٹی پہنچ چکی ہوں گئ۔ تم آتی رہنا مجھے ہاسٹل سے اسائنمنٹ اٹھانی ہے دیر ہورہی مجھے۔ آنیانگ
وہ اپنے ازلی بے نیاز اور تھوڑے بے مروت انداز میں کہہ کر چلتی بنئ۔ اریزہ خاصی حیران تھی اسکے رویئے پر۔
دفع کرو۔ تم بھئ چھٹی کرلو۔۔
گوارا کا آملیٹ تو جا چکا تھا اس نے نوالا چائے میں ڈبو کر منہ میں رکھا۔
اریزہ نے اپنا آملیٹ اسکی جانب بڑھا دیا۔
وہ شمالی کوریائی جاسوس چلی گئ صبح صبح ۔۔ چند لقمے لے کرگوارا کے حواس بحال۔ہوئے۔۔
تم اسے یہ کہہ رہی تھیں ۔۔ جبھی رات کو اسکے تن بدن میں آگ لگ گئ تھی۔۔ اریزہ نے گھورا تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔۔
پاگل ہے وہ۔ مجھے پہلے سے پتہ تھا وہ شمالی کوریائی باشندہ ہے۔ ہایون نے بتا دیا تھا مجھے۔۔ ایویں بے وجہ ٹینٹرم پیدا کر رہی تھی۔۔ اس نے سر جھٹکا۔۔
اسے اسکا طعنہ یاد آیا۔۔ تو منہ بن گیا۔۔
وہ تھوڑی سی دبلی زیادہ ہے مطلب یہاں سب لڑکیاں عموما بھرے بھرے گال کی ہوتی ہیں مگر پھر بھی مجھے نہیں لگا تھا وہ غیر ملکی ہے۔۔ خیر ہمیں تو چینی جاپانی بھی ایک جیسے لگتے اور کورین تو ہم جانتے ہی نہیں ہم چینی ہی سمجھتے ہر چپٹی ناک والے کو۔۔ اریزہ سادہ سے انداز میں کہہ کر ہنسی
کیا مطلب چپٹی ناک۔۔ ہمارے نقوش اچھے نہیں ہوتے تم لوگوں کی نظر میں۔۔ گوارا کا لہجہ تیز ہوا۔۔
کیا ہو گیا میں نے ایسا کب کہا۔۔ اریزہ حیران ہی تو رہ گئ۔۔
دنیا کی پر امن ترین قوم ہیں ہم اور خوبصورت بھی ایک دنیا ہمارے یہاں کے اداکاروں پر مرتی ہے یہاں کے حسن یہاں کی ثقافت کی دیوانی ہے۔۔ تم کہتی ہو ۔۔ ہاش۔۔
وہ طنزیہ انداز میں کہتی جتاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
کون۔۔ شمالی کوریائی یا جنوبی کوریائی۔۔ جہاں تک میری معلومات ہیں دونوں ملک پہلے ایک ہی تھے ان میں ایک ہی قوم بستی۔۔
اریزہ کو اسکے انداز پر غصہ آگیا تھا سو جتاکر بولی۔۔
گوارا لمحہ بھر چپ رہ گئ۔۔
باقی اگر واقعی خدا لگتی کہوں تو تم بہت خوبصورت ہو کم ازکم پلاسٹک سرجری کی تمہیں ضرورت نہیں۔
پھر چاہے یہ بات تم میرے منہ سے سنو یا ہوپ کے بس چڑنے کی بجائے سمجھ لو۔۔
وہ اطمینان سے ناشتے کے برتن اٹھا نے لگی۔۔
گوارا چپ ہو کر اسے گھورنے لگی تھی۔۔
تم بہت خطرناک ہو۔۔ تمہیں کل ہماری ساری باتیں سمجھ آگئی تھیں۔۔
اریزہ کو ہنسی آگئ تھی۔
اسکا صرف اندازہ تھا جو درست نکلا۔۔ کل ہوپ نے اسے اسکی شکل پر طعنہ مارا بالکل ویسے ہی جیسے گوارا اسکی شکل کا تمسخر اڑا رہی تھی۔۔
4hkaH5TU7iSG9YdZ4FtLt69e9RCE41PF8c6x375LZeHC۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوب سارا شاور لے کر سب تکان جیسے اتر گئ تھی۔
وہ گنگنا تا ہوا کمرے میں چلا آیا۔۔ آئینے میں دیکھتے ہوئے بال بناتے ہوئے اسے جانے کیا ہوا۔۔ خود کو ہر زاویئے سے دیکھنے لگا۔۔
ہینڈسم تو میں ہوں۔
شرٹ لیس لڑکے کو دیکھ کر پاکستانی لڑکیاں نہیں مرنے لگتیں
اریزہ نے منہ چڑایا تھا۔۔
وہ بے ساختہ ہنس دیا۔۔
مجھے پوچھنا چاہیئے تھاپاکستانی لڑکیوں کو پٹانے کیلیئے کیا کرنا چاہیئے۔۔
وہ زیر لب بڑ بڑا کر مسکرا دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسکرا دینا چاہیئے۔ اریزہ نے کہا تو گوارا اسے اچنبھے سے دیکھنے لگی۔۔
بس؟۔۔ میرا مطلب ۔۔ بس کوئی لڑکا تم پر مرنے لگے تو بس تمہارے سامنے مسکرایا کرے۔۔ کافی ہے۔۔
گوارا بھئ حیران تھی اریزہ اسکے تاثرات دیکھ کر ہنس پڑی۔۔
ہاں مجھے غصہ ور لوگ نہیں پسند ۔۔ وہ کندھے اچکا کر بولی۔۔
گوارا زور سے ہنسی۔۔
مجھے لگا تھا تم اتنی ساری شرطیں بتائو گی لمبا ہو گورا ہو ایسے بات کرتا ہو اتنا خیال رکھنے والا ہو مزاحیہ ہو وغیرہ ۔۔ اس نے اپنے ہنسنے کی خود ہی وضاحت کر دی۔۔ اریزہ سر جھٹک کر رہ گئ۔۔
ویسے یون بن کی مسکراہٹ بہت قاتلانہ ہے۔۔ جی ہائےنے آنکھ ماری۔۔
آا۔۔ اریزہ نے ناک چڑھائی۔۔
اپنی سہیلی کے سہیلے میں کبھی دل چسپی نہ لوں میں۔۔ اس نے روانی میں اردو میں کہا۔۔ پھر چپ سی رہ گئ۔۔
اس دن سنتھیا نے بھئ تو سر پر ہاتھ رکھوا کر پوچھا تھا۔۔
ایڈون کرسچن ہے اور تمہارا منگیتر ہے۔ تم صرف یہی سوچا کروباقی سب فضول سوچیں اپنے ذہن سے نکال دو۔یہی بہتر ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کہا تم نے۔۔ ؟۔ گوارا سمجھی نہیں سو اسکا کندھا ہلا کر پوچھنے لگی
میں کہہ رہی تھی میں اپنی دوست کے بوائے فرینڈ میں کبھی بھی دل چسپی نہ لوں۔۔
گوارا مسکرا دی۔۔
مجھے یقین ہے۔۔ تم ایسی ہی ہو۔ اس نے اتنے تیقن سے کہا کہ اریزہ حیران ہو کر دیکھنے لگی وہ پھر بات بدل گئ۔۔
تمہیں ٹھنڈ کیوں ابھی سے لگنے لگی ہے۔۔ وہ کافی حیران تھی۔۔ اریزہ جو ٹیرس پر سرد ہوا سے تھوڑا خنکی محسوس کرنے کی وجہ سے بلا ارادہ بار بار خود کو سکیڑ رہی تھی کھسیا گئ۔۔
ہمارے یہاں اسکو ٹھنڈ میں شمار کیا جانے لگتا ہے۔۔
اسکی ناک بھی چالو ہو گئ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم آج یونیورسٹئ آئی ہو؟۔۔
گوارا نہانے گھسی تو وہ آرام سے بیڈ پر لیٹ کر کینڈی کرش کھیلنے لگئ۔۔
اسکو اطلاع آئی تھی کہ نیا پیغام آیا مگر اس نے انگوٹھے کے دبائو سے اطلاع کو ایک طرف کر دیا۔۔ اسکے چار موقعے ضائع ہو چکے تھے آخری چل رہا تھا اخیر کوئی منحو س سطح تھی کھیل کی تیس سیکنڈ میں اوپر سے گرتے پھلوں کو پار کروانا تھا ۔۔
تبھئ شائد پیغام بھیجنے والے سے صبر نہ۔ہوا۔۔
ہایون کالنگ لکھا آیا موبائل وہیں جم گیا۔۔
آہ ۔۔ اس نے بے چارگی سے موبائل کو دیکھا۔۔
پھر کال اٹھا لی۔۔
ہیلو۔۔
آننیانگ واسے او۔۔
ہائے۔۔
ہایون کا ہمیشہ کا کھلکھلاتا انداز ۔۔اسکے پر جوش زندگی سے بھرپور انداز پر اسکی بیزاری بھی کم ہوئی مسکرا کر اٹھ بیٹھی۔۔
ہائے۔۔
کیسے ہو۔۔ اس نے احوال پوچھا۔۔
جوابا اس نے خوشدلی سے بتایا
ٹھیک ٹھاک۔۔ ویسے تم پاکستانی کال اٹھاتے ہوئے ہیلو ہی کہتے ہو؟۔۔
ہاں۔۔ اس کو سمجھ نہ آیا۔۔
اچھا۔۔ وہ رکا تو اسے خیال آیا۔۔
ہم اسلام و علیکم کہتے ہیں۔۔
اس نے وضاحت کی۔۔
تم نے مجھے تو سلام نہیں کیا میں اچھا انسان نہیں؟۔۔ کہ مجھے عزت دو تم۔۔
وہ مایوس ہوا۔۔
نہیں ایسی بات نہیں بس وہ یہاں انگریزی بولنے کے چکر میں۔۔ وہ کافی شرمندہ ہوئی تھی۔۔اسکے کلاس فیلو جاننے والے اسلام وعلیکم کہہ کر ہی کال ریسیو کرتے تھے اور اسے سچ مچ عادت ہی نہیں تھی۔۔ ہیلو سے کام چلاتی ہاں کوئی بڑا ہوتو کال وصول کر لینے کے بعد سلامتی بھی بھیج دیا کرتی تھی۔۔ دوسرے ملک آئو تو احساس ہوتا کتنی انگریزی اور انگریز ہم میں گھس چکے۔۔
مزاق کر رہا تھا۔۔
اسے سنجیدہ ہوتے دیکھ کر اس نے فورا صلاح کا جھنڈا لہرایا۔۔
آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئیں؟۔۔
وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔۔
ایسے ہی۔۔ موڈ نہیں ہوا۔۔ وہ جھک کر بیڈ کے نیچے سے چپل ڈھونڈنے لگی۔۔ ایک تو سامنے تھی دوسری ٹھوکر سے بیڈ کے نیچے چلی گئ تھی وہ اکڑوں بیٹھ کر نیچے سے ہاتھ بڑھا کر اسے کھینچنا چاہ رہی تھی۔۔ مگر ہاتھ پہنچا نہیں اس نے تھوڑا سا سر بھی نیچے کیا۔۔اور آگے ہونے لگی۔۔
تمہیں پتہ ہے پہلے مڈٹرم کےمتحانات کیلیئے فہرست آج شائع ہوئی ہے اور اس میں تم سمیت باقی تمام پاکستانی طلبا کا نام نہیں۔۔ آج ایڈون
کیا۔۔ وہ چیخ کر سیدھی ہوئی سر پٹی سے لگا بس جیسے دو ٹکڑے ہی ہو گیے ہوں۔۔مگر خبر کہیں زیادہ تکلیف دہ تھی۔۔
وہ۔رو ہانسی ہو چلی۔۔
کیوں۔ ہم نے تو سب اخراجات ادا کر دیئے تھے یونیورسٹی کی تمام تر ۔۔
اسکی آنکھیں لبالب بھر گئیں۔۔
وہ۔۔ وہ کہتے کہتے رکا۔۔
بات یہ نہیں۔۔ در اصل یونیورسٹی تم لوگوں کو ۔۔
اسے سمجھ نہ آیا کیسے بتائے۔۔
وہ تم لوگوں کی جو پاکستان کی یونیورسٹی ہے نا وہ بین القوامی سطح پر جانی نہیں جاتی۔ تو یونیورسٹی وہاں سے پڑھے گئے دو سال کو یہاں مان نہیں رہی مطلب تم۔لوگوں کی گریجوایشن تب مکمل ہوگی جب تم لوگ چار سال یہاں پڑھوگے ۔۔
سو تم سب طلبا کے نام پہلے سمسٹر میں شامل کر لیئے گئے ہیں جو اگلے تین مہینوں بعد نیا طلبا کا گروہ آئے گا انکے ساتھ۔ تمام اخراجات وہ اس سمسٹر میں ضم کر دیں گے۔۔
وہ مکمل تفصیل ایڈون سے لیکر آیا تھا۔۔
ایسے کیسے۔۔ ہماری یونیورسٹی نے بھی اس یونیورسٹی کے طلبا کو وہاں چوتھے سمسٹر میں ہی قبول کیا ہے۔۔
وہاں جانے والے تمام طلبا واپس آچکے ہیں۔۔ کوئی بم دھماکا ہوا تھا لاہور میں تو سیکیورٹی کی وجہ سے۔

لاہور میں؟۔۔ وہ چیخ پڑی
مگر ہماری یونیورسٹی تو اسلام آباد میں ہے۔۔ حد ہے ایسا کیسے کر سکتے کوئی انسانیت ہے تم لوگوں میں ۔۔ ڈرپوک کہیں کے ہم بھی تو رہ رہے ہیں وہاں۔۔ موت یہاں نہیں آئے گی؟۔۔ سو سال جیو گے۔۔ وہ پھٹ پڑی تھی۔۔ بولتے بولتے آواز بھی بھرا گئ۔۔ ہایون چپ سنتا گیا۔۔یونیورسٹی کی انتظامیہ کا گلا دبا دے۔۔
مت رو پلیز۔۔ ایڈون وغیرہ سب بات کر رہے ہیں آج سارا دن وہ انتظامیہ سے بات کرتے رہے ہیں پریشان مت ہو کوئی حل نکل آئے گا۔۔
تین مہینے ہمارے ضائع۔۔ ایسا کیسے کر سکتے۔۔
وہ اردو میں بول رہی تھی۔۔
ہمارا تو پورا سال ضائع ہوگیا نا۔۔ اسکے دکھ کی کوئی انتہا نہ تھی۔
اریزے شا۔۔ ہم کچھ حل نکال لیں گے۔۔ احتجاج کر لیں گے سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ تم مت پریشان ہو۔۔
اسے سمجھ تو نہیں آرہا تھا مگر اسکا رونا تو سمجھ سکتا تھا اسے اپنی طرف سے جو تسلی دے سکتا تھا دے رہا تھا۔۔
بہت برا کیا ہے حد کر دی۔۔ ہم چھوٹے ملک سے ہیں تو ہمارے پاس کیا دماغ نہیں۔۔ ہم عقل میں کم ہیں۔ ایسا ترقی یافتہ ملک ہونے سے بہتر ہے ہمارا غریب ملک۔۔ ہونہہ۔۔
اسکو غصے میں سمجھ بھی نہیں آرہا تھا کیا کہے۔۔
ہم انکے چندی آنکھوں والوں کو پڑھا رہے یہ ہمیں انکار کر رہے۔
واٹ ۔۔ انگریزی میں بولو نا ظرف واٹ؟۔۔
وہ بے چارہ بنا سمجھے بس سنے جا رہا تھا۔۔
تمہارا سر۔۔
اسے اب احساس ہوا اسکے سارے جملے ضائع گئے۔۔ سو تپ کر چیخی اور کال بند کر کے موبائل بیڈ پر اچھال دیا۔۔
گوارا نہا کر بال جھٹکتی کمرے میں آئی تو اسکا لال بھبوکا چہرہ دیکھ کر حیران رہ گئ۔۔
کیا ہوا؟۔۔ رو کیوں رہی ہو۔۔
تم ہزار دفعہ کہا ہے میری جوتی کو ٹھوکر مار کر بیڈ کے نیچے مت کیا کرو اب بیچ میں پہنچ چکی ہے تمہیں گھسیڑ کر نکالوں اب میں۔۔
وہ حلق کے بل چلائی۔۔
کیا؟۔۔ گوارا کو بس بیڈ سمجھ آیا اسکے پورے جملے میں۔۔
کیا ہوا بیڈ کو۔۔ وہ بے چاری بیڈ کو چھو کر دیکھ رہی تھی۔
یہ تو حال اپنی زبان کے علاوہ ایک لفظ کچھ سمجھ نہیں آتا بنتے بڑے طرم خان ہو۔۔ جاہل۔۔
وہ چڑ کر۔کہتی پیر پٹختی کمرے سے نکل گئ۔۔
کیا ہوا ۔۔
گوارا نے اسکے پیچھے آواز لگائی۔

پھر پر سوچ نظروں سے بیڈ کو۔دیکھنے لگی۔

دیکھنے میں تو ٹھیک ہی۔لگ رہا ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری طبیعت آج ٹھیک نہیں لگ رہی تم گھر چلی۔جائو۔۔
اسکو تھکے تھکے انداز میں ٹرے اٹھا کر کائونٹر پر رکھتے دیکھ کر اسکے مینیجر نے ہمدردی سے کہا۔۔
جی۔۔ اسے لگا شائد سننے میں غلطی ہوئی ہے۔۔
میں کہہ رہا ہوں تم گھر چلی جائو آرام کرو۔۔ اس نے نرم سی مسکراہٹ کیساتھ بات دہرائی۔۔
مگر۔۔ وہ ہچکچائی۔۔
جائو جائو۔۔ آج ویسے بھی موسم اعتدال میں نہیں تیز بارش کا امکان ہے ایسے موسم میں کون باہر نکل کر یہاں برگر کھانے آئے گا۔۔ گھر بھجوانے والے ہی زیادہ آرڈر آئیں گے وہ تو سونگ جانگ وغیرہ دیکھتے ہیں۔۔ جائو آج تمہاری چھٹی۔۔
وہ لاپرواہ سے انداز میں کہتا مڑ کر برتن سمیٹ کر سنک میں رکھنے لگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں پڑی ہوئی ہو زمین پر کتیا۔۔ کسی نے زور دار لات مار کر اسے جگایا تھا۔۔
اسکے پیٹ میں درد کی شدید لہریں اٹھی تھیں وہ جو پہلے ہی زمیں پر پڑی تھی مزید دہری ہو گئ۔۔ ۔
کیا ناٹک کر رہی ہو۔اٹھو یہاں سے۔۔ اور میرے لیئے چائے بنا کر لائو۔۔ کیا پکایا ہے تم نے کتیا۔۔
وہ چندی آنکھوں والا ادھیڑ عمر آدمی غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔۔
وہ آنسو پونچھتی اٹھنے لگی
اتنی ٹھنڈ میں زمیں پر کیوں پڑی تھی کتیا مر مرا جاتی تو کون زمہ دار ہوتا کوڑے میں بھی نہیں پھینک سکتا تھا سیدھا مجھ پر کیس بنتا کیوں مری ہوئی تھی یہاں دروازے پر۔۔
اسکے اٹھتے ہی زوردار تھپڑ اسکے گال پر جما کر وہ پھر غرایا تھا۔۔
میں۔۔ اس نے گھومتے سر کو تھام کر نگاہ دوڑائی۔۔ وہ گھر کے داخلی دروازے کے بالکل سامنے راہداری پر پڑی ہوئی تھی۔۔
کیوں ۔۔ اس نے سوچنا چاہا۔
اب بھونک کیوں نہیں رہی۔۔ اس جلاد صفت انسان نے اسکے بال پکڑ لیئے تھے۔۔
اسے تبھی یاد آیا۔۔
وہ باہر برف باری ہو رہی تھی۔۔ اس نے سسکتے پوئے بتایا بتائے بنا چارہ نہ تھا۔۔
گھر میں کچھ پکانے کو نہ تھا سودا لینے گئ تھی۔۔
ٹھنڈ لگ گئ۔۔ گھر آئی تو چکرا کر گر گئ۔۔
اس نے ٹھوٹی پھوٹی جتنی بھی چینی زبان آتی تھی اس میں ماضی الضمیر بتانے کی پوری کوشش کرنے لگی۔۔
بے ہوش ہو گئ تھی۔۔ اب اٹھی ہے؟۔۔ ایک اور تھپڑ اسکا گال دہکا گیا۔۔
کچھ پکایا بھی نہیں ہوگا۔۔ اب میں بھوکا مروں تمہاری وجہ سے۔۔ آگے مغلظات بکنا شروع۔۔
میں ابھی سوپ بنا لیتی ہوں۔۔اسکی آواز میں لرزش تھی۔۔
وہ کانپ رہی تھی۔۔ اسکے ڈر سے زیادہ ٹھنڈ سے ایک معمولی بوسیدہ سویٹر پہنے تھی۔۔ جس میں سوراخ ہو چکے تھے۔۔ یہ وہ واحد تحفہ تھا جو اسے پچھلے دو سالوں میں ایک بار شیانگ جو کی ایک گرل فرینڈ نے ترس کھا کر اسے دے دیا تھا۔۔
جائو مرو باورچی خانے میں ۔۔آدھے گھنٹے میں کھانا تیار ہونا چاہیئے۔۔
اس نے تحکمانہ انداز میں کہا تو وہ جلدی سے سر ہلاتی زمین پر گرے سودے کے شاپر سمیٹتی کچن میں دوڑ گئ۔۔ کم از کم وہاں حرارت تو ہوگی۔۔
جلتی لکڑیوں پر پکتی ہنڈیا کے نیچے سے نکلتی آنچ پر اپنے سپید ہاتھ سینک کر اپنے گال پر لگاتی تو تکلیف سے آنکھ بھر آتی۔
کھانا بنا کر ٹرے میں لگا کر کمرے میں آئی تو وہ جلاد سو چکا تھا۔۔ اس نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔
پھر مسکرا دی۔۔
یعنی آج میری چھٹی۔۔ وہ زیر لب مسکرائی اور وہیں زمیں پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر جلدی جلدی سوپ اور نوڈلز کھانے لگی۔۔
یہ دو سالوں میں اسکی گن کر پانچویں چھٹی تھی۔۔
4hkaH5TU7iSG9YdZ4FtLt69e9RCE41PF8c6x375LZeHC۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا ۔۔ مینجر نے اسکے تشویش سے کندھے سے ہلایا پھر فکرمندی سے اسکا ماتھا چھو ا۔۔
اسکئ پیشانئ گرم تھی۔۔ وہ کسی ٹرانس سے واپس حواسوں میں آئی۔۔
تمہیں تو کافی تیز بخار ہے لڑکی۔۔ حد کرتی ہو۔۔ وہ اسے تھام کر قریبی اسٹول پر بٹھانے لگا۔۔
بتایا کیوں نہیں؟۔۔ ایک میسج کر دیتیں مجھے اور آرام کرتیں۔۔ کچھ کھایا ہے؟۔۔ وہ شیانگ کی ہی عمر کا ہوگا چندی مگر کھنچی ہوئی آنکھوں والا۔ادھیڑ عمر مرد مگر کتنا مختلف سا تھا دیکھنے میں نہ نقوش مین کڑختگی نہ آواز میں درشتگی۔۔۔ اسکے نرم رویے سے اسکی آنکھیں بھر آئیں۔۔
زیادہ طبیعت خراب ہو رہی ہے؟۔۔وہ اور سٹپٹا گیا۔۔
یہ جونگ آئے تو ۔میں اسے فون کرتا ہوں وہ آئے تو اسٹور اسکے حوالے کرکے تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں۔۔
آنیو آہجوشی۔۔ ۔۔ اس نے دونوں آنکھیں سختی سے رگڑ ڈالیں اور زبردستی مسکرا دی۔۔
کیم چھنا۔۔
نہیں صاحب میں ٹھیک ہوں۔۔
بس بخار ہے میں گھر جا کر دوا کھا لوں گی۔۔
وہ اٹھنے لگی تو مینجر نے اسکو کندھے سے پکڑ کر واپس بٹھا دیا۔۔
نہیں تم اتنے تیز بخار میں کیسے جائو گی۔ بخار دیکھنے والا آلہ ہوتا تو تھا میری دکان پر یہ۔لڑکے ہلڑ بازی کرتے میری چیزوں کے ساتھ کبھی وقت پر نہیں ملتا کچھ۔۔ وہ اسے بٹھا کر تیزی سے اپنے کاونٹر کی جانب بڑھا اوردرازین الٹ پلٹ کرنے لگا۔۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر آلہ لے آیا اسکے کان میں گھسیڑا ۔۔
مجھے پتہ ہے میرا بخار اتنا زیادہ نہیں ہے آپ یونہی پریشان ہو رہے آہجوشی۔۔
اس نے ایک مرتبہ پھر اطمینان دلانا چاہا تھا۔۔مینجر ان سنی کر کے بخار دیکھنے لگا پھر اسکی کھنچی ہوئی چندی آنکھیں اپنے حجم سے دگنی ہوگئیں۔۔
ایک سو دو بخار۔۔ میں ابھی جونی کو بلاتا ہوں۔ ۔۔وہ سیدھا فون کی جانب بڑھا۔۔ پھر رک گیا۔۔
بلکہ ایسا کرو تم یہیں رکو میں ٹیکسی لے کر آتا ہوں جون جانے کب آئے میں دکان بند کر دیتا ہوں۔۔ ٹیکسی تک تو چل۔لو گی۔۔ ہم سیدھا اسپتال چلتے ہیں۔۔
وہ حواس باختہ ہوگیا تھا۔
ایک سو دو بخار ہے بس۔۔ پڑی تو ایسے تھی بستر پر جیسے مرنے لگی ہے۔۔ کسی نے تھرما میٹر اسکے ہی منہ پر دے مارا۔۔
وہ چونکی۔۔
نہیں۔۔ بھئی۔۔ اتنا بخار کوئی بڑی بات نہیں ہوتا۔۔ میں خود چلی جائوں گی ڈاکٹر کے پاس۔۔ وہ یکدم اٹھ کھڑی ہوئی۔۔ یہ آہجوشی تو دیوانگی میں جانے کیا کر ڈالے۔۔ وہ سوچ کر رہ گئ۔۔
اور شائد تھرما میٹر خراب ہے آپکا مجھے تو معمولی حرارت ہے بس۔۔ اس نے جان کر بشاش انداز اپنایا۔۔
میں بس تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہوں اجازت ہو تو گھر چلی جائوں۔۔ اس ہفتے کے آخر پر اوور ٹائم لگا لوں گی۔۔
اس نے تسلی دینے والے انداز میں کہا تو وہ منہ کھول کر ہی دیکھ کر رہ گیا۔۔
ایکدم اتنی طراری ایک سو دو بخار کے بعد تو نقاہت ہو ہی جاتی ہے۔۔ تھرما میٹر ہی خراب ہوگا
ٹھیک ہے۔ وہ اجازت طلب انداز میں دیکھ رہی تھی۔۔
ٹھیک ہے۔۔ اس نے اور کیا کہنا تھا۔۔ وہ مخصوص کوریائی انداز میں جھک کر الوداعی کلمات ادا کرتی رخصت ہوئی تو اس نے ہاتھ میں پکڑا آلہ اپنے کان میں لگا لیا۔۔
کئی درجے کم ایک عام آدمی کی سطح کا نقطہ بتا رہا تھا۔۔۔۔۔
4hkaH5TU7iSG9YdZ4FtLt69e9RCE41PF8c6x375LZeHC

وہ ٹیرس میں ٹہلتی اپنا غصہ کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب گوارا اسکا فون اٹھائے چلی آئی۔۔
اس نے توجہ نہ کی۔۔
بج رہا ہے اٹھا لو۔۔ گوارا نے اسکے تیور دیکھ کر ڈرتے ڈرتے ہاتھ بڑھایا۔۔ اسکو لگا کہیں اس بار فون اٹھا کر عمارت سے نیچے نہ پھینک دے۔۔ اس نے گہری سانس لے کر فون اسکے ہاتھ سے لیا۔۔
امی۔۔ وہ نام دیکھ کر چونکی۔۔ اسے جانے کیوں مسرت ہوئی تھی۔۔ صحیح ہے ماں کے دل کو خبر ہو جاتی ہے اولاد پریشان ہے تو۔۔
اسلام و علیکم ۔۔ اس نے بے تابی سے فون اٹھایا۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔ کیسی ہو؟۔۔ امی نے عام سے انداز میں پوچھا۔۔ تین مہینے بعد بیٹی سے بات کر رہی تھیں یہ ڈر بھی تھا کہیں دوبارہ غصے میں نہ آ جائے
ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں۔۔ اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔ بعد امی کو یاد آگئی میری۔۔ دل تو کیا جتا دے۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ پڑھائی کیسی جا رہی ہے تمہاری۔۔؟۔۔
انہوں نے پوچھا تو مگر جواب میں دلچسپی نہ تھی
ٹھیک۔۔ ابھی بس اتنا منہ سے نکلا تھا انہوں نے بات کاٹ دی۔۔
یہ بتائو چھٹیاں کب ہیں تمہاری؟۔۔بہت اچھا رشتہ آیا ہے تمہارا تم کب تک آرہی ہو بتا دو تو ہم یہاں تاریخ رکھ لیں۔۔ تمہارے بابا کے دوست کا بیٹا ہے۔ ہم تو مطمئن ہیں۔۔ پڑھائی کا کیا ہے ہوتی رہے گی۔۔ وہ کینڈا میں رہتا ہے وہیں جا کر مکمل کر لینا۔۔ کب سے چھٹیاں ہیں تمہاری؟۔۔۔
صاف انکار کردیں مجھے نہیں کرنی شادی۔۔
وہ بری طرح جھلا ئی۔۔
کیا مطلب ہے؟۔۔ ہم مطمئن ہیں کر رہے ہیں طے رشتہ اب تو لڑکا اتنا بڑا بھی نہیں دلاور سے کہتی ہوں تصویر بھیج دے گا تمہیں۔۔ وہ اور جھلا کر بولی تھیں۔۔
کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ میں نے انکار کر دیا اب کوئی بات نہیں ہوگی۔۔ آئندہ مجھے فون بھی کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔
اس نے غصے سے کہہ کر فون کاٹ دیا
جان نہیں چھٹنی میری۔۔ آخر کیوں۔۔ میرا ہر کام خراب ہو ایسا کیوں لکھا ہے آپ نے میری قسمت میں۔۔ وہ آسمان کو دیکھ کر چلا اٹھی ۔۔ ڈھیر سارے آنسو گالوں پر پھیلتے چلے گئے تھے۔۔ وہ بے دم ہو کر وہیں زمین پر بیٹھ گئ۔۔ اور گھٹنوں میں منہ دے کر رونے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈور بیل کی آواز پر گوارا نے دروازہ کھولا تھا۔۔
ہایون تھا۔۔
اریزہ کہاں ہے۔۔ اس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔۔
ٹیرس میں ہے۔۔
گوارا نے حیران ہوتے ہوئے بتایا۔۔
کیوں آخر کیوں ۔۔ اریزہ کے چلانے پر
دونوں بھاگ کر ٹیرس میں آئے تو وہ بیچوں بیچ بیٹھی گھٹنوں میں منہ دیئے سسکیاں لے کر رو رہی تھی۔
کیا ہوا کین چھنا؟۔۔ گوارا بھاگ کر اسکے پاس آئی
کوئی کیم چھنا نہیں۔۔
مر جائوں بس میں کچھ دنیا میں میرے لیئے نہیں ہے۔۔ وہ اور زور سے کہتی بلک اٹھی۔۔
کیا ہوا۔ بتائو تو سہی۔۔ گوارا تڑپ گئ اسے بلکتے دیکھ کر۔۔
اسکو ابھی کوئی فون آیا تھا اسکے بعد سے ۔۔ گوارا نے پریشان کھڑے ہایون کو بتایا۔
کہیں کوئی ڈیتھ تو نہیں۔۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے خیال ظاہر کیا۔۔ وہ ہنگل میں کہہ رہی تھی۔۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔۔ ہایون یہی سمجھا اسکے فون کے بعد سے رو رہی۔۔ بات تو بڑی تھی مگر رونا اسکا حل نہیں تھا۔۔
اریزہ ہم کچھ کر لیں گے فکر مت کرو۔۔ اس نے اپنے طور پر تسلی دینی چاہی
کیا کر لوگے ؟۔۔ وہ جھلا کر سر اٹھا کر بولی۔۔
یہاں پڑھوں نہ پڑھوں ڈگری ملے نہ ملے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے خواب میرے ارادے کسی کیلیئے اہم نہیں بس کسی طرح کوئی کاٹھ کا الو میرے سر پر سوار ہو جائے بس۔۔ میری خواہشیں کس کےلیے معنی رکھتیں۔۔ بس ہو جائے گی شادی میری۔۔۔ دھڑا دھڑ رشتے آرہے میرے شادی ہو رہی طلاق ہو رہی پھر شادی طے مزاق ہوں میں کیا؟۔۔ موجود بھی نہیں وہاں اور میرا ر شتہ طے کر کے اطلاع دے رہے مجھے۔۔ ایسا تو جانوروں کے ساتھ ہوتا انسان بھی نہیں سمجھتے کیا مجھے۔۔
بھرائی آواز میں رو رو کر وہ چلائی تھی۔۔ گوارا اور ہایون دم بخود اسے دیکھ رہے تھے۔۔
کیا کہہ رہی ہے کچھ اندازہ ہے تمہیں۔۔ گوارا نے دھیرے سے ہایون کی جانب جھک کر سرگوشی کی۔۔
آنیو۔۔ وہ بے بسی سے نفی میں سر ہلا کر بولا۔۔
تبھی تیز بارش شروع ہو گئ۔۔
وہ یونہی بلک رہی تھی۔۔ انداز کسی ضدی بچے کے جیسا تھا جو محروم رہ گیا ہو۔۔
اریزہ اندر چلو بھیگ جائو گی۔۔ تمہیں تو صبح بھی سردی لگ رہی تھی۔۔ گوارا نے آگے بڑھ کر اسے اٹھانا چاہا۔۔ اس نے ضدی بچے کی طرح خود کو چھڑایا۔
چھوڑ دو مجھے کہیں نہیں جانا مجھے۔۔
وہ اتنی دل برداشتہ تھی کہ انگریزی کی بجائے مستقل اردو میں بات کر رہی تھی۔۔ گوارا کو جملے تو نہیں انداز سمجھ آگیا گہری سانس لے کر اسے اٹھانے کا ارادہ ترک کردیا۔۔ مڑ کر ہایون سے کہنے لگی۔۔
تم۔تو اندر چلو۔۔ ابھی بہت پریشان ہے تھوڑی دیر تک جی ہلکا ہوگا تو اندر آجائے گی۔۔
ہایون نہ اسکی جانب متوجہ ہوا نہ ہی اسکی بات کا جواب دیا۔۔ وہ اریزہ کو دیکھے جا رہا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا جا کر یونیورسٹی والوں کا منہ کچل دے۔۔
گوارا نے ایک نظر اسکی نگاہ کا محور دیکھا۔پھر زمین پر پڑا موبائل اٹھا کر اندر چلی آئی۔ وہ دونوں یقینا اس وقت ٹیرس پر ہوتے ہوئے بھی کہیں اور تھے۔۔ اس کے لب وا ہوئے پھر لب بھینچ کر اندر چلی آئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے بس میں بیٹھتے ہی بار ش شروع ہو گئی تھی۔۔ موسلا دھار بارش تھی۔۔ اسکے آدھے گھنٹے کے سسفر میں نہ کم ہوئی نہ رکی یہاں تک کے اسکے بس سے اترنے تک کا وقت آگیا۔۔ اس نے بے بسی سے اس بے رحم آسمان کو دیکھا۔
اسٹاپ سے رہائشی عمارت تک جاتے جاتے وہ مکمل بھیگ چکی تھی۔اسکا بخار جانے تیز ہوا تھا یا کم مگر بھیگ کر جسم کپکپانے لگا تھا۔۔ دور دور تک خالی سڑک اور تیز بارش۔۔ مارکیٹ تک بند تھی یا مالکان اندر دبک کر بیٹھے تھے۔۔ نہ بندہ نہ بندے کی زات اسکو زور دار چکر آیا تھا۔۔ سنبھل سنبھل کر بھی وہ لہرا کر پورے قد سے نیچے آرہی تھی تبھی شائد اسکا نگران فرشتہ آگے بڑھ کر اسے تھام گیا تھا۔۔ ڈوبتے زہن کے ساتھ بھی اس نے آنکھیں کھول کر تھام لینے والے کا چہرہ دیکھنا چاہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتظامیہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں۔۔
ایڈون نے دونوں ہاتھوں میں سر تھام لیا تھا۔۔
وہ سب باہر کیفے میں اکٹھا ہوئے تھے۔۔ سالک اور شاہزیب بھی کم پریشان نہیں تھے۔۔ یون بن انکی ہمت بندھانے اٹھ آیا تھا۔۔ سب کے سامنے گرم کافی رکھی تھی مگر کسی نے ایک گھونٹ تک نہ بھرا تھا۔۔
تم لوگوں کی یونیورسٹی کیا کہتی ہے؟۔۔ یون بن نے کہا تو ایڈون بس دیکھ کر رہ گیا۔
ابھی تو رابطہ کیا ہے آگے ویک اینڈ ہے پیر کو جواب آئے گا اگر کوئی آیا تو ۔۔ اور منگل سے امتحانات شروع ہیں۔۔ سالک نے کہا تو وہ تسلی بھرے انداز میں کہنے لگا۔۔
تم لوگ فکر مت کرو۔۔ کل پھر بات کرتے ہیں نہیں تو احتجاج کرنا ایسا کیسے کر سکتے تم لوگوں نے ہمارے ساتھ پڑھا ہے ہمارے ساتھ ہراسائنمنٹ مکمل کی ہے ایسے کیسے وہ سب ختم کر سکتے۔۔ تم لوگ احتجاج کرو میں بھی ساتھ دوں گا۔۔ اس کے پر خلوص انداز پر تینوں کا دل بڑھا تھا۔۔ وہ مسکرائے تو یون بن بھی مسکرا دیا۔
تم نے کہہ دیا یہی بہت ہے۔۔ شاہزیب کو دل سے قدر تھی۔۔
آج کا ڈنر میری طرف سے۔۔ ایڈون نے کہا تو سالک اٹھ کھڑا ہوا۔۔
تم لوگ کھائو مجھے بھوک نہیں۔۔ وہ جانے لگا تھا۔۔
کہاں جا رہا۔۔ شاہ زیب کو اندازہ تھا اسکی پریشانی کا۔۔
اسکے چہرے سے ہویدا تھی۔۔
تیرے بھوکے رہنے سے مسلہ حل نہیں ہو جائے گا۔۔
ایڈون نے لاپروائی سے کہہ کر ویٹر کو اشارے سے بلایا۔۔
مجھے واقعی بھوک نہیں ۔۔ وہ منمنایا
بیٹھ اور کھا ۔ شاہزیب نے ہاتھ پکڑ اسے کھینچ کر واپس بٹھایا۔۔ یون بن خاصی حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
کیا کہا تم نے؟۔
میں نے اسے کہا کہ بیٹھو اور کھا کے جائو۔۔
شاہزیب نے انگریزی میں وضاحت کی تو اسکی حیرت دو چند ہوگئی۔
کھا کا مطلب ہوتا جائو۔۔ دفع ہو۔۔ اس نے بتایا تو تینوں زور سے ہنس دیئے۔۔
ہم نے ہنگل نہیں اردو بولی ہے اور اردو میں کھا اسکا مطلب ہوتا کھائو ۔۔ ایڈون نے وضاحت کی تو یون بن حیرانی سے بولا۔۔
کافی عجیب ہے یہ تو۔۔
کم سن کہاں ہے صبح سے نظر نہیں آیا۔۔ شاہزیب کو خیال آیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوپ چاول کمچی۔۔ ساتھ اسکا لایا ہوا گوشت انہون نے سٹیک بنا کر سامنے رکھا۔۔ کھانے کے لیئے زمین سے تھوڑی سی اونچی چوڑی سی پیڑھی پر کھانا چنا گیا تھا۔۔ وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھا کھانے کا انتظار کر رہا تھا۔۔ وہ جھک کر فورا شروع ہو گیا تھا۔۔انہوں نے پیار سے دیکھا اسے۔۔
بہت عمدہ ہے۔۔ چھائے موکے سبندا۔
میں ٹھیک ٹھاک کھائوں گا۔۔اس نے روائتی انداز میں انکو شکریہ ادا کیا۔۔ مسکراتے مسکراتے انکی آنکھیں بھر آئیں۔۔
ابھی کل کی ہی بات لگتی پانچ سالا کم سن انکے ہاتھوں سے نوالے لینے کی ضد کرتا وہ بے حد احتیاط سے چاپ اسٹکس سے ایک نوالا چاول اسکے منہ میں ڈالتیں وہ منہ میں بھر کر بیٹھا رہتا وہ فورا ایک چمچ سوپ بھر کر اسکے سامنے کرتیں وہ جلدی سے منہ کھول کر سوپ بھی بھر لیتا۔۔ پورا منہ بھر کر اپنے بھرے بھرے گالوں کو پھلا کر چھوٹا سا پانڈا ہی تو لگتا تھا۔۔وہ اسکا ماتھا چوم لیتی تھیں۔۔
وہ بہت رغبت سے کھا رہا تھا۔۔
اوروہ بہت رغبت سے اسے دیکھ رہی تھیں۔۔
یہ رکھ لیجئے۔۔ کھانا کھا کر اس نے اپنے ہڈ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر انہیں ایک بھورا کاغذی لفافہ نکال کر تھمایا۔۔ نوٹوں سے پھولا ۔۔ انکی مسکراہٹ غائب ہوئی۔۔
تم اپنی شکل دکھا جاتے ہو یہی بہت ہے۔۔ میری بیٹی اتنا کما لیتی ہے کہ ہمارا گزارہ ہو سکے بیٹا۔۔
انکی آنکھیں بھر آئی تھیں۔۔
میں جانتا ہوں۔۔ وہ آہستگی سے بولا۔۔
مگر یہ آپکے بیٹے کی طرف سے ہے۔۔ چھوٹو کا مکمل علاج کروائیں یوں بار بار بخار آنا صحیح بات نہیں۔۔ اس نے دزدیدہ نظروں سے دور پنگھوڑے میں لیٹے ننھے فرشتے کو دیکھا جو نیند میں گم تھا۔۔اسکی سانسوں کی نا ہمواری محسوس کی جا سکتی تھی۔۔
میں سگی ماں تو نہیں ہوں تمہاری مگر مجھے فخر ہے میں تم جیسے بیٹے کی ماں ہوں۔۔ انکے کہتے ہوئے لب کپکپا گئے تو کم سن نے آگے بڑھ کر انکو سینے سے لگا لیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کافی ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہوئی تو فورا وہ کریانے کی دکان میں گھس کر چھتری خرید لایا۔۔ قطرہ قطرہ برستی بارش چھتری پر گر رہی تھی۔ وہ عیاں چھتری لایا تھا۔۔ ٹرانسپیرنٹ۔۔ جس میں سر اٹھا کر دیکھو تو بارش چہرے پر برستی تھی مگر گیلا نہیں کرتی تھی۔۔
موسم بدلنے لگے تو پہلی بارش دل پر برستی ہے۔۔
اس نے کہیں سنا تھا۔۔ ابھی بھی سر اٹھا کر بار ش کو دیکھتے ہوئے یوں مسکرایا جیسے بارش کو جتا رہا ہو دیکھ لو میرا کچھ بگاڑ نہیں پائیں تم۔۔
اسکا یہ احساس وقتی تھا۔۔ وہی بار ش جو اسکا کچھ نہیں بگاڑ پا رہی تھی کسی کو شرابور کر چکی تھی۔۔
وہ لمحہ بھر کو رکا۔۔ سامنے ہلکے سے رنگ کی لانگ اسکرٹ اور بلائوز میں ملبوس وہ لڑکی اپنے شرگ میں سمٹتی شائد کانپ بھی رہی تھی۔۔ لحظہ بھر کو لہرائی تو وہ ایک دم بھاگ کر اسکی جانب بڑھا۔۔اسکے پہنچتے پہنچتے بھی وہ بے دم سی ہو کرزمین پر آرہی مگر وہ وقت پر پہنچ گیا تھا۔۔ اسے بروقت تھام کر اس نے کھڑے قد سے گرنے سے بچا لیا تھا۔۔ تبھی بجلی چمکی تھی اس لڑکی کے چہرے کے خد و خال نمایاں ہوئے تھے۔۔ کم سن اسے پہچان گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کتنی دیر بعد اسکی آنکھ کھلی تھی۔۔ اس کے پپوٹے اتنے بھاری ہورہے تھے کہ آنکھ کھولتے ہی فورا بند کر لی۔۔ چند لمحے پلکیں جھپکنے کے بعد اسکی آنکھیں کھل ہی گئیں۔۔ ٹیوب لائٹ کی روشنی پورے کمرے کو روشن کیئے ہوئے تھی۔۔ مگر کمرہ یہ کونسا تھا۔۔ اس نے زہن پر زور ڈالنا چاہا۔ بہت نا مانوس سا ماحول تھا۔۔۔ اسے جاگتے دیکھ کر تھوڑے فاصلے پر صوفے پر بیٹھا کم سن فورا اٹھ کر اسکے پاس آیا۔۔
کین چھنا۔۔ (تم ٹھیک ہو)۔۔
دے۔۔(ہاں۔۔)۔
اس نے دھیرے سے کہہ کر اٹھنا چاہا۔۔ مگر کمزوری کی وجہ سے اٹھ بھی نہ سکی۔۔
لیٹی رہو۔۔ ڈرپ لگی ہوئی ہے۔۔ کم سن نے فورا روکا۔۔
اور احتیاط سے اسکے سر کے نیچے تکیہ ٹھیک کرنے لگا۔۔
ڈاکٹر کہہ رہے تھے کمزوری بہت ہے تمہیں اوپر سے بخار بھی۔۔ جبھی طبیعت زیادہ خراب ہو گئ۔۔
وہ بتا رہا تھا۔۔
کتنا خرچہ ہو گیا ہوگا۔۔ وہ بیزاری سے بڑ بڑائی۔۔
آواز اتنی مدھم تھی کہ کم سن سن بھی نہ سکا۔۔
دے؟۔۔ وہ۔پورے کا پورا سوالیہ نشان بنا۔۔
اندے۔۔ وہ اور بیزار ہوئی اپنی بائیں کلائی کو غور سے دیکھنے لگی۔۔ کنولا لگا ہوا تھا۔۔ اس نے دایاں ہاتھ بڑھا کر جیسے ہی آسے کھینچ کر نکال دینا چاہا کم سن نے اسکا ارادہ بھانپ کر اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
تھوڑی سی ڈرپ رہ گئ ہے۔۔ صبر کرو۔
اسکا انداز ڈانٹنے والا تھا۔۔
وہ شدید بد مزہ ہوئی۔۔
مجھے نہیں لگوانی ڈرپ اسکو نکالو۔۔ مجھے گھر جانا۔۔ وہ یکدم جھلا گئ۔۔
مسلہ کیا ہے تمہارے ساتھ؟۔۔ ہر وقت اتنا چڑی ہوئی کیوں رہتی ہو۔۔ جبھئ خون نہیں بن رہا تمہارا۔۔ کم سن بھی چڑ گیا تھا۔۔
تمہیں کیا۔۔ میرا خون بنے جلے میں جیوں مروں۔۔ وہ اور بری طرح چڑی۔۔
اتنے لوز ٹیمپر کے ساتھ تم آرٹسٹ کیسے بن گئیں؟۔۔
آرٹسٹوں میں تو غصہ اور جھلاہٹ ہوتی ہی نہیں ہے۔۔
وہ بالکل غصہ بھول کر دلچسپی سے اسکی شکل دیکھتے ہوئے پوچھ رہا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے لال بھبوکا ہو چلی تھی۔۔
کہاں بنی۔۔ ؟۔۔ کوئی نہیں ہوں میں آرٹسٹ۔۔ اور ہاتھ چھوڑو میرا۔۔
اس نے غصے سے پاگل ہوتے ہوئے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔۔ تنتنا کر اٹھ بیٹھی دوبارہ۔کنولا نوچنے کیلیئے ہاتھ بڑھایا۔۔ اور دوبارہ ہی کم سن نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں کپڑے بدل کر اسکے سامنے بیبے بچے بنے صوفے پر بیٹھے تھے۔۔ اور گوارا انہیں کینہ توز نظروں سے گھورتی بھرے ہوئے کافی کے مگ تھما رہی تھی۔۔
دونوں دانستہ اس سے نظریں چرا کر کپ تھامنے لگے تھے دونوں ہی کو اکٹھے چھینک آئی تھی۔۔
مطلب حد ہے ۔۔اس نے بھنا کر کپ سامنے میز پر رکھا۔۔
اسکو تو یہاں کے موسم کا اندازہ نہیں تمہاری عقل کو کیا ہوا تھا۔۔ ؟۔ یہ درجہ حرارت دیکھو۔اس نے اپنے سیل فون سے درجہ حرارت نکال کر دکھایا۔۔ ہایون تو حیران نہیں ہوا اسے اندازہ تھا مگر اریزہ کی آنکھیں پھیل گئیں
دس ڈگری۔۔ اس میں تو ہم پنڈی والے دو سوئیٹریں چڑھا چکے ہوتے۔۔ آں چھی۔۔ دسمبر میں جاتا وہ بھی رات کو اتنا ۔۔
بات مکمل کر کے دونوں کی شکل دیکھی تو دونوں کی شکلوں کے تا ثرات زرا بھر نہ بدلے تھے۔
اب ترجمہ کرو کیا کہا۔۔ دونوں نے کورس میں کہا تھا۔۔
وہ کھسیا گئ۔۔
کچھ نہیں میں کہہ رہی تھی۔۔ اتنی ٹھنڈ تو ہم خاطر میں ۔ آہ چھی۔۔ نہیں لاتے۔۔
اس نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔۔
اچھا۔۔ دونوں حیران ہوئے۔۔
تمہارے یہاں برف باری ہوتی۔۔؟۔۔
ہاں۔۔ اسکے زہن میں مری آیا تھا۔۔ مگر دونوں کچھ اور سمجھے۔۔
اچھا واقعی۔۔ پھر تو میں ایویں زیادہ فکر کر رہی تھی تم تو ٹھنڈ کی عادی ہوگی ہی۔۔ گوارا کا انداز سادہ تھا۔۔
اریزہ نے ایک اور چھینک مار لی تھی۔۔
ویسے کیا ارادہ ہے تم لوگوں کا۔۔ واپس چلے جائو گے؟۔۔ گوارا نے کہا ہایون فورا بولا
واپس کیوں جائیں گے۔۔ ڈگری۔لیئے بغیر۔۔ اصول کی بات ہے یونیورسٹی کو بات سے پھرنا نہیں چاہیئے۔۔ ان لوگوں نے وہی سب پڑھا ہے ویسے ہی پڑھا ہے جیسے ہم تم نے پھر انکے ساتھ اتنی زیادتی کیسے کر سکتے۔۔
ہاں مگر یہاں سے گئے طلبا بھی تو واپس آئے ہیں۔۔ انکے بھی تواتنے مہینے ضائع ہو گئے۔۔
یونیورسٹی انکو اسپیشل دو مہینے کا کورس کروا رہی جسکے بعد وہ اگلے سمسٹر سے ریگولر طالب علم تصور کیئے جائیں گے۔۔ہایون نے کہا تو اریزہ کو ٹھیک ٹھاک صدمہ سا لگا۔۔ سایہ سا لہرا گیا اسکے چہرے پر۔۔ یعنی ہم پاکستانیوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے ۔۔ اپنے طلبا کیلئے کتنا سوچ رہے اور ہم۔۔
انکو بھی تو انکی یونیورسٹی واپس بلا لے گی نا۔۔ گوارا نے کہا تو ہایون ایک دم چپ ہوا۔۔
ظاہر ہے جب یہ یونیورسٹی انکو داخلہ نہیں دے گی تو یہ واپس اپنے ملک اپنی یونیورسٹی تو جائیں گے نا۔۔ وہ بھی یقینا اپنے طلبا کیلیئے کچھ نہ کچھ کریں گے ہی تم یونہی پریشان ہوگیئں اریزہ اپنے ملک جاکر آرام سے تعلیم مکمل کرنا کوئی وقت ضائع نہیں ہوگا دیکھنا۔۔ گوارا نے اپنی جانب سے اسے بھر پور تسلی دی تھی
اللہ نہ کرے ایسا ہو۔ اریزہ بے ساختہ کہہ اٹھی۔۔
مجھے نہیں جانا واپس۔۔ اب واپس گئ تو۔۔ وہ سوچ کر ہی خوفزدہ ہو کر نفی میں سر ہلانے لگی۔۔
کیا؟۔۔ گوارا سمجھی نہیں
تم واپس نہیں جانا چاہتیں۔۔ ہیون نے دھیرے سے اس سے پوچھا۔۔
نہیں۔۔ اس نے فورا نفی میں سر ہلایا۔۔
مطلب۔۔ وہ اب دوبارہ انگریزی میں بولی۔۔
میرا یہاں بہت اچھا وقت گزرا ہے مجھے یہاں رہنا پڑھنا بہت اچھا لگتا مجھے تم لوگوں جیسے اتنے پیارے دوست ملے ہیں میں نے نہیں جانا۔۔ اریزہ نے کہا تو گوارا کا دل موم سا ہوا اٹھ کر اسکے پاس آبیٹھی اور اسکا ہاتھ تھام لیا
سچی بتائوں مجھے بھی سن کر بالکل اچھا نہیں لگا مجھے بھی تم بہت اچھی لگتی ہو بالکل میری بہن کی طرح عزیز ہو گئ ہو مجھے میں بھی تم سے دور نہیں ہونا چاہتی۔۔ اس نے کہا تو اریزہ اسکے گلے ہی لگ گئ۔۔
ہم سب مل کر تم لوگوں کے لیئے لڑیں گے فکر مت کرو۔۔ فائیٹنگ۔۔ ہے نا ہیونا۔۔
اریزہ کے کندھے پر تھوڑی رکھ کر وہ ہایون کو دیکھ کر تائید چاہ رہی تھی۔۔
ہایون جو اپنے ہی کسی دھیان میں تھا مسکرا دیا۔۔
تمہیں نہیں جانے دینا میں نے۔۔ اس نے دھیرے سے اریزہ کو دیکھتے ہوئے ہنگل میں کہا تھا۔۔ اریزہ کی تو پشت تھی اس جانب پھر وہ ہنگل سمجھ بھی نہیں سکتی تھی ہاں گوارا ضرور چونکی تھی۔۔
ہاں تو اور کیا ایسے کیسے واپس بھیج سکتے ہمیں کوئی نہیں جا رہی میں واپس۔۔ اریزہ اسکے کندھے پر تھوڑی جمائے بڑ بڑا رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکل نہیں جا سکتیں ابھی تم۔۔ حالت دیکھی ہے اپنی تم نے خون کی شدید کمی ہے تم میں۔۔ زرا سا بخار بھی اس وقت کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا اندازہ ہے تمہیں ۔۔ہاں کل جب باقی ٹیسٹ کروا لوگی تو اس کی روشنی میں اگر تمہیں بہتر سمجھ کر اجازت دی تو علیحدہ بات ہے ورنہ ہلو گی بھی نہیں تم بستر سے۔۔ سمجھ آئی۔۔
وہ کم سن سے کلائی چھڑوا رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ چھوڑو مجھے گھر جانا جب گشت پر نکلی خاتون طبیب معائنے کی غرض سے آئی تھی۔ اسکو ٹھیک ٹھاک جھاڑ دیا تھا بچکانہ ضد پر۔۔ وہ جہاں خائف ہو کر چپ ہوئی وہیں زیر لب مسکراتے کم سن کو دیکھ کر جھلاہٹ دو چند ہوئی۔۔
ہائش۔۔ اس لڑکی کا بخار پھر بڑھ رہا ہے۔۔ اسکے کان سے آلہ لگا کر دیکھتی وہ سر پکڑ کر رہ گئ۔۔
اسکی ڈرپ دیکھ کر نرس کو ہدایت دینے لگی۔۔
اسکو ایک انجیکشن تیار کرنے کا کہہ کر دوبارہ متوجہ ہوئی۔۔
مجھے اندازہ ہے تم کمزور ہی اتنی ہو جبھی اتنی پیچیدگیاں ہوگئی ہیں۔۔ اپنا خیال رکھا کرو۔۔ خوب کھائو پیو۔۔
تم اسکا خیال نہیں رکھتے ٹھیک سے۔۔ وہ اب مڑ کر کم سن سے کہہ رہی تھی۔۔
کیسے بوائے فرینڈ ہو ابارشن کے بعد اسکی خوراک پر دھیان نہیں دیا تھا۔۔؟۔۔
اسکی بات پر کم سن بری طرح چونکا تو وہیں ہوپ سنٹ سی رہ گئ تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اریزہ روٹی بنا رہی تھی ۔۔ گوارا اور ہایون لائونج میں ہی آمنے سامنے صوفے پر بیٹھے موبائل میں مگن تھے۔۔
کتنی عجیب بات ہے نا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا میں نے کبھی کہ کسی دن میں رات کو بیٹھ کر کسی ایسے ملک کے باشندے کے ہاتھ کا پکا دیسی کھانا کھانے کا انتظار کر رہی ہوں گی جس ملک کا نام بھی اب سے کچھ عرصہ پہلے تک سنا بھی نہ تھا۔۔
گوارا بظاہر موبائل پر انگلیاں چلاتی سرسری سے انداز میں خود کلامی کر رہی تھی۔۔
زندگی ایسے ہی حیران کرتی ہے۔۔
ہیون مسکرایا تھا۔۔
تم نے سوچا تھا کبھی ۔۔ کہ کب کہاں کسکو ایسے دل دے بیٹھو گے ؟۔۔گوارا کا وار اچانک تھا۔۔ وہ لمحہ بھرکو تھم سا گیا۔۔
آنیو۔۔ ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔
وہ گڑ بڑایا۔۔
گوارا موبائل سے نگاہیں اٹھا کر اسے محظوظ سے انداز میں دیکھنے لگی
جھٹلا رہے ہو جبکہ ابھی میں نے تو بس اندازہ لگایا ہے کسی کا نام تو لیا ہی نہیں۔۔ اس کا انداز چوری پکڑنے جیسا تھا۔۔
کہہ تو ایسے رہی ہو جیسے نام پتہ ہے تمہیں۔۔ وہ مکرگیا بے نیازی سے دوبارہ موبائل میں جت گیا۔۔
مجھے پتہ ہے۔۔ گوارا جتا نے والے انداز میں بولی۔۔
کیا ہے۔۔نام۔۔ اس نے مسکراہٹ دبائی۔۔
زور سے پکاروں گی۔۔ گوارا چیلنج کر رہی تھی۔۔
چلو۔۔ وہ بھی مزے لے رہا تھا۔۔
اریییزااااااا۔۔۔ اس نے فورا گردن گھما کر کچن میں مصروف اریزہ کو زور دار آواز دے ڈالی۔۔ ہیون کی بے نیازی رخصت ہوئی یکدم سیدھا ہو بیٹھا وہیں اریزہ اس غیر متوقع نقارے سے ڈر کر اچھل ہی تو پڑی ہاتھ میں پکڑی پلیٹ چھوٹ گئی۔۔
گوارا نے دونوں کےردعمل کا خوب حظ اٹھایا زور زور سے ہنسی ہنستے ہنستے دہری ہوگئ۔۔
کیا۔۔ اریزہ اس بے وجہ ہنسی پر حیران گھور رہی تھی
کچھ نہیں پوچھنا تھا کتنی دیر ہے کھانے میں۔۔ ہنستے ہنستے ہی بمشکل وضاحت کی پھر ہنسنے لگی۔۔
بن گیا ۔۔ تم۔بھی نا۔۔ ڈرا ہی دیا مجھے۔۔ آجائو ہاتھ دھو لو گرم گرم روٹی ہے۔۔ اس نے جھک کر پلیٹ اٹھا کر سنک میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔۔
گوارا ابھی بھی ہنسے جا رہی تھی ہیون بھی اسکے انداز پر اب مسکرانے لگا تھا۔
اسے کیا ہوا کیوں ہنسے جا رہی۔۔ اریزہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔
آنیو۔۔ نیور مائنڈ۔۔ ہیون نے تسلی کرائی گوارا تو فورا کرسی گھسیٹ کر آبیٹھی ہایون ہاتھ دھو کر آیا۔۔
بسم اللہ پڑھ کر نوالا توڑتے ہوئے اسے خیال آیا۔۔
ہوپ نہیں آئی ابھی تک۔۔
ہاں اب تک تو آجاتی ہے۔۔ گوارا بھی چونکی۔۔
بارش رکنے کا انتظار کر رہی ہوگی کہیں۔۔ ہیون نےخیال ظاہرکیا تو گوارا نے بھی تائید کی۔۔
ہاں بارش بھی تو لگاتار ہو رہی ہے۔۔تم بھی رات یہیں رک۔جائوہیون پیدل آئے ہو نا۔۔ کیا بھیگتے ہوئے گھر جائو گے۔۔ گوارا نے کہا تو اس نے لاپروائی سے سر جھٹکا
سیول کے لوگ اگر بارش کو سیٹھنا شروع کریں تو سب کام چوپٹ ہوجائئں۔۔ چلا جائوں گا۔۔ کوئی مسلہ نہیں۔۔
تمہارے خیال سے کہہ رہی تھی۔۔ گوارانے اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔
وہ اسکا صحیح بینڈ بجانے والی تھی۔۔ ہیون ہنس کر رہ گیا۔۔
پھر شروع ہو گئے ۔۔ جان کے ہنگل میں بول رہے ہو نا ۔۔ اریزہ نے چڑ کر دونوں سے کہا۔۔
وے؟۔۔ دونوں کورس میں بولے۔۔
وے۔۔ اس نے انکے ہی انداز کی نقل اتاری
ویسے سچ بتائوں تم دونوں ساتھ بیٹھے زیادہ اچھے لگ رہے ہو تم دونوں کی جوڑی زیادہ سج رہی ہے۔۔ میری مانو تو اپنے والے کو چھوڑو اسے پٹا لو۔۔
اریزہ اتنی سنجیدگی سے ہاتھ ہلا ہلا کر کہہ رہی تھی دونوں منہ کھول کر اسے دیکھ رہے تھے۔۔
کیا کہہ رہی ہو۔۔ دونوں پھر اکٹھے بولے تھے
دیکھ لو ۔۔ زہنی ہم آہنگی بھی ہے تم دونوں میں۔۔
اس نے ثبوت بھی دے دیا۔۔
ویسے اگر میں تم ہوتی نا تو یون بن کی بجائے اسے پٹاتی۔۔ شکل کا بھی اچھا ہے عادتیں بھی اچھی اوپر سے امیر کبیر۔۔ گھاس ہی گھودی ہے تم نے۔ وہ مزے سے نوالے لیتے ہوئے کہے جا رہی تھی۔۔ کبھی گوارا کو دیکھتی کبھی ہیون کو۔۔ دونوں البتہ آنکھیں پھاڑے اسے گھور رہے تھے۔۔
ویسے مزے کی بات بتائوں۔۔ یون بن اور ہایون کو شروع شروع میں فرق نہیں کر پاتی تھی۔۔۔انکی شکل کتنی ملتی ہے۔۔
قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔۔
خیر اس وقت تو مجھے سب ہی ایک جیسے لگتے تھے کاربن کاپی ایکدم۔۔ وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگی۔۔
گوارا نے جھک کر ہیون سے کہا
اس روٹی میں کچھ ہے یا سالن میں آئل کی بجائے الکوہل ڈال بیٹھی ہے یہ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر بک جھک کر ٹیکا ٹھونک کر چلی گئی تو ہوپ نے بھی سیدھا لیٹ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔
وہ جو ڈاکٹر کے جانے کے بعد اس سے پوچھنے کے ارادے سے اٹھ آیا تھا اسے آنکھیں بند کرتا دیکھ کر وہیں تھم گیا۔۔ یقینا وہ بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔ اسکی پلکوں میں لرزش نہیں تھی۔۔ اگر اسکے سامنے آنکھیں نہ بند کی ہوتیں تو وہ یہی سمجھتا کہ گہری نیند سو رہی ہے۔۔ وہ ٹھنڈی سانس بھرتا واپس مڑا پھر ٹھٹک کر پلٹ کر دیکھنے لگا۔۔
اس ساکت پڑی گڑیا سی لڑکی کی آنکھوں سے قطرے نکل نکل کر تکیئے میں جزب ہو رہے تھے۔۔ وہ بے آواز مگر زارو قطار رو رہی تھی۔۔

Find the perfect fit with Prime Try Before You Buy

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں گیارہ بجے کے قریب سونے لیٹی تھیں۔۔ اسکی طبیعت کے پہش نظر گوارا نے کمبل نکال دیا تھا۔۔ دو گولیاں نگل کر وہ کمبل میں گھس گئی تھی۔۔
چھائے چھائو۔۔
شب بخیر۔ دونوں نے اپنی اپنی زبان میں ایک دوسرے کو کہا پھر اپنی حرکت پر ہنس دیں
وہ حسب عادت بلاگ کھولنے لگی تبھی اسے ایک پیغام موصول ہوا
پاپا تھے۔۔
پڑھائی پر دھیان دو پریشان مت ہونا وہی ہوگا جو تم چاہو گی۔۔ تمہاری امی کو منع کر دیا ہے میں نے ۔۔ کال کرتا مگر شائد اب تک تو تم سو چکی ہوگی اپنا خیال رکھنا پاپا کی جان پاپا مس یو
اس کے اوپر سے کوئی بوجھ ہٹا تھا۔۔ وہ جزباتی سی ہو کر اٹھ بیٹھی دو تین بار پڑھا پیغام پھر خوش ہو کر زور سے تالی بجا نے کو تھی کہ پاس سوئی گوارا کے خیال سے رک گئ۔۔ وہ لمحوں میں بے خبر ہوتی تھی۔۔ ابھی بھی کروٹ لیئے خر خر کر رہی تھی۔۔
مس یو ٹو پاپا۔۔ وہ موبائل چوم بیٹھی۔۔
زہن ہلکا پھلکا ہوا تو بلاگ لکھنا اور آسان ہوا۔۔
رم جھم برستی بارش۔۔
قطرہ قطرہ مجھ میں اترتے
سب کثافتیں سمیٹ کر۔۔
کیسے تازہ دم سا کر گئ ہے مجھے
جیسے یہ بارش
میرے دل کا احوال جانتی ہے
مجھے خود میں سمیٹ کر
کہتی ہے۔۔
دل ہلکا کر لو
اور میں اپنا آپ اسکے سامنے کھول کر
جی بھر کر روئی
اپنے سب آنسو بارش کے پانی میں بہا تے میں
ہلکی پھلکی ہوگئ
جیسے اس بارش سے بڑھ کر میرا کوئی غم خوار نہیں
جیسے یہ بارش ہے میری
سہیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کمنٹ
ایڈمن خیر ہے سموگ سے برا حال ہوا پڑا اس بار تو بارش لگتا ہو گی ہی نہیں
دوسرا کمنٹ
جی بھر کر رونا ہے بارش ہی نہیں ہوتی ہے میرے شہر میں
تیسرا کمنٹ
بارش تو ہو نہیں رہی تم رو رو کر ہی سموگ بہا دو کتنے لوگ بیمار ہو رہے ہیں
چوتھا کمنٹ
اچھا یہ تمہارے آنسو بہہ رہے تھے بارش کے ساتھ میری گلی کا گٹر جبھی بند ہو گیا
پانچواں۔۔
میرا تو رزلٹ آگیا میں نہیں رویا تم کیوں رو رہی ہو۔۔
چھٹا کمنٹ۔۔
انگریزی ترجمہ پلیز۔۔
یہ وہی عجیب سے نام والا علی
اس نے سوچا اب اسکا کیا انگریزی ترجمہ کرے
اس نے جب تک سوچ سوچ کر ترجمہ کیا کوئی من چلا کر چکا تھا ترجمہ
اور ترجمہ ایسا تھا کہ پہلے تو سوچا غصہ کر لے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Its raining cats and dog
But pouring inside me drop by drop
Cleansing polution inside me
Made me feel fresh
As this rain knows whats bothering me
So it hugged me
And say light ur heart
And i opened my heart
Cried my tears mixed with rain
I becam light weight
As this rain is my girl friend
علی نے پوری نظم پڑھی خوب انگریزی تھی۔۔ نیچے ایڈمن نے بھی کمنٹ کیا تھا بہت مزاحیہ۔۔ ساتھ غصے والا اسمائیلی
اس نے جوابا لکھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دس میڈ مائی ڈے ۔۔
وہ مسکرادی۔۔
مجھے خوشی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش اب موسلا دھار نہیں ہو رہی تھی ہلکی ہلکی بوندا باندی سرد ہوا دور دور تک بارش سے دھلی شفاف تارکول کی سڑک اکا دکا گزرتی گاڑی اسٹریٹ لائیٹ کی روشنی اور ایک اجنبی راہوں کا مسافر ۔۔۔
دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اسے کوئی جلدی نہ تھی۔
جانے کیا کیا سوچ دماغ میں آ رہی تھی کہ ضبط کرتے کرتے بھی وہ ہنس پڑا تھا۔۔ اسکے بالوں پر بارش کے قطرے ٹھہر سے گئے تھے۔۔ اس نے کسی خیال کو جھٹکا پھر رک کر آسمان کو دیکھنے لگا۔۔
ننھی ننھی بوندیں چہرے پر گر رہی تھیں اور اسکے اندر خوشیوں کا نیا جہان آباد ہو رہا تھا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔۔
جاری ہے۔۔۔

Kesi Lagi apko salam korea ki yeh qist? Rate us below

Rating

سلام دوستو۔کیا آپ سب بھی کورین فین فکشن پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ 

کیا خیال ہے اردو فین فکشن پڑھنا چاہیں گے؟ 

آج آپکو بتاتی ہوں پاکستانی فین فکشن کے بارے میں۔ نام ہے 

Desi Kimchi ..

دیسئ کمچی آٹھ لڑکیوں کی کہانی ہے جو کوریا میں تعلیم حاصل کرنے گئیں اور وہاں انہیں ہوا مزیدار تجربہ۔۔کوریا کی ثقافت اور بودوباش کا پاکستانی ماحول سے موازنہ اور کوریا کے سفر کی دلچسپ روداد

پڑھ کر بتائیے گا کیسا لگا۔ اگلی قسط کا لنک ہر قسط کے اختتام میں موجود یے۔۔

Exit mobile version