Site icon Urduz Web Digest

Mungtay (maangnay walay) urdu suspense afsana about graveyard (qabrustan)

منگتے۔۔۔ 


جھٹپٹے کا وقت۔ اندھیرا برق رفتاری سے اپنے پر پھیلا رہا تھا ۔شہر خموشاں میں مہیب چپ طاری تھی ۔ پر

دور کہیں ایک نوجوان ایک قبر پر بے سدھ اوندھا پڑا تھا۔ دور کہیں کتے بھونکے تھے ۔ سناٹے نے ناگواری سے اس آواز کے منبع کو گھورا ۔ بے ہوش 
پڑے انسان کے کان پر جوں تک نہ رینگی تھی
قریبی مسجد سے مولوی نے گلا کھنکھار کر اذان دینا شروع کی۔
اللہ و اکبر ۔مدہوش پڑے جسم میں یوں حرکت ہوئی جیسے خدا کے نام سے سوکھے تنوں میں جان پڑگئ۔ گہری سانس لیکر عابد اٹھ کھڑا ہوا ۔
ایک اور دن تمام ہوا۔ اسکی توانائی اتنی سی بڑبڑاہٹ میں پوری ہو چلی۔ اس نے گہری سانس لیکر اپنی تمام تر ہمت مجتمع کی ۔اور پوری جان لگا کر پکار بیٹھا۔۔ 
کوئی ہے جو مجھ پر رحم کرے۔۔۔ ؟؟؟

کلمہ شہادت۔۔ 
کسی نے اونچی آواز میں پکارا۔ جنازہ اٹھائے لوگوں کا ایک گروہ چلا آرہا تھا۔ غمگین چہرے بھرائی آواز میں کلمہ شہادت دھراتے ۔دور تازہ کھدی قبر بنانا گورکن ہوشیار ہوا۔ پھائوڑا رکھ کر مئودب ہو کر کھڑا ہوگیا۔  ہر آتا جنازہ اسے دنیا کے فانی ہونے کا احساس دلاتا تھا۔ ایک دن یہیں کوئی اور کھڑا میری قبر کھود رہا ہوگا۔ خیال زور آور تھا۔ خوفناک بھی۔ پہلو بدل کر گورکن  نے اپنی سوچوں سے پیچھا چھڑانا چاہا۔لوگوں نے۔ جنازہ قبر کے قریب لاکر احتیاط سے رکھا۔ اور دفنانے کی تیاری کرنے لگے۔

عابد ان سب پر نظر جمائے ایسا ہی ایک وقت یاد کر رہا تھاجب اسکی نظر لوگوں سے کچھ دور ہٹ کر کھڑے شخص پر پڑی۔ ملول اداس سا وہ جنازے پر نظر جمائے کھڑا تھا۔عابد اسکے پاس چلا آیا اسکے قریب جا کر کندھے پر ہاتھ رکھا تب جاکے وہ چونکا
عابد نے دوستانہ انداز میں دیکھتے ہوئے مصافحے کو ہاتھ بڑھایا۔ 
اسلام و علیکم کیا حال ہے؟ میرا نام عابد ہے اور آپکا؟۔۔
جہانگیر بے ساختہ ہنس دیا۔اسکی ہنسی میں کاٹ سی تھی۔ 
سلامتی بھیج رہے ہو؟ اب مجھے ضرورت نہیں ۔۔ جہانگیر کہتے ہیں مجھے۔ عابد مسکرا دیا۔ ہر نفس سلامت رہتا ہے کبھی قبرستان کے پاس سے گزرتے بھی زی نفسوں کو سلام کیا جاتا ہے اسلام و علیک یا اہل قبور۔۔ اور وہ جواب دیتے ہیں۔۔ 
جہانگیر زندوں اور مردوں کی اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا تھا۔۔ بائیں ٹانگ پر جسم کا بوجھ ڈالتا پہلو بدل کر یونہی بیزاری سے جنازہ دفن ہوتے دیکھتا رہا۔اسکے روکھے پھیکے انداز پر عابد کافی حیران ہوا۔اسکی توانائیاں بحال ہوئی تھیں مگر بہت زیادہ نہیں سو وہیں تھک کر ایک قبر پر بیٹھ گیا دونوں بازو گھٹنوں پر ٹکائے ۔خود بھی جنازے پر نگاہ جما دی۔۔ 
چند لمحے گزرے ہونگے اسے خیال آیا تو رخ موڑ کر جہانگیر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
تمہیں مجھ سے کچھ پوچھنا نہیں ہے؟
عابد کے کہنے پر جہانگیر نے ایک نظر اسے دیکھا پھر خود بھی جیسے کھڑا کھڑا تھک چکا تھا آکر اسی کے برابر بیٹھتے ہوئے بولا۔۔
اب مجھے کچھ جاننے کی احتیاج نہیں ہاں بتانے کی خواہش ہے زمان و مکاں کی حیثیت قدر قیمت سب بتائوں گا کوئی پوچھے تو سہی۔
اسکی بات پر عابد قہقہہ لگا کر ہنسا تو ہنستا ہی چلا گیا۔” کوئی کچھ نہیں جاننا چاہتا ہے نہ پوچھنا چاہتا ہے اسی خواہش میں میں بھی روز اس قبرستان کا چکر لگاتا ہوں مگر لوگ خود تجربہ کرکے جاننا چاہتے ہیں نہ ہم سے پوچھتے ہیں نہ دیکھ کر عبرت لیتے ہیں۔
ہنستے ہنستے رک کر وہ بہت سنجیدگی سے کہتا کہتا رنجیدہ ہوچلا تھا۔۔جنازہ دفن ہو چکا تھا قبر کی مٹی برابر کر دی گئ تھی لوگ پلٹنے لگے تھے ایک شخص قبر سے لپٹ کر بیٹھ گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔چند لوگ دلاسے کو آگے بڑھے کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا کوئی گلے سے لگانے لگا۔صبر کرو جو اللہ کو منظور۔ 
یقینا اسکا مرنے والے سے قلبی رشتہ تھا عابد نے تجسس سے مغلوب ہو کر جہانگیر کوٹہوکا دیا۔
یہ کون ہے؟لگتا ہے اسے بہت صدمہ ہوا ہے۔
جہانگیر نے متاثر نہ ہونے والے انداز میں سر جھٹکا ۔چھوٹا بھائی ہے میرا۔ تین سال سے ہماری بول چال بند ہے۔ جائداد کی تقسیم پر اس نے مجھ پر حق سے زیادہ غصب کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اب ایسےرو رہا ہے جیسے۔۔ 
بولتے بولتے جہانگیر کے دل سے ہوک سی اٹھی جملہ ادھورا چھٹا آنسو گالوں پر ڈھلک آئے۔عابد نے سمجھ کر دلاسادینے والے انداز میں اسکے کندھے پر تھپکی دی۔ 
یہی تو خون کی کشش ہوتی ہے ماں جائے کو تکلیف پہنچتی ہے تو دل تڑپ اٹھتا ہے ۔ تین سال پہلے میرا بھائی مجھ سے ملنے آیا تھاٹانگ پر پلستر تھا بیساکھی اور بھتیجے کے سہارے آیاتھا۔  اسے دیکھ کر تڑپ اٹھاتھا میں ضرورت کیا تھی اسے اتنی صعوبت جھیلنے کی مگر مجھے بھولا نہیں خود تکلیلف میں مگر مجھ سے ملنے آیا۔ اتنی محبت کرتا ہے مجھ سے
اسکے انداز میں کہتے کہتے تفاخر عود آیا آنکھوں میں وہ منظر یوں تازہ تھا جیسے کل کی بات ہو۔جہانگیر کو اچنبھا ہوا۔
تین سال؟ تین سال سے تم سے ملنے تمہارا بھائی بھتیجا وغیرہ نہیں آئے اور تم کہتے ہو وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔۔ 
عابد اسکی حیرانی پر مسکرا اٹھا۔۔
محبت نہ کرتا تو یوں بیمار حال ملنے آتا مجھ سے؟ ہاں مصروف زندگی ہونگے زندگی کتنی تو تیز رفتار ہے کہاں روز روز پیچھے چھٹ جانے والوں کا خیال آتا ہے۔ کبھی کبھی آجائے بہت ہے۔مرنے والوں کو تووقت ٹھہرا ہے یا تیز چل رہا ہے کیا پتہ۔۔
جہانگیر ابھی بھی ماننے کو تیار نہ ہوا۔
پھر بھی تین سال بڑی مدت ہوتی ہے۔عابد اسکی حیرانی سمجھ رہا تھا یہ وہ منزل ہے جہاں حیرانیاں ہی حیرانیاں منتظر ملتی ہیں سمیٹے جائو۔۔ مگر بولا تو بس اتنا “انکیلئے۔۔ ہمارے لیئے تو پلک جھپکنے جتنا وقت ہے”
جہانگیر نے خاموشی میں پناہ لی۔ دور روتے لوگوں میں اسکا بھائی نمایاں تھا ابھی بھی بلک رہا تھا۔ 
جہانگیر تلملایا۔ روئے جا رہا ہے سالا مرے گا پہلے ہی دل کا مریض ہے”
عابد نے پھر محظوظ قہقہہ لگایا۔ 
سہہ چکا یہ صدمہ اسکا دل۔۔ کوئی نہیں مرتا کسی کے لیئے۔البتہ تم اب تل تل مروگے ان لوگوں کو دیکھنے کیلئے بھی۔۔ جائو آخری بار دیکھ لو جی بھر کر کچھ تو اب دوبارہ کبھی نظر نہ آئیں گے۔
جہانگیر کے بھائی کو چند لوگ سہارا دے کر قبرستان سے باہر لے جا رہے تھے۔ 
ایسا نہیں ہو سکتا۔ 
جہانگیر کو اسکا قہقہہ اسکا انداز اسکے جملے سب ناگوار لگے مگر جانے اب اتنا غصہ وہ آگ وہ چڑ جو اسکی ذات کا خاصہ تھی زات کے کس کونے میں جا چھپی تھی۔ بولا تو انداز پر سکون سا تھا۔۔ 
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔ بہن بھائیوں میں سب سے پہلی موت ہے میری دور و نزدیک سب ہی تو آئے ہیں۔مجھے دفنا کر اتنا رو رہے مجھے بھول تھوڑی جائیں گے۔ بہت وسیع حلقہ احباب ہے میرا سب رشتے دار نہیں تھے جو آئے میرے ہی کتنے دوست۔۔ 
جہانگیر کافی ہشاش بشاش اور ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا خود کو بولتے بولتے عابد کا  ستا ہوا چہرہ دیکھا تو چپ ہو رہا۔ وہ اسے جتانا تھوڑی چاہ رہا تھا یہ تو بس حقیقت بیان کی تھی اس نے۔۔۔ عابد اسے رشک بھری نگاہ سے  دیکھ رہا تھا۔ صاف شفاف آر پار دکھائی دیتی روح۔ حسد جلن جیسے جزبے تو موت کے ساتھ ہی مر چکے تھے۔ اب کیا مقابلہ کون کتنا چاہا جاتا کتنا دھتکارا جاتا۔ اب تو بس مٹھی بھر اعمال تھے جو زاد راہ تھے کسی کی ہتھیلی بھری کسی کی خالی جس کی بھری وہ سمیٹے ہتھیلی خالی ہونے کے خوف سے کانپتا خالی ہتھیلی والا بس صبر سے اپنوں کا انتظار کرتا کچھ دعائیں ڈال جائیں یہ منزل آسان ہو جائے۔
تمہاری پہلی رات ہے گھبرانا مت ۔ویسے خوش نصیب ہو جو اتنے ہشاش بشاش ہو لوگوں کی دعائیں  ساتھ ہیں۔ میں تو سڑک حادثے کا شکار ہوا تھا۔شناخت ممکن نہیں تھی۔ دو دن بعد گھروالوں کو اطلاع ہوئی تو میری لاش وصولنے آئے ۔عابد کا انداز ایسا تھا جیسے کسی اور کے بارے میں بتا رہا ہو۔ بے تاثر عام سا لہجہ۔ جہانگیر نے اسکی شکل پر دکھ تلاشنا چاہا مگر وہ مطمئن نظر آتا تھا۔۔ 
جہانگیر کو ترس پھر بھی آیا۔ 
کیسا بد نصیب ہے بے چارہ پہلے گھر والے لاش تک دیر سے پہنچے اب دفنا کے بھول چکے ہیں۔۔ 
عابد اسکی نظریں خود پر جمی دیکھ کر سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ 
جہانگیر نے گڑبڑا کر موضوع بدلا
میں نے سنا ہے پہلی رات بہت مشکل ہوتی یے قبرستان میں؟ واقعی؟ تمہاری پہلی رات کیسی تھی؟
عابد گہری سانس لیکر کھڑا ہوگیا۔۔ 
قبرستان اب خالی ہو چکا تھا گورکن بھی اپنا پھائوڑا اٹھائے تیز تیز قدم اٹھاتا قبرستان سے نکل رہا تھا۔ ہر طرف دل کو دہلا دینے والی چپ کا راج تھا سناٹا اندھیرا۔۔ 
عابد نے چند لمحے سوچا۔۔ 
لفظوں میں کیا بیان ہو سکتی ہے اس دن کی وہ کیفیت؟ جہانگیر اب بھی منتظر نظروں سے دیکھ رہا تھا۔اس نے جملے ترتیب دیئے پھر ایک اور آہ بھر کے کہنے لگا۔
تنہا اکیلی اداس دہشت ناک اذیت ناک اپنوں سے دور اس اجاڑ بیابان میں تنگ اندھیری سی قبر کیسی ہو سکتی؟
اس نے لمحہ بھر کا توقف کیا پھر جہانگیر کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا
دس سال سے ہوں یہاں مگر آج تک پہلی رات نہیں بھولا جب یاد آئی پوری جزئیات کے ساتھ ایک ایک لمحے کی یاد  
وہ کہہ کر رکا نہیں ۔۔
جہانگیر کا رواں رواں ہمہ تن گوش تھا۔ ایک خوف کی اجنبی لہر نے پھریری سی دوڑا دی تھی۔ 
مگر یہ عابد۔۔ اس نے اب غور کیا۔ اسکی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی وہ بہت نحیف اور کمزور دکھائی دیتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمان و مکاں انکیلئے کوئی اور ہی گھمن پھیریاں چلا رہا تھا۔ ایک دن گزرا مہینہ چالیسواں ہو گیا۔ عابد کی ایک بات سچ ثابت ہوئی سب نہیں آئے چالیسویں پر بھی کتنے ہی عزیز دوست اقارب وہ تلاشتا رہا۔ وہ نہیں آئے جن کا دکھ دیکھ کر لگتا تھا کہ شائد وہ غم کے مارے جلد اسکے پڑوس آبسیں گے۔ تو وہ وہ لوگ بھی آئے جن کے بارے میں گمان تھا کہ شائد جنازے پر خوشی سے شادیانے بجائیں گے۔ اتنے ملول نظر آئے کہ اپنے گمان پر پشیمانی ہونے لگی۔ مگر ابھی لوگ بھولے نہیں تھے اسے۔ جہانگیر اب بھی خوش تازہ دم دکھائی دیتا تھا۔ گالوں پر سرخی تھی۔ محبتوں سے مالا مال وہ جب عابد کو اپنی ہی قبر کا سہارہ لے کر اٹھتے دیکھتا چہرے پر نیرگی زمانہ کی دھول مٹی سے اٹے کپڑے پیلے زرد چہرے سے وہ نقاہت سے لڑکھڑاتا جب بھی جہانگیرسے نظر ملتی خوش دلی سے ہاتھ ہلاتا پھر بازو پکڑ کر وہیں بیٹھ رہتا۔ جہانگیر ترس بھری نگاہ سے دیکھتے پوری کوشش کرتا کہ جہانگیر انکو پڑھ نہ پائے مگر روح تو آئینے جیسی ہوتی ہے پردے کون ڈال سکتا بھلا چالیسویں کے بعد  لوگوں کا آنا کافی کم ہوگیا تھا۔ہاں ابھی وہ اپنوں کی دعائوں میں زندہ تھا۔۔سو خوش تھا۔۔ مگر کب تک؟۔وقت گزر رہا تھا اسکی توانائیاں کم ہونے لگی تھیں۔ اب وہ پہلے سا ہشاش بشاش نہیں رہا تھا۔ قبرستان میں لوگوں کی آمد جاری و ساری تھی مگر سب اجنبی شکلیں۔نئے آنے والوں تک جانےکی ہمت نہ رہی پڑوس میں تو سب جیسے مرےپڑے تھے۔پڑے تھے بھی یا کہیں اور کا راستہ ناپ چکے تھے۔ بس ایک قریب عابد ہی کھانستا نظر آجاتا تھا۔۔ یہی حال رہا تو جلد اسکا حال بھی عابد جیسا ہی ہوجانا تھا۔۔۔اس نے جھر جھری سی لی۔ اسے سردی سی محسوس ہو رہی تھی بلکہ سرد مہری ذیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ وہ کسی ننھے بچے کی طرح خود کو سمیٹ سکیڑ کر قبر سے ٹیک لگائے اکڑوں سا بیٹھ رہا تبھی کوئئ اوکے پاس آکھڑا ہوا۔ اس نے دھیرے سے سر اٹھایا ۔ 
عابد تھا  آج تو جہانگیر سے بہتر حالوں میں  دکھائی دیتا تھا۔گرم چادر اوڑھے۔ 
سردی لگ رہی ہے؟۔
جہانگیر نے کانپتے ہوئے سر ہلایا۔ وہ اپنی چادر پھیلا کر اسے بھی گھیرے میں لیتا ہوا پاس بیٹھ گیا۔۔ 
یہ تمہارے پاس کہاں سے آئی؟۔ وہ پوچھے بغیر نہ رہ سکا۔
میرے بھائی نے میرے نام سے کچھ اشیاء خیرات کی ہیں۔میرا بھائی مجھے بھولا نہیں ہے
عابد کا انداز جتانے والا نہیں تھاسادہ سا تھا ۔
ہاں محسوس کی جانے والی یاسیت تھی۔ جہانگیر کے دل پر بوجھ آن گرا۔
میرا بھائی لگتا ہے مجھے بھول گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پھر کسی کی آمد کی تیاری تھی۔ دور گورکن نئی قبر کھود رہا تھا۔بیچ دوپہر تھی قبر پر سایہ بھی نہیں تھا تیز دھوپ سیدھا گورکن کے چہرے پر پڑھ رہی تھی۔لال بھبھوکا چہرہ محنت سےچمکتے پسینے کے قطرے۔۔۔زندگی کی علامت۔ جہانگیر اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔اب اسکا حال بھی عابد جیسا ہوچکا تھا۔ چہرے سے برسوں کا بیمار نظر آتا تھا۔
کیا ہے اس گورکن کے چہرے پر تھکن پریشانی اور۔  وہ سوچ میں پڑا۔
ہاں زندگی ہے۔۔ 
تبھی کسی نے گرم جوشی سے اسکا کندھا دبایا اور دھپ سے پاس آن بیٹھا
جہانگیر نے چونک کر گردن موڑی عابد تھا۔ آج تو عابد کی چھب ہی نرالی تھی۔ صاف ستھرے سفید براق لباس میں نک سک سے تیار چہرے پر بشاشت صحتمندی کی سرخی۔جہانگیر حیران ہی رہ گیا۔
اسکی حیرانگی دیکھ کر عابد کھل کر مسکرادیا۔
پھر سامنے گورکن کو دیکھ کر بولا 
لگتا ہے تمہارے لیئےکسی نئے پڑوسی کی آمد کا انتظام ہو رہا ہےاچھی بات ہے تم میرے بعد تنہائی محسوس نہیں کروگے
جہانگیر چونک گیا
تمہارے بعد؟تم کہیں جا رہے ہو؟
عابد آج بہت خوش دکھائی دیتا تھا۔ 
ہاں وقت پورا ہو گیا میرا۔ ان سب کی طرح اب میرا بھی جانے کا وقت آگیا۔ اس نےانہی اجاڑ قبروں کی جانب اشارہ کیاتھا۔
میرے بھائی نے میرے لیئے قبول حج کیا ہے۔میری سزا مئوخر ہوئی اب میں اگلی منزل کی تیاری میں ہوں۔جہانگیر کے چہرے پر پھیکی مسکراہٹ آئی اپنے ہی کہے الفاظ یاد آئے
کیسا بد نصیب ہے بے چارہ پہلے گھر والے لاش تک دیرسے پہنچے اب دفنا کے بھول چکے ہیں۔
سوچوں سے پیچھا چھڑاتے اس نے بڑے خلوص سے مبارکباد دی۔
بہت بہت مبارک ہو اللہ اگلی منزل بھی آسان کرے ۔انسانوں نے تو بڑی راہ دکھائی۔ خدا تو آسانیاں ہی دے گا۔
اسکے چہرے ہر سچی خوشی تھی۔عابد کھل کر مسکرادیا۔
اللہ تمہاری منزلیں بھی آسان کرے گا۔ اچھا اب میں چلتا ہوں اور دیکھو کیا بروقت تمہارے لیےدوسرے ساتھ کی آمد ہوئی ہے۔
عابد کے کہنے پر اس نے سامنے دیکھا چند لوگ جنازہ اٹھائے قبرستان میں داخل ہورہے تھےان سے پرے ایک شخص سر جھکائے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا چلا آرہا تھا۔
اللہ حافظ۔ 
عابد کہہ کر جنازے کی جانب بڑھ گیا۔ یہ اسکی عادت تھی اب تک ہر آنے والے سے اس نے عابد کو یونہی ملتے دیکھا تھا گرمجوشی۔ سے۔
جہانگیر وہیں بیٹھا دیکھتا رہا۔ جاتے جاتے عابد نے نووارد کے کندھے پر تسلی دینے والے انداز میں تھپکا ۔ لمس اتنا ہلکا پھلکا تھا کہ نوواردکو محسوس بھی نہ ہوا عابد یونہی ہوا میں دیکھتے دیکھتے اوجھل ہوا۔
تو سب یہاں سب دیکھ بھی نہیں سکتے۔ آج جہانگیر پر انکشاف ہوا اسکے گرد اتنا سناٹا کیوں تھا۔ اسکی پڑوس کی قبروں کے مکین کہاں مر چلے تھے۔جو نظر نہ آتے تھے یہ 
کہ اب اسکا مرحلہ بھی اگلا ہے۔ وہ اپنی زمہ داری سمجھتا اٹھ کھڑا ہوا رخ نووارد کی جانب تھا لوگ با آواز بلند کلمہ شہادت کا ورد کرتے جنازہ دفنا رہے تھے۔ نووارد چپ چاپ قبر پر نگاہ جمائے تھا۔
جہانگیر اسکے پاس والی قبر پر ٹک کر بیٹھتے ہوئے بولا
اسلام وعلیکم میرا نام جہانگیر ہے اور آپکا؟
نووارد نے چونک کر دیکھا پھر بے تابی سے اسکو کندھے سے پکڑ کر اپنی جانب رخ موڑا بلکہ جھنجھوڑ ڈالا 
سنو تم کب سے ہو یہاں؟ کیسی جگہ ہے یہ؟ میں نے بہت کچھ سنا ہے اسکے بارے میں کیا وہ سب سچ ہے؟ پہلی رات کیا واقعی بھیانک ہوتی ہے؟
بولو نہ جواب دو۔
جہانگیر نے بمشکل اسکے بازو پکڑ کر اسے ٹھنڈا کرنا چاہا۔آرام سے دھیرج رکھو۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اسے نظروں سے ٹٹولتے ہوئے جہانگیر نے اسکے بازو 
آرام سے پیچھے کیئے سنبھل کر بیٹھا ۔
نظریں دور جنازہ دفناتے لوگوں پر تھیں کوئی قبر سے لپٹا رو رہا تھا۔  مالک کے سوال ختم نہ ہوئے تھے
تم کب سے ہو یہاں۔؟
جہانگیر نے آہ بھرئ۔6 سال ہورہے ہیں مجھے
مالک نے بے تابی سے پوچھا۔
ملنے آتے ہیں اپنے؟
قبر پر بیٹھا رونے والا دھاڑیں مار رہا تھا۔
جہانگیر  نے نگاہ چرائی
دو سال پہلے بھتیجا آیا تھا سنا ہے بھائی کی طبیعت خراب ہے اسلیئے آنہیں سکا۔
زیر لب بڑبڑایا
روحیں تو جھوٹ بھی نہیں بول سکتیں
مالک نے پھر پوچھا
تو تمہارے گھر والے ایصال ثواب کیلئے کچھ کرتے؟
جہانگیر نے پھر آہ بھری
زندوں کے سو جھمیلے کہا ں فرصت مجھے یاد میں خود بزرگوں کیلئے سال میں ایک آدھ بار کبھی زکر نکل آنے پر فاتحہ پڑھ دیتا تھا یا خیرات کردیا کبھی کون روز روز یہ کام کرتا ہےزندگی میں

جہانگیر کا انداز استہزائیہ تھا۔ وہی کچھ ملے گا جو کچھ دوگے۔۔ 
مالک سٹپٹایا
میں نے تو زندگی میں بس ایک بار داداجی کے چالیسویں پر سپارہ پڑھا تھا اب جانے میرے لیئے کون کچھ۔۔ 
قبر سے لپٹ کر رونے والے کو لوگ اٹھا کر اب قبرستان سے باہر لے جا رہے تھے جہانگیر نے بات کاٹ دی
سنو تم آخری بار ان سب سے مل آئو۔پھر جانے ان میں سے کسی سے دوبارہ ملنا ہو نہ ہو
مالک پہلے تو سمجھا نہیں پھر سر ہلاتا انکی جانب بڑھ گیا
قبرستان کے داخلی در پر کھڑا ایک ایک کو اپنے لیئے آنسو بہاتا دیکھتا خوش ہوتا رہا سب چلے گئے تو مڑ کر جہانگیر کودیکھا
جہانگیر اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ خود جہانگیر کے برعکس بہت بہتر حال میں تھاجہانگیر نظریں ملنے پر بھر پور انداز میں مسکرایامگر اسکے چہرے کی زردی نمایاں تھی۔ وہ خود تو فی الحال دعائوں کے حصار میں خود کو چاق و چوبند محسوس کر رہا تھامگر یہ جہانگیر۔۔ اس نے تاسف سے سوچا
میرے ساتھ تو لوگوں کی دعائیں ہیں اسلیئے بہتر حالوں میں ہوں یہ بے چارہ کیسا بد نصیب ہے کوئی دعا میں یادنہیں کرتا جیسے اسے دفنا کے بھول ہی گئے ہیں۔۔۔


ختم شد


written by vaiza zaidi {hajoom e tanhai}

> » Home » Afsanay (short urdu stories) » Suspense/Mystry Urdu Stories » Mungtay (maangnay walay) urdu suspense afsana about graveyard (qabrustan)
Exit mobile version