شکووں کے ساتھ لب پہ ترا نام ہی تو ہے
ہے تو سہی مذاق وفا ، خام ہی تو ہے
وہ ، دور افق پہ ، ہی ابھی دھندلی سی ایک کرن
اے دل ذرا ٹھہر کہ ابھی شام ہی تو ہے
ہم، تم سے دور رہ کے بھی . جیتے ہیں آج تک
یہ بھی بہ فیض گردش ایام ہی تو ہے
ہاں مجھ کو یہ شکستگی دل بھی ہے عزیز
آخر یہ اپنے شوق کا انجام ہی تو ہے
یو ہو رہے ہیں میرے غم دل کے تذکرے
جسے کسی کا غم کوئی دشنام ہی تو ہے
اتنی بھی شمیم سے نفرت نہ کیجیے
وہ بد خصال تو نہیں بد نام ہی تو ہے
از قلم زوار حیدر شمیم