Site icon Urduz Web Digest

woh kon thi |Saheliyon Se Chupaya Hua Raaz |urdu horror story

وہ کون تھی؟؟؟

نیہا اپنی سہیلیوں کے ساتھ کالج ٹرپ پر شمالی علاقہ جات کی سیر کو آئی تھیں۔ سارا دن انکا پہاڑوں پر تصویریں بناتے ہنسی ٹھٹھول کرتے گزرا تھا ۔ آخر اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ پر مغرب کے قریب ہوٹل واپسی ہوئی تھی۔پرائیویٹ کالج تھا خوب پیسے اینٹھے تھے انکے والدین سے جبھی پچیس لڑکیوں کیلئے کمرے بھی دو دو کے حساب سے بک کئے گئے تھے۔ فرسٹ اور سیکنڈ ائیر دونوں کلاسز کو لیکر گئ تھیں بہت سے والدین نے تو بھیجنے سے منع کردیا تھا مگر نیہا کے والدین کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بلکہ اپنی سہیلیوں  شمائلہ، عالیہ اور لیلی کے والدین کو بھی نیہا نے ہی منایا تھا۔جانے کیا سحر پھونکا تھا اپنی بچیوں کو ڈانٹ کر چپ کرادینے والے والدین نیہا کے آگے ایکدم چپ ہو گئے تھے اور میکانکی انداز میں اجازت نامے پر دستخط کر دیئے تھے۔سب سے ذیادہ حیران تو لیلی ہوئی تھی۔ اسکول کے زمانے میں بھی والدین نے کبھی اسے کسی ٹرپ پر جانے نہیں دیا تھا۔ اور نیہا کے ایک دفعہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے پر کہ لیلی کو ہمارے ساتھ ٹرپ پر جانے دیں اسکے والدین نا صرف خاموشی سے مان گئے بلکہ جیب خرچ بھی دیا تھا لیلی کو۔ لیلی تو خوشی سے نیہا سے لپٹ ہی گئ تھی۔ بہت شکریہ میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔ نیہا مسکرا دی 

ساتھ تنبیہہ بھی کردی تھی کہ آئندہ مجھ سے دور رہنا۔ 

اسے بالکل بھی چھوئے جانا پسند نہیں تھا۔ لیلی نے کان پکڑ کر سوری کہا تھا۔ نیہا ان سے ہاتھ بھی نہیں ملاتی تھی بس دور سے سلام کرنا پسند تھا اسے۔ شائد اسکی وجہ یہ رہی ہو کہ شروع شروع میں جب اس سے ہاتھ ملاتی تھیں تو اچھل پڑتی تھیں۔ اسکے ہاتھ غیر معمولی طور پر نرم تھے۔جیسے اس نے کبھی ہل کر پانی نہ پیا ہو۔ 

شمائلہ نے تو حیران ہو کر یہ بھی کہہ دیا تھا کیا تمہارے ہاتھ میں ہڈی نہیں ہے؟ اتنا نرم ہاتھ کیسے ہو سکتا کسی کا جبکہ وہ کوئی موٹی سی لڑکی بھی نہیں تھی بلکہ ان سب میں سب سے نازک سراپا تھا اسکا۔ نیہا نے گہری سانس لی اور ہتھیلی پھیلا دی۔

میرے ہاتھ میں لکیریں بھی نہیں ہیں۔ میں اسی لیئے ہاتھ ملاتی ہی نہیں ہوں پھر لوگ الٹے سیدھے تبصرے کرتے ہیں مجھے اچھا نہیں لگتا۔

اسکی شفاف سپید ہتھیلی انکے سامنے پھیلی تھی اور تینو ں کی حیرت سے آنکھیں ابل سی آئی تھیں اسکے ہاتھ میں بنیادی بس تین لکیریں تھیں قسمت، زندگی اور تعلیم کی او روہ سب بھی ادھوری تھیں۔خوب گہرئ مگر بمشکل ایک پور کی۔ 

اب اگر تم لوگوں نے دوستی کرنی ہے مجھ سے تو میری شرط ہے نا تم میں سے کوئی کبھی مجھ سے ہاتھ ملائے گا نہ کبھی پیچھے سے آواز دے گا اگر میں کبھی نظر آئوں تو آواز دینے کی بجائے تم لوگ پاس آجانا یا میسج کردینا ٹھیک؟

وہ تینوں مان گئ تھیں۔ بہر حال نیہا دل کی بہت اچھی لڑکی تھی۔ کھلا خرچ کرتی تھی ان پر پڑھائی میں مدد ہو یا اچھا کھانا وہ پیش پیش رہتی تھی۔ جبھی وہ تینوں کبھی اس کو ناراض نہیں کرتی تھیں۔ ابھی بھی جزباتی ہو کر لیلی نے گلے لگا لیا تو فورا معزرت کر لی تھی۔

آج سارا دن بھی وہ چاروں اپنا الگ گروپ بنائے پہاڑوں پر گھومتی پھری تھیں۔ نیہا انکو ہر جگہ گائڈ بن کر سیر کرا رہی تھی۔ 

شمائلہ نے کہہ بھی دیا کہ تم تو لگتا ہے یہیں رہتی رہی ہو

 اس نے مسکرا کر سر ہلایا ہا ں یہاں قریب ہی میرا ننھیال ہے اکثر آنا جانا ہوتا ہے یہاں۔ 

غرض خوب تھک تھکا کر وہ جب ہوٹل پہنچیں تو بھوک سے برا حال تھا۔عالیہ اور لیلی کا الگ کمرہ تھا نیہا اور شمائلہ کا الگ لیکن عالیہ اور لیلی اپنا سامان کمرے میں رکھ کر بس اپنے ہینڈ بیگ اٹھا کرانہی کے کمرے میں آگئ تھیں۔ باتیں کرتے وقت گزرنے کا پتہ نہ لگا۔ انکی کلاس فیلو نے آکر انہیں کھانے کیلئے بلایا تو اکٹھی ہی چاروں نیچے آئیں کھانا کھانے مگر  ہوٹل کا کھانا انکو پسند نہیں آیا۔۔ 

عجیب ہیک زدہ اوپر سے بکرا یا دنبہ پکا تھا جو ان تینوں کو بالکل پسند نہیں آیا سو ایک دو نوالے لیکر اٹھ گئیں۔ 

نیہا یہاں بھی مدد کو آئی ۔ انکی پسند پوچھ کر 

 نیہا نے اپنے کزن سے کہہ کر گھر سے کھانا منگوا لیا۔ وہ تینوں منع کرتی رہیں مگر نیہا نے مان بھرے انداز میں یہ کہہ کر کہ اسکو کوئی مسلئہ نہیں ویسے بھی چونکہ اسکا ننھیال یہاں ہے تو وہ سب اسکی مہمان ہیں۔ اسکے خلوص پر انہیں خاموش ہونا پڑا۔نیہا کا کزن بھی خوب پھرتیلا تھا انکو ذیادہ انتظار نہیں کروایا۔ پندرہ بیس منٹ میں ہی وہ ہوٹل کے باہر موجود تھا۔نیہا خود جا کر کھانا لیکر آئی کیونکہ ہوٹل کے اندر کوئی باہر کا داخل ہو نہیں سکتا تھا۔ ان تینوں نے کھڑکی سے ہی جھانک کر دیکھا اسکا کزن خوب لمبا چوڑا سا تھا۔ انکو اوپر کی منزل سے نیچے جھانکتے جانے اسے محسوس ہوگیا کیا مسکرا کر ہاتھ بھی ہلا دیا۔ نیہا نے چونک کر مڑ کر دیکھا تو وہ تینوں خفت ذدہ سی ہوگئیں کیا سوچتی ہوگی ہم اسکے کزن کو تاڑ رہی ہیں۔ جھٹ کھڑکی بند کرکے اندر بیڈ پر آبیٹھیں۔ تبھی نیہا دروازہ کھولتی اندر آگئ۔ انہیں جتائے بنا کھانا لا رکھا۔ کباب مرغ کڑاہی اور تلے ہوئے نان   ۔ غرض اچھی خاصی دعوت ہوگئ انکی۔ 

اتنا مزیدار تکہ میں نے آج تک نہیں کھایا۔

عالیہ نے چٹخارا  بھرا تو شمائیلہ اور لیلی نے بھی تائید کی۔ 

نیہا مسکرا دی۔

کھانا بہت ذیادہ نہیں تھا بلکہ ایک نظر دیکھنے میں لگتا تھا کہ چار لوگوں میں کم پڑ جائے گا مگر ان چاروں نے سیر ہو کر کھایا۔ 

خدا کا شکر ادا کیا۔۔۔ نیہا نے ان سب کیلئے کافی آرڈر کردی تھی کھانا ختم ہوتے ہی کافی بھاپ اڑاتی سامنے تھے۔

سردی میں کافی سے بہتر کوئی چیز ہو نہیں سکتی  

شمائلہ نے گھونٹ بھر کر فتوی داغا۔

ساتھ ڈرائی فروٹس ہوں تو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔ نیہا نے بیگ سے چلغوزے نکال کر سامنے رکھ دیئے۔ پلیٹ بھر کر چلغوزے کھاتے کافی پیتے انہیں کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ اچانک ایک کونے میں رکھا شمائلہ کا بیگ خود بخود دھڑام سے گر گیا۔ وہ چاروں چونک کر مڑیں۔ نیہا نے گھور کر بیگ کر دیکھا۔

یہ کیسے گر گیا؟ شمائلہ کی خوف سے سرسراتی آواز نکلی۔ 

ہوا سے گرا ہوگا یا ٹیڑھا رکھا ہوگا۔

نیہا نے لاپروائئ سے کہا۔ مگر عالیہ کو غلط وقت پر غلط بات یاد آئئ۔

یار میں نے سنا ہے یہاں شمالی علاقہ جات میں آسیب وغیرہ کا بہت چکر ہوتا ہے۔ میرا کزن اپنے دوستوں کے ساتھ آیا تھا تو اسی ہوٹل میں رکا تھا ۔ بتا رہا تھا ساری رات کمرے میں عجیب آوازیں آتی رہیں کبھی کوئی ادھر سے ادھر جا رہا کبھی کوئی۔۔۔ 

کیا بکواس ہے۔ نیہا نے چڑ کر ٹوکا۔ 

یہ کوئی وقت ہے ایسی باتیں کرنے کا؟ 

ہاں صحیح کہہ رہی ہے ۔ سدا کئ ڈرپوک لیلی نے بھی حمایت کی۔

میں نے سنا ہے ان چیزوں کا ذکر کرو تو آجاتی ہیں ۔ نام بھی نہ لینا۔۔۔

ہم لاحول پڑھ کر بھگا دیں گے ۔ 

شمائلہ ہنس کر بولی۔۔

تم لوگ بھی نا بلا وجہ ڈرتی ہو۔ پتہ ہے ہم کزنز اکٹھے ہوتے ہیں تو ایسے ایسے قصے سناتے ہیں ڈرائونے ساری رات گزرنے کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ اور مزا اتنا آتا ہے مجھے بتائو کیا ہوا تھا تمہارے کزن کے ساتھ۔۔۔۔ 

شمائلہ کی شہہ ملنی تھی کہ عالیہ نے قصہ شروع کردیا۔ لیلی نے خفا ہونا چاہا کان بھی بند کرنے چاہے مگر قصہ دلچسپ تھا سو وہ بھی ہمہ تن گوش ہوگئ۔ 

ہوا کچھ یوں کہ میرا کزن اور اسکے دو دوست یہاں آئے اور نیچے والی منزل پر ایک روم لیا۔ ڈبل بیڈ والا  اب ہوا یوں کہ تینوں تھکے ہوئے تھے آئے اور بس بستر پر گر کر سوگئے۔ کوئی رات کے ایک بجے ہوں گے کہ میرے کزن کا کسی نے کندھا ہلایا۔ وہ سمجھا میرا دوست ہوگا کروٹ بدل کر اوں آں کرکے سوگیا ۔ تھوڑی دیر بعد پھر۔۔ 

عالیہ مزے لے لیکر کر بتا رہی تھی لیلی کو بھی تجسس ہو نے لگا نیہا بور سی ہو کر ان کے بیچ سے اٹھ گئ۔ آکر کھڑکی میں کھڑی ہوگئی۔ ابھی چونکہ اوائل اکتوبر تھے تو برفباری تو دور دور تک نہ ہوئی تھی مگر ایک ہڈیوں میں گھسنے والی سرد ہوا کا جھونکاضرور آتا تھا۔وہ کھڑکی کھول کر اسی سرد ہوا کے جھونکے کا مزا لے رہی تھی۔ 

کمرہ ہنسی مذاق سے گونج رہا تھا، عالیہ شمائلہ کا مزاق اڑا رہی تھی جسے آدھا قصہ سن کر ہی ڈر لگ گیا تھا۔ 

بس کرو میں نے نہیں سننا مجھے ڈر لگتا ہے۔

وہ کانوں پر ہاتھ رکھتی تو عالیہ ہنستے ہٹا دیتی۔  دونوں کو دیکھتی شمائلہ کو ایکدم سرد ہوا نےجھر جھری سی دلا دی۔ اس نے رخ موڑ کر دیکھا تو نیہا اتنی سخت سردی میں کھڑکی کھولے کھڑی باہر جھانک رہی تھی

“نیہا، نیہا کی بچی ” اس نے آواز دی۔

کھڑکی تو۔۔

نیہا نے چونک کر اپنا سر پیچھے کی طرف موڑا۔ لیکن… صرف سر۔ اس کا جسم وہیں رہا، اور اس کا چہرہ مکمل طور پر پیچھے کی طرف مڑ گیا۔

شمائلہ کے حلق میں باقی جملہ اٹک سا گیا۔ وہ کہنے جا رہی تھی کھڑکی تو بند کرو مگر زبان ایکدم گنگ سی ہوگئ

کیا ہوا؟ نیہا حیران پوچھ رہی تھی

کمرے میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔ ۔

عالیہ اور لیلی بھی اسے دیکھ کر سنٹ سی ہوگئیں 

“یہ… یہ کیا تھا؟”عالیہ نے لرزتے ہوئے کہا۔

نیہا نے ایک لمحے کو آنکھیں بند کیں۔ پھر آہستہ سے بولی

:

تو آخر میرا راز کھل گیا

“مجھے لگا تھا میں چھپ سکتی ہوں… لیکن اب تم سب جان گئے ہو۔”

میں نے کہا تھا نا مجھے کبھی پیچھے سے آواز مت دینا 

اس کی آواز میں انسانوں جیسا درد نہیں تھا۔ وہ آہستہ آہستہ کھڑکی کی طرف بڑھی، اور انکے دیکھتے ہی دیکھتےغائب ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح خاصے جارحانہ انداز میں دروازے پر دستک دینے سے آنکھ کھلی تھی شمائلہ کی۔ 

تیز دھوپ کھڑکی سے چھن چھن کر پوری  مسہری کو گھیر رہی تھی۔ اس نے کسمساتے ہوئے پہلو بدلا توعالیہ اور لیلی دونوں اسکے برابر میں آڑھی ترچھی پڑی سو رہی تھیں۔ 

دروازہ کھولو عالیہ، شمائلہ، لیلی

یہ انکی پرنسپل کی آواز تھئ وہ سٹپٹا کر سیدھی ہوئی دونوں کو ہلایا ابھی آنکھیں ملتی وہ اٹھ ہی رہی تھیں کہ دھاڑ سے دروازہ کھول کر ہوٹل اسٹاف کے ہمراہ پرنسپل کڑے تیوروں کے ساتھ انکے کمرے میں داخل ہوگئیں۔ 

کیا حرکت ہے لیلی یہ؟ آپ اپنے والدین سے اجازت لیئے بنا ٹرپ پر آگئیں؟ آپ جانتی ہیں آپکے والدین نے آپکی گم شدگئ کا پرچہ درج کرادیا ہے؟ پولیس آپکو ڈھونڈتی پھر رہی ہے؟آپکو اندازہ بھی ہے کتنی بڑی مشکل کھڑی کردی ہے آپ نے ہمارے لیئے۔

وہ بنا لحاظ غصے سے چلائیں۔ 

لیلی اس افتاد پر گھبرا گئ۔ 

مگر میم میں نے تو اجازت نامہ لا کر جمع کرایا تھا نیہا نے خود بابا سے بات کی تھی میرے پاس والی اجازت نامے کی کاپی ہے میرے پاس۔ 

کون نیہا؟ اور لیلی آپ نے اپنے والدین کےجعلی  دستخط کیئے تھے اجازت نامے پر؟آپ جانتی ہیں اس حرکت پر آپ کو کالج سے نکالا بھی جا سکتا ہے۔۔

میم نے کمر پر ہاتھ رکھ کر کڑے تیور سے دریافت کیا۔ 

میم ہماری دوست نیہا۔ اسی نے اجازت لی تھئ لیلی کے والدین سے یہیں اسی کمرے میں رکی ہے ہمارے ساتھ یہ سامان ، شمائلہ سہیلی کی مدد کو آئئ

اشارے سے ایک کونے میں رکھے اپنے اور نیہا کے بیگ کی جانب اشارہ کیا تو حیرت سے دیکھتی رہ گئ وہاں بس ایک بیگ تھا اسکا اپنا۔۔

کون نیہا؟ کیسا سامان؟ تم لوگوں کو اندازہ بھی ہے تم لوگوں کی وجہ سے کالج کی ریپوٹیشن پر کیا اثر پڑے گا؟ ابھی اسی وقت اپنا سامان سمیٹو تم تینوں واپس جا رہی ہو فورا۔۔

پرنسپل صاحبہ غصے سے چلا رہی تھیں او رعالیہ شمائلہ اور لیلی کے ذہن میں رات کا منظر تازہ ہوا تھا۔ 

نیہا تو انکی آنکھوں کے سامنے دھواں بن کے غائب ہوگئ تھئ۔۔

اب کیسے یقین دلائیں وہ پرنسپل صاحبہ کو۔۔ 

تبھی ایک خوش شکل نوجوان پولیس کی وردی میں داخل ہوا۔  

میم لیلی کے والدین نے اپنی شکایت واپس لے لی ہے۔ انہیں کوئی غلط فہمی ہوئی تھی۔  میرا خیال ہے آپ ان سے بات کرلیں پہلے۔۔ 

اس نے موبائل کان سے لگایا ہوا تھا وہی انکی جانب بڑھا دیا۔

پرنسپل صاحبہ نے میکانکی انداز میں فون کان سے لگایا اور خاموشی سے باہر نکل گئیں

ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے ان تینوں کو دیکھتا وہ اسٹاف میمبرز کو بھی باہرآنے کا اشارہ کرتا خود بھی باہر نکل گیا۔۔

لیلی عالیہ اور شمائلہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔

یہ سب کیا ہوا ہے؟ نیہا کہاں چلی گئ؟

عالیہ سرسراتی سی آواز میں پوچھ رہی تھی۔ 

ہماری آنکھوں کے سامنے ہی تو غائب ہوئی تھی پھر مجھے کوئی ہوش نہیں میری ابھی شمائلہ کے جگانے پر آنکھ کھلی ہے۔ 

لیلی کی آواز میں بھی لرزش تھی۔ 

اگر نیہا کوئی انسان ہے ہی نہیں تو لیلی کے والدین سے بات کس نے کی؟ اور اب کیا ہوگا؟ اسکے والدین تو بہت غصے میں ہوں گے۔ 

عالیہ نے کہا تو شمائلہ نے گہری سانس لی۔

کچھ نہیں ہوگا نیہا نے سب سنبھال لیا ۔۔۔

کیا مطلب؟ لیلی اور عالیہ نے الجھ کر دیکھا۔ 

نیہا واپس آگئ ہے؟کیا ہم نے خواب دیکھا تھا جو رات کو ہوا وہ سب؟؟؟

نہیں۔ شمائلہ نے نفی میں سر ہلایا۔

رات جو کچھ ہوا وہ سب سچ تھا۔ 

لیکن تم لوگوں نے غور نہیں کیا پرنسپل کا غصہ ٹھنڈا کرکے لے جانے والا پولیس انسپیکٹر وہی لڑکا تھا نیہا کا کزن جو رات ہمارے لیئے کھانا لیکر آیا تھا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Rating

kuch acha perho #urduz #urduqoutes #urdushayari #urduwood #Urduhorror

> » Home » Afsanay (short urdu stories) » horror urdu stories » woh kon thi |Saheliyon Se Chupaya Hua Raaz |urdu horror story
Exit mobile version