باذوق مختصر افسانہBa Zauq

Afsanay (short urdu stories)

با ذوق

اچھا اچھا آرہی ہوں صبر ہی نہیں  اب کوئی دروازے پر تو کھڑا نہیں ہوتا کہ گھنٹی بجاتے ہی دروازہ کھل جا ے

نسیم آرا ہانپتی کانپتی بڑبڑاتی ہوئی دروازے تک آی تھیں چند لمحے تو سانس ہی بحال کرتی رہ گئیں دروازہ اتنی سی دیر میں بھی بج گیا

جھنجھلا کر دروازہ کھولتے ہی کڑے تیور سے نووارد کو گھورا

نک سک سے تیار پتلون کوٹ پہنے گلے  میں ٹائی باندھے وہ پچیس تیس سال کا جوان تھا

شائستگی سے جھک کر بولا آداب

نسیم آرا اتنے ادبی سلام پر بھونچکا ہی رہ گئیں

تسلیم آداب گڑبڑا کر منہ سے نکلا تھا انکے

جی یہ ذولفقار احمد اسیر صاحب کا ہی گھر ہے؟

دھیمے انداز سے ہی پوچھا گیا

ہاں کیوں؟

نسیم آراء پر دوبارہ بیزاری طاری ہوئی

نو وارد نے ایک لفافہ انکی جانب بڑھایا

جی میرا نام ابراہیم ہے میں دراصل میں یہ دعوت نام پیش کرنے آیا ہوں  سہ ملکی ادبی کونفرنس ہے جس میں اسیر صاحب کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے آپ نے حال ہی میں گھر تبدیل کیا ہے تو بلمشا فہ

وہ ابھی کہہ ہی رہا تھا کہ نسیم آراء نے لفافہ ہاتھ سے لے کر حقیقتا اس کے منہ پر دروازہ بند کر دیا

میڈم بات سنیہے پلز میڈم آپ نسیم  صاحبہ ہیں نا

بے چینی سے نووارد نے دروازہ بجایا تھا

نسیم آراء کے بڑھتے قدم رک گئے

کیا کہا اس نے

وہ لپک کر مڑیں جھٹ سے دروازہ کھولا

ابراہیم مایوس ہو کر واپس پلٹ رہا تھا

سنو کیا کہا تم نے ابھی

ان کے پکارنے پر اسکے بےجان قدم یک بیک جیسے نئ زندگی پا گئے

آپ نسیم آراء صاحبہ ہیں نا ؟ نسیم آراء مہک مشہور شاعرہ

نسیم آرا نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا

آپ نہیں جانتی میں آپکا کتنا بڑا پرستار ہوں آپکی نظم بجھتی ہے زندگی  اففف مجھے بہت زیادہ پسند آپ کو کیا بتاؤں ….

……………………………………………………………………….

ہمم اسیر صاحب نے ہنکارہ بھرا

دعوت نامہ الٹ پلٹ کر دیکھا پھر لا پروائی سے سرہانے میز پر رکھ دیا

ابھی دن پڑے ہیں مجھے یاد کرا دینا

نسیم آراء انکے لئے چایے بنا کر لائی تھیں اسیر صاحب کچھ ہی وقت پہلے لوٹے تھے کسی تعلیمی ادارے میں

تقریر کر کے  آئے تھے بے طرح تھکے ہوئے تھوڑا سا ہی کھایا بس

آرام کی غرض سے بستر پر دراز ہوئے ایک نئی کتاب انکے ہاتھ میں تھی آثار زیست

کسی نے انکے نام انتساب کی تھی پہلا ایڈیشن پہلا نام ایک قیمتی تحفہ

سنتے ہیں جی مجھے بھی جانتا تھا بہت ادب کا قدر دان دیکھتے ہی پہچان گیا

نسیم آراء کی آواز فرط مسرت سے کانپ رہی تھی

اسیر صاحب نے متوجہ ہو کر ناک پر سے عینک نیچے کی بڑھاپا انکی نظر کمزور کر گیا تھا

کہہ رہا تھا میری دونوں کتابیں اسکے پاس محفوظ ہیں اور بجھتی ہے زندگی کو تو طرز سے گا کر بھی سنایا مجھے

دروازے پر ؟ اسیر صاحب نے ابرو اچکایا

 مجھے پہچان کر

بہت خوش ہوا تھا وہ اپنی دھن میں بتا رہی تھیں

نہیں نہیں  میں نے اندر بلا کر بٹھایا تھا شربت پلا کر بھیجا میں نے

نسیم آراء کے پاس ابھی بھی بتانے کو بہت کچھ تھا

کہہ رہا تھا لکھنا کیوں چھوڑ دیا آپ تو بہت اچھا لکھتی تھیں آپکی شاعری تو زندگی کا پتا دیتی تھی

اسیر صاحب ضبط نہ کر سکے

زور دار قہقہہ لگا کر ہنس پڑے

ہاہاہاہا تمہاری شاعری ہا ہہا

نسیم آراء چپ سی شکل دیکھنے  لگیں

کیسی بچکانہ شاعری کرتی تھیں اوپر سے شوق بھی ہوتا مجھ سے صحیح کروانے کا

جملے کاٹ کاٹ کر ترتیب کر کر کے ایک طرح سے میں ہی نئی نظم لکھ ڈالا کرتا تھا

کبھی بحر ہی چھوڑ دیتی تھیں نظم کے  اختتام تک کبھی  آزاد نظم کہہ کر تحت اللفظ کہانی لکھ ڈالتی تھیں

تمہارے ابا پیسے والے نہ ہوتے تو دو کتابیں نہ چھپوا سکتیں تھیں شکر ہے شادی کے بعد تم نے چند دفعہ کی کوشش کے بعد توبہ ہی کر لی ورنہ میں کیا بتاتا یہ مشھور ادیب و شاعر ذولفقار احمد اسیر کی اہلیہ کا حال ہے یعنی

چراغ تلے اندھیرا

وہ کہہ کر خود ہی لطف اٹھا رہے تھے

 نسیم آراء کہنا چاہتی تھیں

ایسا بھی نہیں تھا ادبی حلقوں میں اچھا نام تھا ادبی محفلوں میں خاص دعوت نامے اتے تھے انکے.لئے انکے ابا روشن خیال انسان تھے  انھیں ہر جگہ لے کر جاتے تھے شائقین و حاضرین محفل میں سب سے پر جوش داد انکے ابا کی ہوتی تھی فخر سے بتاتے تھے میری بیٹی شاعرہ ہے یہاں تک کے ایک سے ایک دولت مند گھرانوں کے رشتوں پر اسیر صاحب کے درمیانے درجے کے رہن سہن رکھنے والے گھرانے کو ترجیح دی تھی کہ انکی بیٹی کے شوق کی قدر کوئی با ذوق ہی کریگا مگر نجانے کیوں وہ کبھی اسیر صاحب کے معیار پر پوری نہ اتر سکیں کبھی کسی نظم  کی بحر انکے مجازی  خدا کو پسند نہ آئ شرو ع شروع میں ایک آدھ نظم ٹھیک کرکے انہو ں نے مشاعرے میں کسی پڑھی بھی مگر پسند نہیں کی گئی ہک ہا شاید اسیر صاحب کا حلقہ احباب انکے جیسا ہی اعلی ذوق کا حامل تھا

ویسے وہ شاید اتنی بھی بری شاعری نہیں کرتی تھیں کیوں کہ

کالج دانش کدہ ہر جگہ انکے چرچےہوا کرتے  تھے بہت زیادہ لوگ نہ سہی مگر انکے بھی کچھ  پرستار تھے اتنے با وفا کے انکی کتاب کے سرورق پر چھپی انکی نو عمری کی تصویر سے اس بڑھاپے کی تخریب کاریوں سے خستہ جھریوں زدہ چہرے سے بھی  نقوش کھوج نکالے اور پہچان لیا

گھٹنوں پر زور دے کر وہ خالی کپ لینے اٹھیں اسیر صاحب کب کے ہنستے ہنستے خاموش ہو کے کتاب میں مگن تھے

خرافات ہے یہ ہر  ایرا  غیر ا  قلم ہاتھ میں لے بیٹھا ہے بیزار ہو کر انہوں نے کتاب رکھ دی

غیر ضروری منظر کشی طویل جملے سارا حسن ہی ماند پڑ گیا اچھوتے موضوع کا

بالکل پسند نہیں آئی مجھے مگر مجھے اس پر تبصرہ بھی لکھنا سو پوری پڑھنی مجبوری

یا ایسا کرو تم پڑھ کر تبصرہ لکھ دو

ماضی کی  مشہور شاعرہ  ہو آخر

وہ بہت ہلکے پھلکے انداز میں چھیڑ رہے تھے

نسیم آراء مسکرا دیں

مجھے کہاں فرصت گھر کے اتنے جھمیلے

جواب حسب توقع تھا اسیر صاحب سر ہلا کر بستر پر سیدھے ہوئے سارے دن کی تکان کے بعد اب جسم نیند مانگ رہا تھا منٹوں میں بے خبر ہوئے

نسیم آرا باورچی خانہ سمیٹ کر چپکے سے کمرے میں آئیں اپنے سرہانے کا لمپ جلایا اسکے آگے اخبار کھڑا کر کے آڑ کی

آنچل میں چھپا کر لائی سودے کی کاپی میں کچھ لفظ گھسیٹنے لگیں

ابراہیم انکے اکلوتے پرستار کی فرمائش تھی کوئی تازہ نظم ہو جائے

Bazauq by vaiza zaidi hajoome tanhai fame urdu short stories afsanay

Bazauq by vaiza zaidi hajoome tanhai fame urdu short stories afsanay

Bazauq by vaiza zaidi hajoome tanhai fame urdu short stories afsanay

اردوز ویب ڈائجسٹ کی تمام تحاریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں بلا اجازت ان تحاریر کو استعمال کرنے پر انضباطی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔۔ از قلم واعظہ زیدی (ہجوم تنہائی) #اردو #اردوویب #ناول #

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *