مختصر افسانہ
نسلی تضاد
تمہیں بہت لمبی بات کرنے کی عادت ہو گئی ہے بچے اتنی تفصیل سے بیزار ہو جاتے ہیں آخر انھیں بیس پچیس سال پرانے قصوں میں کیا دلچسپی ہمارا وقت گزر گیا اب نیے دور کے بچے ہیں ٹی وی انٹرنیٹ کے دور کے اب ہمارے پاس بیٹھ کر کیا بات کریں ہم نے انھیں پال پوس کر جوان کر دیا ہمارا فرض ختم اب وہ با شعور ہو چکے انھیں اب ہما ری انگلی پکڑ کر چلنے کی ضرورت نہیں رہی ہے ۔انھیں موبیل استمعال کرنے پر ٹوکتی رہتی ہو ارے چڑا کر انھیں تم صرف اپنے سے دور کر رہی ہو ؟ سمجھ رہی ہومیری بات کو ؟
آفاق صاحب نے انگشت شہادت سے ناک کی پھننگ پر آ ٹکنے والے چشمےکو اوپر کیا
۔۔۔ بیگم آفاق پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں جی
۔۔۔ ابھی کل ہی تو انکاچھوٹا والا بیٹا ماں سے کہہ رہا تھا ابا کبھی کبھی حد ہی کر دیتے ہیں میرا دوست ملنے مجھ سے آیا تھا پکڑ کر بیٹھ گیے پورا ہسٹری کا لیکچر دے ڈالا چالیس سال کالج میں پڑھا کر بھی دل نہیں بھرا ان کا ؟ انکو یاد کروائیں ریٹائر ہو گیے ہیں اب وہ اچھا کہونگی ان سے مگر تم ایسے بد تمیزی سے بات نہ کرو بیچاری اتنا ہی کہہ پا یں ان سے تھوڑی کہہ رہا آپ سے کہہ رہا ہوں سچ میں اتنا شرمندہ ہوا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیچارہ فراز جمائی روک رہا تھا مگر ابا جان تھے کہ چپ ہی نہ ہوں ۔۔۔
آخر آپ سمجھ ہی گیے ۔۔۔جاتے جاتے مڑ کر انہوں نے سوچا تھا
اردوز ویب ڈائجسٹ کی تمام تحاریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں بلا اجازت ان تحاریر کو استعمال کرنے پر انضباطی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔۔ از قلم واعظہ زیدی (ہجوم تنہائی) #اردو #اردوویب #ناول #hajoometanhai