قسط 25
دھیرے سے دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئی اسکے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی۔ واعظہ ابھی بھی بیڈ پر بازوئوں میں سر چھپائے کرسی پر بیٹھی بے سدھ تھی۔ البتہ نور جاگ چکی تھی ۔ بیڈ کرائون سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی مگر آنکھیں بند ہی کی ہوئی تھیں۔۔ ڈرپ ختم ہونے والی تھی۔ وہ ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتی ڈرپ دیکھنے لگی تو اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔
ڈرپ نکال کر عروج نے اس پر نگاہ کی تو اسے منتظر نظروں سے دیکھتا پایا۔
کیسی طبیعت ہے؟ اس نے سرگوشیانہ انداز میں پوچھا تھا جوابا اس نے بس سر ہلا دیا۔
عید کا آدھا دن جیل اور بقیہ آدھا اس وقت ہاسپٹل میں گزر رہا ہو جسکا، اسکا حال پوچھنا نہیں چاہیئے وہ رو ہی دے گا جوابا۔ اسکی آنکھوں کے کنارے سے موٹے موٹے بے آواز بہتے آنسوئوں کی دھار دیکھتے ہوئے اس نے سوچا۔
اس نے متاسف سا ہو کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔
اس ذرا سے سہارے نے دل اور کاٹ کے رکھ دیا تھا وہ ہچکیاں لیکر رونے لگی۔۔پھر خیال آیا تو ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر واعظہ کی نیند خراب ہونے کے ڈر سے آواز دبا لی۔
یہ سیہون کھانا لایا تھا گھر سے بریانی ہے پہلے تو مجھے چیک کرانی پڑ گئ باہر مگر خیر ابھی گرم ہے تم نے کھانا ہے تو کھالو بہت سارئ ہے۔
عروج سرگوشی میں کہہ رہی تھی جوابا وہ نفی میں سر ہلاتی رہی بھوک پیاس کچھ محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
مجھے کچھ نہیں کھانا پینا۔ اس نے بھی جوابا سسکیاں دباتے سرگوشئ میں جواب دیا۔
تبھی ان دونوں کی سب احتیاط غارت کرتی ہوئی دھاڑ سے دروازہ کھول کر وہ چندی آنکھوں والی جاسوسہ داخل ہوئی۔
آننیانگ ہاسے او۔ ملزمہ کو ہوش آگیا ہو تو کیا ہم اسکی ملاقات گھر والوں سے کروا سکتے ہیں؟ ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔
واعظہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ ان دونوں نے گھور کر اسے دیکھا تھا ۔جوابا وہ سٹپٹا سی گئ۔ صفائی دینے والے انداز میں بولی۔
دراصل ہم حال پوچھنا چاہ رہے تھے ۔ ہم جیل میں کھانے پینے کی ہر سہولت فراہم کر رہے ہیں مگر یہ خود صبح سے شام تک کھانا نہیں کھاتیں نتیجتا آج بے ہوش ہوگئیں ذہنی دبائو اور خوراک کی کمی کے باعث۔ اب انکے گھروالے ایمبیسئ کے رابطہ کرنے پر ملنے آئے ہیں خصوصی اجازت سے۔
اسکی نا سمجھ آنے والی بک بک سن کر ٹپ ٹپ دوبارہ نور نیر بہانے لگی۔
آج آپکا کوئی تہوار بھی ہے شائد۔ ہمیں ایمبیسی کی جانب سے بتایا گیا ہے۔ وہ۔ وہ رکی ۔ پھر اٹک اٹک کر بولی
عادی موبر۔
کیا؟ تینوں اکٹھے بول پڑیں۔ موصوفہ پھر سٹپٹا گئیں۔
عادی مبراک۔
یہ کونسا تہوار ہے ہمارا۔ واعظہ تشویش زدہ ہوئی
مجھے تو نہیں پتہ ورنہ مناتی نا میں ؟ عروج کو تشویش لاحق ہوئی ایسا کونسا تہوار ہے جو انکو خود آج تک پتہ نہ چل سکا۔
کیا کہہ رہی ہے یہ چڑیل۔ عید کے دن بھی مجھے جیل بھیج کر دم لے گئ۔ عروج انکو لکھ دو مجھے کوئی بہت ہی سنگین بیماری ہے یا کہہ دو گرنے سے سر میں شدید چوٹ آئی ہے کم از کم ایک دن تو اسپتال رکھنا ہی پڑے گا ۔۔
بھلے دکھ کا کوئی عالم ہو عید کا دن بے ہوش ہو کر گرنے کے باعث اسپتال میں گزر رہا ہو اسکے پاس نت نئے آئیڈیاز کی کمی نہیں تھی دلگیری سے عروج کا ہاتھ پکڑے کہہ رہی تھی۔
عروج اسے دیکھ کر ہی رہ گئ۔
میں آپکو آپکے تہوار کی مبارکباد دینا چاہ رہی ہوں ۔ اس نے کھسیا کر وضاحت کی ۔
اوہ اچھا۔ عید نام ہے ہمارے تہوار کا ۔ عید مبارک کہتے ہیں ہم آج کے دن ایک دوسرے کو۔
عروج کے دماغ کی گھنٹی بج ہی اٹھی۔
دے دے ۔۔ اس نے زور و شور سے سر ہلایا۔
ایڈ مبرک۔
اف۔ واعظہ نے سر پر ہاتھ ہی مار لیا اس بار۔
ایک اور پیغام ہے آپکی ایمبیسی سے آپکے اہل خانہ تک ہم نے رابطہ کیا ہے۔ وہ آپ سے ملنے آئیں گے۔۔ ابھی تھوڑی دیر میں۔
اسکی بات پر عروج نے چونک کر واعظہ کی شکل دیکھی جس کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑی تھی۔ نور ٹکر ٹکر ان تینوں کو دیکھ رہی تھی۔
وہ لڑکی ان سے بے نیاز اب وہ میسج نکال رہی تھی موبائل میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار یہ عروج اور واعظہ آج گھر نہیں آئیں گی؟
چکر لگاتے موبائل میں گم الف سے وہ جھلا کر پوچھ رہی تھی۔ فاطمہ ٹیرس میں ٹہل ٹہل کر کھانا ہضم کر رہی تھی۔ عزہ اور ہے جن رات ہونے کو آئی تھی بند تھے کمرے میں۔ عشنا کا دور دور تک پتہ نہیں تھا الف البتہ اسکے ساتھ ٹیرس پر موجود تھی۔ ریلنگ سے ٹیک لگائے آرام سے بیٹھی موبائل میں مگن جانے اسے نیا کیا شاک پہنچا تھا۔ بٹر بٹر اسکرین گھو ررہی تھی
صبح سے بھوکے پیاسے دونوں پڑے ہیں عید کے دن۔ اتنا کہا دوپہر کو ابھی رات کو بھی مگر دونوں کا ایک جواب بھوک نہیں۔ بتائو عید کے کتنے منصوبے بنائے تھے یہ کریں گے وہ کریں گے یہاں جائیں گے وہاں جائیںگے۔ سب ختم۔
بھلا بتائو۔
واعظہ آتی دونوں کو کان سے پکڑ کر سیدھا کر دیتی۔ حالانکہ میں بھی ہوں یہاں واعظہ سے کم پرسنیلٹی نہیں میری اور ڈیل ڈول میں بھی برابر ہی ہیں ہم۔
اس نے فرضی ڈولا بنایا۔
مگر میرا کوئی رعب ہی نہیں ہے ۔ واعظہ کونسا انکی امی برابر ہے جو اسکے رعب میں سب آجاتے۔ سمجھ نہیں آتا مجھے۔
دو چکر خاموشی سے لگائے۔۔ پھر شروع ہوئی۔
اور پتہ ہے سیہون اور میری کا بریک اپ کیوں ہوا؟
تیسرے چکر پر تیسرا قصہ شروع کر چکی تھی مگر جواب ندارد
اب تم کیا اتنے غور سے دیکھ رہی ہو۔اس نے آگے بڑھ کر موبائل چھین لیا الف سے۔ ساری گچ پچ چینی کچھ کچھ فیس بک کی چھوٹی بہن جیسی ایپ مگر سب کی سب چینی اشکال۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں والے لوگ اسکی آنکھیں پھیل سی گئیں۔ الف نے سٹپٹا کر موبائل واپس چھینا۔
ویبو؟
فاطمہ کو یقین نا آیا تو تصدیق کرنی چاہی۔
الف نے ہونٹ کاٹ ڈالے۔
ہاں۔ مرا مرا سا انداز
مگر تمہارا کیا کام ویبو پر۔تم اسٹاک کر رہی ہو؟
فاطمہ چیخ ہی تو پڑی۔
ہاں۔ الف نے دانت پیسے۔
مگر کون کسے کیوں؟؟؟۔ یہ چندی آنکھوں والا کون ہے جسے اسٹاک کر رہی ہو وہ بھی ویبو پر جا کر؟؟؟؟؟ اسکی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی تھی دھم سے اسکے پاس ہی آگری وہ بھئ گھٹنوں کے بل۔۔۔۔ اسکے جواب سے قبل ہی ایک عدد چیخ اسکے اپنے منہ سے برآمد ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں اس وقت ایک چینی ریستوران کے باہر کھڑے تھے
چلو۔ اسے باہر جمے دیکھ کر ژیہانگ نے ٹوکا۔ وہ سرجھٹک کر اسکے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گئ۔ کونے کی سڑک کنارے شیشے کی دیوار کے ساتھ والی جگہ اس نے منتخب کی تھی۔ ژیہانگ نے آگے بڑھ کر اسکیلئے کرسی کھینچی تھی پھر اسکے بیٹھنے کے بعد ہی خود نشست سنبھالی۔ ایک اسکارف پہنے چندی آنکھوں والی ادھیڑ عمر عورت جس نے لانگ اسکرٹ پر ایپرن باندھا ہوا تھا مسکرا کر جھک کر انہیں نی ہائو کہتی مینیو کارڈ تھما گئ۔ اب یقینا دس پندرہ منٹ بعد وہ اگلا حکم لینے آتی۔
یہاں حلال کھانا تو ہوگا نا؟ مینیو کارڈ کھول کر دیکھتے الف نے پوچھا۔ مینیو کارڈ دیکھنا بے کار رہا ۔ سب کچھ چینی اور انگریزی میں تھا مگر کھانے کے جو نام تھے وہ یکسر اجنبی تھے بلکہ ان تصویروں میں کھانے کے اجزاء پہچاننا بھی نا ممکن نظر آتا تھا۔
یہاں سب حلال ہے۔ ژیہانگ مسکرایا۔
مگر کہیں لکھا ہوا تو نہیں ہے حلال۔ اور اس ریستوران کا نام تو انگریزی میں لکھا بھی نہیں ہے جانے کیا کچھ پکتا ہوگا یہاں۔
اس نے اعتراض جڑا۔
ژیہانگ نے مینیو کارڈ میں ایک جگہ انگریزی میں لکھا نام اسے دکھایا جس پر اسکی نظر پڑی ہی نہیں تھی۔
شومائو سانئین ۔ جسکا لفظی مطلب بنتا ہے فوڈ پانڈا ۔ اس
چینئ ریستوران کا مالک مسلمان ہے اور وہ تمام چینی کھانے سو فیصد حلال اجزا سے بناتا ہے حالانکہ یہاں ذیادہ تر غیر مسلم آتے ہیں مگر پھر بھی یہاں کبھی تمہیں حرام گوشت کھانے کو نہیں ملے گا۔ پورک وغیرہ نہیں رکھتے یہ لوگ۔
ژیہانگ نے وضاحت کی مگر الف کی آنکھیں مزید کھل سی گئیں۔ اور تھوڑا سا منہ بھی۔ کیونکہ۔۔۔ کیونکہ ژیہانگ نے یہ ساری وضاحت اردو میں کی تھی۔
رواں لہجہ مکمل صاف جملہ ۔ وہ خاتون اب آرڈر لینے واپس آچکی تھیں۔ژیہانگ اسکے چہرے کو دیکھ کر دھیرے سے مسکرایا پھر ان خاتون کو آرڈر لکھوانے لگا۔ شاشلک، چینی چکن فرائیڈ رائس اور اسپرنگ رولز۔
خاتون جھک کر سلام کرتئ پلٹ گئیں۔
تم اردو بھی جانتے ہو؟؟؟؟؟۔ الف کا کھلا منہ لمحہ بھر ہی بند ہوا پھر جھٹ اگلا سوال داغ دیا۔
انگریزی میں تم اور آپ میں فرق نہیں ہوتا مگر پھر بھی وہ ہمیشہ سوچ کر محتاط انداز میں جس طرح بات کرتی تھی ایک تکلف ایک گریز محسوس کیا جاسکتا تھا لیکن ابھی تو تکلف کی سب دیواریں گرا کر وہ صرف اسکا مکمل تعارف چاہ رہی تھئ۔ الف حیران تھی مگر اسکی حیرانی دوچند ہونے والی تھی اسے یہ نہیں پتہ تھا۔
ژیہانگ اسکے اتائولے پن پر مسکرا کر سیدھا ہو بیٹھا۔ وہ مسکراتا بہت تھا۔ ایک قطار میں سجے برابر سے موتی جیسے دانت سفید رنگت چندی آنکھیں۔وہ مکمل چینی نقوش کا حامل تھا مگر اردو جانتا تھا مسلمان تھا یہ یقینا حیرانی کی بات تھئ۔
میرا اصل نام ذکریہ ہے اور میرا تعلق چین کے مسلمان کثریتی صوبے شن جانگ سے ہے۔ میرے والد وکیل ہیں والدہ ہائوس وائف۔ مجھے بچپن سے آئیڈل بننے کا شوق تھا سو بیجنگ میں جب ایکسو گروپ کے آڈیشنز کا سنا تو گھر سے بھاگ کر میں بیجنگ چلا آیا۔ میں اور لوہن نے اکٹھے ٹریننگ لی تھی۔ ۔ وہ لمحہ بھر کو تھما تو الف چیخ ہی تو پڑی
کیا ایکسو کا لوہن وہ چینی رکن تمہارا دوست ہے؟
ژیہانگ نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔
تم نے ایکسو کیلئے آڈیشن دیا تھا؟ وائو۔ الف پرجوش سی ہوئی
پھر تم سیلیکٹ نہ ہوسکے اور لوہن ہو گیا؟؟۔ وہ اندازہ لگا رہی تھئ۔
نہیں۔ اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔
ہم دونوں ہی ایکسو گروپ کیلئے منتخب ہو گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نہا کر نکلا تھا۔ بال خشک کرتا جب اپنے ڈورم کے بیڈ پر آکر بیٹھا تو اسکا فون بج بج کے پاگل ہو چکا تھا۔ اکیس مسڈ کالز ۔ پندرہ مسیجز۔ سب کے سب اسکی امی کے۔
میرے بچے جانے کیوں بہت دل گھبرایا ہے بہت برا خواب دیکھا ہے میں نے۔ اپنا خیال رکھنا۔۔
مجھے فرصت ملتے ہی فون کرنا۔۔
بیٹا صدقہ دے دینا یاد سے۔
مجھے پتہ ہے تم نماز پابندی سے پڑھتے ہوگے مگر آج تو ضرور پڑھنا اور دعا کرنا اللہ سے کہ وہ تمہیں ہر آفت سے دور رکھے۔
میرے بچے ماں قربان جائے تمہارے خواب پر تمہارے والد ضرور تم سے تعلق توڑ بیٹھیں مگر وہ بھی بہت اداس ہیں یاد کرتے ہیں تمہیں۔ اللہ کامیاب کرے تمہیں مگر کامیابی ملتے ہی سب سے پہلے باپ کو آکر منا لینا میرے بچے باپ ناراض ہو تو انسان کامیاب نہیں ہو سکتا۔۔
اچھا میں صدقہ خود یہاں دے رہی ہوں تم بس آج نماز پڑھ لینا۔ پڑھو گے نا؟
ایک بار بات کرلو ٹھیک تو ہو نا تم۔
سب پیغامات پڑھتے اسکا دل بھر سا آیا۔ ماں بھی کیا چیز ہے دور کہیں بیٹھی ہے مگر دل اولاد میں اٹکا ہے۔
نماز ۔ اس نے سر کھجایا۔ تین مہینے ہونے کو آئے تھے اس نے نماز نہیں پڑھی تھی۔ وقت ہی نہیں ملتا تھا ساری دوپہر ساری شام بس ںاچنے میں گزرتی نہیں تو آواز کے اتار چڑھائو پر قابو پاتے۔ اسکا گلا بالکل بیٹھ چکا تھا۔ کل ایک کوریا کی کمپنی کے آڈیشن دیئے تھے سوچا تھا آکر نماز پڑھ کر خوب گڑ گڑا کر دعا مانگے گا مگر سارا دن پہلے تیاری پھر آڈیشن میں گزرا دس بجے ڈورم میں واپسی ہو پائی تو بے سدھ سا ہوکر بستر پر گرا اور غافل ہو گیا۔
نماز پڑھ کر دعا مانگوں کہ ایکسو کے آڈیشن میں کامیاب ہو جائوں ؟ اس نے سوچا پھر جھٹ اٹھ کر وضو کر ڈالا۔ واپس ڈورم میں آکر قبلہ رخ چادر بچھا کر کھڑا ہوگیا۔
آج اس نے معمول سے ذیادہ خشوع و خضوع سے نماز پڑھی مانگنا جو تھا خدا سے اور اسکا تو وعدہ ہے جو دل سے مانگو گے دوں گا۔
دونوں ہاتھ پھیلا کر اس نے دعا مانگی
یا اللہ مجھے ایکسو کے آڈیشن میں کامیاب کردے بس اسکے بعد میں کچھ نہیں مانگوں گااپنے لیئے۔ اور ہاں ۔ میرے والدین کو اپنی امان میں رکھنا میں ان سے بہت دور ہو جائوں گا۔
ذکریہ زکریہ تم اور میں آڈیشن میں کامیاب ہو گئے۔
لوہن بھاگتا ہوا آیا تھا اور آتے ہی دروازہ کھول کر چلایا تھا۔ اسکی رنگت تمتا رہی تھی خوشی سے سانسیں پھول چلی تھیں۔ وہ بھاگتا اسکے پاس آیا مگر اسے عبادت میں مصروف دیکھ کر ٹھٹک کر رک گیا۔
دعا مانگتے ذکریہ کی سانس رک سی گئ ۔۔ اور دعا مانگتے لب بھی۔ اب حالانکہ اسکی دعا کے جملے کچھ اور تھے۔ وہ اپنی دادی کی سکھائی دعا کے الفاظ دہرا رہا تھا
یا اللہ مجھے کبھی غافلوں میں سے نہ کرنا مجھے ہدایت کےراستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما میرے مالک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دونوں کو اکٹھے ڈیبیو کرنا تھا۔ اب کچھ طے ہوچکا تھا ایک ہفتے بعد ہم نے کوریا کیلئے نکل جانا تھا۔
اس رات جب ایکسو کیلئے معاہدہ کرنے لگے تو ایک بات پر میں چونک اٹھا تھا۔ یوں تو پورا معاہدہ ہی مجھے ایک غلامی کا پروانہ لگا تھا مگر جب میں نے وہ شق پڑھی جس میں معاہدہ ختم ہونے تک مجھے جو بھی کھانا پینا تھا اس کا فیصلہ بھی کمپنی کرتی مجھے کھٹکا گیا۔میں حرام نہیں کھاتا تھا اور میں مسلمان تھا سینکڑوں لوگوں کو ہرا کر اس مقام پر پہنچا تھا ایک میرے لیئے وہ شق بدلنا یقینا کمپنی کو گوارا نہ تھا مگر یہ کونسا بڑی بات تھی۔ میرے منہ میں کچھ زبردستی ڈالا تو نہیں جا سکتا تھا۔
وہ جملے کے آخر میں الف کے انہماک پر تھوڑا سا رکا۔
پھر کیا ہوا۔؟ وہ بے صبری سے بول اٹھی
دوسری شق تھی دن کے کچھ گھنٹے مجھے صرف ناچنا اور گانا سیکھنا تھا۔ میں کوئی بہت مزہبی انسان کبھی نہیں رہا تھا۔نمازیں بھی چھٹ جاتی تھیں مگر نماز کیلئے ایسے کبھی معمول نہ بنانے والا اگلے کئی سال کیلئے اپنا معمول بنانے کے سارے اختیارات کمپنی کو سونپنے والا تھا۔ عجیب بات ہے نا؟ مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں تھا۔ میں نے بس لمحہ بھر سوچا تھا اور دستخط کرنے کیلئے قلم اٹھا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگئے ۔ میں انکو لیکر آتی ہوں۔ وہ پیغام پڑھ کر انہیں بتاتی باہر نکل گئ۔
کیا کہہ رہی تھی یہ۔ نور کی جیسے چھٹی حس بیدار ہوئی تھی
واعظہ سائیڈ ٹیبل سے ٹھنڈا ہوتا کھانا اٹھا کر کمرے کے کونے میں لگے بنچ پر جا بیٹھی۔ عروج اسکی بے نیازی پر شاباش دے کر رہ گئ۔
بولو نا عروج کیا کہہ کر گئ ہے یہ؟
نور عروج کا بازو ہلا رہی تھی۔ عروج نے ٹھنڈی سانس بھر کر واعظہ کو دیکھا جو
عروج نے ترجمہ کیا تو نور بپھر کر واعظہ کی جانب مڑی
تم سے میں نے کیا کہا تھا کہ میرے گھر والوں کو خبر نا ہو تم نے انکو باقائدہ رابطہ کرکے بلا لیا؟
کیوں کیوں دھوکا دیا تم نے مجھے واعظہ۔ وہ حلق کے بل چلا اٹھئ تھئ۔
نور کیا ہو گیا ہے ۔ ہم اور کیا کرتے تمہارے گھر والوں سے یہ بات کیسے چھپا سکتے تھے؟ واعظہ نا بھی بتاتی تو ایمبیسی سے یہ لوگ خود رابطہ کر چکے تھے۔
عروج نے بپھری ہوئی نور کو کندھے سے پکڑ کر سنبھالنا چاہا۔ واعظہ کو شدید بھوک لگ رہی تھی ٹھنڈی بریانی بھی خوب خشوع و خضوع سے کھا رہی تھی۔
میں یہاں نہیں رہ سکتی میں جا رہی ہوں مجھے نہیں جانا مین کیسے امی کو منہ دکھائوں گی ابو تو جان سےمار دیں گے میں انکا سامنا نہیں کر سکتی۔۔وہ دیوانوں کی طرح مچل کر عروج کی بانہوں سے نکلی ۔۔
نور ہوش کرو بات تو سنو۔ عروج اسکی جانب لپکی مگر
وہ بری طرح بپھر کر دروازے کی جانب بھاگ اٹھی ۔۔ عروج نے اسے اب روکنے کی کوشش نہ کی۔۔ باہر پولیس کا پہرہ تھا وہ بھاگ کے جا بھی کہاں سکتی تھی۔۔ نور نے دروازہ کھولا تو سامنے موجود شخصیت کو دیکھ کر اسکے جسم سے جیسے جان ہی نکلتی چلی گئ۔
اسکے ابو سامنے کھڑے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبھئ سیہون اتنی آسانئ سے آگیا تھا تم لوگوں کے اس دو ٹکے کے شو میں۔دوست جو تھا ژیہانگ کا۔۔ فاطمہ گھٹنا سہلاتے سر ہلا تے سب سمجھ گئ تھئ۔ الف نے بری طرح تپ کر چپت لگا دی اسکے سر پر۔
خبردار جو ہمارے شو کی شان میں گستاخی کی۔ الف کا انداز دھمکانے والا تھا۔
اف اتنے ننھے وجود میں اتنی جان کہاں سے لاتی ہو ۔ فاطمہ بلبلا کر جوابئ حملہ کرتے ہوئے لات ہوا میں ہی روک کر کہنے لگی۔ ایک تو یہ بندہ کبھی تائیکوانڈو کی ٹریننگ نہ لے کم از کم۔ ہاتھ کی بجائے ٹانگ پہلے اٹھتئ تھئ۔
تم لاتیں کیوں مارنے پر تل جاتی ہو ۔۔ اسکی ٹانگ کو گھورتے وہ حفظ ماتقدم کے طور پر اسکی رسائی سے دور ہو کر چڑ کربولی تھی۔
یہ تکنیکی خرابی پیدا ہوچکی ہے مجھ میں ۔۔ وہ ڈھٹائی سے کہتی ریلنگ کا سہارا لیتے ہوئے اٹھنے لگی۔ کپڑے جھاڑ جھاڑ کر بغور الف کی شکل دیکھی۔ اسکے چہرے پر خطرناک سی سنجیدگی تھئ۔
ویسے اس قصے میں مجھے ژیہانگ کو ویبو پر جا کر اسٹاکنے کی تک سمجھ نہیں آئی۔
یار بہت دکھی کہانی ہے ذکریہ کی ۔ مجھے سچ مچ بہت افسوس ہوا سن کے۔
الف قصہ پورا سنانا چاہ رہی تھی ۔
ہاں ایکسو بینڈ کا حصہ نا بن سکا بے چارہ دنیا کا بدقسمت ترین انسان ہوگا وہ تو۔۔ فاطمہ کا انداز سراسر مزاق اڑانے والا تھا۔
بی ٹئ ایس ہوتا تو بات بھئ تھئ۔
اس نے کہتے ہی زبان دانتوں تلے دبا لی۔ اتنی مشکل سے عید کے چکر میں بنا کوئی مزید ڈرامہ لگائے دونوں نے پچھلی ساری باتیں بھلا کر بات چیت شروع کر لی تھی اب دوبارہ وہ نادانستگی میں سہی اسے چھیڑ بیٹھی تھی۔
فاطمہ میں نے تم سے ایکسو کے پیچھے لڑتے ہوئے اگر کوئی ایسی بات کی ہو جو تمہیں دل پر لگی ہو تو مجھے معاف کردینا۔ مجھے جانے کیا ہوا تھا اس دن ۔ مجھے فین وار بالکل پسند نہیں رہی کبھی بھی اب تو بالکل بھی نہیں کم از کم کے پاپ بینڈ کے پیچھے میں نہیں۔ لڑنا چاہتی ہوں۔
الف اسکے انداز کے بالکل برعکس سابقہ انداز میں مخاطب تھی
آہ۔ وہ سٹپٹائی۔ میں بھی اوور ری ایکٹ کر گئ تھی۔ ۔ بی ٹی ایس ٹھیک ہے بہت پسند مجھے مگر اسکا یہ مطلب تھوڑی انکے پیچھے لڑتی پھروں۔ میری بھی غلطی تھی۔
چھوڑو بس ختم کرو بات۔
وہ دانستہ رخ پھیر گئ۔
سورج کل نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا کیا۔ سر کھجاتے وہ سوچ کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر بات کہیں ختم ہوئی پیچھے رہ گئ۔ باپ کی شکل دیکھتے ہی بت بن جانے والی لڑکی کو باپ نے آگے بڑھ کر گلے سے لگا لیا تھا۔ بیٹی کی شکل غماز تھی اس پر کیا کچھ بیت چلا ہے۔ باپ کے سینے سے لگتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھئ۔
ایمبیسی سے آئے دو مزید افراد ایک وکیل اور وہ پولیس افسر سب کمرے میں داخل ہوئے تو وہ اور عروج دونوں کمرے سے نکل آئی تھیں۔۔۔
مت روئو بیٹا میں آگیا ہوں نا سب سنبھال لوں گا۔
اسکے والد کے جملے دروازہ بند کرتے ہوئے انکے کانوں میں پڑے تھے۔
دونوں کیفے کی جانب بڑھ گئیں۔ کیفے میں اس وقت ذیادہ رش نہیں تھا۔ سو وہ آرام سے کونے والی میز کرسی کی جانب بڑھ گئیں۔
کافی پیئو گئ یا کولڈ ڈرنک؟ عروج نے میزبانی نبھائی۔
کافی۔ واعظہ جمائی لیتے ہوئے میز پر سر رکھ کر آرام سے بیٹھ گئ۔
کافی بنا کر عروج اسکے اور اپنے لیئے سینڈوچزلے آئی تھی۔
بریانی ہی اٹھا لاتے ہم حماقت ہوگئ ایک اور ہم سے۔ واعظہ نے سینڈوچ فورا اٹھایا تھا۔ عروج ادھر ادھر دیکھ کر اطمینان کرتے ہوئے چہرے سے ماسک اتارنے لگی۔ واعظہ نے کافی کا بھی جھٹ گھونٹ بھرا تھا۔ انداز میں اتنی بے صبری تھی کہ اسے ہنسی ہی آگئ۔
کھا تو ایسے ہبڑ تبڑ رہئ تھیں کہ مجھے لگا تھا کہوگی کہ میں نے کھا لیاتھا تم ہی کھائو سینڈوچز۔ عروج نے جتایا تو وہ ڈھیٹ سی بن گئ۔
ہاں تو ہبڑ تبڑ دو چار لقمے ہی لیئے تھے صبح کا ناشتہ کیا ہوا ہے اب جاکے کھانا نصیب ہوا تھا۔ ویسے بریانی تو نہیں کھا رہے ہونگے وہ لوگ اٹھا لائوں۔؟
واعظہ خیال آتے ہی جزباتی ہو کر اٹھنے کو تھی کہ عروج نے ہاتھ پکڑ کر روکا
بیٹھو آرام سے۔ پہلے کتنے فارم بھروا کر تلاشی لیکر تمہیں اندر جانے دیا تھا اب تھوڑی جانے دیں گے۔ ملزمہ ہے وہ ۔ صحافی بو سونگھتے پھر رہے وہ لوگ جتنے محتاط رہیں کم ہوگا۔
عروج کی بات عقل میں گھسی۔ منہ بنا کر سینڈوچ نگلنے لگی۔
عید کے دن سینڈوچ کون کھاتا ہے۔ اس کا دکھ عروج پر تھا۔
عید کے دن انسان ویسے اپنے گھر بھی جاتا ہے تم کیوں نہیں گئیں؟
عروج نے یونہی پوچھا تھا ۔۔وہ اداس سی ہوگئ تھی
سب پاکستان گئے ہوئے ہیں۔بھائی بھابی بچے سب۔
تم بھی چلی جاتیں۔ عروج حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔
کیسے چلی جاتی ؟ جس دن عزہ اغوا ہوتے بچی اس دن رات کی فلائٹ تھی میری۔ وہ مس ہوئی پھر پے در پے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جا نہیں سکی۔ اب تو مما بھی بات نہیں کر رہیں فون نہیں اٹھا رہیں میرا۔ سب ناراض ہیں مجھ سے۔
واعظہ اداس سے انداز سے کہہ رہی تھی
تم پاکستان کیوں نہیں چلی جاتیں؟ یہاں کونسا بہت کامیاب کیریر ہے تمہارا ایم بی اے تک چھوڑ بیٹھی ہو پاکستان جائو اور۔۔
ہر پاکستانئ کی طرح اگلا اسکا جملہ وہی پسندیدہ ترین والا تھا جس کی توقع میں واعظہ نے دانت کچکچا کر گھورنا شروع ہی کیا تھا کہ پھولی سانسوں کے ساتھ وہی پولیس والی بھاگتی انکے پاس آئی ۔ دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر جھک کر سانسیں بحال کرتے ہوئے وہ ہنگل میں بولی
شکر ہے آپ دونوں مل گئیں پورے اسپتال میں آپ دونوں کو ڈھونڈتئ ہوئی یہاں آئی ہوں۔
کیوں کیا ہوا خیریت۔۔
دونوں گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
آندے آندے۔
اس نے دونوں ہاتھ ہلا۔ہلا کر انہیں کہنا چاہا۔۔۔
کیا ہوا نور خیریت سے تو ہے؟
نور ٹھیک ہے؟
دونوں اکٹھے ہنگل میں چیخی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام ۔۔۔۔۔
جاری ہے۔