وہ جو تھوڑی سی سر کوۓبتاں گزری ہے
کچھ گزرنے کی طرح عمر رواں گزری ہے
با ہمہ خانہ خرابی و ہمہ رسوائی
وہ جو گزری ہے پھر ایسی بھی کہاں گزری ہے
کچھ مجھے یاد تو آتا ہے کہ جادو نگہی
جب مرا عہد جوانی تھا تو ہاں گزری ہے
دل کا وہ حال ہوا ہے غم محرومی سے
تم سے ملنے کی مسرت بھی گراں گزری ہے
دور رہ کر بھی گزرنے کو تو گزری اے دوست
ہر نفس آہ بلب شعلہ بجاں گزری ہے
از قلم زوار حیدر شمیم