آنکھ میں آنسو ، لب پہ تبسم
اف وہ ترا انداز تکلم
کتنا ہی بدلے رنگ زمانہ
ہم ہوں یہی ہم ، تم بھی یہی تم
آہ تھی لب تک آتے آتے
دل میں اٹھی موج تبسم
دل اور ایسی درد کی دنیا
ایک قطرے میں اتنا تلاطم
کتنا سہانا موسم آیا
مست گھٹائیں دل میں تلاطم
درد کی ماری کویل کوک
سیکھ لیا غنچوں نے تبسم
نہر کنارے ہولے ہولے
اٹھلاتی موجوم کا ترنم
آؤ شمیم ایک نغمہ چھیڑیں
کس عالم میں کھویے سے ہو تم
آگئی پھر کیا یاد کسی کی
کیوں بیٹھے ہو چھپ چھپ گم سم
از قلم زوار حیدر شمیم