Damad ji urdu afsana

Afsanay (short urdu stories)
 

 

ارے ظہیر۔۔ ظہیررکنا ذرا

 

برسوں بعد ظہیر اسے راہ چلتےنظرآیا تو وہ گاڑی سڑک کنارے لگا کر آواز دے بیٹھا۔ اسکی آواز پر چونک کر سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا مگر خیال بھی نہ گزرا کہ لاکھوں کی چم چم کرتی گاڑی میں بیٹھے کسی کو اسکا خیال آیا ہے۔ اسے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دیکھ کر اس نے گاڑی ایک جانب لگائی اور باہر نکل آیا۔ سورج کی تپش ایکدم بہت بری طرح محسوس ہوئی مگر دوست کو نظر انداز بھی نہ کر سکا گاڑی لاک کرتے ہوئے ذرا سا  بھاگ کے اسکے پاس آیا اور فرط مسرت سے بغلگیر ہوگیا۔

 

اپنی معاشی الجھنوں میں الجھا ظہیر سر جھکائے راستہ ناپ رہا تھا گڑبڑا سا گیا مگر بچپن کا دوست تھا مل کر اسے ماجد سے ذیادہ ہی خوشی ہوئی

 

کیسا ہے بھئ تو۔؟کیا حلیہ بنا رکھا ہے تو نے؟ اپنی عمر سے کہیں بڑا لگ رہا ہے۔

 

ماجد ناک چڑھا کر اس سے الگ ہو کر اب بغور اسکا جائزہ لے رہا تھا

 

گھسے ہوئے پتلون قمیض میں آدھا سر سفید چہرے کو راستے کی دھول سے ذیادہ حالات نے دھواں دھواں کر رکھا تھا

 

ظہیر پھیکی سی ہنسی ہنس دیا۔۔

 

ٹھیک ہوں یار مجھے کیا ہونا اب بال بچوں والا ہوں عمر بھی ادھیڑ ہو چکی اب دوبارہ جوان تھوڑی ہوں گا۔ہاں تمہاری لگ رہا عمر کو ریورس گئیر لگ گیا ہے ماشااللہ ایکدم جوان لگ رہے ہو۔ ماجد کے برعکس وہ محبت سے پوچھ رہا تھا

 

ماجد اترا سا گیا۔

 

سوٹڈ بوٹد وہ گہرے نیلے رنگ کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس اے سی والی گاڑی سے اتر کر تو آیا ہی تھا گہرے بھورے ڈائی ہوئے بالوں کلین شیو میں غیر ملکی پرفیوم میں رچا بسا وہ چالیس ڈگری میں بھی خوب تروتازہ دکھائی دے رہا تھا۔

 

ہاں بس تمہاری طرح خود کو چھوڑ نہیں رکھا۔ جم جاتاہوں پارلر جاتا ہوں اچھا کھاتا پیتا ہوں۔ تم تو لگتا جم تو دور۔۔۔ بھابی خیال نہیں رکھتیں کیا؟

 

اسے بولتے بولتے اسکی قمیض کا گریبان کا بٹن لٹکا نظر آیا تو اسے اتار کر تھماتے ہوئے ٹوک بھی دیا۔ ظہیر شرمندہ سا ہوگیا

 

ارے نہیں یار۔بہت خیال رکھتی ہے بس آج اسے استری کرتے نظر نہیں آیا ہوگا۔ تم سنائو یہ گاڑی یہ سوٹ کایا پلٹ کیسے؟

 

ظہیر کو اندازہ تو تھا مگر بات بدلنے کو پوچھنا پڑا۔ماجد کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ آئی

 

میں نے آمنہ سے شادی کر لی ہے۔ اسکے ابا کی دوہی تو بیٹیاں ہیں چھوٹے داماد کو امریکہ سیٹل کرادیا ہے۔۔ اسی کا کہا تھا تجھےمیری سالی سے شادی کرتا امریکہ میں ڈالروں میں کھیلتا مگر تجھے بچپن کی منگنی کا

 

خوف لاحق تھا۔۔

 

وہ جتائے بنا نہ رہ سکا۔ ظہیر کو اسکا انداز اچھا نہ لگا۔

 

خوف کی کیا بات ہے؟ میرے سگے چچا کی بیٹی ہے میری بیوی نیک اطوار میں برسر روزگار مجھے کیا ضرورت تھی کسی کو سیڑھی بنانے کی۔

 

اسکی وضاحت میں ماجد کو قطعی دلچسپی نہ تھی جبھی بات کاٹ دی۔

 

اچھا چھوڑ مجنو۔۔ میں تو یونہی بتا رہا تھا۔میری بھی بچپن کی منگ تھی اسکی بھی کہیں اور شادی ہوگئ میری بھی اس سے ہوتی تو کیا ملنا تھا مجھے؟ آمنہ سے شادی کرکے زندگئ بن گئ کہاں وہ پرچون کی دکان کہاں سیٹھ صاحب نے  مجھے  دو ملوں کا انتظام دے رکھا ہے۔ اور بقیہ کاروبار بھی تقریبا میں نے ہی سنبھال رکھا ہے ۔ تجھے تو پتہ مجھے امریکہ ومریکہ جانے کا شوق نہیں تھا کبھی بھی ۔۔بھئی جب یہیں ترقی کا موقع ہے تو کیا ضرورت گوروں کے دیس جانے کی۔ تو بتا ابھی تک دکان سنبھال رہا ہے ابا کی؟ ہم نے تو اپنی دکان کب کی بیچ دی آجکل ادھر پلازہ میں۔۔ اچھا سن

 

اسے فخریہ بتاتے بتاتے خیال آیا

 

تجھے دکان کروادوں ؟ یہیں اسی کارنر والے پلازے میں۔ میرا ہے۔

 

ارے نہیں۔ ظہیر ہنس پڑا

 

دکان گھر سے قریب ہے ابھی بچے چھوٹے ہیں گھر کی خبر گیری کرتا رہتا ہوں پھر وہاں سب جاننے والے ہی ہیں۔ پھر ماشا اللہ سے اچھا گزارہ ہو جاتا ہے۔

 

پھر بھی ترقی کا موقع کون گنواتا؟ ماجد تیز لہجے میں بولا۔

 

وہ دکان چھوٹے بھائی کے حوالے کر خود اپنا کاروبار الگ شروع کر آگے بڑھ۔ اپنے بیوی بچوں کا سوچ۔۔

 

نہیں یار اظہر ڈاکٹر بن رہا ماشا اللہ سے چند سال کی ہی بات رہ گئ اسے ڈسٹرب نہیں کرتا میں۔تو سنا بھابی کیسی ہیں بچے کتنے ہیں تیرے؟

 

ظہیر حسب عادت سہولت سے بات ٹال گیا

 

ماجد نے سر پر ہاتھ مارا

 

ابے یار بھول گیا تیری بھابی کے پاس ہی جا رہا ہوں خوشخبری ہے دعا کرنا

 

ماجد ایکدم سے جلدی میں دکھائی دینے لگا۔

 

اچھا چلتا ہوں میں۔ آنا کبھی ملنے ذہن بدلے تو بتانا۔یہ میرا کارڈ رکھ لے۔۔

 

عجلت میں کارڈ تھما کر وہ مصافحہ کرکے خدا حافظ کہتا گاڑی کی جانب لپکاتھا۔

 

اسکے تیزی سے گاڑی نکال کر لے جانے تک ظہیر اسے ہی دیکھتا رہا تھا۔ گاڑی نظروں سے اوجھل ہوئی تو گہری سانس لیکر کارڈ مروڑ کر یونہی سڑک کنارے پھینک دیا۔

 

ذہن خدا نہ کرے بدلے کبھی میرا اور میں تیری طرح مفاد پرست اور خود غرض بنوں۔ وہ بڑ بڑا کر رہ گیا

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بے وقوف آدمی۔ ہمیشہ ایسے ہی فقیر رہے گا۔

 

گاڑی سبک صاف سڑک پر چلاتے اے سی کی کولنگ تیز کرنے کے باوجود بھی اسکے دماغ کو گرمی چڑھ چکی تھی

 

بڑی ہمدردی تھی اسے آسیہ سے۔ آسیہ کے ابا سے کیا ملتا مجھے انکے تو بیٹے ہی تین تھے ایک دکان کے حصہ دار۔ 

 

اسی کی طرح تیز دھوپ میں پیدل مارچ کر رہا ہوتا  یہیں کہیں۔ہونہہ اس نے نفرت سے سر جھٹکا۔

 

تبھی اسکا موبائل بج اٹھا۔

 

سسر صاحب تھے۔

 

اس نے جھٹ کان سے لگایا

 

بنا سلام دعا جھاڑ پڑی تھی

 

کہاں غائب ہو؟ آج آمنہ کا آپریشن تھا یاد نہیں کیا تمہیں ؟ کرتے کیا پھرتے ہو تم کتنی بار کہا ہے مجھے میری بیٹی سے عزیز کوئی نہیں۔۔اس وقت وہ یہاں اکیلی کیوں ہے؟ پاس کیوں نہیں تم اسکے۔۔

 

وہ ۔۔ اسکا گلا خشک ہوا۔

 

آرہا ہوں دفتر سے نکل آیا ہوں راستے میں ہوں۔

 

دفتر گئے ہی کیوں؟ کام دھندہ تو کوئی ہے نہیں تمہیں ۔۔۔ تمہیں آمنہ کے ساتھ ہی آنا چاہیئے تھا۔  سیدھا پہنچوں یہاں اور ہاں تھوڑا احساس ذمہ داری پیدا کر لو خود میں۔ کہاں تک ہم اسپون فیڈنگ کریں گے ہم۔نکمے پنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔سدھر جائوچھوڑ دو اب یہ کھلنڈراپن باپ بن گئے ہو اب تم۔

 

انکی ڈانٹ ڈپٹ جاری تھی مگر خبر اتنی بڑی تھی کہ وہ بے ساختہ خوش ہوگیا۔

 

کیا واقعی؟ کیا ہوا میر امطلب ۔۔

 

وہ ہچکچا سا گیا بولتے ہوئے۔

 

وہ بھی اسکی خوشی محسوس کرکے نرم ہوئے۔

 

ہاں مبارک ہو تمہیں۔ اللہ نے رحمت بھیجی ہے بلکہ رحمتیں۔جڑواں بیٹیاں ہوئی ہیں۔ تم بھی دو بیٹیوں کے باپ بن گئے ہو میری طرح۔۔۔۔

 

وہ آگے بھی کچھ کہہ رہے تھے مگر ماجد کا ذہن ایک جگہ اٹک سا گیا تھا

 

میری طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

داماد جی مختصر اردو افسانہ
 

 

 

 

 
از قلم ہجوم تنہائی Hajoom E Tanhai alone?join hajoom
 
 
اردوز ویب ڈائجسٹ کی تمام تحاریر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں بلا اجازت ان تحاریر کو استعمال کرنے پر انضباطی کاروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔۔ از قلم واعظہ زیدی (ہجوم تنہائی) #اردو #اردوویب #ناول #hajoometanhai

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *