بچپن میں بہت سنا اپنے بڑوں سے اسکو اتنے سالوں بعد دیکھامیری خالہ یہ جملہ بہت کہتی تھیں۔ وہ تو ڈھے گیا، یا وہ ڈھے گئ ہے۔ سمجھ نہیں آتا تھا مجھے ڈھے جانا کیا ہوتا ہے۔ دیواریں ڈھے جاتی ہیں جب کمزور ہو جائیں طوفان ٹکرائے زلزلہ آئے کوئی عمارت ڈھے گئ انسان کیسے ڈھے جاتا یے؟ انسان کے اندر کونسے زلزلے آتے ہیں، کونسی دیواریں ہوتی ہیں اس میں جو کمزور ہو جاتی ہیں انسان کیسے ڈھے جاتا ہے۔ بہت حیرت ہوتی تھی۔ خالہ سمجھاتی تھیں۔ حالات انسان کو اسکے حالات اسکی عمر وقت سے پہلے توڑ دیتے ہیں انسان کمزور ہوتا جاتا ہے انکے زیر اثر اپنے ہم عمروں سے جن کو اتنی نا موافق حالات کا سامنا نہ ہو جنہیں اتنی ذہنی پریشانیاں نہ ہوں ان کی نسبت جلد بوڑھا ہو جاتا ہے تھکن چہرے کے خدو خال میں پنجے گاڑ لیتی ہے۔ انسان ہنستا بھی ہے تو آنکھیں ساتھ نہیں دیتیں۔تب کہا جاتا ہے یہ تو ڈھے سا گیا ہے۔ اتنی عمر نہیں حالانکہ ابھی اسکی۔۔۔۔۔ میں سنتی سمجھ کم ہی آتی۔ یہ کیسے لوگوں کا ذکر ہے ۔ مجھے تو نظر نہیں آتے چہروں پر سجے حالات کے تھپیڑے۔مگر ہوا کیا۔۔ مجھے بھی ایک ایسا چہرہ نظر آگیا۔
میں چند لمحے گھورتی رہی حیران بھی ہوئی کہ آخر کیا ہوا؟
میرے منہ سے بھی بے ساختہ نکلا ارے تمہیں کیا ہوا تم تو ڈھے گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کہا تھاآئینہ دیکھتے ہوئے
۔۔۔ ۔۔۔ از قلم ہجوم تنہائی
Kesi lagi apko yeh tehreer? Rate us below