موت کی آس نہ جینے کا سہارا کوئی
اس طرح بھی نہ ہو محروم تمنا کوئی
تھر تھراتے ہوئے لب ، آنکھ میں نم ،دل میں خلش
اس پہ زد ، چھیڑیے عشرت کا ترانہ کوئی
اپنے ہی درد سے فرصت ہے جہاں میں کسی کو
کیا سنے درد بھرے دل کا فسانہ کوئی
ہم نے ، تو خیر کیا آپکے وعدوں پہ یقین
دل کے بہلانے کوئی کیا کیا نہیں کرتا کوئی
یوں تو کسی کو نہیں الفت میں وفا کا دعوی
ہو بھی پایا ہے زمانے میں کسی کا کوئی
مجھ کو مجبور کیا ترک تمنا پہ شمیم
لب پہ آیا بھی نہ تھا حروف تمنا کوئی
از قلم زوار حیدر شمیم