گل یاد رہیں گے ،نہ چمن یاد رہے گا
ایک فصل بہاراں کا چلن یاد رہے گا
بھولیں گے نہ خوشبوؤں کے رنگین جنازے
پھولوں پہ تبسم کا کفن یاد رہے گا
ناقدری صاحب نظراں اور ذرا دیر
یہ مقتل بے دارو رسن یاد رہے گا
یہ غلغلہ بے ہںراں چار گھڑی اور
البتہ زمانے کا یہ فن یاد رہے گا
موسم تو بدلنا ہے بدل جایے گا اک روز
زخموں کا تر و تازہ چمن یاد رہے گا
ہے گرچہ وطن میں بھی غریب الوطنی سی
یارو ہے وطن پھر بھی وطن یاد رہے گا
گو دور کے جلوے ہی سہی اپنا مقدر
خوشبو سی نظر، گل سا بدن یاد رہے گا
از قلم زوار حیدر شمیم