انکی پلکوں پہ لرزتا ہوا تارا تو نہیں
میری مایوس امیدوں کا سہارا تو نہیں
مست موجوں میں نہاں کوئی اشارہ تو نہیں
کسی امڈے ہوئے طوفان نے پکارا تو نہیں
نکھری نکھری سی نظر آتی ہے شام مہتاب
اس نے الجھی ہی زلفوں کو سنوارا تو نہیں
ٹوٹ کر کھو جو گیا ظلمت شب میں ہمدم
یہ کہیں میری ہی قسمت کاستارہ تو نہیں
ہم نے مانا کہ ہے مضبوط بہت ہمت دل
پھر بھی، گرداب ہے گرداب ، کنارہ تو نہیں
چاندنی جھوم اٹھی رقص میں آیے انجم
آپ کے لب پر کوئی شعر ہمارا تو نہیں
کہکشاں ، دیکھ ، تری انجمن تاباں میں
کوئی میرے بھی مقدر کا ستارہ تو نہیں
لطف آیے گا طوفان کے تھپیڑوں میں یہ کیوں
انہیں موجوں میں کہیں اپنا کنارہ تو نہیں
اشک مسلے ہوئے جذبات کا آیئنہ ہے
اشک موتی تو نہیں ، اشک ستارہ تو نہیں
بات یہ اور ہے پہو نچوں نہ اگر منزل تک
تھک کے بیٹھا تو ضعف سے ہارا تو نہیں
نذر کر سکتا ہوں دو پھول عقیدت کے شمیم
میرے پاس افسر اسکندر و دارا تو نہیں
از قلم زوار حیدر شمیم