Lets play Floor is Lava | A cross cultural motherhood story in urdu| written by vaiza zaidi
- Syeda Vaiza Zaidi
- 0
- Posted on
Lets play Floor is Lava
A bold metaphor for parenting across cultures—unstable, intense, but full of growth.
written by vaiza zaidi
وہ کچھ دنوں سے دیکھ رہی تھی اسکا آٹھ سالہ بیٹا ارحم جنگلی بچوں والی حرکتیں کرنے لگا تھا۔ لائونج میں صوفے پر کود کود کر اسکے کشن بٹھا دیئے اوپر سے ایک نیا کھیل سیکھ آیا۔ سارے گھر کے تکیوں کشنز وغیرہ کو لائونج میں لا کر ڈھیر کیا اب انہی کشنز پر چلنا تھا زمیں پر پائوں رکھو تو زمین لاوا ہے۔ پائوں رکھنے والا جل جائے گا۔ یہ کھیل وہ اپنے سے دو سال چھوٹے بھائی معظم کے ساتھ کھیلتاتھا۔ یعنی یک نہ شد دو شد۔
وہ خوش تھی کہ چلو اسکے بیٹے شریف ہیں آرام سے بیٹھ کر گاڑی چلاتے رہتے ہیں کافی ہے۔ باہر وہ جانے نہیں دیتی تھی۔ نیا ملک اجنبی لوگ۔ وہ لوگ ابھی دس ماہ پہلے ہی انگلستان میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ ارد گرد کون رہتا کتنے لوگ رہتے کوئی واقفیت ہی نہیں ہوپائی تھی ابھی اسکی سارا دن وہ اکیلی ہی بچوں کے ساتھ ہوتئ تھی اسکے میاں صبح کے گئے شام کو آتے تھے۔ وہ بچوں کو لائونج میں بٹھا کر خود اوپن کچن سے ان پر نظر بھی رکھتی تھی۔ ذیادہ سے ذیادہ ٹی وی لگا دیا۔ دونوں اب اسکول جاتے تھے۔ دونوں کو ہمیشہ انگریزی اسکول میں ہی پاکستان میں بھی پڑھایا تھا تو یہاں آسانی سے پڑھائی شروع ہوگئ تھی انکی۔ مگر کچھ دنوں سے وہ دیکھ رہی تھی کچھ ذیادہ ہی پرجوش ہو کر آتا تھا اسکول سے ۔ ٹی وی دیکھنے کی کی جگہ اسے لان میں کھیلنا تھا۔ اس نے جانے دیا کہ دن کا وقت تھا اور اپنے شوہر سے کہہ کر اس نے باڑ بھی لگوا لی تھی۔ لیکن وہ سر پیٹ کر رہ گئ جب ارحم اور معظم مٹھی میں لتھڑے پانی کی کیچڑ بنا کر اس سے کھیل رہے تھے۔ پانی انکو فراہم کرنے والا پڑوسیوں کا ارحم کا ہم عمر بچہ تھا جو انکے ساتھ اس گندے کھیل میں شریک تھا۔ اسکو تو کیا کہنا تھا بس اتنا ہی کہا کہ بس اب کھیل ختم اپنے گھر جائو ۔ ان دونوں پر اسکا بس چلتا تھا مار مار کر نہلایا کپڑے بدلائے اس دن کے بعد دوبارہ لان میں جانے نہیں دیا۔ مگر یہ سعی بےکار رہی۔ اسکی پڑوسن اگلے دن ایک ٹوکری میں چند سیب سجائے اسکے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔
اس نے خاصے برے مزاج کے ساتھ دروازہ کھولا تھا جوابا وہ مسکرا کر معزرت خواہانہ انداز میں بولی
میرے بچے لان میں کھیل رہے ہیں تو شور و غل کررہے ہیں اگر آپ کے آرام میں خلل ہو تو فوری بتایئے گا ۔ازالے کے طور پر یہ تحفہ قبول کیجئے۔ اسکے کہنے پر اس نے نظر بھر کر پڑوس میں دیکھا تو بس اسکی عقل پر ماتم کرکے رہ گئ۔ اسکے اپنے تو دو ہی بچے تھے ایک بیٹا ایک بیٹی البتہ اپنے پڑوس سے درجن بچے اکٹھے کرکے ایک ہوا سے بڑھنے والے چھوٹے بچوں کے پول میں ڈھیر سارا پانی بھر کر اچھالتے لان میں کیچڑ مچا کر کھیل رہے تھے۔ شور و غل تو اپنے گھر میں جتنا بھی مچائیں اسکو کیا پروا مگر کیچڑ میں لوٹ پوٹ ہوتے ان بچوں کو دیکھ کر خلجان ضرور ہوا۔ اسکے اپنے دونوں بچے صاف ستھرے کپڑوں میں ٹی وی پر اینی میٹڈ فلم دیکھ رہے تھے۔
آپ بھی اپنے بچوں کو بھیج سکتی ہیں میں نگرانی کر رہی ہوں انکی۔ایسا نہیں کہ یہ شتر بے مہار کھیل رہے ہوں۔
اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے وہ یہ سمجھی شائد وہ بھی اپنے بچوں کو بھیجنا چاہے گی۔
نہیں۔ ہرگز نہیں۔ وہ ایکدم گھبرا کر بولی
وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی اپنے بچوں کو اس غل غپاڑے کا حصہ بنانے کا۔ یہ نگرانی کررہی ہے تب یہ طوفان بدتمیزی ہے بچے اپنے طور پر تو ہلہ مچائیں تو شاید آسمان پر ہی ٹکلی لگائیں۔
اسکے صاف انکار پر جو حیرانی سمانتھا کے چہرے پر ابھری اس پر سٹپٹا کر اس نے وضاحت دی۔
میرا مطلب ہے میرے بچے اس وقت اینی میٹڈ مووی دیکھ رہے ہیں۔ شکریہ دعوت دینے کا۔
بچوں کا اسکرین ٹائم محدود ہونا چاہیے۔ دخل اندازی کی معزرت۔ وہ شائستگئ سے گویا ہوئی۔
میرا بیٹا بتاتا ہے کہ جب وہ ارحم سے پوچھتا ہے کہ وہ اپنے فارغ وقت میں کیا کرتا ہے تو ارحم یہی بتاتا ہے کہ وہ ٹی وی دیکھ رہا تھا۔بچوں میں مستقل ٹی وی دیکھنے سے انکی ذہنی صلاحیت اور بصارت متاثر ہوتی ہے۔
جانتئ ہوں میں۔ اس نے بات کاٹ دی تھئ۔
اس بلا وجہ کے بھاشن پر اسکے چہرے پر خاصی ناگواری اتر آئی تھی جسے بھانپتے ہی سمانتھا نے مسکرا کر ایک۔بار پھر معزرت کی اور پلٹ کر چلی گئ۔
اس نے سر جھٹکا اور دروازہ بند کردیا۔ ایک گونہ سکون کا احساس ہوا تھا۔ اسکے دونوں بیٹے ٹی وی دیکھتے دیکھتے ہی آڑے ترچھے ہو کر سو گئے تھے۔ اس نے آگے بڑھ کر ٹی وی بند کردیا۔
مجھے خود خیال رہتا ہے اس بات کا۔۔۔آئی بڑی لیکچر جھاڑنے والی۔ وہ بڑبڑائے بنا نہ رہ سکی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم نے بتایا تھا کہ جوزف کی ماما کی طبیعت خراب ہے۔ اس نے پہلے تو نظر انداز کیا مگر پھر سوچا پڑوس کا معاملہ ہے اور سیب کا احسان بھی اتارنا ہے سو گھر پر کیک بیک کیا ایک ٹرے میں سجایا بچوں کو نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنائے اور سمانتھا کے گھر چلی آئی۔ اسکے گھر سے عجیب شور اٹھ رہا تھا بچے چلا رہے تھے چیزیں گھسیٹنے کی آوازیں۔ وہ سوچ میں پڑ گئ کہ اطلاعی گھنٹی بجائے یا نہ بجائے تبھی بند دروازے پر زور سے کوئی چیز آکر لگی۔ جانے اندر کیا ہورہا ہے اس نے گھبرا کر زوردار دستک دے ڈالی۔
چند لمحوں میں سمانتھا کا مسکراتا چہرہ سامنے تھا۔
ہائے یہ میں لائی تھی آپکے لیئے۔ اس نے بنا تمہید ٹرے اسکی جانب بڑھا دی۔ سمانتھا نے شکریےکہتے ہوئے تھام کر اسے بھئ اندر آنے کی دعوت دی۔ وہ کچھ جھجکتی ہوئی داخل ہوئی تو ایک لمحے تو حیران پریشان ہی رہ گئ۔اسکے دونوں بچے اچھل اچھل کر ممی ہار گئیں چلا رہے تھے۔ سمانتھا مسکرا کر ہار تسلیم کررہی تھی ساتھ کھیل کا اصول بھی بتا رہی تھی کہ مہمان آجائیں تو کھیل جہاں وہ جیسا ہو رک جاتا ہے۔ انکئ اس بچکانہ گفتگو سے قطع نظر ربیہ کو جو نظر آرہا تھا وہ یہ کہ پورا گھر تلپھٹ ہوا وا تھا۔
لائونج سے کچن تک ایک کشنز کی ٹرین بنی ہوئی تھی۔ سمانتھا اس دروازے تک آنے کیلئے کشن دروازے پر پھینک کر راستہ بناتی آئی تھی مگر اس سے بات کرتے بھول کر فرش پر کھڑی ہوگئ تھی۔
فرش تو لاوا تھا اس پر جو پائوں رکھتا جل جاتا۔
آئو مسز بابر ادھر لائونج میں بیٹھو نا۔
اسے لابی میں ایستادہ دیکھ کر سمانتھا نے آواز لگائی۔ وہ سر ہلا کر لائونج میں بچوں کا ہاتھ تھام کر چلی آئی۔
ہیلو آنٹی کیسی ہیں آپ۔
دونوں بچے ماں کی ہدایت پر اپنے کپڑوں سے ہاتھ صاف کرتے اس سے ہاتھ ملانے آئے تھے۔ اس نے بمشکل اپنی نفاست پسند طبیعت پر جبر کرکے ہاتھ ملایا۔
ارحم اور معظم ہمارے ساتھ کھیل لیں؟ وہ اب اجازت مانگ رہے تھے۔ وہ کیا روکتی ۔ارحم اور معظم دونوں ہاتھ چھڑا کر انکی جانب لپکے۔
اب دو کی جگہ چار بچے پورے گھر کے جمع کییئے کشن تکیئوں فلور کشنز پر کودتے اچھلتے پھر رہے تھے۔ جو کشن کی بجائے زمین پر پائوں رکھتا وہ لاوے کی نظر ہوجاتا اور ہار جاتا لہزا زمین سے بچنے کیلئے کبھی صوفے پر چھلانگ ماری جا رہی تھی کبھی کشنز پر۔ سمانتھا جب تک کافی بنا کر لائی اسکا پارہ چڑھ چکا تھا۔یہ لاوا گیم ارحم نے اس جوزف اور اسکی بہن للی سے سیکھی تھی۔ اور ابھی سمانتھا کا گھر تھا اسے اختلاج قلب ہورہا تھااسکا اپنا گھر ہوتا تو شائد وہ ان چاروں کی پٹائی کرکے جیل جا چکی ہوتی۔
سوری تمہیں انتظار کرنا پڑا۔
سمانتھا پکی انگریزنی تھی۔بات بے بات معزرت کرنے کی عادت۔
مگر ربیہ چڑ چکی تھی کہے بنا نہ رہ سکی۔
تم منع نہیں کرتیں انہیں لاوا جیسا بکواس کھیل کھیلنے سے؟ پورے گھر کے تکیئے کشن برباد کردیئے ہیں۔ ننگے پیر چڑھ رہے اتر رہے صوفے پر کود رہے صوفہ خراب ہوجائے گااسطرح تو۔
کشن کور پر دھبے پڑ گئے ہیں۔ اوپر سے اتنا شور کررہے تمہاری تو طبیعت خراب نہیں تھی؟ تمہارے آرام میں خلل نہیں پڑرہا اس شور سے۔ اس سے بہتر تھا تم انکو اسکول جانے دیتیں ۔ کم از کم اتنی دیر آرام تو کرلیتیں۔
اسکے اتنا بولنے پر سمانتھا جو بڑے غور سے اسے سن رہی تھی ایکدم ہنس پڑی۔
مجھے پتےکا آپریشن بتایا ہے ڈاکٹر نے کل ہوگا آپریشن اسلیئے میں بچوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھی۔ چھوٹا سا سہی مگر آپریشن تو ہے۔ اس کیلئے مجھے شور و غل سے فرق نہیں پڑرہا۔ باقی تکیئے غلاف بدل دوں گی میں جب یہ کھیل چکیں گے۔
اور جو یہ صوفہ انکے اچھلنے سے جو بیٹھ رہا ہے اسکا کیا؟
ربیہ تیز ہو کر بولی۔
خراب ہوجائے گا توٹھیک کروالوں گی۔
وہی نا۔ سب مسلئے پیدا ہونے دو پھر اسکا حل تلاش کرو اسکی بجائے بچوں کو کیوں نہیں روکتیں کہ شور نہ کریں گھر کے کشن برباد نہ کریں۔ میرا گھر دیکھا ہے میں تو بچوں کو سیٹنگ بھی خراب نہیں کرنے دیتی۔
اس سے کیا ہوتا ہے؟ سمانتھا کافی کا بڑا سا گھونٹ لیکر کپ سائڈ ٹیبل پر ٹکا کر پوچھنے لگی۔
گھر درست حالت میں رہتا ہے۔
ربیہ جتانے والے انداز میں بولی
اور بچے اپنے گھر میں مہمان بن کے بیٹھے رہتے ہیں۔ دیکھو ربیہ صوفے ٹھیک کروا لیئے جائیں گے، غلاف دھل جائیں گے،صفائی پھر ہو جائے گی، یہ بچے ہمیشہ بچے نہیں رہیں گے بڑے ہوجائیں گے، تب نہ صوفوں پر اچھلا کودا کریں گے نہ غلاف گندے کریں گےتب انہیں یہ یاد رہے گا انکی ماں صفائی کے خبط میں انہیں کھیلنے سے نہیں روکا کرتی تھی بلکہ کبھی کبھی انکے ساتھ مل کر کھیلا بھی کرتی تھی۔
مجھے اچھی یادیں بنانی ہیں۔انکے ساتھ ۔صاف یادیں نہیں جن میں انکو اپنے ساتھ ہنسنے کھیلنے والی ماں کی جگہ چڑچڑی صفائی کے خبط میں مبتلا بدمزاج ماں یاد نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھانا پکا کر ہاتھ دوپٹے سے صاف کرتی ہوئی لائونج میں آئی تو دماغ جھنجھنا گیا۔
جوزف ، سنتھیا( جوزف کی بہن) ارحم اور معظم سب ایک قطار میں بیٹھے تھے۔ سنتھیا کا میک اپ کیا جا رہا تھا اسکی سنگھار میز سے میک اپ کا سامان لا کر اور کیا خوب جوزف نے میک اپ کیا تھا ۔ شائد ماں کا میک اپ استعمال کرنے کی عادت تھی۔ مگر کام ختم ہونے کے بعد اسکا بلش آن ، لپ اسٹک ، اسکا پرفئوم سب صوفے پربکھرا پڑا تھا۔شائد کوئی لوشن کی شیشی کھلی رہ گئ تھئ تو گرے صوفے پر سفید مایا دھبہ پڑچکا تھا۔ سنتھیا کے چہرے پر سلیقے سے لپ سٹک لگی تھی اسکا نماز کا دوپٹہ اوڑھے سنتھیا دلہن بنی کھڑی تھی اسکا دلہا تھا اسکا اپنا بیٹا ارحم جوزف پادری بنا ان دونوں سے آئی ڈو آئی ڈو کروا رہا تھا جبکہ معظم پھول پھینک رہا تھا دلہا دلہن پر۔ پھول؟
ربیہ چونکی۔
اسکے لائونج میں رکھےسجاوٹی گلدان میں سے سب نقلی پھول نکال کر پتی پتی الگ کرکے ایک پلیٹ میں اکٹھے کر رکھے تھے۔
یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ پہلی دفعہ تھا کہ اسکے منہ سے غصے کی بجائے روہانسی سی آواز نکلی۔ چاروں بچے اپنی اپنی جگہ تھم گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوزف اور سنتھیا کو کافی دیر ہوگئ تھی پڑوس میں کھیلنے گئے ہوئے اب انکے کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا تو سمانتھا انہیں بلانے آئی تھی۔ خلاف توقع مین ڈور کھلا ہوا تھا وہ دستک دے کر انتظار کرنے لگی۔
کو چھک چھک۔ ریل گاڑی کی آواز نکالتے ہوئے بچوں کی انسانی ریل گاڑی اندر سے بڑی تیزی سے باہر نکلی وہ ایکدم سے ایک طرف ہو کر
110
راستہ دینے لگی ۔ سب سے آگے سمانتھا تھی اسکے پیچھے معظم پھر ارحم پھر جوزف اور سب سے آخری ڈبہ کے طور پر خلاف توقع ربیہ اس ریل گاڑی سے جڑی تھی۔ اسکو دیکھ کر سر کے اشارے سے سلام کرتے ہوئے ریل گاڑی آگے بڑھ گئ تھئ۔ اس نے لمحہ بھر کو سوچا
پھر بھاگ کر خود بھی اس ریل گاڑی کا حصہ بن گئ تھی۔
kesi lagi yeh kahani? Rate us below