تڑپ رہی ہیں حقیقتیں جن کو حاصل کائنات کہئے
مگر تڑپ کو تڑپ نہ کہئے تڑپ کو رقص حبات کہئے
بجا کہ ہے صبح نو کے چہرے پہ شام کی تیرگی سی لیکن
وہ دن بتائیں تو دن سمجھئے وہ رات کہدیں تو رات کہئے
بضد میں اس پر آج سنئے جفائے دور خزاں کا شکوہ
مصر وہ اس بات پر کہ رنگینی گلستان کی بات کہئے
امیر غربت کچل کے رکھدے تو صرف تفریح دل سمجھئے
غریب شکوہ کے تو اسکو بہت بڑی واردات کہئے
کہاں وہ آزادیاں چمن کی کہاں اسیری قفس کی لیکن
اسے بھی احسان جانئے فکر آشیاں سے نجات کہئے
میں شہد حاضر کروں جو کوزہ میں زہر قاتل سمجھئے اسکو
وہ زہر شیشوں میں بھر کے دے دیں تو اسکو آب حیات کہئے
از قلم زوار حیدر شمیم