اضطراب اسکے چہرے سے عیاں تھا پورے کمرے میں نظریں گھما گھما کر دیکھ رہا تھا
کسی ایک چیز پر بھی نظر نہین ٹھہرا رہا تھا
کبھی دیوار پر آویزاں گھڑی
کبھی اسکی ہی میز پر رکھا گلدان جس کے پھول ابھی پچھلا مریض نکال کر چبا گیا تھا پلاسٹک کے پھول کھا تو کیا ہی لینا تھا الٹا اسے الٹی کروانی پڑ گئی تھی اسے
کب ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ تم نے کسی چیز پڑ نظر ٹھہرائی اور وہ ٹوٹ گئی ؟
گہرا سانس لے کر اس نے پہلا سوال کیا تھا
میں بارہ سال کا تھا جب میں نے اپنی استانی کو گھورا تھا وہ مجھے ڈانٹ رہی تھیں میں نے گھور کر دیکھا تھا وہ اسی وقت گر کر مر گئیں
گزرے وقت کی یاد نے جسے اسے اس ہی مکتب کے کمرے میں پہنچا دیا تھا شاید
آنکھیں بند کر کے وہ اس منظر میں کہیں کھڑا کانپ رہا تھا
پھر ؟
اس نے اسکی تاریخی تفصیل مرض پر نظر ڈالتے ہوئے سرسری لہجے میں پوچھا اسکی پوری توجہ سامنے بیٹھے اس پچیس سالہ نوجوان پر تھی شکل و صورت میں وہ کافی بھلا دکھائی دیتا تھا کلین شیو کھلتے ہوئے رنگ کا دراز قد مگر انتہائی گھبراہٹ اسکے چہرے سے مترشح تھی آنکھیں بند اس نے اپنا قصہ سناتے ہوئے کی تھیں مگر ابھی بھی کھولی نہیں تھیں
پھر کیا تب مجھے اندازہ نہیں تھا میں کسی کو دیکھ کر نقصان پہنچا سکتا ہوں میں اسے اتفاق سمجھا تھا مگر پھر میں کالج میں ایک دفعہ ایک لڑکے کی جان لے گیا میں اسکو بھی نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا
وہ مجھ سے کسی معمولی بات پر جھگڑ بیٹھا تھا مجھے یقین جانے ڈاکٹر صاحب وجہ بھی یاد نہیں اب
روہانسا ہو کر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تھا
اسکی آنکھیں خوبصورتی کی تمام شرائط پر پورا اترتی تھیں بڑی سے کالی سیاہ آنکھیں جن میں ہلکی سی سرخی اسکے رونا ضبط کرنے پر در آئی تھی گھنی سیاہ پلکیں
یہ آنکھیں کسی لڑکی کے چہرے پر سجی ہوتی تو کتنا خوش ہوتی مسکارا لگانے کی ضرورت نہ پڑتی
کتنی غیر متعلقہ سوچ اسکے دماغ میں آئی تھی
آپ سن رہے ہیں نا ڈاکٹر ؟
گمان کو شک گزرا تھا اور صحیح گزرا تھا
یقین تو اپنے ذہن میں اسکی آنکھوں پر تبصرہ کرنے میں مشغول تھا جانے اس نے کیا بتایا کیا نہیں
وہ اپنی غائب دماغی کو کوس کر رہ گیا اب اگر وہ اعتراف کر لے کہ واقعی نہیں سنا تو مریض سے کچھ بعید
نہیں پیپر ویٹ اٹھا کر اسکے سر پر ہی مار دے اس نے جلدی سے پیپر ویٹ ڈھونڈا میز پر ایک بار کھا چکا تھا وہ سر پر اتنا بڑا گومرا نکل آیا تھا کئی دن اسپتال آنے کے بھی قابل نہیں رہا تھا
ہاں
اس نے جلدی سے پیپر ویٹ اٹھا کر اپنی میز کی دراز کھول کر رکھ دیا
اس سے یہ کیوں سوچا کہ اس میں تمہارا قصور تھا ؟
اپنے واہمے پر ہی کوئی قصہ سنایا ہوگا
اس نے ہوا میں تیر چلایا
وہاں صرف میں اور وہ تھے
اس کی نظریں اس پر جمی تھیں
اچھا ٹھیک اور کوئی قصہ سناؤ
اس نے بحث ٹالی
پھر میں نے ایک بار اپنے ہی بھائی کو گھورا اس کے ہاتھ کو وہ مجھے چھیڑ رہا تھا اسکا ہاتھ
اسکا ہاتھ
وہ ہچکیاں لے کر رو پڑ ااسکا ہاتھ ٹوٹ گیا دو مہینے پلستر رہا ابھی بھی صحیح طرح جنبش نہیں کرتا
میرا اپنا چھوٹا بھائی مجھ سے ڈرتا ہے میرے پاس نہیں آتا ہے
اس نے مریض کی گزشتہ زندگی کا احوال دوبارہ دیکھاکبھی بھی مکلمل ماضی کے حالات جانے بنا وہ مریض سے ملتا نہیں تھا جہاں تک اسے یاد تھا اسکے بھائی بہن نہیں تھے
واقعی نہیں تھے
ہاتھ دیکھتے دیکھتے ٹوٹ گیا تھا یا وہ تمھارے دیکھنے سے لڑکھڑا کر گر پڑا تھا ؟
سوال اہم تھا وہ رونا بھول کر سوچ میں پڑا
ہاں وہ ہاتھ جھٹک رہا تھا جیسے اسکے ہاتھ میں بہت جلن ہو رہی تھی پھر گھبرا کر گر بھی گیا تھا
ہممم اس نے ہنکارا بھرا
پھر
پھر میری زندگی میں آرزو آئی
میں بہت خوش تھا میں بہت پیار کرتا تھا اس سے وہ بہت پیاری تھی ایک دن
وہ بہت غصے میں میرے پاس آئی کسی اور لڑکی کا نام لے کر بولی میرا اس سے کیا تعلق ہے میں سمجھ نہیں پایا اس دن اسے کیا ہوا تھا اس نے کبھی مجھ پر شک نہیں کیا تھا پر اس دن مجھ پر اعتبار نہیں کر رہی تھی میں نے صفائی دی پھر غصہ آگیا مجھے میں نے اسے گھورا اور وہ
وہ تڑپنے لگی اسکی آنکھیں پگھل گئیں ڈاکٹر صاحب
ہیں کیا ہوا اسکی آنکھوں کو؟
یقین کو تعجب ہوا
اسکی آنکھیں پگھل گئیں
وہ اسکی آنکھیں بہہ گئیں
آپ کو یقین نہیں آرہا تھا میری بات کا آپ کو ملواؤں آرزو سے
مگر نہیں وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی آپ کو اسکا پتہ بتاؤں جا کے خود دیکھ لیں
کاغذ قلم دیں مجھے
وہ اضطراری انداز میں اسکی میز پر ہاتھ مار رہا تھا
نیکی اور پوچھ پوچھ اس نے فورا اوراق بند اسے اٹھا کر دیا اور قلم بھی
لکھ لے تو آدھا اضطراب کم ہو جائے ہر ذہنی دباؤ کے مریض کو اگر اپنا ماضی الضمیر بتانے میں ہی سب سے بڑی مشکل آتی لکھ لے تو آسانی اسے بھی ہوتی سننا تو خیر آسان ہوتا ہی نہیں
چند جملے گھسیٹ کر اس نے واپس رکھ دیا
ابھی یقین کو گمان پر یقین نہیں آیا تھا جبھی اس نے زحمت نہیں کی پڑھنے کی
دوبارہ گمان کے چہرے پر نظر جما لی
بس یہ تین واقعات کی بنیاد پر تمہیں لگتا کہ تمہاری آنکھیں غیر معمولی قوت رکھتی ہیں؟
نہیں : اس نے صاف انکار کیا
میں نے تب مانا کہ میری آنکھیں غیر معمولی ہیں جب
آرزو کو اندھا کر کے میں خود کو معاف نہیں کر پا رہا تھا تو میں نے اپنی آنکھوں میں سلاخ گھسیڑ لی تھی
اور دیکھ لیں میری آنکھوں کو کچھ بھی نہیں ہوا
وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا رہا تھا
اب یہ تو واقعی نہ ماننے والی بات تھی کوئی اپنی آنکھوں میں سلاخ گھسیڑ لے اور کچھ بھی نہ ہو ایسا ممکن ہے بھلا
ذہنی دباؤ کے مریض خواب اور حقیقت میں فرق نہیں کر پاتے کبھی کبھی۔ یقینا اس نے خواب میں ایسا کیا ہوگا
اس نے سر جھٹکا
تم اپنے بھائی سے ملوانا مجھے میں اسے سمجھاؤں گا کہ وہ تم سے ڈرے نا تم اس سے بہت پیار کرتے ہو اسکو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے تھے
واقعی اسکی آنکھیں چمکیں
آپ ایسا کریں گے ؟
آپ آرزو کو بھی سمجھائیں گے ؟
اس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا
وہ بچوں کی طرح خوش ہوگیا
میں پاگل نہیں ہوں میں نے بہت بار اپنے گھر والوں کو سمجھانے کی کوشش کی میں پیدا ہی ایسے ہوا ہوں کہ میری آنکھوں میں کشش ہے مجھے اپنی اس طاقت کا اندازہ نہیں تھا جبھی میری وجہ سے بہت نقصان پہنچ گیا دوسروں کو مگر آپ کو بتاؤں انسانوں کو میں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے میں اپنی طاقت پر مکمل اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور میں چیزیں پانچ سیکنڈ تک گھور کر دیکھنے سے توڑ سکتا ہوں
اس نے دیوار پر ٹنگی گھڑی کی طرف اشارہ کیا
اس پر لکیر آ چکی ہے
یقین ہنس دیا
آپکو یقین نہیں میری بات پر ؟
اس نے ناراضگی سے پوچھا
نہیں
یقین نے سکون سے کہا
دیکھیں اس نے گھڑی پر نظر جما دی
ایک
دو
تین
چار
پانچ
یقین گنتی گن رہا تھا
چھے
سات
تڑاخ
شیشہ ٹوٹ کر چور ہو کر نیچے گرا تھا
گھڑی دھڑام سے نیچے آرہی
ایک لمحے کو جیسے اسکا پورا دفتر لرز گیا گمان بجائے اپنی بات کے ثابت ہونے پر خوش ہوتا کپکپا اٹھا
یقین نے ہلتی میز کو تھاما
زلزلہ تھا یہ
اسی وقت دروازہ کھول کر اسکا ملازم جمع سیکٹری اندر داخل ہوا
سر زلزلہ آ رہا ہے عمارت ہل رہی ہے
گمان نے بے یقینی سے دیکھا تھا
جاؤ جا کر آرام سے کام کرو ختم بھی ہو گیا ہے زلزلہ
یقین نے آرام سے کہا تو وہ بھی یقین کا یقین کر کے پلٹ گیا
واقعی زلزلہ آیا تھا؟
گمان کا یقین متزلزل ہوا
ہاں اس نے سر ہلایا
مگر پھر میری وجہ میں نے تو
اس نے الجھن سے کہتے دونوں ہاتھوں میں سر تھام لیا
دیکھو گمان اور یقین میں بہت بال برابر فرق ہوتا تم نے گمان کیا کہ تمھاری آنکھیں غیر معمولی ہیں اس بات پر یقین پے در پے پیش آنے والے اتفاقات سے تم نے کر لیا
تم خود سے ڈر گیے تم نے گھور کر دیکھنا چھوڑ دیا
تم دیکھو بار بار دیکھو تم ہر چیز کو دیکھو دیکھو گے تو تمہیں خود احساس ہوگا تم میں ایسا کچھ غیر معمولی نہیں
مگر
اس نے بے چینی سے پوچھا
مگر وہ لڑکا کیسے مر گیا میری وجہ سے
کونسا لڑکا
یقین بھول بیٹھا تھا
وہی جو مجھ سے لڑ رہا تھا اس نے میری ناک پر مکا مارا میں نے غصے سے دیکھا اسے وہ لڑکھڑا گیا پھر وہ سیڑھیوں کے پاس ہی کھڑا تھا وہ نیچے اترنے لگا پھر چکرا کر گرا اسکی ناک سے خون نکل آیا
تھا اور
وہ اور بھی کچھ بتا رہا تھا
یقین نے یہ گتھی بھی سلجھا دی ‘
تم خود بتا رہے ہو وہ سیڑھیوں سے گرا گرنے سے سر پر چوٹ آئی وہ مر گیا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں
کیا آپکو یقین ہے ابھی زلزلہ ہی آیا تھا ؟
ہاں یقین نے سر ہلایا
مجھے کوئی مضبوط چیز دیکھائیں جو آپکو لگتا ہو میری آنکھوں سے نہیں ٹوٹ سکتی
میں یقین کرنا چاہتا ہوں
میں یقین مسکرایا
اتنی دیر سے مجھے دیکھ رہے ہو کہ نہیں ؟
کچھ ہوا مجھے
گمان نے اسے گھورا
آپ کے سر میں درد نہیں ہو رہا؟
یقین کے لئے سوال غیر متوقع تھا
ہو تو رہا تھا سر میں درد مگر صبح سے درجن بھر ذہنی مریض بھگتانے کے بعد سر میں درد نہ ہو تو اور کیا ہو
ہو رہا ہے
یقین نے مسکرا کر کہا
مگر یہ تم سے ملنے پہلے سے ہو رہا ہے صبح سے بنا وقفہ لئے کام کرنے کی وجہ سے ہورہا
اسکا تم سے یا تمہاری آنکھوں سے کوئی تعلق نہیں
گمان چپ چاپ دیکھتا رہا
پیپر ویٹ نہیں ہے آپکی میز پر
میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں
یقین نے کندھے اچکا دے اور میز کی دراز سے پیپر ویٹ نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا
ایک
دو
تین
یقین اسکو نظروں میں رکھ کر گنتی گن رہا تھا
چار پانچ چھے سات آٹھ نو دس
پیپر ویٹ ثابت سالم میز پر براجمان تھا
گمان نے سوکھے لبوں پر زبان پھیری
یقین نے ابرو اچکا کر مسکرا کر دیکھا
تو اب کیا خیال ہے ؟
گمان اٹھ کر کھڑا ہو گیا
کل دو بجے ہم اگلی ملاقات کریں گے
یقین بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا
اب کل ملنے کی ضرورت نہیں رہی آپ نے واقعی میرا یقین توڑ دیا
وہ مسکرایا
اس وقت کافی بہتر محسوس کر رہا تھا یقین نے کندھے اچکا دے وہ ہاتھ ملا کر خدا حافظ کہتا چلا گیا
ھففف
آخری ملاقات تھی یہ آج کی اف بہت تھک گیا وہ دونوں ہاتھ سر پر رکھ کر کرسی پر گر سا گیا انگڑائی لے کر اس نے اپنی چیزیں ترتیب دینا شروع کیں
کچھ کھلونے تھے کچھ آلے مریضوں کی تفصیلی فائل وغیرہ اب جیسے صبح ایک مریض کو وہم تھا میرا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے بھاری ہے
اسکو پیپر ویٹ تھما کر اس نے کس مشکل سے یقین دلایا تھا یہ وہ جانتا تھا
پیپر ویٹ اس نے اسی کے لئے نکالا تھا ورنہ اب ہمیشہ دراز میں ہی رکھتا تھا اس نے دوبارہ یاد آنے پر پیپر ویٹ کو دراز میں رکھنے کی نیت سے اٹھانا چاہا
اس کے چھونے سے چکنا چور ہو گیا جیسے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا بس بظاھر سالم نظر آ رہا تھا
یقین گھبرا کر کھڑا ہو گیا
یہ کیسے ممکن ہے ؟
کیا واقعی اس نے گھور گھور کر توڑ دیا تھا
اس نے فورا اطلا ئی گھنٹی بجائی
اسکا سیکٹری بھاگا بھاگا آیا
وہ مریض جو ابھی نکل کر گیا ہے اسے بلا کر لاؤ
سیکٹری سر ہلا کر پلٹ گیا
اس نے جلدی سے اسکی فائل نکال کر دیکھنی شروع کی
اسکا سگا کوئی بہن بھائی واقعی نہیں تھا ایک کزن تھا جو پڑھائی کی غرض سے اس کے گھر رہتا تھا
اس کا ہاتھ ابھی کچھ مہینے قبل ٹوٹا تھا جسکا ذمےدار وہ خود کو مانتا تھا
وہ مر جانے والا لڑکا جس کا تذکرہ کر رہا تھا پانچ سال پہلے مرا تھا اسکی طبی تحقیق منسلک تھی جس کے مطابق اسکی موت دماغ کی رگ پھٹنے سے ہوئی تھی
سر
پھولی سانسوں کے ساتھ اسکا سیکٹری واپس آیا تھا
سر وہ جا چکا ہے
لفٹ تک دیکھ کر آیا ہوں
سانس بحال کر کے اس نے بتایا تھا
اس کے ساتھ کون آیا تھا ؟
یقین نے بے تابی سے پوچھا تھا
کوئی نہیں سر اکیلا آیا تھا
سیکٹری نے کندھے اچکآیے
اس نے کوئی رابطہ نمبر دیا تھا؟ دیا ہوگا جا کے آج کے مہمانون کی فہرست میں اسکا رابطہ نمبر دیکھ کر بتاؤ مجھے
جاؤ جلدی
وہ خود نہیں جانتا تھا آخر کس بات پر وہ اتنا گھبرا رہا ہے
چند منٹوں میں سیکٹری کی واپسی ہوئی تھی وہ فہرست ہی اٹھا لایا تھا ‘
سر اس میں تو اس نے کچھ بھی نہین لکھا
عجیب سا جملہ لکھا ہے رابطہ نمبر کی بجاے
لکھا ہے میں گمان ہوں جب بلاؤگے آجاؤنگا
اس نے الجھن سے پڑھ کر اسے بتایا
یقین نے اپنے ہونٹ کاٹ لئے آخر کیوں کیسے
سوال اس کے گرد چکر کھا رہے تھے
میں آپکو اسکا پتا بتاتا ہوں
اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا اس نے جلدی سے اوراق بند ڈھونڈا اور تیزی سے صفحے پلٹنے لگا
سیکٹری حیران سا کھڑا اسکو مضطر دیکھ رہا تھا
ایک دو تین اس نے جلدی جلدی صفحے پلتے
زندگی کی سڑک پر قسمت کے مارے جب بن سوچے موڑ مڑتے ہیں تو پہلا گھر آرزو کا آتا ہے جا کے دیکھ لو
آرزو اندھی ہے
گمان کی آرزو ہے مگر یقین جب تک متزلزل رہےگا پہنچ نہیں پا ۓ گا
ایک دو تین بار بار اس نے اس عبارت کو پڑھا تھا
سر
سیکٹری نے پکارا تو وہ بری طرح چونکا
ہاں
سر آپکی ناک سے خون بہ رہا ہے
سیکٹری نے خاصا پریشان ہو کر اشارہ کیا تھا
آپ ٹھیک تو ہیں
اس نے ٹھٹھک کر اپنی ناک پر ہاتھ پھیرا گرم گاڑھا خون اسکی انگلیوں پر پھیل گیا
آپ ٹھیک تو ہیں ؟
وہ خود اپنے سامنے کھڑا خود سے پوچھ رہا تھا
میں گمان ہوں
اس نے مسکرا کر ہاتھ بڑھایا
مجھ میں اور آپ میں بس اتنا سا فرق ہے آپ مجھے جھٹلا دیں تو میں کچھ بھی نہیں
گمان اپنا تعارف کرا رہا تھا مگر
یقین کو گمان پر یقین آ گیا تھا
………………………………………………
از قلم واعظہ زیدی (ہجوم تنہائی) #اردو #اردوویب #ناول #visit: hajoometanhai