دیسی کمچی
قسط دو۔
پہلا منظر
ابیہا نے پانچویں بار عزہ کو فون ملایا تھا۔۔
پہلے ہنگل اور پھر انگریزی میں بتایا گیا کہ آپکا مطلوبہ نمبر فی الوقت بند ہے۔۔
وہ سب سامان اکٹھا کیئے داخلی راستے پر سڑک کنارے کھڑی تھیں۔۔
یہ کیا حرکت ہے۔۔ ابیہا جھلائی۔۔
گئ کہاں آخر۔۔ کم از کم بتا کر تو جاتی۔۔
عروج کو بھی غصہ آرہا تھا۔۔
دو گھنٹے ہورہے اوپرسے فون بھی بند کیا ہوا ہے لاپروائی کی بھی حد ہوتی ہے۔۔
عروج بری طرح تپ چکی تھی۔
گیونگ پوہے پر رات کی سیاہی چھا چکی تھی۔۔
ساحل سے کوسوں دور ہونے کے باوجو د سمندر کی لہروں کا شور سنائی دے رہا تھا۔۔ وہی سمندر جو شام کو خوبصورت اور خوابناک لگ رہا تھا رات کے اندھیرے میں اتنا ہی خوفناک ہو گیا تھا۔۔
وہ سب بری طرح تھکی ہوئی اور بھوکی تھیں اس پر عزہ کا کوئی اتا پتا نہیں کہاں گئ کدھر ہے۔۔
ہم ہیں بھی انجان شہر میں اسکو سوجھی کیا آخر۔۔
اس بار فاطمہ نے پیر پٹخا تھا۔۔
الف اور نور بھی پریشان تھیں مگر ان تینوں کا پارہ چڑھتا دیکھ کر اپنے ردعمل کو محفوظ رکھا ہوا تھا۔۔
کھڑے کھڑے ٹانگیں شل ہو رہی تھیں رات کے آٹھ بج رہے تھے۔۔
نور تھک کر سڑک کنارے بنے چبوترے پر ٹک گئ۔۔
کافی ہو گیا۔۔
واعظہ جو فون کان سے لگائے کسی سے بات کر رہی تھی فون بند کر کے انکی جانب متوجہ ہوئی۔۔
چھو دانگ سن دوبو ولیج یہاں سے قریب ہے پیدل کا راستہ ہے مگر مجھے لگتا تم لوگ چل نہیں پائو گی ٹیکسئ کروا دیتی ہوں جائو کھانا آرڈر کرو۔۔ سامان عزہ کا بھی اٹھا لیا تھا نا؟۔۔
اس نے بے دھیانی سےاپنا بیگ ا ٹھا لیا پھر فورا ہی بازو بدلا۔۔
اور تم؟۔ ابیہا نے پوچھا تو وہ قصدا نظر انداز کرتی سڑک کی طرف بڑھ گئ۔۔ کافی تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی۔۔
چلو تم لوگ بھئ ۔۔ ٹیکسی یہاں تک تو نہیں آئے گی۔۔
فاطمہ نے اپنا بیگ اٹھاتے کہا تو الف پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔
اور عزہ؟ وہ تو ابھی تک نہیں آئی۔۔
کیا کریں یہاں ساری رات تو بیٹھے نہیں رہ سکتے۔۔ انتظامیہ کو شکایت درج کروا دی ہے انہوں نے تعاون کا وعدہ کیا ہے اگر انہیں گرد و نواح میں کہیں نظر آئی تو ہمیں اطلاع کر دیں گے۔۔
ابیہا نے جھلا کر کہا تو وہ چپ ہی ہوگئ۔۔
ابیہا کے انداز سے ہی لگ رہا تھا کس قدر شدید پریشان ہے۔۔
عروج نے اسکا کندھا تھپتپایا۔۔
فکر نہ کرو جب میں اور واعظہ گئے تھے شکایت درج کروانے تو وہ یہی بتا رہے تھے یہاں ہو جاتا ہے سیاح بھٹک جاتے کبھی صنوبر کے درختوں کی۔طرف نکل جاتے وہ جنگل ہے مگر بہت گھنا نہیں ہے وہ ڈھونڈ لیں گے اسے۔۔ ایک بچہ بھی آج گم گیا تھا انہوں نے ڈھونڈ لیا تھا ۔
اس نے کہا تو ان لوگوں کو تسلی تو نہ ہوئی مگر تھوڑا سا حوصلہ ضرور ہوا۔۔
واعظہ دور ٹیکسی کے پاس کھڑی اشارے سے بلا رہی تھی۔۔ چلو۔۔ فاطمہ نے کہا تو وہ سب سامان اٹھا کر اسکی جانب بڑھیں
ایک آگے بیٹھ جائے۔۔
واعظہ نے سامان ڈگئ میں رکھواتے ہوئے کہا۔ عروج گہری سانس بھر کر رضاکارانہ طور پر اگلی نشست کا دروازہ کھولنے لگی۔۔
ایک اور ٹیکسی کرنی پڑے گی۔۔ ابیہا نے کہا تو واعظہ چونکی
نور الف فاطمہ بیٹھ گئیں توبس ایک ہی اور بیٹھ سکتی تھی۔۔
کیوں۔۔ فاطمہ آگے ہو۔۔ اس نے فورا ابیہا کی جگہ بنوائی ۔۔
اور تم گود میں بیٹھو گی میرے۔
ابیہا چڑی۔۔
میں نہیں آرہی۔۔ واعظہ نے کہہ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔
مگر کیوں۔۔ سب کو تشویش ہوئی تھی۔۔
عزہ کا پتہ بھی تو کرنا ہے۔۔ تم لوگ جائو کھانا کھائو یہ رکھ لو۔۔
اس نے اپنے پرس سے کریڈٹ کارڈ نکال کر ابیہا کو تھمایا۔۔
مگر تم یہاں کیا کروگی ؟ کیسے ڈھونڈو گی؟۔۔ اکیلے۔۔
عروج بیٹھتے بیٹھتے ٹیکسی سے نکل آئی۔۔
میں پولیس اسٹیشن جا رہی ہوں۔۔ رپورٹ کرنے۔
واعظہ نے گہری سانس لی۔۔
اکیلے؟۔ میں بھی چلتی ہوں۔۔
ابیہا اور عروج دونوں اکٹھے بول پڑیں۔
یار ضد نہ کرو کھانا وانا کھائو میں آدھے گھنٹے تک آجائوں گی وہیں۔۔
مگر پھر بھی اکیلے جانے کی کیا تک میں چلتی ہوں۔۔
عروج نے کہا تو واعظہ زچ ہو گئ۔۔
یار کوئی تو جائے انکے ساتھ ہم تینوں کو پھر تھوڑی بہت کورین آتی انکو تو آئے چھے مہینے بھی نہیں ہوئے آرڈر تک نہیں دے پائیں گی ۔۔ تم لوگ جائو۔۔
میں نے کہا نا آجائوں گی میں۔
ابیہا کو آتی ہے کورین ابیہا تم جائو۔عروج نے کچھ سوچا پھر ٹیکسی کی کھڑکی سے جھانک کر فاطمہ کو ہدایت کرنے لگی
اور فاطمہ ۔ڈیسٹینیشن سیٹ کرو ریستوران کی موبائل میں جائو تم لوگ۔۔
مگر۔۔ ابیہا نے کچھ کہنا چاہا۔۔
بس ہو گیا۔۔ عروج نے موقع نہ دیا۔۔
چلو تم لوگ جائو میں اور واعظہ پولیس اسٹیشن جا رہے ہیں۔۔
آہجومہ آئوسو( محترمہ چلیئے)۔۔۔ ٹیکسی ڈرائیور انکی لمبی گفتگو سے تنگ ہو کر بولا۔۔ابیہا نے ایک نظر دونوں کو دیکھا پھر اثبات میں سر ہلا کر بیٹھ گئ۔۔
ٹیکسی آگے بڑھی تو عروج مڑ کر سے بولی۔۔
بازو کو کیا ہوا ہے تمہارے؟۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔ عزہ کو تو تیرنا بھی نہیں آتا۔۔
الف نے پریشانی سے کہا
تمہیں کیا لگتا عزہ پانی میں گر گئ؟
فاطمہ نے پوچھا تو ابیہا تڑپ کر بولی
خدا نہ کرے اچھی بات منہ سے نکالو۔۔
یہ الف ہی الٹا سوچ رہی بھئ جسے تیرنا نہیں آتا وہ پانی سے دور ہی رہے گا بھلا عزہ کیوں پانی میں ڈبکی لگائے گی ہم گھومنے آئے تھے خود کشی کرنے تھوڑی۔
فاطمہ نے اپنی طرف سے خاصی منطقی بات کی تھی مگر ابیہا اور الف اسے گھورنے لگیں تو نور کو ٹہوکا دے بیٹھی۔۔
کیوں نور صحیح کہہ رہی ہوں نا میں۔۔
نور نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے گھورا۔۔
توبہ ہی بھلی ہے بھئ۔۔
اس نے خاموش ہو جانے میں ہی عافیت جانی۔۔
تبھی ڈرائیور نے ایک جانب کرکے ٹیکسی روک بھی دی۔۔
یہ کیا ہمیں لوٹنے لگا ہے ۔؟
الف گھبرائی۔۔
ہم پہنچ گئے ریستوران ۔۔ فاطمہ نے موبائل پر دیکھا۔
اتریں؟۔۔ ابیہا کو بھی یقین نہ آیا اتنے قریب۔۔
نہیں ڈرائیور سے کہتے ہیں ہمیں یو ٹرن سے گھما لائے۔۔
فاطمہ کی لن ترانی عروج پر تھی۔۔
ابیہا اور الف گھورتی ہوئی اپنی اپنی جانب کا دروازہ کھول کر اتریں۔۔ نور اور وہ بیچ میں پھینسی بیٹھی تھیں۔۔
بہن اترنا نہیں؟۔۔ فاطمہ نے ہلایا تو نور چونکی۔۔
ابیہا اور الف ڈگی سے سامان اتروا رہی تھیں۔۔
واعظہ عروج اور عزہ تینوں کے بیگز بھی تھے انصاف سے بھی اگر وزن بانٹتیں تو سب کے پاس دو دو بیگ آتے ایک کے پاس ایک۔۔
ایسے موقعوں پر نور کا حساب کتاب عروج پر ہوتا تھا ڈاکٹر عروج نہیں عروج و زوال والے عروج پر
مگر انکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب نور نے نہ صرف اپنا بیگ اٹھایا بلکہ عزہ کا بھی اور تو اور واعظہ کا بھی اٹھانے کو ہاتھ بڑھایا تو الف نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
بس کر پگلی رلائے گی کیا؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں بھاگم بھاگ پولیس اسٹیشن پہنچی تھیں۔۔اندر داخل ہو کر انہوں نے کائونٹر پر بیٹھی لڑکی سے پوچھا۔۔ اس نے شستہ ہنگل میں انہیں دائیں جانب راہداری میں کسی کمرے میں جانے کو کہا۔ دونوں نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگیں تو مسکرا کر خود اٹھ گئ۔۔ انہیں لا کر اسٹیسشن ہائوس آفیسر کے کیبن تک لے آئی۔۔
گومو وویو۔۔ دونوں کوریائی انداز میں ہی جھک کر شکر گزار ہوئیں۔۔ وہ خوشدلی سے مسکراتی پلٹ گئ۔۔
ایک کھلا سا کمرے جتنا کیبن تھا پولیس افسر میز کے کنارے پر ٹکا فون پر کسی سے بات کرنے میں لگا تھا ان پر نظر پڑی تو سر کے اشارے سے خوش آمدید کیا اور فورا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
عزہ؟ وہ لڑکی جس کا آپ نے زکر کیا تھا۔۔
فاطمہ نے انگریزی میں پوچھا تواس نے کیبن کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا
عزہ انہیں ایک خاتون اہلکار کے ساتھ بیٹھی نظر آگئ۔۔
عروج فورا اسکی۔جانب بڑھی۔۔ اہلکار اسے کافی پیش کر رہی تھی جسے وہ سختی سے منع کر رہی تھی۔۔
عزہ۔۔ عروج نے پکارا تو وہ بے تابی سے اٹھ کر اس سے لپٹ کر رو پڑی۔۔
مسو نری سنن چے؟
(ہوا کیا تھا؟)۔ واعظہ انکی جانب سے اطمینان کر کے پولیس افسر سے پوچھ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی واعظہ جواب دینے نہ پائی تھی کہ اسکا فون بج اٹھا۔۔
عزہ کالنگ۔۔
وہ چونکی زیر لب بول کر عروج کو بتاتے فورا فون کان سے لگایا۔۔
دے؟۔۔ (سوالیہ جی)
واعظہ بھونچکا رہ گئ تھی۔۔
دے (جی) آراسو( ٹھیک ہے)۔۔ نیگا کھندا۔۔ (میں آرہی ہوں)
کیا ہوا؟ عروج بے تاب ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل کنارے اپنی پسند کی موسیقی سنتے موسم کا لطف اٹھاتے وہ بالکل اپنے آپ میں مگن چل رہی تھی۔۔ تبھی ایک چھوٹے سےتین چار سسال کے بچے پر نظر پڑی جو ساحلی پٹی کے کنارے صنوبر کے درختوں کے پاس اکیلا بیٹھا تھا۔۔ وہ اتنا فاصلے پر تھا کہ اگر وہ۔ہلتا جلتا نہ تو اسے پتھر سمجھ کر نظر اندا زہی کر دیتی شام کا وقت تھا صبح کے برعکس اس وقت بالکل بھی رش نہیں تھا۔۔
وہ شش و پنج میں پڑی کیا کرے جب اس بچے نے اچانک اٹھ کرچلنا شروع کر دیا تھا۔۔
کیا کروں ۔۔ دور ساحل کے پاس پھر اکا دکا لوگ تھے ان درختوں کے پاس تو کوئی بھی نہیں تھا۔۔ اور بچہ اکیلا بیٹھا ہوا دور دور تک کوئی خاندان یا گھرانہ بھی نہیں تھا کہ چلو بچہ انکے ساتھ ہے۔۔
اس نے سوچا پھر تیز تیز قدم بڑھاتی اس بچے کی طرف بڑھی
سنو بیٹا۔۔ اسکے پکارنے پر اس بچے کے ننھے قدم ٹھٹک کر رکے۔۔ مڑ کر اسے دیکھا تو جیسے ڈر کر ایک قدم اور پیچھے ہو گیا۔۔
اکیلے کیوں ہو؟۔۔ تمہاری امی کہاں ہیں۔۔ ؟۔۔
اس نے پاس آکر پیار سے پوچھا تھا مگر وہ دہل کر رونے لگا۔۔
بویا۔۔ ۔۔
عزہ بھی گھبرا گئ۔۔ اتنا بلک بلک کر روپڑا۔۔
یو گیونگ۔۔
بس یہی لفظ کہے جا رہا تھا۔۔
ارے روئو نہیں۔۔ ڈونٹ کرائے۔۔
ہنگل اسے نہیں آتی تھی اور اردو اور انگریزی بچے کو۔۔
بچہ زیادہ چل نہیں پایا تھا گر گیا تھا مگر دھیرے دھیرے یو گیونگ کہتا اس سے دور ہٹ رہا تھا۔۔
بیٹا انی ۔۔ اس نے اسے بہلانے کو اپنی جانب اشارہ کرکے کہا انئ۔۔
انی ہنگل میں بہن کو کہتے ۔۔ بچہ یونہی بلکتا رہا۔۔ اسکے چہرے کی جانب سے انگلی سے اشارہ کرتا
اور یوگیونگ کہتا۔۔ یو گیونگ یعنی بھوت
یو گیونگ انی۔۔
وہ سمجھی نام لے رہا کسئ کا۔۔ سو بڑے دلار سے اپنی جانب اشارہ کر کے کہا ہاں میں ہوں یو گیونگ۔۔
ابھی اگر اسے مطلب پتہ ہوتا تو صورت حال۔کچھ اور ہوتی۔۔
کیا کروں۔۔ اس نے نقاب نیچے کیا۔۔ دور دور تک نہ بندہ نہ بندے کی زات بچے کو ایسے چھوڑ بھی نہیں سکتی تھئ۔۔
بچہ چپ ہو کر ٹکر ٹکر اسکی شکل دیکھنے لگا۔۔
ہیں تم چپ ہو گئے۔۔
وہ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔۔
گھٹنوں کے بل جھک کر اسکی جانب ہاتھ بڑھایا تو بچے نے جھجکتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔
گڈ۔۔ وہ خوش ہوئی۔۔
نے ایلعمن عزہ۔۔ ( میرا نام عزہ ہے)
اس نے مسکرا کر بچے کے آنسو پونچھے
تھانگ شن۔۔
(تم؟)
پھاک بونگ شل۔
بچہ اب کم ڈر رہا تھا۔۔
جھجکتے ہوئے بولا۔۔
اچھا بونگ تم یہاں اکیلے کیا کر رہے ہو؟۔
عزہ نے پوچھا تو وہ پورا منہ کھول کر بولا
دے؟؟؟۔۔
عزہ نے سر تھام لیا پھر خیال آیا۔۔ تو اشارہ بھی کرکے بتانے لگی۔
آہمونی؟۔۔ ( امئ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے تھوڑی دیر میں ہی بچہ اتنا فری ہو گیا کہ اسکی گود میں چڑھ گیا۔۔
اس نے ساحل کی طرف چلنا شروع کیا۔۔ اس سے وہ دور سے نظر آجاتے۔۔ مگر چند قدم چل کر احساس ہوا اتنا بھی آسان کام نہیں یہ۔۔ بچہ موٹا سا تو نہیں تھا مگر تین چار سال کا تھا دھان پان سی عزہ کی سانس پھولنے لگی۔۔ ایک تو نقاب اوپر سے بچہ بھی گود میں اٹھائے تھی لگتا تھا سانس آج رک ہی جائے گی
اف ۔۔ وہ عجیب الجھن میں پھنسی تھی۔ نہ آگے بڑھ سکتی نہ پیچھے لوٹ سکتی تھی۔۔
بیٹا تھوڑا سا چل لو۔۔
اس نے ہانپ کر اتار دیا۔۔
بچے نے احتجاجا رونا اور ٹھنکنا شروع کردیا۔۔
اف۔۔ اس نے سوچا پھر موبائل نکال لیا۔۔
تین فیصد بیٹری؟۔۔
اسکی آنکھیں پوری کھل گئیں۔۔
بس ایک کال۔ملا دینا پھر بند ہونا۔۔
اس نے گھبرا کر موبائل ڈیٹا بند کیا تین چار ایپس کھلی ہوئی تھیں کچھ ڈائونلوڈنگ پر بھی لگا تھا۔۔
حد۔۔ ہے۔۔ ساری بیٹری چوس گئی تھیں ایپس۔۔گانے تک چل رہے تھے۔
اس نے رابطے کھول کر نمبر نکالا ڈائل کیا پہلی بیل بھی نہ گئ بند۔۔
اف۔ ۔وہ بری طرح جھلائی۔۔
پیچھے مڑ کر دیکھا گھپ اندھیرا۔۔ ساحل کا شور صنوبر کے اونچے اونچے درخت۔۔ دیکھنے میں ہی اتنا خوفناک منظر تھا کہ پلٹنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔
اس نے تھوک نگل کر آگے دیکھنا چاہا۔۔ دور چھوٹی چھوٹی سی بتیاں جلتی نظر آرہی تھیں شائد کوئی ریزورٹ تھا۔۔
اس نے گھٹنوں سے لپٹے مسلسل بجتے اس ننھے باجے کو دیکھا پھر ایک نظر دور چمکتی بتیوں کو۔۔
پھر فیصلہ کرکے باجے کی انگلی تھام۔لی۔۔ اب آگے ہی بڑھ کر دیکھتے ہیں۔۔
کوئی دس پندرہ منٹ کا راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوا ۔۔ بچہ کئی بار تھک کر بیٹھا تو اسے گود میں اٹھا کر بھی چلی کہیں خود بھی دم نکلنے کو آیا تو تھک کر بیٹھ گئ۔پانی تک پاس نہیں تھا۔۔
خدا خدا کرکے ریزورٹ آیا ۔۔ داخلی دروازے کے پاس پہنچ کر سانس بحال کرنے لگی۔۔ بچہ اسکا ہاتھ چھڑا نے لگا۔۔
آہمونی۔۔
ارے۔۔ اس نے بچے کا ہاتھ پکڑا۔۔
بھاگو نہیں۔۔
تبھئ دو پولیس اہلکار اسکے سامنے آکھڑے ہوئے۔ ایک پریشان حال جوڑا بچے کی جانب لپکا تھا۔۔ بچہ ماں کو دیکھ کر ہی ہاتھ چھڑا رہا تھا۔۔ اس نے بچے کا ہاتھ چھوڑ دیا بچہ بھاگتا ہوا ان سے جا لپٹا۔
اس نے بھی سکھ کی سانس لی۔۔ مصیبت تمام ہوئی۔۔
مگر نہیں ابھی اسے اپنی شناخت کروانا باقی تھا۔۔
نائو اودی چو شونیا۔۔
اہلکاروں میں سے ایک اس سے بڑی تمیز سے آگے بڑھ کر پوچھا تھا۔۔
جی؟۔۔ عزہ کے منہ سے بس یہی نکل سکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکے پاس نہ پاسپورٹ تھا نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور شناختی علامت۔۔ ہم نے ان سے کہا کہ یہ کسی کا رابطہ نمبر دے دیں انکے پاس وہ بھی نہیں تھا ۔۔ ہم انکی مدد کیلئے ہی یہاں لائے۔۔ موبائل چارج ہوا توسب سے پہلے ہم نے آپ سے رابطہ کیا ہے۔۔
ہم انکو کھانے پینے کی چیزیں بھی دینے کی کوشش کرتے رہے مگر یہ تیار نہیں ہوئیں۔۔ عربی سیاح آتے رہتے ہیں کوریا میں ہم انکی دل سے عزت کرتے ہیں یقین کیجئے ہم نے خاتون پولیس اہلکار سے ہی کہا تھا کہ ان سے بات کریں۔۔ ابھئ بھی دیکھ لیجئے خاتون پولیس اہلکار ہی ان سے بات کر رہی تھیں۔۔
چندی آنکھوں والے نے تفصیل سے واعظہ کو ساری بات بتائی تھی۔۔
وہ عزہ کے رو پڑنے پر خود بھی گھبرا گیا تھا۔
دے۔۔ گھمسامنیدہ
واعظہ شکر گزار ہوئی۔۔ عزہ عروج سے ابھی بھی لپٹی ہوئی تھی۔۔
افسر انہیں باہر تک چھوڑنے آیا تھا بار بار معزرت بھی کی۔ پھر انکے لیئے ٹیکسی بھی کر کے دی۔۔
ٹیکسی میں بیٹھ کر عروج نے عزہ کا کان پکڑا۔۔
پتہ ہے آج کتنا پریشان ہوئے ہیں ہم تمہاری وجہ سے۔۔
سوری۔۔ اس نے اور منہ لٹکا لیا۔
بھوکا مار دیا تم نے ہمیں۔۔ عروج نے کہا تو عزہ رہ نہ سکئ
تومیں کونسا فائو اسٹار میں بیٹھی کھا رہی تھی۔
ہاں مگر تمہیں پوچھ تو رہی تھی بے چاری چندی آنکھوں والی تم نےخود نہ کھایا۔ جوس تو حرام حلال نہیں ہوتا آنٹی وہ تو کھا پی سکتی تھیں منع کیوں کیئے جا رہی تھیں۔ عروج نے کہا تو وہ معصومیت سے بولی۔
وہ نقاب اتارنا پڑتا نا اسی لیئے منع کر رہی تھی۔۔
عروج نے سر پکڑ لیا۔۔
واعظہ ان دونوں کی باتوں سے الگ فاطمہ کو کال ملا کر بتانے لگی۔۔
یار عزہ مل گئ ہے ہم آرہے ہیں تینوں۔۔
آگے سے فاطمہ کا جواب تھا
اچھا ٹھیک ہے۔ ۔۔ یار واعظہ یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ منگوائیں کیا۔۔ٹوفو سوپ کھایا ہے ؟ نئی چیز لگی منگوا لیا ہے اور ساتھ فش ہے۔ویسے۔ کتنی دیر میں آرہی ہو تم لوگ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہےبھی انجان شہر میں اسکو سوجھی کیا آخر۔۔
اس بار فاطمہ نے پیر پٹخا تھا۔۔
الف اور نور بھی پریشان تھیں مگر ان تینوں کا پارہ چڑھتا دیکھ کر اپنے ردعمل کو محفوظ رکھا ہوا تھا۔۔
کھڑے کھڑے ٹانگیں شل ہو رہی تھیں رات کے آٹھ بج رہے تھے۔۔
نور تھک کر سڑک کنارے بنے چبوترے پر ٹک گئ۔۔
کافی ہو گیا۔۔
واعظہ جو فون کان سے لگائے کسی سے بات کر رہی تھی فون بند کر کے انکی جانب متوجہ ہوئی۔۔
چھو دانگ سن دوبو ولیج یہاں سے قریب ہے پیدل کا راستہ ہے مگر مجھے لگتا تم لوگ چل نہیں پائو گی ٹیکسئ کروا دیتی ہوں جائو کھانا آرڈر کرو۔۔ سامان عزہ کا بھی اٹھا لیا تھا نا؟۔۔
اس نے بے دھیانی سےاپنا بیگ ا ٹھا لیا پھر فورا ہی بازو بدلا۔۔
اور تم؟۔ ابیہا نے پوچھا تو وہ قصدا نظر انداز کرتی سڑک کی طرف بڑھ گئ۔۔ کافی تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی۔۔
چلو تم لوگ بھئ ۔۔ ٹیکسی یہاں تک تو نہیں آئے گی۔۔
فاطمہ نے اپنا بیگ اٹھاتے کہا تو الف پوچھے بغیر نہ رہ سکی۔۔
اور عزہ؟ وہ تو ابھی تک نہیں آئی۔۔
کیا کریں یہاں ساری رات تو بیٹھے نہیں رہ سکتے۔۔ انتظامیہ کو شکایت درج کروا دی ہے انہوں نے تعاون کا وعدہ کیا ہے اگر انہیں گرد و نواح میں کہیں نظر آئی تو ہمیں اطلاع کر دیں گے۔۔
ابیہا نے جھلا کر کہا تو وہ چپ ہی ہوگئ۔۔
ابیہا کے انداز سے ہی لگ رہا تھا کس قدر شدید پریشان ہے۔۔
عروج نے اسکا کندھا تھپتپایا۔۔
فکر نہ کرو جب میں اور واعظہ گئے تھے شکایت درج کروانے تو وہ یہی بتا رہے تھے یہاں ہو جاتا ہے سیاح بھٹک جاتے کبھی صنوبر کے درختوں کی۔طرف نکل جاتے وہ جنگل ہے مگر بہت گھنا نہیں ہے وہ ڈھونڈ لیں گے اسے۔۔ ایک بچہ بھی آج گم گیا تھا انہوں نے ڈھونڈ لیا تھا ۔
اس نے کہا تو ان لوگوں کو تسلی تو نہ ہوئی مگر تھوڑا سا حوصلہ ضرور ہوا۔۔
واعظہ دور ٹیکسی کے پاس کھڑی اشارے سے بلا رہی تھی۔۔ چلو۔۔ فاطمہ نے کہا تو وہ سب سامان اٹھا کر اسکی جانب بڑھیں
ایک آگے بیٹھ جائے۔۔
واعظہ نے سامان ڈگئ میں رکھواتے ہوئے کہا۔ عروج گہری سانس بھر کر رضاکارانہ طور پر اگلی نشست کا دروازہ کھولنے لگی۔۔
ایک اور ٹیکسی کرنی پڑے گی۔۔ ابیہا نے کہا تو واعظہ چونکی
نور الف فاطمہ بیٹھ گئیں توبس ایک ہی اور بیٹھ سکتی تھی۔۔
کیوں۔۔ فاطمہ آگے ہو۔۔ اس نے فورا ابیہا کی جگہ بنوائی ۔۔
اور تم گود میں بیٹھو گی میرے۔
ابیہا چڑی۔۔
میں نہیں آرہی۔۔ واعظہ نے کہہ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔
مگر کیوں۔۔ سب کو تشویش ہوئی تھی۔۔
عزہ کا پتہ بھی تو کرنا ہے۔۔ تم لوگ جائو کھانا کھائو یہ رکھ لو۔۔
اس نے اپنے پرس سے کریڈٹ کارڈ نکال کر ابیہا کو تھمایا۔۔
مگر تم یہاں کیا کروگی ؟ کیسے ڈھونڈو گی؟۔۔ اکیلے۔۔
عروج بیٹھتے بیٹھتے ٹیکسی سے نکل آئی۔۔
میں پولیس اسٹیشن جا رہی ہوں۔۔ رپورٹ کرنے۔
واعظہ نے گہری سانس لی۔۔
اکیلے؟۔ میں بھی چلتی ہوں۔۔
ابیہا اور عروج دونوں اکٹھے بول پڑیں۔
یار ضد نہ کرو کھانا وانا کھائو میں آدھے گھنٹے تک آجائوں گی وہیں۔۔
مگر پھر بھی اکیلے جانے کی کیا تک میں چلتی ہوں۔۔
عروج نے کہا تو واعظہ زچ ہو گئ۔۔
یار کوئی تو جائے انکے ساتھ ہم تینوں کو پھر تھوڑی بہت کورین آتی انکو تو آئے چھے مہینے بھی نہیں ہوئے آرڈر تک نہیں دے پائیں گی ۔۔ تم لوگ جائو۔۔
میں نے کہا نا آجائوں گی میں۔
ابیہا کو آتی ہے کورین ابیہا تم جائو۔عروج نے کچھ سوچا پھر ٹیکسی کی کھڑکی سے جھانک کر فاطمہ کو ہدایت کرنے لگی
اور فاطمہ ۔ڈیسٹینیشن سیٹ کرو ریستوران کی موبائل میں جائو تم لوگ۔۔
مگر۔۔ ابیہا نے کچھ کہنا چاہا۔۔
بس ہو گیا۔۔ عروج نے موقع نہ دیا۔۔
چلو تم لوگ جائو میں اور واعظہ پولیس اسٹیشن جا رہے ہیں۔۔
آہجومہ آئوسو( محترمہ چلیئے)۔۔۔ ٹیکسی ڈرائیور انکی لمبی گفتگو سے تنگ ہو کر بولا۔۔ابیہا نے ایک نظر دونوں کو دیکھا پھر اثبات میں سر ہلا کر بیٹھ گئ۔۔
ٹیکسی آگے بڑھی تو عروج مڑ کر سے بولی۔۔
بازو کو کیا ہوا ہے تمہارے؟۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔۔ عزہ کو تو تیرنا بھی نہیں آتا۔۔
الف نے پریشانی سے کہا
تمہیں کیا لگتا عزہ پانی میں گر گئ؟
فاطمہ نے پوچھا تو ابیہا تڑپ کر بولی
خدا نہ کرے اچھی بات منہ سے نکالو۔۔
یہ الف ہی الٹا سوچ رہی بھئ جسے تیرنا نہیں آتا وہ پانی سے دور ہی رہے گا بھلا عزہ کیوں پانی میں ڈبکی لگائے گی ہم گھومنے آئے تھے خود کشی کرنے تھوڑی۔
فاطمہ نے اپنی طرف سے خاصی منطقی بات کی تھی مگر ابیہا اور الف اسے گھورنے لگیں تو نور کو ٹہوکا دے بیٹھی۔۔
کیوں نور صحیح کہہ رہی ہوں نا میں۔۔
نور نے منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے گھورا۔۔
توبہ ہی بھلی ہے بھئ۔۔
اس نے خاموش ہو جانے میں ہی عافیت جانی۔۔
تبھی ڈرائیور نے ایک جانب کرکے ٹیکسی روک بھی دی۔۔
یہ کیا ہمیں لوٹنے لگا ہے ۔؟
الف گھبرائی۔۔
ہم پہنچ گئے ریستوران ۔۔ فاطمہ نے موبائل پر دیکھا۔
اتریں؟۔۔ ابیہا کو بھی یقین نہ آیا اتنے قریب۔۔
نہیں ڈرائیور سے کہتے ہیں ہمیں یو ٹرن سے گھما لائے۔۔
فاطمہ کی لن ترانی عروج پر تھی۔۔
ابیہا اور الف گھورتی ہوئی اپنی اپنی جانب کا دروازہ کھول کر اتریں۔۔ نور اور وہ بیچ میں پھینسی بیٹھی تھیں۔۔
بہن اترنا نہیں؟۔۔ فاطمہ نے ہلایا تو نور چونکی۔۔
ابیہا اور الف ڈگی سے سامان اتروا رہی تھیں۔۔
واعظہ عروج اور عزہ تینوں کے بیگز بھی تھے انصاف سے بھی اگر وزن بانٹتیں تو سب کے پاس دو دو بیگ آتے ایک کے پاس ایک۔۔
ایسے موقعوں پر نور کا حساب کتاب عروج پر ہوتا تھا ڈاکٹر عروج نہیں عروج و زوال والے عروج پر
مگر انکی حیرت کی انتہا نہ رہی جب نور نے نہ صرف اپنا بیگ اٹھایا بلکہ عزہ کا بھی اور تو اور واعظہ کا بھی اٹھانے کو ہاتھ بڑھایا تو الف نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔
بس کر پگلی رلائے گی کیا؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں بھاگم بھاگ پولیس اسٹیشن پہنچی تھیں۔۔اندر داخل ہو کر انہوں نے کائونٹر پر بیٹھی لڑکی سے پوچھا۔۔ اس نے شستہ ہنگل میں انہیں دائیں جانب راہداری میں کسی کمرے میں جانے کو کہا۔ دونوں نہ سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگیں تو مسکرا کر خود اٹھ گئ۔۔ انہیں لا کر اسٹیسشن ہائوس آفیسر کے کیبن تک لے آئی۔۔
گومو وویو۔۔ دونوں کوریائی انداز میں ہی جھک کر شکر گزار ہوئیں۔۔ وہ خوشدلی سے مسکراتی پلٹ گئ۔۔
ایک کھلا سا کمرے جتنا کیبن تھا پولیس افسر میز کے کنارے پر ٹکا فون پر کسی سے بات کرنے میں لگا تھا ان پر نظر پڑی تو سر کے اشارے سے خوش آمدید کیا اور فورا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
عزہ؟ وہ لڑکی جس کا آپ نے زکر کیا تھا۔۔
فاطمہ نے انگریزی میں پوچھا تواس نے کیبن کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا
عزہ انہیں ایک خاتون اہلکار کے ساتھ بیٹھی نظر آگئ۔۔
عروج فورا اسکی۔جانب بڑھی۔۔ اہلکار اسے کافی پیش کر رہی تھی جسے وہ سختی سے منع کر رہی تھی۔۔
عزہ۔۔ عروج نے پکارا تو وہ بے تابی سے اٹھ کر اس سے لپٹ کر رو پڑی۔۔
مسو نری سنن چے؟
(ہوا کیا تھا؟)۔ واعظہ انکی جانب سے اطمینان کر کے پولیس افسر سے پوچھ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی واعظہ جواب دینے نہ پائی تھی کہ اسکا فون بج اٹھا۔۔
عزہ کالنگ۔۔
وہ چونکی زیر لب بول کر عروج کو بتاتے فورا فون کان سے لگایا۔۔
دے؟۔۔ (سوالیہ جی)
واعظہ بھونچکا رہ گئ تھی۔۔
دے (جی) آراسو( ٹھیک ہے)۔۔ نیگا کھندا۔۔ (میں آرہی ہوں)
کیا ہوا؟ عروج بے تاب ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساحل کنارے اپنی پسند کی موسیقی سنتے موسم کا لطف اٹھاتے وہ بالکل اپنے آپ میں مگن چل رہی تھی۔۔ تبھی ایک چھوٹے سےتین چار سسال کے بچے پر نظر پڑی جو ساحلی پٹی کے کنارے صنوبر کے درختوں کے پاس اکیلا بیٹھا تھا۔۔ وہ اتنا فاصلے پر تھا کہ اگر وہ۔ہلتا جلتا نہ تو اسے پتھر سمجھ کر نظر اندا زہی کر دیتی شام کا وقت تھا صبح کے برعکس اس وقت بالکل بھی رش نہیں تھا۔۔
وہ شش و پنج میں پڑی کیا کرے جب اس بچے نے اچانک اٹھ کرچلنا شروع کر دیا تھا۔۔
کیا کروں ۔۔ دور ساحل کے پاس پھر اکا دکا لوگ تھے ان درختوں کے پاس تو کوئی بھی نہیں تھا۔۔ اور بچہ اکیلا بیٹھا ہوا دور دور تک کوئی خاندان یا گھرانہ بھی نہیں تھا کہ چلو بچہ انکے ساتھ ہے۔۔
اس نے سوچا پھر تیز تیز قدم بڑھاتی اس بچے کی طرف بڑھی
سنو بیٹا۔۔ اسکے پکارنے پر اس بچے کے ننھے قدم ٹھٹک کر رکے۔۔ مڑ کر اسے دیکھا تو جیسے ڈر کر ایک قدم اور پیچھے ہو گیا۔۔
اکیلے کیوں ہو؟۔۔ تمہاری امی کہاں ہیں۔۔ ؟۔۔
اس نے پاس آکر پیار سے پوچھا تھا مگر وہ دہل کر رونے لگا۔۔
بویا۔۔ ۔۔
عزہ بھی گھبرا گئ۔۔ اتنا بلک بلک کر روپڑا۔۔
یو گیونگ۔۔
بس یہی لفظ کہے جا رہا تھا۔۔
ارے روئو نہیں۔۔ ڈونٹ کرائے۔۔
ہنگل اسے نہیں آتی تھی اور اردو اور انگریزی بچے کو۔۔
بچہ زیادہ چل نہیں پایا تھا گر گیا تھا مگر دھیرے دھیرے یو گیونگ کہتا اس سے دور ہٹ رہا تھا۔۔
بیٹا انی ۔۔ اس نے اسے بہلانے کو اپنی جانب اشارہ کرکے کہا انئ۔۔
انی ہنگل میں بہن کو کہتے ۔۔ بچہ یونہی بلکتا رہا۔۔ اسکے چہرے کی جانب سے انگلی سے اشارہ کرتا
اور یوگیونگ کہتا۔۔ یو گیونگ یعنی بھوت
یو گیونگ انی۔۔
وہ سمجھی نام لے رہا کسئ کا۔۔ سو بڑے دلار سے اپنی جانب اشارہ کر کے کہا ہاں میں ہوں یو گیونگ۔۔
ابھی اگر اسے مطلب پتہ ہوتا تو صورت حال۔کچھ اور ہوتی۔۔
کیا کروں۔۔ اس نے نقاب نیچے کیا۔۔ دور دور تک نہ بندہ نہ بندے کی زات بچے کو ایسے چھوڑ بھی نہیں سکتی تھئ۔۔
بچہ چپ ہو کر ٹکر ٹکر اسکی شکل دیکھنے لگا۔۔
ہیں تم چپ ہو گئے۔۔
وہ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔۔
گھٹنوں کے بل جھک کر اسکی جانب ہاتھ بڑھایا تو بچے نے جھجکتے ہوئے اسکا ہاتھ تھام لیا۔۔
گڈ۔۔ وہ خوش ہوئی۔۔
نے ایلعمن عزہ۔۔ ( میرا نام عزہ ہے)
اس نے مسکرا کر بچے کے آنسو پونچھے
تھانگ شن۔۔
(تم؟)
پھاک بونگ شل۔
بچہ اب کم ڈر رہا تھا۔۔
جھجکتے ہوئے بولا۔۔
اچھا بونگ تم یہاں اکیلے کیا کر رہے ہو؟۔
عزہ نے پوچھا تو وہ پورا منہ کھول کر بولا
دے؟؟؟۔۔
عزہ نے سر تھام لیا پھر خیال آیا۔۔ تو اشارہ بھی کرکے بتانے لگی۔
آہمونی؟۔۔ ( امئ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے تھوڑی دیر میں ہی بچہ اتنا فری ہو گیا کہ اسکی گود میں چڑھ گیا۔۔
اس نے ساحل کی طرف چلنا شروع کیا۔۔ اس سے وہ دور سے نظر آجاتے۔۔ مگر چند قدم چل کر احساس ہوا اتنا بھی آسان کام نہیں یہ۔۔ بچہ موٹا سا تو نہیں تھا مگر تین چار سال کا تھا دھان پان سی عزہ کی سانس پھولنے لگی۔۔ ایک تو نقاب اوپر سے بچہ بھی گود میں اٹھائے تھی لگتا تھا سانس آج رک ہی جائے گی
اف ۔۔ وہ عجیب الجھن میں پھنسی تھی۔ نہ آگے بڑھ سکتی نہ پیچھے لوٹ سکتی تھی۔۔
بیٹا تھوڑا سا چل لو۔۔
اس نے ہانپ کر اتار دیا۔۔
بچے نے احتجاجا رونا اور ٹھنکنا شروع کردیا۔۔
اف۔۔ اس نے سوچا پھر موبائل نکال لیا۔۔
تین فیصد بیٹری؟۔۔
اسکی آنکھیں پوری کھل گئیں۔۔
بس ایک کال۔ملا دینا پھر بند ہونا۔۔
اس نے گھبرا کر موبائل ڈیٹا بند کیا تین چار ایپس کھلی ہوئی تھیں کچھ ڈائونلوڈنگ پر بھی لگا تھا۔۔
حد۔۔ ہے۔۔ ساری بیٹری چوس گئی تھیں ایپس۔۔گانے تک چل رہے تھے۔
اس نے رابطے کھول کر نمبر نکالا ڈائل کیا پہلی بیل بھی نہ گئ بند۔۔
اف۔ ۔وہ بری طرح جھلائی۔۔
پیچھے مڑ کر دیکھا گھپ اندھیرا۔۔ ساحل کا شور صنوبر کے اونچے اونچے درخت۔۔ دیکھنے میں ہی اتنا خوفناک منظر تھا کہ پلٹنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔
اس نے تھوک نگل کر آگے دیکھنا چاہا۔۔ دور چھوٹی چھوٹی سی بتیاں جلتی نظر آرہی تھیں شائد کوئی ریزورٹ تھا۔۔
اس نے گھٹنوں سے لپٹے مسلسل بجتے اس ننھے باجے کو دیکھا پھر ایک نظر دور چمکتی بتیوں کو۔۔
پھر فیصلہ کرکے باجے کی انگلی تھام۔لی۔۔ اب آگے ہی بڑھ کر دیکھتے ہیں۔۔
کوئی دس پندرہ منٹ کا راستہ آدھے گھنٹے میں طے ہوا ۔۔ بچہ کئی بار تھک کر بیٹھا تو اسے گود میں اٹھا کر بھی چلی کہیں خود بھی دم نکلنے کو آیا تو تھک کر بیٹھ گئ۔پانی تک پاس نہیں تھا۔۔
خدا خدا کرکے ریزورٹ آیا ۔۔ داخلی دروازے کے پاس پہنچ کر سانس بحال کرنے لگی۔۔ بچہ اسکا ہاتھ چھڑا نے لگا۔۔
آہمونی۔۔
ارے۔۔ اس نے بچے کا ہاتھ پکڑا۔۔
بھاگو نہیں۔۔
تبھئ دو پولیس اہلکار اسکے سامنے آکھڑے ہوئے۔ ایک پریشان حال جوڑا بچے کی جانب لپکا تھا۔۔ بچہ ماں کو دیکھ کر ہی ہاتھ چھڑا رہا تھا۔۔ اس نے بچے کا ہاتھ چھوڑ دیا بچہ بھاگتا ہوا ان سے جا لپٹا۔
اس نے بھی سکھ کی سانس لی۔۔ مصیبت تمام ہوئی۔۔
مگر نہیں ابھی اسے اپنی شناخت کروانا باقی تھا۔۔
نائو اودی چو شونیا۔۔
اہلکاروں میں سے ایک اس سے بڑی تمیز سے آگے بڑھ کر پوچھا تھا۔۔
جی؟۔۔ عزہ کے منہ سے بس یہی نکل سکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکے پاس نہ پاسپورٹ تھا نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور شناختی علامت۔۔ ہم نے ان سے کہا کہ یہ کسی کا رابطہ نمبر دے دیں انکے پاس وہ بھی نہیں تھا ۔۔ ہم انکی مدد کیلئے ہی یہاں لائے۔۔ موبائل چارج ہوا توسب سے پہلے ہم نے آپ سے رابطہ کیا ہے۔۔
ہم انکو کھانے پینے کی چیزیں بھی دینے کی کوشش کرتے رہے مگر یہ تیار نہیں ہوئیں۔۔ عربی سیاح آتے رہتے ہیں کوریا میں ہم انکی دل سے عزت کرتے ہیں یقین کیجئے ہم نے خاتون پولیس اہلکار سے ہی کہا تھا کہ ان سے بات کریں۔۔ ابھئ بھی دیکھ لیجئے خاتون پولیس اہلکار ہی ان سے بات کر رہی تھیں۔۔
چندی آنکھوں والے نے تفصیل سے واعظہ کو ساری بات بتائی تھی۔۔
وہ عزہ کے رو پڑنے پر خود بھی گھبرا گیا تھا۔
دے۔۔ گھمسامنیدہ
واعظہ شکر گزار ہوئی۔۔ عزہ عروج سے ابھی بھی لپٹی ہوئی تھی۔۔
افسر انہیں باہر تک چھوڑنے آیا تھا بار بار معزرت بھی کی۔ پھر انکے لیئے ٹیکسی بھی کر کے دی۔۔
ٹیکسی میں بیٹھ کر عروج نے عزہ کا کان پکڑا۔۔
پتہ ہے آج کتنا پریشان ہوئے ہیں ہم تمہاری وجہ سے۔۔
سوری۔۔ اس نے اور منہ لٹکا لیا۔
بھوکا مار دیا تم نے ہمیں۔۔ عروج نے کہا تو عزہ رہ نہ سکئ
تومیں کونسا فائو اسٹار میں بیٹھی کھا رہی تھی۔
ہاں مگر تمہیں پوچھ تو رہی تھی بے چاری چندی آنکھوں والی تم نےخود نہ کھایا۔ جوس تو حرام حلال نہیں ہوتا آنٹی وہ تو کھا پی سکتی تھیں منع کیوں کیئے جا رہی تھیں۔ عروج نے کہا تو وہ معصومیت سے بولی۔
وہ نقاب اتارنا پڑتا نا اسی لیئے منع کر رہی تھی۔۔
عروج نے سر پکڑ لیا۔۔
واعظہ ان دونوں کی باتوں سے الگ فاطمہ کو کال ملا کر بتانے لگی۔۔
یار عزہ مل گئ ہے ہم آرہے ہیں تینوں۔۔
آگے سے فاطمہ کا جواب تھا
اچھا ٹھیک ہے۔ ۔۔ یار واعظہ یہ تو بتایا ہی نہیں تھا کہ منگوائیں کیا۔۔ٹوفو سوپ کھایا ہے ؟ نئی چیز لگی منگوا لیا ہے اور ساتھ فش ہے۔ویسے۔ کتنی دیر میں آرہی ہو تم لوگ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
دیسی کمچی قسط دو
حصہ دوم۔۔۔
وہ لوگ جگہ دیکھ کر ریستوران کے سنسان گوشے میں کونے میں گھس کر بیٹھی تھیں۔۔ چندی آنکھوں والی ویٹریس مسکرا کر انہیں مینیو کارڈ تھما گئ۔۔
دس پندرہ منٹ کے بعد بھی جب وہ دوبارہ آئی تو انہیں مینیو کارڈ حفظ کرتے پایا۔۔
دے؟۔۔ وہ مسکرا کر کاپی تھامے انکے آگے جھکی۔۔
کیا بتائوں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔۔
نور نے سب سے پہلے ہار مانی تھی۔۔
ہمیں سبزیاں کھانی ہیں۔۔
فاطمہ نے شستہ انگریزی میں کہا تو وہ جھجکی
دے؟۔۔
ابیہا سبزیوں کو ہنگل میں کیا کہتے؟۔۔ فاطمہ نے پوچھا تو وہ گڑ بڑا ئی
کونسی سبزی کو؟۔۔
اوہو ویسے ہی کوئی بھی سبزی بتا دو۔۔
الف نے کہا تو ابیہا سوچ میں پڑ گئ۔۔ پھر بولی
ریڈش ۔۔ ریڈش سوپ منگوا لیتے ہیں۔۔
اتنا تو اسے پتہ تھا ریڈش سوپ ہوتا ہے کم از کم کوریا میں۔۔
دے؟۔ ویٹریس کی مسکراہٹ پھیکی پڑی اور دے اب سوالیہ ہو چکا تھا
ریڈش تو انگریزی میں گاجر کو نہیں کہتے؟
نور کے دماغ کی بتی جلی۔۔
کیرٹ ہوتا گاجر ریڈش مولی ہوتا۔۔
فاطمہ نے کہا پھر وہ اور الف چونکیں اور ابیہا کو گھورنے لگیں نور البتہ منہ بنا کر کہہ رہی تھی
مولی کا سوپ نہیں پینا مجھے رات کو مولی کون کھاتا اور اگر کوئی کھا لے تو سو نہیں پاتا۔۔
ہم نے کہا تھا ہنگل میں بتائو سبزی کو کیا کہتے۔۔
مجھے کیا پتہ۔۔ میں نے تو انگریزی میں سبزیوں کے نام بھی بچپن میں کبھی یاد کیئے تھے۔۔
ابیہا کے چہرے پر بے چارگی دوڑ گئ۔۔
دے؟۔۔ ویٹرس کے اس بار دے کہنے میں تاثرات پھر بدلے تھے۔۔ یقینا اب دے کا مطلب کچھ اور تھا
یار وہ کونسا سوپ تھا کافو۔۔ وہی منگوا لیتے۔۔
فاطمہ دوبارہ مینیو کارڈ پر جھکی۔۔
یار مچھلی تو منگوائو یہ تو حلال ہی ہوگی نا۔۔
مچھلی؟۔۔ حلال۔۔ ویٹریس سوالیہ نگاہوں سے تکنے لگی۔۔
فش۔۔ ابیہا سمجھی مچھلی کا مطلب پوچھ رہی۔۔
حلال اندے۔ اتوکے ۔۔ وہ زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگی۔
کیا کہہ رہی ہے یہ۔
الف کو تجسس ہوا۔۔
یار اس میں مچھلی تو ہے ہی نہیں۔۔
فاطمہ نے کارڈ الٹ پلٹ کر ڈالا۔۔
دے؟۔۔ ویٹریس بھی اب بے چاری سی شکل بنانا شروع ہو گئ تھی۔
اب ایک بار اس نے اور دے کہا تو میں اسے واقعی کچھ دے دوں گی۔۔
نور نے میز سے چاپ اسٹکس اٹھا کر تلوار کی طرح نچائی۔۔
دے؟۔ چندی آنکھوں والی کی آنکھیں پھیلیں
نور نے تلوار اپنی کھوپڑی پر بجا لی۔۔
یار اسکی تو سزا مکائو۔۔
فاطمہ نے کہا تو الف جو ابھی تک مینیو کارڈ میں کھوئی ہوئی تھی پرجوش ہوئی
یہ دیکھو ہے نا مچھلی اور یہ والا سفید سفید ڈلیوں والا ٹوفو سوپ
تین صفحوں کے مینیو کارڈ میں انہیں ہڑ بڑاہٹ میں مچھلی دکھائی ہی نہ دی۔۔
دے۔۔ چندی آنکھوں والی کی رنگت بحال ہوئی۔۔
ہم چھے لوگ ہیں نا۔۔
فاطمہ نے کہا تو نورنے تصحیح کی
نہیں بھئی سات ہیں۔۔
ارے تو عزہ تو ہے ہی نہیں۔۔ فاطمہ نے کہتے ساتھ ہی دانتوں تلے زبان دبائی۔۔ تینوں دانت پیستی گھور رہی تھیں۔۔
فاطمہ نے آرڈر دیا تو وہ جھک کر مسکرا کر بولی
دے۔۔
یار ہم کھائیں گے کیسے۔۔
نور کو فکر ہوئی۔۔
اس سے زیادہ کونہ اب تمہارے لیئے کیا لیں اب بس یہی ہو سکتا میز کے نیچے بیٹھ کر کھا لینا
الف نے چڑ کر کہا تھا مگر نور مطمئن ہوگئ۔
ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔
ابیہا اور فاطمہ ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں
تبھی فاطمہ کا موبائل بج اٹھا۔۔بات کرکے موبائل رکھا تو تینوں کو بے تابی سے خود کو تکتا پایا۔۔
واعظہ تھی۔۔
اپنے آنے کا بتا رہی تھی۔۔ مل گئ۔ اس نے سرسری سے انداز سے بتایا۔۔
کیا ہوا کیا کہہ رہی تھی۔۔
الف اور نور فکر مند ہوئیں
یار آرہی ہے دس منٹ تک۔۔ فاطمہ نے لاپروائی سے بتایا اور میز پر سے گلاس اٹھا کر پانی پینے لگی
عزہ نہیں ملی؟۔۔
ابیہا کا انداز روہانسا ہو چلا تھا
مل گئ ہے آرہی ہیں تینوں۔۔
اس نے سابقہ انداز میں ہی جواب دیا۔
یار کہاں ہوگی مجھے تو فکر ہو رہی ہے۔۔
الف پریشانئ سے کہہ رہی تھی
فکر مت کرو ٹھیک ہوگی میں نے آیت الکرسی پڑھ دی تھئ۔۔
نور نے تسلی دی۔۔
گلاس سے پانی پیتے فاطمہ کو تعجب سا ہوا۔۔
مل گئ ہے عزہ۔۔
فاطمہ نے گلاس رکھ کر دوبارہ بتایا۔۔
ہاں نا تبھی تو ۔۔
ابیہا نے اپنی رو میں دہرایا پھر چونکی
کیا مل۔گئ عزہ ۔۔
ہاں۔۔ یہی تو بتا رہی۔۔
فاطمہ کو انکی بے یقینی پر خود پر ہی شک ہو گزرا کہیں اسی نے تو غلط نہیں سنا۔سر بھی اثبات میں ہلایا۔۔ ۔
اب بتا رہی ہو۔۔ نور چاپ اسٹک اسکے بازو میں چبھونے کو لپکی۔
وہ سرعت سے کرسی سے اٹھی بال بال بچی تھی اس بے وقت کے ٹیکے لگنے سے۔۔
ارے فورا بتایا مگر تم لوگوں کو یقین ہی نہیں آرہا۔۔
فاطمہ نور کے متوقع حملے کے پیش نظر اسکے حصار سے دور ہٹ کر بیٹھی۔۔
شکر ہے خدا کا۔۔ ابیہا کی جان میں جان آئی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریستوران کے داخلی حصے پر ٹیکسی نے اتارا تھا انہیں۔۔ عزہ بڑے شوق سے ریستوران کی سجاوٹ دیکھ رہی تھی پتہ نہیں ہنگل میں کیا لکھا تھا مگر جگر جگر کرتی روشنیوں سے منور تھا بڑے بڑے بینر تھے جن پر پھولوں کی تصویریں تھیں
اسے منظر بہت بھایا سو جھٹ سیلفی لینے لگی۔۔ عروج کا بھی یہی حال تھا ۔۔ کوریائی طرز کی بڑی بڑئ چھتریوں جیسی چھت اسکے سر پر تاج کی طرح آرہی تھی اس نے پے در پے کئی تصویری کھینچ لیں۔۔ واعظہ نے ان دونوں کو اپنی تصویریں بناتے ہوئے ہی تصویر کھینچ لی۔
اس نے بایاں ہاتھ اٹھایا تھا مگر پھر گرا کر دائیں ہاتھ سے ہی موبائل سے تصویر لے لی۔ تبھی عروج کی اس پر نظر پڑی تو عروج نے وہیں واعظہ کو پکڑ لیا۔۔
دکھائو ادھر۔۔ اسکے اندر کی ڈاکٹرنی کم ہی خواب خرگوش کے مزے لیتی تھی سو ابھی بھی جاگ گئ۔
احتیاط سے اسکا بازو اٹھا رہی تھی۔۔ واعظہ بے اختیار ہی سی کرکے رہ گئ
یہ تو سوجا ہوا ہے ہوا کیا ہےا سے۔۔
مجھے تو لگ رہا فریکچر ہے کم از کم۔بھی ہیئر لائن۔۔ عروج کو تشویش ہو رہی تھی۔۔ عزہ بھی پریشان ہو کر قریب چلی آئی۔
نہیں ٹوٹا ہوتا تو اتنے آرام سے تھوڑی پھر رہی ہوتی۔۔
واعظہ نے مسکرا کر تسلی دینی چاہی۔
آرام سے تو نہیں پھر رہی ہو اچھی خاصی تکلیف ہے ۔۔
عروج جتا کر بولی۔
ادھر لائو۔۔ اس نے اسی کے گلے میں جھولتا لمبا سا اسکارف کھینچ کر بازو کو لپیٹ کر باندھ دیا۔۔
کھانے کے بعد کسی اسپتال چل کر ایکسرے کروا لینا۔۔
عروج نے تاکید کی تو واعظہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔ عزہ اسکے دائیں بازو سے لگئ کھڑی تھی اسکیلئے ٹھیک ٹھاک پریشان۔۔
میں ٹھیک ہوں عزہ۔۔ واعظہ نے تسلی دلانے والے انداز میں کہہ کر عزہ کو ساتھ لگا لیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکے پہنچنے تک کھانا لگ چکا تھا ابیہا فاطمہ نور اور الف بے چارگی سے کھانے کو دیکھ رہی تھیں۔۔انکو آتے دیکھا تو برسوں کے بچھڑے ساتھیوں کی طرح گلے ملنے اٹھیں۔۔ نور الف عزہ سے گلے ملنے لپکیں تو ابیہا کا رخ واعظہ کی۔جانب تھا فاطمہ اور عروج ہی ایک دوسرے کے مقابل رہ گئیں تو منہ بنا کر لگ ہی گئیں گلے۔۔
یہ بازو کو کیا ہوا تمہارے۔۔ ابیہا پریشانی سے اسے دیکھتے پوچھ رہی تھئ۔۔
لمبی کہانی ہے بعد میں۔۔
وہ لاپروائی سے کہتی میز کے اانتہائی کونے میں گھس گئ۔۔ بھوک سے برا حال تھا۔۔
کسی نے بھی کھانا شروع نہیں کیا تھا۔۔
واعظہ نے میز ہر نظر دوڑائی۔۔
ایک کچومر سی سبزیوں کی طشتری تھی جس میں سے سبزیاں پہچاننا اتنا ہی مشکل تھا جتنا شروع شروع میں کے ڈرامہ دیکھ کر اوپائوں کو پہچاننا۔
گرما گرم بھاپ اڑاتا ٹوفو سوپ تھا مگر آنکھوں سمیت تلی ہوئی مچھلی۔۔اور سادے چاول
چھے لوگوں کی میز تھی ساتویں کرسی فاطمہ پڑوسی میز سے کھینچ لائی۔۔
یار اس مچھلی کو دیکھ کر ایسا نہیں لگ رہا کہ اگر ٹوفو سوپ میں ڈالا تو تیرنے لگے گی؟۔۔
واعظہ نے کہا تونور لاپروائی سے بولی
نہیں یار اتنا گرم سوپ ہے جل جائے گی بے چاری۔۔
مچھلی میں کانٹے نہیں ہیں۔۔
ابیہا نے مچھلی کا ٹکڑا کاٹ کر پلیٹ میں رکھتے ہوئے اعلان کیا۔۔
ہیں؟۔۔ واعظہ کا مچھلی کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا۔۔
ہیں واعظہ ۔۔ یہ دیکھو۔
الف نے اپنی پلیٹ سے ٹکڑا اٹھا کر تسلی کرائی۔۔
یہ کیا ہے۔ الف کو سبزیوں کے کچومر میں دلچسپی ہوئی۔
نور نے ڈرتے ڈرتے سوپ چکھا۔۔
شکر ہے اسکا زائقہ اچھا تھا۔ سب کے چہرے کے تاثرات چپکے چپکے نوٹ کرتی عروج نے سوپ اپنی جانب بڑھا کر چمچ بھر کر منہ میں رکھا۔۔
فاطمہ سرخ آنکھوں اور بھرے منہ کے ساتھ دو ہاتھ پھیلائے اسے خبردار کرتی رہ گئ مگر۔۔
ہونی کو کون ٹال سکتا۔۔
سوپ مزے کا ہے۔
واعظہ نے سوپ چکھ کر سر ٹھایا تو سب کی شکل دیکھنے والی تھی۔۔
ابیہا نے بڑے شوق سے مچھلی کا بڑا سا نوالہ لیا تھا تو احساس ہوا مصالحہ کے نام پر جو کچھ بھی تھا اوپر اوپر ہی تھا اندر سے بالکل تازہ اور پاکستانی لحاظ سے کچی مچھلی تھی۔۔
اسکا چہرہ سرخ ہو چلا تھا نہ اگلتے بن رہی تھی نہ نگلتے۔۔
الف نے سبزیوں کے کچومر کا بڑا سا نوالہ لیا تھا۔۔
لوکی کدو مولی جانے کیا کیا تھا سب ملا جلا خوب مصالحے دار مگر بیچ میں پیاز بھی اتنی ہی موٹی اور تھوڑی سی کچی۔۔
اسکے چہرے پر پیاز کی کڑواہٹ سہتے بڑے دردناک تاثرات ابھرے تھے۔۔
نور نے سوپ پیتے ہوئے ٹوفو کا بھی ایک بڑا سا پیس منہ میں لے لیا تھا۔۔
سویا کی ہلکی سی کڑواہٹ کے ساتھ یہ پنیر کا بھائی نہیں بلکہ سوتیلا بھائی تھا۔ جسکو پاکستانیوں کے زبان کے زائقے سے مانوس ہونے کا قطعی شوق نہ تھا۔۔۔
فاطمہ اور عروج باقاعدہ رو رہی تھیں۔
اتنی مرچیں۔۔
سی سی کرتے دونوں پانی پر لپکیں۔
ان سب کی حالت دیکھ کر واعظہ کے منہ سے قہقہہ نکلا تھا۔۔
اسے بے ساختہ ہنستے دیکھ کر سب کا دل اسکے دانت توڑ دینے کو ہی کر رہا تھا۔۔
معزرت معزرت۔۔
ہنستے ہنستے اس نے بمشکل معزرت کی۔۔
یار مجھے بہت بھوک لگ رہی۔
نور نے بے چارگی سے کہا۔۔
ایسا کرتے ہیں چاول مزید منگوا لیتے ہیں۔۔
الف نے سادے چاول پلیٹ میں نکالتے ہوئے مشورہ دیا۔۔ جو سب کو پسند بھی آگیا۔۔
نور نےچاولوں پر سوپ اور ٹوفو ڈال لیا۔۔
تھوڑی سی کچومر سبزی رکھی اب کچھ کچھ پاکستانی پن دکھانے پرزبان مانوس ہوئی۔۔
ابیہا نے مچھلی کو سوپ میں تیرایا تو زائقہ بہتر ہوگیا تھا۔۔ سوپ واقعی مزے کا تھا سو سی سی کرتی عروج اور فاطمہ سادے چاول کے ساتھ اسکی مرچوں سے نبرد آزما ہو گئیں
بھوک بے تحا شا لگی تھی کہ کیا سب کی سب پھر خاموشی سے پیٹ بھرنے تک کھا گئیں۔۔
اف اب تو سخت نیند آ رہی ہے۔۔
نور نے کہا تو واعظہ کو خیال آیا فورا موبائل اٹھا لیا اٹھاتے ہی بجنے لگا۔۔
ہیلو۔۔ دے؟ دے۔۔
وہ اپنی جگہ پر کھڑی ہو کر ریستوران میں نظر گھمانے لگی کسی کو ہاتھ ہلا کر اشارے سے بلایا پھر دوبارہ بیٹھ کر سوپ ختم۔کرنے کگی۔
کیا ہوا کون ہے؟
ان سب نے بھی اسکے ساتھ ساتھ ہی نظریں گھمائی تھیں مگر کوئی بھی مانوس شکل نہ دکھایی دی۔۔
سیہون ہے نقاب ٹھیک کر لو یہیں آرہا ہے۔۔
اس نے خبردار کیا تو سب پرجوش ہو گئیں
ہیں سیہون واقعی۔۔ مجھے تو دکھائی نہیں دیا۔۔
الف اچک اچک کر ریستوران پر نظر دوڑانے لگی۔۔
تبھی سیہون آکر انکی میز کے پاس ہی آکر کھڑا ہو گیا۔ چندئ آنکھوں بھورے ڈائی بالوں کے ساتھ چھے فٹ سے نکلتا قد اپر اور سویٹ پینٹ میں ملبوس نازک سے فریم کی عینک لگائے اس نے مسکرا کر کوریائئ انداز میں جھک کر کہا
سلامو لیکم۔
خالص کوریائی لہجے میں عربی سلام جھاڑتا سیہون۔ ان سب کے ارمانوں پر اوس سی آگری۔۔
یہ تو واعظہ کا دوست تھا ۔۔ سب مایوس سی ہو گئیں تھیں۔
سیہون کو ویسے بھی ان سے گرمجوشی کی امید نہ تھی۔سو واعظہ کی جانب متوجہ ہوا۔۔
واعظہ پیالہ منہ سے لگا کر غٹا غٹ سوپ پی رہی تھی
الف اور نور منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھیں۔۔
وعلیکم السلام۔۔ واعظہ سوپ ختم کر چکی تھی سو اٹھ کر اسے خوش آمدید کیا ۔۔ واعظہ چونکہ کونے میں جا گھسی تھی سو ابیہا اور فاطمہ کو نکلنا پڑا اسے نکالنے کیلیئے۔
کھانا کھایا تم نے؟۔
واعظہ نے اس سے ہنگل میں پوچھا
ہاں چلو میں گاڑی لایا ہوں۔۔ مگر تم سب آجائوگی۔
سیہون نے ان پر نظر دو ڑائی تو واعظہ مزے سے بولی
کین چھنا ۔۔ ہم چھوٹی سے چھوٹی گاڑی میں آ سکتے تم ہمیں جانتے نہیں ہو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس نے کہا تھا ہم چھوٹی سے چھوٹی گاڑی میں آسکتے ہیں؟۔۔ الف نے ایک نظر گاڑی کو دیکھا پھر گھور کر واعظہ کو۔۔
مہران کے برابر ننھی منھی سی گاڑی کھڑی تھی
اس میں سات لڑکیاں اور ایک سیہون بے چارہ۔۔
یہاں تو اوور لوڈنگ پر فائن بھی ہو جائے گا پاکستان تھوڑی۔۔
عروج نے باز کرنا چاہا۔۔
ابیہا اپنے موبائل میں گوگل۔کھولے تھی ایکدم پرجوش ہو کر انہیں دکھانے لگئ
یہ دیکھو یہ سیکنڈ ایئر کی طالبہ پاکستانئ لڑکی ایمن سلیم نےورلڈ ریکارڈ بنایا تھا 2010 میں انیس لڑکیاں دو دروازوں والی اسمارٹ کار میں بیٹھی تھیں۔۔ واعظہ غلط نہیں کہہ رہی تھی ہم آجائیں گی۔۔
ہیں واقعئ۔ الف اور نور اسکے موبائل پر جھک آئیں۔۔
فاطمہ اور عروج ٹھنڈی سانس بھر کر واعظہ کوگھورنے لگیں۔۔
کیا ضرورت ہے ہمیں پھنس کر جانے کی؟ ایک ٹیکسی کر لیتے ہیں۔۔
عروج نے کہا تو نورالف چٹکی بجا کر بولی۔۔
آجائیں گے ہم انیس لڑکیاں اگر دو دروازوں والی اسمارٹ کار میں آ سکتی ہیں تو ہم تو بس سات ہیں اور یہ گاڑی بھئ بڑی ہے۔۔
مگر ہم کوئی ورلڈ ریکارڈ بنانے نہیں جا رہے ہیں جو ضرور یہاں گھسیں۔
فاطمہ نے پیر پٹخ کر کہا۔
سیہون بے چارہ ڈرائیونگ نشست پر بیٹھا ان کے فیصلہ کرنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔
یار بیس منٹ کی ڈرائیو ہے انجان شہر میں ہیں گزارا کر لو اسی میں مہربانی۔۔
واعظہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ۔۔
تم لوگ جائو میں اور عروج دوسری ٹیکسی سے آجائیں گے۔۔ فاطمہ نے ضدی پن سے کہا تو واعظہ بس دیکھ کر رہ گئ۔۔
چلو بیٹھو۔۔ ابیہا نے کہا تو نور الف اورابیہا اندر سمٹ کر بیٹھ گئیں۔۔ عزہ کو ابیہا نے اپنے زانو پر بٹھا لیا تو عروج کی آرام سے جگہ بن گئ۔۔
چلو عروج ٹیکسی کریں ۔۔ فاطمہ نے کہا تو عروج نے ایک نظر اسے دیکھا ایک نگاہ واعظہ پر ڈالی پھر کچھ سوچ کر ابیہا کے ساتھ بیٹھ گئ۔۔
آجائو فاطمہ آرام سے آجائو گی۔۔
الف نے پکار کر کہا تو فاطمہ بھنا کر رہ گئ۔۔ عروج کے بیٹھنے کے بعد دھاڑ سے دروازہ بند کیا۔۔
سیہون ڈرائیونگ سیٹ پر پہلو بدل کر رہ گیا۔۔
اتنی زور سے۔۔۔
ٹھیک ہے پھر میں اکیلی ہی آرہی ہوں تم۔لوگ جائو۔۔
فاطمہ ہٹ دھرمی سے بولی۔۔
واعظہ فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولے اسے ملاحظہ کر رہی تھی۔۔
ضدی پن سے کہہ کر وہ سڑک کنارے تھوڑا ہٹ کر کھڑی ہو گئ تھی۔۔
چلیں۔۔ سیہون نے واعظہ کو کہا تو وہ گہری سانس بھر کر احتاط سے بازو تھامتی بیٹھ گئ۔ سیہون نے گاڑی اسٹارٹ کی مگر واعظہ نے دروازہ بند نہ کیا۔۔
وہ سوالیہ نظروں سے واعظہ کو دیکھ رہا تھا مگر وہ بے نیازی سے سامنے دیکھ رہی تھی۔۔
فاطمہ آجائو یار ۔۔ دس بج رہے ہیں ضد نہ کرو۔۔
عروج نے کھڑکی سے منہ نکال کر آواز دی تو وہ جھلا کر پیرپٹختی آئی اور فرنٹ سیٹ کے کھلے دروازے میں آسمائی۔۔
واعظہ اسکیلئے جگہ چھوڑ کر بیٹھی تھی۔۔
اسکے بیٹھتے ہی سیہون نے گاڑی چلا دی تھی۔۔ بیس منٹ نہیں پورے پینتالیس منٹ کی ڈرائیو تھی۔۔
ابیہا کا گھٹنا سن ہو چکا تھا عزہ خود ہی پندرہ بیس منٹ بعد الف کی گود میں کھسک آئی۔۔
سیول کے برعکس یہاں پر رات ہوتے ہی سناٹا چھانا شروع ہو گیا تھا طویل شفاف سڑک مگر اکا دکا گاڑیاں۔۔
عروج نے ہلکی سی کھڑکی وا کر رکھی تھی اس سے سرد ہوا کے جھونکے جیسے انہیں لوری ہی دینے لگے تھے۔۔
خاموشی رات سیدھی سڑک اور سیہون نے ریڈیو چلا دیاتھا۔۔ مون لورز کا ٹائٹل سانگ فسوں بکھیرنے لگا تھا
نیگا کودھے گیوتھے ایسو سو سو
ہینگو کھمندا۔۔
نیگا کودھےگیوتھے ایسو سو سو
گومول کمہنیدا
نیگا کودھے گیوتھے ایسو سو سو
اوسے سوئے سمھنیدا
نیسا سارامی گیل تھو گھیدو ہمہنیدا۔۔
نیما نی پویو سو۔۔
نوجی شینی می سمکیدھامیان
سچ ہے موسیقی کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔۔ سنتے ہوئے ایک لفظ سمجھ نہ آنے کے باوجود ایک ایک لفظ جیسے دل میں اتر رہا تھا۔۔
یار مجھے گیونگ پو پسند آگیا ہے کتنا خاموش سا شہر ہے۔۔
نور دوسری کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔۔
فاطمہ کا گاڑی میں بیٹھ کر بھی مزاج برہم ہی تھا
منہ پھیرےخاموشی سے باہر دیکھ رہی۔تھی۔۔
یار ویسے یہ بھی مزا رہا ہم سب اس طرح پھنس کر بیٹھے ہیں۔۔ عزہ نے کہا تو الف دانت پیس کر بولی۔۔
خاک مزا ۔۔۔ مجھ سے پوچھو تم گائے کو تو میں نے گود میں بٹھایا ہوا ہے۔۔
تو بھائی ہی بہنوں کا بوجھ اٹھاتے کونسی بڑی بات۔۔
عزہ مزے سے ہنسی۔۔
ہیں یہ کب سے بھائی بنی تمہارا؟۔۔ ابیہا نے آنکھیں پھاڑیں۔۔
اسکے بھائی بدلتے رہتے یہ ضرورت شریک بھائی بناتی ہے میں بھی اسکا بھائی ہوں اور کل کوتم سے کام پڑا تو تم بھی اسکا بھائی بن جائوگی۔۔
نور نے تفصیل سے بتایا۔۔
ہاں تو کیا برائی ہے اس میں ۔۔۔
عزہ نے کندھے اچکائے۔۔
ہماری کہانی میں شدید کمی ہے میل برادری کی۔۔
میل کو کیا کہتے واعظہ۔۔
خط۔۔ بنا لمحے کے انتظار کے جواب آیا تھا۔۔
ارے میل مردانہ والا۔۔ اسکو اردو میں کیا کہتے۔۔۔۔۔ عزہ نے تشریح کی تو الف اور ابیہا ہنس پڑیں۔۔
الو مردانہ ہی کہتے اردو میں مردانہ برادری کی کمی ہے ہماری کہانی میں۔۔
نور نے تشریح کی تو اسکے سوا سب ہی نے بدمزا سا منہ بنایا۔۔
ایوو۔۔
یار یہ سننے میں کتنا برا لگ رہا مردانہ برادری۔۔
عزہ نے جھرجھری سی لی۔۔
یار ہم ایسے ہی زیادہ مزا کر رہے ہیں۔۔ عروج نے کہا تو ابیہا نے قائل ہونے والے انداز میں سر ہلایا۔۔
ہاں یار یا تو گر ہو بھی تو چندی آنکھوں والا کوئی وجیہہ سا جیسے جی چھانگ ووک۔۔
ابیہا کے لہجے سے بتاتے بتاتے شہد ٹپکنے لگا آنکھوں میں ستارے اتر آئے۔۔
جی چھانگ ووک کیسے آسکتا وہ تو ملٹری چلا گیا۔۔
الف اداس ہوئی۔۔
چلو کوئی اور سہی بس ہو ہینڈسم سا اوپا۔۔
عزہ نے مزے سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ڈرامائی انداز دینے کو ہینڈسم سا کے بعد تھوڑا سا وقفہ بھی لے لیا اوپا کہنے میں۔۔
دے۔۔ سیہون نے بیک ویو مرر سے سوالیہ۔نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔ عزہ گڑبڑا گئ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھے منزلہ عمارت میں پانچویں منزل پر اسکا فلیٹ تھا ۔۔
شکر ہے لفٹ ٹھیک تھی سیہون انکے جتنے بیگز اٹھا سکتا تھا اٹھا لیئے تھے۔۔ نور ان خوش قسمتوں میں سے نہ تھی سو اپنا بیگ تھامے حسرت سے عروج اور ابیہا کے خالی ہاتھ دیکھ رہی تھی۔۔
لفٹ چھوٹی سی تھئ سو یہ سب گھسیں تو سیہون دیوار سے چپک رہا۔۔
عمارت کے حالات کافی اچھے تھے سیہون یقینا اچھا کما تا رہا ہو گا جبھی اچھی جگہ رہ رہا ہے۔۔
عزہ کو اپنا دو کمروں کا فلیٹ یاد آیا۔۔ تو ابیہا کے کان میں گھسی۔۔
تو نور کو چم چم کرتی لفٹ۔۔ بھا گئ۔۔
ہماری بلڈنگ میں تو لفٹ بھی نہیں ہے۔۔
اس نے اداسئ سے کہا
فاطمہ بیزار سی زمین کو جوتے کی نوک سے کھرچ رہی تھی۔۔
انسان انسان انسان دنیا میں اتنے انسان کیوں ہیں۔۔
عروج اداس سی ہونے لگی۔۔
واعظہ نے ٹہوکا دیا تو نفی میں سر ہلا دیا۔۔ پانچویں منزل تک پہنچتے سب کے سیل ویک ہو چکے تھے۔۔ سیہون نے جب فلیٹ کا دروازہ کھولا تو ان ساتوں کا بس نہیں تھا بس سامنے بستر ہو اور وہ گر جائیں۔۔ مگر۔۔ یہ کیا تھا۔۔
منہ سب کا کھلا تھا مگر چلو نقاب نے تاثرات چھپا لیئے۔۔
الف اور فاطمہ کا منہ کھلا تھا واعظہ نے دائیں بازو سے ٹہوکا دیا تو بند ہوا۔۔
حیرانی کی وجہ تھی۔۔ فلیٹ ۔۔ شروع ہوا اور ختم ۔۔ بس۔۔ سامنے اوپن کچن تھا اسکے ساتھ دائیں جانب بس چھوٹا سا احاطہ تھا جس پر لگژری کائوچ دھرا تھا اور کائوچ کے ساتھ ڈبل بیڈ۔۔
بس۔۔ انکی حیرانی کے برعکس سیہون خوش دلی۔سے انہیں چائے پینے کی دعوت دے رہا تھا۔۔
واعظہ نے مترجم کے فرائض نبھائے۔۔
اب تو میرا سر بھی پھٹنے کو ہے واعظہ ۔۔ عروج نے کنپٹی سہلائی۔۔
واعظہ نے ایک نظر ان سب کی شکل دیکھی پھر سہولت سے شکریہ ادا کر کے معزرت کرلی۔۔
اچھا اس الماری میں سلیپنگ بیگ ہیں اور کمبل کی تو ضرورت نہیں ہوگی گرمی ہے اور کسی بھی چیز کی ضرورت ہو ضرور کہنا۔میں نیچے والی منزل پر ہی اپنے دوست کے ساتھ رہ رہا ہوں آج رات۔۔
سیہوان نے پورا اخلاق نبھا دیا تھا۔۔ واعظہ نے خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ اسے رخصت کیا ۔۔
دروازہ بند کرکے مڑی تو چھے کی چھے کچا چبا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھیں۔۔
کیا ہوا۔۔
اس نے جہان بھر کی۔معصومیت طاری کر لی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیسی کمچی دوسری قسط
حصہ سوئم
یہ ڈبل بیڈ یہ ننھا منا فلیٹ۔۔ اس میں ہم سب کیسے رہیں گے واعظہ؟۔۔
الف نے کہا تو وہ مزے سے کندھے اچکا گئ۔۔
شکر کرو سیہون سنگل نہیں ہے ورنہ بیڈ بھی سنگل ہی ہوتا یہاں۔۔
یہ تھی تمہاری پلاننگ ۔
عروج نے طنزیہ انداز میں کہہ کر سینے پر بازو لپیٹے۔۔
واعظہ نے پوری بتیسی چمکائی۔۔
پہلے بتا دوں میں بیڈ کے بغیر سوئوں ایسا ممکن نہیں اور تکیہ کسی اور کو میں لینے دیتی نہیں۔۔
فاطمہ نے ہاتھ اٹھا کر ڈرامائی انداز میں کہا تھا۔۔
نور نے ایک نظر اسے دیکھا پھر سیدھا بیڈ کی جانب دوڑی۔۔
فاطمہ ایک لمحے کو تو ہکا بکا رہ گئ پھر خود بھی دڑکی لگا دی۔۔
ان دونوں میں اتنی توانائی آتی کہاں سے ہے۔۔
الف نے رشک سے ان دونوں کو بیڈ پر چڑھے ایک دوسرے پر تکیئے سے وار کرتے دیکھا۔۔ خود اس میں تو لگ رہا تھا جان ہی نہیں رہی۔۔
سیہون بھائی کیا کہہ رہے تھے؟۔۔ عزہ نے واعظہ سے پوچھا تو الف ابیہا اور عروج اسے جتاتی نظروں سے دیکھنے لگیں وہ کھسیا سی گئ۔۔ کچھ دیر پہلے کا منظر تازہ ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے دھیان میں وہ پوری توجہ سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔
واعظہ اور وہ عموما کافی بک بک کرنے کے عادی تھے دونوں ہی کو زبان میں کھجلی کا مسلئہ تھا باقیوں کی نسبت ان دونوں نے ایک دوسرے کا سر کھا کھا کر نہ صرف دوستی کر لی تھی بلکہ ایک دوسرے کی کافی مدد بھی کرتے تھے واعظہ کو ہنگل سکھانے میں اسکا کافی ہاتھ تھا تو واعظہ نے اسکی انگریزی کافی بہتر کر دی تھی ۔۔ اتنی کہ گیونگ پوہے پر سیزن لگنے پر جب پوری دنیا سے لوگ چیزی بلاسم فیسٹول دیکھنے آتے تھے تو ا س نے ایک مقامی ادارے میں جز وقتی ملازمت کر لی تھی جو سیاحوں کو کوریائی ثقافت سے متعارف کروانے والے رہنما کے طور پر تھی جب تک یہ میلہ جاری رہتا ایک ڈیڑھ ہفتے تک وہ یہاں رہتا تھا اور انگریزی مترجم کے طور پر سیاحوں کی مدد کرتا تھا۔۔گو یہ وقتی ملازمت تھی مگر اتنا ضرور کما لیتا تھا کہ یہ سب اوپر کی کمائی بچت میں جاتی تھی۔۔ ادارہ بھی کوریا کا بڑا مشہور ادارہ تھا انہوں نے اسے فلیٹ دے رکھا تھا دو ہفتے جب تک یہاں تھا وہ ایک اچھے علاقے کے اچھے فلیٹ میں رہتا تھا ۔۔ یہ اسکا پہلا موسم تھا چیری بلاسم فیسٹول کا اس سے پہلے دو تین چھوٹے میلوں میں ہی شریک رہا تھا۔۔ ابھی بھی جب واعظہ نے بتایا کہ وہ گیونگ پوہے آرہی تو اس نے بڑے خلوص سے اسے اور اسکی سہیلیوں کو اپنے فلیٹ میں رکنے کی دعوت دی تھی۔۔ یہاں سیزن میں کسی ہوٹل میں رکنا کھال اتروادیتا تھا۔ اسکی گرل فرینڈ سیول میں تھی اسکا ہفتے کے آخر میں اس سے ملنے آنے کا ارادہ عین وقت پر کسی مصروفیت کے باعث کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔۔ سو فلیٹ خالی ہی تھا۔۔
بازو کیسے اتر گیا تمہارا؟۔۔
اس نے دیکھ تو لیا تھا مگر پوچھنے کا موقع نہ مل سکا۔۔ سو اب جا کر پوچھا۔۔
مکا بلاک کیا تھا۔۔؟۔ واعظہ ہنسی۔۔
آہنی مکا تھا؟ بلاکج سے بازو اتر گیا ؟ لڑکی تھی یا پہلوان۔۔
وہ بے ساختہ ہنسا۔۔
لڑکی ہی تو نہیں تھی۔۔
واعظہ نے کہا تو اسکا میٹر ہی گھوم گیا۔۔
ہیں۔۔ کس کی جرات ہوئی؟ پہلے کیوں نہیں بتایا تم نے ؟ کون تھا بد تمیزی کر رہا تھا؟۔۔
ارے ارے سانس لو۔۔ اسکے ردعمل پر واعظہ ہنس ہی پڑی۔۔
یار ساحل پر کچھ امریکی میری دوستوں کا مزاق اڑا رہے تھے تو ان سے جھگڑا ہو گیا۔۔ میری سہیلی اور وہ لڑکی لڑے بیچ میں انکے گروہ کا لڑکا میری سہیلی پر ہاتھ اٹھانے بڑھا میں نے بلاکج کیا پہلی بار زندگی میں اس دائو کو آزمایا تھا کوئی غلطی کی ہوگی۔۔ اب بازو سوج گیا۔۔
اسے پتہ تھا تفصیل سے نہ بتایا تو سیہون کان کھا جائے گا۔۔
میں یہی سمجھا تھا کہ یونہی موچ ووچ آئی ہوگی چلو ابھی ہاسپٹل سے معائنہ کروا لیتے ہیں۔۔ میں اگلے موڑ سے یو ٹرن لیتا ہوں۔
سیہون کافی سنجیدہ ہو گیا تھا۔۔
سیہون کن چھانا۔۔ ٹھیک ہوں میں ۔۔ اور یہ سب بھی بہت تھکی ہیں پہلے گھر چلو۔۔
اس نے سہولت سے منع کر دیا۔۔
یہ کیا بات ہوئی رات بھر میں تکلیف بڑھ گئ تو۔۔
سیہون کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔ اسکی طبیعت کے ضدی پن سے اکثر لوگو ں کے پڑ جاتے تھے۔۔ خاص طور سے اسی کا۔خیال رکھنے والو ں کے۔۔
واعظہ نے گہری سانس بھری۔۔
کین چھنا سیہون ۔۔ میں اب سیول جا کر ہی اسپتال جائوں گی۔۔
ڈھیٹ پنا اپنا میرے ساتھ مت دکھایا کرو۔۔
سیہون نے ڈپٹ کر کہا۔۔ وہ دونوں ہنگل میں ہی باتیں کر رہے تھے مگر پھر بھی واعظہ چونکہ انگریزی پر اتر آئی تھی اپنی بات منوانے کو تو
اتنی دیر سے انکی گفتگو سے یکسر انجان بنی بیٹھی فاطمہ نے بھی مڑ کر اسے دیکھا۔
ہاسپٹل چلنا چاہیے ۔۔ رات تک تکلیف بڑھ گئ تو۔۔ ؟
کچھ نہیں ہوتا یار۔ واعظہ بیزار سی ہوئی۔۔
سیہون سیدھا گھر چلو ۔۔ ایکدم اجنبی بدتمیز انداز میں اس نے کھردرے لہجے میں کہا تو سیہون ہونٹ بھئنچ کر غصے میں رفتار کا چرخہ دبا گیا۔۔ یہ اسکا مخصوص انداز تھا اس کے بعد وہ نہیں سنتی تھی اگلا سر پیٹ لے بھلے۔۔ گاڑی نے اڑنا شروع کر دیا تھا۔۔ پیچھے تینوں اپنی باتوں میں لگی تھیں جبھی امن تھا فاطمہ البتہ بھنا گئ۔۔ اچھا غصہ ہے ۔۔
تبھئ انکی دوستی ہوئی ۔۔ ایک جیسے بد دماغ ہیں
فاطمہ نے منہ بنا کر کھڑکی سے باہر جھانکا ۔۔ چیری بلاسم کے سڑک کنارے درخت شوں شون گزر رہے تھے۔۔
واعظہ پر چنداں اثر نہ تھا مزے سے سامنے سڑک پر نظر جمائے تھئ
عزہ دونوں نشستوں کے بیچ سے نمودار ہوئی۔۔
میل کو کیا کہتے واعظہ۔۔
خط۔۔ بنا لمحے کے انتظار کے جواب آیا تھا۔۔
ارے میل مردانہ والا۔۔ اسکو اردو میں کیا کہتے۔۔۔۔۔ عزہ نے تشریح کی تو الف اور ابیہا ہنس پڑیں۔۔
الو مردانہ ہی کہتے اردو میں مردانہ برادری کی کمی ہے ہماری کہانی میں۔۔
نور نے تشریح کی تو اسکے سوا سب ہی نے بدمزا سا منہ بنایا۔۔
ایوو۔۔
یار یہ سننے میں کتنا برا لگ رہا مردانہ برادری۔۔
عزہ نے جھرجھری سی لی۔۔
یار ہم ایسے ہی زیادہ مزا کر رہے ہیں۔۔ عروج نے کہا تو ابیہا نے قائل ہونے والے انداز میں سر ہلایا۔۔
ہاں یار یا تو گر ہو بھی تو چندی آنکھوں والا کوئی وجیہہ سا جیسے جی چھانگ ووک۔۔
ابیہا کے لہجے سے بتاتے بتاتے شہد ٹپکنے لگا آنکھوں میں ستارے اتر آئے۔۔
جی چھانگ ووک کیسے آسکتا وہ تو ملٹری چلا گیا۔۔
الف اداس ہوئی۔۔
چلو کوئی اور سہی بس ہو ہینڈسم سا اوپا۔۔
عزہ نے مزے سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ڈرامائی انداز دینے کو ہینڈسم سا کے بعد تھوڑا سا وقفہ بھی لے لیا اوپا کہنے میں۔۔
دے۔۔ سیہون نے بیک ویو مرر سے سوالیہ۔نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔
عزہ گڑبڑا گئ۔۔
واعظہ کے چہرے پر محظوظ مسکراہٹ در آئی۔۔
وہ میں نے آپکو نہیں کہا۔۔ ہم آپس میں بات کر رہے تھے
عزہ نے اردو میں ہی کہا تھا۔۔
دے؟۔ وہ واعظہ کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔
وہ یہ کہہ رہی کہ تمہاری شکل اسکے بھائی سے ملتی تمہیں دیکھ کر اسے یاد آگیا۔ واعظہ نے دلگیری سے کہا۔ سیہون کی آنکھوں میں ستارے اتر آئے
ہیں؟۔ ابیہا کا پورا منہ کھلا۔۔
چندی آنکھوں والا بھائی؟ کیوں رشتے الجھا رہی ہو واعظہ۔
اس نے قصدا ہنگل میں کہا تھا باقی سب کو اتنی نہیں آتی تھی ہنگل سو خاموش تھیں عروج نے البتہ بے ساختہ مسکراہٹ دبانے کو منہ کھڑکی کی طرف پھیر لیا۔۔
میں آپکے بھائی جیسا ہی تو ہوں۔ مجھے اپنا بھائی ہی سمجھو۔۔ کبھی بھی میری کسی مدد کی ضرورت ہو بلا جھجک کہنا ۔۔ میں اپنی ننھی بہن کا خیال رکھوں گا اب سے۔۔ خود کو تنہا نہ سمجھنا کوریا میں تمہارا یہ بھائی ہے یہاں۔۔
۔ سیہون کے اندر کا بھائئ چارہ ابل ابل کر باہر آنے لگا۔۔ شستہ انگریزی میں بیک ویو مرر سے عزہ سے مخاطب ہوا۔۔
دے؟۔
عزہ کی آنکھیں اپنے حجم سے بڑی ہوگئ تھیں۔۔
ابیہا کو ہنسی روکنے میں اچھو ہی ہو گیا کھون کھوں میں واعظہ نے باقاعدہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی ضبط کی۔۔
تم لوگ بھائی کو کیا کہتے ہو اپنی زبان میں۔۔؟
سیہون کی پوری توجہ ننھی بہن پر تھی۔۔
بھائئ۔۔ عزہ کئ ساری شوخی ہوا ہو گئ تھی
الف نور کے کان میں گھسی تھی۔۔
اسے اچانک کیا ہوا۔۔؟
ایک اوپا ملا کوریا میں۔۔ وہ بھی جھٹ سے بھائی بن گیا
نور کو جانے کیون غصہ آگیا۔۔
اور پہنو عبایا۔۔
الف نے اسے اور چڑایا۔۔
سچی تو یہ بھائی والی کہانی مزے کی تھی الف کو عزہ کے اپنی گود میں چڑھ کر بیٹھنے کا دکھ ہی بھول گیا۔۔
ٹھیک ہے سو آئیم یو ر بھائی۔۔ اوکے۔۔
جی۔۔ عزہ کی آواز اتنی مدھم ہوئی کہ بس اسے ہی سنائی دی۔۔
بہن کو کیا کہتے؟۔۔ اسے خیال آیا۔۔
بہن۔ تم اسے عزہ بہن کہہ لیا کرو۔
واعظہ نے عزہ کو بولنے کا موقع ہی نہ دیا۔۔
ہیں۔۔ عزہ نے واعظہ کو گھورنا چاہا۔۔ مگر بھیا کا جی نہیں بھرا تھا۔۔
عزہ بہن۔۔ ٹھیک ہے۔۔ سیہون خلوص سے مسکرا دیا۔۔
گاڑی رکی تو عروج تواور نور تو اتر گئیں مگر ابیہا اور الف گھٹنے سہلاتی رہ۔گئیں۔۔ سیہون ڈگی سے سامان نکال رہا تھا۔۔
یار ویسے ہم نے بھی عالمی ریکارڈ بنایا ہے ۔۔
سب سے زیادہ قومیت کے لوگ اکٹھے ایک گاڑی میں بیٹھ کے پھرے۔۔
یہ نور تھی۔۔ چہک کربولی۔۔ تو فاطمہ نے اسکا بیگ زمین سے اٹھا کر اسے تھما دیا۔
یہ لو انعام ایک نیا عالمی ریکارڈ بنانے کا۔۔
نور منہ بنا کر رہ گئ۔۔ عزہ اقر ابیہا بیگ اٹھانے بڑھیں تو بھیا نے سہولت سے منع کر دیا۔۔
لیو اٹ عزہ بہن۔۔ میں اٹھا لیتا ہوں۔۔
عزہ بہن۔ کوریائی لہجے میں بلکہ سخت کوریائی لہجے میں عزہ بہن سن کر عزہ کا دل اسے فورا اس رشتے سے مکر جانے کو چاہا۔۔
لیکن فائدہ اپنا تھا بھیا نے بقیہ سارے بیگ اپنے اوپر لاد لیے تھے۔ نور کو البتہ فاطمہ کو کچا چبانے کا دل کر رہا تھا۔۔
کیا جلدی تھئ اسکا بیگ اسے تھمانے کی؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں فلیٹ میں چھوڑ کر جاتے جاتے بھی عزہ سے اس نے علیحدہ سے پوچھا
کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔۔
نو۔۔ اس نے سر ہلا۔دیا۔۔
اچھا پھر میں چلتا ہوں۔۔ آنیانگ۔۔
وہ جھک کر انہیں الوداع کرتا جانے لگا۔۔ یہ سب فلیٹ کا جائزہ لینے میں مگن تھی واعظہ اسے چھوڑنے دروازے پر آئی تو وہ دروازے سے نکل کر رک گیا۔۔ پھر پلٹ کر اسے دیکھنے لگا
واعظہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو جھجک کر بولا۔۔۔
یار میری انگریزی بھی زیادہ اچھی نہیں ہے تم۔مگر یہ اسے دے دینا۔۔
اس نے گلے سے زنجیر اتار کر اسے تھمائی۔۔
یہ میری بہن کا تھا۔۔ میری بہن کو دے دینا۔۔
اسکی ضرورت نہیں ہے سیہون۔۔
واعظہ سنجیدہ ہوگئ۔۔ اسکا چھوٹا سا مزاق کافی سنگین ہوتا جا رہا تھا۔۔
مجھے جا رو کے بعد پہلی بار کسی نے بھائی کہا ہے پورے آٹھ سال بعد۔ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔۔
تم نہیں سمجھو گی۔۔
سیہون کی چندی آنکھوں میں واضح نمی چمکی تھی۔۔ ۔مسکرا کر اس نے واعظہ کا ہاتھ تھام کر زنجیر اسکی مٹھی میں رکھ کر بند کر دی۔۔
مگر۔۔ واعظہ نے کچھ کہنا چاہا مگر اس نے موقع نہیں دیا۔ اسکی آنکھوں میں نمی بڑھتی جا رہی تھی۔۔ وہ مزید اسکے سامنے ٹھہر نہیں پایا۔۔
یاد سے دے دینا اسے۔۔ آنناینگ۔۔ وہ مسکرا کر کہتا ہاتھ ہلاتا تیز تیز قدم اٹھاتا بڑھ گیا۔۔
واعظہ نے مٹھی کھول کر لاکٹ دیکھا۔۔
وہ عجیب سی شکل کا علامتی لاکٹ تھا کس لیئے تھا نہیں معلوم ہونے کے باوجود کافی بھاری لگا تھا اسے۔۔
اور یہ وزن اسکئ ہتھیلی پر نہیں دل پر تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے عبایا اتار اتار کر انہوں نے کوٹ اسٹینڈ پر ڈالے تھے۔۔
اف ۔۔ دل۔کرر ہا بس فورا سو جائوں۔۔
فاطمہ باقائدہ جمائی لیکر بولی۔۔ نہانے کی ہمت کسی میں نہ تھی ہاں سب نے کپڑے بدل۔لیئے تھے۔۔ عبایا اتر جانے کے بعد سب کم و بیش ایک جیسے ہی حلیئے میں تھیں سویٹ پینٹ اوراپر۔۔
ویسے مجھے نہیں پتہ تھا کوریائی بھی اتنے جزباتی ہوتے۔۔۔
نور مسہری پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تبصرہ کر رہی تھی۔دونوں ہاتھ اپر کی جیبوں میں گھسائے اپر کا ٹوپا سر پر چڑھائے چمکتی آنکھوں سے دیکھتی وہ جیسے فل۔چارج تھئ۔۔
کیا جزباتی پن دکھا دیا کورئینز نے۔۔ عزہ نے پوچھا تو مگر جواب سننے ٹھہری نہیں وہ رات کو ٹہل کر ہی سوتی تھی سو ابھی بھی اس نے اس مختصر سے فلیٹ میں بھی اپنا چہل قدمی کا معمول خراب نہ کیا تھا ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر۔۔ پھر رہی تھی۔۔
عروج کے کندھے سے سر نکال کر جھانکا چائے دم پر تھی مطمئن ہو کر پلٹ آئی۔۔
یہی ایکدم سے یہ نقلی سیہون جزباتی نہیں ہو گیا تم۔نے اوپا کیا کہہ دیا بھائی ہی بن گیا فورا۔۔
نور نے سلسلہ کلام اسکی واپسی پر وہیں سے جوڑا۔۔
عزہ سوچ میں پڑ گئ۔۔
ہوں۔۔ اوپا کا مطلب کیا ہوتا بھلا۔۔ میں نے تو بس فیس بک پر سب کو کورین سیلیبریٹیز کو اوپا کہتے دیکھا بس میں تو سمجھی تھئ سیلیبریٹی کو اوپا کہتے۔۔
اس نے کہا تو فاطمہ ہنسی
میں تو شروع شروع میں پارک ہیونگ سک کا نام اوپا سمجھتی رہی تھئ۔۔
نور نے محظوظ قہقہہ لگایا۔
مجھےتو لگا تھا اوپا کاسٹ ہوتی جیسے ہم شاہ جی کہہ کر مخاطب ہوتے نا سیدوں کو ویسے شائد کورین اوپا کہتے ہونگے۔۔ اونچی زات والوں کو۔۔
اس نے ہنستے ہنستے ہاتھ پر تالی مارنے کو فاطمہ کی جانب بڑھایا اس نے ابھی نائٹ کریم بھر کر ہتھیلی پر نکالی تھی نور نے ہاتھ بڑھایا تو وہی ہتھیلی آگے بڑھا دی۔۔ پورا ہاتھ سن گیا نور کا ۔۔
فاطمہ ہنسے گئ تو وہ بھی منہ بنا کر کریم کو ہاتھوں میں ملنے لگی۔۔
الف ان سے بے نیاز نیم دراز موبائل میں مگن تھی۔۔ اسکا یہ وقت اپنا سوشل میڈیا اکائونٹ اپڈیٹ کرنے کا ہوتا تھا۔۔
سو تصویریں اپلوڈ ہو رہی تھیں لیٹ کر۔۔
فاطمہ نائٹ کریم کا مساج کرنے میں مگن تھی۔۔ ابیہا اور واعظہ الماری میں گھسی بستر نکال رہی تھیں۔ نکال تو ابیہا ہی رہی تھی۔۔ واعظہ بس ساتھ کھڑی باتیں بگھار رہی تھی آج تو واقعی بیچاری کا بازو کام نہیں کر رہا تھا۔۔
ہاں یار میں خود حیران اوپا بھائی کو کہتے ہیں کیا واعظہ؟۔۔
عزہ کو خیال آیا تو اٹھ کر انکے پاس چلی آئی۔۔
ابیہا اور واعظہ ایکدم چپ ہوئی تھیں۔۔
اوپا جناب کی۔طرح استعمال ہوتا لڑکوں کیلئے اگر انہیں آپ نے عزت سے اور تھوڑا ضرورت سے زیادہ فری ہو کر مخاطب کرنا ہو تو۔۔
جواب عروج کی۔جانب سے آیا تھا پیپر کپ میں چائے نکال کر وہ چھوٹی ٹرے میں لائی تھی۔۔ ایک۔عزہ کی طرف بڑھاتے ہوئے تفصیل سے بتایا۔۔
اچھا؟ ۔۔ عزہ حیران ہوئی۔۔ پھر سیہون کو کیا ہوا تھا
اچانک۔
وہ سوچ میں پڑی۔۔
عروج نے جتاتی نظروں سے گھورتے واعظہ کو کپ تھمایا وہ تھوڑی شرمندہ ہو گئ تھی۔۔ سو خاموشی سے کپ اٹھاتی سر جھکا کر کونے میں ہو گئ۔۔
ہاں یار انکے ڈراموں میں ہیروئنیں اوپا کہتی ہیں نا کتنا زیادہ۔۔ بھائی تو ہیونگ ہوتا ہے ہے نا۔۔
الف کے کان ادھر ہی لگے تھے۔۔
جلدی جلدی چائے پیو اور لیٹو سب مجھے سخت نیند آرہی۔۔
ابیہا نے موضوع بدلنے کو کہا۔ خود اپنا کپ زمین پر کونے میں ٹکا کر سلیپنگ بیگز قطار سے بچھانے لگی۔
یار چائے پی کر تو نیند اڑ نہیں جائے گی؟۔
عزہ نے پوچھا مگر سب کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔۔
کوئی نہیں ار درد کم ہوگا تو اچھی نیند آئے گی۔۔
یہ نور کی۔تھیوری تھئ۔۔ کیا بی ٹی ایس تھیوریاں نکالتے ہونگے جو نور نکالا کرتی تھئ۔۔
تم لوگ جلدی سوئو صبح میں نے آٹھ بجے جگا دینا ہے۔۔ یہ شوشا ابیہا نے چھوڑا تھا
کیوں بھئ۔۔ سب نے بھرپور احتجاج کیا تھا
الف تک۔اٹھ کر بیٹھ گئ۔۔
یار صبح جلدی نکلو گے گھومو پھروگے تو ہی ہم شام سے پہلے سیول پہنچ پائیں گے۔۔ پرسوں سب نے یونیورسٹی نہیں جانا؟۔ ابیہا نے گھرکا تو انکو بھی بات دل۔کو لگی۔
یار میں نہیں چائے پی رہی ۔۔ یہ لو۔۔
نور نے جھلاہٹ بھرے انداز میں کہہ کر ابیہا کی۔جانب کپ بڑھایا۔۔
مگر کیوں ۔۔ وہ حیران ہی رہ گئ۔
کپ تھاما تو خالی تھا نور شرارت سے ہنس پڑی۔۔
باز مت آنا تم۔۔ ابیہا نے دانت پیسے
دل تو کیا سر پر ہی مارے کپ۔۔مار بھی دیتی اگر پیپر کپ نہ ہوتا اسے سر پر بجانے سے تو جوں بھی نہ مرتی۔۔
فاطمہ کو سخت نیند سوار ہو رہی تھی اپنا کپ ابیہا کو تھماتے ہی بے دم ہوئی تکیہ پر سر ایک۔کشن منہ پر منٹ بھر میں سو بھی گئ۔۔
دو دو گھونٹوں میں چائے ختم کر کرکے سب بنا جھگڑے سونے کیلئے اپنی اپنی جگہ کی طرف بڑھی تھیں۔۔
نور الف فاطمہ اورعروج مسہری پر سونے لگی تھیں۔۔ عزہ واعظہ اور ابیہا کیلئے سلیپنگ بیگ انکے پیتھیانے بچھا ئے گئے تھے۔۔ کمرے کی چہل۔پہل ایکدم کم ہوئی تھی۔۔
واعظہ سیدھی لیٹنا کروٹ مت لینا۔ ابھی پکا نہیں پتہ کہ بازو کی بچت ہوئی ہے کہ نہیں۔۔
عروج بازو آنکھوں پر رکھ کر سونے ہی لگی تھی کہ خیال آیا تو اٹھ بیٹھی۔۔
وہ الو سوئے گی تب نا۔۔
ابیہا نے سلیپنگ بیگ میں سے کسمسا کر باہر جھانکا تو اسکا پڑوس خالی تھا۔۔ کہاں گئ۔۔ اس نے اٹھ کر دیکھا تو دور پورے کمرے جتنئ بڑئ شیشے کی کھڑکی کے پاس نظر آئی۔۔
ابیہا نے گھور کر واعظہ کو دیکھا ہھر بڑ بڑاتی دوبارہ بیگ میں گھس گئ۔۔عروج گہری سانس بھرتی بیڈ سے اتر آئی۔۔ سامنے ہی عزہ کا سلیپنگ بیگ پڑا تھا۔۔
عزہ سلیپنگ بیگ میں کروٹیں بدل رہی تھی
اس نے جھک کر ہلایا تو اس نے کچھوے کی طرح گردن باہر نکالی۔۔
کیا ہوا ؟ بیگ میں سویا نہیں جا رہا؟۔۔
عروج نے پوچھا تو ردعمل بالکل توقع کے برعکس تھا
نہیں اتنا مزے کا لگ رہا پورا بند ہو جاتا بالکل ٹھنڈ نہیں لگ رہی اوپر سے کتنا نرم سا ہے یہ جیسے کمبل کا غلاف چڑھا لیا ہو خود پر۔۔
انتہائی خوش اور لطف اندوز ہونے والا انداز تھا۔۔
پاگل۔۔
عروج کو اسکے انداز پر ہنسی ہی آگئ۔۔ سر پر چپت لگاتی اسکے پاس سے جگہ بناتی ہوئی آگے آکر سوئچ بورڈ سے بتئ بجھا تی واعظہ کے پاس چلی آئی۔۔
۔۔ شہر کی جھلمل کرتی روشنیاں اونچائی سے دیکھنے میں بہت بھلی لگ رہی تھیں۔۔
واقعی بہت پیارا منظر ہے ۔۔ عروج نے کہا تو واعظہ اپنے ہی کسی دھیان سے چونکی۔۔
ہاں ۔۔ کونسا۔۔
کدھر گم ہیں محترمہ؟۔۔ عروج نے اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔۔
یہی سوچ رہی تھی کل اتوار ہے پیر کو سب نے ہی اپنے معمولات پر واپس جانا ہوگا تو ہم کل اگر گھومتے ہوئے دیر لگا بیٹھے تو رات تک مشکل ہو جائے گا سیول پہنچنا اور تھکن سب کو ہی بہت ہے پیر کو صبح اٹھ کر کام۔پر جانا مشکل ہوجائے گا۔۔
واعظہ نے تفصیل سے بتایا مگر عروج کو یقین نہ آیا
یہی سوچ رہی تھیں؟۔۔
ہاں تو؟ تمہیں کیا لگا سیہون کے بارے میں سوچ رہی تھی یار پرایا مال ہو گیا ہے وہ گرل فرینڈ ہے اب اسکی۔۔
وہ ہنس کر ہلکے پھلکے انداز میں بولی۔۔
عروج مسکرا دی اب اگر کوئی آپکو کچھ نہ بتانا چاہے تو آپ کر بھی کیا سکتے۔۔
ویسے میری کل رات کو نائٹ ہے۔۔
عروج نے کہا تو واعظہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔۔
تم لوگ گھومتے پھرتے میرا ارادہ تھا صبح کی بس پکڑنے کا۔۔ لیکن میرا خیال ہے تم بھی ساتھ ہی چلو میرے انہیں گھومنے دو۔
اسکے مشورے پر واعظہ ہنس پڑی۔۔
انکو اکیلے کیسے چھوڑ کر جا سکتی یار ۔۔۔۔
کیوں نہیں جا سکتی ہو؟۔چھوٹی بچیاں تھوڑی ہیں آجائیں گی پاکستان سے یہاں آسکتی ہیں تو یہاں بھی آرام سے کہیں بھی جا سکتی ہیں۔۔
عروج کا انداز قائل کرنے والا تھا۔۔ واعظہ اسے دیکھتی رہی پھر قصدا بات بدل گئ۔۔
تمہیں ویسے کیا لگتا فریکچر تو نہیں ہے نا یہ؟۔۔
جتنے آرام سے یہاں کھڑی تانکا جھانکی کر رہی ہو اس سے تو نہیں لگتا کہ فریکچر ہے۔۔
عروج کے سارے ہمدردی بھرے جزبات بھاپ بن کر اڑے تھے۔۔ جل کر بولی۔۔ واعظہ زور سے ہنس کر لپٹ گئ۔۔
اچھا نا ناراض کیوں ہو رہی ہو۔۔
وہ منا رہی تھی۔۔
دفع۔۔ عروج نے کہا تو سخت ہی انداز میں دل تو دھکا دیکر پیچھے کر نے کا ہی کیا تھا مگر بے چاری کا بازو۔۔
ترس بھی آگیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں ہلکے ہلکے خراٹے گونج رہے تھے ٹہلتے ٹہلتے تھک گئ تو وقت دیکھا صبح کے ساڑھے پانچ ہو رہے تھے۔۔نیند آنکھوں میں دور تک نہیں تھی۔۔ اسکے سوا یہ سب بے خبر تھیں۔۔ وہ انکی۔نیند پر رشک کرتی رہ۔گئ۔۔
پو پھٹ رہی۔تھئ۔۔ کھڑکی کے پردے ہٹے ہوئے تھے ابھی یہاں سورج کی ساری روشنی پھیل۔جانی تھئ اس نے اٹھ کر سب پردے برابر کیئے اور آکر ابیہا کے برابر بچھے سلیپنگ بیگ میں گھس گئ
ایک آدھ گھنٹے بعد اٹھا دوں گی انہیں۔۔
اگلے دن کا پروگرام بناتے جانے کب نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوئی پتہ نہیں۔ چلا۔۔
جانے کتنا وقت بیتا جب غیر مانوس آوازوں کے شور سے آنکھ کھلی تھئ اسکی۔۔ نیم وا آنکھوں سے اس نے جو دو ہیولوں کو آپس میں الجھتے دیکھا تھا۔۔ پٹ آنکھیں کھلی تھیں اسکی۔
وہ ایکدم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیسی کمچی قسط دو حصہ چہارم
صبح سب سے پہلے فاطمہ کی آنکھ کھلی تھی۔۔ ڈبل بیڈ پر چار لوگ سوئے تھے جس کروٹ جو سویا اسی کروٹ رات گزار دی اسکی بھی گردن اکڑ سی گئ تھی۔۔ انگڑائی لیتی اٹھ بیٹھی تو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔
سب سو رہی ہیں؟ میں ہی کیوں اٹھ بیٹھی۔۔
اسے شدید افسوس ہوا اپنی آنکھ کھلنے پر۔ جمائی لیتے ہویئے موبائل میں وقت دیکھا تو ڈیڑھ ہو رہا تھا۔۔
ہیں۔۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہ آیا۔۔ ۔واعظہ نے اٹھایا کیوں نہیں ہم تو لیٹ ہو گئے۔۔
وہ ہڑبڑا کر بستر سے اتری تو واعظہ سلیپنگ بیگ میں گھسی بے خبر سوتی فورا ہی نظر آگئ۔۔
اوہ۔۔ یہ ہی سوتی رہ گئ۔۔
اس نے سوچا کہ جھک کر اٹھائے اسے تبھی دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجی۔۔
زور دار آواز پر بس ابیہا ہی کسمسا کر کروٹ بدل گئ۔۔
فاطمہ فی الحال انہیں جگانے کا ارادہ ترک کرتی دروازے پر چلی آئی۔۔
حسب عادت سیدھا دروازہ کھول دیا بنا سیکوریٹی کیمرہ میں دیکھے۔۔ بڑا سا گلدستہ سامنے تھا
سر پرائز۔۔
بڑے پرجوش سے انداز میں مسکرا کر چلاتی وہ ایک حسین کوریائی دوشیزہ تھی۔۔ غیر متوقع شخصیت کو سامنےپا کر اسکے مسکراتے لب ایکدم بھنچ سے گئے۔۔
نائو دگونی؟؟۔ ( کون ہو تم) اس نے کافی درشت انداز میں پوچھا تھا۔۔
ہائے۔ فاطمہ کو سمجھ نہ آیا کیا کہہ رہی سو مسکرا کر انگریزی سلام کردیا۔۔
نائو دگونئ؟۔ وہ اس بار غصے سے چلا اٹھی۔۔
واٹ نائو دگونی؟آئی کانٹ انڈر اسٹینڈ ہنگل ؟
فاطمہ نے اسے بتانا چاہا مگر وہ ایکدم بپھر سی گئ
سیہونا۔۔ وہ اسے ایک طرف کرتی بڑے بھڑکے ہوئے انداز میں اندر داخل ہونے لگی۔۔
ایک منٹ ۔۔ فاطمہ نے بمشکل اسے پکڑ کر بریک لگائی۔۔
ہو آر یو؟۔۔ تم ایسے اندر نہیں آسکتی ہو
فاطمہ نے تحمل سے ہی پوچھا تھا۔۔
ہو آر یو ۔؟
جوبا وہ پورے حلق سے ہنگل میں چلائی۔۔
میرے بوائے فرینڈ کے فلیٹ میں کیا کر رہی ہو تم۔۔
انتہائی غصے سے اس نے فاطمہ کو دھکا دیا۔۔
کالم ڈائون ۔۔
فاطمہ نے آج سارا تحمل کا مظاہرہ کر دینا چاہا۔۔
اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بات کرنے پر آمادہ کر نے کو اسکے آگے آکر اسے مزید اندر گھسنے سے روکنا چاہا۔۔ وہ جھلا کر فاطمہ کو ہٹا تے اندر کی جانب بڑھی مگر فاطمہ کے آگے اسکی تگ و دو بیکار گئ۔۔
نائو دگونی ؟ سییونا ۔۔ کہاں ہو تم سامنے آئو۔۔
سیہونا۔۔ وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی فاطمہ کو دھکے دے کر اپنے سامنے سے ہٹانے کی کوشش کرتے جب ناکام ہوئی تو فاطمہ پر پل پڑی۔
تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے بوائے فرینڈ کے فلیٹ میں گھسنے کی۔۔
اس نے زور دار تھپڑ فاطمہ کے لگا دیا تھا۔۔
ہنگامے سے سب جاگ اٹھی تھیں۔۔
فاطمہ نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ لیئے۔۔ گو غصہ اتنا ہی آیا تھا کہ دل کیا رکھ کر ایک جوابا اسکے بھی گال پر جما دے مگر سختی سے دانت پیستے اسے روک کر تنبیہہ کی۔
شٹ اپ۔۔ بئ ہیو یور سیلف۔۔
اس نے کہہ کر جھٹکے سے اسکے ہاتھ چھوڑے وہ ایک لمحے تو فاطمہ کے زیر اثر آئی مگر پھر فورا اسی جنون میں اسکی جانب بڑھی۔۔نیند سے ہڑبڑا کر اٹھی ابیہا معاملہ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہی تھی اسے بپھری شیرنی کی طرح فاطمہ پر حملہ کرتے دیکھا تو فورا آگے بڑھ کر اسے روکنے لگی۔۔
ایک دو۔ خود کو چھڑاتے ہوئی میری جنونی ہوئی وی تھی۔۔
۔ الف چھلانگ لگا کر جائے وقعہ پہنچی عزہ عروج اور واعظہ بھی۔۔
ایک دو تین۔۔ لڑکیاں گنتے میری کا سر چکرا گیا۔۔ اسکے جنون کو یک لخت ہی بریک لگی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس ٹرمینل پر سیہون اپنی دوست کے ساتھ انہیں چھوڑنے آیا تھا۔۔ اس بار واعظہ نے انہیں ٹیکسی کرادی تھی ورنہ عروج پکا اسے کچا چبا جاتی۔۔
میری شرمندہ تو ہوئی تھی مگر انکے عبایا دیکھ کر اب حیران سی کھڑی تھی۔۔
معزرت تو کرو میری۔۔
سیہون درشت نظروں سے میری کو گھورا تو اس نے گڑ بڑا کر نظر ہٹائی۔۔ اور فاطمہ کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔۔
میں معزرت خواہ ہوں اپنے بوائے فرینڈ کے فلیٹ میں اچانک انجان لڑکی کو دیکھ کر میرے حواس گل ہو گئے تھے میں نے بہت برا رویہ اپنایا آپکے ساتھ
مجھے معاف کر دئیجئے۔۔
مخصوص کوریائی انداز میں اس نے جھک کر فاطمہ سے ہنگل میں معزرت کی تھی۔۔ اسکے بول چکنے کے بعد سیہون نے اسکی جانب سے ترجمہ کیا تھا۔۔
واعظہ نے فاطمہ کو آنکھ کے اشارے سے معزرت قبول کرلینے کو کہا۔۔ اسکا گال ابھی بھی سرخ سا ہو رہا تھا۔۔ آج پہلی بار ہی کسی کا لحاظ کر لیا تھا سزا بھی فوری ملی۔۔
ابیہا نے بھی ٹہوکا دیا تو اس نے گہری سانس بھر کر کہا۔۔اٹس اوکے۔۔
اسکے تاثرات تنے تنے ہی تھے۔۔۔
وہ یہ بہت جزباتی ہے دل کی بری نہیں بس کبھی کبھی بہت اوور ری اکٹ کر جاتی ہے مگر یقین کیجئیے یہ واقعی دل سے معزرت کر رہی ہے ۔۔ میں بھی بہت شرمندہ ہوں اور اسکی جانب سے میں بھی آپکو سوری کہتا ہوں۔۔
اس بار سیہون آگے بڑھ کر معزرت کر رہا تھا۔۔
اٹس اوکے۔۔
معزرت قبول کر لینے کے باوجود اسکا مزید ابھی کچھ بھی کہنے کا ارادہ نہیں تھا۔۔ ۔۔
اچھا سیہون پھر اگلے مہینے ملاقات ہوتی ہے۔۔
واعظہ نے کہا تو وہ سرجھکا کر پھر اس سے معزرت کرنے لگا۔۔
واظہ آئی ایم رئیلی ویری ویری سوری۔۔
بس بھی کرو سیہون۔۔ کافی ہو گیا ہے۔۔
واعظہ نے بھی انگریزی میں ہی اسے جواب دیا۔۔
فاطمہ سب سے پہلے بس میں سوار ہوئی تھی۔۔
گڈبائے عزہ بہن۔۔
اس نے عزہ کو علیحدہ سے خدا حافظ کہا تھا۔۔
گ ڈبائے۔ اس نے بھی جوابا اخلاق سے ہاتھ ہلا کر جواب دیا۔۔
اس بار ان سب کی نشستیں تھیں۔
ٹرپ کا خلاصہ ؟۔۔ نور نے مڑ کر واعظہ کو دیکھا۔۔
ہم نے گیونگ پوہے ساحل دیکھا۔۔
الف کی جانب سے جواب آیا تھا۔۔
فاطمہ نے گوری لڑکی کی ٹھکائی کی۔۔
عزہ فاطمہ کے ساتھ بیٹھی تھی اسی کی جانب اشارہ کرکے چہکی۔ فاطمہ نے برا سا منہ بنا کر کھڑکی کی طرف منہ کرلیا
مرچیلا سوپ پیا اور کچی مچھلی کھائئ۔۔
عروج کو اپنا دکھ تازہ ہوتا محسوس ہوا تھا
میں نے بڑے ہو کر پہلی بار گود میں بیٹھ کر سفر کیا گھس پھنس کر گاڑئ کا سفر کیا سلیپنگ بیگ پر سوئی اور تو اور کھو بھئ گئ۔۔ عزہ کے پاس کافی کچھ تھا بتانے کو۔۔ وہ انگلیوں پر گن رہی تھی
ایک تھانے کا سیر کرنے کی کثر رہ گئی تھی وہ بھی پوری ہوئی۔۔
ابییہا نے منہ بنا کر کہا۔۔
میں نے گھوم پھر کر ویڈیوز بنائی اتنی اعلی فوٹوگرافی کی ہے دیکھنا ۔۔
نور چہکی۔
ابھی ہم میوزیم اور وہ تاریخی عمارتوں والی جگہ تو جا نہ سکے۔۔ وہاں بھی جاتے تو اور مزا آتا۔۔
الف کو قلق ہوا۔۔ واعظہ کو اس سے بھی زیادہ۔۔۔
خود پر غصہ ہی آگیا۔۔
میری وجہ سے ۔۔ میں منحوس سو گئ۔۔ سو منحوس لوگ مرے ہونگے جو میں پیدا ہوئی ہوں انکی کمی پوری کرنے۔۔ ایسے تو نیند نہیں آرہی تھی سوگئی تو اتنے گھنٹے پڑی سوتی ہی رہ گئ۔۔ معزرت بہنوں۔۔
ابیہا اسکے جملے کے بیچ میں ہی اسے دو تین لگا چکی تھی۔۔ مگر اس نے اپنا جملہ پورا کر ہی دیا۔۔
بکواس بکواس بکواس کروا لو جتنی مرضئ۔۔
ابیہا نے زبانی بھی دھلائی مناسب سمجھی
اتنی بھی بڑی کوئی بات نہیں واعظہ اچھا ہوا سو گئیں تین دن بعد بھی نہ سوتیں تم؟۔
عروج نے بھی گھرکا
ارے یار پھر آجائیں گے۔۔
نور اور الف نے بھئ عروج کی تائید کی۔
اور پہلی بار فاطمہ کا مزاج بھی بگڑتا دیکھا ورنہ یہ تو ہر وقت ہنستی رہتیہے
نور کو آخری بات یاد آئی تو منہ نیچے کرکے دھیمی سی آواز میں بولی۔۔ یہ چاروں آگے پیچھے ہی بیٹھی تھیں عروج واعظہ کے بائیں جانب والی نشست پر اکیلی بیٹھی تھی۔۔ اسے رازداری پر اترتے دیکھ کر وہ بھی انکے قریب ہوئی۔۔
کیا ہوا؟۔ واعظہ نور کی جانب جھکی تو اس نے واعظہ سے پچھلی نشست پر بیٹھی فاطمہ کی جانب اشارہ کیا تھا یہ سب گھوم کر اسے دیکھنے لگیں۔۔
عزہ بیگ سے فاطمہ کی پسندیدہ چاکلیٹ نکال کر اسے دے رہی تھی اور پتہ ہے فاطمہ نے کیا کیا؟۔۔
اس نے نرمی سے منع کر دیا اور منہ پھیر کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیول سینٹرل اسپتال کے باہر ٹیکسی نے انہیں اتارا تھا۔۔ انکے ساتھ ایک ایمبولنس بھی سائرن بجاتی داخل ہوئی تھی۔۔
مستعد عملہ فوری بڑھا تھا ایمبولنس کی جانب دو ڈاکٹر بھی تیزی سے ایمبولنس کی جانب بڑھے تھے۔۔
شائد ایک سے زیادہ مریض تھے۔۔ واعظہ بلا ارادہ ہی رک کر دیکھنے لگی۔۔ شائد کوئی حادثہ ہوا تھا۔۔ اسکا اندازہ درست نکلا پہلا اسٹریچر آکسیجن لگی ہوئی کوئی دبلا سا جوان لڑکا مگر خونم خون اور دوسرا۔
ٹیکسی والے کو معاوضہ ادا کرکے عروج مڑی تو واعظہ کو تاسف سے ایمبولنس سے نکلتے مریضوں کو تکتا پایا۔۔ گہری سانس لیکر اسکے پاس آئی ہلکے سے ٹہوکا دے کر اسے متوجہ کیا۔۔
یہ روز کا معمول ہے۔۔ چلو اندر چلیں۔۔
عروج نے کہا تو وہ سر ہلا گئ۔
اللہ رحم کرے ان پر ۔۔ واعظہ کو بہت تاسف ہورہا تھا
صدق دل سے دونوں نے آمین کہا تھا۔
اسپتال روشنیوں میں جگمگاتا لگ ہی نہین رہا تھا رات کے ساڑھے گیارہ ہو رہے۔۔ اندرداخل ہوتے ہوئے واعظہ نے بڑی سنجیدگی سے عروج سے پوچھا۔۔
عروج اتنے بڑے اسپتال میں کام کرتی ہو؟۔۔
عروج اپنے دھیان میں تھی فورا سر ہلایا۔۔
کام تو کرتی ہو نا۔۔
واعظہ نے کہا تو اس نے تپ کر اسکے کندھے پر ایک۔لگائئ۔۔
نہیں میں کیوں کام۔کرنے لگی۔۔ میرے تو ابا کا اسپتال ہے۔۔
واعظہ کا کندھا ہل گیا تھا۔۔ ہنس بھی نہ سکی اسے چڑا کر کراہ کر رہ گئی۔۔
یہاں پروفائل بنوائو میں زرا اپنی اٹینڈنس لگا آئو۔
عروج اسے کائونٹر پر چھوڑتی خود گیلری میں سے کہیں نکل گئئ۔
آننیانگ ہاسے او۔۔
چندی آنکھوں والی مہربان سی شکل والی نرس نے خوشدلی سے اسے سلام کیا۔۔
آننیانگ۔۔ واعظہ نے بھی جوابا خوشدلی سے ہی جواب دیا۔۔
کیا نام ہے آپکا ۔ سخت کوریائی لہجہ تھا اسکا۔۔
دے؟۔ واعظہ کا انداز استعجابیہ دیکھ کر وہ مسکرا دی۔۔
آپکا نام؟۔۔ اس بار اس نے ٹھہر ٹھہر کر بولا تھا۔۔
واعظہ۔۔
ووا۔۔۔ وہ لکھتے لکھتے ٹھٹکی۔۔
دے؟۔ واعظہ۔۔ اس نے تائید چاہی تھئ۔۔
دے مائی نیم از واعظہ۔۔
واعظہ زہرا۔۔ اس نے اپنے نام پر زور دے کر کہا تو اس لڑکی کے چہرے پر مسکینی سی اتر آئی۔۔
ز۔۔
تبھی ایک خوش شکل سا کوریائی نوجوان کائونٹر پر آکھڑا ہوا۔۔
آننیانگ ۔۔ ڈاکٹر سے گی آئے ہیں آج؟ اس وقت کہاں ہونگے۔۔
شستہ ہنگل میں اس نے پوچھا تھا۔۔ واعظہ کائونٹر پر بازو ٹکا کر اسکے جانے کا انتظار کرنے لگی۔۔
دے۔۔ اس وقت شعبہ دل کے امراض میں ہیں۔۔
وہ شائد ڈاکٹر تھا ۔۔ نرس نے فورا مڑ کر لیپ ٹاپ میں ڈھونڈ کر بتایا تھا۔۔
ٹھیک ہے۔ شکریہ۔
وہ مسکرا کر پلٹنے کو تھا کہ کچھ یاد آیا۔۔ نرس اب مریضہ کی جانب متوجہ ہوگئ تھی۔۔
عمر۔۔ اسکا اگلا سوال
پینتالیس سال۔۔
واعظہ نے ہنگل میں کہا تھا۔۔
چھا شی بو۔۔
دے؟۔ نرس کی آنکھیں کھل گئ تھیں۔۔
اس ڈاکٹر نے بھی دل چسپی سے اس پینتالیس سالہ بڑھیا کو دیکھا۔۔ گوری سی عربی نقوش کی بمشکل بالشت بھر بالوں کی اونچئ سی پونی بنائے بلیو جینز اور آف وائیٹ ٹاپ میں کھڑی ببل چبا رہی تھی۔
چھا شی بو۔۔ واعظہ سمجھی کہ اسے سمجھ نہیں آیا سو دوبارہ دہرایا۔۔
آندے یہ نہیں ہو سکتا۔۔
نرس نے کہا تو واعظہ منہ بنا گئ۔۔
ایک تومیں اپنی عمر سے بڑی کیوں لگتی۔۔وہ بڑ بڑا گئ۔
دیکھیں میں دیکھنے میں تھوڑی بڑی لگ رہی ہونگی مگر اتنی ہوں نہیں۔۔
اس نے غلط فہمی دور کرنی چاہی۔۔ وہ مسکرا کر آگے بڑھا یقینا زبان کا فرق تھا جو ان دونوں کے درمیان غلط فہمی کا باعث بن رہا تھا۔۔
آندے۔۔ آپ جتنئ عمر بتا رہی ہیں اس سے کم ازکم بھی پندرہ بیس سال چھوٹی لگ رہی ہیں۔۔
اس نے محظوظ سے انداز میں انگریزی میں کہا۔۔
کائونٹر پر بازو ٹکائے واعظہ آواز پر چونک کر مڑی۔۔ آہستہ آہستہ نظر اوپر کو اٹھائی۔۔
سینہ۔۔ پھر سینہ پھر سر اٹھاتے اٹھاتے گردن اب جا کر چہرہ۔۔ اسکا سر پورا اٹھا گیا۔۔
کم از کم بھی وہ اس سے ایک فٹ اونچا تھا۔۔
غلافی آنکھوں ہر نازک سے فریم کا چشمہ لگائے کلین شیو تیکھے نقوش کا سیانگ رو مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔۔ اسے منہ کھولے اپنا جائزہ لیتے دیکھ کر اسکی مسکراہٹ اور گہری ہوگئ۔
آہم۔۔ وہ چونک کر سیدھی ہوئی۔۔
چھا شی بو ہی عمر ہے میری۔۔
اس نے یقین دلانا چاہا۔۔
آپکو پتہ ہے چھا شی بو کا مطلب ہوتا پینتالیس۔۔ آپ پینتالیس سال کی ہیں؟۔۔
سیونگ رو نے انگیریزی میں محظوظ انداز میں پوچھا۔۔
فورٹی فائیو۔۔ واعظہ کی آنکھیں پھیلیں۔۔
اتنی تو مجھے لگتا میری عمر جا بھی نہیں پائی گے۔۔
وہ دھیرے سے بڑ بڑائی۔۔
دے؟۔۔سیونگ رو اسکی زبان سے انجان چونکا۔۔
آندے۔۔ ( کچھ نہیں)۔۔ واعظہ اپنی ساری ہنگل دماغ میں جمع کر رہی تھی۔۔ ۔سیونگ رو نے اسکی الجھن سمجھ لی تھی۔۔
لائیں میں انکا پروفائل بنا دیتا ہوں۔۔ اس نے نرس سے فارم لے لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اسکے بازو پر لپٹا اسکارف اتروا کر اسکو کو ہلا جلا کر معائنہ کرنے کے بعد ایکسرے کروانے کی ہدایت کی تھی۔۔ سیونگ رو نے اسکی یہاں بھی مترجم کی زمہ داری بخوبی نبھائی تھی۔۔
ڈاکٹر کی تجویز کا پرچہ تھامے واعظہ کو اب مزید اسکی مدد لینا اچھا نہ لگا تھا۔۔سو ڈاکٹر کے کمرے سے نکلتے ہی جھک کر کوریائی انداز میں اسکا شکریہ ادا کرنے لگی۔۔
گھمسامنیدہ۔۔ اب میں آگے ایکسرے خود کروا لوں گی آپکی مدد کا بہت شکریہ۔
آپکو پتہ ہے ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کہاں ہے؟۔۔
وہ مسکرا کو پوچھ رہا تھا۔ جواب ظاہر ہے نفی میں تھا۔۔
مجھے شعبہ دل کے امراض میں کچھ کام ہے اسی طرف ہی ہے ریڈیالوجی کا شعبہ میرے ساتھ ہی آجائیے۔
اس نے خوش مزاجی سے کہا تھا۔۔ واعظہ نے ایک لمحے کو سوچا پھر سر ہلا دیا۔۔
آپکی ہنگل کافی اچھی ہے کتنا عرصہ ہو گیا ہے آپکو یہاں رہتے۔
اس نے ساتھ چلتے یونہی بات برائے بات ہنگل میں ہی پوچھا۔
ڈیڑھ سال ہو گیا ہے۔۔ مگر ابھی بھی شائد اتنی اچھی نہیں ہے کہ اپنی بات سمجھا سکوں۔۔
اس نے تھوڑا سا خفت زدہ سا ہو کر کہا۔۔
آپ بات سمجھا سکتی ہیں اگر آپکو سمجھ آجائے آپ ابھی لہجوں سے مانوس نہیں ہیں۔
اس نے تسلی دینے والے انداز میں کہا۔۔
ہاں کہہ سکتے۔۔
واعظہ نے گردن سہلائی
عربی ہیں آپ۔۔؟۔ وہ بات سے بات نکال رہا تھا۔۔
نہیں پاکستانی۔۔
واعظہ نے اس بار اسے دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی
۔۔دل میں سوچا
اس بے چارے کی بیوی کی تو گردن ہی تھک جایا کرے گی اس سے بات کرتے۔ خود اس نے تو بالکل فلیٹ چپل پہنی تھئ اور یہ ڈاکٹر۔
اس نے اسکے جوتے دیکھے۔۔ موٹے سول کے جوتے تھے مگر پھر بھی اندھیر ہی تھا۔۔ یا تو یہا ں کے لوگ پانچ فٹ کے ہونگے یا چھے فٹ سے بھی زیادہ کے درمیان کا رستہ کی نہیں ہے۔
وہ اپنی دھن میں دماغ چلا رہی تھی۔۔ کہ موٹے سول والے جوتے چلتے چلتے رک گئے۔
اس نے سر اٹھایا تو سیونگ رو اسکے متوجہ ہونے کا ہی انتظار کر رہا تھا۔ انگوٹھے کے اشارے سے ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی تختی کی جانب اشارہ کیا۔۔ ۔
گھمسامنیدہ۔۔
وہ کھسیا کر اسکا شکریہ ادا کرنے لگی۔۔
وہ بھی ہلکے سے مسکرا کر آننیاگ کہتا آگے بڑھ گیا۔۔
وہ بھی سر جھٹک کر دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔۔ سامنے ہی عروج ڈاکٹر سے کھڑی بات کر رہی تھئ۔۔
کہاں رہ گئ تھیں؟۔ اتنئ دیر تو نہیں لگتی پرچی بنوانے میں۔۔ دکھائو ۔۔وہ سیدھا اسکے پاس آئی تھئ۔۔
خود ہی سوال خود ہی جواب اس نے خاموشی سے پرچی بڑھا دی۔۔
ایکسرے کرواتے ہوئے بھی عروج اسکے ساتھ ساتھ ہی رہی۔۔ ایکسرے کا نتیجہ آنے میں وقت لگنا تھا سو وہ دونوں باتیں کرتی عروج کے شعبے میں چلی آئیں۔۔
تمہیں ڈانٹ تو نہیں پڑ جائے گی غیر متعلقہ افراد کو یہاں لانے پر؟۔ واعظہ کو فکر ہوئی۔۔
دو بجے تک آئے گا کوئی رائونڈ پر ابھی موج کرو۔۔
وہ لاپروا تھئ۔۔
ایک وارڈ ہے بس میرے زمے اور شکر ہے کوئی بھی تشویش ناک حالت میں نہیں ہے ایک چکر لگا لیا ہے میں نے سب اب سونے کی ہی کریں گے۔
وہ اسے کونے پر بنے اپنے کائونٹر پر لے آئی تھی۔۔
کافی پیو گئ؟۔ اس نے پوچھا تو واعظہ نے بھی تکلف نہیں کیا۔۔ عروج سر ہلاتی کافی لینے چلی گئ۔۔
واعظہ کو اسکے کائونٹر پر لیپ ٹاپ نظر آیا تو اٹھ کر اسکی نشست پر آ بیٹھی۔۔
چونکہ وہ واعظہ کے ساتھ ہی بیٹھی تھئ سو وہ لاک کیئے بنا اٹھا گئ تھی۔۔ اس نے بھی مزے سے اسکی کھولی ونڈو مینی مائز کرکے فیس بک کھول لی تھی۔۔
آپ پیشنٹ کا فیس بک پروفائل دیکھ کر علاج کرتی ہیں۔۔ ؟۔۔کسی نے بڑی سنجیدگی سے اس سے پوچھا تھا
آندے وے؟۔ ( نہیں تو کیوں)۔۔ اس نےاپنی رو میں جواب دیتے سر اٹھایا تو رنگ فق ہو گیا۔۔
وہ کوئی چالیس کے پیٹھے میں سفید کھچڑی بالوں والے یقینا کوئی سینیئر ڈاکٹر تھے۔۔
دونوں ہاتھ سینے ہر لپیٹے یقینا اسکی شامت بلانے کے موڈ میں تھے۔
ڈیوٹئ آورز میں ایس این ایس استمعال کرنا منع ہے آپ اس اصول کو بھول گئیں؟۔
آندے۔۔ ( نہیں ) میں وہ مریضوں کا احوال دیکھ رہی تھی۔ وہ صاف مکر گئ
کافی کے مگ لیکر وارڈ میں داخل ہوتی عروج ٹھٹک کر رکی ۔۔ دور کھڑے سر کم کوانگ بودے کو اس نے پشت سے ہی انکے چوڑے کندھوں سے پہچان لیا تھا۔۔کیا کروں ۔۔۔ اسکے ہاتھوں سے طوطے اڑے تھے۔۔ اسکے پیچھے پیچھے داخل ہوتا سیونگ رو نے ایک نظر اسے پھردوسری نظر اسکی جہاں نظریں تھیں وہاں ڈالی۔۔ وہی کائونٹر والی عربی لڑکی
کھڑی یقینا سر سے ڈانٹ کھا رہی تھی۔۔
اس نے فورا منی مائز کی گئ سب ونڈو کھول کر لیپ ٹاپ انکی جانب گھمایا۔ انکو اور غصہ آگیا۔۔
اپنے پیچھے مڑ کر دیکھیں گلاس ڈور ہے آپکے لیپ ٹاپ کی اسکرین اس پر صاف دکھائی دے رہی تھی ۔۔
انہوں نے کرخت انداز میں کہا تو وہ بے ساختہ گھوم گئ پھر اپنا سر ہی پیٹ لیا۔
میں بہت معزرت خواہ ہوں۔۔
اب سوائے ڈانٹ کھا لینے کے کوئی چارہ نہ تھا۔۔
یہ پہلی بار ہے ڈاکٹر عروج۔۔ ۔۔ انہوں نے اس بار کافی بلند آواز میں کہا تھا۔۔۔
واعظہ نے چونک کر انہیں دیکھا۔۔
جی۔ اسکی ہنگل بھک سے اڑی۔۔ تو وہ اسے ڈاکٹر ہی سمجھ رہے تھے۔۔ بچت ہوگئ۔۔
اسلیئے جانے دیتا ہوں۔۔ لیکن میک شیور کہ آخری بار یہ لاپرواہی کا مظاہرہ آپکی جانب سے کیا گیا ہے۔۔ سمجھیں آپ۔۔ڈپٹ کر مڑنے لگے تھے کہ خیال آیا۔۔ سیونگ رو بھی چونک کر عروج کی طرف مڑا
اور آپکا اوور آل کوٹ کدھر ہے؟ انہوں نے دوسری غلطی پکڑ لی۔۔
اتنا غیر سنجیدہ انداز اپستال میں۔؟ آپکو کیا لگا تھا آج آپ اوور آل۔کوٹ نہیں پہنیں گی اور ماسک نہیں لگائیں گی تو یہاں کوئی آپکو پہچان نہیں پائے گا؟۔ آپ آرام سے سوشل میڈیا استعمال کر لیں گی؟۔۔ شائد آپ بھول رہی ہیں آپ کوریا میں ہیں اور آپکے سوا باقی اسٹاف میمبرز غلافی آنکھوں کے مالک ہیں اور کسی کے آپ جیسے نقوش نہیں۔۔
میرے خدا۔۔
واعظہ دل ہی دل میں سر پیٹ کر رہ گئ۔
اور آپکو شائد یہ نہیں پتہ کہ آپ سب کی شکلیں ملتی جلتی سہی مگر ہمارے یہاں سب کے نقوش الگ ہوتے اور میرے اور عروج کا قد چلو پھر ایک جتنا سہی مگر شکل بالکل نہیں ملتی ہماری۔۔ نقاب بھی کر لوں میں تو بھئ کوئی عقل کا اندھا ہی بس ہم میں فرق نہ کر پائے
وہ یہ سب دانت پیس کر انہیں کہہ رہی تھی۔۔ مگر دل میں۔۔
اس نے ایک دو بار مزید جھک جھک کر معزرت کی تو وہ ہنکارہ بھرتے پلٹنے لگے۔
عروج نکلو یہاں سے۔۔
سیونگ رو نے انہیں پلٹتے دیکھا تو جھٹ عروج کے اور ڈاکٹر کے بیچ آگیا۔ اسکے لمبے سے وجود کی آڑمیں عروج دور سے کھڑی نظر بھی نہ آرہی تھئ
دے۔۔
اسکو پہلے تو سمجھ نہ آیا مگر اس نے آنکھوں کے اشارے سے اور بے آواز لبوں کی جنبش سے کھا کھا( جائو ) کہا تو جلدی سے باہر کو بھاگی۔۔
آننیانگ ڈاکٹر سیونگ رو۔۔
ڈاکٹر کم نے یکسر بدلے ہوئے لہجے میں مسکرا کر پیچھے سے آکر سیونگ رو کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔
آننیاگ۔۔
وہ گڑبڑا کر سیدھا ہوا اور جھک کر سلام کرنے لگا۔۔
کیسے ہو آج پھر نائیٹ ہے؟
وہ شفقت سے کندھا تھپتھپاتے پوچھ رہے تھے۔۔
دے ۔ وہ مسکرا کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرتھوپیڈک ڈیپارٹمنٹ میں اسکا مکمل معائنہ ہوا تھا۔۔
ڈاکٹر عروج کی دوست ہونے کے ناطے بڑا خاص رویہ تھا ڈاکٹرز کا۔۔
پریشانی کی بات نہیں النا میں معمولی سا اسپلٹ ہے کاسٹ استعمال کرنے سے چار پانچ ہفتوں میں ٹھیک ہو جائے گا۔۔ ڈاکٹر نے تسلی بھرے انداز میں بتایا تھا واعظہ کو دھچکا لگا۔۔
النا بھئ ہے میرے بازو میں ؟۔
میرے بھی بازو میں ہے ۔۔ سب کے ہوتا؟۔
عروج نے لاپروائی سے کہا۔۔ ڈاکٹر اب دوائیں لکھ رہا تھا سو یہ دونوں آپس میں لگ گئیں۔
ہیں اسکا کوئی علاج نہیں؟۔ وہ پریشان ہوگئ تھی۔۔
کس کا علاج۔۔ عروج الجھن سے دیکھنے لگی
النا کا اور کس کا۔۔
واعظہ بگڑئ۔۔
پاگل ۔۔۔۔النا ہڈی کا نام ہے۔۔ عروج نے سر پیٹ لیا۔۔
کبھی بائیو پڑھی ہوتی تو پتہ ہوتا۔۔
واعظہ تپ کر جواب دینے ہی لگی تھئ کہ ڈاکٹر نے مداخلت کر دی۔۔
دے پاگل۔ گیٹ ویل سون۔۔
ڈاکٹر نے کہتے ہوئے واعظہ کی۔جانب پرچی بڑھائی واعظہ اور عروج دونوں ہی منہ کھول کر اسے دیکھنے لگیں۔۔
یہ نام نہیں آپکا۔۔ ؟ وہ بھی گڑ بڑا گیا۔۔
واعظہ کھا جانے والی نظروں سےعروج کو گھورا جو ماسک کے پیچھے یقینا ہنس رہی تھی۔۔
شکریہ۔۔ وہ دانت پیستی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
کاسٹ اسے لگ چکا تھا اب رخصت ہی ہونا تھا یہاں سے۔۔
بنا عروج کو دیکھے پیر پٹختی باہر نکل گئ۔۔
عروج الوداعی کلمات ادا کرتی اسکے پیچھے بھاگی
ارے سنو کہاں بھاگی جا رہی ہو دوا ئیں تو لے لو۔۔
وہ کاریڈور کے سرے تک پہنچی ہوئی تھی بھاگ کر اسکو پکڑا تھا عروج نے۔۔
یار ایک بات بتائو میری شکل پر لکھا آئو میری بستی کرو۔۔ اور چلو اس ڈاکٹر نے تو تمہاری بستی کی تھی مجھے تم سمجھ کر اسکو میں نے کیا کہا تھا جو مجھے پاگل کہہ رہا ۔۔ خود پاگل ہوگا بندر بٹن جیسی آنکھوں والا۔۔
واعظہ بپھر گئ تھئ۔۔ بھنا کر بولی پھر پلٹ کر اسکے دفتر کو دیکھ کر چلائی۔۔
ہا ہا ہا ۔۔ عروج سے ہنسی ہی ضبط نہیں ہو رہی تھی اسے خاک ٹھنڈا کرتئ۔۔
اسکا قصور نہیں ہم بولتے ہی اتنا ٹھہر ٹھہر کر ہیں کہ ہماری بات کا مطلب سمجھ آئے نہ آئے لفظ آجاتا اب میں نے تمہیں پاگل کہا تو اسے یہی لگا کہ یہ تمہارا نام ہے۔۔
یہ عروج کی مخلصانہ کوشش تھی اسکا غصہ کم کرنے کی۔۔
واعظہ گھور کر رہ گئ۔
چلو۔۔ عروج نے اسکے سالم والے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلنا شروع کیا۔۔ وہ بھی منہ بنا کر گھسٹنے لگی۔۔
یار سچی میری کولیگز کو اردو کے سارے برے الفاظ یاد ہو چکے۔۔ گالیاں تو میں نہیں دیتی مگر
کبھی اڑیل مریض کو گدھا احمق وغیرہ کہہ دیتی تھی۔۔ اس دن ایک نرس کے ساتھ کھڑی ہوئی تھی مریض کی حالت خراب اسٹروک پڑ رہے۔ بڑئ دلگیری سے بولی۔۔
ڈاکٹر صاحبہ یہ مریض بالکل احمق لگ رہا ہے نا گدھا پن دکھا رہا ہے ایکدم۔۔
لعنت ہو اس پر۔۔
کیا؟۔ واعظہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔۔
ہاہاہا ہاں تو اور کیا۔۔ پورا جملہ سیکھ لیا تھا اس نے جانے میں نے کب کسے کہا تھا اب سوچو مریض کی حالت خراب ہوئی پڑی اور اسے یہ کہہ رہی۔۔
میری روکتے روکتے بھی ہنسی چھوٹ گئ تھی۔۔ مت پوچھو کتنئ بستی محسوس کی میں نے اس دن۔۔
عروج بھی وہ دن یاد کر کے ہنس رہی تھی
پھر بھی یار پورا جملہ کیسے سیکھ لیا اس نے۔۔
واعظہ کو حیرانگی ہو رہی تھی۔۔
میں نے پوچھا اس سے کہتی ہے آپ بولتی ہی اتنا رواں ہیں اور آپکا لہجہ اتنا صاف کہ جملہ سمجھ آئے نہ آئے لفظ پورا سمجھ آتا کیا کہا ۔۔
عروج کا انداز متاثر ہوجانے والا تھا۔
واقعی یہ بات تو ہے اردو میں ہر قسم کی آواز موجود ہے جبھئ ہمارے لہجے اتنے رواں ہوتے ہیں کہ ہم دنیا کی ہر زبان کا ہر لفظ بول سکتے ہیں۔۔ اب جو میں یو ٹیوب پر دنیا کی مختلف زبانوں کے گانے گا کر اپلوڈ کرتی ںیٹو اسپیکر بھی تعریف کرتے کہ بہت قریب قریب تلفظ بولا ہے آپ نے۔۔
واعظہ متفق تھی اس بات سے۔۔
آپکی تو کیا بات ہے جناب۔۔ عروج کو شک نہیں تھا۔۔
وہ چلتے چلتے فارمیسی پر پہنچ گئ تھیں۔۔
عروج نے اسکی دوائوں کا پرچہ فارمیسی والے کو تھمایا۔۔
ویسے ڈاکٹر روج۔۔
اس نے بالکل سیونگ رو کے انداز میں کہا تھا۔۔ عروج چونک کر اسے دیکھنے لگی اس نے بھی ٹھہر کر بڑے انداز سے جملہ مکمل کیا۔۔
کی آنکھیں کافی دلکش ہیں۔۔
جاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیسی کمچی قسط دو حصہ پنجم
سو زلیل و خوار لوگ مرے ہونگے جو میں پیدا ہوئئ۔۔
ڈاکٹر کی پشت کو گھورتے اسکا بس نہیں تھا سوراخ ہی کردے۔۔ نظروں سے۔۔
کائونٹر پر کھڑی مسلسل بڑ بڑ کر رہی تھی۔۔
منہ پر لکھا کیا میرے آئو میری بستی کرو۔۔ اور چلو میری تو کرو ہی کسی اور کی بستی کرنی ہو تو بھی میری ہی کرو ۔ وہ حقیقتا مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔۔
فالتو کا سمجھ رکھا مجھے۔۔
اپنی لاڈلی ہوں میں سمجھے۔۔
اسکا بس نہ چلا تو میز سے کوئی ہلکی پھلکی چیز اٹھا کر مارنے کو ڈھونڈنے لگی۔۔ پیپر ویٹ اٹھا لیا پھر کچھ سوچ کر رکھ دیا پین ا چھالا۔۔
ڈاکٹر ویسے ہی اسکے نشانے کے حصار سے دور جا چکا تھا۔۔ بھنا کر
سٹکی نوٹس اٹھا کر اچھال دئیے۔۔
فضا میں ننھے کاغذ اڑے تھے اور انکے بیچ سے نمودار ہوتا مسکراتا ہوا سیونگ رونگ۔۔
تو آپ ڈاکٹر عروج کی سہیلی ہیں۔۔
اس نے انگریزی میں ہی قریب آکر پوچھا ۔۔ واعظہ نے جواب دینے کو ابھئ منہ ہی کھولا
بد قسمتی سے۔۔
عروج نے قریب آکر ٹکڑا جوڑا۔۔ اور گھور کر واعظہ کو دیکھا۔۔ سیونگ رونگ بے ساختہ ہنسا تو واعظہ کے تن بدن میں آگ لگ گئ۔۔
بدقسمتی سے ؟ ۔۔ اس نے سالم ہاتھ کمر پر رکھ کر طبل جنگ بجایا
تو اور کیا ۔۔ عروج بھنائی۔۔
اتنا گند مچا دیا اب یہ کون صاف کرے گا۔۔
اس نے اسکا کافی کا مگ اسکے سامنے حقیقتا پٹخا تھا۔۔
اتنا سب سن کر ٹوٹے بازو کے ساتھ کم از کم میں تو نہیں۔۔
وہ بھی جوابا پیرپٹخ کر ضدی انداز میں بولی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے کراہتے ہوئے دو پرچیاں اٹھا کر شاکی نظروں سے عروج کو گھورا جو بالکل بھی اسے رعائیت دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔
اسٹکی نوٹ تو نام کے تھے زرا سا اچھالنے پر کیسا بکھرے ہیں یہ منحوس۔۔
اس نے تپ کر دور دور تک پھیلی ان کاغذ کی پرچیوں کو گھورا۔۔ اسے بڑ بڑاتے دیکھ کر سمجھ تو نہ آئی کیا کہہ رہی مگر ترس کھا کر
سیونگ رونگ بھی اسکے ساتھ چننے بیٹھ گیا۔۔
دونوں نے ایک ایک پرچی چنی اور سمیٹ کر عروج کی میز پر رکھی۔۔ عروج نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ہنسی ہی آگئ۔۔
دونوں کچی کے معصوم بچوں کی طرح پھولی سانسوں کو بحال کرتے جیسے اس سے کارکردگی پر شاباشی لینے کھڑے ہو گئے تھے۔۔
نقاب کے پیچھے پوری بتیسی باہر تھی اسکی ہلکی سی بند ہوتی ضرورت سے زیادہ چمکتی آنکھوں اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔۔ واعظہ اسے گھورتی ہوئی کرسی گھسیٹ کر بیٹھئ اپنی کافی کا کپ اٹھا لیا۔۔ ڈاکٹر سیونگ رو کا شکریہ ادا کرنے کو انکی جانب مڑی تو پتہ چلا وہ کہیں اور متوجہ ہیں۔۔
بیٹھو واعظہ۔۔ سیونگ رو۔۔کافی ٹھنڈی ہو رہی ہے تمہاری۔۔ عروج نے کہا تو ۔۔ڈاکٹر سیونگ رو بھی چونک کر بیٹھ گئے تھے۔
ڈاکٹر سیونگ رو یہ آپ لے لیں۔۔
اس نے اپنے لیئے لائی کافی سیونگ رو کے آگے رکھ دی۔ اسکی موجودگی میں نقاب اتار کر کافی پینا وہسے بھی ممکن نہ تھا۔
اور آپ۔۔ وہ کپ کی طرف ہاتھ بڑھاتے بڑھاتے رک گیا۔۔
میرا دل نہیں کر رہا۔۔ اس نے بہانہ بنایا۔۔
بال بال بچی ہوں میں ابھی۔۔
عروج نے واعظہ سے اردو میں کہا تھا۔۔ دل ابھی بھی اسکا دھڑ دھڑ کر رہا تھا۔۔
تم جانتی ہو اسے۔ واعظہ نےاپنی دلچسپی کی بات کی۔۔
ہاں میرا کلاس فیلو تھا اب ہم یہاں بھی اکٹھے ہی جاب کر رہے ہیں۔۔
عروج نے اسکی جانب دیکھنے سے احتراظ ہی کیا تھا۔۔
کبھی بتایا نہیں اتنا وجیہہ انسان تمہارے ساتھ کام کرتا ۔۔
واعظہ نے رشک سے اسے دیکھا جو میز سے پیشنٹس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ رہا تھا۔۔
اس شکل کے کم از اکم پچیس تیس لوگ کام کر رہے ہوتے یہاں۔ عروج نے کان پر سے مکھی اڑائی۔۔
پھر بھی کتنا لمبا ہے ہاتھ بڑھا کر ہی پنکھا صاف کر لیتا ہوگا۔۔
واعظہ نے اسے نظروں میں رکھ کر کافی کا بڑا سا گھونٹ لے لیا۔۔ عروج بے ساختہ ہنس پڑی۔۔
حد ہے واعظہ۔۔
ڈاکٹر سیونگ رو کو جیسے اسکی نظروں کا احساس ہو گیا تھا۔۔ باقاعدہ مڑ کے اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔ وہ بھی جوابا مسکرا۔دی۔۔ اب اردو میں اور بس آپس میں بات کرنا بد اخلاقی تھی۔۔ عروج واپس اپنی جگہ آبیٹھی۔۔
ویسے ڈاکٹر کم عموما بہت تحمل مزاج کے ہیں مگر اصولوں کے سخت انکی حلیم الطبعی مشہور ہے مجھے افسوس ہے آپ پر انکا پہلا ہی تعارف بالکل اچھا نہیں پڑا۔۔
سیونگ رو نے اسے کہا تو وہ لاپروائی سے کندھے اچکا کر بولی
میری قسمت میں بستی لکھی متحمل سے متحمل مزاج انسان کو مجھے صرف دیکھ کر غصہ آجاتا ہے کوئی بات نہیں۔۔
اس بات سے عروج سو فیصد متفق تھی لیپ ٹاپ میں مگن تھئ مگر سر ہلا رہی تھی
میرا نہیں خیال کہ ایسا ہے مجھے آپکو دیکھ کر بالکل غصہ نہیں آیا۔۔ اور ڈاکٹر عروج کی دوست ہیں آپ یہ جان کر الٹا خوشی ہی ہوئی۔۔
وہ اپنے مخصوص دھیمے سے انداز میں بولا۔۔
اسکی بات پر واعظہ اور عروج دونوں چونکی تھیں
کیوں؟ خوشی تو آج تک عروج کو بھی نہیں ہوئی کہ میری جیسی دوست ہے اسکی۔۔
واعظہ اسکو نظر انداز کرنے والی نہ تھی کپ رکھ کر دوبدو ہوئی۔۔
سیونگ رو نے کافی کا گھونٹ لیکر کپ سامنے رکھا پھر عروج کو دیکھتے ہوئے بولا۔
ڈاکٹر عروج کو پچھلے چار سال سے دیکھ رہا ہوں انکا یہاں کوئی دوست نہیں یہ بناتی بھی نہیں ہیں ۔۔ حالانکہ یہ بہت محنتی ہیں خوش اخلاق بھی مگر لوگ شائد انکے ماسک کو دیکھتے بس ۔
ایسی بات نہیں میری اچھی ہیلو ہائے ہے اپنے کولیگز سے ہاں بس میں انکے ساتھ پارٹی وغیرہ نہیں جاتی اسلیئے شائد آپکو ایسا لگا۔۔
عروج کو برا ہی لگ گیا۔۔
آپکے مزہب میں پارٹی وغیرہ حرام ہے نا۔۔
سیونگ رو نے تائد چاہی۔۔
دونوں کو سمجھ نہ آیا کیا جواب دیں پارٹی کا تصور شائد مختلف ہو باقی دنیا سے مگر ۔
اسلام میں کچھ حدود و قیود رکھ دی گئ ہیں ان پر عمل کرکے آپ زندگی کا لطف اٹھا سکتے ہیں بے مقصد اچھل کود اور پی کر بہکنے کا نام اگر پارٹی ہے تو وہ حرام ہے اور اسکو کرنے کا مجھے کوئی شوق بھی نہیں ہے جبھئ۔۔۔۔
عروج ایک دم سنجیدہ ہوئی تھی۔۔ دوٹوک انداز میں بولی تھی سیونگ رو بہت غور سے اسکی بات سن رہا تھا۔۔ واعظہ نے موضوع بدل دینا چاہا۔۔
آپکی انگلش بہت اچھی ہے اور لہجہ بھی بہت رواں ہے حالانکہ کورینز کا لہجہ انوکھا سا ہوتا ہے۔
میں کینڈا میں پیدا ہوا تھا میری اسکولنگ بھی وہیں کی ہے۔۔ سیونگ رو کی پیشانی پر بل تک نہ آیاتھا۔۔
ازلی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا۔۔
ہمم ۔۔۔ واعظہ نے جان کر متاثر ہونے والا انداز اپنایا
اور کامیاب بھی رہی سیونگ رو کی توجہ بھٹک گئ تھی۔۔
تھیبا۔۔
آپ سب پاکستانیوں کی انگریزی بہت اچھی ہوتی ہے
اس نے بھئ جوابا تعریف کی۔۔
خیر۔۔وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
کافی کیلیئے شکریہ ۔۔ میں اب چلتا ہوں ۔۔ آپ سے مل کر خوشی ہوئی واسیہ۔۔
واعظہ بھی اخلاقا اٹھ کھڑی ہوئی تھی یہی جملہ وہ بھی بولنے والی تھی مگر اسکے جملے کے اختتام پر ارادہ بدل دیا۔۔
واعظہ۔۔
اس نے زور دے کر بتایا۔۔
معزرت آپکی رپورٹ پر واسیہ لکھا تھا تو مجھے غلط فہمی ہوئی۔
ا س نے فورا معزرت خواہانہ انداز میں جھک کر کہا۔۔
تین بار بتایا تھا نرس کو پھر بھی غلط لکھ دیا۔۔
اسے تعجب ہوا۔۔
واا اے زاا۔
صحیح۔۔ اس نے اٹک کر سہی مگر صحیح تلفظ سے بولنے کی کوشش کی۔۔
دے۔۔ واعظہ نے سر ہلایا
اسکی غلطی نہیں ہے ہنگل میں زی کی آواز نہیں ہوتی آپکا نام لکھتے اسے مشکل ہوئی ہوگی۔۔
اس نے بتایا تو عروج اور واعظہ دونوں ہی حیران ہوئیں۔۔
واقعی۔۔
چلو ایک نئی بات پتہ چلی۔۔
عروج ہنسی۔۔ دونوں کا دھیان سیونگ رو سے ہٹ گیا تھا۔۔ وہ جاتے جاتے پلٹ آیا۔۔
چلو آگئی ہوگی ایکسرے رپورٹ ہم بھی لینے چلیں۔۔
عروج کو یاد آیا تو دونوں اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔
ایکدم سے اٹھنے میں اسکا موبائل بھد سے گر کر میز کے نیچے چلا گیا۔۔
کیا مصیبت ہے وہ منہ بناتی میز کے نیچے اکڑوں بیٹھ کر گھسی۔۔
ویسے عروج اگر کبھی تمہارا آوارہ گردی کا موڈ ہو تو میں مدد کر سکتی تمہاری۔۔ اسکارف پہن کر نقاب کر کے یہا ں بیٹھ جائوں تو کوئی پہچانے گا ہی نہیں کہ تم نہیں کوئی اور ہو۔۔ تم آرام سے بنک کرکے اسپتال کہیں بھی چلی جائو۔
واعظہ نے میز پر سے اضافی ماسک اٹھا کر منہ پر پہن لیا۔ اسے روانی میں احساس بھی نہ ہوا کہ اردو کی بجائے انگریزی بول گئ ہے۔۔
سیونگ رو نے میز پر سے اپنی کار کی رنگ اٹھائی جو وہ جلدی میں بھول گیا تھا۔۔ واعظہ اپنی رو میں اسے اچانک پاس کھڑا دیکھ کر چونکی تو منہ پر نقاب ہونے کے باوجود اسکی حیرت سے پھیلی آنکھیں غماز تھیں کہ اسکی آمد قطعی غیر متوقع تھی اسکیلیئے۔۔
ہاں اور جو غلط دوائیاں دے کر مریضوں کا حال خراب کروگی اسکا کیا۔
عروج میز سے نکل کر کرسی کا سہارا لیکر اٹھتے ہوئے بولی۔۔
سیونگ رو دھیمے سے مسکرا کر اسکی آنکھوں میں جھانک کر بولا
ایسا ممکن نہیں آپ میں اور ڈاکٹر عروج میں بہت فرق ہے خاص طور سے آنکھوں کا۔۔
وہ ٹھہرا۔۔
ڈاکٹر عروج کی آنکھیں بہت دلکش ہیں۔۔
اس نے ایک نظر عروج کو دیکھا پھر مسکرا کر دھیرے سے کہہ کر رکا نہیں۔۔
واعظہ اور عروج دونوں نے پورا منہ کھولا تھا۔۔ دونوں کے ہی منہ پر نقاب تھا سو مکھی نہ گھس سکی۔۔
واعظہ نے بھاڑ سا منہ کھولے کھولے ماسک نیچے کیا۔۔ اونچا لمبا سیونگ رو بڑے بڑے ڈگ بھرتا وارڈ کے دروازے سے پار ہوا تو منہ بند کیا مگر بس لمحہ بھر کو۔۔جھٹ عروج کی طرف مڑی
یہ کیا کہہ گیا؟۔ واعظہ نے کہا تو عروج قصدا لاپروائی سے ٹال گئ۔۔
ایسے ہی بولتا رہتا چلو ہم رپورٹ لینے چلیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح بارہ بجے کے قریب اسکی آنکھ کھلی تھی کسمسا کر احتیاط سے اٹھتے ہوئے اس نے کمرے پر نظر دوڑائی کمرہ خالی تھا یقینا ابیہا یونیورسٹی اور فاطمہ جاب پر گئ ہوگئ۔۔ آرام سے منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلی تو خلاف توقع فاطمہ کچن میں مصروف تھی۔۔
تم دفتر نہیں گئیں؟۔۔ اس نے باورچی خانے کے پاس آکر پوچھا۔۔
وہ آج۔۔ فاطمہ چائے میں پتی ڈال کر مڑی تو دل اچھل کر حلق میں آگیا۔۔
واعظہ کے سارے بال بکھرے ہوئے تھے۔
کنگھی کرتا ہے بندا صبح اٹھ کر۔۔
فاطمہ نے منہ بنایا۔۔
اس نے اپنا ایک ہاتھ ہلا کر بے چارہ سا منہ بنایا۔۔
چائے بنا دی ہے تمہاری بھی دیکھو ابل نہ جائے ۔۔
فاطمہ اسے کہتی خود کمرے میں چلی گئ۔ واعظہ چولہے کے پاس آکر دیکھنے لگی اپنی رو میں چولہا بند کر کے اس نے دوسرے ہاتھ سے کپ اٹھانا چاہا درد کی لہر پورے بازو میں دوڑ گئ۔۔
نکالنے کو نہیں کہا تھا ہٹو میں نکال دیتی ہوں۔۔
فاطمہ کنگھا اور پونی لیکر واپس آئی تھی۔۔ اسے ہٹا کر خود چائے نکالنے لگی۔۔ واعظہ فریج سے مارجرین نکال کر سلائس پر لگانے لگی۔۔
چائے کا کپ بنا کر اسکے سامنے رکھا اور خود اسکے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔۔
اف آرام سے۔۔
اسکے بال نچے تو سلائیس دانتوں میں دبائے ہی چیخی۔۔ اس نے جوابا اسکے سارے بال پونی کے انداز میں مٹھی میں بھر لیئے۔۔
اف فاطمہ کی بچی۔۔ جوابا وہ زور سے چیخی فاطمہ کھلکھلائے گئ۔
واعظہ ایک بات بتائوں غصہ تو نہیں کروگی۔۔
وہ ایکدم سنجیدہ ہوئی۔۔
بولو۔۔ واعظہ کا دھیان پورا ناشتے پر تھا۔ کپ اٹھا کر منہ کولگایا۔۔فاطمہ نے اسکے مٹھی میں لیئے بالوں پر کنگھا پھیرا
یار وہ میں نے یہ جاب بھی چھوڑ دی۔۔
اس نے ایک پل کو سوچا پھر جھٹ کہہ ڈالا۔۔
واعظہ کو اچھو ہوا تھا گرم گرم چائے ہونٹ جلاگئ۔۔
کیا۔۔ وہ استعجابیہ چیخی اور سر آگے کیا تو وہی چیخ کراہ میں بدل گئ۔۔۔ آاا۔۔ بال تو چھوڑو
یار وہ باس بہت ڈانٹتا تھا میں کیا کرتئ زرا سا فیس بک کیا استعمال کرلی اتنا لیکچر دے ڈالا میں کام تو پورا کرکے بیٹھی تھی نا۔۔ کیا تکلیف تھی پھر اسے۔۔
فاطمہ بسوری ۔۔ دو بل ڈال کر پونی بنا کر اسکا سر چھوڑا۔۔
کوئی ردعمل نہیں۔۔ وہ حیران سی ہو کر گھوم کر واعظہ کے سامنے آئی ۔۔
وہ پورے دھیان سے سلائس ٹونگ رہی تھی۔۔
کیا کروں ؟ چھوڑ تو چکی ہو تم جاب ۔۔
واعظہ اسکی سوالیہ نظریں محسوس کر کے بولی۔۔ اسکی نظریں بھی اپنی چائے پر تھیں۔
باقی جانے ان کورینز نے سوشل میڈیا کو اتنا ہوا کیوں بنایا ہوا ہے۔۔ کسی کو استعمال کرتے دیکھ لیں توجل کے خاک ہو جاتے۔۔
اسے رات والی بات پر پھر غصہ آگیا تھا۔۔
ہے نا ۔۔ ایک دنیا سوشل میڈیا استعمال کرتی اور میں کونسا کوئی غلط کام کر رہی تھی؟۔۔ایک پیج نے بی ٹی ایس کی ویڈیو شئیر کی تھی فنی وہی دیکھ رہی تھی۔۔ بجائے کہ خوش ہو جاتے انکے ملک کا پاپ مشہور ہورہا۔۔
فاطمہ نے برا سا منہ بنایا۔۔ پھر تشویش سے اسکا کائوٹر پر دھرا بازو دیکھنے لگئ۔۔
تم بتائو کب تک یہ بازو بندھا رہے گا؟ زیادہ چوٹ ہے ؟ ہڈی ٹوٹ گئ۔۔ ؟ رات کو تو اتنی دیر سے تم آئیں میں سو گئ تھی۔۔
دو تین ہفتوں کا کہا ہے۔۔ پین کلرز دئیے ہیں۔۔ رمضان بھئ قریب ہے رمضان بھر میں کیا بازو لٹکائے پھروں گی۔۔
واعظہ سوچ کر کانپ گئ۔۔
ٹھیک ہو جائےبس ریسٹ زیادہ سے زیادہ کرو وزن نہ اٹھانا۔۔ اور کوئی کام ہو مجھ سے کہنا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میرا یہ مطلب بھی نہیں تھا۔۔
وہ مارٹ سے نکلتے روہانسی ہوئی۔۔
تین لبا لب بھرے بڑے بڑے شاپنگ بیگز اسکے ہاتھ میں تھے اور ایک نسبتا چھوٹا مگر اشیا خورد و نوش سے بھرا بیگ واعظہ تھامے تھی۔۔
رمضان اسلیئے آتا ہے کہ کھانا پینا کم کردیں اسلیئے نہیں کہ اشیا خوردونوش کا ڈھیر لگا لیں اسکے آنے کا سن کر ہی۔۔
یہ لیکچر فاطمہ کبھی نہ دیتی اگر اس شاپنگ پر نہ آئی ہوتی۔۔ لیکن اس بوجھ کو جس نے اگلے ایک مہینے میں اسکے پیٹ میں منتقل ہو جانا تھا اٹھاتے اسے یہ زریں خیالات ہی سوجھنے تھے نا۔۔
ویسے موسم اچھا ہو رہا۔۔
واعظہ نے چنداں توجہ نہ کی بلکہ سر اٹھا کر آسمان کو دیکھنے لگئ۔۔ جس پر کالے کالے بادل چھا رہے تھے۔۔
لگتا ہے بارش ہونے والی۔۔
فاطمہ بھی پرجوش ہوئی۔۔ پھر دونوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔۔
نہیں۔۔ دونوں کے اکٹھے منہ سے نکلا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نہیں۔۔ بارش نہیں۔۔
سر پر جمے اسکارف کو پیشانی پر کھینچتے الف بے بسی سے برسنے کو تیار بادلوں کو دیکھ رہی تھی۔۔
اسٹاپ سے اسکی ریڈیو اسٹیشن والی عمارت کا فاصلہ تقریبا پانچ سات منٹ کا تو تھا بیچ میں سڑک بھی پار کرنی تھی اسکا بس نہیں تھا دوڑنا شروع کر دے۔۔ تیز تیز قدم اٹھاتی وہ سڑک کنارے اکیلی لڑکی تھی۔۔ مغرب ہونے والی ہوگی اوپر سے کالی گھٹا ۔۔ اسکا دفتر تھا بھی ایسے علاقے میں جہاں پر رش کم ہی ہوتا تھا عام دنوں میں آج تو موسم کے تیور بھی خطرناک تھے۔۔ بارش کا پتہ ہوتا تو چھتری لے آتی۔۔
اس نے جھلا کر سوچا۔۔ کے ہیروئن نہ تھی مگر شائد کوریا میں آکر سب ہی چھتری لانا بھول جاتے۔۔اور اسکیلئے کونسا کوئی اوپا چھتری لیکر کھڑا ہونا تھا سو بھیگنے کا خوف لاحق تھا۔۔
جینز تو اس نے میرون چڑھائی ہوئی تھی مگر ٹاپ بالکل سفید تھا۔ سفید ہی بڑا سا فراگی کے انداز کا حجاب لیا ہوا تھا سفید جارجٹ کا دوپٹہ۔۔
ہوا سے اڑتا اسے آرام سے سپر مین کی آپا بنا رہا تھا۔۔
تیز تئز قدم اٹھاتئ وہ سڑک کے اختتام پر آپہنچی تھی۔۔ یہاں سے اسےسڑک پار کرنی تھی شومئی قسمت بارش کی پہلی بوند اس کی ناک پر آگری تھی وہیں سگنل بھی کھل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش نہیں۔۔
پلیز اللہ میاں۔۔
کم از کم اب بارش نہیں۔۔
پارک میں درخت کے نیچے سنگی بنچ پر اپنا سامان رکھ کر اس نے زرا سا سی دیر سستانے کو آنکھیں بند کی تھیں جب ایک بوند آکر اسکی پیشانی پر گری۔۔ آنکھیں کھول کر وہ بے آواز لبوں سے گڑ گڑائی مگر شائد وقت قبولیت کا نہ تھا
بے بسی سے اٹھ بیٹھئ۔۔
بارش کی وہ کتنی دیوانی تھی مگر اس وقت یہ رحمت اسکیلئے عزاب بن کر اتری تھی۔۔ یہ تیسری رات وہ چوکیداروں سے چھپ کر یہا ں اس پارک میں گزارنے والی تھی۔ گو پاکستان کے لحاظ سے گرمی میں بھی رات کھلے آسمان تلے گزارنا آسان نہ تھا مگر پھر بھی وہ یہ کر رہی تھی۔۔ بڑا سا گھٹنوں تک کا اس بار مشہور ہونے والا کوریا کا کمبل جیسا جیکٹ اس نے کرسمس پر سیل سے خریدا تھا اب مئی میں بھی اسے پہنے رہتی اندر سوئٹر اور گرم پاجامہ بھی جبھی کھلے آسمان تلے رات گزر رہی تھی مگر آج بارش ہو گئ۔۔
اپنا اکلوتا بڑا سا بیگ سنبھالتی وہ چھپر کی تلاش میں پارک سے باہر نکل آئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہٹو بچو آگےسے۔۔
فاطمہ بائک کا ہینڈل تھامے خیالی کرداروں کو اپنی بائک کے آگے سے ہٹنے کو کہہ رہی تھی۔۔
مروگے خود ہٹ جائو آج فاطمہ کسی کی نہیں سننے والی ہے۔۔ ہینڈل کو گھمائے وہ بھرپور جوش سے چلا رہی تھی۔۔
فاطمہ بی بئ ہارنے کا زہن بنا لیں آج آپکو کوئی مجھ سے نہیں بچا سکتا۔۔
ایک ہاتھ سے ہینڈل تھامے اوور ٹیک کرتی واعظہ نے اسے منہ چڑایا تھا۔۔ فاطمہ نے اسے گھور کر دیکھا پھر ایکدم بائیک کو ریس دے کر اسکے برابر آگئ۔۔
مجھ سےکوئی آگے نہیں نکل سکتا۔۔ اور کوئی مجھے پیچھے چھوڑ جائے ایسا میں ہونے نہیں دیتی۔۔
واعظہ کی آنکھوں میں دیکھ کر اس نے ایک انداز سے کہا تھا پھر رفتار بڑھا دی تھی۔۔ واعظہ کو اسکا انداز چیلنج دیتا لگا سو اس نے بھی ایکسیلرٹر دبا دیا تھا۔۔
کم آن یو کین ڈو اٹ۔۔
فائیٹنگ۔۔
لوگوں کا ہجوم چلا رہا تھا مگر انکا پورا دھیان کھیل کی جانب تھا۔
وہ دونوں گیمنگ زون میں گھسی بائک ریس لگائے تھیں۔۔ بڑی بڑی ہیوی بائک پر بیٹھی تھیں آگے ویڈیو گیم کی حرکی تصویر چل رہی تھی۔۔ خوب چیخیں مار مار کر وہ بائک چلا رہی تھیں۔ دونوں کا آپس میں ہی مقابلہ تھا۔۔
فاطمہ کی بچی بے ایمانی مت کرو۔۔
واعظہ بے چاری پہلے ہی ایک ہاتھ سے ہینڈل پکڑے تھی بیچ بیچ میں فاطمہ ایک ہاتھ مارتی اسکا ہینڈل موڑ دیتی۔۔ وہ پوری جان لگا کر توازن بحال کرتی۔۔
ابھی تک موقع ضائع نہیں ہوا تھا یہی چیز فاطمہ کو بار بار اسی حرکت پر اکسا رہی تھی۔
فاطمہ۔۔ آآآ
آخر کب تک۔۔ فاطمہ کا ہاتھ پھر ہینڈل پر بڑھا تھا واعظہ ہزار کوشش کے باوجود توازن کھو بیٹھی۔ موقع ضائع پردے پر بڑا بڑا فاطمہ وون لکھا آیا تو۔۔
فاطمہ نے خوش ہوکر یاہو پکارا تھا تو واعظہ بھنا کر چیخی۔۔
دونوں کی آوازوں کا ملاپ پورے گیمنگ زون میں گونجا تھا۔۔
یا ہووووو۔
فاطمہ آآآ۔۔
تیسری آواز زور دار تالیوں اور ہوٹنگ کی تھی
دونوں نے ایک دوسر ے کو دیکھا پھر چونک کر مڑیں تو پورے گیمنگ زون انکے پیچھے کھڑا انکے کھیل سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔۔
فائیٹنگ۔۔
ویلڈن گرلز۔۔
چندی آنکھوں والے لڑکے لڑکیاں انکا دل بڑھا رہے تھے۔۔
دونوں کھسیا کر بائک سے اتریں۔۔ وہ آوازیں جو کھیلتے ہوئے انہیں ویڈیو گیم کا شور لگ رہی تھیں اصلی تھیں۔۔
گھمسامنیدہ۔۔ واعظہ نے جھک کر شکریہ ادا کیا۔۔ تو فاطمہ حیران ہو کر اسے دیکھنے لگی۔۔ جھکے جھکے ہی واعظہ اور اسکی۔نظر ملی تو اس نے اسے بھی ایسا ہی کرنے کو کہا۔۔ فاطمہ گڑ بڑا کر جھک گئ۔۔
گھمسامنیدہ۔۔
انکیلئے تالیاں بجا کر سب تتر بتر ہونے لگے تھے۔۔ شغل لگایا مزا کیا بس اب تم اپنے راستے ہم اپنے راستے۔۔
بعد میں دونوں ہنستی ہوئی باہر نکلی تھیں۔۔
یار ویسے مزا آیا۔۔ بارش سے بچنے کو گیمنگ کلب میں گھسنے کا خیال اچھا تھا۔۔ فاطمہ ہنسی۔۔
واعظہ نے گردن اکڑائی اسی کا خیال تھا۔۔
بارش اب موصلہ دھار نہیں ہو رہی تھی ہلکی ہلکی سی پھوار تھئ۔۔ ۔سیول کی سڑک دھل کر شفاف ہو چکی تھی۔۔ ہلکی ہلکی سرد ہوا ان کے جسم میں کپکپی دوڑا رہی تھئ مگر دونوں خوش تھیں
سڑک پر گزرتی گاڑیاں اکا دکا آتے جاتے لوگ سڑک کنارے پوری روشنیوں سے دمکتی دکانیں اپنے کام سے کام رکھتے لوگ۔۔ غیر ملک انجان لوگ غیر مسلم اور وہ دونوں اکیلی لڑکیا ں۔۔ مگر ۔۔۔
تحفظ کا احساس آزادی سے اپنے معمولات نپٹاتی۔۔
فاطمہ کو عجیب سا احساس ہوا تھا۔۔چلتے چلتے رک کر واعظہ سے کہنے لگی۔۔
ہم پاکستان میں تو ایسے نہیں پھر سکتے ۔۔ ہے نا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا تو ٹپ ٹپ مزید کئی بوندیں سر پر آرہیں۔۔
سارے جہاں کی بے چارگی اسکی آنکھوں میں اتر آئی۔۔
تبھئ اسکے اوپر چھتری آتنی۔
اسکی آنکھیں حجم سے بڑی ہو چلیں۔۔
یہ لو۔۔
کسی نے اسے جلدی اے ہینڈل تھمایا تھا ۔۔ سگنل تبھی بند ہوا اور پیدل چلنے والوں کا اشارہ کھل گیا تھا۔۔ کہنے والے کا چہرہ چھتری کی آڑ میں تھا ہینڈل تھماتے اس نے فورا دستہ چھوڑا تھا الف کے ہاتھ بے ساختہ چھتری کا دستہ پکڑ گئے ورنہ چھتری اسکے قدموں میں ڈھیر ہو تی۔۔ اس نے جھٹ چھتری پیچھے کر کے دینے والے کا چہرہ۔دیکھنا چاہا مگر وہ اپنا جیکٹ سر پر کرتا پیدل چلنے والے راستے پر بھاگا تھا۔۔
اسے بس اسکی چوڑی پشت اور لانبا سراپا ہی دکھائی دیا۔یقینا کوئی انڈین یا پاکستانی ہوگا ۔ اس نے حیرانی سے اسے بھاگتے دیکھا
یہ لو؟کیونکہ۔۔ اسے یقین تھا دینے والے نے اردو بولی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بستر انکے صاف شفاف ہونگے مگر پورا کمرا پھیلا رکھا ہے۔۔ یہ دونوں الو روم میٹ مجھے ہی ٹکرنی تھیں۔۔
ابیہا اپنے کمرے کی۔صفائی کرتی بھنا رہی۔تھی۔۔
منے لائونج میں اپنی پسندیدہ پیڑھی میز سجائے اس پر لیپ ٹاپ رکھے نور حسب معمول مگن تھی۔۔ پاس ہی عزہ ڈھیر سارے گتے بکھرائے ایک گھر بنائے اور اسکے ساتھ جانے کون کونسی تاریں اور بیٹریاں جوڑے بیٹھی تھی۔۔
عزہ اپنے کپڑے سمیٹ لو اسٹینڈ سے سے سوکھ گئے ہیں دو دن سے پڑے ہیں۔۔ یہ عروج پکاری تھی۔۔ عزہ نے تار جوڑتے جوڑتے بدمزہ سی شکل بنائی۔۔
مگر سب ویسے ہی چھوڑتی اٹھ گئ۔۔
کمرے میں ہی ایک طرف کپڑےسکھانے والے اسٹینڈ کھڑے کر رکھے تھے ڈرائیر سے گھما کر بس ہلکی سی نمی رہ جاتی تھی سو وہ ایک دو دن کمرے کے درجہ حرارت پر چھوڑنے سے ہی۔مکمل سوکھ جاتے تھے۔۔
عروج تیار ہوکرلیب کوٹ پہنتی کمرے سے نکلی۔۔
آج الف کے شو میں کوئی فون نہیں کرنے والا؟۔۔ وہ نارض ہوگی آکر ہفتے میں بمشکل دو ہی دن ملے ہیں اسے۔۔ وہ بولتی کائونٹر سے بوتل اٹھا کر پانی گلاس میں نکالنے لگی۔۔
وہ بھئ ہماری ہی وجہ سے باقائدگی سے کالیں کر کر کے آوازیں بدل۔بدل کر اسکے شو کی ریٹنگ بڑھوائی ہے ہم نے ورنہ تو ایک ہفتے میں ہی بند ہو جانا تھا۔۔ لیپ ٹاپ پہ انگلیاں چلاتی نور ہنسی۔۔
میں تو نہیں کر سکتی کال صفائی کر رہی ہوں ۔۔ جتنا گند نکل رہا نا کمرے سے ایک ہفتہ مزید لگے گا مجھے۔۔
ابیہا نے دروازے سے جھانک کر ہری جھنڈی دکھائی۔۔
تم کر لو نور کیا کر رہی ہو بیٹھی ہوئی۔۔
عروج نے اسے کہا تو وہ آنکھیں پھاڑ کر بولی
پڑھ رہی ہوں۔۔ فالتو نہیں بیٹھی ہوئی۔۔
پتہ مجھے کتنا پڑھتی ہو تم پھر کسی کی آئی ڈی ہیک کی ہوگی۔۔
عروج گلاس پٹختی جارحانہ انداز میں اسکی جانب بڑھی ۔۔ نور نے جلدی اسکرین لاک کی۔۔ عروج کے پہنچنے تک سب کارکردگی چھپ چکی تھی۔۔
اگر واقعی پڑھ رہی۔تھیں تو یہ راز داری کیوں۔۔
عروج اسے بخشنے کے موڈ میں نہ تھی۔۔
کائوچ سے کشن اٹھا کر اسکے سر پر بجایا
ایک دو تو اس نے کھا لیئے پھر اس سے کشن لیکر ایک طرف اچھال دیا۔۔
ہاہ۔۔ عروج کا منہ کھلا رہ گیا۔۔
کیا ہوا۔۔ نور نے اسکے ردعمل پر حیران ہوتے اسکی نظروں کا تعاقب کیا تو اس سے بھی بڑا منہ کھول بیٹھی۔۔
اسکا کشن سیدھ عزہ کے بنائے ماڈل گھر پر گرا تھا آئسکریم اسٹکس سے بنا ابھی گلو نہ سوکھ چکی ہونے کی وجہ سے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا سو بیچ سے گھپ نیچے آرہا ۔۔
بچو خیر نہیں اب تمہاری۔۔
عروج نے کندھے اچکائے۔۔ اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
عروج۔۔ رکو پلیز۔۔ عزہ جان لے لیگی میری۔۔ نہیں چھوڑے گی مجھے
نور گھبرا کر اسکو پکڑنے لگی۔
نہیں چھوڑوںگئ آلینے دو انہیں۔ آج دیکھنا اس اپارٹمنٹ سے ضرور ایک بندی کم۔ہوگی میرے ہاتھوں۔۔ ابیہا بھنائی ہوئی باہر نکلی۔۔
یہ دیکھو۔۔ میرا سار ا لوشن گرا دیا اتنی مشکل سے پانچ سپراسٹور چھان کر حلال اجزا والا لوشن خریدا تھا دبئی کی کسی کمپنی کا اتنا مہنگا ۔۔ ڈھکن تک بند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی سب بہا دیا۔۔
اب فیصلہ ہو کر رہے گا۔۔ ۔۔
یا تو یہ دونوں رہیں گی یا میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں آپکے ساتھ رہوں گی۔۔
اس نے معصومیت سے کہا تھا
فاطمہ اور واعظہ اسے ٹٹولتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
اگلی جھلک۔۔
ناپھودا۔۔
شہہ بال ۔۔ جیہرال۔۔
وہ چندی آنکھوں والی لڑکی بے دریغ گالیاں دیتے اس چندی آنکھوں والے لڑکے کی اپنے پرس سے ٹھکائی کر رہی تھی۔۔
انکے گرد لوگ جمع ہو رہے تھے۔۔
دور نقاب پوش کالے عبایا میں کھڑی لڑکی انکی تصویر کھینچ کر اپلوڈ کر رہی تھی ہیش ٹیگ۔۔
پنگا نہیں چنگ
دیسی کمچی قسط دو
حصہ ششم
وہ ایک بند دکان کے باہر بنے چبوترے پر بیٹھ گئ دکان پر آگے تک جھکا کسی کمپنی کا ہنگل اشتہار اسکیلئے چھت کا کام دے رہا تھا۔
سرد ہوا انجان ملک سڑک کنارہ۔۔ گہری ہوتی رات۔
اسکی پلکیں بھیگنے لگیں۔
کئی آنسو گالوں پر پھسلتے چلے آئے۔۔ اس نے خود کو سنبھالنا چاہا مگر بے بس ہو کر رو ہی پڑی۔۔
تھوڑا تیز چلو یہیں رات گزارنی ہے کیا؟۔۔
اسے جھوم۔جھوم کر چلتے دیکھ کر واعظہ نے ٹوکا۔۔
مزے لینے دو تازہ ہوا اور آزادی کے۔۔ یار واعظہ ہم پاکستان میں تو ایسے نہیں پھر سکتے ہے نا۔۔
فاطمہ اداس ہوئی۔۔
ہاں ابھی ہم ان لوگوں سے کئی دہائی پیچھے ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھنا ہم نے ابھی تک نہیں سیکھا۔۔
واعظہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔
ساڑھے گیارہ ہو رہے۔۔ فاطمہ نے دونوں ہاتھوں میں شاپر ہونے کی وجہ کلائی پر بندھی گھڑی سے کافی دقت سے وقت دیکھا۔۔
یہاں کتنی روشنیاں ہیں پتہ ہی نہیں لگ رہا۔۔ ورنہ تو دس بجے کے بعد تو میں گھر کی چھت پر بھی نہ جائوں ڈر کے مارے۔۔
فاطمہ نے صاف گوئی سے کہا تو واعظہ ہنسی
ہاں جانا چاہیئے بھی نہیں رات کو تمہارے گھر کی چھت پر ہوائی مخلوق ہوتی ہے۔ آہٹیں محسوس ہوتی ہیں۔۔تم لوگوں کو۔۔ہے نا
اس نے مجروح بازو والا کندھا ہی اسے مار کر چھیڑا
شی۔۔سش۔۔ فاطمہ نے فورا ٹوکا۔۔
میری امی کہتی ہیں کہ اس مخلوق کا نام لو تو حاظر ہو جاتئ ہے۔۔ زکر بھی نہیں کرنا چاہیئے بے وقت ۔۔
ہم ویسے بھی اکیلی لڑکیاں ہیں۔۔بارہ بج رہے ہیں یار مزاق میں بھی انہیں بلا مت لینا۔۔
فاطمہ نے کہا تو واعظہ حیرانی سے اسکا چہرہ دیکھنے لگی خلاف توقع وہ مزاق نہیں کر رہی تھی بالکل سنجیدہ تھی۔۔
میں نے نام تو نہیں لیا مگر۔۔
واعظہ کہتے کہتے رکی فاطمہ نے سوالیہ نظریں اسکے چہرے پر جمائیں۔۔
لیکن تمہارے گھر والے بھوت یہاں آ بھی جائیں تو پاکستان سے یہاں آنے میں کافی وقت لگے گا انہیں۔۔
وہ شرارت سے کہہ کر اسکے متوقع وار سے بچنے کو پیچھے ہوئی۔۔ عین اسی جگہ فاطمہ کے دائیں ہاتھ والا شاپر بھد سے آیا تھا۔۔ یقینا اگر وہ اتنی تیزی نا دکھاتئ تو اسکی ٹانگ بج جاتی۔۔
کہہ رہی ہوں نا نام مت لو آجاتی ہے یہ مخلوق۔۔
فاطمہ بھنائی۔۔ واعظہ ہنستی ہنستی اسے مزید چھیڑنے لگی۔۔ ایکدم سے ڈر جانے والی شکل بنا کر اسکے پیچھے دیکھنے لگی۔۔
فاطمہ آگئ وہ دیکھو ۔۔
کہاں۔۔ وہ اپنی جھونک میں مڑی تو کوئی بھی نہ تھا۔
واعظہ کی بچی۔۔
اس نے بھنا کر دیکھا تو واعظہ کھلکھلاتی اس سے آگے آگے بھاگ پڑی تھی۔۔
ٹھہرو۔۔ وہ دونوں شاپر سنبھالتی خود بھی اسکے پیچھے بھاگ اٹھی۔۔
بھاگتے بھاگتے واعظہ کے قدم سست پڑے تھے وہ رک گئ۔ تو پیچھے سے آکر فاطمہ نے اسے بھرپور ٹکر مار کر دو شاپر بھی لگا دئیے اسے۔۔
واعظہ خاموشی سے پٹ گئ تو اس نے چونک کر اسکی شکل دیکھی۔۔ وہ سڑک کنارے کسی چیز پر نگاہ جمائے تھی۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو دو بڑے بڑے بیگ سڑک کنارے ایک دکان کے پاس نظر آئے۔۔
کیا ہوا بیگ ہیں۔۔ فاطمہ نے کہا پھر بری طرح ڈر گئ۔
بھاگو یہاں سے نامعلوم لا وارث بیگ ہیں پھٹ گئے تو۔ وہ واعظہ کو کھینچنے لگی۔۔ واعظہ نے کراہ کر بازو چھڑایا۔۔
پاکستان میں نہیں ہیں ہم ۔۔ اور دونوں بیگ بھی نہیں ہیں ایک تو ہل بھی رہا ہے۔۔ وہ غور سے دیکھ رہی تھی۔۔
پھر تو پکا پھٹے گا۔۔ فاطمہ گھبرائی۔۔
واعظہ نے توجہ نہ بلکہ بیگ کی۔طرف بڑھ گئ۔۔
واعظہ کی بچی تیس مار خان مت بنو کوئی ہوم لیس بے گھر ہوگا بارش سے بچنے بیٹھ گیا وہاں۔۔
اس نے پیچھے سے پکار کر کہا مگر وہ بڑھتی گئ چارو نا چار اسے پیچھے آنا پڑا۔۔۔
لڑکیوں کو تائیکوانڈو نہیں آنا چاہیئے۔۔ ایک جو ضروری ڈر ہوتا جو مشکلوں سے بچاتا ختم ہو جاتا۔۔
یہ بھئ یاد نہ رہا کہ موصوفہ ٹنڈی ہوئی پڑی ہیں مگر نہ جی۔۔ اب مجھے ہی اسے بچانا ہوگا۔۔
وہ باقاعدہ فضیحتے کرتی اسکے پیچھے آرہی تھی
آننیانگ۔۔آہجومہ۔۔ واعظہ نے ہوا سے اڑتی اسکی پونی دیکھ لی تھی۔۔ سو اتنا اسے اندازہ تھا کہ لڑکی ہے۔۔
قریب آکر جھک کر اس سے پوچھا تو گھٹنوں میں منہ دئیے سسکتی لڑکی نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا
آپ انڈین ہیں۔۔ خیریت رو کیوں رہی ہیں۔۔
اسکا اندازہ درست تھا لڑکی ہی تھی۔۔ مگر برصغیر کے نقوش کی یقینا انڈین یا پاکستانی۔ گول چہرہ کھلتا ہوا رنگ ۔۔سرخ آنکھوں سردی سے سرخ ہوگی ناک وہ سسکنے کے ساتھ سرد ہوا کے جھونکوں سے کانپ بھی رہی تھی۔۔
آپ انڈین ہیں۔۔؟ وہ لڑکی جوابا کانپتی ہوئی ہی آواز میں پوچھ رہی تھی۔۔
فاطمہ قریب آتے آتے رک گئ۔۔ رات کو اور لڑکی۔۔
پکا۔۔ ہوائی۔۔
اس نے خود کو دل میں ڈپٹا
نام مت لے بیٹھنا۔۔ وہ جھک کر اس بڑے سے بیگ کے پائوں دیکھ رہی تھی سیدھے بھی ہیں کہ نہیں
نہیں پاکستانی ہوں۔۔ واعظہ نے کہا تو وہ اٹھا کر واعظہ سے لپٹ گئ۔۔
پلیز میری مدد کریں۔۔ میں بہت مشکل میں ہوں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں جنرل اسٹور کے ایک کونے میں میز پر بیٹھی تھیں۔۔ واعظہ اور فاطمہ کافی پی رہی تھیں اور وہ لڑکی کافی کے ساتھ ویجیٹیبل اور چیز سینڈوچ۔۔
بھی کھا رہی تھی۔۔ کافی تیزی سے اس نے سینڈوچ ختم کیئے تھے جس سے اندازہ ہوتا تھا کافی بھوکی ہو رہی تھی۔۔
میرا نام عشنا ہے۔۔ کھا پی کے اس کی تھوڑی جان میں جان آئی تو اس نے تمہید باندھی۔۔
واعظہ اور فاطمہ دونوں ہمہ تن گوش تھیں
میں یونیورسٹی میں پڑھتی ہوں مجھے پاکستان سے آئے بس چھے مہینے ہی ہوئے ہیں۔ وہ سانس لینے رکی
یار یہ وہی پاکستان ہے نا جو اپنی لڑکیوں کو اعلی تعلیم نہیں دلواتے ۔۔۔
فاطمہ کان میں گھسی واعظہ کے۔۔
اور یہاں دھڑا دھڑ اعلی تعلیم کی غرض سے آئی لڑکیا ں ٹکر رہی ہیں ہمیں۔۔ پاکستان کو کیا ہوگیا ہے سب کو کوریا کیوں بھیجے جا رہے؟۔
اس کی لن ترانی عروج پر تھی واعظہ نے اسے گھورا
تو ہمیں بھی بائیس کروڑ کی آبادی میں سات لڑکیاں ہی دوسرے ملک میں ملی ہیں۔۔ کونسا پورا پاکستان اٹھ آیا ہے۔۔
میں اسکالر آپ پر نہیں آئی تھی سو یہا ں چھوٹی موٹی جاب کرکے ایک کمرہ لیکر رہ رہی تھی ۔۔ میری جز وقتی نوکری اچانک ختم ہوگئی تو میں کرایہ نہیں دے پائی اسلیئے مجھ سے کمرہ چھن گیا ہے۔۔ دو ایک دن میں نے سانا میں رات گزاری مگر جب انہوں نے پیسوں کا تقاضا کیا تو مجھے پارک میں بھی رات گزارنی پڑی ہے۔۔
ایک منٹ ۔۔ فاطمہ نے اسکی گفتگو کو روک دیا۔۔
آپ کو کھانا کھلا دیا ہے آپکو پیسے چاہیئے ہم دے دیتے ہیں۔۔
اس نے اپنے پرس سے چند وون کے نوٹ نکال کر میز پر رکھ دییے۔
بارہ بج رہے ہمیں دیر ہو رہی ہے چلو واعظہ گھر چلیں۔۔
اس نے کہتے ہوئے کرسی کے پاس رکھے شاپراٹھا لیئے اور کھڑی ہو گئ۔۔ انداز موقع نہ دینے والا تھا۔ واعظہ الجھن میں پھنسی۔۔ اس لڑکی نےنوٹ کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے تھے بلکہ کسی حد تک مایوسی بھی اسکے چہرے پر پھیل گئ تھی
مجھے آپ پیسے مت دیجئے مجھے بس رہنے کی جگہ چاہیئے میں نوکری ڈھونڈ رہی ہوں ملتے ہی رہنے کا انتظام بھی کر لوں گی بس چند دن اگر آپ لوگ ۔۔
عشنا نے کہا تو واعظہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
اپنا منا فلیٹ اور آدھے درجن سے زیادہ بھری مرغیاں ان میں ایک اور اضافہ یقینا وہ سب اسکا گلا دبا دیتیں۔۔
خدا حافظ ۔۔ بے مروتی سے کہہ کر دونوں جانے لگیں تو وہ بھی اٹھ کھڑئ ہوئی
پلیز ۔۔ میں ۔۔میری بات تو۔۔
اسکے انداز میں لجا جت تھی۔۔ دونوں نے بشکل دل سخت کیئے اور کان بند کر لینے چاہیئے مگر ایک ہدایت بھول گئیں۔۔ جاتے ہوئے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیئے۔۔
یار ویسے معصوم سی لڑکی لگ رہی ہےہمیں مدد کرنی چاہیئےانجان ملک ہے۔ واعظہ منمنائی۔
جو بھی ہو تم نے ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا غیر ملک میں پاکستانی لڑکیوں کا جن پانچ کی اماں بن کر بیٹھی ہو نا کافی ہیں ایک اور زمہ داری اٹھانے کی ضرورت نہیں۔۔ پیسے تک نہیں اسکے پاس کرایہ ملنا نہیں۔۔ فاطمہ کی اتنی تقریر کا مقصد اسے باز رکھنا تھا۔۔ اسٹور کے داخلی دروازے کی طرف بڑھتے اسے احساس ہوا تھا کہ اکیلی ہی ہے سو مڑ کر دیکھا واعظہ دو قدم پیچھے کھڑی اسے گھور رہی تھی۔۔
کیا؟ میری بات اور ہے میں تو جاب ملتے ہی کرایہ دے دوں گی پہلی تنخواہ سے۔۔ پکا۔۔
وہ پلٹ کر اسکے قریب آئی۔۔ واعظہ کی اس گھوری کا مطلب وہ بالکل صحیح سمجھی تھی۔
اور مجھے تو تم جانتی ہو اس لڑکی کا کیا بھروسہ سچ بھی کہہ رہی ہے کہ جھوٹ۔۔ جانے واقعی یہاں پڑھ رہی ہے کہ نہیں۔۔
وہ آواز دبا کر بولی تو واعظہ نے جتایا۔۔
محترمہ آپ کو بھی میں آٹھ مہینے سے ہی جانتی ہوں گودوں کھلائی نہیں ہو تم میری۔۔ پی جی کا ایڈ دیکھ کر آئی تھیں تم۔۔
ہاں تو ۔۔ وہ کھسیائی۔۔
پھر بھی میرے سب ڈاکومنٹس تھے دکھائے تھے میں نے تبھی تم نے پی جی رکھا تھا مجھے۔
تو اسکے پاس بھی ہونگے۔۔
واعظہ نے مڑ کر دیکھا تو وہ لڑکی وہیں دونوں ہاتھوں میں سر دئیے بیٹھی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزہ اپنے زمین بوس گھر کے پاس دونوں ہاتھوں میں سر دئیے ہکا بکا سی بیٹھی تھی۔۔ ابیہا عروج اور نور اسکے سر پر کھڑی اسے گھور رہی تھیں۔
صدمے سے سکتا تو نہیں ہو گیا۔۔
ابیہا کو فکر ہوئی۔۔
اسکو ہلا جلا لو اگر حالت تشویشناک ہے تو میں ابھی یہیں ہوں ابتدائی طبی امداد دے کر جاتی ہوں اسے۔۔
یہ عروج تھی۔۔ اپنا بیگ شانے پر درست کرتی گھڑی دیکھتے ہوئے بولی۔۔ اسے دیر ہونے ہی والی تھی۔۔
نور ڈرتے ڈرتے اسے ہلانے جلانے لگی۔۔
عزہ۔۔
عزہ کے ساکت وجود میں جیسے بجلی دوڑی حواسوں میں واپس آتے ہی اپنے ٹوٹے ہوئے گھر کو دیکھا پھر چیخ مار کر اس سے لپٹ کر رو پڑی۔۔
یہ اچھا ہوا ۔۔ عروج نے گہری سانس بھری۔۔
میں چلتی ہوں اب اگر ان دونوں کی لڑائی میں کوئی زیادہ زخمی ہو جائے تو ون ون نائن ہے ایمرجنسی نمبر ملا لینا۔ ابیہا نے اچنبھے سے دیکھا ۔۔ تو عروج مسکرا دی۔۔
اسے یاد تھا ابیہا بس میں ون ون ٹوٹو ملاتی رہی تھی سو اسے خاص طور پر نمبر بتا کر جتایا۔۔
ون ون ٹو ٹو پاکستان کی ایمرجنسی سروس ہے سمجھیں۔۔
ابیہا نے سر ہلایا اور عزہ اور نور کی طرف دوبارہ توجہ کی۔۔
میرا پورا گھر توڑ دیا۔۔
وہ گھٹنوں میں منہ دئیے روئے جا رہی تھی
دوبارہ بنا دیتے ہیں عزہ مت رو۔۔
نور نے ڈرتے ڈرتے اسکے کندھے پر۔ہاتھ رکھا۔۔
وقت دیکھا ہے؟۔ وہ بپھری شیرنی کی طرح اسکی جانب مڑی۔۔
آٹھ بج رہے صبح پریزنٹیشن ہے میری یہ ایک ہفتے میں بنا تھا ۔۔ جو چور چور کر دیا ہے تم نے اب کل میں پکا فیل ہوجائوں گی وہ بھی تمہاری وجہ سے۔۔
وہ انگلی اٹھا کر بولی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آٹھ بجے آپکا شو ہے اور آپ اب پہنچ رہی ہیں۔۔ ؟
کھڑوس باس نے اسکا اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی استقبال کیا تھا۔۔
ڈانٹ خالص انگریزی میں تھی۔۔
میں معزرت خواہ ہوں سر وہ یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے دیرہوگئ۔۔
چھتری بند کرتے ہوئے اس نے سر جھکا کر معزرت کی سر اچھل کر دو قدم پیچھے ہوئے چھتری کا سارا پانی ٹپ ٹپ انکے جوتوں پر آرہا تھا۔۔
آئی ایم سوری سر۔۔
وہ کوریائ انداز میں جھک گئ۔۔
ڈیمن۔۔ چندی آنکھوں والے چالیس کے پیٹھے میں بھی چیتے جیسی کمر پر ہاتھ رکھے پیشانی کھجاتے اسکے باس یقینا اس وقت کو کوس رہے تھے جب الف کو نوکری پر رکھا تھا۔۔
آپکو کہا بھی تھا آج آپ کے ساتھ ایک نیو پریزنٹر ڈیبیو کرے گا آپ کم از کم ایک گھنٹہ پہلے آکر اس سے گفت و شنید کر لیں تاکہ تھوڑی سی آپ لوگوں میں بے تکلفی ہو جائے اور آپ آسانی سے لائیو جا سکیں۔۔ اور آپ پندرہ منٹ پہلے تشریف لا رہی ہیں۔۔
چندی آنکھوں والے ان انکل نے مزید چندی آنکھیں کر لی تھیں۔۔ انکے غصے کا اس نے بالکل برا نہ مانا ویسے ہی کوریائی چیخ چیخ کر بولتےعام انداز میں بولتے بھی لگتا غصے سے دیوانے ہوئے پڑیں ہیں اورغصے میں چلاتے بھی تو ویسے ہی انکی نیدا ایکا کی عادت ہو ہی چکی ہوتی ہے سو مزے سے الف نے بیگ شانے پر درست کر کے تصحیح کی۔
سر دس منٹ پہلے۔۔ اور اب تو بس پانچ منٹ رہ گئے۔۔
دل تو کیا صاف کہے پانچ منٹ آپ نے اس فضول بکواس میں ضائع کر دئیے ہیں۔۔
بھاگو جائو۔۔ سر چلائے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکا پاسپورٹ یونیورسٹی آئی کارڈ اس نے اپنی ڈگریاں تک سامنے رکھ دیں۔۔
ہر طرح سے اطمینان کر لینے کے باوجود بھی دونوں ہچکچا رہی تھیں۔۔
یار ہم تو پہلے ہی تین لڑکیاں ایک کمرے میں ہیں۔۔
اور عروج وغیرہ تو چار ہیں۔۔ اسکو کہاں کھپائیں گے۔۔
فاطمہ پھر واعظہ کے کان میں گھسی۔۔
عروج وغیرہ چار رہ سکتی ہیں ایک کمرے میں تو ہم بھی رہ سکتی ہیں۔۔ واعظہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔۔ پھر عشنا سے پوچھنے لگی۔۔
تم رہ لوگی ہمارے ساتھ؟۔۔ایک ہی کمرے میں۔۔
عشنا نے حیرت سے ان دونوں کو دیکھا۔۔
دیکھنے میں تو سلجھئ ہوئی ہی لگ رہی تھیں اس نے سے باری باری دونوں کی شکل دیکھی پھر
معصومیت سے بولی۔۔
ہاں رہ لوں گی آپ لوگوں کے ساتھ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنیانگ ہاسے او
اس نے مصروف سے انداز میں اسٹوڈیو میں بیٹھے لڑکے کو سلام کیا اور جھٹ کانوں پر ہیڈ گئیر چڑھا لیئے۔۔ چندی آنکھوں والا ژیہیانگ اسے دیکھ کر واضح طور پر چونکا تھا مگر وہ لاپروا
مائک وغیرہ چیک کررہی اس کے پاس بس دو منٹ تھے۔۔ اسکے پاس ساتھ بیٹھے ڈیبو ٹانٹ کو تسلی دلاسے دینے کا وقت نہیں تھا سو۔۔ اس نے ایک نظر چلتے ٹائمر پر ڈالی اور اسکی جانب مڑی۔۔
ہمارے پاس دو منٹ ہیں گھبرانا مت ہم لائیو ہونگے انگریزی میں بات کرنی ہوگی جہاں اٹکو چپ ہو جانا میں سنبھال لوں گی دو منٹ کے تعارف کے بعد دو تین گانے اکٹھے چلا دوں گی اتنی دیر میں اپنا اعتماد بحال کر لینا ٹھیک۔
تقریر جھاڑ کر وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
اس کے انداز میں شناسائی کی رمق تک نہ تھی۔۔
ژیہانگ نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ مطمئن ہو کر مڑ گئئ۔
آن ائیر جانے میں چند سیکنڈ تھے۔۔
پانچ چار تین دو ایک۔
آننیانگ شنگوز۔۔ سلام فرینڈز میں ہوں آپکی ہر دل عزیز میزبان ایلف ۔ کیا حال ہیں آپ سب کے۔۔ مجھے امید ہے آپ سب خیریت سے ہونگے۔۔ ویکاینڈ فن کے ایک اور تفریح سے بھرپور شو میں خوش آمدید ۔۔ سیول کا موسم آج پھر بھیگا سا ہے اور ایسے ہی آج سب ٹریک میں نے لائن اپ کیئے ہیں سو اگر کچھ اور بھی کرنے کا ارادہ ہے تو ترک کیجئیے اور لطف اٹھائیں میرے ساتھ موسم کا میرا پہلا ٹریک ہے۔۔
نان اسٹاپ بولتی الف ۔ میں بجلی سی بھر گئ تھی۔۔ ہاتھ ہلا ہلا کر خوب جوش سے بولتی اسکی لفظوں کی ریل گاڑئ چھک چھک کرتی گزرتی جا رہی تھی۔۔
اور اپنا تعارف کرائے جانے کا منتظر ژیہانگ مسکراتی آنکھوں سے مائک کے کاوئٹر پر کہنیاں جمائے اسے دیکھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزہ اسطرح رونے سے سب جڑ تو نہیں جائے گا۔۔
ابیہا تیسری بار اسے ہلا جلا کر کھانے پر آمادہ کرنے آئی تھی۔۔ وہ اپنی مسہری پر لیٹی چادر اوڑھے منہ پر تکیہ رکھے رو رہی تھی۔۔
نہیں مگر رونے سے دل تو ہلکا ہو جائے گا بیٹھے بٹھائے بیس نمبر غارت ہونے والے ہیں کم از کم اس نقصان پر رو کر جی تو ہلکا کر لینے دیں۔۔
تکیہ رکھے رکھے وہ چلائی۔۔
ہاں منطق تو ٹھیک ہے۔۔ابیہا نے قائل ہو جانے والے انداز میں سر ہلایا۔
پتہ ہے اس دن میں یو ٹیوب پر دیکھ رہی تھی ایک تحقیق کے مطابق رونے سے انسان کا اضطراب کم ہوتا ہے اور۔۔
وہ مزید بھی پوری ویڈیو کا متن سناتی مگر عزہ نے تکیہ ہٹا کر سرخ آنکھوں سے بری طرح گھورا تھا۔۔ میں کھانے کیلئے اٹھانے آئی تھی ۔۔
ابیہا کھسیائی۔۔
مگر لگتا ہے تم کھانا کھائوگی نہییں چلو روتے روتے سو جانا شب بخیر۔۔
وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہوئی عزہ گھورے ہی جا رہی تھئ۔۔ تیزی سے اپنے پیچھے سے ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا اور غڑاپ سے باہر۔۔
باہر نکل کر سانسیں درست کرنے لگی۔۔ نور اپنی ہر فن مولا میز پر کھانا رکھے آلتی پالتی مار کر بیٹھی تناول فرما رہی تھی۔۔ اسکی بگڑتی حالت دیکھی تو ہنس کر بولی۔۔
مجھے پتہ تھا نہیں مانے گی صبح تک غصہ کم ہوگا تو دوبارہ معزرت کر لوں گی تم بھی آئو کھانا کھائو۔۔ ٹھنڈا ہو رہا۔۔
اسکا اطمینان دیکھ کر ابیہا گھور کر رہ گئ۔۔
ہم ہی اسے جوڑ لیتے ہیں۔۔
وہ تاسف سے کہتی شہید گھر کے ٹکڑے جمع کرنے لگی۔۔
چار دن میں بنایا تھا ہم چار گھنٹے میں کیسے جوڑ سکتے وہ کہتے ہیں نا گھر بنتے سالوں میں ہیں ٹوٹتے لمحوں میں۔ ہیں۔
منہ میں نوالا رکھے وہ فلسفہ بگھارتی سچ مچ ملول ہوگئ۔۔
کھاتے وقت بک بک نہیں کرتے۔۔ ابیہا نے تپ کر ٹوکا۔۔جانے اتنا اطمینان اس میں آتا کہاں سے تھا۔۔کسی کا گھر ٹوٹ گیا اور وہ ملبے پر بیٹھی چکن کڑاہی تناول فرما رہی تھی۔
یہ سب پاکستانی باتیں ہیں۔۔ اس نے کان پر سے مکھی اڑائی۔۔
گرم گرم نوالا منہ میں نہ رکھو، چھوٹے نوالے بنائو، کھاتے وقت بولو نہ۔۔ کورینز کو دیکھا ہے۔۔ کھولتے نوڈلز منہ میں رکھے منہ سے دھواں چھوڑتے ہیں اتنے باادب سے اوپا منہ سے بھی بڑے نوالے ڈال کر کپا منہ بنائے چبا رہے ہوتے اور ایک سے ایک۔ضروری کنفیشن کھانا کھاتے ہوئے کرتے ۔۔ اس دن ڈرامہ دیکھتے ہوئے کھانے کا منظر آگے کیا پتہ چلا اظہار محبت کر گزرے کھاتے ہوئے ۔۔ واپس کرکے دوبارہ دیکھا تو اوپا نے کپا گال کیا ہواتھا نوالے بھر کر اور کنفیسس کررہے۔۔
وہ بولتے بولتے ٹھٹکی۔
کنفیشین کو اردو میں کیا کہتے؟۔ اسکی لغت جواب دے گئ تھی۔۔
ابیہا نے گہری سانس بھری اور ملبہ سمیٹنے لگی۔۔
یآر ہماری لغت کہاں ہے اسے ضرور پتہ ہوگا کنفیشن کو اردو میں کیا کہتے؟۔
کون لغت۔۔ ابیہا اسکی بے سرپا باتوں پر دھیان نا دینے کا عزم کر کے بیٹھی تھی پھر بھی چونکی۔۔ لفت تو ان ساتوں میں سے کسی کا نام بھی نہ تھا۔۔
واعظہ ۔۔ اور کون۔۔ اور کون ہے چلتی پھرتی جیتی جاگتی بولتی بالتی لغت جہاں انگریزی بولو ٹوک کر اسکا اردو مترادف بتانے والی۔۔ لغت نہ کہوں تو اور کیا کہوں۔
نوالہ منہ میں پان کی طرح دبائے وہ آنکھیں پٹپٹا رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت پر پہنچ گئ ابتدائیہ دے دیا گانا بھی لگا دیا ہر کام سے فارغ ہو گئ تب بھی بس آٹھ بج کر پانچ منٹ ہی ہوئے ہیں۔ ریوالونگ چئیر پر مزے سے آلتی پالتی مار کر آرام دہ حالت میں بیٹھئ وہ خود کو خود ہی شاباشی دے رہی تھئ۔۔
اس نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے موبائل مین وقت دیکھا۔یہ عادت اسے اسی نوکری سے پڑی تھی اکیلی آواز بند اسٹوڈیو میں بیٹھتی تھی کوئی اردوسمجھنے والا نزدیک نہیں سو گانے لگا کر دن بھر کی بھڑاس نکالا کرتی تھئ بول بول کر۔۔ ابھی تو اس بے موقع کا جھاڑ کا غصہ بھی چڑھا تھا۔ اس نے گھور خر اسٹوڈیو کی شیشے کی دیوار سے جھڑوس بڈھے انکل کو ہاتھ نچا نچا کر اسے کچھ کہتے دیکھ کر تاسف سے سر جھٹکا۔۔
ایویں یہ چندی آنکھوں والا کھڑوس پیچھے پڑا رہتا۔۔
میرے اب دیکھو گدھے۔۔ سب کام تو کر لیا میں نے تمہاری بڑ بڑ جاری ہے۔۔ وہ مسکرا کر انہیں دیکھتی یوں کہہ رہی تھی جیسے انکی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہو۔۔
آنکل اب چپ ہو کر اسے دیکھ رہے تھے۔۔
ایک آواز نہیں آئی آپکی مگر لگتا دنیا کا ایک شور کم ہوا ہے ویسے اگر اب بھی آپکی بولتی بند نہ ہوتی تو پکا میں نے آپکے منہ میں آپکی اس بھوری ٹائی کا گولا بنا کر ٹھونس دینا تھا۔۔ زہر لگتی ہے آپکی یہ ٹائی اور آپ ہیں کہ۔۔
اسکی باتیں سنتے ژیہانگ کا ضبط کرتے کرتے بھی قہقہہ بلند ہوا تھا۔۔الف بری طرح چونک کر مڑی۔۔
یہ بھی تو بیٹھا تھا اسکے ساتھ اسے تو یاد ہی نہ رہا۔۔ اوپر سے یہ ہنس کیوں رہا؟ وہ بھونچکا رہ گئ۔۔
اسے اردو سمجھ آتی ہے کیا؟ اسے خوف آیا۔۔اسکے نقوش کھوجتی نظروں سے دیکھے۔۔ گھنے سیاہ بال مخصوص کوریائی انداز میں ماتھے پر بکھرے تھے باریک لب کھڑی ناک اور تھوڑی سی حجم میں بڑی مگر غلافی
چندی آنکھوں والا ژیہانگ کھل کر ہنس رہا تھا۔۔ روائیتی کورین مال تھا۔۔ اسے کیوں اردو آنے لگی۔۔
اس نے اپنے احمقانہ خیال کو جھٹکا۔۔ باس مزید ضبط نہ کر سکے دروازہ کھول کر اندر گھس آئے۔۔
مس ایلف آپکا دھیان آخر ہے کدھر ۔۔؟ ژیہانگ نے آپکے ساتھ اوپننگ گریٹنگ دینی تھئ اور آپ نے اسکا کوئی زکر تک نہ نہیں کیا اور گانا لگا دیا۔۔
سر اس پر بنا لحاظ چلائے تھے
اس سے تو سیدھے ہو کر بیٹھا بھی نا گیا بس سر جھکا لیا۔۔
اتنی ڈانٹ تو زندگی میں امی سے بھی نہ کھائی حالانکہ انکو تو میری شکل دیکھ کر غصہ آجاتا ہوتا ہے۔۔ آج صبح کسکی شکل دیکھی۔۔
وہ مسمسی سی صورت بنا کر دل میں سوچ رہی تھی۔۔
وہ میں تھوڑا سا کنفیوز سا محسوس کر رہا تھا میں نے ہی ان سے گزارش کی تھی کہ آپ پہلے گانے لگا دیں ہم پانچ سات منٹ باتیں کر لیں تو پھر میں براہ راست جائوں گا۔۔ شستہ انگریزی میں یہ ژیہانگ اسکی حمایت کر رہا تھا۔۔ اس نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا۔ وہ مکمل طور پر باس جانب متوجہ تھا۔۔باس نے ہنکارہ بھر کر دونوں پر قہر بھری نظر ڈالی۔۔ اب اس نے جھوٹ کیوں بولا۔۔ الف نے سوچا
ژیہانگ کو یقینا اس پر ترس آگیا تھا۔۔ ۔
آج کی ریٹنگ پچھلے ہفتے سے بھی گئ گزری ہے۔۔
انگریزی گانے کوریائی ایک مخصوص طبقہ سنتا اور انگریزی پروگرام تو اس سے بھی کم کچھ ہائی اسکول کے بچے سن بھی لیتے تھے انگریزی بہتر کرنے کے واسطے تو یقینا آج انکا بھی دل اٹھ گیا ہے اس پروگرام سے۔۔ ہمیں کچھ کرنا ہوگا ہم اگلے ہفتے کے لیئے کوشش کر رہے مشہور پاپ سنگرز کو بلانے کی کوئی انگریزی پروگرام میں آنے کو تیار ہی نہیں اگر یہی حال رہاتو مس ایلف یہ شو بند ہو جایے گا تھوڑی سی محنت کر لیں آپ بھی اور ژیہانگ کے ساتھ مل کر کوئی نیا آئیڈیا لائیں۔۔ مجھے امید ہے آپ دونوں مل کر اس شو کو بے موت مرنے سے بچا لیں گے۔۔
سخت سست سناتے انکا لہجہ دھیما پڑتا گیا تھا۔۔ یقینا وہ خود بھی پریشان تھے۔۔
جی سر۔
دونوں نے سعادتمندی سے سر ہلایا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں لگتا میں اسپتال میں ٹپے گا رہی ہوں۔۔ کوئی کام وام نہیں مجھے؟ بیٹھ کر تمہارے فضول شو میں کال ملا کر بیٹھ جائوں۔۔ ابیہا کو کہہ دو۔۔
عروج بھنائی تھی۔۔ ایک تو یہ مریض اتنا عاجز کئیے تھا اوپر سے الف کی فون کر کے کی جانے والی فرمائیش۔
پلیز عروج بہن ہوگی ابیہا نے صاف انکار کیا ہے فاطمہ اور واعظہ گھر پر نہین ہیں صرف تم۔ہی میری مدد کرسکتی وہ وعدہ میں تمہارے لیئے نیا سینیٹائزر لیکر آئوں گی۔۔
اسکا بس نہیں تھا فون میں سے نکل کر عروج کی منتیں کرنا شروع کر دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں دبے قدموں گھر میں داخل ہوئی تھیں انکے پیچھے اسی رازداری کے ساتھ عشنا بھی۔۔
ہاہ۔۔لائونج میں داخل ہوتے ہی جو منظر سامنے تھا اس سے تینوں کا سانس اوپر کا اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔۔ دھڑ دھڑ کرتا دل تھامے وہ بمشکل بے ہوش ہوتے ہوتے بچی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
اگلی جھلک۔۔
کیا واقعی تم سیہون کا انٹرویو لو گی؟ایکسو کے سیہون کا؟۔۔ ابیہا واعظہ فاطمہ عروج عزہ کورس میں چلائی تھیں۔۔ اور عشنا بے چاری ان سب کی حیرت بھری خوشی سے بے نیاز پوچھ رہی تھئ سیہون کون ہے؟
ا