Desi Kimchi Episode 24

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 24

کسی نامانوس سے احساس کےتحت اسکی آنکھ کھلی۔ نیم تاریکی میں اس نے آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہا تو کمرہ یکسر اجنبی لگا۔ چھوٹا سا کمرہ جس میں اسکے بیڈ کے بالکل برابر کھڑکی پر بھاری پردے تنے تھے۔ ہلکی سی دراڑ سے روشنی کسی بلب کی ہی تھی مدھم سی یعنی شام ہو رہی تھی یا رات ہوگئ تھئ۔ اسے اندازہ نہ ہوا۔۔ اس پر ۔گھبراہٹ کا غلبہ طاری ہوا۔اس نے کہنی پر وزن دیتے فورا اٹھ کر بیٹھنا چاہا تو کنولا کی سوئی ہاتھ پر زور دینے سے چبھی ۔وہ تڑپ کر واپس تکیئے پر گر سی گئ۔ جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ سے بستر ٹٹولنا چاہا تو کوئی نرم سی چیز ہاتھ میں آئی۔ اس نے جیسے ہی تھاما احساس ہوا وہ بھی کوئی ہاتھ ہی تھا۔
اس نے گردن گھما کر دیکھا تو کوئی لڑکی اسٹول بیڈ سے جوڑ کر اس پر بیٹھی اسکے بیڈ پر بازو کا تکیئہ بنائے اس میں منہ چھپائے ٹکی شائد سو رہی تھی۔
اس نے زرا سا گردن اٹھا کر پہچاننا چاہا شولڈر کٹ بکھرے بال ۔
اس نے گہری سانس لی۔
وہ واعظہ تھی۔اس نے اپنے اردگرد ماحول پر نگاہ کی تو اندازہ ہوا کہ اسپتال کے کمرے میں ہے۔ مگر یہاں کیسے؟ اس نے ذہن پر زور ڈالنا چاہا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونہی سڑکوں پر پھرتی پھری تھی۔ سڑک پر چہل پہل تھی۔ لوگوں کو آتے جاتے دیکھتی وہ اداس سی ہوتی گئ۔
ان سب کیلئے معمول کے دن کا اختتام ہوا تھا اور اسکا تو عید کا دن تھا۔ پہلی عید جس میں وہ خالی ہاتھ خالی جیب راستہ ناپ رہی تھی۔ اسکے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچے تھے کہ وہ بس سے سفر کر لیتی۔تھکے تھکے قدم جب اٹھنے سے انکاری ہوئے تو وہ بس اسٹاپ پرلگے بنچ پر آبیٹھی
کیا پایا تھا اس نے فین میٹنگ سے۔ مہینوں کی جمع پونجی اور منٹوں کی ملاقات۔ وہ سیلیبریٹی جو اسکرین پر دیکھتے ہوئے کردار ادا کرتے آس پاس کہیں محسوس ہوتا تھا آج جب سامنے بیٹھا تھا تو لگتا تھا میلوں کے فاصلے ہیں درمیان۔اوروہ وقت حسب خواہش تھما ہی نہیں۔اس نے موبائل نکال کر لاک اسکرین پر نظر جما دی۔
اسکی جانب تحفہ بڑھاتے ہوئے لی منہو کی نگاہ اسکی ہتھیلی پر بنے نقش و نگار پر پڑی۔
اس نے بڑی دلچسپی سے اس سے پوچھا
یہ کیا ہے کیسے بنایا؟
اس نے جوابا اپنی ہتھیلی اسکے سامنے کر دی تھی۔ اور اسے اتنا پسند آیا کہ اپنے مینجر کو کہہ کر تصویر بنوائی مسکراتا ہوا لی من ہو اور اسکی پشت پر دونوں ہتھیلیاں دکھاتی مسکراتی عشنا۔
تصویر بنوا کر اس نے شکریہ بھی ادا کیا۔ جوابا عشنا نے اپنا موبائل بھی بڑھا دیا۔۔
اسکے ہاتھ میں لی من ہو کے ہاتھ کی کھنچی سیلفی تھی جس میں وہ خود بھی تھئ۔۔
لی من ہو ملٹری جا رہا ہے۔ اگلے دو سال اسکے ملٹری میں گزرنے اس بات پر وہ پاکستانی لڑکی بیٹھئ اداس ہو رہی تھی۔ اسکی آنکھیں بھر آئی تھیں۔
بے چاری کا لگتا ہے بریک اپ ہوا ہے۔
پاس کھڑی اب ہائی اسکولر لڑکیوں نے تاسف سے اسے موبائل ہاتھ میں لیئے بے آواز روتے دیکھا۔
انی۔ دل چھوٹا نہ کرو تمہیں اس سے بہتر مل جائے گا فائٹنگ
وہ لڑکی اسکی جانب ٹشو بڑھاتئ بڑے خلوص سے کہہ رہی تھی۔ اس نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا ۔ موبائل لاک اسکرین مدھم ہو کر بند ہو چکی تھئ
اس نے شکریہ کہہ کر آنکھیں رگڑ لی تھیں۔
کون جانے اس وقت آنکھیں پونچھنے سے ذیادہ ضروری اسکا گھر پہنچنا تھا جسکے لیئے ٹشو نہیں سکے درکار تھے۔
اب وہ جانے خوش قسمت تھی کہ آنسو پونچھنے والیاں مل گئیں یا بد قسمت کہ گھر پہنچنے کا کوئی سبب نا بن سکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں بالکل خاموش لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کے مصداق فلیٹ میں واپس آئے۔ جوتے راہداری میں اتارنے کی دونوں کو عادت نہیں تھی سو سیدھا کچن میں لینڈ کیا۔
ہے جن البتہ تسمے کھولنے میں لگا تھا
میں کہہ رہی تھئ کہ یہ جھوٹ نبھے گا نہیں۔طوبی آپی کو روتے دیکھ کر اتنا برا لگا مجھے ہم نے بلاوجہ انکو دھوکا دیا۔ سب اس ہے جن کے بچے کی وجہ سے ہوا ہے کیا ضرورت تھئ اسے اتنی لمبی کہانیاں ڈالنے کی۔ عزہ کا پارہ ہائی ہوا وا تھا۔ٹہل ٹہل کر بولے جا رہی تھئ
یہ اچھا ہے جو چندی آنکھوں والا ملتا اسے میرا بھائی بنا دیا جاتا ۔ پہلے سیہون اب یہ ہے جن۔ٹھیک ٹھاک بستی ہے جن نے کروادی ہے اب اگلی باری سیہون کی ہوگی۔ جس دن اسے پتہ لگے گا کہ وہ میرا زبردستی منہ بولا بھائی بنا ہوا ہے تو جانے وہ کتنا بولے گا
فاطمہ فریج کھول کر پانی کی بوتل نکالنے لگی۔ گلاس میں بھر کر منہ تک لے جانے ہی لگی تھی
فاطمہ پانی پینے لگی ہو۔اس کی نظر پڑی تو چیخ مارتی اسکے ہاتھ سے گلاس چھین لیا۔ پانی اچھل کر اسکے کپڑوں پر آرہا۔ اس نے خشمگیں نظروں سے گھورا
تم سیہون کئ بہن ہو یا نہیں کام نندوں والا کیا ہے۔ کیا تکلیف ہے اگرمیں پانی پی لوں تو۔ وہ کپڑے جھاڑنے لگی
عزہ کھسیا سئ گئ۔ وہ مجھے لگا روزہ ہے۔ اب اتنے دنوں سے اس وقت کوئی پانی پیتا نہیں تو۔عادت وہی پڑی وی۔
اس نے وضاحت دیتے گلاس اپنے منہ سے لگا لیا۔
ہے جن آئو کھانا کھا لو۔ عروج نے بریانی بنائی ہے۔
فاطمہ نے ہے جن کو سر جھکائے کمرے کی جانب بڑھتے دیکھ کر آواز دی
مجھے بھوک نہیں۔ اس نے دھیرے سے کہہ کر بڑھ جانا چاہا
اتنی سی بستی سے پیٹ بھرگیاکیا؟۔
عزہ طنزیہ انداز میں بولی۔
مطلب۔ وہ واقعی نہیں سمجھا بات
چھوڑو بھئ عزہ۔ فاطمہ نے ٹوکنا چاہا تو وہ گلاس کائونٹر پر پٹخ کر آستین چڑھا کر بولی۔
تمہاری وجہ سے طوبی آپی بلک بلک کر روئیں اتنا برا مجھے زندگی میں کبھی کسی کا رونا نہیں لگا جتنا طوبی آپی کا لگا عین عید کے دن وہ تمہاری وجہ سے روئیں۔۔تمہارے بے سروپا جھوٹ کی وجہ سے انکا دل ٹوٹ گیا۔کوئی شرم آئی تمہیں؟
عزی بس کرو ۔ فاطمہ نے اسکو کندھے سے تھام کر روکا
میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہوئی ہے۔ میں خود جائوں گا ان سے معافی مانگنے
ہے جن کا چہرہ ست سا گیا تھا۔ سنبھل کر سوچ سوچ کر وہ بولا
اچھا۔ عزہ استہزائیہ ہنسی پھر چٹخے ہوئے انداز میں بولی۔
غلطی کا احساس ہے تمہیں؟ کس غلطی کا طوبی آپی سے یہ جھوٹ کہنے کا کہ میں تمہاری بہن ہوں یا انکو بے وقوف بنا کر انکے گھر مسلمان ہونے کا ناٹک کرنے کا؟ جھوٹی نماز پڑھتے جھوٹے روزے رکھتے شرم نہیں آئی تمہیں کس فخر سے مانا تم نے طوبی آپی کے سامنے کہ تم دل سے ابھی بھی بدھ متی ہو اور وہ نماز روزے سب دکھاوا تھا تمہارا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی وہ یہ سب ڈرامہ کر رہا ہے۔
وہ نماز روزہ سب ڈرامہ تھا دلاور۔ وہ کبھی بھی مسلمان نہیں تھا نہ پیدا ہوتے وقت نہ بعد میں کبھی اس نےسوچا۔ میں ایک کافر کو بھائی بنا کر اسکی خدمت کرتی رہی اسے کھانے پکا پکا کر کھلاتی رہی قرآن تھمادیا اسے ہاتھ میں ۔مجھے کتنا گناہگار کر دیا ہے اس نے۔
طوبی رو ئے جا رہی تھی۔بچے سہم کر بابا کے پاس بھاگے آئے تھے وہ خود بمشکل اٹھ کر لائونج میں چلے آئے۔ طوبی گھٹنوں میں منہ دیئے بیٹھی تھی۔ انہوں نے دھیرے سے آکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ گلوگیر لہجے میں سر اٹھا کر بولی۔ اسکی آنکھیں موٹے موٹے آنسوئوں سے بھری تھیں
بیٹا بہن بھائیوں کو لیکر کمرے میں جا کر کھیلو۔۔ بلکہ فریج سے آئیسکریم نکال کر اندر جا کر بیٹھ کر کھائو۔
دلاور نے بڑی بیٹی کو کہا تو وہ سر ہلاتی دونوں چھوٹے بہن بھائیوں کو ہنکا کر لے گئ
تم رو کس بات پر رہی ہو ؟ مانا اس نے جھوٹ بولامگر یہ بھی تو دیکھو کیوں۔۔ محبت کرنے لگا ہے وہ تم سے۔ کسی سگے بھائی کی طرح خیال رکھتا رہا ہے تمہارا۔۔ تمہاری خاطر اس نے جو تم نے کہا وہ سب کیا نماز تک پڑھنے کی کوشش کئ صرف تمہیں خوش کرنے کو۔
وہ اسے سمجھا رہے تھے
نماز روزہ انسانوں کو خوش کرنے کیلئے نہیں کیا جاتا دلاور۔
وہ بپھر کر بولی
تو پھر انسان ہو کر کسی کے نماز روزے کی فکر کیوں کی تم نے ؟
دلاور کا سوال کڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزہ بہت سخت الفاظ ہیں تمہارے۔
فاطمہ نے اسے ٹوکنا چاہا۔۔ مگر عزہ سن نہیں رہی تھی چبا چبا کر بولی
ہم سب تک یہ سمجھتے رہے کہ تمہارا دل بدل گیا یے اور تم مسلمان ہونے لگےہویہاں ہمارے سامنے یہ ڈرامہ کرتے رہے کہ تم روزے سے ہو اور باہر سور وغیرہ کھاتے رہے ہوگے۔
اس دن تو مجھے بھی کھلا دیا۔تم نے ہمارا ہمارے مذہب کا مزاق اڑایا ہے جھوٹ دکھاوا کرکے۔تمہارے روزے سب جھوٹے تھے تمہاری نمازیں
نونا بس کریں۔
ہے جن جیسے تڑپ کر چیخا۔مٹھی بھینچ کر وہ اسکے سامنے آکھڑا ہوا
میں مسلمان ہوا یا نہیں مگر میں نے روزہ ہمیشہ پورا رکھا ۔ اسکا ہر رکن پورا کیا۔ اسکول میں بے ہوش ہوکے گرا ہوں مگر کچھ کھایا پیا نہیں۔ جس دن آپ نے سور چکھ لیا تھا اس دن سے آج تک میں نے سور کو ہاتھ نہیں لگایا جبکہ یہ میرا پسندیدہ کھانا ہے۔
ہے جن ہم جانتے ہیں تمہیں دل پر مت لو اور۔
فاطمہ اب ہے جن کو ٹھنڈا کرنا چاپ رہی تھی مگر وہ بھی اسکی ایک نہیں سن رہا تھا
کس نے کہا تھا یہ سب کرنے کو تمہیں بولو؟ عزہ اسکے انداز کو خاطر میں نہ لائی مزید تیز ہوکر بولی
خود تم نے اپنے ساتھ کیا جو بھی کیا۔ نہ جھوٹ بولتے نا نبھاتے نا ہی تمہیں یہ سب کرنا پڑتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ہمدردی ہو گئ تھئ اس سے۔ مجھے سچ مچ وہ اپنا چھوٹا بھائی لگنے لگا تھا۔
طوبی جیسے تھک کر بولی۔
اور اب اچانک وہ برا لگنے لگا؟ اسکا مذہب اسکا قطعی ذاتی معاملہ تھا طوبی تمہیں کوئی ضرورت نہیں تھی اسکو زبردستی اسلام سکھانے کی جانتی ہو وہ تمہارے سامنے اعتراف کرنے سے پہلے جانتی ہو مجھ سے کیا پوچھ رہا تھا؟ دلاور نے گہری سانس لیکر اپنی احمق مگر بے حد پیار کرنے والی بیوی کی آنکھوں میں جھانکا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں دل سے رکھ رہا تھا کہ نہیں یہ میرا اور خدا کا معاملہ ہے تم میں سے کسی کو میرے نماز روزے سے گناہ نہیں ملا اتنا جان گیا ہوں۔ ہر کوئی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے اللہ صرف تمہیں تمہارے گناہ ثواب پر جواب طلبی کرے گا کسی کوریائی ہائی اسکولر ہے جن کے اعمال پر نہیں سمجھیں عزہ نونا۔۔
وہ جیسے ضبط چھوڑ بیٹھا ۔ اسکے الفاظ اسکی اندرونی کیفیت کو آشکار کر رہے تھے وہ اتنا ہی بے چین اور مضطرب تھا جتنا دکھائی دے رہا تھا۔ آنکھیں ضبط سے سرخ ہو گئ تھیں۔ عزہ بھی اسکا چہرہ دیکھتے لمحہ بھر کو چپ سی پوئی پھر اپنی جون میں واپس آتے ہوئے جواب دینے کو منہ کھولا
مگر تم۔۔۔۔۔۔۔
کہ فاطمہ دھاڑی
بس کرو دوبارہ یہ مسلئہ یہاں شروع کرنے کی ضرورت نہیں تم دونوں کو۔ جو بھی ہوا اس میں ہم سب کی غلطی تھی کسی کی تھوڑی سہی مگر بہر حال اس معاملے کو کسی اور وقت کیلئے اٹھا رکھو۔ عید کے دن ایسے فضیحتے مت کرو ایک دوسرے کے۔
دونوں اسکے یوں چلانے پر ایکدم خاموش ہو رہے۔
چند لمحے مکمل خاموشی رہی۔۔
چلو کھانا کھائو ۔بہت بھوک لگ چکی ہے اب مجھے۔
جتنی زور سے چلائی تھی اب اتنے ہی دھیمے انداز میں کہہ رہی تھئ
مجھے بھوک نہیں۔دونوں نے اپنی اپنی زبان میں اکٹھے کہا تھا
اب یہ فالتو بھوک ہڑتال کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس نے انگریزی میں سمجھانا چاہا تو دونوں سر جھٹک کر اپنے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے
لگتا یے انگریزی سمجھ نہیں آئی انہیں میری۔۔
وہ کندھے اچکا کر بڑ بڑائی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تھکا ہارا جب گھر پہنچا تو گھر خالی تھا۔ وہ سیدھا کچن میں چلا آیا بھوک کے مارے دم نکل رہا تھا۔ ڈھیر سارا کھانا بنا ہوا تھا خوشبو پورے اپارٹمنٹ میں پھیلی تھی۔۔ اس نے ڈھکن ہٹا کر دیگچی میں جھانکا۔بریانی ۔۔ ساتھ ایک پیالے میں کسٹرڈ۔
بریانئ۔ اسکا منہ بن گیا۔ جانے یہ لڑکیاں اس مرچیلی مرغی اورچاول کے ملغوبے کو اتنا شوق سے کیوں کھاتی تھیں۔ اور آج کھایا کیوں نہیں تھا۔ ایک ہفتے میں تیسری باروہ یہ کھانے جا رہا تھا۔ پلیٹ بھر کر ایک چھوٹی پیالی میں کسٹرڈ نکال کر وہ وہیں کائونٹر کا اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ چاپ اسٹکس سے نوالہ بنانا چاہا تو کھلے کھلے چاولوں کے دانے بکھرتے چلے گئے
وہ گہری سانس بھر کر اٹھنے کو تھا کہ اسکے سامنے ایک چمچ لہرایا۔ اس نے چونک کر دیکھا تو فاطمہ اسے چمچ تھما رہی تھئ۔
کھمسا۔۔ شکریہ۔ وہ روانی میں ہنگل بولتے ہوئے ٹھٹک کر انگریزی میں بولا۔
ہے جن کھانا نہیں کھا رہا ۔۔
اس نے جیسے اطلاع دی۔
تو ؟ سیہون کو سمجھ نہ آیا کہ اس میں پریشانی والی کیا بات
عزہ نے بھی نہیں کھایا۔ اس نے ایک اور اطلاع دی۔
تم نے کھایا؟ سیہون نے الٹا سوال کر ڈالا
نہیں ۔ وہ اسکے سامنے والا اسٹول کھینچ کر بیٹھ گئ
وہ گہری سانس لیکر اٹھا دیگچی سے بریانی کی نئی پلیٹ بنائی لا کر سامنے رکھی اسکے۔
مجھے یہ والی بوٹی پسند نہیں۔
فاطمہ نے منہ پھلایا۔ وہ دیکھ کر رہ گیا۔ پھر اپنی پلیٹ سے ٹانگ اٹھا کر اسکی پلیٹ میں رکھی اور وہ بڑی سی ریشے والی بوٹی اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھ لی۔
اتنی مزے کی بریانی بنائی تھی میں نے۔
کوئی کھانے کو تیار ہی نہیں۔ وہ خود بریانی سے ٹھیک ٹھاک انصاف کر رہی تھی۔چمچ ایک جانب پڑا تھا پلیٹ کے۔وہ بھی سر جھٹک کر کھانے لگ گیا۔
واعظہ ہوتی تو دونوں کو سیٹ کر دیتی۔ میری تو سنی ہی نہیں دونوں نے۔ آج کل کے بچے۔ بلکہ نہیں بچے کہنا تو مناسب نہیں۔اتنے بھی چھوٹے نہیں مجھ سے۔
وہ سوچ میں پڑی پھر مڑ کر بند دروازوں کو گھورا۔
یہ بڑے بڑے گھوڑے بد تمیزی کی ہر حد پار کر جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی نہیں کوئی بڑا سامنے کھڑا ۔۔ذیادہ نہ سہی تھوڑی سی تو بڑی ہوں میں۔ تھوڑا سا ہی لحاظ کر لیتے۔
اسکا جتنی رفتار سے منہ چل رہا تھا اتنی ہی رفتار سے زبان بھی۔
واعظہ کہاں ہے۔ ؟ اسے پورے جملے میں بس واعظہ ہی سمجھ آیا۔ سو اسی کی بابت سوال کیا فاطمہ چونکی پھر سنبھل کر انگریزی میں بتایا۔
وہ نور کی طبیعت خراب ہوگئ تو عروج اور واعظہ اسپتال گئی ہیں۔
کیا ہوا اسے؟ وہ چمچ چھوڑ بیٹھا
ٹھیک ہے بس شائد بی پی لو ہوگیا یا کیا بے ہوش ہو گئ تھی۔ وہ بروقت اسپتال لے گئے تھے۔ اسکی حالت تشویش ناک نہیں تھی مگر وہ بے ہوشی میں کچھ بول رہی تھی جس میں انہیں یہی سمجھ آیا کہ اپنوں کو بلا رہی ہے سو ۔۔
فاطمہ کو اسکا انداز تھوڑا عجیب لگا۔ اتنا پریشان کیوں؟۔ لیکن اسکی تسلی کو تفصیل سے بتایا۔۔
واعظہ سے بات ہوئئ؟ ۔اس نے چمچ ابھی بھی نہیں اٹھایا تھا
ہاں وہ کہہ رہی تھی ابھی ہوش میں نہیں اسکی نفساتئ دبائو کی وجہ سے طبیعت خرا ب ہوئی تھی۔ سو اسکو نیند آور دوا دے کر سلایا ہوا ہے۔
فاطمہ کے بتانے پر شائد کچھ تسلی ہوئی تھی اسے۔ سو سر ہلاتا آرام سے کھانا کھانے لگا
بات سنو۔ وہ میری سے تعلق ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا ہے تمہارا؟ ۔
اس نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا ۔
سیہون نے جواب نہیں دیا خاموشی سے کھانا کھاتا رہا
وہ کوئی میرج انشورنس والے آئے تھے مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ تم کب موجود ہوگے۔
اس نے بتانا شروع کیا سیہون کی ساری بے نیازی رخصت ہوگئ۔سخت متوحش سا ہو اٹھا
تم نے بتادیا تم میری بیوی ہو؟
اسکا ردعمل غیر متوقع تو نہیں مگر جارحانہ لگا پہلے تو سوچا مکر جائے مگر پھرسوچا کیا اکھاڑ لے گا غصے میں سو ڈرتے ڈرتے سچ بول ہی دیا
آہ آں ۔ہاں۔ مجھے لگا وہ این جی او والے ہیں۔
ہائش ۔۔ وہ جیسے سرپکڑ کر رہ گیا۔
کیا ہوا؟ کچھ غلط ہو گیا۔کیا
وہ ہمدردی سے اسکی جانب تھوڑا رازداری سے جھک کر بولئ
ہاف۔ وہ بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔
آندے۔ اب کیا ہو سکتا تھا۔ وہ خالی پلیٹ لیکر اٹھ گیا۔۔
میرج انشورنس کیا بلا ہے؟ تم نے اور میری نے تو شادی ہی نہیں کی نا؟ تو انشورنس کیسی؟
اسے سچ مچ تجسس ہو رہا تھا ۔ سیہون سنک میں اپنی پلیٹ اور چمچ دھو رہا تھا وہ بھی اپنی پلیٹ اٹھاتی اسکے پاس چلی آئی۔
ہم پچھلے چار سال سے ایک بانڈ بھر رہے تھے جس کے مطابق جب ہم شادی کرتے تو ہمیں شادی کے اخراجات کیلئے ایک معقول رقم ساتھ ایک تحفتا ہنی مون پلان ملنا تھا۔ اگر ہم ۔۔۔۔۔۔۔
۔ سیہون کو اتنا تو اسکے بارے میں اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ جواب لیئے بنا ٹلے گی نہیں سو بتانے لگا
کمیٹی ڈال رہے تھے شادی کیلئے۔
اس نے سمجھ کر سر ہلایا
ہمارے یہاں یہ کام امیاں کرتی ہیں ۔ جب سے پیدا ہوتی ہیں لڑکیاں۔۔۔ انکے لیئے جوڑ توڑ شروع اور شادی کیلئے چیزیں جمع کرتی ہیں۔پھر کمیٹی کھل جائے تو شادی کے اخراجات اسی سےپورے ہوتے۔ میرا خیال ہے سب ایشیائی ممالک ایک جیسے ہی ہیں۔میری امی نے میرے لیئے اتنا سونا جمع کر رکھا تھا کہ بس ایک اسی وجہ سے کبھی کبھی میرا بھی شادی کرنے کا دل کر ہی جاتا تھا۔
وہ علامہ بن کر تقریر جھاڑتی کافی میکر میں کافی بنانے لگی۔
کافی پیئوگے؟ اس سے بھی پوچھ لیا۔اس نے سر اثبات میں ہلایا تو وہ اسکیلیئے بھی کافی بنانے لگی۔ سیہون نے اسکی استعمال شدہ پلیٹ بھی دھونے کی نیت سے اٹھا لی
تم لوگوں کے ہاں لڑکیوں کی شادی کا خرچ والدین اٹھاتے ہیں۔؟
اس نے یوں سوال کیا جیسے یہ کوئی انوکھی بات ہو۔
ہاں۔ اس نے آرام سے کہا۔ یہاں بھی میں نے ڈراموں میں دیکھا والدین شادیاں کرواتے ہیں خرچ اٹھاتے وہاں بھی ایسا ہی ہوتا۔
اگر والدین ہوں تو نا۔ سیہون نے ہاتھ دھو کر ٹوٹی بند کی پھر پیپر ٹاول اٹھا کر ہاتھ خشک کرنے لگا
مطلب؟ اسے بات سمجھ نہ آئی
میری کے والدین نہیں ہیں۔وہ یتیم خانے میں پلی بڑھی ہے جبھی اپنی شادی کیلئے سارے اخراجات اٹھانے کیلئے اس نے انشورنس کرارکھی تھی۔
تو کلیم کروا کر تم سے شادی کیوں نہیں کی؟ اسے انکے رشتے کے ختم ہونے کی وجہ سمجھ نہ آئی۔
سیہون نے گہری سانس لی
۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد ۔۔۔۔ جاری ہے