Desi Kimchi Episode 59

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 59
وہ اور واعظہ اکٹھے بس سے اتری تھیں۔۔۔ اسٹاپ سے آگے دو گلیوں کا پیدل کا راستہ تھا جس کے فٹ پاتھ پر خراماں خراماں چلتے وہ ہمیشہ نان اسٹاپ بولتی اور واعظہ سنتی تھی۔
یار کوریا دن بہ دن گرم نہیں ہوتا جا رہا ہے؟ ان دنوں تو ہماری قلفی جم جاتئ تھئ۔۔
فاطمہ نے کہا تو وہ رسان سے بولی۔
اب تمہیں یہاں رہنے کی عادت پڑ گئ ہے۔۔۔
میں جب این جی او میں کام کرتی تھی نا تب ایک رپورٹ آئی تھی کہ کوریا میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسم دن بہ دن گرم ہو رہا ہے ایک دن پاکستان جیسا موسم ہو جائے گا۔۔۔۔
اسے واقعی فکر ہو رہی تھی۔
ہممم۔
جواب مختصر تھا۔
پاکستان میں بھی گرمی ہی آرہی ہے جب یہاں موسم گرم ہوگا تو وہاں تو گرم ترین ہی ہو جائے گا۔ میں یہیں رہا کروں گئ۔ گرمی تو بالکل پسند نہیں۔ پسینہ آجاتا ہے دھوپ میں۔
اس نے س رپر چمکتے سورج کو پیار سے دیکھا۔
یہاں سن کس ہی کرتا ہے پاکستان میں تو سورج عمران ہاشمی۔
اسکی بات پر واعظہ نے ترچھی نگاہ ڈالی تو وہ جملہ ادھورا چھوڑ گئ۔
پتہ ہے میرے ایک کزن کا نام بھی عمران ہے۔۔۔
اچھا۔۔۔
قدم بہ قدم منزل قریب ہو رہی تھی اسکی اوٹ پٹانگ باتیں مزید بڑھ رہی تھیں۔
انکی بھی شادی نہیں ہوئی ۔۔ امی چاہتی تھیں ہماری آپس میں ہو جائے مگر انکی شکل ہی عمران ہاشمی جیسی ہوتی تو مان جاتی انکی شکل نانا پاٹیکر سے ملتی ہے۔ بولتے تو بالکل
میرا کی طرح ہیں۔ بن بن کے۔۔
فاطمہ کو پہلی بریک فون کال سے لگی تھی۔
واعظہ ذہن میں نانا پاٹیکر کے چہرے پر میرا کی آواز ڈب کرتی رہ گئ۔
یوبوسیو۔
اس نے انجان نمبر دیکھ کر لہک کر فون اٹھایا۔
آگے گٹ پٹ کورین تھی۔ حسب عادت خوب اونچی آواز۔ واعظہ کے تصور کو بھئ بریک لگی ۔۔۔
چھے سونگیو ( معاف کیجئے گا) وہ کہنے ہی والی تھی میں معزرت خواہ ہوں کورین سمجھ نہیں سکتی اچھی طرح وغیرہ کہ واعظہ نے فون جھپٹ لیا۔ واعظہ رواں ہنگل میں فاطمہ بن کے بولی تھی۔
دے۔۔ پہلا تاثر جی۔۔۔
دے۔۔۔ دوسراتاثر حیرت بھری خوشی
دے۔ دے۔۔ آ دے۔۔ ۔۔۔۔ تیسرا تاثرہاں ہاں کیوں نہیں۔۔
گھمسامنئیدہ۔ دے۔۔ آننیانگ۔۔
فون بند کرتے وقت تک چہرے پر چار سو چالیس والٹ کے بلب جگمگ کرنے لگے تھے۔
مبارک ہو۔ وہ فورا اسکے گلے لگ گئ۔
خیریت۔ فاطمہ سمجھ نہ پائی۔
تمہیں انٹرویو کیلئے بلایا ہے ڈاکٹر جانسن اکیڈمی آف لنگوئسٹکس اینڈ لینگوئج میں۔ بین القوامی طلباء کیلئے ایک پرائئوٹ اکیڈمئ ہے یہ انگلش ٹیچر کے طور پر۔۔۔
واعظہ نے اسے گول گول گھما دیا تھا۔
ہیں مگر کیوں؟ فاطمہ کو حیرت اور اعتراض دونوں ہوئے
میں نے تو اپلائی بھئ نہیں کیا تھا۔
اسکی حیرت بجا تھئ۔
میں نے اپلائی کیا تھا تمہاری طرف سے۔ واعظہ نے اسکی پیشانئ بجائئ۔
اب کل اچھی طرح تیار ہو کر انٹرویو دینے جانا۔
واعظہ کے کہنے پر اس نے آنکھیں سکوڑ کر اسے دیکھا ۔۔ اب اسے گول گول گھمانے کی باری اسکی تھی
سچ میں تم نے مجھے بہن بھائیوں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ بلکہ کبھی کبھی تو ماں کی بھی۔ اتنا خیال کیسے رکھ لیتی ہو میرا۔
فاطمہ اس سے لپٹ کر ہانکے جا رہی تھی
پاس سے گزرتی ان بوڑھی کورین خاتون نے خاصے ناگوار انداز سے انہیں گھورا۔
ماں ہے یہ میری۔
فاطمہ نے ہنگل جھاڑی۔
اس بار وہ منہ ہی منہ میں شائد گالیاں بھئ دینے لگی تھیں۔
اب ان آنٹی سے پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی۔ واعظہ کو ہنسی آگئ۔
تاکہ میری واعظہ ہنس دے خوش ہو جائے۔
فاطمہ نے پیار سے اسکے گال پر چٹکی لی۔ آئی ہوئی ہنسی بھی سمٹنے لگی اسکے چہرے سے۔۔
چلو دیر ہو رہی ہے۔ وہ رخ پھیر گئ۔ فاطمہ اب کل کے کپڑے منتخب کرنے لگی۔
میں کل ریڈ ٹاپ پہنوں گی۔ریڈ میں نے آج تک انٹرویو میں نہیں پہنا یقینا لکی ثابت ہوگا۔
اسکی اپنی ہی منطق تھئ۔۔۔ ا
واعظہ نے سر جھٹکا۔ سامنے سے محتاط قدم اٹھاتا کھاوا چلا آرہا تھا۔ اس نے بغو ردیکھا وہ تھوڑا سا لڑکھڑا کر چلتا تھا۔ اتنا ذیادہ کہ شائد پہلی نظر میں دیکھنے والوں کو احساس ہو جاتا ہو اتنا کم کہ اسے اتنی دفعہ دیکھ کربھئ پتہ نہ لگ سکا۔
کندھے پر سے کراس میں ایک چھوٹا سا بیگ لٹکائے گرے اپر جو اب اسکی پہچان بن چکا تھا مگر کالی سیاہ پینٹ جو لشکارے ما ررہی تھی سر پر بلیک کیپ ایک ہاتھ پر سفید پٹی باندھے۔ وہ سرجھکائے ہوئے تھا اسکو پکارنا ہی پڑا ۔
اوئے کھاوا۔ اس نے وہیں سے پکارا وہ چونک کر رک گیا۔
اچھا پھر ملتے ہیں بائے واعظہ۔ وہ جلدی جلدی اسے الوداع کہتی بھاگتی ہوئی کھاوا کے پاس آئی
یہ ہاتھ کو کیا کرلیا۔ ا س نے بنا سلام دعا سوال داغا تھا۔ وہ مسکرا دیا۔
اسلام و علیکم کیسی ہو آپ؟
اسے آداب یاد تھے مگر۔
وعلیکم السلام یہ کیا کیا ؟ لڑے ہو کسی سے؟
فاطمہ نے دھرایا تو وہ جانے کس دھیان میں تھا سچ بول گیا۔
وہ سوجو کی بوتل پٹخ دی تھی زمین پر وہ ٹوٹ کر ساراکانچ ہاتھ میں۔۔ بولتے بولتے احساس ہوا توزبان دانتوں تلے دبا لی
تمہیں سوجو کی بوتل دیکھ کر شرارتیں کیوں سوجھتی ہیں اس دن بوتل میں تھوک دیا اب بوتل زمین پر پٹخ دی۔ بے چاری بوتل۔۔ وہ ہمدردی سے کہتے ہوئے اسکی پٹی دیکھنے لگئ۔۔
بڑئ آئی بے چاری بوتل۔ وہ چڑ گیا۔ بے چارہ میں کہو۔ میں تو سو بھی گیا تھا صبح آنکھ کھلی شکر ہے ذیادہ گہرا زخم نہیں تھا ورنہ ساری رات خون بہتا اور صبح تک ۔۔
اچھا صبح صبح منحوس باتیں نہیں کرتے ۔ وہ فورا ٹوک گئ۔
منحوس دن گزرتا۔ چلو آج عبداللہ کی شکر ہے کوئی شوٹ نہیں۔ بس لیلی کو دیکھنا ہوگا۔ لیلی ویسے اچھی لڑکی ہے۔ عبداللہ سے تو لاکھ درجے بہتر ہے۔
وہ بولتے ہوئے چلنے لگی تو کھاوا نے بھئ تقلید کی۔ اسکے ہم قدم چلتے کھاوا نے ایک نظر اسکے مطمئن چہرے پر ڈالتے سوچا
اس لڑکی میں کچھ تو ایسا ہے کہ ۔۔۔۔ س نے غور سے اس گھنگھریالے بالوں والی لڑکی کو نگاہوں میں بھرا۔۔
کہ۔ اس نے گھبرا کر نگاہ جھکا لی۔
مجھ جیسے انسان کوکوئی حق نہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ای جی آ کی شوٹ چل رہی تھی وہ ایک کونے میں بیٹھی جمائیاں لے رہی تھی۔ اسکے شیڈول کے مطابق آج اسکو ایک مقامی برانڈ کے نئے کھلنے والے اسٹور کی افتتاحی تقریب میں جانا تھا۔ آج کچھ ذیادہ ہی نیند آرہی تھی۔ ای جی آ شوٹنگ میں بری طرح مصروف تھی۔ اس نے سوچا پھر چپکے سے کھسک لی۔ سیدھا وہ ای جی آ کے میک اپ پلس چینجنگ روم میں آئی تھی۔
کونے میں رکھے صوفے پر اس نے ای جی کا فروالا کوٹ تکیئے کے طور پر سر کے نیچے رکھا ایک چھوٹا سا کمبل ای جی آ عموما اپنی ٹانگوں پر ڈالنے کے لئے پاس رکھتئ تھی اسی کو اوڑھا۔ لمحوں میں بے خبر ہوگئ۔ کافئ دیر بعد آنکھ کھلی تو کافی تازہ دم ہو چکی تھی۔
کمبل ایک طرف رکھتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی۔ موبائل چیک کیا تو ایک مسڈ کال پڑی تھی بس سیہون کی۔
اسکا کال بیک کا ارادہ نہ تھا سو اطمینان سے اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوکر بال سنوارنے لگی۔ویٹ وائپس سے چہرہ صاف کیا۔ مگر سونے کے آثار نہ مٹے۔ چہرہ سوجا سوجا لگ رہا تھا۔ اس نے گہری سانس لی پھر پورا میک اپ کرنے لگئ۔ چھوٹا آئینہ اٹھا کر ٹچ اپ کیا تیار ہو کر خود پر مطمئن سئ نظر ڈالتی وہ اپنا موبائل اٹھا کر مڑی ہی تھی کہ عجیب سا احساس ہوا۔اس نے پلٹ کر شیشہ اٹھا لیا۔ میک آپ آسانی سے ہو سکے اسکے لیئے جو چھوٹا شیشہ رکھا تھا مسلسل اس سے ہی میک اپ کیا تھا اس نےاسکے گرد بٹن برابر ننھے ننھے سے ایل ای ڈی لگے تھے تاکہ چہرے پر روشنئ پڑتی رہے ان ننھے ننھے قمقموں میں سب جل رہے تھے بس ایک شائد خراب تھا۔ اس نے اس خراب والے بٹن کو غور سے دیکھا۔ پھر اس شیشے کو پلٹ کر زمین پر پوری قوت سے دے مارا۔
دروازہ کھول کر آتی ای جی آ دہل گئ
کم چھاگیا۔ دھڑ دھڑ کرتے دل کو تھامتے اس نے الجھن بھری نگاہوں سے واعظہ کو دیکھا جو شیشہ توڑنے کے بعد اس شیشے کے فریم کو ٹٹول رہی تھی۔ ایک ننھا سا قمقمہ۔دیگر قمقموں سے مختلف تھا۔ وہ اسے چٹکی سے پکڑ کر روشنی کی طرف کرکے اونچا کرکے دیکھ رہی تھی۔ ای جی آ ساکت سی ہوگئ۔ وہ ایک ننھا سا کیمرہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چینل مینجر ڈائکریکٹر اسٹاف اسسٹنٹ پروڈیوسرسب اس کمرے میں جمع تھے۔ انکی ٹیلنٹ کمپنی کے مینجر بھی آچکے تھے۔
جب تک آپ اس کیمرے کو نصب کرنے والے کا پتہ نہیں لگا لیتے ہم مزید کوئی شوٹ جاری نہیں کر سکتے۔
انکی کمپنی کے مینجر نے دوٹوک اعلان کیا تھا۔ ای جی آ کی آنکھیں سوجی ہوئئ تھیں۔ جانے کیا اسکینڈل اسکے انتظار میں تھا۔
بالکل ہم اس کیمرے کی جڑ کا پتہ لگائیں گے اس کا ڈیٹا بھئ نکلوائیں گے مگر یہ دونوں کاموں کیلئے وقت لگتاہے۔۔
پروڈیوسر نے متانت سے سمجھانا چاہا
ٹھیک ہے جتنا وقت لگے گا اتنے وقت شوٹنگز کینسل سمجھیں۔
سر جان بے لچک انداز میں بولے تھے۔
دیکھیئے ہم بالکل اس معاملے کو ڈھیلا نہیں چھوڑ سکتے ہم ضرور پتہ لگائیں گے سخت سزا بھئ دیں گے لیکن شوٹ جاری رکھئے ڈرامہ آن ائیر جا رہا ہے ہمارے شوٹنگز کے دن پیک ہیں ہم ایک دن۔۔
ڈائرکٹر اور پروڈیوسر کی حالت پتلی تھی مگر مینجر صاحب بری طرح گرجے
ہماری کمپنی کی اداکارہ کے ڈریسنگ روم میں کیمرہ لگا ہوا ہے جانے کس قسم کی ویڈیوز بنائی جا چکی ہیں ان ویڈیوز کا کوئی بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور آپ کہہ رہے ایسے غیر محفوظ ماحول میں ہم اسکو کام کرنے پر مجبو رکریں۔
ان ویڈیوز کے ذمےدار کا پتہ لگائیں پھر مزید کوئی بات ہوگی۔
دیکھیں یہ اتنا آسان کام نہیں یہاں لابی میں کیمرہ لگا ہے۔ ہمیں اسکے فوٹیج نکال۔کر دیکھنے پڑیں گے۔ پھر اس کمرے کی چابی آپکی اداکارہ کے مینجر کے پاس ہے یا اسٹاف مینجر کے پاس۔جب تک شوٹ جاری ہے یہاں ان دونوں کی اجازت کے بغیر کوئی نہیں آسکتا۔ صفائی تک آپکی مینجر اپنی نگرانئ میں کرواتی ہے۔
چینل مینجر نے سارا ملبہ واعظہ پر ڈال دیا ۔۔ وہ آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگی۔
جی بالکل۔ عموما ایسے اسکینڈلز میں مینجرز وغیرہ ہی کسی نہ کسی طرح شامل ہوتے ہیں اور آپ نے تو ایک غیر ملکی پر اتنا بھروسہ۔۔۔
ڈائرکٹر کو۔جیسے کمک ملی۔تھی۔
دیکھیں آپ ہماری ملازم پر الٹے سیدھے الزام لگانے کی بجائے اپنے ملازمیں سے پوچھ گچھ کریں۔ ہم غیر ملکی مینجر رکھیں یا ہنگگ ہمارا مسلئہ ہے۔
مینجر صاحب کڑک کر بولے
اور واعظہ کے پاس چابی نہیں ہے میرے پاس ہے۔
ای جی آ بھی تلملا گئ۔
خود کو بچانے کا اچھا طریقہ ہے کہ دوسروں پر ملبہ ڈال دو۔۔ چابی میرے پاس ہوتی ہے اور ابھی بھی مجھ سے چابی لیکر ہی واعظہ آکر یہاں سوئی تھی۔اور صرف ہمیں چابی تو نہیں دے رکھی ہوگئ آپ لوگوں نے ماسٹر کی کس کے پاس ہوتی ہے صفائی کا نگران کون ہے ان سے پوچھیں آپ۔ کون آخری بار آیا تھا یہاں۔ کون ایسا انسان آیا جس کا کوئی کام نہیں اس کمرے میں۔
ای جیا کی باتوں کا انکے پاس جواب نہیں تھا۔۔ آئیں بائیں شائیں کرتے نظریں چرانے لگے۔ واعظہ اسکو دیکھ کر رہ گئ۔ اسے بولنے کی ضرورت بھی نہ پڑی تھی۔ ۔۔۔۔اور ای جیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک ٹھرکی انسان ہوں۔ لڑکیاں تاڑنا میرا مشغلہ ہے۔ مجھے دیکھتے ہی لعنت بھیجا کریں آپ ۔۔
عبداللہ نے لہک لہک کر کہا تھا۔ اسکی ویڈیو بناتے فاطمہ نے بمشکل ہنسی روکی۔
اسکو بھیجو مجھے بھی۔ عبداللہ کے چہرے پر اشتیاق تھا
ہاں کیوں نہیں۔ فاطمہ نے زور و شور سے سر ہلاتے اپنا موبائل لاک۔کرکے بیگ میں ڈال لیا تھا۔ وہ دونوں اس وقت سیٹ پر ہی ایک کونے میں میز کرسی پر۔بیٹھے تھے۔ بلکہ بیٹھی تو بس فاطمہ تھی۔ اسے بیٹھا دیکھ کر۔خود ہی وہ ادھر چلا آیا تھا۔
ابھی۔۔ وہ اتنا بھی احمق نہیں تھا۔۔
ہاں مگر میں اسکو اپنے انسٹا پر اپلوڈ کرکے ٹیگ کروں گی آپکو۔
فاطمہ نے یقین دلایا۔
میرا انسٹا گرام نکالو۔ اس نے مڑ کر عربی میں اپنے مینجر کو کہا۔ وہ بھاگا بھاگا موبائل لیئے آیا۔
اپنا انسٹا گرام نکالو۔
عبداللہ کے کہنے پر اس نے مرے مرے انداز میں اپنا پروفائل انسٹا پر۔ڈھونڈ کے اس سے فالو کروایا۔
میں بھی ٹیگ کروں گا ویڈیو میں تمہیں۔ وہ مزید کہہ رہا تھا۔
چہرے پر سو واٹ کے بلب یوں جل رہے تھے جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئ ہو۔
کھاوا لیلی کو مکالمے یاد کروا رہا تھا دور سے اسکی بے زار شکل بنائے بیٹھی فاطمہ اور مسلسل بات سے بات نکال کر اسکا دماغ کھاتے عبداللہ پر پڑی۔ لیلی کو مکالمہ یاد کرنے کا کہہ کر وہ ادھر ہی چلا آیا۔
تمہارے آنکھیں خوبصورت ہیں فاطمہ۔ وہ وائن کی چسکیاں لے رہا تھا۔۔
فاطمہ چیں بہ چیں سی ہوئی۔۔
پاکستانی لڑکیاں سب ہی اتنی خوبصورت ہوتی ہیں یا بس ایک تم میں ہی الگ سا حسن نظر آتا ہے مجھے۔
عبداللہ نے کہتے ہوئے اسکا ہاتھ بھئ پکڑ لینا چاہا تھا۔وہ سرعت سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
خوبصورت تو آپ بھی ہیں مگر جانتے ہیں شراب پیتے ہوئے بدشکل۔ترین انسان لگتے ہیں اور بہک کر تو اور بھی گھٹیا۔
اسکے ہاتھ کو۔گھورتے وہ چبا چبا کر بولی۔
عبداللہ نے کھل کر قہقہہ لگایا ۔۔
تم بہت دلچسپ لڑکی ہو۔ میں نے تمہارے جیسی لڑکی نہیں دیکھی۔۔۔ ہا ہا ہا۔
وہ ہنستا گیا۔ فاطمہ جز بز سی اسے دیکھتئ رہی۔ اس نے اپنی طرف سے بے عزت کرکے رکھا تھا مگر مقابل بھی کوئی ڈھیٹ انسان تھا
ادھر دیکھو کتنی خوبصورت سرخ سرخ سی شراب ہے پیاری دلکش۔ میں اسے پیتے ہوئے برا کیسے لگ سکتا ہوں۔
اس نے معصوم۔سی شکل بنائی۔
یہی دلکش شراب مسلمانوں کیلئے پینا حرام بھی قرار دیا گیا ہے۔ اگر آپ نام کے بھی مسلمان ہیں تو یہ بات آپکے علم میں ہوگی ہی۔
وہ چڑ کر کہتے اپنا بیگ اٹھا کر کندھے پر لٹکا کر جانے لگی عبداللہ نے ٹانگ سیدھی کرکے اسکا راستہ روکا۔ وہ الجھ جاتی بروقت سنبھلی۔
مجھے تو کسی نے یہ بھی بتایا تھا کہ حوریں جنت میں ملا کرتی ہیں تم دنیا میں کیسے آگئیں۔
عبداللہ آنکھیں پٹپٹا رہا تھا۔اسے اپنی ساری برداشت رخصت ہوئی محسوس ہوئئ
تمہیں دنیا میں تمہارے کرتوتوں کا عذاب دینے آئی ہوں۔ اس نے چبا چبا کر کہتے اسکی ٹانگ کو ٹھوکر لگانی چاہی مگر وہ چوکنا تھا۔تیزئ سے پیر سمیٹتا اٹھااور اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔
مجھے لڑکیوں کا نخرا پسند ہے مگر لڑکیوں کو بھولنا نہیں چاہیے کہ وہ فطرتا نازک پیدا کی گئ ہیں۔ اس نے مسکرا کر اسکی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔
فاطمہ کی پیشانی شکن آلود ہوئی۔ اس نے مٹھی بھینچی۔۔
عبداللہ۔ عبداللہ۔ مسلئہ ہوگیا ہے تمہارے سین میں آواز تو ریکارڈ ہی نہیں ہو سکی۔
کھاوا بولتا ہوا آیا تھا فاطمہ کی طرف توجہ کیئے بنا اس نے عبداللہ کوبازو سے پکڑ کر کھینچ ہی لیا تھا۔
کون سے سین میں۔۔
وہ بازو چھڑا رہا تھا یقینا اسے یہ۔دخل۔درمعقولات بری لگئ تھی۔ اسکا مینجر بھئ تیزی سے لپکا۔ مگر کھاوا نے مہلت نہ دی
ادھر تو آئو۔ وہ اسے کھینچ کر ساتھ ہی لے گیا۔ فاطمہ نے ایک نظر ان دونوں کو دور جاتے دیکھا پھر اپنی بھینچی ہوئی مٹھی میز پر مار دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ای جی آ گھر جانے کو تیار نہ تھی۔ بلکہ بضد تھی کہ سی سی ٹی وئ فوٹیجزبھی دیکھے گی۔ چینل والوں کے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے ٹیپیں نکلوا کر خاص اسٹوڈیو روم میں پلےکروائیں۔ سیکیوریٹئ روم سے اگر یہ بات لیک ہو جاتی تو ای جی آ سے ذیادہ چینل کو مصیبت پڑ جاتی۔
اسٹاف میمبرز خاکروب کے سوا بس ایک ہی شخص داخل ہوا تھا اس ڈریسنگ روم میں۔ گرے اپر اور پرانی سی جینز میں ملبوس۔
ای جی آ نے فورا پہچان لیا تھا۔ واعظہ نے چونک کر ای جی آ کی شکل دیکھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی کے وقت وہ حسب عادت باہر نکل کر احاطے میں لگی پھولوں کی کیاری پر آن بیٹھئ۔
واعظہ کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔اسٹاپ تک وہ اکٹھی ہی جاتی تھیں بس بھی ایک تھی بس اسٹاپ اسکا پہلے آتا تھا۔۔
کھاوا باہر نکلا تو اسکو دیکھ کر اسکے پاس ہی چلا آیا۔۔
ہیلو ہیلو۔ کیا ہورہا ہے۔
مچھلی پکڑ رہی ہوں۔
فاطمہ بے نیازی سے بولی۔وہ شرمندہ سا ہوکر کان کھجانے لگا۔
کوئی جواب نہ آیا تو فاطمہ نے سر اٹھا کر دیکھا پھر موبایل کی اسکرین اسکی جانب کرکے دکھایا۔
وہ کوئی آن لائن گیم کھیل رہی تھی۔شارک خود تھئ اور مچھلیوں کا شکار کرتی سمندر کے اندر پھر رہی۔تھی۔
اوہ اچھا۔ کھاوا ہنس دیا۔
تمہاری جان چھوڑ دی عبداللہ نے ۔۔ آج تو دن کے وقت ہی ٹن ہوا پھر رہا تھا۔ اتنی شراب پیتا ہے ڈائلاگ کیسے یاد کرتا ہے؟۔
اسے واقعی حیرت تھئ اس بات کی۔
عادی ہے۔ اور ہولڈ بھی اچھا کرتا ہے۔ آسانی سے بہکتا نہیں ہے۔ ویسے ہینگ اوور سوپ بھی دے کر آیا ہوں اسے۔ سو گیا تھا۔۔ وہیں ڈریسنگ روم میں۔
کھاوا لاپروائی سے بولا۔ اس نے داہنی ٹانگ پر ذیادہ وزن ڈال رکھا تھا۔ جبھئ پہلو بھی بدل رہا تھا۔ سیہون نے گاڑی پارک کی تھئ سامنے۔ اسے دیکھ کر مسکرایا
وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
تم۔گھر جائو گے؟
ہاں ارادہ تو یہی ہے۔ وہ پہلو بدلتا سرسری سے انداز میں بولا۔
آنیانگ ہاسے او۔ سیہون نے قریب آکر سلام کیا
آننیانگ۔ کھاوا نے بھئ جھک کر جواب دیا
واعظہ کہاں ہے کب سے فون کر رہا ہوں اٹھا نہیں رہی۔میرا فون۔
سیہون نے بلا تمہید پوچھا۔
پتہ نہیں میرا بھی نہیں اٹھا رہی ہے مصروف ہوگی۔فاطمہ نے کندھے اچکائے۔
بہت ہٹیلی ہے یہ لڑکی۔ اب ناک سے لکیریں کھنچوائے گئ کیا مجھ سے۔ ۔ سیہون کو غصہ آرہا تھا۔ جبھئ کھاوا کے سامنے ہنگل میں بڑبڑا گیا۔
کھاوا نے سوالیہ نگاہوں سے فاطمہ کو دیکھا ۔ وہ سمجھ کر تعارف کرانے لگی۔
کھاوا یہ سیہون ہیں میرے شوہر اور سیہون یہ کھاوا ہیں میرے ساتھ کام کرتے ہیں۔
اس نے شستہ انگریزی میں تعارف کرایا تھا۔
نائس ٹو مئٹ یو۔ سیہون نے مسکرا کر ہاتھ بڑھایا۔ کھاوا نے تھامتے ہوئے تصحیح کروانا چاہا۔
واعظہ کے ہسنبڈ۔۔؟
فاطمہ ہنسی۔ سیہون کے چہرے پر جھینپی سی مسکراہٹ در آئی۔
ہیں تو میرے مگر واعظہ سے انکی بہت دوستی ہے۔ دراصل بچپن کے دوست ہیں یہ ایک دوسرے کے۔ انفیکٹ یہ آج مجھے نہیں واعظہ کو ہی لینے آئے ہیں ۔۔۔
فاطمہ نے کہا تو سیہون شرمندہ سا ہوگیا۔
گاڑی میں آیا ہوں ظاہر ہے تمہیں بھی ساتھ لے کرجاتا۔
تم نے کہاں جانا ہے کھاوا؟ آئو ہم تمہیں بھی چھوڑ دیں۔۔
فاطمہ نے کہا تو وہ چونک کر سنبھلا۔
نہیں شکریہ۔۔ میں ذرا ابھی پارٹ ٹائم جاب پر جائوں گا۔
چلو جیسے تمہاری مرضی پھر ملتے ہیں۔۔۔ فاطمہ نے کہا تو وہ سر ہلاتا ان دونوں سے معزرت کرتا تیزی سے بس اسٹاپ۔کی۔طرف چل۔پڑا۔
اسکو کوئی چوٹ لگی ہے کیا ؟
سیہون نے پوچھا تو وہ۔جانے کیوں چڑ گئ۔
ایک تو اسکا ذرا سا لڑکھڑا کر چلنا فورا سب نوٹس کر لیتے اس ایک ذرا سی کمی کے سوا وہ اچھا خاصا انسان ہے اسے خود اتنا احساس نہ ہوگا کہ اسے چلنے میں مسلئہ ہے جتنا دوسرے محسوس کرتے ہیں۔
سیہون نے منہ کھول کر اسکی تقریر سنی۔
ویسے ہی پوچھ لیا مجھے لگا کوئی تازہ چوٹ ہے۔ تم تولڑنے کو تیار ہو۔ پاکستانی لڑکیاں سبھی لڑاکو ہوتی ہیں کیا۔
سیہون نے جان کے چھیڑا۔
پاکستانئ لڑکیاں لڑاکو ہوں نہ ہوں دنیا بھر کے لڑکے شر پسند ہوتے ہیں ہر وقت لڑکیوں کو برا بھلا کہنے کو تیار۔
وہ کیوں پیچھے رہتی چمک کر بولی۔۔ سیہون نے محظوظ ہو کر قہقہہ لگایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے گیارہ بجے وہ واپس آئی تھی۔ آج دروازے پر ڈانٹنے والی نہ ابیہا تھی نا عروج اس نے دستک دینے کو ہاتھ بڑھایا پھر رک کر پاس کوڈ لگانے لگی۔ اندر شائد سب سوگئ تھیں۔ لائونج میں ملگجا اندھیرا تھا۔ اس نے بھئ لائٹ جلانے کی کوشش نہ کی۔ لائونج میں جما دینے والی سردی تھی۔ اس نے حیران ہو کر ادھر ادھر دیکھا مگر سردی کا منبع سمجھ نہ آیا۔ پہلے کمرے کا دروازہ کھول کر اند رجھانکا۔ عزہ اور عشنا ڈبل بیڈ پر بے خبر سو رہی تھیں۔ تیسرا بیڈ خالی تھا۔ اس نے احتیاط سے دروازہ بند کردیا۔
اپنے کمرے کا دروازہ کھولا صاف شفاف بستر بے شکن چادر۔ اس نے دروازہ بند کرکے لائونج کی لائٹ جلا دی۔ لائونج خالی تھا۔ الف یا تو گھر نہیں آئئ۔۔ یا۔ اس نے بازو سکیڑے۔ گیلری کا دروازہ نیم وا تھا۔ اف اس نے فورا آگے بڑھ کر بند کرنا چاہا تو چونکی۔ گیلری میں ریلنگ پر دونوں کہنیاں رکھے اپنے ہاتھوں پر نگاہ جمائے الف گہری سوچ میں گم تھئ۔
خودکشی کا ارادہ ہے تو سردی میں کانپ کانپ کر مرنے سے بہتر ہے چھلانگ لگا لو۔۔۔
اسکے مفت مشورے پر الف چونکی پھر جب بات سمجھ آئی تو پلٹ کر گھورا بھی۔
صحیح کہہ رہی ہوں۔ کم ازکم بھی پانچویں منزل پر ہو پکا گر کر مروگی بچنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ واعظہ نے گلاس ڈور سے ناک چپکائی
بکواس نہ کرو۔ وہ چڑ گئ۔
بکواس ایک تو مرنے کے آسان طریقے بتا رہی ہوں۔ واعظہ برا مان گئ۔
تم کیوں مارنا چاہ رہی ہو کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا وقت پر۔کرایہ تک۔دیتی ہوں۔
الف بھنائئ۔۔
اب کیسے دو گئ؟ ریڈیو کی نوکری تو چھوڑ دی۔
واعظہ نے جتایا۔ وہ واعظہ کو دیکھ کر رہ گئ
کر لوں گی کچھ نہ کچھ۔ وہ بڑبڑانے والے انداز میں بولی
کیا ؟ آواز نہیں آئی۔ واعظہ نے گلاس ڈور سے کان باہر نکالا۔
کرلوں گی کچھ نہ کچھ جان چھوڑدو میری ۔۔
وہ بری طرح چلائی۔ واعظہ کو اپنا کان گلاس ڈور سے باہر نکالنے کے فیصلے پر افسوس سا ہوا۔ ٹھنڈا اور سن اکٹھے ہوا تھا
اچھا۔۔ آآآاااا۔ وہ کان سہلاتے ہوئے گھورنے لگی۔
وہ دیکھو ژیہانگ۔
اکدم اسکے پیچھے چونک کر دیکھتے اس نے پکارا۔ الف اسے یونہی گھورتی رہی۔
اچھا جا رہی ہوں۔ کافی پیئو گئ؟
واعظہ پسپائی اختیار کرتی دروازہ بند کرنے لگی۔
اس نے جواب دینے کی بجائے رخ پھیر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو کپ کافی بنا کر اس نے دزدیدہ نظروں سے لائونج میں آلتی پالتی مارے کارپٹ پرصوفے کی نشست سے ٹیک لگائے بیٹھی الف کو دیکھا جو کچن کی جانب رخ کیئے اسے ہی گھور رہی تھی۔
اس نے تھوک نگلا۔
کپ لاکر اسے تھمایا اور خود اسکے برابر آبیٹھئ۔
تم نے یہ بات اور کسی کو تو نہیں بتائی۔
کافی کا گھونٹ لیتے الف نے تشویش ذدہ انداز میں اس سے پوچھا
بس اپنے بلاگ پر لکھا ہے اسکے بارے میں ایک یوٹیوب ویڈیو بنائی ہے کمپنی کی جانب سے میڈیا کو دیا جانے والا بیان بھئ میں نے لکھا ہے۔ واعظہ نے گھونٹ بھرتے ہوئے سرسری انداز میں بتایا۔
کیا؟ الف کو خاک پتھر سمجھ نہ آیا۔
یہی کہ ای جی آ کی طبیعت خراب ہے اسلیئے وہ شوٹنگز سے گیپ لے رہی ہے۔ واعظہ نے بتایا تو وہ اپنا سر پیٹنے والے انداز میں بولی
تمہاری اس ای جیا پیجیا کی نہیں میں اپنی اور ژیہانگ کی بات کر رہی ہوں۔
واعظہ نے بڑا سا گھونٹ بھرا پھر کپ ایک طرف رکھتی اسکی جانب مکمل رخ موڑ کر بیٹھ گئ۔
تم خود چلتا پھرتا اشتہار بنئ ہوئی ہوکٹھ کھنی بلی بنی سب کو پنجے مار رہی ہو کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے سردی میں کھڑی آہیں بھر رہی تھیں اس سے تو صاف اندازہ ہو رہا ہے محترمہ کو محبت ہوگئ ہے۔۔۔
واعظہ نے کہا تو وہ تھوڑی شرمندہ ہوئی۔
یہ سب اتنا واضح تھا سب پر۔ اس نے سر کھجایا
خیر اب تم میرا کریڈٹ تو نہ دو سب کو۔ واعظہ برا مان گئ
سو فیصد شیو رتو کوئی نہیں تھی اور جس نے اندازہ بھی لگایا اسے یہی لگا ایکسو کا کوئی ممبر ہوگا بلکہ سیہون ہوگا۔
یہ تو میں نے حکیمی کا نسخہ آزما کر اصل معاملہ پکڑا
وہ فخریہ بولئ۔
حکیمی نسخہ؟ الف ہکا بکا رہ گئ
ہاں نا ۔۔ اس نے کافی کا مزید بڑا سا گھونٹ بھرا یعنی اب لمبی بات تھی۔ الف ہمہ تن گوش تھی۔ واعظہ رازدارانہ انداز میں اسکے قریب آکر سابقہ والیم میں ہی بولی
ایک بار ایک لڑکا تھا اس نے تمہاری طرح کھانا پینا چھوڑ دیا مگر تمہاری طرح لڑنے بھڑنے۔۔ (الف کی گھوری)
کی بجائے گم صم سا ہوگیا۔ بڑا علاج کرایا اسکے والدین نے افاقہ نہ ہوا۔ وہ اسے ایک حکیم کے پاس لے کر گئے۔ حکیم صاحب نے اسکا معائنہ کیا بیماری کی تشخیص نہ کر سکے۔ اسکی نبض پکڑی یا پتہ نہیں دل پر ہاتھ رکھا یاد نہیں۔ اب انہوں نے اس علاقے کی سب غیر شادی شدہ لڑکیوں کے نام لینے شروع کیئے۔ ایک نام پر اسکے دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔ بس حکیم صاحب سمجھ گئے موصوف اس لڑکی سے محبت کربیٹھے ہیں۔ واعظہ قصہ سنا کر داد چاہنے والی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی
اور تم نے یہ قصہ فضول میں کیوں سنا دیا مجھے۔ الف کے تیور کڑے تھے
بھئ یونہی اس دن ائیر پورٹ پر یونہی اچانک میں نے ژیہانگ کو پکارا تو سوائے تمہارے کسی نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔تو سیدھا نتیجہ نکلا کہ۔۔ واعظہ نے کہا تو اس نے دانت پیسے
میرے سوا اور کون ژیہانگ کو جانتا ہے ان میں سے ظاہر۔ہے میں نے ہی مڑ کر دیکھنا تھا۔
وہ اپنے حفاظتی خول میں بند ہونے کی تیاریوں میں تھی۔ واعظہ نے اپنے مگ کو۔دیکھا کافی۔یخ ہونے لگی تھئ۔
اس نے کافی ختم کی کپ رکھا اٹھ کھڑی ہوئئ
اچھا بھئ معزرت مجھے غلط فہمی ہوئئ۔وہ کہہ کر جانے کو تھی کہ الف نے ہاتھ پکڑ لیا۔
ایسا ہی ہے۔ اور مجھے بالکل سمجھ نہیں آرہا کیا کروں۔
اس نے جیسے تھک کر اعتراف کیا۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ وہ۔جھٹ فل چارج سی ہو کر واپس بیٹھ گئ۔
۔ محبت ہوگئ ہے وہ بھئ ایک۔عدد چینی لڑکے سےچینی یعنی کافر لڑکا۔۔ اور تم پاکستانی اورمسلمان لڑکی۔ نہیں ایک ہوسکتے۔ مگر محبت ہو گئ ہے۔
اس نے انگلیوں کے اشارے سے ایک اور الگ کرکے جیسے اسے میتھ پرابلم کی طرح مسلئہ حل کرتے سمجھانا شروع کیا۔
تم ایک ایسا دروازہ کھول چکی ہو جسکے آگے دیوار ہے۔ تم نے ایسے پل پر قدم رکھ دیئے ہیں جو بیچ میں سے ٹوٹا ہوا ہے۔ تمہیں واپس ہی پلٹنا ہے۔
واعظہ کا anylsis جاری تھا۔الف نےہونٹ بھینچ لیئے۔
پی کر تو نہیں آئی ہے یہ آج۔ اسے سچ مچ یہی شک گزرا تھا۔

محبت کو بند گلی کہتے ہیں۔ یعنی ایک بند گلی میں آکھڑی ہوئئ ہو، سامنے کوئی راستہ نہیں محبت میں ناکامی مقدر میں لکھی جا چکی ہے دنیا کے سب مسلئوں میں سے سب سے اہم پیچیدہ مسلئہ درپیش ہے تمہیں مگر
واعظہ کی۔لن ترانی جاری تھی اس نے اسکے بتدرینج بڑھتے والیم پر گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا پھر اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
افوہ یہ سب پتہ ہے مجھے مگر ایک بات اس میں تصحیح کر لو ژیہانگ مسلمان ہے۔ ذکریہ نام ہے اسکا۔
اس نے دانت کچکچاتے ہوئے بتایا
بند گلی ایک سراب تھا سامنے تو راستہ ہے منزل کا۔ مگر ہو سکتا ہے سراب یہ راستہ ہو اصل میں گلی ابھی بھی بند ہے
واعظہ نے فورا پینترا بدلا۔
مطلب۔الف چونکی۔
اگر وہ تمہاری خاطر مسلمان ہوا ہے تو ہو سکتا۔۔۔
واعظہ نے کہا تو وہ بات کاٹ گئ
وہ مسلمان ہی ہے۔ اسکا چینی مسلم اکثریتی صوبے سے تعلق ہے۔۔۔
تو پھر۔ واعظہ نا سمجھنے والے انداز سے اسے دیکھنے لگی۔
تم نے یوریغوار کا نام سنا ہے؟ مسلم۔اکثریتی علاقہ جو چینی کمیونسٹ ںظام سے متصادم ہوا اور اسکو نہایت شدت پسندی سے نمٹا جا رہا ہے۔ ژیہانگ ان متاثرین میں سے ایک ہے جسے شدت پسند سمجھ کر بیگار کیمپ میں لے جایا گیا۔اسکے باپ ماں چچا تایا سب کا کوئی اتا پتہ نہیں ہے اسکو۔ وہ اپنی شناخت چھپا کر جی رہا ہےاور انکو ڈھونڈ رہا یے۔ وہ تو اپنا نام۔تک نہیں بتا سکتا۔ ۔اسکا اصل نام ذکریہ ہے اس نام کو چین میں رکھنا ہی غیر قانونی قرار دیاجا چکا ہے۔
الف بتاتے بتاتے روہانسی سی ہوگئ۔
اس وقت کہاں ہے وہ ؟ واعظہ نے پوچھا۔
جاپان میں ہے۔ 21 جولائی کو واپس امریکہ چلا جائے گا۔ اس نے مجھے اپنا نمبر دیا تھا جاپان کا رابطے کا۔ 21 جولائی کے بعد میرے پاس اس سے رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا۔
وہ بے بسی سے بولی۔
تو اسلیئے دن گنتے کیلنڈر برباد کیا تھا۔ بے چاری عزہ۔
وہ بڑبڑائی۔
کیا ؟ الف سن نہ پائی۔۔
تمہارے پاس صرف ایک دن بچا ہے ؟ واعظہ نے موبائل میں دن دیکھا۔ انیس جولائی2019۔۔۔
تم نے فیصلہ کیا۔۔
واعظہ کا انداز دوٹوک تھا۔
اس نے ہلکے سے نفی میں سر ہلایا۔ پھر دونوں ہاتھوں میں سر تھام لیا۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔
اپنا موبائل دو۔ اس نے الف کا موبائل اٹھایا
انلاک کرو۔ اس نے الف کی۔جانب بڑھایا۔
الف نے میکانکی انداز میں اسے کھول کردیا
اس نے کانٹیکٹ لسٹ کھولی۔
زکریہ کے نام سے دو نمبر تھے۔
ایک کے آگے ذکریہ جاپان لکھا ہوا تھا۔
یہ ہے؟ اس نے نمبر نکال کر اسے دکھایا۔ اس نے سر ہلایا
واعظہ نے نمبر کو غور سے دیکھا پھر ایڈٹ میں جا کر ڈیلیٹ کر دیا۔
مسلئہ ختم ۔ ذکریہ نکل چکا تمہاری زندگی سے۔۔
اس نے لاپروا سے انداز میں کہتے اسے موبائل واپس تھمایا۔ الف ششدر سی بیٹھئ رہ گئی
تم نے؟ ۔اسکے منہ سے بمشکل نکل سکا
میں نے ذکریہ کا نمبر ڈیلیٹ کردیا اب چاہے اکیس جولائی آئے نہ آئے مسلہ ختم۔ اپنا موبائل اٹھاتے وہ کندھے اچکاتے بولی۔
اسکی انگلیاں موبائل پر چلی تھیں اور اسکے دل پر جیسے چھریاں چلی تھیں۔ دل رک سا گیا تھا اسکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *