تم سے پہلے کبھی شکوہ تھا نہ اب ہے کوئی
میں جو برباد ہوا ہوں اسکا تو سبب ہے کوئی
ہنس تو دیتے ہیں کئی جاننے والے ہم پر
ورنہ مڑ کر بھی نہ دیکھیں تو عجب ہے کوئی
آج پھر گم خرابات سے رقصندہ دلی
آج پھر شہر میں تقریب طرب ہے کوئی
اور ہیں جن کو مرے غم سے سروکار نہیں
سن ترے آنکھ چرانے کا سبب ہے کوئی
کوئی کھائے نہ ترس ہاتھ دعا کو اٹھے
دوست جھجکے یہ سمجھ کر کہ طلب ہے کوئی
پرسش حال ہے یا مجھ کو گمان گزرا ہے
تم ہو ے ہمدمو یا خواب طرب ہے کوئی
یہ سر آشفتہ سا ‘ وارفتہ سا ‘ گم سم سا شمیم
یہ منجملہ ارباب ادب ہے کوئی
از قلم زوار حیدر شمیم