خود سے خفا ہوں میں میرا میں مٹ نہیں پاتا
لکھتا ہوں توخود تحریر میں ، میں سمٹ نہیں پاتا
خود کو سمجھتا ہوں میں نہ جانے کیا کیا
بڑھ چکا ہوں خود پرستی میں آگے میں پلٹ نہیں پاتا
دنیا خاک اڑا گزری مجھ پر میں بت بنا کھڑا رہا
خود کو ٹھوکر ہوں خود مارتا اورمیں رپٹ نہیں پاتا
ہر روز نیے موضوع کا امتحان لیتی ہے زندگی
نصاب دنیا کا نہ جان سکا کیسےمیں بھلا رٹ پاتا
راستے میرے بھی وہی تھے پیچھا تھوڑی تھا کرتا
ٹاکرا ہو ا اس سے بھی میں سامنے سے کیسے ہٹ پاتا
اندھیرا چھٹا تو جانا یہ اکیلا رہ گیا ہوں میں
رونا آیا رو بھی نہ سکا خود سے کیسے لپٹ پاتا
میرے گرد لوگ جمع ہوئےیوں تقسیم کر گیے مجھے
میں تنہائی کا دلدادہ بھلا ہجوم سے کہاں نمٹ پاتا
ازقلم ہجوم تنہائی
18 oct 2014