
آنکھوں میں کوئی مکھڑا رہ رہ کے مچلتا ہے
ایک آہ نکلتی ہے جب چاند نکلتا ہے
تنہائی سی تنہائی اور گرمی محفل بھی
ایک شمع ہے جلتی ہے ایک داغ ہے جلتا ہے
دل اور دکھاتے ہیں یہ بول تسلی کے
روتا ہے تو رونے دو دل یوں بھی بہلتا ہے
ایک حسرت پسماندہ یا کوئی حسیں لمحہ
یادوں کے دھندلکوں میں ایک دیپ سا جلتا ہے
تاروں سے سجا دیکھا پھولوں میں بسا دیکھا
جتنا اسے بھلائیں دل اور مچلتا ہے
ہم صبح کے شیدائی ، تڑپیں گے ابھی شب بھر
لو تم تو بہل جاؤ ، لو چاند نکلتا ہے
احباب کی پرسش پر آنسو نکل آۓ کیوں
کیا اس میں بھی کوئی غم کا پہلو بھی نکلتا ہے
از قلم زوار حیدر شمیم