Unveiling the Mystery: AKS E ZAAT – A Gripping Urdu Short Suspense Story

Suspense/Mystry Urdu Stories

کہانی :عکس ذات 

مصنف : واعظہ زیدی

میتھس ایسی چیز ہے جس میں صرف آپکا دھیان اور توجہ درکار ہے بس۔ تھوڑا سا دھیان بھٹکا اور

 آپ صفر سے شروع کریں گے سوال حل کرنا۔۔

وہ حسب عادت پڑھاتے ہوئےبلیک بورڈ پر سوال حل کر رہا تھا ساتھ ہی  ادھر ادھر کی باتیں کرکے بچوں کی توجہ بلیک بورڈ کی جانب کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف تھا۔اور اس کوشش میں کتنا ناکام تھا اسے اندازہ تھا۔ اسکی شخصیت کی مقناطیسیست پھر طالبات کو مضمون پر توجہ دینے پر اکسا دیتی تھی۔۔۔ اسکا اونچا لمبا قد خوبصورت ناک نقشہ ملیح انداز گفتگو وہ  ایک نہایت خوبصورت مرد کہلاتا تھا اسکول بھر میں اسکا ثانی کوئی نہ تھا۔اسکے کپڑے بچیوں کا پسندیدہ موضوع تھے۔ وہ ہمیشہ نک سک سے درست تیار ہو کر ہی آتا تھا۔ ابھی بھی بہترین گرے قمیض پتلون میں ملبوس تھا۔ ٹائی نہیں لگاتا تھا پرٹائی پن اہتمام سے اسکی قمیض کی اوپری جیب پر ٹکی رہتی۔ اور لڑکیاں متجسس رہتیں آخر اس اسٹائل کا خیال اسے آیا کہاں سے۔ اسکی عمر لگ بھگ تیس پینتیس برس ہوگی مگر وہ آرام سے پچیس تک کا نظر آتا تھا۔   بارہویں کی طالبات اگر اس پر کرش پال رہی تھیں تو وہ دل ہی دل میں انکو حق بجانب ہی سمجھتا تھا۔ ہاں البتہ خود اپنی مکمل توجہ  کو میتھس پڑھا نے پر مرکوز کیئے رکھتا تھا۔ ابھی بھی اپنی پشت پر  گڑی نظریں محسوس کر رہا تھا۔ اور دبی دبی سرگوشیوں کو بھی سن کر نظر انداز کیئے تھا۔بچیوں کے چہرے پر دبی دبی مسکان تھی ان میں سے ۔ایک طالبہ نے تصویر بنائی تھی  دوسری طالبہ اس تصویر کو دیکھ کر ہنسی روکنے کی کوشش میں بے حال تھی۔  پڑھاتے پڑھاتے اس نے مڑ کر دیکھا۔دونوں تصویر پر جھکی تھی۔ دور سے دیکھنے کے باوجود وہ اندازہ کرچکا تھا کہ تصویر میں استاد کی ٹائی پن جو اس نے قمیض کی جیب میں اٹکا رکھی ہے بطور خاص نمایاں کرکے بنائی گئ ہے۔

وہ دبے قدموں انکے سر پر جا کھڑا ہوا  

یہ کیا ہو رہا ہے۔؟

بھاری آواز پر دونوں لڑکیاں گھبرا گئیں ۔جہانزیب نے پھرتی سےوہ کاغذ اٹھا لیا دونوں لڑکیوں کا رنگ فق ہو گیا۔

کاغذ پر اسکی تصویر بنی ہوئی تھی۔ بڑی بڑی آنکھیں کشادہ پیشانئ جس پر گھنے بالوں کا گچھا تھا۔گندمی رنگت ہلکی سی داڑھئ جسکے خوبصورت خط بنے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی اس پر عنوان تھا۔ تانیہ کے خوابوں کا شہزادہ

تانیہ اورتبسم کا رنگ فق ہو چکا تھا سر جھکا کےرہ گئیں

 جہانزیب نے غور سے اپنی تصویر کو دیکھا مسکراہٹ دباتے ہوئےبولا یہ آرٹ کلاس نہیں ہے ۔ تبسم ۔میتھس پر دھیان دو ۔۔ پچھلےٹیسٹ میں غالبا تمہارے سو میں سےاسی نمبر تھے نا؟

تبسم او رتانیہ کورس میں  سر جھکا کر بولیں سوری سر

جہانزیب کو اب اپنا رعب دکھانا پڑا۔  آئندہ میں اپنی کلاس کے دوران ایسے فن پارےبناتے نہ دیکھوں سمجھیں دونوں؟ 

تبسم تانیہ ہنوز  سر جھکائے تھیں ۔جی سر

تصویر اسے بے حد اچھی لگی تھی سو جاتے جاتے پلٹ کر بولا ویسے اسکیچنگ اچھی کر لیتی ہو اسکو میں رکھ رہا ہوں۔۔شکریہ

اسکی بات پر تانیہ اور تبسم نے حیرت سے اسکی شکل دیکھی وہ بے نیازئ سے دوبارہ بلیک بورڈ کی جانب بڑھ گیا

تانیہ تبسم کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگی

بال بال بچے مجھے تو لگا تھا سر غصے میں آجائیں گے

تبسم شرمندہ سی تھی۔ میری تو جان نکل گئ تھئ۔ سر کو اپنی تصویر دیکھ کر غصہ آنا چاہیئے تھا 

تانیہ نے دزدیدہ نظروں سے دیکھا تو وہ بلیک بورڈ پر دوبارہ سوال حل کرنے میں منہمک ہو چکا تھا۔ سر بہت سویٹ ہیں یار ہمیں ایسی شرارت انکے ساتھ کرنی نہیں چاہیئے تھی۔ 

تبسم  بھی متفق تھی۔ ہاں یار اب تو مجھے بھی شرمندگی ہورہی ہے۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی کلاس فری تھی۔وہ یونہی باہر نکل آیا تو کینٹین کی جانب جاتی مس ربیعہ پر نظر پڑی تو تیز قدم اٹھاتا انکے پاس چلا آیا

مس ربیعہ مس ربیعہ۔ 

وہ پکارتا اس کے سرپر چلا آیا۔

ربیعہ چونک کے مڑی یوں سر راہ پکارتے چلے جانے پر اسکے چہرے پر واضح ناگواری دوڑی تھی۔مگر جہانزیب بے نیازتھا۔ خوشدلی سے پوچھنے لگا ” کیسی ہیں آپ مس ربیعہ آج صبح سے دکھائی نہ دیں کہاں تھیں۔

ربیعہ نے مختصر جواب دیا۔ میں کلاسز لے رہی تھی۔ 

چلیں اب تو ملاقات ہوگئ ہے۔ ویسے مجھے آپ جیسی میچیورخاتون سے یہ امید نہیں تھی کہ آپ میری کل والی بات پر مجھ سے شرمانے لگیں گی۔ اور مجھ سے چھپتی پھریں گی ۔ جہانزیب کا انداز شرارت بھرا تھا

ربیعہ ناگواری سے بولی۔ 

 ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں نے کل ہی آپکو جواب دے دیا تھا۔ ہمارے درمیان صرف پروفیشنل تعلق ہے ان سب باتوں کی گنجائیش نہیں نکلتی۔ میں چلتی ہوں۔ 

جہانزیب ہنس پڑا۔

ارےآپ تو برا مان گئیں۔ یہی تو آپکو بتانا چاہ رہا تھا بہت جلدی میں کل آپ نے انکار کر دیا آپکو تھوڑا سوچنے کیلئے وقت لینا چاہیئے تھا۔

 مجھے ضرورت نہیں میں اپنا فیصلہ آپکو بتا چکی ہوں۔ 

سختئ سے کہہ کر ربیعہ آگے بڑھنے کو تھی کہ اسکی نگاہوں کے سامنےپرچہ لہرایاجہانزیب نے۔وہ سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

اس نے ہاتھ پیچھے کرکے پرچے کو بغور دیکھا۔ 

پھر اپنے چہرے کے ساتھ پرچہ لگا کر معصوم سا بن کے پوچھنے لگا۔

یہ میری کلاس کی بچی نے میری تصویربنائی ہے۔ اسکے نزدیک میں اسکے خوابوں کا شہزادہ ہوں۔۔  ہنسی آئی مجھے دیکھ کر۔  پھر ذہن میں سوال لہرایا کہ۔۔۔۔

میں شکل و صورت کا لاجواب ہوں اچھی نوکری کرتا ہوں عادات کا بھی اچھا ہوں تو آخر ربیعہ نے میرے پرپوزل پر فوری انکار کیوں کردیا ۔۔ہوں؟

ربیعہ تصویر دیکھ کر خاصی حیران ہوئی  پھر جہانزیب کی شکل غور سے دیکھی۔ 

 آپکو ان بچیوں کو ڈانٹنا چاہیئے تھا انہیں ایسا فضول مزاق نہیں کرنا چاہیئے تھا

جہانزیب مسکرا دیا۔ 

 ہاں ڈانٹنا تو چاہیئے تھا مگر میں ڈانٹ سکا نہیں۔ بس مجھے یہی خیال آیا کہ آخر مجھ میں ایسی کیا کمی ہے جو ربیعہ نے لمحہ بھر بھی سوچے بنا انکار کردیا

ربیعہ جھنجھلا سی اٹھی۔ 

میں آپکو بتا چکی ہوں ہمارے خاندان میں خاندان سے باہر شادی کا رواج نہیں پھر میری منگنی بھی ہو چکی ہے۔ مجھے بار بار آپکے سامنے یہ دہراتے اچھا نہیں لگ رہا پلیز آئیندہ ہم اس موضوع پر بات نہیں کریں گے۔ 

جہانزیب مایوسی سے اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ 

 کیا کمی ہے مجھ میں ؟ آپ گھر والوں سے بات تو کرکے دیکھیں۔ انہیں بتائیں کہ آپکو میری صورت  اپنے ہم پلہ بہتر انسان مل چکا ہے آپ۔مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہیں وہ  یقینا مان جائیں گے۔

ربیعہ چڑ گئ۔ 

دیکھیں آپ اچھے انسان ہیں یوں اپنی اور میری انسلٹ مت کیجئے۔ 

جہانزیب پر جیسے بالک ہٹ سوار تھی۔ کیا وجہ ہے جو آپ انکار کر دیتی ہیں یوں سختی سے۔۔ میں خوش شکل پڑھا لکھا سمجھدار انسان ہوں ۔ آپکو پسند کرتا ہوں کیا آپکو۔۔۔ 

اسکے ضدی انداز ہر ربیعہ بری طرح غصے میں آگے سر جھٹک کر آگےبڑھنے کو تھی کہ اس نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھام لیا۔ 

ربیعہ نے آگ بگولا ہو کر ہاتھ چھڑایا اور سختی سے بولی

بس کیجئے ۔ختم کریں اس تماشے کو ۔ میں آپکو صاف صاف کہہ چکی ہوں مجھے آپ میں کوئی دلچسپی نہیں۔بار بار میرا راستہ روک کر مجھے پریشان مت کیا کریں۔

جہانزیب ملتجی انداز میں بولا۔  ربیعہ میں واقعی تم کو پسند کرتا ہوں۔

میں نہیں کرتی ہوں آپکو پسند سمجھے آپ

ربیعہ سختی سے کہہ کر رکی نہیں وہ پکارتا رہ گیا۔

 ربیعہ 

بات تو سنو ربیعہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بیڈ پر بیٹھی پائوں کے ناخنوں پر  نیل پالش لگا رہی تھی جب سونیا کی۔نگاہ اس پر پڑی۔ کوئی چوتھی دفعہ اس نے نیل پالش ریمور سے بوتھا روئی ناخن پر پھیری تو لیپ ٹاپ ایک طرف کرتے وہ اسکی جانب مڑی۔ 

انکار کر تو دیا ہے اب کیوں الجھن کا شکار ہو۔ 

ربیعہ ایکدم چونکی۔ 

نہیں۔ تو۔کوئی الجھن نہیں۔بس وہ۔

وہ صاف انکار نہ کر سکی اسکے اندازے کی درستگی نے اسے سچ مچ حیران کیا تھا۔  

اس نے آج حد پار کی ہے۔ یوں کالج میں سب کے سامنے   ہاتھ پکڑ لینا کوئی چھوٹی بات نہیں ۔ جانے کس کس نے دیکھا ہوگا کیا کیا باتیں بنائی ہوں گی۔ 

وہی تو۔ ربیعہ نیل پالش بند کرکے اسکی جانب رخ کرتی الرٹ سی ہو بیٹھی۔ 

یہی تو پریشانی ہے مجھے۔ میرے تو امیج کا ستیا ناس ہوگیا ہوگا۔

تمہیں اب اسکی شکایت پرنسپل سے کر دینی چاہیئے۔مستقل تمہارے پیچھے پڑا ہوا ہے الٹی سیدھی

 باتیں کرتا ہے ایویں تمہیں بدنام کر دے گا ۔۔۔ سونیا کی بات میں وزن تھا۔ ربیعہ مگر ابھی بھئ ہچکچاہٹ کا شکار تھئ۔

 یار بس یہی سوچ کر رک جاتی ہوں اچھا انسان ہے۔ سادہ سا ہے بس۔ مجھے پرپوز کرنے سے پہلے اچھا کولیگ تھا اچھی طرح بات کرتا تھا اب اچانک۔۔۔۔ 

ربیعہ کا فون بجنے لگا تو اس نے فون اٹھا کر دیکھا پھر نو کرکے ایک طرف رکھ دیا 

اسکا فون پھر بج اٹھا۔ سونیا کو بھی تجسس ہوا اسکے قریب ہو کر اشتیاق سے پوچھنے لگی

وہی تھا۔۔ 

ربیعہ نے گہری سانس بھری 

ہاں۔۔

 وہ تمہاری گڈ بکس میں آنا چاہ رہا تھا جبھی اتنا اچھا بنا ہوا تھا اب اپنی اصلیت دکھا رہا ہے۔ بتائو گرائونڈ میں تمہارا ہاتھ پکڑ رہا ہے تمہیں تنگ کر رہا ہے آوازیں دے رہا ہے۔حد کردی ہے اس نے۔ لوگوں نے کتنی باتیں بنائی ہوں گی۔ضروربچوں نے بھی دیکھا ہوگا۔

سونیا نے تو پوری کہانی بنا لی تھی۔ 

 یار میں پہلے ہی پریشان ہوں۔ صبح سے بار بار فون کر رہا ہے تنگ کر رہا ہے جانے مجھ سے چاہتا کیا ہے۔ عاجز کر دیا ہے اس نے مجھے۔۔ ربیعہ ناک تک عاجز آئی ہوئی تھی۔ 

سونیا کو نیا خیال سوجھا۔ ویسے شکل و صورت کا کیسا ہے۔؟

ربیعہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔ 

شکل و صورت میں کیا اعتراض کروں تم جانتی ہو میں سطحی سوچ رکھنے والی لڑکی نہیں

 ہوں۔مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا مگر اسکے بارے میں عجیب عجیب باتیں مشہور ہیں اور سچ تو ہے کچھ حد تک درست بھی ہیں۔کوئی کہتا یے احساس کمتری کا شکار ہے کوئی کہتا ہے غصے میں پاگل ہو جاتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں جو اس نے مالی بابا کو مارا تھا مجھے تو سچی بات ہے یہ بندہ نارمل نہیں لگتا۔ پرنسپل صاحب کا رشتے دار نہ ہوتا تو سیدھا کیس ہوتا اس پر۔

سونیا اسکے تواتر سے جلتے بجھتے موبائل کو دیکھ کر پر سوچ انداز میں بولی۔۔۔   دیکھو ہوتا ہے کچھ لڑکے ہوتے ہیں غصہ ور۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے اسے غصے پر اپنے قابو نہ ہو لوگ وقت کے ساتھ بدل بھی تو جاتے ہیں اور 

احساس کمتری والی بات عجیب کہی۔  اتنی کم عمری میں پی ایچ ڈی کی تیاری کرنے والا خوش شکل ایک سیکیور نوکری کرنے والا احساس کمتری کا شکار کیوں ہوگا۔۔ مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آئی۔

ربیعہ چڑگئ۔  تم کس خوشی میں مجھے کنوینس کرنے میں لگ گئ ہو۔میں اس سے ہرگز شادی کرنا نہیں چاہتی نہ کروں گی سمجھیں۔۔میں اپنے شہر سے دور یہاں صرف نوکری کی غرض سے آئی ہوں اور مجھے کوئی مزید ناطے نہیں بڑھانے یہاں کے لوگوں سے  

 وہی تو جاننا چاہ رہی ہوں۔ کیوں؟ ۔بڑھانے میں حرج کیا ہے۔ مجھے پتہ ہے تمہاری کوئی منگنی ونگنئ نہیں ہوئی وی اور دیہاتی کزن  ہیں سارے تمہارے ان میں سے کسی کے پلے بندھنے کی بجائے اگر یہاں کوئی ویل ایجوکیٹڈ بندہ پرپوز کر رہا ہے تو کیا ضرورت ہے تمہیں فالتو میں انکار کرنے کی ۔

سونیا بھی تیز ہو کر بولی ۔ 

اسکا مستقل واٹس ایپ بج رہا تھا۔ اس نے وہی سونیا کی نگاہوں کے سامنے کر دیا

واٹس ایپ پر اسکی تصویر لگی ہی تھی اس نے غور سے تصور دیکھی پھر ربیعہ کی شکل 

ٹھہرو اسکو اب میں جواب دیتی ہوں 

اس نے موبائل ہاتھ سے لے لیا.سب پیغامات اب اسکی نگاہوں کے سامنے تھے 

میسج : ربیعہ بس ایک بار فون اٹھا لو

آخری بار میری بات سنو

کیوں تم ایسے کر رہی ہو۔۔ 

ربیعہ ؟

تم ہو وہاں 

کیا کمی ہے مجھ میں کیوں ایسے کر رہی ہو میرے ساتھ

سونیا ربیعہ کی شکل دیکھنے لگی۔ 

یہ تو دیوانہ ہوا پڑا ہے۔

ربیعہ منہ بنا کر بولی۔ 

سائیکو ہے۔ 

میسج: کیوں میرے ساتھ ہی ایسا ہوتا ہے۔

کیوں ہر لڑکی مجھے انکار کر دیتی ہے۔۔ 

کیوں ؟ 

بتائو بولو جواب دو۔

تم لڑکیاں کیوں ایسے کر تی ہومیرےساتھ

سونیا میسج ٹائپ کرتے ہوئے:

باقی لڑکیوں کا تو آپ ان سے ہی پوچھیں میں آپکو جواب دے چکی ہوں میری منگنئ ہو چکی ہے ۔۔ 

میسج: تو توڑ لو نا میری خاطر

سونیا بھی پیغامات پڑھ کر چکرا سی گئ۔ 

یا اللہ کیا چیز ہے یہ لڑکا۔ 

ربیعہ نے جتایا۔  اب سمجھ آئی کیوں میں نے چھوٹتے ہی انکار کیا اور منگنی والا جھوٹ بولا

سونیانے موبائل رکھ دیا۔اسکے پیغامات پڑھنا آسان بات نہ تھی۔

تم اب اسکو کوئی جواب نہ دینا ذیادہ تنگ کرے تو کل یہ سب میسجز دکھا کر ایڈمن میں کمپلین کردینا۔۔ 

ربیعہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔  لگتا ہے اب یہی کرنا پڑے گا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج جہانزیب نے شائد چھٹی کی تھی۔ اس نے سکھ کا سانس لیا۔شکایت کرنے کا ارادہ پکا تھا مگر آج جب وہ آیا ہی نہیں تو اسکا غصہ دھیما پڑ گیا۔ ویسے بھی وہ یوں لڑائی جھگڑے سے بچنا چاہتی تھی۔خیر جہانزیب کی غیر موجودگی نے اسکا موڈ بہتر کر دیا تھا۔سارا دن بس تھکن ہوئی ذہنی کوفت نہ ہوئی۔وہ  تھکی تھکی سی گھرکا لاک کھولتی اندر داخل ہوئی کہ اندر داخل ہوتے ہی چونک گئ۔ پورا لائونج بڑے بڑے  تحفوں کے ڈبوں  سے بھرا ہوا تھا۔۔ غبارے اور پارٹی پاپرز ٹیڈی بیئرز وہ خوشگوار حیرت سے آگے بڑھی۔  بالکل سامنے ایک بڑا سا بھالو بیٹھا تھا۔  وہ جیسے ہی اسے چھونے لگی  اسے ہٹا کر ایکدم جہانزیب بھالو کے پیچھے سے نمودار ہوا۔ وہ گھبرا کے پیچھے ہوئی

جہانزیب  ایک ہاتھ میں کیک اور دوسرے ہاتھ میں بکے لہراتا ہوا خوشگوار موڈ میں ہے لہرا کر گنگنانے لگا

ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔ ہیپی برتھ ڈے ڈئیر ربیعہ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔

سالگرہ مبارک ہو ربیعہ۔ تم جیو ہزارو سال خوش رہو ربیعہ۔۔ میرے ساتھ۔۔

وہ آخر میں شرارت سے مسکرایا۔

ربیعہ نے ناگواری سے گلدستہ  پیچھے کیا۔

یہ کیا حرکت ہے اور تم اندر کیسے آئے؟ 

ربیعہ غصے سےکانپ اٹھی تھی۔

تمہاری سہیلی کی مہربانی سے اندر آسکا۔ 

جہانزیب دلفریب مسکراہٹ سے لائونج کے ایک کونے کی جانب اشارہ کیا اس نے مڑ کر دیکھا  تو جیسے روح فنا ہونےلگی۔ ۔ 

سونیا اس کونے میں لاچار سی پڑی تھی۔  منہ ہاتھ پائوں سب بندھے ہوئے ہیں۔

سونیا۔ اسکے منہ سے چیخ سی نکلی

ربیعہ بے تابی سے  اسکی جانب بڑھی تو جہانزیب نے  اسکا بازو تھام کے روک دیا۔۔ 

جہانزیب۔ اطمینان دلانے لگا۔  ٹھیک ہے وہ۔ بس مجھے اندر آنے نہیں دے رہی تھی اس لیئے اسکے ہاتھ پائوں باندھ کے بٹھانا پڑا۔ اچھا ہے۔ ہم آرام سے اب بات کر لیں گے۔۔ 

ربیعہ نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑانا چاہا۔ 

مجھے تم سےکوئی بات نہیں کرنی دفع ہو جائو تم یہاں سے۔۔ 

جہانزیب۔سنجیدہ ہوگیا۔۔  مگر مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔

ربیعہ نے جان لگا کر اپنا بازو چھڑایا۔  ہاتھ چھوڑو میرا۔۔

ربیعہ تنفر سےہاتھ چھڑا کر سہیلی کی جانب بھاگی ۔۔ خلاف توقع جہانزیب اسکو آرام سے دیکھتا رہا۔اس نے  آگے بڑھ کر سہیلی کے ہاتھ پائوں کھولنے کی کوشش کی مگر گرہیں بے حد سختی سے بندھی تھی اس نے سونیا کے  منہ سے کپڑا ہٹایا تو وہ بے اختیار رو دی۔  ۔جہانزیب نے آگے بڑھ کر اکڑوں  بیٹھتے ہوئے چھری آسکی جانب بڑھا دی۔۔دونوں ڈر کے پیچھے ہوئیں ۔

یہ لو اس سے کاٹ لو۔۔ اسکا انداز نرم تھا۔

 چھری بڑھتے دیکھ کر سونیا ایکدم سے چلا چلا کر پکارنے لگی

بچائو بچائو کوئی ہے؟ 

جہانزیب نے تنگ آکر اسکا منہ بندکرتے گلے پر چھری رکھ دی۔ چپ کرکے بیٹھو اگر آواز نکالی تو گلا کاٹ دوں گا۔ 

سونیا کی آواز گھٹ سی گئ۔ربیعہ روپڑی۔

پلیز اسے کچھ مت کہو۔ چھوڑ دو اسے۔اسکا کوئی تعلق نہیں اس معاملے سے۔۔ 

جہانزیب جھلایا۔ وہی تو کہہ رہا ہوں اسکا کوئی تعلق نہیں اس معاملے سے پھر بھی بات نہیں کرنے دے رہی گلا کاٹ دیتا ہوں اسکا۔۔ چپ کرتی ہو کہ نہیں ؟ 

سونیا ۔کی سانس تک رک گئ۔

ربیعہ تڑپ گئ۔۔ تت تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ کیوں میرے پیچھے پڑے ہو کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا؟ 

وہی تو ۔۔ وہی تو بتانا چاہ رہا ہوں میں ۔مگر نا تم سننے کو تیار ہوتی ہو نا یہ مجھے سکون سے بات کرنے دیتی ہے۔۔ 

جہانزیب نے ناراضگئ سے سونیا کو  گھورتے ہوئے کہا۔

ربیعہ سرنڈر کر گئ۔ مم میں سنتی ہوں بولو۔ اسکو چھوڑ دو۔ پلیز میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔ 

اس نے حقیقتا اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے

جہانزیب نے پہلے تائید چاہی۔  میری بات سنو گی نا؟

ربیعہ نے سر ہلایا۔ 

آنسو تواتر سے اسکے گالوں پر بہہ نکلے تھے۔ ہاں ہاں پلیز اسے چھوڑ دو۔

 بالکل خاموش بیٹھنا سمجھیں تم ورنہ گردن اڑا دوں گا۔  

جہانزیب کے لہجے کی سختی۔  سونیا  نےبمشکل  سر ہلایا۔ 

جہانزیب نے گرفت ڈھیلی کر دی۔

 اب میں بولوں سنو گی نا؟ 

ربیعہ زو رو شور سے اثبات میں سر ہلاتے ہوئےبولی۔ 

: ہا ۔۔۔ ہاں ۔۔ 

جہانزیب دھیرے سے مسکرایا میں کل ساری رات سوچتا رہا کہ تم نے مجھے سیدھا سیدھا انکار کر دیا کیونکہ میں نے کبھی تمہیں بتایا ہی نہیں کہ میں تم سے کتنا پیار کرتا ہوں۔ 

تھوڑا عجیب ہے تمہاری سہیلی کے سامنے اپنا اقرارمحبت کرنا مگر خیر۔ 

سونیا نے اٹھنا چاہا۔  مم میں چلی جاتئ ہوں۔  

تمہیں سمجھ نہیں آتی چپ کرکے بیٹھو۔ایک لفظ اور بولیں تو تمہارے چھرا گھونپ دوں گا۔اس نے دوبارہ اسکی گردن دبوچ لی تھی جہانزیب کے تیور اتنے خطرناک تھے کہ ربیعہ کی روح فنا ہونے لگی

جہانزیب فیصلہ کن نظروں سے اسے اور سونیا کو دیکھنےلگا پھر کانپتی ہوئی سونیا کی گردن چھوڑ دی۔ وہ گھبرا کر ربیعہ سے جا لپٹی۔۔ 

اس نے سونیا کو کھینچ کر بھینچ لیا اپنے سینے میں۔

اب نہیں بولے گئ۔ پلیز۔چھری نیچے کرلو۔ 

جہانزیب چڑامگر پھر آرام سے ان دونوں کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ 

سارا موڈ خراب کردیا۔کہاں تھا میں ؟۔۔ اس نے سوچنا چاہا۔ 

اق اقرار۔  ربیعہ کی آواز کانپ کانپ گئ۔ محبت لفظ منہ میں کہیں گم سا ہوگیا ۔ جہانزیب مگر اشارہ پا کر مسکرادیا۔ 

ہاں اقرار کر رہا تھا اپنی محبت کا۔۔۔ تو سنو ربیعہ میں پچھلے چار سال سے تم سے محبت کر رہا ہوں۔ تم سے منسوب ایک ایک چیز میں نے سنبھال کر رکھی ہے۔تمہارا ایک ایک تحفہ سینے سے لگا رکھا ہے۔ 

ربیعہ  نے حیرت سے ٹوکا۔میں نے کبھی تمہیں تحفہ نہیں دیا۔ 

جہانزیب ہنسا۔۔  تم بھول رہی ہو تم نے بہت بار تحفہ دیا ہے مجھے۔سب سنبھال کر رکھے ہیں میں نے دکھاتا ہوں

ایک منٹ۔۔۔۔

اسے ایکدم کچھ یاد آیا تو اٹھ گیا۔بڑے بڑے باکس ادھر ادھر کرتے وہ کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔۔ سونیا اور ربیعہ ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔ربیعہ کا پرس دور دروازے کے پاس پڑا تھا سونیا کو دیکھ کر دیوانہ وار بھاگتے اسے خیال ہی نہ آیا کہ پرس گر چکا ہے۔ اسکا موبائل یقینا پرس کے اندر ہی تھا۔کیسے کس کو بلائے اطلاع دے۔ 

وہ ایک بڑا سا شاپر اٹھا لایا تھا۔آکراسکے سامنئ بیٹھتے اس شاپر میں سے ایک چیونگم نکال کر دکھانے لگا۔ اسکا ریپر بوسیدہ تھا اور چیونگم شائد پگھل گئ تھی۔ چپ چپ کررہی تھی۔

یہ دیکھو۔یاد آیا تمہیں؟ آج سے چار سال پہلے جب تم پہلی بار مجھ سے ملیں ۔جاب کا پہلا دن تم نے پورے اسٹاف کو یہ چیونگم دی۔ آج تک اسکو سنبھال کر رکھا ہے میں نے۔تمہارا پہلا تحفہ تھا یہ۔کیسے استعمال کر لیتا میں۔

ربیعہ غرائی۔۔ یہ سب کو دی تھی میں نے صرف تمہارے لیئے نہیں تھی۔ 

وہ بولتے بولتے جزباتی ہو کر انکے قریب چلا آیا ربیعہ کےگال پر ہاتھ رکھنا چاہا تو سونیا نے جھٹک  دیا۔ جہانزیب نے بنا لحاظ تھپڑ ماردیا وہ دور جا گری ربیعہ تڑپ کر اسکی جانب بڑھی جہانزیب نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسکو بےدردی سے جکڑ کر غرا کر کہا 

جانتا ہوں اسکے باوجود میں نے اسکو سینے سے لگا کر رکھا ہے۔ اور یہ جوس کا ڈبہ۔ تمہیں یہ جوس ایک طالبہ نے دیا تھا۔اس دن میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو تم نے مجھے دے دیا تھا۔ میں اسکو کھولنا تو دور پی بھی نہ سکا۔ 

ربیعہ بلبلاکر رو دی۔ تم پاگل ہو گئے ہو۔۔ 

جہانزیب پرسکون سا ہو کر مسکرایا۔ ہاں لیکن تمہارے پیار میں۔ 

او ریہ ٹیچرز ڈے پر تم نے یہ کارڈ دیا تھا۔ بچوں سے خاص طور سے بنوا کر۔ میں اس دن آیا بھی نہیں تھا تم نے اگلے دن جب میں آیا تو مجھے دیا ۔ تم مشرقی لڑکی ہو ایکدم سے اقرار تو نہیں کر سکتی تھیں۔اس کارڈ کا متن پڑھ کر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ تمہارے دل کی آواز ہے۔۔ 

ربیعہ رو تے ہوئے بولی۔ بچوں نے خود بنایا تھا میں نے ان سے نہیں بب بنوایا تھا

جہانزیب  نے یوں سر جھٹکا جیسے اسکو یقین نہ آیا ہو۔ مگر بولا تو آسانی سے مان گیا۔ 

چلو مان لیا۔۔۔اس نے پلاسٹک کا ڈبہ نکل کر اسکی جانب بڑھایا 

یہ پیسٹرئ۔ یہ تو تم نے مجھے میری سالگرہ والے دن دی تھی۔ پچھلےچار سال سے سنبھال کر رکھی ہے۔

پلاسٹک کے خوبصورت سےٹرانسپیرنٹ  باکس میں پیسٹری سڑ چکی تھی ۔دونوں کو ابکائی  آگئ ناک پر ہاتھ رکھتی پیچھے ہوئیں وہ پیسٹری اسکی جانب بڑھا رہا تھا۔

ربیعہ کا بدبو سے دماغ خراب ہو رہا تھا۔  پاگل ہو گئے ہو ۔یہ ہٹائو سڑ چکی ہے یہ۔پھینکو اسے۔ 

ہاں سڑ گئ مگر میں تم سے محبت کرتا ہوں اسکو کھا سکتا ہوں کھا کر دکھائوں؟ 

اسکی آنکھیں یکا یک چمکنے لگیں۔ اس نے اس سڑی ہوئی پیسٹری کا لقمہ لے لیا تھا۔ ربیعہ اور سونیا کو ابکائی سے برا حال ہوگیا۔

بہت سڑ گئ ہے۔ 

اس نے خود بھی منہ بنایا۔ تھوڑی بہت سڑی چیز تو میں آرام سے کھا لیتا ہوں۔ یہ نہیں کھائی جا رہی۔ 

جہانزیب نے مایوسی سے سر جھکایا۔پھر جیسے ایکدم خیال آیا تو چٹکی بجا کر بولا۔ تبھی تو  ۔ یہ سڑ گئ تبھئ تو۔ میں نے تم سے کہا تھا میری سالگرہ پر مجھے کوئی کھانے پینے کی چیز کا  تحفہ نہ دیا کرو اور تم نے مجھے اگلے سال یہ ٹائ پن دی تھی مجھے۔میں ٹائی نہیں باندھتا ہوں مگر ٹائی پن جیب سے لگا کر رکھتا ہوں ہمیشہ۔۔

ربیعہ سر پیٹ کر رہ گئ۔  میں نے تمہیں تمہارے کہنے پر تحفہ دیا تھا۔

جہانزیب ایکدم خوش دکھائی دینے لگا۔

 تم۔۔ اف سن کے اچھا لگ رہا ہے تمہارے منہ سے۔ اچھی بات ہے اب ہم میں یوں اجنبیوں کی طرح آپ جناب والا تعلق تو رہا نہیں ہے۔

ربیعہ بے بسی سے ہاتھ جوڑ کر بولی۔

 تم نے کہہ دیا جو کہنا تھا اب چلے جائو یہاں سے۔ 

 ابھی کہاں دل کی بات کہہ پایا۔۔ ربیعہ یہ پین یہ چاکس یہ تمہارا ڈسپوز ایبل گلاس تم نے مجھے آج تک جو کچھ بھئ دیا ہے میں اسے پھینکنے کی ہمت نہیں کرسکا تو سوچو تمہیں زندگی سے نکلتا دیکھ کر مجھ پر کیا بیت رہی ہوگی۔ ؟ میری جان نکل رہی ہےربیعہ۔ میں کوئی ایسا ویسا انسان تو نہیں ہوں تم ایک بار مجھ پر اعتبار تو کرو ایک بار مجھے اپنا۔۔

جزباتی انداز میں بولتا وہ غیر ارادی طو رپر ربیعہ کے کافی قریب آگیا تھا

سونیا نے تڑپ کر اسکی ٹانگ پر لات ماری۔  دور رہ کر بات کرو۔ 

جہانزیب نے کھا جانے والی نگاہوں سے گھورا۔

ربیعہ گھبرا گئ۔نہیں ۔ سونیا۔ دور ہٹو تم اس سے 

جہانزیب نے تنفر سے سر جھٹکا۔ مجھے اس میں کوئی دلچسپی ہے بھی نہیں۔  

دور ہٹو تم ربیعہ سے مین تمہارا سر پھاڑ دوں گی۔

سونیا میں اب تھوڑی بہت ہمت آگئ تھی۔ آخر تھا تو وہ اکیلا۔ وہ دونوں دو تھیں۔ قابو پانا اسکے لیئے آسان کام نہیں تھا۔

جہانزیب نے بیزار ہو کر چھری لہرائئ۔  تمہارا گلا ہی کاٹ دیتا ہوں میں۔ ہمیں بات ہی نہیں کرنے دے رہی ہو تم

سونیا کا رنگ فق ہوگیا۔ 

ربیعہ کو اسکے تیور دیکھ کر خوف آرہا تھا۔ ابھی تک وہ بات کر رہا تھا مگر کیا خبر دماغ گھومنے پر وہ کس حد تک بڑھ جائے۔ 

 نن نہیں پلیز اسے مت کہو کچھ۔ پلیز۔میں سن رہی ہوں۔

اب تم آرام سے پڑی رہو سونیا ہمیں تنگ مت کرنا ہم اہم بات کررہے ہیں۔

جہانزیب کا لہجہ ہر قسم کی رعائت سے خالی تھا۔ سخت اور بے رحم

ربیعہ کو یہی سمجھ آیا تھا کہ اسے بھڑکائے بنا محض باتوں میں لگا کر شائد اس مصیبت کو ٹالا جا سکتا ہے۔سو بمشکل خوف پر قابو پاتے سبھائو سے بولی۔ میں نے تمہاری ساری بات سن لی ہے اب پلیز تم چلے جائو یہاں سے۔ 

جہانزیب دلبرانہ انداز میں مسکرادیا۔

تم کہو تو دنیا سے چلا جائوں پتہ  ہے ربیعہ ۔ تمہارےلیئے میں دنیا کا سب سے اچھا انسان بن جانا چاہتا ہوں 

ربیعہ نے ہمت کرکے پوچھ لیا۔ اگرایسا ہے تو تم۔  پھر تم ایسا کیوں کر رہے ہو؟ کیوں دھمکا رہے ہو ہمیں۔

جہانزیب فورا شرمندہ ہوا

معزرت بس وہ۔ تھوڑا سا غصہ ہے مجھ میں۔ مگر یقین کرو ربیعہ  میں تمہارے لیئے خود کوبدل سکتا ہوں ۔۔پرامس ۔۔ ربیعہ  ایک موقع دو مجھے میں مانتا ہوں 

پتہ ہے میں بچپن سے اتنا اچھا لڑکا نہیں تھا کافی شرارتی  تھا۔سب کو بہت تنگ کرتا تھا کلاس کا سب سے لمبا لڑکا ہوتا تھا۔ اور میری کلاس میں ایک بچہ ہوتا تھا بالکل مجھ سے مختلف سب سے چھوٹے قد کا سیاہ رنگت والا بچہ

ربیعہ ناگواری سے اسے دیکھ رہی تھی اور وہ مکمل ماضی میں کھو گیا تھا   

………………………………………………………. 

   وہ بھی ایک معمول کا دن تھا۔ اسکول میں  بچے کلاس میں شور و غل مچاتے پھر رہے تھے۔ سب بچے اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ تھے مگر کلاس میں سب سے پیچھے ایک کالا سیاہ چھوٹے سے قد کا بچہ بیٹھا سب کو بٹر بٹر دیکھ رہا تھا۔ وہ ان میں سے کسی کا دوست نہیں تھا۔ سب نے اسے بھی نظر انداز ہی کر رکھا تھا۔ لنچ بریک تھی سب کو اپنی سرگرمیوں میں مصروف دیکھ کر اس نے شائد سکھ کا سانس لیتے ہوئے احتیاط سے بیگ سے اپنا لنچ باکس نکالا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس رازداری کی کوئی خاص وجہ تھی۔ حالانکہ سادہ سے نوڈلز تھے اسکے لنچ باکس میں ۔۔اس سے کچھ فاصلے پت۔کلاس میں آگے بیٹھنے والے ایک اور بچے نے بھی اسی وقت بیگ سے لنچ باکس نکالا مگر شائد اسکا لایا کھانا سڑ  گیا ہے سو برا  سا منہ بنایا اور دوسرے بچوں کو اس لنچ باکس سے تنگ کرنے لگا۔ کلاس کا سب سے لمبا خوبصورت لڑکا جو اپنے دوستوں کے ساتھ گیند سے کھیلتےشغل لگا رہا ہے اسکی نظر اس پر پڑی تو چہرے پر شرارت بکھر گئ۔  اپنے دوست کو آنکھ مارتا اسکے پاس چلا آیا۔  

بچے نے لنچ باکس کھولا  اور  تماشا دیکھنے کی نیت سے چند بچے اسکے سر پر آن کھڑے ہوئے 

بچے نے اسکی ٹانگ پر لات سی ماری۔ وہ تڑپ کر سہلانے لگا 

انہوں نے اسکا لنچ باکس چھین لیا۔اور سب مزے لے لے کر کھانے لگے۔

لمبے لڑکے نے آنکھ ماری تو دوسرا بچہ معصوم بن کر لنچ باکس نکال کر دکھانے لگا

وہ سب کالو کو تنگ کر رہے تھے  مگر کالو ان سب کی توجہ پا کر خوش تھا . بچے نے لنچ باکس کھولا اور اپنے ہاتھوں سے پراٹھے انڈے کا نوالہ بنا کر اسے دیا  اس نے شوق سے نوالا منہ میں رکھا.نوالہ بہت بڑا تھا اس سے نہ چباتے بن رہا تھا نہ نگلتے 

سب بچے الٹی کرنے کی ادااکاری کرنے لگے .کالو نے گھبرا کر لنچ باکس سے نیا نوالہ بنایا 

سب بچے اسے کھاتے دیکھنےلگے ہیں اور منہ چھپا کر ہنسنے لگے تھے کالوکی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے,پانی کی بوتل منہ سے لگا لی .لمبا بچہ جہانزیب ہنسے جا رہا تھا  بن بن کر پوچھنے لگا  

 اوئے کالو یہاں اکیلے کیوں بیٹھے ہو آئو ہمارے ساتھ کھیلو نا۔

کالوکو اسکی شرارت بھری نگاہوں سے ہمیشہ خوف ہی آیا تھا جبھی دل چاہنے کے باوجود نفی میں سر ہلانے لگا , نن نہیں مجھے نہیں کھیلنا۔ 

دوسرا بچہ کہنی مار کر بولا کیوں ابھی تک ٹانگ میں درد ہو رہا ہے ؟ جس پر بال لگی تھی۔

کیا کرتے ہو اسکو پہلے بھی چوٹ لگا دی تھی جبھی تو بے چارہ ہمارے ساتھ کھیلنے نہیں آتا۔کیوں کالو ناراض ہو نا  ہم سے؟جہانزیب پوچھ رہا تھا    

کالوکی جان نکلنے لگی جیسے 

نن نہیں تو۔ 

جہانزیب کے سب دوست دائیں بائیں بیٹھ گیے اور اس سے تفریح لینے لگے 

 ایک  بولا 

 تم ناراض ہو جبھی تو ہمارے ساتھ نہ کھیلتے ہو نا کھاتے ہو

 نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں

جہانزیب نے مصنوئی ناراضگی دکھائی 

پھر ہمارے ساتھ کھائو نا کیا لائے ہو تم؟

 نوڈلز

اپنی آواز خود اسے بھی بمشکل سنائی دی 

چکھائو کیسے بنے ہیں۔

جہانزیب نے اسکا پورا لنچ باکس لے لیا  وہ اور اسکے دوست مزے لے کر کھانے لگے 

ہمم مزے کا ہے۔۔

 جہانزیب چڑا رہا تھا اسےپھر ایک دم معصوم بن کر دوستو کو ڈانٹنے لگا  

 سب کھا گئے تم سب اب یہ بے چارا کیا کھائے گا۔چلو اپنا لنچ باکس شئیر کرو کالو کے ساتھ

کالو نے انکار کرنا چاہا  نہیں کوئی بات نہیں۔۔ 

نہیں تم ہمارے ساتھ کھائو نا ہم سب مل بانٹ کر کھائیں گے۔

وہی سڑا ہوا لنچ باکس بڑھا کر بولا  

کالونے ڈرتے ڈرتے بتانا چاہا  یہ اچھا نہیں ہے سڑا ہوا ہے۔ 

 ہم اتنے پیار سے تمہیں اپنا لنچ باکس دے رہے ہیں تم کہہ رہے ہو سڑا ہوا ہے کھانا کتنی بری بات ہےکالو

 جہانزیب نے مصنوئی ناراضگی دکھائی  

دوسرا بچہبھی ہاں میں ہاں ملانے لگا 

 دل توڑ دیا۔ 

کالوروہانساساہو کر بولا  نہیں یہ واقعی سڑا ہوا ہے میں نہیں کھا سکتا

: تم ہمیں دوست ہی نہیں سمجھتے ہمارا لنچ نہیں کھارہے ہم بھی تمہارا لنچ واپس کرتے ہیں ۔ 

دوسرے بچے بھی شغل لگانے لگے ہاں ہا ں ہم بھی تمہارے نوڈلز واپس کرتے ہیں

 نن نہیں۔ میں کھا لیتا ہوں

کالو نے نیا نوالہ بنا لیا سب بچے منہ چھپا کے ہنس رہے تھے 

اوئے کالو تمہارے نوڈلز تھوڑے سے بچ گئے ہیں کیا کریں انکا ؟

جہانزیب نے چونکنے کی اداکاری کی  

دوسرے بچے  کو انوکھا خیال آیا 

کالو کے تو تند کرانے کے بعد بال ہی نہیں یے ابھی تک 

 اسکے بال بنا دیتے ہیں 

ہاں یہ ٹھیک رہے گا کالو ریپنزل 

جہانزیب کو اس خیال سے گدگدی ہوئی  سب نوڈل اسکے سر پر الٹ دیے لمبے نوڈلز  لٹوں کی طرح اسکے سر سے لٹک رہے تھے 

سب بچے تالیاں بجا کر اسکو داد دے رہے تھے اور کورس میں گا رہے تھے 

 ریپنزل ریپنزل

……………………………………………………………………………………….

جہانزیب ماضی سے حال میں آیا  ربیعہ اور سونیا دیوار سے لگی اسے حیرت اور خوف سے ملی جلی کیفیت میں پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں  جہانزیب مسکرایا۔

میرے بچپن کی بات سن کر کافی حیران لگتی ہو۔ بچپن معصوم سادہ ہوتا ہے اچھے برے کی سمجھ

 نہیں ہوتی ہے۔ مجھے اب احساس ہوتا ہے اس بچے کے ساتھ اچھا نہیں کیا میں نے۔ وہ تو کافی ڈر جاتا ہوگا۔ اسکا اتنی بے عزتی کے بعد دل کرتا ہوگا کہ کبھی اسکول واپس نہ آئے جہاں اسکا کوئی دوست کوئی ہمدرد نہیں۔ 

یقینا اس بچے کا بھی دل کرتا ہوگا وہ سب کے ساتھ کھیلے باتیں کریں مگر وہ جب جہاں میرے ساتھ کھیل میں شامل ہونے کی کوشش کرتا میں اسکو مارتا اسکا مزاق اڑاتا سب بچوں کو ڈراتا کہ اگر اس سے بات کی تو میں ناراض ہو جائوں گا میرے ڈر سے کوئی بچہ اسکے پاس پھٹکتا بھی نہ تھا وہ تنہارہ گیا تھا۔ وہ اکثر کلاس میں اکیلا بیٹھا روتا تھا پر مجھے اس پر ترس نہیں آتا تھا میں اسکا مزاق اڑاتا اس بچے اس بچے کا تو دل کرتا ہوگا نا اسکول کی چھت پر چڑھ کر نیچے کود جائے….

وہ بے چین سا ہو کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ جزباتی انداز میں اضطراری حرکتیں کرتا وہ ہاتھوں کو ہلا ہلا کر… صورتحال بیان کر رہا تھا۔چھت پر چڑھنے پر بازو اونچا کرکے ہوا میں بازو سے سیڑھیاں چڑھنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ پہلے چڑھا پھر وہاں سے کودنے کا اشارہ کرتے ہوئے ایکدم سے منہ کے بل سامنے باقایدہ اچھل کر کودا اور زمین پر اوندھا لیٹ ہی گیا۔ 

ربیعہ اور سونیا بھونچکا سی اسے دئکھ رہی تھیں جو انکے سامنے اوندھا لیٹا ہوا تھا ایکدم سے سر اٹھا کر دیکھا پھر کہنی زمین پر ٹکا کر اپنے ہاتھ کی ٹیک لیکر تھوڑی ٹکائی اور آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے مسکرا کر دیکھنے لگا

 بہت برا لڑکا تھا نا میں

ربیع ہسٹپٹا گئی ہاں۔ میرا مطلب نن نہیں ۔۔ تم چھوٹے سے تھے بچے شرارت کرتےہیں 

جہانزیب : یہ شرارت لگ رہی ہے

وہ اوندھا لیٹا ایکدم بھڑک اٹھا تھا ۔ ربیعہ اور سونیا بری طرح ڈر گئ تھیں۔۔وہ غصے سے چلاتے ہوئےکف ڑا رہا تھا

یہ بدتمیزئ تھی۔ اس بچے کا سکون سے پڑھنا محال کردیا تھا میں نے اتنا تنگ کیا تھا اسے شرارت کہتے ہیں؟ اس بچے نے اسکول کی چھت سے چھلانگ لگا دی تھی۔ اسکی ٹانگ ٹوٹ گئ تھی میری وجہ سے ۔ آج تک لڑکھڑا کر چلتا ہے وہ اور تم کہتی ہو شرارت تھئ؟

وہ گھور رہا تھا پھر ایکدم ٹھنڈا ہو کر دونوں ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ رکھ کر بولا 

ویسے وہ بچہ ذیادہ جزباتی ہو گیا احمق ۔ شرارت ہی تو تھی۔ یہ مگر میں بڑے ہو کر بھی نہ بدلا۔ 

وقت کے ساتھ میں بڑا ہواتو اور ہینڈسم ہوتا گیا میرا قد بھی بہت اونچا گیا اور شکل و صورت تو پہلے ہی اچھی تھی 

۔

مجھے ایک لڑکی پسند کرنے لگی۔  سچ بتائوں تو میں دل پھینک بھی تھا۔  ( آنکھ مارتے ہوئے)

اس لڑکی نے میرے بہت نخرے اٹھائے۔ مجھے مہنگے مہنگے تحفے دیتی تھی چار سال اس نے میرے ساتھ گزارے اور ایک دن بھی کینٹین کا بل میں نے نہیں دیا بے چاری بہت محبت کرتی تھی مجھ سے۔میں نے سختی سے کہہ رکھا تھا اسے کہ وہ میری گرل فرینڈ ہے اس بات کا یونیورسٹی میں کسی سے ذکر نہ کرے ورنہ میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کیسے کرتا۔اس نے ایک دم پکارا 

ربیعہ ۔۔۔۔

ربیعہ گڑبڑا گئی ہ ہاں۔  

جہانزیب : تم سوچ رہی ہوگی میں یہ سب تمہیں کیوں بتا رہا ہوں؟ 

ربیعہ نے  تھوک نگلتے سراسیمہ سے انداز میں پوچھا  کک کیوں؟ 

میں زندگی کی نئی شروعات تمہارے ساتھ سب سچ بتا کر کرنا چاہتا ہوں کل کو کوئی تمہیں میرے بارے میں الٹی سیدھی بات بتائے تو تم مجھ سے بدگمان نہ ہو۔ اور ہمیشہ مجھ پر بھروسہ کرو

جہانزیب ہنس دیا ربیعہ کے چہرے پی کی آوارہ لٹیں بکھر آہیں تھیں وہ کسی معمول کی طرح کھینچتا گیا تھا اسکی جانب ہاتھ بڑھا کر انکو سنوارنے کی خواہش تھی سونیا نے گھبرا کر ٹوکنے کی نیت سے پوچھا  

 پ پھر کیا ہوا؟ میرا مطلب اس لڑکی کے ساتھ تم نے کیا کیا ؟

جہانزیبنے گہری سانس لی ,اسکے ساتھ اچھا نہیں کیا میں نے

 ایکدن فائنل سے کچھ پہلے وہ اپنی گاڑی پھولوں اور غباروں سے سجا کر لائی 

………………………………………………………………………….

اس خوبصورت لڑکے کی آنکھوں پر پٹی رکھے اسے چلاتی ہوئی پارکنگ لاٹ تک لائی ۔  گاڑی کے پاس لا کر اسکی آنکھوں سے پٹی ہٹائی۔

جہانزیب نے منہ بنایا یہ یہ گاڑی دکھانے لائی ہو تم مجھے احمق ۔۔ دس دفعہ کی دیکھی ہوئی ہے۔

لڑکی ذرا بد مزہ نہ ہوئی چابئ لو اور ڈگی کھولو

جہانزیب :کیوں بھئ؟پھر کوئی تحفہ لے آئی ہو میرے لیئے

ڈگی کھولونا

اسکا چہرہ دبے دبے جوش سے تمتما رہا تھا جہانزیب کو اسکی شکل سے ہی اندازہ  ہو رہا تھا کہ کوئی خاص بات ہے مگر اپنے ازلی بے نیاز سے انداز میں اس نے بظاھر غیر دلچسپی سے منہ بنا کر ڈگی کھولی جب کہ اندر سے اسکا تجسس سے برا حال تھا 

ڈگی کھولنے پر کئی غبارے جو سیٹ سے بندھے ڈگی میں بھرے تھے ایکدم باہر نکلے غباروں کے ساتھ ایک بینر بھی نکلا جس پر سرخ رنگ سے آئی لو یو لکھا تھا۔ ایک بڑا سا ٹیڈی بئیر باہر جھانکتے ہوئے ایک بڑا سا بوکے دکھانے لگا

جس پر کارڈ او رانگوٹھی کا کیس بھی چپکا تھا

۔ول یو میری می؟ 

لڑکی گھٹنے کے بل جھک کر اسکا ہاتھ مانگ رہی تھی 

کیا بکواس ہے یہ؟ یہ سب کیا ہے ؟ 

لڑکی : میرے دل کی آواز میں سچے دل سے تم سے محبت کرنے لگی ہوں آئی لو یو متین 

جہانزیب غصےسے پاگل ہونے لگا

دماغ خراب ہوگیا ہے کیا تمہارا؟ پاگل ہو گئ ہو کیا چار دن تم پر ترس کھا کر ذرا سی بات چیت کیا کرلی تم اپنی اوقات بھول گئیں ؟ کالی گٹھی گنجی لڑکی آئینہ تو دیکھ لیتیں ایسی بات کرنے سے پہلے۔ تم ہو کیا؟ اس قابل ہو کہ میرے جیسے خوبصورت لڑکے کے ساتھ برابر میں کھڑی بھی ہو سکتی ہو۔ اپنی اوقات میں رہنا سیکھو۔ ایڈیٹ نان سنس

سارا موڈ خراب کردیا

لڑکی گڑگڑاتے ہوئے کہہ رہی تھی  میری بات تو سنو 

جہانزیب : ہاتھ مت لگانا مجھے 

اس نے طیش میں آکر منہ پر تھپڑ مار دیا

……………………………………………………………………

دونوں لڑکیاں اسے تاسف سے دیکھ رہی تھیں   سونیا نے اسکو باتوں میں لگا دیکھ کر 

اپنے ہاتھ کھول لیئےتھےاب اشارے سے ربیعہ کو کچھ کہہ رہی تھی مگر ربیعہ متوجہ نا تھی  ربیعہ  جہانزیب کو دیکھے جا رہی تھی اسکے چہرے پر کرب کے تصورات اتنے واضح تھے کہ اسکا سارا خوف کہیں جا سویا تھا بس وہ تاسف سے اسکے شکل دیکھ رہی تھی  

 میں نے بہت غلط حرکت کی اس دن۔ مجھے اس لڑکی پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے تھا اتنا گھٹیا میں کیسے ہو گیا

پوری یونیورسٹی میں اسکی کیا عزت رہ گئ ہوگی۔

کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہی ہوگی۔ سب اسکو دیکھ کر مزاق اڑاتے ہوں گے۔ وہ روتی ہوگی اسکا دل چاہا ہوگا کہ وہ اپنی کلائی کی رگیں کاٹ لے

بولتے بولتے اس نے ہاتھ میں پکڑی چھری اپنی کلائی پر رکھی ربیعہ اور سونیا کے منہ سے چیخ نکلی۔۔

ربیعہ چیخ پڑی نن نہیں ۔۔رک جائوایسا مت کرو متین

جہانزیب نے ایک دم چونک کر اسے دیکھا: 

کیا کک کیا کہا تم نے مجھے۔۔ 

ربیعہ : مم متین۔ یہی نام ہے نا تمہارا؟ 

جہانزیب : نن نہیں میں متین نہیں ہوں میں جہان جہانزیب ہوں ۔۔ 

جہانزیب ہوں میں متین نہیں۔ جہانزیب جہان

وہ ایکدم پاگلوں کی طرح چلاتا اٹھ کھڑاہوا۔ 

ربیعہ او رسونیا بھی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔ 

جہانزیب دونوں ہاتھوں میں سرتھامے ادھر ادھر ڈکراتا چلاتا پھر رہا تھا کہ اسکی نگاہ لائونج میں لگے آئینے پر پڑی۔

آئینے میں

گنجا سا سیاہ رنگت والا بد شکل سا چھوٹے قد کا بد صورت لڑکا کھڑا تھا

اسکی ساری زندگی لمحے میں آنکھوں میں گھوم گئ۔اسکول میں پڑھاتا بدصورت ٹیچر اسکی کارٹون نما بنی تصویر جس میں اسے مزیدبد صورت دکھایا گیا تھا اسکول کی چھت سے کودتا بچہ ، یونیورسٹی میں لڑکی کے ہاتھوں تھپڑ کھاتا لڑکا 

منہ پر شادی سے انکار کرتی لڑکی ربیعہ  

ہر جگہ خوبصورت جہانزیب کی جگہ بدصورت متین نے لے لی تھی فرق اتنا تھا کہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہونے والا بس ایک ٹھگنے قد والا لڑکا ہی تھا بد صورت گنجا 

وہ ساکت سا کھڑا اپنے منعکس ہوتے  عکس کو گھورتا رہا 

 بے یقینی سے آگے بڑھ کر آئینے پر ہاتھ رکھا

 نہیں میں جہانزیب نہیں میں تو  میں میں تو متین ہوں۔

ربیعہ رو دی مم متین آئیم سوری

اس نے خالی خالی نگاہوں سے اسکی شکل دیکھی  ربیعہ تم متین سے شادی کروگی؟ 

اسکے چہرے پر نا قبل فہم سے تاثرات تھے ربیعہ ہچکچا تے ہوۓ  نفی میں سر ہلا گئی  

متین نے میکانکی انداز میں سر ہلایا جسے سب سمجھ گیا ہو پھر طائرانہ نگاہ پورے فلیٹ پر بکھری چیزوں پر ڈال ہاتھ کے اشارے سے معذرت کرتا جیسے وہ یہ سب پھیلاوا کرنے پر شرمندہ ہے سر جھکاتا فلیٹ سے نکل گیا .ربیعہ نے تاسف سے اسکو جاتے دیکھا اسکی ایک ٹانگ میں واضح لڑکھڑاہٹ تھی

……………………………………………………………..

ختم شد

Rating
“>> » Home » Afsanay (short urdu stories) » Suspense/Mystry Urdu Stories » Unveiling the Mystery: AKS E ZAAT – A Gripping Urdu Short Suspense Story

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *