Desi Kimchi Episode 15

Desi Kimchi Urdu Novels

15 ویں قسط۔۔۔
انٹرویو دے کر باہر نکلتے ہوئے اسکے قدم شکستہ ہو چلے تھے۔ سو فیصد امکان تھا کہ یہ نوکری بھی نہیں ملے گی۔
فری لوڈر بننے کا خیال اسے مارے ڈال رہا تھا۔ وہ پھر ہنگن دریا کے کنارے آبیٹھی تھئ۔ بنچ پر بیٹھی دریا پر نظر جمائے اس لڑکی پر سورج کی تیز دھوپ پڑ رہی تھی۔ بلو جینز پر گلابی اپر پہنے اس لڑکی نے ہڈ سر پر جما رکھا تھا اسکے چہرے کا رخ دریا کی جانب تھا مگر وہ اسکا بایاں رخ دیکھ سکتا تھا۔جس سے اسکی رخسار کی نمایاں ہوتی ہڈی نظر آرہی تھی آنکھیں ہرگز بھی غلافی نہیں تھیں بلکہ معمول سے بڑی تھیں یقینا وہ کوریائی باشندہ نہیں تھی۔ ویسے بھی کوئی کوریائی لڑکی ہوتی تو اس جگہ کبھی نہ بیٹھتی ٹوپی پہن کر سن بلاک لگا کر چھتری لیکر بھی نہیں۔ دھوپ سے رنگت جھلسنے کے ساتھ کینسر کا بھی تو خدشہ ہوتا ہے۔ کچھ فاصلے پر درخت کے سائے میں بیٹھے اس چندی آنکھوں والے نے کافی دلچسپی سے اسے دیکھا۔
اف ایک تو چوبیس ڈگری سے درجہ حرارت آگے بڑھنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ تنگ آگئ ہوں ٹھنڈ سے۔ایک یہاں کی موٹی کھال کی لڑکیاں شارٹ اسکرٹ پہن کر کیسا گرمی منا رہی ہیں۔ کوئی انہیں بتائے امی اتنے ڈگری سے کم پر ہمیں اےسی تک نہیں چلانے دیتیں کہ بل ذیادہ آئے گا۔ اس نے بازو سکیڑ کر گرمی کی حدت کو محسوس کرنا چاہا۔
اف اس پر بھی اس موٹی کھال کے آدمی نے اے سی چلا رکھا تھا۔۔
اس نے جھر جھرئ سی لی۔ تبھی اسکے موبائل کی پیغام دھن بج اٹھی۔ واعظہ تھی۔۔
انٹرویو کیسا رہا؟
اس نے گہری سانس لی۔
ناکام رہا۔ شام کو ملو گی سوجو پی کر اس ناکامی کو منائیں گے۔ اس نے یہی لکھ کر بھیج دیا۔
ہرگز نہیں۔ برملا جواب آیا تھا۔ اسکا جواب پڑھ کر اس نے بے چارہ سا منہ بنا کر ہونٹ لٹکا لیا تھا۔
مجھ سے تو کوئی ملنا بھی نہیں چاہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کسی سے ملنا نہیں چاہتی ہوں اگر دو منٹ کے اندر تم میرے گھر کے سامنے سے نہیں گئیں تو میں پولیس کو فون کردوں گئ۔ کے سہکی۔
ذرا کی ذرا دروازہ کھول کر وہ بلا لحاظ چلائی اور دھاڑ سے عروج کے منہ پر دروازہ بند کردیا۔
آہ۔ عروج کو اسکے ردعمل کا اندازہ تھا مگر پورے راستے اتنے جملے ترتیب دیئے تھے کہ کم از کم پانچ منٹ تو وہ اسکی بات سنتی مگر اسکا مدعا سننا تو دور دروازہ کھول کو اسکی شکل دیکھتے ہی پہچان کر وہ چیخی ۔ انداز دیکھ کر لگتا تھا کہ پولیس کو فون نہ بھی کیا تو بھی اگر دوبارہ عروج نے اطلاعی گھنٹی بجائی تو سر پر ڈنڈا مار دے گئ عروج کے۔ وہ گہری سانس لیکر اسکے دروازے کے سامنے سے ہٹ گئ۔ اس گندی سندی پرانی عمارت کی دوسری منزل تک چڑھتے اور اب اترتے اسکی نگاہوں میں بس وہ بے چارگئ سے عروج کو تکتی بوڑھی آنکھیں چھائی رہی تھیں۔
اتنی تو کوشش کر لی میں نے اور کیا کروں۔ وہ تھک کر عمارت کے داخلی دروازے پر بنی کیاریوں کے پاس بیٹھ گئ۔
دھیرے دھیرے سرسراتی ہوا۔ وہ گہری سانس لیکر خود کو پرسکون کرنے لگی۔ روزے میں دوسری منزل تک چلنا اترنا ۔۔پیاس لگا گیا تھا۔
یہ علاقہ کافی گندا تھا۔ چھوٹے چھوٹے گھر جن کے باہر میلے کچیلے بچے شور مچاتے کھیل رہے تھے۔ یہ عمارت کافی خستہ حال لگتی تھی۔
کتنے وون لیتئ ہو؟۔ چندی آنکھوں والا لمبا سا لڑکا اسکے اتنے قریب اچانک آکر کھڑا ہوا کہ وہ گھبرا کے اٹھ کھڑئ ہوئی۔
دے؟۔ وہ نا سمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگی۔
قیمت پوچھ رہا ہوں مجھے رات بھر کیلئے نہیں بس چند گھنٹے گزارنے ہیں جلدی بولو۔ عربی ہو؟
وہ جلدی میں تھا ۔۔
آندے۔ وہ عربی تو نہیں تھی۔۔ سو صاف سر ہلا کر بولی۔
عروج کو اتنی ہنگل سمجھ تو آتئ تھی مگر وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ پوچھنا کیا چاہ رہا ہے۔
ہمم۔ آنکھیں تو بڑی ہیں آپریشن کرایا ہے۔ وہ بغور اسے سر تاپا دیکھ رہا تھاوہ۔بلو ڈینم عبایا پہنے تھی سر پر بلیک اسکارف تھا اور بلیک ہی ماسک پہن رکھا تھا۔ اس نے تکلفی سے اسکے چہرے سے نقاب کھینچ لینا چاہا۔
اور شکل دکھائو۔شکل دیکھ کر پیسے۔۔
اسکا جملہ منہ میں ہی تھا عروج کا ہاتھ اٹھا ایک کرارا تھپڑ اس لڑکے کے منہ پر لگا تھا۔
ہائو ڈیر یو۔ وہ لال بھبوکا چہرہ لیئے چلائی۔
لڑکے کا پورا چہرہ گھوم گیا تھا۔ یہ تھپڑ اسکے لیئے غیر متوقع تھا ۔ غصے میں بھر کر وہ سیدھا ہوا ارادہ اس تھپڑ کا کرارا جواب دینے کا تھا مگر عروج کو دیکھ کر لمحہ بھر کیلئے چونک سا گیا۔ ایشیائی چہرہ عربی۔ کہیں اسے غلط فہمی ۔۔۔ اپنا ہوا میں اٹھتا ہاتھ اس نے روکا تھا۔ گلی میں کھیلتے بچے کھیل چھوڑ کر آنکھیں منہ کھولے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ عروج کا ردعمل اتنا اچانک تھا کہ اسے خود بھئ اندازہ بعد میں ہوا۔ ایک اجنبی علاقے میں نجانے کس قماش کے لڑکے کو یوں منہ پر تھپڑ مار ڈالا۔ جوابا وہ بھی پلٹ کر مارنے ہی والا تھا۔ اسکا رکتا ہاتھ دیکھ کر اس نے موقع غنیمت جانا اپنا بیگ کندھے پر سیدھا کرتی اس نے دوڑ لگا دی۔ بنا پیچھے مڑ کر دیکھے بنا پوری جان لگا کر بھاگتی ہوئی وہ ذیلی سڑک تک آئی۔
سڑک پر بہت رش تو نہیں تھا مگر سنسانی بھی نہ تھی۔شکر ہے اس نے اسنیکرز پہن رکھے تھے جو اس دوڑ میں ساتھ دے گیے اسکی سانس پھول چکی تھی۔ سڑک کنارے رک کر ٹیکسی کو ہاتھ دیتے اس نے مڑ کر دیکھا تو شکر ہے وہ اسکا پیچھا نہیں کر رہا تھا۔ اس کا دل بہت زور سے دھڑک رہا تھا۔
ٹیکسی میں بیٹھ کر کتنے لمحے اسے خود کو سنبھالنے میں لگ گئے۔
پانی ۔۔
ڈرائیور نے جانے کیا سمجھا مڑ کر پانی کی بوتل اسکی جانب بڑھا دی۔
وہ بے دھیانئ میں بوتل لیکر رخ موڑ کر پینے ہی لگی تھی کہ یاد آیا روزہ ہے۔۔ بوتل کا ڈھکن بند کر کے اپنے برابر نشست پر رکھ لیا۔
یہ علاقہ اب محفوظ نہیں رہا۔ جانے لوگ آج کل کے اتنے متشدد کیوں ہو چلے ہیں۔ روز ہی کسی نہ کسی لڑکی کو یہاں سے ایسے ہی پریشان جاتے دیکھتا ہوں۔۔۔۔
ڈرائیور کوئی ٹھیک ٹھاک باتونی انسان تھا۔ اس نے جائزہ لیتی نگاہوں سے دیکھا تو خشخشی سی داڑھی والا وہ کوئی تیس پینتس برس کا ہوگا رنگ دھوپ سے تھوڑا کم ہونے کے باوجود کافی گورا تھا۔ وہ مکمل سڑک کی جانب متوجہ تھا۔ اسے شدید الجھن آتی تھی اگر کیب والا کوئی غیر ضروری بے تکلف ہونے بات سے بات نکالنے والا ٹکر جائے۔ بھئ خاموشی سے گاڑی چلائو ۔ اسکی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں مگر ڈرائیور ان سے بے نیاز اگلا سوال پوچھ بیٹھا۔
ابھی کسی اور کلائینٹ کے پاس جانا ہے یافارغ ہو؟
بیک ویو مرر سے پیچھے دیکھتے وہ آہجوشی بے تکلفی سے پوچھ رہا تھا۔ اسکو اسکی بات سمجھ نہ آئی ۔وہ دے کہنے لگی تھی تاکہ وہ وضاحت کرے اپنی بات کی کہ تبھی اسکا فون بج اٹھا۔
ہاسپٹل سے فون تھا۔ کوئی حادثہ ہوا تھا ایمرجنسی نافذ تھی اسے فوری ہاسپٹل رپورٹ کرنے کو کہا گیا تھا۔
ایسا کرو گاڑی کو سیول ہیلر اسپتال کی جانب موڑ لو۔
اس نے ڈرائور کو ہدایت کی۔
کین چھنا؟۔ ( خیریت)۔ طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی؟۔
دے۔ عروج نے ٹھنڈی سانس لی۔ بہر حال وہ ڈرائور نظر باز نہیں تھا باتونی بےشک بہت تھا۔ اس نے جواب دے دیا۔
کوئی حادثہ ہوا ہے گنگنم میں۔۔
اوہ۔ ہاں۔ ابھی آرہا تھا تو دیکھا ایک ٹرک اور گاڑی کا تصادم ہواہے۔دیکھا تھا ایمبولنسیں جارہی تھیں۔ آپ کیوں جا رہی ہیں۔ اسپتال؟ کوئی جاننے والا تھا ان میں۔
باتونا انسان۔ ۔عروج نے چڑ کر دیکھا
ڈاکٹر ہوں میں اسلیئے بلائی گئ ہوں۔
دے؟۔ ڈرائور کا ہاتھ واضح طور پر اسٹیرئنگ پر پھسلا تھا۔
پھر باقی رستہ خاموشی۔ہی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید سر پر ہے اور ہم نے ابھی تک ہنبق نہیں سلوائے۔ واعظہ کی بچی جب آئیڈیاز پر عمل نہیں کرنا ہوتا تو دیتی کیوں ہو۔۔۔۔۔۔۔
الف دف کی طرح ٹرے بجا کر اعلان کر رہی تھی۔
ویسے الف روزے میں سارا دن گزار کر عین افطار کے وقت اتنی توانائیاں کہاں سے لاتی ہو سر کھانے کی؟۔
نور حقیقتا حیران تھی۔ پکوڑوں کیلئے آلو چھیلتی وہ بہت تجسس سے دریافت کر رہی تھی۔ عشنا کل سے کمرے میں بند تھی رات کو فاطمہ ساری تقریریں جھاڑ کر چلی گئ تھی اسکے بعد سے عشنا جو کمرے میں گھسی صبح سحری میں واعظہ اپنی اور اسکی سحری کمرے میں لے گئ تھی۔پھر آٹھ بجے اٹھ کر یونیورسٹی چلی گئ اور جب سے واپس آئی تھی تب سے سو رہی تھی۔ عزہ اور ہے جن باہر گئے ہوئے تھے عزہ کو چیزیں لینی تھیں۔ عروج اسپتال گئ ہوئی تھی اور الف بجائے اسکے ساتھ افطاری بنوانے کے عید کی تیاریوں کی فکر میں ہلکان تھی۔
توانائیاں ہم میں ہوتی ہیں بس ہم کھا کھا کے جمع کرتے رہتے ہیں جو ہم میں فیٹ بن کر جم۔جاتی ہیں ۔روزہ انہی توانائیوں کے استعمال کیلئے ہی ہے۔ بھئ مزید پیٹ میں مت انڈیلو بلکہ جو انڈیلا ہوا ہے اسکو استعمال کرو سو میں اپنی انہی توانائیوں کا استعمال کر رہی ہوں جو تم استعمال نہ کر کر کے پیٹ پر جمع کرتئ جا رہی ہو۔
الف نے سیدھا سیدھا چوٹ کی۔ نور کے پیٹ پر جا لگی۔ تڑپ کر بولی۔
کوئی نہیں اتنی بھی کوئی موٹی نہیں ہوگئ زرا سا روزوں کی وجہ سے کھانے پینے کا معمول خراب ہوا ہے تو لگ رہا ہے تھوڑا سا پیٹ نکل رہا ہے۔ ورنہ بالکل اسمارٹ ہوں میں۔
اتنی اسمارٹ ہو تو برا کیوں مان رہی ہو۔
اسے چڑتا دیکھے اور مزید چڑائے نا الف یہ تو ہو نہیں سکتا۔
تم ہنبق مت سلوانا اس میں تو دبلی سے دبلی ہیروئن بھی انجمن لگنے لگتی ہے۔۔واعظہ اسکے لیئے ہنبق کا آرڈر نہ دینا۔ وہ مزے سے مشورہ دے رہی تھی۔
واعظہ میں نے بھی ہنبق سلوانا ہے جب سب سلوا رہی ہیں تو میں کیوں نہیں۔
نور کو ڈر لگا کہیں واقعی واعظہ ہنبق کا آرڈر کینسل نہ کر دے۔
موٹی لگو گئ۔ الف باز نہ آئی۔۔
جب سب لگیں تو میں بھی لگ لوں گی موٹی فکر مت کرو۔۔ واعظہ۔۔ میرا بھی ہنبق بنوانا۔
نور نے آلو کاٹنے ہی چھوڑ دیئے۔
واعظہ ان دونوں کی بحث سے بے نیاز۔ منے لائونج میں فلو کشن پر بیٹھی صوفے سے ٹیک لگائےلیپ ٹاپ کھولے بلاگ لکھنے میں مگن تھی۔ تیسری بار نور نے بات دھرائی تو آرام سے اسکی شکل دیکھ کر بولی
میں کسی کا بھی نہیں بنوا رہی ۔جتنے کا ہنبق بنے گا اتنے میں چار رسمی پوش بن سکتے ہیں۔ پیسے نہ پھنسائو اس میں۔
کیا ؟؟؟ رسمی پوش؟ ہم کیا کریں گے اتنی سی تو میز ہے ہماری اور کیا ہم رسمی پوش لپیٹ کر پھریں گے عید پر؟
الف حق دق سی رہ گئ اسکی منطق پر۔
ہاں تو اور کیا عید کے کپڑے تو بنوانے ہی ہیں ۔ ہم رسمی پوش۔۔
نور نے بھئ ہاں میں ہاں ملانا چاہی۔ واعظہ نے سر پیٹ لیا۔
کیا سمجھ رہی ہو رسمی پوش کا مطلب؟
میز پر جو کپڑا ڈالتے ٹیبل۔کلاتھ۔۔ اسی کو ہی سنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اسے بولتے بولتے یاد آیا اسے تو میز پوش کہتے۔
اسے میز پوش کہتے ہیں۔ واعظہ نے جتایا۔۔
رسمی پوش casual wear کا اردو ترجمہ ہے۔۔ ہر لفظ کا اردو ترجمہ موجود ہے فرق صرف یہ کہ ہم اردو الفاظ بولنے کی بجائے انگریزی بولنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
رسمی پوش۔ الف کو لطف آیا۔
مجھے تو مزے کا لگا ہے یہ لفظ میں رسمی پوش ہی کہا کہوں گئ اب۔ سے۔
تو کیا ہم واقعی ہنبق نہیں بنوا رہے؟
نور کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
یار رمضان میں میری بچت بھی ٹھکانے لگ چکی ہے اوپر سے مجھے فاطمہ ابیہا دونوں کا کرایہ اس مہینے کا نہیں ملا۔ جاب میری کوئی ہے نہیں۔ اسی سے خرچے نکالتی ہوں میں۔ عشنا عروج نے کرایہ تو دیا ہے مگر اسکے بعد ان دونوں کے پاس پیسے ختم ہو چکے ہیں۔ بمشکل میں نے فلیٹ کا کرایہ دیا ہے اوپر سے یہ ہاسپٹل کا خرچہ پولیس انکوائری یہ سب میری سب بچت ٹھکانے لگ چکی ہے۔ میں تو شائد عید کا جوڑا بھی نہ بنوائوں۔ تم دونوں کے پاس اگر ہیں پیسے تو سلا سلایا خرید لو وہ سستا پڑے گا اور ہنبق میں فٹنگ تو ہوتی بھی نہیں ہے۔ واعظہ کی تقریر پر دونوں چپ ہوگئیں۔
اب جب سب نہیں بنوا رہے تو ہم کیوں بنوائیں۔۔ ہم بھی نہیں بنواتے۔ نور نے فیصلہ سنایا۔
تو عزہ اور ہے جن کے ہاسپٹل کا خرچ تم نے اٹھایا ہے؟۔ الف حیران ہوئی۔ واعظہ نے جواب نہیں دیا وہ دوبارہ لیپ ٹاپ میں مصروف ہوچکی تھی۔
یار لیکن عید کیلئے کچھ پلان تو کرو ہم پہلے ہی گھر والوں سے دور ہیں۔۔ الف ٹرے کائونٹر پر ٹکا کر اسکے پاس ہی آبیٹھی۔
پاکستانی ایمبیسی کوئی نہ کوئی تقریب منعقد کرتی ہے چلیں گے وہیں۔ ۔۔ واعظہ نے تسلی دی۔ الف اس پر ہی۔خوش ہوگئ
ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔۔۔۔۔۔
اچھا میں جا رہی ہوں افطار باہر کروں گی تم لوگ افطاری کر لینا۔۔وہ لیپ ٹاپ بند کرتی اٹھ کھڑی ہوئی
لو میں نے اتنے آلو چھیل لیئے۔ میں اور الف کتنا کھائیں گے۔
نور نے چھری رکھ کر آلو کی بھری ٹوکری کو تاسف سے دیکھا۔
اسکی ترکاری بنا لو کھانا تو بننا ہی ہے چٹپٹے آلو بنالو۔
الف نے مفت مشورے سے نوازا۔
کبھئ یہ بھی کہہ دیا کرو یہ بنا لیتی ہوں میں۔ نور کمر پر ہاتھ رکھ کر طنزیہ بولی۔
جب تم بنا لیتی ہو تو ۔۔۔ الف بھی جوابا الجھنے لگی۔ ان دونوں کو بحث کرتا چھوڑ کر وہ صوفے سے پرس اٹھاتی باہر نکل گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلیٹ میں داخل ہوتے ہی اسکی۔نظر سب سے پہلے سیہون پر پڑی تھی۔ اوپن کچن میں ایپرن باندھے وہ زور و شور سے کھانا پکانے میں مگن تھا۔ فضا میں بھنے ہوئے گوشت کی مہک تھی۔
اب یہ سور نہ پکا رہا ہو باقی خیر ہے۔
فاطمہ نے دل ہی دل میں دعا کی۔ برتن تو اسے وہی استعمال کرنے پڑتے اپنے لیئے افطار تیار کرتے وقت۔ وہ سیدھا اپنے کمرے کی جانب بڑھی
فاطمہ۔ سیہون نے اسے تیزی سے اپنے کمرے کی۔جانب جاتے دیکھ کر آواز دی۔
دے۔ وہ دروازے کا ہینڈل پکڑنے جا رہی تھی کہ فریز ہوگئ
بریانی بن رہی ہے تم بھی کھا لینا۔
وہ مصروف سے انداز میں کہہ کر دوبارہ ہانڈی کی جانب متوجہ ہوگیا۔
کونسا گوشت ہے؟ فاطمہ کے ذہن پر عزہ سوار تھی جھٹ پوچھا۔۔
سورکا۔ فورا جواب آیا۔
کیا؟ وہ چیخ پڑی۔ اتنی خوشبو اسکی ناک کے راستے اندر جا چکی تھی وہ بھی حرام گوشت کی۔
ہرگز نہیں میں سور کا گوشت نہیں کھا سکتی بلکہ کوئی بھی گوشت نہیں کھا سکتی ہم حلال گوشت کھاتے بس تم پکا کر فارغ ہو جائو پھر میں آکر اپنا کھانا بنا لوں گی۔۔اور سنو اپنے یہ سور والے برتن الگ رکھنا میں ان میں پکا بھی نہیں سکتی ہوں۔۔۔۔۔ (آگے اردو)۔۔۔نجس کو انگریزی میں کیا کہتے
اس نے جھٹ فتوی دیا پھر سوچ میں پڑی۔
تم لوگ سحری میں ایسا کیا کھاتی ہو جو پورا دن لڑنے کیلئے توانائیاں بحال رہتی ہیں۔ میں ایک کھانا چھوڑ دوں مجھ سے لڑنا بھڑنا دور کچھ کام کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔
سہون نے سخت بھنا کر اسے دیکھا پھر پلٹ کر لائونج کے صوفے پر دراز وجود سے مخاطب ہوا۔ فاطمہ نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو صوفے پر واعظہ نیم دراز تھی اسکے کہنے پر جمائی لیتی اٹھ بیٹھی۔
میں تو بس ایک پراٹھا دہی اور انڈے کے ساتھ کھاتی ہوں۔ انداز سادگی بھرا تھا
مجھے تو ملنے سے صاف انکار کردیا اب یہاں کیا کر رہی ہو؟ میری کو بتائوں میں؟ اسکے بوائے فرینڈ کے گھر کیا کر رہی ہو تم؟۔
فاطمہ دانستہ اردو میں بولتی گھوم کر اسکے سامنے آکھڑی ہوئی
پہلے میری کو یہ بتانا تم یہاں کیا کررہی ہو سیہون کی بیگم ۔۔
وہ بھی واعظہ تھی مزے سے بولی۔
سیہون کو انکی باتوں میں صرف اپنا اور میری کا نام اور بوائے فرینڈ سمجھ آیا تھا کفگیز تھامے وہ بھی تجسس سے انکے پاس چلا آیا۔
کیا ہوا میری کا کیا ذکر؟
تم یہاں کیا کر رہے ہو چکن کا کیا بنا؟ دونوں اکٹھئ چیخی تھیں۔
وہ پانی ڈال کر آیا ہوا ہوں۔ وہ سٹپٹا گیا۔
بریانی میں پانی؟
دونوں کچن کی جانب بھاگیں۔ مرغی پانی سے بھری دیگچی میں بطخ بنی تیر رہی تھی۔
اب الگ سے چاول پکانے کی بجائے اسی شوربے میں ڈال دو۔ فاطمہ نے چکن کے لمبے شوربے کو دیکھ کر مشورہ دیا۔
یہی کرنا پڑے گا اب۔ واعظہ بھی متفق تھی۔
شان مصالحہ اپنے ہاتھوں سے ڈال کر اسے صرف بھوننے کا کہہ کر گئ تھئ۔ پانی کس خوشی میں بھر دیا مرغی میں؟ اسے تیراکی سکھا رہے تھے؟۔۔ واعظہ بھنائی۔
پھر دونوں نے مشترکہ گھوری دی تھی سیہون کو۔۔
میں کونسا بچپن سے بریانی پکاتا رہا ہوں۔۔ وہ سٹپٹا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نونا کیا دیکھ رہی ہو ہر چیز کی پیکنگ میں۔۔ ؟؟؟ ہے جن جھلا ہی گیا آخر۔
اسکے ساتھ ایک ہی مارٹ میں پھرتے پورے دو گھنٹے ہونے کو آئے تھے اور انکی ٹرالی میں صرف چار چیزیں جمع ہوئی تھیں۔ وجہ تھی ہر چیز اٹھا کر عزہ اسکی پیکنگ پر لکھے اجزا پڑھنا شروع کردیتی۔ جہاں ہنگل میں لکھا ہوتا وہاں ہے جن کی مدد درکار ہوتی۔
ٹرالی میں شیمپو ایک لوشن ایک کنڈشنر ہی بس جمع ہو سکا تھا۔ ایک اسکن ٹائٹننگ کریم اب اسے تھما کر اس پر لکھے اجزا دہرانے کو کہہ رہی تھئ۔اب عزہ۔۔
میں یہ دیکھنا چاہ رہی ہوں کہ جو بھی اشیاء خرید رہی ہوں میں ان میں حرام اجزا شامل نہ ہوں۔ اس نے بتایا تو ہےجن گہری سانس بھر کے رہ گیا۔
سور کے ریشے اسکن پراڈکٹس میں شامل نہیں کیئے جاتے۔
اسکی کھانے کیلئے ہی مانگ بہت ہے نونا۔۔
پھر اس پر جانور کے اجزا شامل ہیں یہ کیوں لکھا ہوا ہے؟
کوئی تو جانور ڈالا ہے نا اسمیں۔ عزہ نے اسکو باقائدہ پیکنگ دکھائی۔
اف نونا۔ اس طرح تو یہ شیمپو ، کنڈشنر اور یہ لوشن بھی رکھ دو۔ کوئی نہ کوئی جانور کا اجزا ان میں بھی شامل ہے ۔ اس نے جھلا کر جتایا۔ جتاتے وقت اسے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ عزہ یہ سب واپس رکھنے پر تل جائے گی۔
تو۔۔ اس نے آنکھیں پھاڑیں۔ تم سے تبھی تو پوچھ رہی ہوں کہ اجزا دیکھ کر بتائو۔ بتایا کیوں نہیں؟۔ وہ اب ٹرالی گھسیٹ کر ان اشیا کو انکی جگہ واپس رکھنے جا رہی تھی
اوفوہ نونا ۔ سور تو نہیں ہے ان میں بتایا تو ہے۔
وہ اسکے انداز میں بے چارگی در آئی۔
کوئی بھی حرام جانور بلکہ حلال جانور بھی اگر اسلامی طریقے سے ذبح نہیں ہوا تو اسکے اجزا سے بنی کوئی بھی چیز حلال نہیں ہوگئ۔۔
انکے سر پر ایک اسکرین نمودار ہوئی جس میں سے واعظہ واعظ دے رہی تھی دونوں نے چونک کر اسے دیکھا پھر سر جھکا لیا۔ وہ اب صابن شیمپو کریم والے حصے میں واپس آکر سب چیزیں اپنی اپنی جگہ رکھنے لگے۔ تبھئ ہےجن کو ایک کریم نظر آئی۔ یہ کریم طوبی نے ایک بار اس سے منگوائی تھئ۔
اسکی خوشبو بہت اچھی ہی اسکا گلابی والا پیک ہی لانا۔
طوبی اسکو پیکٹ تھما کر تاکید کر رہی تھی۔ وہ تیر کی طرح اس کی جانب بڑھا۔ استعمال کیلئے کھلی شیشی اٹھا کر عزہ کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا۔
اچھا یہ کریم رکھ لو طوبی آپی بھی یہی استعمال کرتی ہیں۔وہ تو مسلمان ہیں نا۔۔ اور دیکھو اس میں بس 2 % ہی جانور کے اجزاء ہیں۔
طوبئ کا نام فتوے کی طرح استعمال کیا تھا ہے جن نے عزہ نے ہچکچاتے ہوئے تھام لی ۔ خوشبو اچھی تھی اس نے اچھی مقدار ہاتھ میں لے لئ۔
اسکن ٹائٹننگ نائٹ کریم ۔ جلد خشک تو ہو رہی تھی ٹائٹ بھی ہو جائے تو کیا برا۔
کونسا جانور ہے۔ عزہ نے جی کڑا کیا۔ اب 2% سے کتنا کوئی فرق پڑ جائے گا۔
جاپانی کریم تھی عجیب سا نام تھا ۔
گھوڑا۔ گھوڑے کی چربی سے بنی ہے
عزہ کے ہاتھ سے شیشی چھوٹتے چھوٹتے بچی۔
۔ اسکن کیلئے گھوڑے کی چربی بہت اچھی تصور کی جاتی ہے۔اکثر کورین پراڈکٹس میں گھوڑے کی چربی استعمال کی۔جاتی ہے خاص کر اسکن پراڈکٹس میں۔ جیسے گھوڑے کی کمر چکنی ہوتی ہے شفاف ایسی ہی خواتین کی جلد ہو جائے گی ایسا سوچا گیا۔اور۔۔۔ ۔ ہے جن اپنی دھن میں بتا رہا تھا۔ اور عزہ سوچ رہی تھی طوبئ جب آتی ہے گال سے گال ملا کر ملتئ ہے تو کیا گھوڑے کی چربی۔۔ اسکے بھی گال۔۔ اس نے جھر جھری سی لی۔۔۔
تبھئ اسکی نگاہ سامنے گلابی پیکنگ پر دمکتی ہوئی مانوس زبان میں لکھی تحریر پر پڑی۔ اسکے چہرے پر بنا کسی اسپیشل ایفیکٹ کے ہزار والٹ کے بلب جل اٹھے۔
اس نے لپک کر وہ ڈبیا اٹھا لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسن، مکئی کا آٹا ، عرق گلاب ایلوویرا
وہ چیزیں نکال نکال کر منے لائونج میں ڈھیر کر رہی تھی اور نور ، الف اور عشنا کا منہ کھلتا جا رہا تھا۔
ہے جن کا اسکے ساتھ گھوم گھوم کے سر گھوم چکا تھا سو صوفے پر گرا بازو آنکھوں پر دھرے تھا۔
تم تومہینے کا شیمپو صابن اور کریمیں لینے گئی تھیں یہ سب ۔۔
الف نے بے چارگی سے کہا۔
یہ صابن ہے۔ عزہ نے بیسن لہرایا
یہ شیمپو کا سامان
، ایلوویرا اور مکئی کا آٹا لہرایا
اور یہ کریم کا۔۔ اب عرق گلاب لہرایا جا رہا تھا۔
میں ڈی آئی وائی دیکھ کر یہ تینوں چیزیں خود بنا کر دوں گی تم لوگوں کو۔
عزہ نے عزم کیا۔
حد ہے یہ تو ابیہا اور واعظہ سے بھی اونچی نکلی۔ انہوں نے اپنی سارئ شاپنگ بے گھر افراد میں بانٹ دی تھی تو یہ سب پیسے ان چیزوں میں جھونک آئی۔ اب بنا لیا اس نے یہ سب اور ہم نے استعمال بھی کر لیا۔
نور نے حقیقتا سر پیٹ لیا۔
تم خالی ہاتھ آجاتیں ہم خود ہی اپنے لیئے حرام چیزیں خرید لیتے۔یہ الف بگڑی تھی۔۔
ویسے حرام اجزاء تو ان تمام چیزوں میں ہیں ہی۔ ہمیں محتاط رہنا ہی چاہیئے۔
یہ عشنا بولی تھی جوابا عزہ نے نہال نظروں اور باقی دونوں نے کینہ توز نظروں سے گھورا تھا۔
افطارئ کب ہوگی مجھے شدید بھوک اور پیاس لگ چکی ہے۔
یہ ہے جن منمنایا تھا۔۔
بس افطاری تیار ہے روزہ کھلنے میں بس دس منٹ رہ گئے ہیں۔ وہ سب الرٹ ہوئیں۔ الف نے جھٹ تسلی دی تو وہ دوبارہ منہ پر بازو رکھ گیا۔
بیسن سے منہ دھو کے منہ خشک ہو جاتا ہے میرا ۔۔ نور کراہی۔
واحد کریم ملی مجھے وہ تم لوگوں نے دیکھی ہی نہیں۔ عزہ انکا ردعمل دیکھ کر ہونٹ لٹکا کر بولی۔
دکھائو کونسی ایسی پاک و پاکیزہ کریم مل گئ تمہیں۔
الف کے طنزیہ انداز کو خاطر میں نہ لاتے اس نے پرجوش سے انداز میں شاپر میں ہاتھ ڈالا۔ پھر ایک ادا سے بیک گرائونڈ موسیقی منہ سے نکالی۔
ٹن ٹرااااااان۔ آہا یہ کیا ملا مجھے۔
اس نے کریم کا پیکٹ مٹھی میں بھر کر بازو سیدھا کرکے لہرایا
اسکے ایٹنیںے کئ طرح تنے بازو اور مٹھی میں ناز پان مصالحے کی طرح بند چھوٹی سی ڈبیاپر کیا نام درج تھا وہ کوشش کے باوجود نہ پڑھ پائیں۔
اوفوہ کونسئ کریم ہے یہ؟ تینوں کورس میں جھلائیں۔
فائزہ ۔۔۔ فائزہ بیوٹئ کریم اب کوریا میں بھی ہے۔ وہ گنگنائی
فائزہ؟ تینوں نے جھپٹا سا مارا اس پر
یہ تو اردو لکھی ہے۔ الف کو اب پتا لگا۔
یہ کیا کورین اب اردو میں بھی لکھتے ہیں پیکنگ پر ۔۔ وہ حیران ہوئی۔
اوہو وہ والا اشتہار بھول گئیں جو اس دن فیس بک پر دیکھا تھا۔ یا فائزہ یا فائزہ حسن عالم مرحبا۔ عزہ گنگنائی۔
یہ کریم پاکستان میں تیار ہوتی ہے میری کزن لگاتی تھی رنگ گورا کرنے کیلئے۔ عشنا نے کریم پہچان لی تھی۔ سو معلومات میں اضافہ ضروری سمجھا۔
تو کیا ہوگئ وہ گوری۔ نور نے اشتیاق سے پوچھا۔
نہیں۔ عشنا کا انداز قطعی تھا۔
پھر کیا فائدہ اور ہم نے کوریا میں آکر بھی پاکستانی کریمیں ہی استعمال کرنی تھیں۔ میرا خاندان مجھ سے کوریا کی کریمیں منگواتا اور میں یہاں فائزہ بیوٹی کریم استعمال کروں کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔
الف کو حقیقتا صدمہ پہنچا تھا کریم لیکر قالین پر بیٹھتی ہی چلی گئ۔
اپنے خاندان والوں کو بھی بتائو منع کرو کہ بنا سوچے سمجھے غیر ملکی کریمیں استعمال نہ کیا کریں یہ لوگ حرام اجزاء کثرت سے استعمال کرتے ہیں سارا نماز روزہ برباد ہو جائے گا ۔۔۔ عزہ نے جتایا۔۔
نونا دس منٹ ہوگئے۔ ہے جن کی آواز مزید مرگھلی سی ہوچلی تھی۔
ہائے ہمارا روزے دار بچہ۔ تینوں نے پیار بھری نگاہ ڈالی اس پر۔
میں بس لگاتی ہوں دستر خوان۔ نور فٹ سے کچن کی جانب بھاگی۔ الف اور عشناافطاری لگانے میں مدد کرانے لگیں۔
افطاری کا سامان لگا کر سب نے دعا مانگ کر ابھی کھجور کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اطلاعی گھنٹی بج اٹھی۔
اس وقت کون آگیا۔۔ الف کو بےزاری ہوئی
عروج اور واعظہ ہونگی شکر ہے آج پکوڑے ذیادہ بن گئے تھے مجھے یہی فکر تھی کہ بچ جائیں گے۔ نور خوش ہوئئ
عروج رات کو آئے گی اب ڈیوٹی پوری کرکے اور واعظہ بتا کر گئ ہے افطاری باہر کرلے گی۔۔
عشنا کہتی کھجور منہ میں ڈال کر دروازہ کھولنے چل دی۔
دروازہ کھول کر وہ لمحہ بھر کے لیئے جم کر رہ گئ تھی
کون ہے عشنا؟ نور پکار ی۔
بن بلایے مہمان۔ یونیفارم میں ملبوس ان دو چندی آنکھوں والی لڑکیوں اور ایک لمبے تڑنگے لڑکے کو دیکھ کر وہ بڑ بڑائی۔
ہم آجائیں اندر؟ کارڈ دکھا کر اس چندی آنکھوں والی لڑکی نے پوچھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد ۔۔۔ جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *