قسط 16
یار ویسے یہ بریانی کے چاول کافی گیلے ہوگئے ہیں مگر ذائقہ ٹھیک ہے۔
فاطمہ نے نوالہ لیکر چٹخارہ بھرا تھا۔وہ تینوں مل۔کر۔افطاری۔کر رہے تھے۔ کچن میں ماربل ٹیبل پلس کائونٹر جس سے لائونج اور کچن کی حدود متعین تھیں اسکےگرد اونچے اونچے اسٹول لگا کر وہ تینوں کھانے بیٹھ گئے تھے۔ سیہون نے نہایت خوبصورت بھالو اور ستاروں بھری کھیرے ٹماٹر اور پیاز کی سلاد بنائی تھئ۔ فاطمہ نے ہرا دھنیا ہری مرچ ڈال کر خوب چٹپٹا سا رائتہ بنایا تھا۔بریانی۔واعظہ نے دم۔دے ڈلئ تھی اب خوب مزا آرہا تھا تینوں کو ۔۔
صحیح تو بنے ہیں۔سیہون حیران ہوا۔
اس سے کم گلے ہوئے تو کچے لگتے ہیں۔ اس نے معلومات میں اضافہ کیا۔
کورینز کے یہاں۔۔۔۔فاطمہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔۔
ہمارے یہاں ایسے چاول پھوہڑ پن کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔۔۔ سیہون کندھے اچکا کر رہ گیااسے تو بریانی کے چاول ہمیشہ کچے لگے تھے اور گوشت زیادہ گلا ہوا۔۔ آج کی طرح۔
واعظہ اور فاطمہ دونوں ہاتھ سے کھا رہی تھیں دونوں کے ہاتھ چاولوں کی پیچ سے سن چکے تھے سیہون البتہ چاپ اسٹکس سے ننھے ننھے لقمے اٹھا رہا تھا۔
ویسے چکن بریانی سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ اس نے اضافہ کیا۔
اوئے چکن سے یاد آیا وہ جو طوبی چکن لائی تھی اسکا کیا کیا تم لوگوں نے۔ فاطمہ کو یاد آیا۔
وہ دیکھو۔ واعظہ نے اشارہ کیا فاطمہ سمجھ کر ہاتھ سے نوالہ چھوڑ بیٹھی۔
کیا؟؟؟؟وہ چیخی۔ سیہون چاپ اسٹک چھوڑ بیٹھا۔۔
اب کیا ہوگیا۔ وہ ہونق ہوا مگر فاطمہ اسکی۔جانب متوجہ نہ ہوئی غم و غصے سے بے حال واعظہ سے مخاطب تھی۔
یہ وہی چکن ہے؟ واعظہ کی۔بچی صدقے کا چکن کھلا رہی ہو مجھے؟ حد ہے طوبی نے عزہ اور ہے جن کا ہاتھ لگوا دیا تھا اس پر۔
دماغ خراب ہے کیا فاطمہ۔ وہ بھی چڑ گئ۔
خود بھی تو یہی ٹھونس رہی ہوں۔ سید ہوں میں صدقے کا چکن کھا سکتی بھلا ؟
تو پھر یہ چکن کہاں سے آیا وہ کہاں گیا۔۔ اسے اپنے ردعمل پر تھوڑی سی خفت محسوس ہوئی واقعی خود بھی تو وہی۔کھا رہی تھئ۔مگر تجسس برقرارتھا۔
تم دونوں مجھے دل کا دورہ پڑوا کر ہی رہو گئ۔ سیہون نے گلاس بھر کر پانئ نکالا اور پینے لگا
وہ دیکھو۔۔ واعظہ نے دانت کچکچائے۔ فاطمہ نے اسکئ اشارے کی سمت اپنے کندھے سے اوپر دیکھا تو اسکرین دمک رہی تھی ایک اور فلیش بیک۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ خوشی سے چلاتی ہوئی کلب میں بھاگی آئی۔ ہاتھ میں موبائل لہراتی جانے کیا نئی خوشی ملی تھی۔
واعظہ واعظہ۔ سنو۔۔۔
سیہون واعظہ کو ڈیفنس کک کی پریکٹس کرا رہا تھا دونوں تائکوانڈو کی مخصوص اپنے کلب کی وردی پہنے مکے بنائے دھڑا دھڑ لاتیں مکے چلا رہے تھے۔اس کی ہر دوسری بات اسی طرح جوش سے بھرپور اور فالتو کے سسپنس سے بھری ہونے کے باعث دونوں نے قابل توجہ نہ گردانا۔ لگے رہے
اوفوہ سنو تو میری بات۔ وہ ان دونوں کے گرد چکرا رہی تھی
پتہ ہے بی ٹی ایس کی فین میٹنگ کیلئے اپلائی کیا ہوا تھا میں نے۔
وہ انکے ساتھ ساتھ بھاگ رہی تھی۔
ہمیں نہیں پتہ ہوگا تو کسے پتہ ہوگا۔ انکی البمیں جو دھڑا دھڑ خریدتی پھری ہو اسکے پیسے ہم سے ہی ادھار لیئے ہیں تم نے۔ سیوہون نے کہتے ہوئے واعظہ کو مکا مارا جسے وہ بروقت جھکائی دے کر بچا گئ اپنا منہ۔
اور ایک دیو قامت چھے چندی آنکھوں والے لڑکوں کا پوسٹر میرے ہی سرہانے دیوار پر سجا ہے۔ رات کو اچانک نظر پڑے تو لگتا کہ باہر نکل کے کھڑے ہوگئے ہیں کبھی کبھی تو پلکیں بھئ جھپکاتے ہیں۔گھوم کر بائیں پیر کو اٹھا کر سیہون کو کک لگاتے ہوئے پھولی سانسوں سے واعظہ دکھڑا رو رہی تھئ۔ سیہون نے جھکائی دی۔ واعظہ کی یہ والی کک کمزورتھی۔ سیہون نے ٹوکا۔
تم اپنی فل باڈی اسٹریچ نہیں کرتی ہو اس طرح کمر میں چک آجائے گئ۔
ہوں۔ واعظہ نے سر ہلایا۔
اوفوہ میری بھی تو سنو۔ میں نے تین تین البم خریدی تھیں بی ٹی ایس کی اور تین دفعہ قرعہ اندازی میں نام داخل کروایا تھا۔
فاطمہ نے بات اس فالتو کی پریکٹس کے درمیان بھی پوری کر نی چاہی۔
ایک تو میرے نام سے ہی اینٹری کرائی ہے۔ واعظہ نے یاد کیا۔ اور گھوم کر مکا چلایا۔ سیہون اسکا مکا روک رہا تھا دونوں مکمل طور پر اپنی پریکٹس میں مگن تھے۔
واعظہ کے نام والی اینٹری نکل آئی کیا۔ سیہون نے یونہی اندازہ لگایا۔
نہیں۔ فاطمہ دبے دبے جوش سے بولی۔۔
مجھے پتہ تھا میں نہ صرف اپنے لیئے بلکہ دوسروں کیلئے بھی منحوس ثابت ہوتی ہوں جب پیدا ہوئی تھی تو میری دادی کو دل کا دورہ پڑ گیا تھا ۔۔ اسکے بعد۔۔
اسکی اپنی منحوسیت ثابت کرنے والے واقعات کی لمبی فہرست تھی جو ان دونوں کو رٹ چکی تھی۔
اسکے بعد تمہارے ابا کا پارٹنر دھوکا دے کر انکا سارا کاروبار سمیٹ گیا تھا، پھر جس دن تم پہلی بار اسکول گئئیں تو اس سکول کی کرپشن کی داستان کھل گئ اور وہ اسکول بند ہوگیا اور۔۔۔پھر۔
اس سے اگلے جملے سیہون ہنستے ہنستے دہرا رہا تھا
میری منحوسیت کی داستان صرف میں ہی سنا سکتی ہوں تم نہیں۔ اس نے بگڑ کر اسکو دو تین لاتیں مار دیں وہ ہنس ہنس کر بلاک کر رہا تھا
اب میری باری۔ اس نے کہہ کر اب خود حملہ کرنا شروع کیا واعظہ جھکائی دے رہی تھئ
تم دونوں بک بک بند کرو میری بھی سن لو میرا اپنا نام آگیا ہے۔
فاطمہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا مٹھیاں بھینچ کر چیخ اٹھی۔ سیہون کے حملے روکتے واعظہ لمحہ بھر کر بے دھیان ہوئی سیہون کی بھرپور لات آئی بمشکل منہ بچایاکندھے پر کھا کر وہیں لام لیٹ ہوگئ۔ سیہون کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے گھبرا کر اسے اٹھانے لگا۔
کین چھنا واعظہ۔ وہ گھبرا کر پوچھ رہا تھا
واقعی۔ کندھا سہلاتی واعظہ سئہون کے سہارے سیدھی ہوتے ہوئے بے یقینی سے پوچھ رہی تھی
ہاں نا۔ وہی تو بتانے آئی ہوں۔ سارا جوش ہی پانی کردیا میرا۔
وہ منہ لٹکا کر اسکے پاس ہی آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے گاڑیاں دھوئی تھیں، پیٹرول پمپ پر ملازمت کی، ایک فوڈ کورٹ میں ویٹرس کی نوکری کی صبح اس این جی اومیں جاتی تھی تو شام کو بھالو کا لبادہ اوڑھ کر ایک مارٹ کے سامنے کھڑے ہو کرپمفلٹ بھی بانٹے۔ کیا کچھ کرکے اس نے پیسے جمع کیئے تھے۔اس ایک ایونٹ میں شرکت کیلئے۔ پھر
اس نے ڈھیر ساری شاپنگ کی تھی اپنی سب بچت اڑا دی تھی سب کے سب ارکان کیلیئے تحفے لیئے تھے گھڑی فرینڈ شپ بینڈ چاکلیٹ ہیڈ بینڈ سب ایک جیسے سب کے ڈیبوٹ سے لیکر ڈی این اے البم تک کی تصاویر جمع کرکے البم بنایا انکے لیئے کسٹمائز ڈائری بنوائی اور جو جو سمجھ آیا خرید ڈالا
تم جس طرح اندھا دھند خرچ کر رہی ہو آگے کیا کروگی کرایہ کھانا پینا کپڑے؟ اسکو خوشی خوشی سب چیزیں بیڈ پر ڈھیر کرتے دیکھ کر ابیہا ٹوکے بنا نہ رہ سکی۔
تم بھی کہہ کر دیکھ لو میری تو کسی بات کا اثر نہیں اس پر۔
واعظہ اسکے ساتھ بازار گئ تھئ سو تھک کر اپنے بیڈ پر ہی گر گئ تھی
میں نے مالک مکان سے بات کر لی ہے۔۔فکر ناٹ۔
وہ۔واعظہ کو کن اکھیوں سے دیکھ کر کھلکھلائی اس نے جوابا گہری سانس لیکر منہ پر تکیہ رکھ لیا۔
اور فین میٹنگ کئ ٹائمنگ دیکھو عین 3 بجے تمہارا باس چھٹی دے گا تمہیں۔۔
ابیہا نے پھر کوشش کی۔
یہ سب خرچہ بی ٹی ایس کے آگے کچھ نہیں۔۔
وہ بی ٹی ایس کے لوگو والی ٹی شرٹ پہنے تھی اس لوگو پر ہاتھ پھیر کر ایک ادا سے جھومی
اف تم سوچ نہیں سکتیں میں کتنی پرجوش ہوں کل میں اپنے پسندیدہ ترین فنکاروں کے روبرو ہونگئ ہزاروں پرستاروں میں ہم خوش نصیب سو پرستار اس سعادت کو پائیں گے۔ کوئی سوچ سکتا ہے بھلا ان کو قریب سے دیکھنے کا یوں اتفاق ہوگاباس چھٹی دے نا دے میں کل چھٹی کر رہی ہوں ۔۔اف میری نوکری چلی بھی جائے تو بھی پروا نہیں
وہ سرشار سی ابیہا کے پاس بیڈ پر دھم سے گری تھی۔ اسکا رنگ سرخ ہو رہا تھا خوشی اسکے انگ انگ سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ ابیہا کی کوئی مستقبل کی حقیقت پسندانہ منظر کشی بھی اسے اس تقریب میں جانے سے نہیں روک سکتی تھی۔ وہ جتنئ بڑی بی ٹی ایس کی پرستار تھی اسکا تائب ہونا ناممکن نظر آتا تھا۔ وہ ہونٹ بھینچ کر اٹھ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دو بجے سے تقریب میں پہنچ گئ تھی۔ کوریا بھر سے آئے پرستاروں اور انکےلائے قیمتی تحائف کو دیکھ کر اسکواپنی۔لائی چیزیں ایکدم بے کار اور گھٹیا لگنے لگی تھیں۔ کوئی پلاٹینم جیولری لیکر آئی۔ہوئی تھی۔
کوئی اپنے ہاتھ سے بی ٹی ایس کے ارکان کے خاکے بنا کر لایا ہوا تھا کسی نے بی ٹی ایس کا ٹیٹیو کھدوایا ہوا تھا اپنے بازو پر۔ ایک پاگل لڑکی توبی ٹی ایس کی درجنوں البمیں خرید چکی تھی آج سب کو بانٹ بھی رہی تھی کہ خریدنے کا مقصد بس قرعہ اندازی میں حصہ لینا تھا۔۔ اسکو دینے آئی تو اس نے معزرت کر لی۔ ڈی این اے کے تین البم تو پہلے ہی۔پڑے تھے اسکے پاس چوتھے کا کیا کرنا ہے۔ ذیادہ تر لڑکیاں تھیں مگر لڑکے بھئ جو تھے وہ لڑکیاں ہی لگ رہے تھے۔ لڑکیاں شارٹ اسکرٹس میں ملبوس تھیں تو لڑکے پھٹی جینز اور برمودہ میں۔ ۔ بالوں کے رنگ سب نے اپنے پسندیدہ فنکار کے بالوں کے رنگ میں رنگ رکھے تھے۔ پونے تین بجے بی ٹی ایس کی وین آئی تھی۔ انکے آنے کی۔خبر سن کر سب ہدایتیں بھول بھال سب پاگلوں کی طرح چیختے ہوئے بھاگے تھے۔ انکو آدھا گھنٹہ۔لگ گیا تھا اسٹیج تک آنے میں ۔ سئکیورٹی کے دھکے کھاتئ کسئ طرح ان فنکاروں کو چھو لینے کی خواہش میں دیوانی لڑکیوں میں وہ خود کو ان سب سے الگ محسوس کر رہی تھی۔ بی ٹی ایس آکر اسٹیج پر بیٹھے تو شور مچا کر ان لوگوں نے ہال سر پر اٹھا لیاسامنے میز لگا کر ارکان کو بٹھا دیا گیا تھا انکے پیچھے ایک ایک اسٹاف میمبر کھڑا تھا پرستار آگے بڑھتے فنکاروں کی میز کے دوسری جانب اسٹول رکھا تھا جس پر بیٹھ کر وہ ہاتھ ملاتے دو سے تین منٹ بعد اگلے فنکار کے سامنے والے اسٹول پر بیٹھ جاتے اسکی چھوڑی جگہ پر دوسرا پرستار آجاتا۔۔ساتھ ساتھ بیٹھے ان فنکاروں کے ساتھ پرستاروں کا الگ الگ رویہ تھا۔ جن جمن کے پاس سے بہت جلدی اٹھ جاتی تھیں۔ ۔۔ وہ ایک کونے میں بیٹھی خاموشی سے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی اور یہی سب نوٹ کر رہی تھی اسکی توجہ مستقل اسٹیج پر جاتے لوگوں اور انکے رویوں پر تھی لوگ ویڈیوز بنا رہے تھے زور سے کسی رکن کا نام۔پکارتے وہ چونک کر سر اٹھاتا تو اسکی ویڈیو بناتے۔ جیسے چابی والے کھلونے ہوتے ہیں ۔۔ ہاتھ ملا کر گلے لگ کر اپنے دیئے گئے گفٹ خود پہنا کر سیلفیاں لیتےپرستار اسے بیٹھے ڈیڑھ گھنٹہ ہونے کو آیا تھا مگر مجال ہےان تمام ارکان میں سے کسی ایک کے بھی۔چہرے پر تھکن بیزاری کی رمق نظر آئی ہو۔یا لمحہ بھر کے لیئے مسکراہٹ مدھم ہوئی ہو۔
اسکے ساتھ بیٹھی لڑکی پورے ایونٹ کی ویڈیو بنا رہی تھی بازو اگلی کرسی کی پشت پر ٹکائے ہاتھ ہلنے نا پائے اسکا پورا دھیان رکھے وہ بیٹھی۔تھئ فوکس اسکا تھا جنگ کوک پر۔ مجال ہے جو اسکا ایک لمحے کا بھی ردعمل اسکے کیمرے سے چھپا رہ سکا ہو۔ اسکی باری جانے کب آئے اس نے یہی سوچ کر ان تمام کی ویڈیو بنانی شروع کردی۔ جنگ کوک تائہیونگ کے پاس سے تو لڑکیاں اٹھنے کو تیار ہی نہ تھیں۔ ایک نے ہاتھوں کا پیالہ سا بنایا تو جنگ کوک نے آگے بڑھ کر اسکی ہتھیلی پر تھوڑی رکھ دی۔ اتنا معصوم اتنا پیارا لگ رہا تھا فاطمہ کو ہنسی آگئ۔ اسکا پورا منظر کیمرے کی آنکھ سے قید کرتے اس نے کیمرہ گھمایا ریپ مونسٹر، شوگا جمن جن۔۔ وہ لڑکی بہت تیزی سے اپنی باری آنے پر انکی۔جانب بڑھی تھی۔ جن نے مسکرا کر اسے دیکھا اپنا ہاتھ بڑھایا ملانے مگر اس نے جھٹک دیا اور تاہیئونگ کے آگے جا بیٹھی۔ اس نے مسکرا کر اسکو خوش آمدید کہا وہ بڑا سا بیگ لائے جانے کیا کیا تحفہ تائیہیونگ کیلئے لائی تھی جسے خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے وہ مسکرا کر ہاتھ ملا۔رہا تھا۔ مگر جن۔۔ اس نےکیمرہ واپس گھمایا۔
اسکے چہرے پر تاریک سا سایہ لہرا گیا تھا۔ اس نے پچھلے پرستار کی لائی مٹھائی جو اسکے سامنے رکھی تھی اٹھا کر منہ میں ڈالنی چاہی توپیچھے سے اسٹاف میمبر نے سختی سے اسکو کچھ کہہ کر چھین لی۔ لمحہ بھر کو مسکرا کر اس نے سامنے دیکھا تو اتفاق سے عین فاطمہ کے کیمرے پر اسکی نگاہ۔گئ۔ یہ سارا منظر قید کرتی فاطمہ کا ہاتھ ہل سا گیا تھا۔ جن کی آنکھیں بھر سی آئی تھیں اور یہی منظر اسکے پاس محفوظ ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلیش بیک دیکھ کر فاطمہ اداس سی ہوگئ۔
کیا یاد کرادیا۔ پتہ ہے وہ ویڈیو آج تک میں نے کہیں نہیں ڈالی۔ بلکہ اس دن کے بعد میں نے دیکھی بھی نہیں۔ یقین کرو ۔۔۔ کہتے کہتے جیسے وہ واقعی اسی دن میں پہنچ گئ تھی۔
بی ٹی ایس بالکل کٹھ پتلیاں لگ رہے تھے ، پتھر کی مورت ، چابی والے کھلونے جیسے پرستار انکو ٹریٹ کر رہے تھے مجھے انسان نہیں ڈمی لگ رہے تھے جنکا کام بس تفریح دینا ہے انکے اپنے کوئی احساس و جذبات نہیں۔
واعظہ اور سیہون دونوں اکٹھے لفظ با لفظ وہی دہرا رہے تھے جو فاطمہ نے ابھی کہنا تھا۔ ظاہر ہے پچھلے دو سالوں میں جب جب بی ٹی ایس کا نام بھی اسکے سامنے لیا گیا تھا اس نے یہ واقعہ شد و مد سے دہرایا تھا اور اپنے انہی خیالات کا اظہارکیا تھا اور اسکے دوست اس تقریر کو رٹ چکے تھے۔
ہاں وہی۔۔ وہ۔کھسیائی۔۔
میں نے چکن کا پوچھا تھا یہ فلیش بیک کہاں سے دکھا دیا۔ اس نے واعظہ کو۔گھورا
کچھ زیادہ۔ریوائنڈ ہوگیا معزرت اب دیکھ ہی۔لو پورا۔۔ واعظہ کہہ کر دوبارہ پلیٹ پر جھک۔گئ تو فاطمہ نے۔مڑ کر دوبارہ فلیش بیک دیکھنا شروع کر۔دیا۔
کھانا بھی ساتھ کھائو اس بار میز پر فلیش بیک دیکھ لو۔ واعظہ نے کہا تو وہ سر ہلاتی اب میز کی۔جانب دیکھنے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی باری آئی تو وہ گہری سانس لیکر اٹھی۔ سارا جوش جھاگ کئ طرح بیٹھ گیا تھا گھبراہٹ کہیں غائب ہوچکی تھی۔ کہاں اسے وہ دنیا سے الگ مخلوق لگ رہے تھے کہاں اب اسے ان پر ترس آرہا تھا۔ اسے بی ٹی ایس پر ترس آرہا تھا۔ عجیب بات تھی نا؟
جن کا کائونٹرسب سے پہلا تھا۔اسے دیکھ کر وہ بہت خوشدلی سے مسکرایا یا ہر پرستار کیلئے ایک زبردست مسکراہٹ۔
آپکی آواز بہت مختلف اور میٹھی ہے۔ آپکے پرستار کم ضرور ہونگے مگر مختلف اور اچھی آوازیں پسند کرنے والے ہونگے۔
اس نے مسکرا کر کہا اور اپنی بات پر اسکے چہرے پر پھیلتی خوشی کی۔لہر دیکھ کر طمانیت سی اسکے اندر بھرتی گئ تھئ۔۔
میری اس پیاری سی پرستار کا نام۔
وہ مسکرا کر اسکی جانب ہاتھ بڑھا رہا تھا۔ وہ شش و پنج میں پڑ گئ۔ زندگی میں پہلی بار کسی لڑکے سے ہاتھ ملا لے۔۔ ؟؟؟
اسے ہنگل سمجھ نہیں آئی ہوگی یہ سوچ کر اس عربی نقوش والی لڑکی کیلئے اسکے مینجر نے ترجمہ کردیا انگریزی میں۔
فاطمہ۔۔ اس نے جواب دیتے ہوئے سوچا کہ ہاتھ بڑھائے یا نہیں۔۔اسکا پسندیدہ بوائے بینڈ گروپ مگر تھے تو یہ سب لڑکے ہی وہ ملا لے ہاتھ یا نہیں۔۔۔۔۔ کہ جن نے اپنا بڑھا ہوا ہاتھ واپس کھینچ لیا
آپ مسلم ہیں۔ معزرت مجھے پتہ نہیں چلا تھا۔۔وہ آپ نے اسکارف نہیں لیا ہوا سر پر تو۔۔اسلیئے۔۔۔
وہ بیٹھے بیٹھے زرا سا جھک کر معزرت کر رہا تھا۔اسکا مینجر اسکا جملہ مکمل ہونے پر ترجمہ بھی ساتھ ساتھ کر رہا تھا۔ وہی سخت دل مینجر جو اس وقت اسے دنیا جہاں کا سخت دل ترین انسان لگ رہا تھا اس وقت عاجزی سے جھک کر بات کرتا دنیا کا رحم دل ترین انسان لگ رہا تھا۔ وہ شرمندہ سی ہوگئ۔ اس نے سر پر اسکارف نہیں لیا ہوا تھا مگر گہرے نیلے لانگ ٹاپ شرگ اور جینز کے ہمرنگ پرنٹڈ نیلا اور گلابی اسکارف گلے میں ڈال رکھا تھا۔۔
۔ آپکا نام بہت پیارا ہے۔۔ ہمارے جتنے بھی عربی پرستار ہیں ان میں ہمیں یہ نام ضرور سننے کو ملتا ہے۔۔۔ وہ مزید بھی کہہ رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشنا نے جوابا دھاڑ سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا تھا۔
ہر انسان کی اپنی خواہشات اور ترجیحات ہوتی ہیں جن کیلئے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے تمہیں اگر اسکی یہ ضد بے جا لگ بھی رہی ہے تو تم اسکو روک نہیں سکتیں تجربہ کرنے سے۔۔
نور نے فاطمہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھایا۔۔
فاطمہ نے اپنی اس جزباتی تقریر کا آج تک اتنا غیر جزباتی ردعمل نہیں دیکھا تھا۔
بھاڑ میں جائے اپنی کمائی بھاڑ میں جھونکے مجھے کیا۔۔ وہ تلملاکر بولی۔۔۔ الف کو ایکسو سے اتنی ہی انسیت تھی مگر فاطمہ کی فین میٹنگ کا احوال اسے عبرت ناک لگا۔ قریب تھا سب بھول کے فاطمہ کے گلے لگ جاتی کہ وہ جھٹکے سے اٹھی اور تن فن کرتی اپنا بیگ اٹھا کر فلیٹ سے ہی نکلتی چلی گئ۔
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں کے مصداق الف اپنا سا منہ لیکر رہ گئ۔
آپ لوگ نماز پڑھ لیں وقت تنگ ہو رہا ہے۔
یہ تاکید جہاں سے آئی تھی ان سب کے سر گھوم گئے تھے۔ ہے جن ان سب کو حیرانی سے خود کو تکتا پا کر سٹپٹا گیا۔
وہ طوبی آپی ایسا ہی کہتی ہیں اس وقت کہ وقت تنگ ہو رہا ہے۔میں نے ان سے سیکھا یہ کوئی برا جملہ تو نہیں؟؟؟ وہ سمجھا شائد اسکی سمجھ میں کوئی کمی رہ گئی۔۔
نہییں۔۔ الف اور نور ٹھنڈی سانس بھر کر لائونج سمیٹنے لگیں۔عزہ کو بھی بھوک محسوس ہوئی یا ہےجن جیسے چٹخارے بھر کر کھا رہا تھا کھانا اسے دیکھ کر منہ میں پانی آگیا ۔ گول گول سے پیڑے سے بنے ہوئے انڈے کے اندر میں کچھ بھرا ہوا تھا اور کمچی۔۔۔ انڈے تو وہ کھا ہی سکتی تھی۔ خود وہ سوپ نوڈلز کے چاپ اسٹکس سے کھا رہا تھا ساتھ کمچی بھی اٹھا لیتا۔۔
کھائیں گی آپ؟۔ اس نے عزہ کو دیکھتا پا کر خلوص سے پیشکش کی۔۔ اس نے کمچی کھسکا بھی دی اسکی جانب مگر بند گوبھی کے اس اچار میں جس کے مصالحے کو خوشبو دور سے محسوس ہو جاتئ تھی اسے دلچسپی نہیں تھی۔
اس نے انڈا اٹھاتے ہوئے پوچھا۔۔
کھا لوں۔ اس میں چکن تو نہیں ہوگا نا۔
اس نے جواب کا انتظار کیئے بنا منہ میں رکھ لیا۔ آملیٹ کی طرح تلے ہوئے ایگ رول میں گاجر پیاز اور۔
وہ چباتے ہوئے چونکی۔ اس میں تو چبانا پڑ رہا ہے گوشت بھی ہے کیا۔
نہیں چکن نہیں ہے۔۔۔ ہے جن نے سادگی سے سر نفی میں ہلایا۔عزہ نے سکھ کا سانس لیا۔
۔ اس میں بیکن ہے۔ ہے جن نے جملہ مکمل کیا اسی وقت اس نے نوالہ نگلا تھا۔
کیا۔۔ وہ حلق کے بل چلا اٹھی۔۔
اس انڈے میں سور کا گوشت ہے؟؟؟؟؟ کیوں تم نے بتایا کیوں نہیں۔
وہ اتنی زور سے چلائی تھی کہ الف اور نور دہل سی گئیں ہے جن گھبرا کر کھڑا ہوگیا۔
نونا کیا ہوا۔۔
عزہ سیدھئ کچن سنک کی جانب بھاگئ
آخ۔۔
اب کیا قیامت آگئ ہے پہلے دروازے توڑے اب پھر چلا۔۔۔۔۔
عروج دھاڑ سے کمرے کا دروازہ کھولتی باہر نکل کر گرجی مگرسامنے کچن کا منظر دیکھ کر الف اور نور کی۔طرح ہکا بکا سامنے دیکھتئ رہ گئ باقی جملہ منہ میں رہ گیا۔
عزہ حلق میں انگلی ڈال کر الٹی کرنے کی کوشش کر رہی تھی بیسن میں اور ساتھ ساتھ بلک بلک کر رو رہی تھی۔
مجھےبتا نہیں سکتے تھے۔۔۔میں سو سو۔۔۔۔۔ کھا گئی آخخخخخخ
ساتھ کھڑا ہے جن بھئ ہنگل کبھی انگریزی میں اسکی منتیں کر رہا تھا۔
نونا آئیم سوری مجھے نہیں پتہ تھا۔
اب اسے کیا ہوا ہے؟ عروج نے بے چارگی سے پوچھا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزے میں خون سے لت پت وجود میں زندگی کی رمق تلاشتے سارا دن گزرا تھا۔ شکر ہے جان بچ گئ تھی مگر اگلے چوبیس گھنٹے اسکے زمے مریض کیلئے اہم۔تھے۔۔ ڈرپ لگا کر نرس کو اگلی ہدایات دے کر جب وہ ڈیوٹی ختم کرکے باہر نکلی تو سورج ڈھل چکا تھا بلکہ رات پھیل رہی تھی۔ تھکی تھکی سی اپنے کیبن میں آکر بیٹھی۔ اسکی میز پر ایک چھوٹا سا پیکٹ رکھا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اٹھایا۔ عجوہ کھجور ایک سینڈوچ اور ایک جوس کا ساشے بند تھا اس میں۔اسے اب یاد آیا اسکا تو آج روزہ تھا۔سارا دن اسے اگر کچھ یاد رہا تھا تو وہ شدید نازک حالت میں آئے حادثے کے مریض۔آج تو نماز بھی نہیں پڑھی۔ اسے افسوس سا ہوا۔ ۔ شدید بھوک پیاس کا ایکدم احساس ہوا تھا۔ اس نے جلدی سے پیکٹ کھول کر دعا پڑھتے ہوئے کھجور منہ میں ڈال لی۔
اس وقت یہاں اسکے سوا ایک دو اور خاتون ڈاکٹرز ہی آتی تھیں۔سو اطمینان سے اس نے ماسک ہٹا کر افطاری کی۔ اور خدا کا شکر ادا کیا۔
مریض کی کیس تاریخ درکار تھی وہ جلدی میں اپنے کیبن سے لانا بھول گیا الٹے پیروں واپس آنا پڑا اپنے کیبن کی طرف جاتے ہوئے اسکی یونہی سامنے نگاہ پڑی تو پھر پلٹ ہی نہ سکی۔ ہزار بار سوچا ان بڑی بڑی آنکھوں کے نیچے ناک کتنی ستواں ہوگی ہونٹ گلابی ہونگے یا عنابی اسے مشرقی نین نقش کا اتنا اندازہ تو نہ تھا مگر پھر بھی ایک خیالی پیکر تراش رکھا تھاچار سال سے اسکو دیکھ رہا تھا یا چار سال سے اسکو دیکھا تک نا تھا کسی پہیلی جیسی روج جس نے اسکا راستہ روک رکھا تھا۔ہزار لڑکیاں تھیں گرد وہ ہر لڑکی پر وہ بڑی بڑی مڑی پلکوں والی بھوری آنکھیں جوڑتا اور ہر بار ناکام رہتا۔ کیا کیا نا سوچا تھا اس نے روج ایسی ہوگی ویسی دکھائی دیتی ہوگی۔اور آج اس نے روج کو دیکھ ہی لیا۔ یونہی اچانک سر راہ۔ چلتے چلتے۔۔ اورجتنا بھی سوچا جیسا بھی سوچا کم سوچا تھا۔ وہ اسکی سوچ سے بڑھ کر تیکھے نقوش گلابی رنگت اور تھوڑی پر ڈمپل والی ایک حسین لڑکی تھی۔ اتنی حسین کہ اسکا لمحہ بھر کو دل تھم کر دھڑکا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک طرف ہو کر انکو اندر آنے کا راستہ دیا۔
یون گے نامی وہ اہلکار دھیرے سے سر جھکاتی اسے سلام کرتی تیزئ سے اندر چلی آئی۔ انکے ہمراہ آیا لڑکا باہر دروازے پر ہی رک گیا البتہ دوسری لڑکی نے بھی اسکی تقلید کی۔۔
کیا ہوا کون ہے؟ منہ میں پکوڑے بھرے بمشکل الف نے پوچھا پھر نووارد لڑکیوں کو دیکھ کر سٹی سی گم ہوگئ۔
آننیانگ۔ ہم گنگنم پولیس اسٹیشن سے آئے ہیں۔ مس نور مرتضی کو تحویل میں لینے کا حکم نامہ ہے ہمارے پاس۔۔
وہ خالص ہنگل میں بولی تھی ۔ ہے جن لقمہ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا
کس جرم میں؟ وہ دوبدو سوال کر رہا تھا
کیا ہوا کیا کہہ رہی ہیں یہ؟ نور الف دونوں گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئیں
ہمیں شبہ ہے کہ گنگنم اسٹیشن میں زیر تفتیش آن لائین سیکس اسکینڈل میں گرفتار ملزمان سے مس نور کا تعلق ہے۔ ہم تفتیش کیلئے انکو حراست میں لینا چاہتے ہیں یہ حکم نامہ ہے ۔۔
اس نے مسکرا کر جس رسان سے بتاتے ہوئے کاغذ انکی جانب بڑھایا اس سے الف اور نور کو گمان تک نا گزرا کہ کیا کہہ رہی ہے۔ ہے جن نے کاغذ پر لکھی تحریر پڑھی۔ اسکے ہونٹ خشک ہو چلے تھے۔۔
انکو پتہ چل گیا مجھے کس نے اغوا کیا تھا؟۔عزہ ہے جن کا کندھا ہلا کر پوچھ رہی تھی۔
وہ۔ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
وہ یہ آپکے سامنے ہی ہیں مگر آپ تھوڑی سی مہلت دے دیں انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا صبح چار بجے کے بعد اب یہ کھانا کھا رہی ہیں کھا لیں تو پھر بھلے آپ گرفتار کر لیں۔
ہے جن دستر خوان کی جانب اشارہ کرکے کچھ کہہ رہا تھا وہ چاروں خفت ذدہ ہوئیں۔
آئیں آئیں آپ بھی ہمارے ساتھ روزہ افطار کیجئے۔ معاف کیجئے گا ہمیں خود ہی آپکو دعوت دے دینی چاہیئے تھے۔ یہ نور تھی اخلاق جھاڑتی وضاحت کرتی باقائدہ کندھے سے پکڑ کر یون گے کو بلا رہی تھی۔ یون گے نے اپنی ساتھی کو دیکھا ۔
آئیں نا آپ بھئ کھائیں۔ وہ تینوں دعوت دے رہی۔تھیں۔ اہلکاروں کو یوں کسی مشتبہ گھر میں گرفتاری کی غرض سے جانے کی صورت میں کھانے پینے کی اجازت نہیں۔ہوتی مگر ایسی۔صورت حال میں ملزم اصرار کرکے کھانے کی دعوت بھی نہیں دیا کرتے۔یہ صورت حال انکے لیئے بھی انوکھی تھی۔۔ عشنا دروازے پر موجود اہلکار سے انکی آمد کی وجہ پوچھ رہی تھی۔ ان تینوں نے اصرار کرکے دونوں اہلکاروں کو بٹھا لیا تھا۔ اب یون بے جھجکتے ہوئے پکوڑا اٹھا رہی تھئ۔ ہے جن نےایک نظر انکے اطمینان بھرے مسکراتے چہروں پر ڈالی پھر جلدی سے ایک میسج لکھ کر کسی کو بھیج ڈالا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ختم شد۔