Desi Kimchi Episode 35

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 35
آہجوشی آہجوشی۔۔
وہ خراماں خراماں چلتے اپنے راستے ناک کی سیدھ میں جا رہے تھے جب انہیں اپنے پیچھے پکار سنائی دی۔
آہجوشی۔۔
یقینا یہ انکا نام نہیں تھا۔ دلاور نے زرا سا سر جھٹکا اور چال مزید تیز کر لی کیونکہ موسم کے تیور خراب ہو رہے تھے وہ جلد از جلد گھر پہنچنا چاہ رہے تھے۔
آہجوشی۔۔ ہانپتا کانپتا تیجون ان کے کندھے پر پیچھے سے آکر ہاتھ رکھ کر تھوڑا جھلا کر انہیں ہلا نے لگا۔۔ اس افتاد پر وہ بوکھلا کر مڑے
کب سے آوازیں دے رہا ہوں سنتے ہی نہیں۔ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر وہ جھکتے ہوئے سانسیں بحال کر رہا تھا۔ جانے کب سے انکے پیچھے بھاگتا آرہا تھا۔
دے؟ وہ حیران سے ہوئے۔۔
پہچانا مجھے؟ اس نے سیدھا ہو کر انکی آنکھوں میں جھانکا۔۔
ہاں۔۔ انہوں نے پہچان کر گرمجوشی سے سر ہلایا
تم وہی ہو نا جس نے گائے کی تصویر والا دودھ کا ڈبہ مجھے فریج سے نکال کر دیا تھا۔
وہ شستہ انگریزی میں بولے جوابا وہ انہیں منہ کھول کر گھورتا رہ گیا۔
کہاں سے انگریز کی اولاد پلے پڑگیا۔ وہ سر جھٹکتے بڑ بڑایا
دلاور کی سماعتیں قاصر رہیں سننے سے ورنہ اتنی ہنگل تو سمجھ آ ہی جاتی تھی انکو۔۔
دے مگر ایک اور جگہ بھی میں آپکو ٹکرا تھا۔۔
اس نے جوابا انگریزی میں اٹک اٹک کر کہا۔
کہاں۔ دلاور سوچ میں پڑے۔۔
پھر اسکی ناک پر لگی بینڈ ایڈ دیکھ کر انہیں یاد آیا۔۔ تو گرمجوشی سے بولے
ہاں تم اس دن بلنگ کا شکار تھے کچھ لڑکے پیٹنا چاہ رہے تھے تمہیں۔
جی اور مزید پٹوں گا میں اگر آپ مجھے اس دن جو میں نے یو ایس بی آپکے کوٹ کی۔جیب میں ڈالی تھی وہ مجھے واپس نہیں کریں گے تو۔
اس لڑکے نے اپنی چوڑی ہتھیلی انکے سامنے پھیلائی۔۔۔
کونسی یو اسی بی۔۔ انکے فرشتوں کو خبر نہ تھی۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نور نے یو ایس بی کو گھما کر دیکھا الٹ پلٹ کر دیکھا۔۔ اندر سے سب خالی تھا۔۔ منے لائونج میں منی میز پر عزہ طوبی اور نور سر جوڑے بیٹھی تھیں۔۔
اسکے اندر بھی کچھ ہوتا ہے طوبی جی۔۔
عزہ نے یاد دلایا۔۔
ہاں وہ ہے نا۔ طوبی نے دوسری ہتھیلی سامنے پھیلائی۔۔
ہو ایس بی کی کاپر کی پتریاں اور کچھ الم غلم یقینا یو ایس بی کے اندر کا مواد دھرا تھا۔۔
اسکو جوڑ دو۔ پلیز۔ طوبی نے منت بھرے انداز میں نور کو کہا تو وہ بے بسی سے دیکھ کر رہ گئ۔
طوبی ایک تو میں سافٹ ویئر انجینیرنگ کر رہی ہوں ہارڈ ویئر نہیں دوسرا یہ جو حال اس یو ایس بی کا ہوگیا ہے نا اسکو تو کوئی معجزہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ نور نے یو ایس بی کے انجرپنجر لہرائے۔۔
کیا کروں پھر میں؟ یقینا دلاور کے دفتر کی کوئی اہم دستاویز ہوگی اس میں۔ وہ تو بہت خفا ہوں گے کہ میں نے پھر جیبیں دیکھے بغیر انکا اپر دھو ڈالا۔ ایک تو وہ س بات پر بھی ناراض ہونگے کہ اپر کیوں دھو ڈالا۔ اب خود بتائو اپر گندا نہیں ہوتا کیا؟ کب سے پہن رہے تھے پورے دو ہفتے میں چار پانچ بار جب باہر جانا ہو یہی چڑھا لیتے تھے۔مانا پسینہ نہیں آتا کوریا میں سردیوں میں پھر بھی گندا تو ہوتا ہے نا۔
طوبی کی گل افشانیوں پر نور اور عزہ دونوں نے اپنے اپنے اپر پر نگاہ ڈالی پھر سمٹ کر رخ پھیر لیا
میں نے تو جب سے یہ اپر لیا ہے کبھی نہیں دھلوایا۔
نور منمنائئ۔۔
میں نے دھلوایا تو تھا پر پچھلے سیزن میں وہ بھی مارکیٹ سے پتہ یے ڈرائی کلیننگ کا کتنا۔۔
عزہ نے بھی اسکے کان میں سرگوشی کی۔۔
طوبی چڑئ
کیا باتیں کر رہی ہو دونوں مجھے بھی تو بتائو۔ اب دیکھو میں کیا کروں۔آج آئیں گے تو خود کہہ دوں گی کہ کوئی یو ایس بی تھی ہی نہیں آپ بھول گئےلانا ۔ کیسا یقین کر لیں گے نا؟
طوبی نے چٹکی بجائی
اگر انکے بنا پوچھے آپ انکو بتانے لگیں گی تو بالکل یقین نہیں کریں گے۔ عزہ نے کندھے اچکائے۔
پھر کیا کروں۔بہت خفا ہوں گے۔وہ۔۔۔طوبی نے بے چاری سی شکل بنائی۔۔
ایک کام کرتے ہیں اسکی ڈپلیکیٹ بنوا لیتے ہیں۔ نور کو آئیڈیا سوجھا۔۔
کورین ڈراموں میں فون تک کی تو کاپی بنوا لیتے ہیں یہ تو معمولی یو ایس بی ہے۔ آخر کوریا اتنا ترقی یافتہ ملک ہے۔۔۔
نورکے جوش پر عزہ نے منہ کھول کر اسے دیکھا
کہاں سے؟ سوال اچھا تھا۔۔
دکان سے۔۔نور نے جیسے اپنا ماتھا پیٹا۔
چلو پھر۔ ان کے آنے سے پہلے ہم بنوا لاتے ہیں۔۔ طوبی جوش سے اٹھ کھڑی ہوئئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب آپ سے ٹکرایا تھا تو میں نے آپکے اپر کی جیب میں یو ایس بی ڈال دی تھی۔ آہجوشی آپ سمجھ نہیں رہے بہت اہم یو ایس بی ہے۔مہربانی ہوگی مجھے واپس کریں۔
وہ منتوں پر اتر آیا تھا
دیکھو اگر تو واقعی تم نے ایسا کیا تو فاتحہ پڑھ لو اس پر یقینا اس ہفتے میری بیوی نے اسے دھو ڈالا ہوگا بنا جیب دیکھے۔۔
دلاور نے اسکو غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونے دیا۔۔انگریزی میں اردو مثالوں کا انگریزی ترجمہ کرکے سمجھایا باقائدہ
کیا پڑھ لوں۔۔
تیجون ہونق ہوا۔۔
میرا مطلب اسکی آخری رسومات بھی ادا ہوچکی ہوں گی نئی لے لو۔ اور مجھ سے پیسے مت مانگنا نئی یو ایس بی لینے کے میں نے نہیں کہا تھا کہ میری جیب میں ڈال دو یو ایس بی۔
دلاور نے ہاتھ جھاڑے
ایسا مت کہیں وہ میرے لیئے زندگی موت کا معاملہ ہے۔۔
تئجون منتوں پر اتر آیا۔۔۔
اسائنمںٹس ہی ہونگئ نا اس میں دوبارہ بنا لو پہلے کونسا خود بنائی ہوگی گوگل سے ہی نقل ماری ہوگی۔۔
دلاور ہلکے پھلکے انداز میں کہہ کر پلٹ کر جانے کو تھے کہ تیجون کی آواز نے انکے قدم روک لیئے۔۔
اس میں۔۔۔۔ غیر اخلاقی مواد ہے۔
تیجون چلاکر بولا تھا
کیا ؟؟؟؟؟ وہ اس بار اردو میں حیرت زدہ تشویش زدہ اور جانے کیا کیا ایکدم ہوئے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آہجومہ نے کتنی ہی دیر بعد آنکھ کھولی تھی۔متلاشی نگاہیں ہمیشہ کی طرح کمرے کے چاروں کونوں میں لہرا کر ان میں حرکت ہوتے دیکھ کر مستعد ہو کر آگے بڑھتی عروج کے چہرے پر جم گئیں۔
آہجومہ ۔۔۔ کیسی طبیعت ہے آپکی۔۔
انکی پیشانی سہلاتے اس نے بے حد نرم سے انداز میں ہنگل میں پوچھا۔۔
میری۔۔ میری بیٹی کو بلوا دو۔
بے حد کم آواز میں وہ اٹک اٹک کر ہمیشہ کی طرح یہی جملہ بولی تھیں۔۔
۔آپکی بیٹی آپ سے ملنے آئی ہے۔۔۔ عروج نے دھیرے دھیرے بتایا تو جیسے مردہ تن میں جان سی پڑ گئ۔ بے تاب سا ہو کر انہوں نے اٹھنا چاہا۔۔۔۔ تو عروج نے نرمی سے انکے شانے پر دبائو ڈالتے ہوئے روکا اور خود دھیرے سے ان کے اور انکی بیٹی کے درمیان سے ہٹ گئ۔
دیوار سے ملحقہ نرم سے بنچ پر بیٹھی وہ کینہ توز نگاہوں سے گھور رہی تھی۔۔
مینا۔۔ نحیف سی پکار۔ ضعیفی اور ضعف عروج کا انکی بے بسی پر دل بھر آیا۔۔۔ تو رخ موڑ کر آنکھیں صاف کرنے کگی
اپنے گناہوں کی سزا میں یہاں ایسے یوں پڑی ہوتم۔ مجھے تم سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں۔۔ایک بار اپنے گندے وجود اور بدبو دار ماضی سمیت دنیا سے دفع ہو جائو جان چھوڑو میری۔۔۔
مینا چلائی۔۔عروج ششدر سی پلٹ کر اسے دیکھنے لگی۔۔
دو دل کے دورے پڑ چکے ہیں انہیں۔اچانک خوشی بھی جان لیوا ہو سکتی ہے تبھی اتنی احتیاط سے ملوایا تمہیں اور تم ان پر چلا رہی ہو۔۔
عروج دانت پیستی غرائی تھی مگر دھیمی آواز میں۔ آہجومہ سسکیاں لیکر رو پڑی تھیں۔ مینا نے نفرت سے سر جھٹکا۔۔
مرجائے میری طرف سے کل کی مرتی آج مر جائے۔ یہ جہنم یہ اسکے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اسکی وجہ سے تمام عمر اپنا نام اپنی شناخت بدلتی رہی ہوں چھپاتی رہی ہوں کبھی للی ، ٹریسی ، مینا کیا کیا۔۔۔۔۔ اس نے سسکی لی۔۔
پھر بھی اسکا حوالہ میری زندگی کی ہر کامیابی ہر خوشی کے سامنے رکاوٹ بنتا گیا۔۔ اس نے نفرت سے بیڈ کی جانب اشارہ کیا جہاں پڑا وجود سسکیاں لے رہا تھا۔۔
وہ چلاتے چلاتے رو پڑی تھی۔۔ عروج کو سمجھ نہ آیا اں ماں بیٹی کو کیسے سنبھالے۔ مینا عروج کو ایک طرف کرتی بیڈ کی جانب بڑھی
تمہاری وجہ سے تمہارے ماضی کی وجہ سے میری زندگی میں آج تک کوئی خوشی نہ آسکی۔ نہ میں پڑھ سکی نہ کچھ بن سکی آج تمہارے ہی نقش قدم پر بار میں ناچتی ہوں تو ہر بار تم پر دل سے لعنت بھی بھیجتی ہوں۔ دیکھ لو تم اپنا انجام ماضی کی مشہور اداکارہ جس جسم کے بل پر بالغ صنعت پر حکمرانی کرتی تھئ آج اسی جسم کو دیکھو کیسے گل رہا ہے۔ دیکھو۔۔
وہ چلا کر بے دم سی ہو کر اسکے بیڈ کے پاس گھٹنوں کے بل گر کر اسکی پٹی سے سر ٹکا کر رو رہی تھی۔ آہجومہ پر جیسے ان سب باتوں کا الٹا اثر ہو رہا تھا آنکھیں نیر بہا رہی تھیں مگر چہرے پر مردنی نہیں تھی۔ اٹھ کر زرا سا بیٹی کے گھنے بالوں والے سر پر انگلیاں پھیر کر دھیرے سے بولیں۔۔
میری جان۔ مینا اٹھ کر ان سے لپٹ گئ۔۔
عروج کے لب نیم وا سے ہوئے… ان سب سے بےنیاز زرا ہٹ کے بیٹھئ اپنے موبائل میں مگن آنکھیں مسلتی دھیرے سے وہ باہر نکل آئی۔ دروازہ احتیاط سے بند کر کے وہ ان دونوں ماں بیٹی کو اپنے معاملات سلجھانے کا موقع دینا چاہتی تھی۔ دروازہ بندکرکے سیدھی ہوئی تو بری طرح دہل کر دل پر ہاتھ رکھا۔۔
ہائے اللہ۔۔
سیونگ رو بالکل سامنے سینے پر ہاتھ باندھے کھا جانے والی نگاہوں سے گھور رہا تھا۔۔
اس نے اپنی چوڑی ہتھیلی اسکے سامنے پھیلائی تو وہ جیسے سمجھ کر فورا کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالنے لگی۔۔ ایک جیب دوسری جیب دوبارہ پھر پہلی جیب۔۔ وہ ہونق سی ہوئی۔۔
۔کہاں گیا۔ اس نے واقعی اسکے ہاتھ پائوں پھلا دیئے تھے۔ تشویش زدہ سئ وہ جیبیں کھنگال رہی تھی۔
مل گیا۔۔ شکر معاملہ طوالت نہیں پکڑ پایا۔اس نےخوش ہوتے ہوئے پولیس کارڈ نکال کر اسکی ہتھیلی پر جمایا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھمسامنیدہ۔۔
پولیس افسرنی نے جھک جھک کر شکریہ ادا کیا تھا۔
میں نے کہا تھا اسپتال میں چیزوں کا ہم خیال رکھتے ہیں یہ وہیں سائیڈ ٹیبل کے پیچھے گرا تھا۔ میں معزرت خواہ ہوں آپکو تکلیف اٹھانئ پڑی۔ سیونگ رو کی شخصیت اسکا دھیما انداز بندی وہیں ڈھیر ہونے لگی۔۔
نہیں نہیں معزرت کی کیا بات۔ دراصل اس کارڈ کی گمشدگی کی فوری رپورٹ کرانئ پڑتی ہے کہیں غلط استعمال نہ ہو جائے بس اسلیئے میں فکر مند تھئ آپکا بہت شکریہ ۔ ایک بوجھ دل سے ہٹا ہے میرے۔۔ آپ سچ مچ بہت معاون اور خیال رکھنے والے ڈاکٹر ہیں۔ کبھی کوئی مسلئہ ہو تو آپ بلا جھجک رابطہ کر سکتے ہیں۔ اس نے اپنا کارڈ بڑھایا تو سیونگ رو نے خندہ پیشانی سے قبول کر لیا
چری ہوئی بانچھیں مدھر انداز۔ اس کو لڑکی ہو کر اسکے لہجے کے شیرے میں اپنا دل رس گلے کی طرح پھولتا محسوس ہورہا تھا جانے سیونگ رو کا کیا حال تھا۔ اسے مکمل نظر انداز کیئے دونوں باتوں میں مگن تھے۔
بہت شکریہ۔ سیونگ رو نے کہا تو وہ اتنا کھل کے مسکرائ کہ بس۔۔۔۔۔جانے کا دل نہیں تھا مگر دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی تھیں سو رخصت لینی پڑی بے چاری کو۔ اسپتال سے نکلتے نکلتے بھی اس نے ایک بار مڑ کر پیچھے دیکھ کر ہاتھ ہلا دیا تھا۔ عروج نے اسکے نکلتے ہی سر جھٹکا تو پتہ چلا اکیلی کھڑی ہے سیونگ رو لابی کی جانب قدم بڑھا چکا تھا۔۔ یقینا یہ ناراضگئ کا اظہار تھا۔وہ سٹپٹا کر لپکی
آہم۔۔ کورین نامجا عزت ماآب سیونگ رو صاحب کے اوپا کہلانے کے دن آگئے۔۔
اس کے ساتھ قدم ملاتے اسے بھاگنا پڑا تھا۔
ویسے لڑکی کا قد اچھا ہے۔ گوری بھی ہے۔ پیاری تو بہت ہے۔ تمہارے ساتھ جچے گی ہاں شائد ایک دو سال بڑی ہے تم سے اسکے کارڈ پر آسکی سالگرہ کا سال۔۔
لابی میں تیز قدم بڑھاتا سیونگ رو ایکدم رک کر اسکی جانب مڑا۔ وہ سٹپٹا کر بریک لگا گئ
کون ہو تم ؟ اسکا لہجہ دو ٹوک سا تھا۔۔ اسکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے وہ پوچھ رہا تھا۔۔
میں۔۔ وہ مزید بوکھلائی۔۔۔
عر۔۔ عروج۔۔ اس نے سنبھلنا چاہا۔
سیونگ رو نے ایکدم اسکا ماسک کھینچ کر اتار دیا تھا۔۔
واعظہ آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھتی رہ گئ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ رائونڈ لگا کر واپس جب آئی تب تک واعظہ اسی جیسا حلیہ بنائے لیپ ٹاپ پر مگن تھی۔
ملی کوئی تفصیل۔
عروج نے کافی کا مگ لا کر اسکے سامنے رکھا تو وہ نفی میں سر ہلا گئ۔
ثریا نام کی کوئی مریضہ یہاں کبھی داخل ہوئی ہی نہیں ناہی کسی بنگالی لڑکی کا کوئی ریکارڈ موجود ہے۔ یقینا یہ سرٹیفیکیٹ جعلی ہے۔
واعظہ مایوسی سے اسکرال کر رہی تھی
ایک تو یہ میرا ذاتی سرورہے اس پر صرف اس وارڈ اور ایمرجنسی کے ہی مریضوں کی تفصیلات مل سکتی ہیں باقی اتنا بڑا اسپتال ہے باقی وارڈز کا ڈیٹا تو پھر ایڈمن کے پاس ہی ہوگا۔ہاں اس سرٹیفیکیٹ کو دیکھ کر اتنا بتا سکتی ہوں کہ یہ جعلی نہیں ہے۔ اس پر اسپتال کی سیل اصل لگی ہے۔
رخ موڑ کر کافی کا گھونٹ بھرتی عروج تفصیل سے بتا رہی تھی۔
ہوں ۔۔ واعظہ نے پرسوچ انداز میں سر ہلایا۔
اچھا پھر میں چلتی ہوں شکریہ تمہارا۔۔ وہ کافی پینے کا ارادہ نہیں رکھتی تھئ سو اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
ٹھہرو میں بس ایک مریضہ کو دیکھ لوں پھر فارغ ہوں اکٹھے چلتے ہیں۔
عروج نے کہا تو وہ سر ہلا کر اسکے ساتھ ہی چل پڑی۔
دونوں نے آج ایک جیسا لباس پہن رکھا تھا۔بلیک جینز لانگ شوز بلیک ہی اپر اور اسکارف ہاں عروج کے ساتھ چلتے واعظہ نے اپنا نقاب اتار لیا تھا۔ عروج وارڈ کی۔جانب بڑھ گئ تو وہ ریسیپشن کی طرف چلی آئی۔ یونہی ایک کونے میں صوفے پر بیٹھ کر میگزین دیکھنے لگی۔ عروج پانچ منٹ میں ہی فارغ ہو کے چلی آئی۔
یار سچ میں سخت افسوس ہوتا ہے اس آہجومہ پر جان کنی کا عالم ہے مگر جان اٹکی ہوئی ہے جب شکل دیکھتی ہیں ایک رٹنی لگا لیتی ہیں کہ میری بیٹی کو بلا دو۔ قسم سے دل کر رہا جائوں انکی بیٹی کو ہاتھ پیر باندھ کر یہاں لے آئوں کیسا ماں کو ترسا رہی ہے۔
عروج نے ماسک پہنا ہوا تھا مگر واعظہ کو اندازہ ہورہا تھا کہ اندر چہرہ جزبات کی شدت سے لال بھبوکا ہو رہا ہوگا۔
آئی بڑی تھانیدارنی۔ ہاتھ پیر باندھ کر لائوگی تم شکل دیکھی ہے اپنی۔
واعظہ نے سیدھا چڑایا تھا اور وہ چڑ بھی گئ۔
کیوں کیا ہے میری شکل کو۔ اس کورین تھانیدارنی سے تو ذیادہ رعب دار شکل ہے میری۔
اسکی بات پر واعظہ ہنس پڑی۔
ہاں یہ بات تو سچ ہے۔ اتنئ ادائیں دکھاتے ہوئے سیونگ رو سے ٹیکا لگوایا ایسے منہ بنائے کہ دل کر رہاتھا ایک چٹکی کاٹ ہی لوں اسکے۔۔۔۔ واعظہ یوں تو کونے میں آڑ میں بیٹھی تھی مگر جھانک کر ان دونوں کا دیدار کر لیا تھا۔
دونوں باتیں کرتی اسپتال سے باہر نکل آئیں۔ تب واعظہ کو خیال آیا۔دونوں جیبیں ٹٹولیں اپنی پھر ہراساں سی ہو گئ
اوئے میرا موبائل۔۔
ابھی تو ہاتھ میں نہیں تھا۔۔
عروج کو۔یاد تھا۔۔
پھر یقینا تمہارے ڈیسک پر بھول آئی ہوں لیکر آتی ہوں تم ٹیکسی روکو میں آتی ہوں۔
وہ کہتی اندر بھاگ گئ تو عروج سر جھٹکتی ذیلی سڑک کی۔جانب بڑھ آئی۔
کیا کروں۔ ۔۔۔ اب وہ لڑکی آتی ہی نہیں بلانے پر میرا فون بھی بلاک لسٹ میں ڈال دیا اور کسی کے فون سے کرو کال تو آواز سن کر رکھ دیتی ہے۔ اس تھانیدارنی سے کہتی ہوں جا کے کان سے پکڑ کر لائے۔
ویسے۔۔ تھانیدارنی تو جیسے میرے باپ کی نوکر ہے جو میرے کہنے پر چلی بھی جائے گی۔ واعظہ کاش تھانیدارنی ہوتی تو ۔۔۔۔۔۔اوٹ پٹانگ سوچیں کوئی ترکیب نہیں سوجھ رہی تھی
گاڑی کے قریب آکر رکنے پر اسکے خیالات کا تسلسل ٹوٹا تھا۔
ڈرائیونگ سیٹ پر مانوس شکل دیکھتے ہوئے کوئی خیال سا اسکے ذہن میں کوندا بنا اگلا لمحہ لگائے وہ گاڑی میں بیٹھ کر سیونگ رو سے پوچھ رہی تھی۔۔
ایک کام کروگے ؟ ایک جگہ جانا ہے لے جائوگے مجھے؟
سیونگ رو حیران تو ہوا مگر اثبات میں سر ہلا دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج نے اسکا ہاتھ پکڑ کر ان خاتون کے سامنے لا کھڑا کیا تھا اسے۔
یہ دیکھو دو دل کے دورے پڑ چکے انکو۔
دوائوں کے زیر اثر گہری نیند سوتی وہ بوڑھی خاتون نہایت معصوم سی لگ رہی تھیں۔
بے چاری۔
واعظہ کو بھی ترس آیا
دیکھا تمہیں بھی ترس آیا نا۔ مگر انکی بیٹی کو نہیں آتا۔ ہر۔کوشش کر چکی نہیں آنے کو تیار وہ ۔
عروج کہتے کہتے رکی۔۔
ہمممم۔۔بےچاری آہجومہ۔۔
واعظہ نے مزید افسوس کا اظہار کیا۔
چلو چلیں۔ وہ کہہ کر مڑکر جانے لگی عروج نے ہاتھ تھام لیا
پلیز تم جا کے اسے لے آئو۔
میں تو بڑی پھپھو لگتی ہوں اسکی جا کر کہوں گی چلو میرے ساتھ ورنہ تمہاری شادی میں آکر رولا ڈال دوں گی کہ۔۔۔
واعظہ کو غصے میں طنزیہ خوب جملے بازی سوجھتی تھی اس وقت بھی ایک دھواں دھار تقریر جھاڑنے کو تھی کہ عروج نے بات کاٹ دی
نہیں تم تھانیدارنئ بن کر جانا وہ جو آج مریضہ آئی ہے نا پولیس والی میں اسکا کارڈ لا کر دیتی ہوں اور ہتھکڑی بھی تم جا کر اسے گرفتار کر لینا۔بس۔ یہ لڑکی ہے۔۔
وہ اپنے فون سے اسکی تصویر اور بائو ڈیٹا نکال کر اسے دکھانے لگی
دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟
واعظہ اسکے پلان کو سنتے ہی اچھل پڑی تھی۔
ایک تو وہ علاقہ ریڈ لائٹ ایریے میں آتا ایک سے ایک غنڈہ بدمعاش وہاں ہوگا تم چاہتئ ہو میں نا صرف وہاں جائوں بلکہ ہتھکڑی لگا کر اس لڑکی کو لیکر آئوں؟ کوئی انڈین فلم چل رہی ہے یہ؟
پلیز یار تم نے تو تائکوانڈو سیکھا ہوا ہے تمہارئ لیئے ایک لڑکی کا بازو مروڑ کر لانا کیا مشکل ہے؟ پھر اکیلے تھوڑی بھیج رہی ہوں سیونگ رو ہوگا نا ساتھ۔
عروج منت کر رہی تھی۔۔
سیونگ رو تو آرنلڈ شوارسنیگر ہے نا ۔ اس لمبو کوتو میں پٹخنی دے کر گرا سکتی ہوں۔ سنگل پسلی بانس جیسا۔ اسکے ساتھ بھیج رہی ہو۔
بی بی مجھے پہلے ہی بہت سے ایڈونچر تم لوگوں کی بدولت مل چکے مزید نہیں چاہیئیں۔
وہ سر نفی میں ہلاتی عروج کو بازو سے پکڑ کر ایک طرف نکلنے لگی عروج نے اسکاہاتھ تھام لیا۔
قسم سے تمہیں نہ کہتی اگر مجھے اتنا خود پر اعتماد ہوتا کہ میں اسے پیٹ پاٹ کر یہاں لا سکتی ہوں۔ میں نے سیکھا ہوتا نا کوئی تایکوانڈو مارشل آرٹ تو کبھی تمہیں نہ کہتی۔ یار یہ ایک زندگی کا سوال ہے۔ تم ایک بار اس آہجومہ کی حالت دیکھ لو۔
پھر بھئ کوئی عقل کو ہاتھ مارو۔میں پولیس والی کا کارڈ چوری کرکے وہاں جائوں اور لڑکی کو ہتھکڑی لگا کر لائوں یہ تمہیں آسان کام لگ رہا ہے۔
واعظہ کو اسکی دماغی حالت پر شک ہونے لگا تھا
چوری تم تھوڑی کروگی میں لا کر دیتی ہوں نا۔ میں یہاں انتظار کروں گی اسی کمرے میں تم سیونگ رو کے ساتھ جائو اس وقت وہ لڑکی بار میں ہی ہوگی میں نے سب پتہ کیا ہے۔۔۔ اسکی پڑوسن سے منتیں کرکے تفصیلات لی ہیں
اور ایسی بھی کوئی خوفناک جگہ نہیں میں دو تین بار جا چکی ہوں۔ اس سے ملنےاب تو۔۔وہ میری شکل دیکھ کر گالیاں دینے لگتی ہے۔خیر ۔ ایسی ویسی جگہ میں بھیجتی تمہیں کیا؟ او رسب سے بڑھ کر اب بس زور زبردستی سے اسے لایا جا سکتا باقی جو کر سکتی تھئ میں کر چکی ہوں اسی سے اندازہ کرلو یہ معاملہ کتنا اہم ہے میرے لیئے۔
عروج اسے ہر صورت منا لینا چاہتی تھی۔۔ واعظہ اسکی شکل دیکھنے لگی۔ یہ عروج کا انداز نہیں تھا یقینا وہ کافی مجبور ہوچکی تھی۔ اس نے گہری سانس لی۔

اور وہ سیونگ رو وہ تیار ہوگیا ہے اس احمقانہ پلان میں میرے ساتھ جانے پر ؟
واعظہ نے کہا تو وہ گڑبڑائی
ہاں۔۔۔ اس نے جھوٹ بولنا مناسب سمجھا۔۔۔ تم میں بن کر جانا اس وقت تم اور میں نقاب میں ایک جیسے ہی لگ رہے ہیں۔ جیسے یہاں اسٹاف کو پتہ نہیں لگا سیونگ رو کو بھی پتہ نہیں لگے گا کہ تم میں نہیں ہو۔۔۔۔۔
واعظہ گہری سانس لیکر خود کو پرسکون کرنے لگی
دیکھو مانا اس وقت تم نے میرا بہت ساتھ دیا اس طرح مجھے یہاں اپنے ڈیسک سرور تک آنے دیا میں یہاں تم بن کے مریضوں کی تفصیلات دیکھتی رہی یہ بات کھلتی تو تم ٹھیک ٹھاک مصیبت میں آجاتیں مگر یقین کرو اگر ایسا کچھ ہوتا تو میں تم پر آنچ نہ آنے دیتی پہچاننے سے بھی انکار کردیتی تمہیں۔۔۔
تمہارا احسان تمہاری بہت قدر ہے مجھے مگر جوابا تم جو مجھ سے چاہ رہی ہو یہ سیدھا سیدھا پولیس کیس بنے گا۔
یہ بہت ذیادہ ہے۔۔۔
واعظہ صاف انکار کرکے اسکے ردعمل کا انتظار کرنے لگی۔ وہ۔خاموش ہو کر سر جھکا گئ
آئم سوری اگرتمہیں ایسا لگا کہ میں تم سے اس بات کا صلہ مانگ رہی ہوں۔ آئی سوئیور میرے زہن میں ایسی بات نہیں تھی۔ تمہیں آئندہ بھی کبھی بھی میری مدد کی ضرورت ہوگی تو میں ضرور کروں گی۔۔ جانے دو۔
عروج گہری سانس لیکر مسکرادی۔ واعظہ کو اس سے اتنی جلدی مان جانے کی۔توقع نہیں تھی۔
چلو گھر چلیں۔ واعظہ نے کہا تو وہ سہولت سے منع کر گئ
تم جائو گھر میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں۔ باہرسیونگ رو انتظار کر رہا ہے وہی مجھے گھر چھوڑدے گا۔
عروج نقاب ٹھیک کرتی اپنا بیگ اٹھانے لگی۔ واعظہ نے سر ہلایا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئ۔
عروج نے مڑکر آہجومہ کو تاسف سے دیکھا پھر دل ہی دل میں اپنا عزم دہرایا۔۔
اب میں خود ہی جائوں گی۔۔۔
خبردار۔جو تم نے خود وہاں جانے اور اس فالتو پلان پر عمل درآمد کا سوچا۔۔۔
واعظہ دروازے سے اندر جھانکتی کڑے تیوروں سے گھور رہی تھی۔۔ عروج کا منہ کھلا۔۔ پھر مسکرا دی۔۔۔۔۔ نقاب میں اسکے مسکراتے لب تو نہیں مسکراتی آنکھیں ضرور دکھائی دے گئ تھیں۔ واعظہ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آہجومہ کے بیڈ پرچڑھی بیٹھی موبائل استعمال کر رہی تھی جب عروج بھاگی بھاگی آئی۔۔
یہ لو۔۔ اس نے پھولی سانسوں کے ساتھ کارڈ بڑھایا۔
واعظہ نے ہتھیلی پھیلائی تو عروج نے اس پر پولیس کارڈ لا رکھا۔
ہتھکڑی؟ واعظہ نے بھنوئیں اچکائیں۔۔
یار وہ اسکے ساتھیوں کے پاس ہے۔عروج کھسیائی۔۔
گن ہی لے آتیں اب اس کارڈ کو اسکی کنپٹی پر رکھ کر تو اسے نہیں لائوں گئ۔
واعظہ نے کہتے ہوئے کارڈ اسکی پیشانی پر ہی بجا دیا۔۔
عروج خفت زدہ سی ہنس دی۔
یار سچ مچ گن ڈھونڈتی رہی مگر یہ کورین پولیس والے بہت احتیاط پسند ہیں۔ اسکی گن ہتھکڑی سب قبضے میں لے لیا اپنا سر پھٹا ہوا تھا مگر گھوم گھوم کے کارڈ ڈھونڈ رہا تھا بیڈ کے نیچے سائیڈ ٹیبل پر بڑی مشکل سے چھپایا میں نے کارڈ اسکی نظروں سے۔
عروج اپنا کارنامہ داد چاہنے والے انداز میں سنا رہی تھی۔
ویسے جو دوسرا زخمی ہے اسکو اینستھیزیا دیا ہوا ہے اسکی ہتھکڑی لے آئوں؟۔۔۔۔اسے اچھوتا خیال سوجھا۔۔۔
یہ مجھے پہلے خیال کیوں نہیں آیا۔
وہ سر پر ہاتھ مار کر واپس جانے لگی تو واعظہ نے روکا
بس بہن آج کیلئے اتنا ہی جیمز بانڈ بننا کافی ہے۔ اس سب میں آدھا گھنٹہ ہورہا سیونگ رو ہمارے ابا کا ملازم نہیں جو باہر کھڑا انتظار کرتا رہے۔۔
پندرہ منٹ ہوئے ہیں بس۔۔ عروج کھلکھلائی۔۔
واعظہ گھور کر رہ گئ۔۔
عروج اس سے لپٹ گئ۔۔
شکریہ واعظہ تم بہت اچھی ہو۔۔
بچا کے رکھو اگر ون پیس میں واپسی ہوئی میری تو کام آئے گا
واعظہ آئی ڈی کارڈ کو غور سے دیکھتے اٹھ کھڑی ہوئی۔
میں یہیں انتظار کر رہی ہوں۔ عروج نے یاد دہانی کرائی تو وہ چہرے پر ماسک درست کرتی باہر نکل گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوروں کی طرح گھر میں داخل ہوکر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔خلاف معمول بے تحاشا خاموشی تھی۔۔
جھکے جھکے اندر داخل ہوکر انہوں نے مڑ کر ہونٹوں پر انگلی رکھ کر تیجون کو چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
یہ آپکا گھر نہیں؟ اسے اچنبھا ہوا۔
شسشس۔ دلاور نے مڑ کر گھورا
یہ میرا گھر ہے جبھی میرا یہ حال ہوا وا۔ ہائش تمہیں اور کوئی نہ ملا اپنی گندی یو اسی بی میری جیب میں ڈال دی۔ میں وہی اپر پہن کر نماز پڑھ آیا کل۔۔ہونہہ۔
وہ لہجہ دبا کر گھرک رہے تھے
گھر میں کوئی نہیں۔۔ لگتا یے۔۔ انکے برعکس تیجون مطمئن تھا چاروں اطراف نگاہ دوڑا کر انکو بھی اطمینان دلانا چاہا۔
کیا ؟ دلاور سیدھے ہوئے۔گھر میں ایکدم سناٹا تھا۔۔
میری بیوی تین بچے سب کہاں گئے۔۔۔ وہ پریشان ہوئے پھر اطمینان بھری سانس لی۔
باہرگئے ہیں۔ اور تم چلو فورا اپنی یو ایس بی لو۔اور چلتے بنو۔
اب کی بار انکا انداز لہجہ سب بدل گیا تھا۔تیجون نے منہ بنالیا
پاکستانی مرد بھی بیویوں سے ڈرتے پھرتے ہیں۔۔
دے؟ دلاور نے پلٹ کر گھورا۔۔
آندے آنی۔۔ ( کچھ نہیں) وہ مسکرایا۔دلاور نے بھی بہتری یہی سمجھئ کہ سنی ان سنی کردے۔
انکے بیڈ روم میں انکا وہی اپر سامنے پھیلا تھا۔۔ انہوں نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر سب بتیاں جلا دیں۔۔
تیجون لپکا اور جلدی سے اپر اٹھا کر جیبیں کھنگالنے لگا
اس میں تو نہیں۔
اس میں سے دودھ یا الٹی کی بو آرہی؟
دلاور نے کسوٹی کھیلنی چاہی۔
دے؟ تیجون کا منہ کھلا
کل میرے بیٹے نے میرے کندھے پر الٹی کی تھی بو آرہی ہے؟ بتائو نا؟ دلاور نے کہا تو اس نے سونگھا ۔ ڈٹرجنٹ کی مہک اٹھ رہی تھی۔
نہیں۔اس نے چہک کر بتایا۔۔
بس تو پھر دھل گیا یہ اور تمہاری یو ایس بی بھی۔۔۔
دلاور نے ہاتھ جھاڑ دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *