Desi Kimchi Episode 40

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 40
اسے سوئے یقینا کئی گھنٹے ہو چکے تھے تب فاطمہ چیخ مار کر اٹھی تھی یا اٹھ کر چیخ ماری تھی۔ مندی مندی آنکھوں سے دھندلا منظر دیکھا تو اسے بیڈ پر لٹے پٹے مسافر کی طرح بیٹھے بال نوچتے پایا۔
ہائے اللہ میں لٹ گئ میں برباد ہوگئ۔ ایسی نیند سے بہترسوتی ہی نہ بلکہ اب بھی سوئی رہتی اٹھتی ہی نہ ۔
وہ بلکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ایک تو شخصیت کی ڈھٹائی یہ تھی کہ سر پر آسمان بھی گرادو رونا پیٹنا آتا ہی نہیں تھا۔ نہیں رونا نہیں آتا تھا۔ پیٹ تو وہ سکتی تھی ہر اس انسان کو جس سے اسے خراش بھی پہنچے مگر بدقسمتی تھی کہ ہمیشہ اپنے آپ کو خود ہی نقصان پہنچایا۔
میرا کوئی ڈریس پہن جائو۔
اس نے مشورہ دیے کر کروٹ بدل لینا چاہی۔
کہاں جائوں انتظار میں تھوڑی بیٹھے ہوں گے میرے نکال دیا ہوگا مجھے۔میں منحوس گھوڑے بیچ کر سوئی پڑی رہی
یہ۔۔ الارم ۔۔۔۔ اس نے دانت پیس کر موبائل کو گھورا۔
قسم سے موبائل کی جگہ ٹائم پیس ہوتا تو دیوار میں مار کر ٹکڑے کردیتی اسکے۔
اسکی آہ و بکا جاری تھی۔ واعظہ کو نیند بھگانی ہی پڑی۔ اچھا خاصا برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا
کتنی لیٹ ہوگئ ہو؟
اس نے اپنے سرہانے ہاتھ مار کر موبائل ٹٹولا
پورے پانچ بلکہ چھے گھنٹے دو بج۔۔۔۔۔
اس نے جوابا بتانا چاہا مگر اگلا جملہ واعظہ کے منہ سے ادا ہوا وہ بھی خاصی زور دار چیخ کی صورت
دو بج گئے۔ وہ بھونچکا سی ہو کر موبائل کو گھورتی اچھل کر اٹھ بیٹھئ
میں نے کسی سے ملنے جانا تھا اف۔
وہ ہڑبڑا کر بیڈ سے اتر کر چپلیں ڈھونڈ رہی تھی۔
سیہون سے کہنا میرے لیئے کسی نئی جاب کا انتظام کر دے۔
فاطمہ مایوس ہو چکی تھی دھم سے واپس بیڈ کی ہولی
اوئے اٹھو اتنی مشکل سے ملی ہے جاب پہلا دن ہے اتنا بھی اندھیر کھاتا نہیں مچا کوئی سائنس لڑاتےہیں۔
واعظہ نے کہا تو وہ یونہی ڈھیلی پڑی رہی۔
تمہاری غلطی ہے اتوار ہے تو کیا باہر گھماتی پھراتی رہوگی۔ اتنئ دیر سے کل آئے اتنی تھک گئ تھی آنکھ ہی نہیں کھلی الارم سے۔
فاطمہ نے دھڑلے سے الزام دھرا
واعظہ جو بیڈ کے نیچے ٹانگ گھسا کر جوتی نکال رہی تھی جوتی نکالتے ہی اٹھا کر اسکی جانب غصےسے بڑھی
جوتی سے ماروگی مجھے۔ فاطمہ اتنا حیران ہوئی کہ ڈرکے ہٹ بھی نہ سکی
یہ لو جوتی ۔ سر پر مارو میرے۔ سب میری غلطی ہے تمہیں کوریا میں میں لے کر آئی ، بار بار نوکری تمہاری میں نے چھڑوائئ تمہارا ویزا میں نے ختم کرایا تمہاری نوکری کا تین بار انتظام کیا لعنت بھی بھیجو ساتھ ۔
واعظہ غرا رہی تھئ جبکہ اسے دانت پیستے دیکھ کر وہ کھلکھلا کر ہنسنے لگی
اچھا جائو پہلے تم واش روم استعمال کر لو میں فی الحال اسی طرح احسان چکا سکتی
اسکے شاہانہ انداز میں بازو پھیلا کر انگڑائی لینے پر اس نے گھور کر چپل زمین پر پٹخی اور پیر پٹختی ہوئی باتھ روم میں گھس گئ۔
چند لمحے کسلمندی سے پڑے رہنے کے بعد وہ اٹھ کر عروج کے کمرے میں چلی آئی عروج اسکے دروازہ کھولنے کی آواز پر جاگی تھی۔ مندی آنکھیں کھول کر دیکھا
ابھی تک سو رہی ہو سات بج رہے شام کے۔
کہنے میں کیا حرج تھا۔ عروج بوکھلا کر اٹھ بیٹھی
کیا مجھے اٹھایا کیوں نہیں عزہ کہاں ہے۔
شکوے شروع تھے۔
اس نے فورا موبائل ڈھونڈا فاطمہ پھرتی سے باتھ روم کی جانب بھاگی بال بال بچی جیسے ہی دروازہ بند ہوا عروج کی پھینکی چپل دروازے سے ٹکرا کر گری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس میں سب سے پچھلی نشست پر وہ تینوں برابرمیں بیٹھئ تھیں۔
پیسے ملیں گے تمہیں۔
فاطمہ نے گردن موڑ کر رازداری سے اس سے پوچھا
رضاکارانہ طور پر جا رہے ہیں۔ اولڈ ہوم ہے۔سیونگ رو کسی این جی او سے منسلک ہے ہر ہفتے جاتا ہے اس بار مجھ سے پوچھا تو میں نے حامی بھرلی۔
عروج نے کندھے اچکا کر لاپروائی سے کہا تھا۔
پیسے ملتے تو میں بھئ چلتی۔
فاطمہ نے آہ بھری
انکا ماہانہ طبی معائنہ کرنے جا رہی ہے عروج تم کیا کرنے جاتیں؟
واعظہ نے جتایا عروج فٹ سے بولی
یہ بڑے کام کرسکتی ہے وہاں دو تین کو ہارٹ اٹیک دے سکتی ہے ۔
فاطمہ نے گھور کر دیکھا واعظہ کہہ رہی۔تھی
بتا مت دینا اس خوبی کا اسکو وہاں مستقل نوکری پر رکھ لیں گے انکا تو خرچہ ہی
فاطمہ نے دونوں کے بیچ میں بیٹھے ہونے کافائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں کے بازو میں چٹکی بھرلی
باقی جملہ منہ میں ہی رہ گیا دونوں کے منہ سے اکٹھے چیخ نکلی بلبلا کر دونوں بازو سہلانے لگیں اس سے پہلے کہ جوابی کاروائی کرتیں وہ اچھل کر انکے بیچ سے نکلی ۔ اسکا اسٹاپ آگیا تھا بس کے رش میں سرعت سے راستہ بناتی اتری پھر کھڑکی سے جھانک کر منہ بھی چڑا دیا۔ بس چل پڑی تو بال سنوارتی ترنگ میں مڑی۔ سامنے ہی سیہون کھڑا تھا دونوں ہاتھ سینے پر باندھے سنجیدگی سے گھورتا۔ اسکی ساری شوخی۔طراری ہوا سی ہوگئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیہون کو کچھ چیزیں خریدنی تھیں۔ بدلتے موسم کی خریداری کچھ تحائف جو وہ اپنے گائوں بھجوانا چاہتا تھا۔ اس نے چھوٹے بھائی کیلئے دو ڈریس شرٹ پینٹس اپنے لیئے بھی کپڑے لیئے۔ بنا ڈیزائن رنگ دیکھے وہ بس اٹھا رہا تھا چیزیں۔
سب یہیں سے لے لوگے؟
فاطمہ نے انگریزی میں ٹوکا۔
سب مل تو رہا ہے یہاں۔اوپر سے سیل بھی ہے۔ اس نے ایک جانب لگے بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔

یہ کیسی شاپنگ ہوئی آدھی درجن چیزیں لینی ہیں اور وہ بھی بنا بازار گھومے دو تین دکانوں کا مال نکلوا کر مسترد کیئےبنا کیسی شاپنگ بھلا۔ عجیب ہیں کورینز۔
وہ اردو میں بڑبڑانے لگی۔
سیلز مین روبوٹ کی طرح شرٹ نکال کر سامنے رکھتا یہ سائز دیکھتا بس۔ لو جی ایک۔طرف رکھ دیا فائنل
فاطمہ سے رہا نہ گیا جب گرے پینٹ کےبعد شرٹ میں بھورے رنگ کے دو شیڈ لے لیئے
کریم فان کیمل کتنے تو رنگ ہیں یہ کیچڑ کے رنگ میں کیا سائنس اٹکی ہے تمہاری۔ اپنے بھائی کیلئے بھی مرے ہوئےرنگ اٹھا لیئے حالانکہ کیسا چٹا سا ہے وہ۔
پورے جملے میں اسے سائنس ہی سمجھ آیا
سائنس ؟ یہ رنگ مجھے نہیں پتہ کن دو رنگوں کو ملا کر بنایا جاتا ہے بچپن میں کبھئ پڑھا تھا کہ بس اصل رنگ سات یا آٹھ ہوتے باقی ان میں ملا کر۔۔۔۔
سیہون کی تشریح جاری تھی اس نے گھور کر اسکے ہاتھ سے شرٹ چھینئ
وہ دکھائو۔ وہ سیدھا دکاندار سے مخاطب تھئ۔
اسکو کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔ جب کے پاپ سے متاثر ہو کر دنیا کے لڑکے اپنی کالی پیلی رنگت نظر انداز کرکے گلابی نارنجی شرٹیں پہن رہے ہیں یہ اصلی نسلی کورین گوتم بدھ بنے پھر رہے۔۔
اس نے ہلکی گلابی شرٹ جھاڑ کر اسکے ساتھ لگائی۔
سیہون چپ کرگیا ۔
یہ دیکھو کیسی جچ رہی۔ اتنے گورے رنگ پر تو ہر رنگ سجتا
وہ پوچھ رہی تھی انگریزئ میں مگر جواب کا انتظار نہ کیا۔ اور اردو پر اتر آئی۔
اب تو انڈین ایسی کالی رنگت کے ساتھ چیختے چنگھاڑتے رنگ پہنے نظر آتے ہیں۔
اسکی بات پر سیلز مین نے جانے کیوں پہلو بدلا
یہ رنگ بچوں جیسا لگتا مجھے۔اب میں بچہ تھوڑی آہجوشی بن گیا ہوں۔
سیہون منمنایا۔ فاطمہ نے گھور کر دیکھا۔
اس پچیس سال کےآہجوشی کو دیکھو زرا۔ وہ بڑ بڑا کر دوسری شرٹ اٹھا نے لگی
اتنا شوق تھا مجھے لڑکا ہونے کا قسم سے خاص کر گورا لڑکا ایک سے ایک نیا فیشن اور رنگ آزماتی میں ایک تم ہو اتنا گورا رنگ گنوایا۔ پھیکے رنگ پہن کر پھرتے ہو۔
اس نے فان پینٹ کے ساتھ ڈل گرین کا بے حد خوبصورت شیڈ میچ کر کے دکھایا۔
دکاندار منہ دوسری طرف کرکے ہنس رہا تھا
تمہیں سمجھ آرہی یہ کیا کہہ رہی؟
سیہون نے مشکوک ہو کر گھورا
فاطمہ نے بھئ۔
ہیں تمہیں سمجھ آرہی ہے۔؟
فاطمہ نے مشکوک سا ہو کر دیکھا
وہ سیلزمین گڑبڑا سا گیا
جی وہ میں انڈین ہوں۔ ہندی سمجھ لیتا ہوں۔ چھے سو ہمنبدا
اس نے بے چاری سی شکل بنا کر نقاب نیچے کیا۔
کان میں بالی منہ پر کالا نقاب۔ آنکھیں چندی نہ تھیں بس۔
دھت تیرے کی۔ اوپر سے رنگ بھی سانولا۔
اب بندہ بات کرنے سے پہلے سیلزمین کا ماسک اتروا کر دیکھے اب۔۔۔ ماسک کے پیچھے آنکھیں چندی ہیں یا بھینس کے دیدے لگے ہیں۔ ہونہہ۔
فاطمہ سوچ کر رہ گئ اب منہ بند ہی کرنا پڑا۔سیہون کے ساتھ ادائگی کرکے نکلےتو شام کے دھندلکے پھیل چکے تھے۔
مجھے تو بھوک لگ گئ ہے تم نے کب کھانا کھایا تھا دوپہر کا؟
زرا سا دکان سے باہر نکلنے پر چوراہا تھا سامنے گلی میں قطار سے اسٹال تھے کھانے پینے کی اشیاء کے۔
میں نے۔ وہ گڑ بڑا سی گئ۔ ناشتہ ہی نہیں کیا تھا گھرسے تیار ہو کر نکلنے کی جلدی تھئ دوپہر سے سیہون کے ساتھ تھئ
مجھے تو بھوک نہیں۔گھر جا کے ہی کھائوں گی اب۔
وہ صاف مکر گئ حالانکہ میونگ دونگ کی گلیوں میں پھرتے اسکی بھوک چمک گئ تھی ۔
مجھے تو لگ رہی ہے۔وہ کندھے اچکا کر سہولت سے سڑک کنارے لگے خیمہ ریستوران میں گھس گیا۔
فضا میں گوشت کی بو پھیلی تھی کہیں مصالحے کی کہیں سے کچے ابلے سوپ کی۔
اس نے فورا ناک پر ہاتھ رکھا۔
سیہون نے جانے کیا کہنے کیلئے مڑ کر دیکھا پھر ہونٹ بھینچ لیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اولڈ ہوم کا پتہ اس نے موبائل ایپ میں دیکھا تھااورصحیح جگہ پہنچ گئ تھی۔ پرانی طرز کی عمارت ایک جانب بورڈ زمین پر گاڑ کر لگایا ہوا تھا۔ مین گیٹ پاٹوں پاٹ کھلا تھا وہ سہولت سے اندر داخل ہوگئ ۔ چھوٹے سے کچے پکے صحن میں تنبو لگا ہوا تھا جس پر بڑا بڑا سوہیئے چھانسا ( نگران فرشتہ)ہنگل میں لکھا تھا۔ کئی بوڑھے بوڑھیاں ادھر ادھر پھر رہے تھے تنبو کی صرف چھت تھی دیواریں نہیں تھیں اندر ایک جانب کائونٹرز بنائے ہوئے تھے جہاں کئی ڈاکٹرز بیٹھے تھے۔ ایک جانب قطار سے کرسیاں لگی ہوئی تھیں جن پر بزرگ بیٹھے تھے ایک ڈاکٹر کھڑا انکو ہنگل میں کچھ بتا رہا تھا۔ سیونگ رو ان میں نہیں تھا۔
اس نے متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا تو ایک بوڑھی سی خاتون کو واکر استعمال کرکے بہت دقت سے قدم اٹھاتے دیکھا۔ ہاتھ میں بڑا سا تھیلا تھامے وہ یقینا دشواری محسوس کر رہی تھیں۔ اسکو اپنی طرف دیکھتے دیکھا تو فورا اشارے سے پاس بلانے لگیں۔
وہ فورا انکے پاس چلی آئی۔
آننیانگ ہاسے او۔
اس نے جھک کر کوریائی طرز کا سلام جھاڑا۔
کیا میں آپکی مدد کروں۔ اس نے کورین میں پوچھا تھا۔
جوابا ان خاتون نے بے تکلفی سے اپنا کپڑے کا تھیلا اسکی جانب بڑھا دیا
وہ بے خیالی میں تھام۔گئ توتھیلا چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
اچھا خاصا بھاری تھا اسکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا یہ بوڑھی خاتون اتنا وزن اٹھائے ہونگی۔ اس نے اندر جھانکا تو مصالحے کا بھبکا سا آیا۔ بڑا سا ناشتہ دان تھا ساتھ چھوٹے چھوٹے باکس بھی
آئیگو۔ ہائش۔
وہ بری طرح خفا ہوئیں۔
اتنا سا وزن نہیں اٹھتا آجکل کی لڑکیوں سے ۔ میں تمہاری عمر کی تھی تو دس دس کلو کے کمچی کے مرتبان چٹکی میں اٹھا لیتی تھی۔
انہوں نے فخریہ انداز میں چٹکی بجائئ تو وہ انہیں دیکھ کر رہ گئ۔ اب یہ یقینا مبالغہ تھا
چھے سو ہمنبدا۔
وہ اور کیا کہتی۔
آئیگو۔ آئیگو مجھے شرمندہ مت کرو۔
وہ جھک جھک کر ہاتھ ہلا ہلا کر بولیں۔ اب وہ واکر چلاتے ہوئے نسبتا تیز چل رہی تھیں۔ عروج انکی ہمقدم ہولی
تم یقینا مجھ سے کہیں بہتر انسان ہو۔اپنی عائلی زندگی تج کرکے دائمی زندگی سنوارنے کیلئے خود کو وقف کرنے والی کا مجھ سے کیا مقابلہ۔ میری مضبوطی جسمانی ہے تو تمہاری روحانی۔ دعا کرنا میرے لیئے کہ عیسی ع مجھے بھی کشتی نجات کی سوارئ نصیب کرے۔۔
وہ گلوگیر لہجے میں کہے جارہی تھیں۔
عیسی ع۔
وہ ناسمجھنے والے انداز میں دیکھنے لگی۔ پھراپنے سر پر پہنے کالے اسکارف کا خیال آیا۔ آج وہ۔کالا ڈینم عبایا جینز کے ساتھ پہنے تھی یقینا وہ اسے نن سمجھ رہی تھیں۔
میں اپنے اوپر تو اب کیا خرچ کروں میرے بچے ہر ضرورت میری بن کہے پوری کر دیتے ہیں سو یہی سوچا آج یہ جو بچے آرہے ہیں ہمارے طبی معائنے کیلئے انکو اپنے ہاتھوں سے بنا کھانا کھلا دوں۔ صبح سے لگی ہوئی تھی اب جا کے بنے۔
وہ تنبو کےقریب پہنچیں تو اسے سامنے کائونٹر پر سیونگ رو کچھ لڑکیوں کے ساتھ کھڑا باتیں کرتا نظر آہی گیا۔
آہجومہ بنا اسکے جواب کا انتظار کیئے خود ہی سب بتائے جا رہی تھیں۔
اسکو کہاں رکھنا ہے۔ وہ سیونگ رو کے پاس جانا چاہ رہی تھی۔ رجسٹریشن کے بعد ہی وہ کام شروع کر سکتی تھئ ۔
آئو آئو ساتھ۔
وہ زور زور سے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی ایک جانب لگی کرسیوں کی طرف بڑھیں جہاں کئئ خواتین بیٹھی تھیں۔
آئیگو ایسی بے کار مسٹنڈیاں ہیں بڑھاپا کیا آیا سب ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ گئیں بس بٹھا کر گپیں ہنکوا لو۔ کسی نے مدد نہیں کروائی میری ۔
وہ جنکے پاس جا رہی تھیں انکی ہی شان میں بیان کر رہی تھیں۔ عروج سٹپٹائی تو ان خواتین نے یہ تبصرہ سن کر قہقہہ لگایا تھا۔
دادی جان آپکو اپنے سوا صرف وانیہ کا ہی کام کیا پسند آتا ہے اب میں نے کوشش تو کی تھی مدد کروانے کی۔
یہ خواتین جنکے سر چٹے سفید تھے چہرے سلوٹ ذدہ تھے مزے سے ان خاتون کو دادی کہہ گئیں۔
ہاں۔بس وہ ایک بچی خدا سلامت رکھے۔۔۔ وانیہ شی۔
وہ تعریف کرتی مڑیں اسکی جانب۔ ایسے بتا رہی تھیں جیسے وہ بچپن کی سہیلی ہو وانیہ کی۔ اس نے سر ہلایا
ارےانتظامیہ کی وانیہ شی اس نے پہلے تو میرے ساتھ سور کا اسٹیک بنوایا ۔۔۔
سور۔ عروج کے ہاتھ سے دوبارہ ناشتہ دان چھوٹتے چھوٹتے بچا۔
پھر ایک ایک کمباپ بنایا میرے ساتھ۔
وہ آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے ناشتہ دان لینے لگیں۔
عروج کو کراہت سی محسوس ہونے لگی اپنے ہاتھوں سے۔
تم کون ہو لڑکی۔
ایک خاتون نے اس سے پوچھ ہی ڈالا۔
ارے چرچ سے آئی ہے نن ہوگی حلیئے سے اندازہ نہیں ہورہا۔
وہ خاتون جھٹ سے بولیں۔
آج تو چرچ سے کوئی بھی نہیں آیا یہ اکیلی کیوں آگئی؟
ایک نے مشکوک ہو کر گھورا
کل تو تقریب ہے چرچ میں سب اسکی تیاری کر رہےہیں آج تو۔
میں نن نہیں ہوں۔ عروج نے انکی غلط فہمی دور کرنی چاہی۔
میں ڈاکٹر ہوں رضاکارانہ ٹیم کے ساتھ آئی ہوں۔
آننیانگ۔
تو یہ نن والا لباس کیوں پہن رکھا ہے؟
ایک اور اعتراض حاضر تھا۔ عروج نے گہری سانس بھری
یہ نن کا لباس نہیں اسلامی لباس ہے میں مسلمان ہوں میرا نام عروج ہے۔
اس نے جھک کر ہنگل میں بتایا۔
ڈاکٹر عروج آپ۔کب آئیں
سیونگ رو اسکے قریب آکر خوشگوار اندازمیں بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے بلا مبالغہ کوئی بیس پچیس بوڑھی خواتین کا مکمل معائنہ کیا تھا۔ مگر تھکن جسمانی سے ذیادہ ذہنی تھی۔ ان سب خواتین کو بولنے کا مراق تھا۔ حال بتاتے بتاتے ماضی کے قصے چھیڑ بیٹھتی تھیں۔ سب کا ہلکا پھلکا معائنہ کرنا انکی ذمہ داری تھئ۔ ایک دو ذیادہ بیمار لوگ بھی تھے انکا علاج اسی پناہ گاہ کے ذمے تھا انکو مزید اپنی انشورنس سے علاج کروانا تھا۔ انکا کام ختم ہوا۔ وہ سب ڈاکٹرز اپنی نشستوں سے اٹھ گئے سوہیئے چھانسا نامی این جی او نے ناشتے کا انتظام بھی کیا ہوا تھا۔یقینا سب چائے ناشتے کیلئے اٹھے تھے۔ اسکو اب یہاں سے سیدھا اسپتال جانا تھا۔ سو وہیں کرسی پر کمر سیدھی کرکے بیٹھی۔تبھی وہی بوڑھی خاتون چلی آئیں۔
ایک ٹرے تھامے نوجوان سی لڑکی کے ساتھ۔ لڑکی نے اسے مسکرا کر آننیانگ کہا اور اسکے سامنے ٹرے کائونٹر پر رکھ کر واپس چلی گئ۔ وہ خاتون اسکے سامنے کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئیں۔ عروج سیدھی ہوکر بیٹھی۔
پورک اسٹیک ، کمباپ اور سلاد کے پتے چھوٹی سی پیالی میں کوئی چٹنی اور مرغی کے بھنے پنجے۔
تم باہر کھانے نہیں آئیں تو سوچا میں تمہارا کھانا یہیں لے آئوں۔
وہ پیار سے مسکرا کر بولیں۔
اب مل کر کھاتے ہیں۔
عروج مسکرا دی۔ مگر وہ خاتون ماسک کی وجہ سے چہرے کےتاثرات دیکھنے سے قاصر تھیں۔ یہی سمجھیں کہ وہ برا مانے ہوئے ہے۔ وہ سنجیدہ ہوگئیں
میں بس یہی سوچ کر۔آئی کہ۔تم۔یہاں اجنبی ہو شائد اجنبیت محسوس کر رہی ہو۔اسلیئے وہاں ہلہ گلہ کرنے نہیں آئیں۔
میں چلتی ہوں۔
وہ واکر کا سہارا لیکر اٹھنے لگیں
نہیں ۔ آپ بیٹھیں ۔ آپ کھائیے کھانا۔
اس کے۔جلدی سے وضاحت کرنے پر انکے جھریوں زدہ چہرے پر مسکراہٹ آگئ
آرام سے بیٹھ کر ٹرے میں سے سلاد کا پتہ اٹھا کر اس میں اسٹیک کی۔بوٹی لپیٹی اور اسکی جانب بڑھا دی۔
عروج کو ان میں اپنی دادی کی۔جھلک۔دکھائی دی۔ بے ساختہ منہ کھلا۔ جھریاں شائد سب کے چہروں پر ایک سی۔معصومیت لے آتی ہیں۔
ماسک تو ہٹا ئو۔ وہ خاتون ہنسیں تو وہ۔چونکی۔۔
یہ آپ کھائیے میں نہیں کھا سکتی یہ کھانا۔ چھے سو ہمنبدا(معزرت)
اس نے نرمی سے وضاحت کی۔
کیوں؟ خاتون حیرانی سے دیکھتی رہ گئیں۔ عروج نے اپنا ماسک نیچے کیا یوں بھی اس وقت یہاں بس یہ دونوں تھیں
در اصل میں مسلمان ہوں مسلمان حلال گوشت کھاتے ہیں بس ہم سور نہیں کھاتے ہمیں منع ہے۔
اسکی وضاحت پر وہ سر ہلانے لگیں۔
اچھا پھر یہ چکن فیٹ کھا لو۔
اب انہوں نے مرغی کا پنجہ لہرایا۔
فلیش بیک آیا تھا اسکے ذہن میں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شدید فلو میں وہ حال سے بے حال بستر پرلحاف میں گھسی پڑی تھی جب امئ اسکے لیئے سوپ بنا کر لائی تھیں۔
یہ لو بیٹا چکن سوپ۔
امی نے کہا تو وہ چکن سوپ کے نام پر جھٹ اٹھ بیٹھی۔
یہ۔ یہ کیاہے ؟
اس نے گاڑھے کارن فلور ملے سوپ میں تیرتے دو پنجے دیکھے تو حیران ہی رہ۔گئ۔
سوپ ہے مرغی کا گرم گرم پیئو۔
امی نے چمکارا
مرغی کا نہیں مرغی کے پنجے کا۔ آخ۔
وہ چٹکی میں پنجہ اٹھاتے گھنیائی
امی نے جھٹ ایک لگائی تھی اسکے سر پر چپت۔۔۔ غصے سے بولیں
کھانے پینے کی چیز کو ایسے کراہیت سے نہیں دیکھتے۔ بہت طاقتور ہوتا یے پنجوں کا سوپ بخار کیلئے اکسیر۔
اور سالن تیار ہو گیا تھا جب تم نے سوپ کی فرمائش کی۔ اب میں دوبارہ مرغی ذبح کرواتی ؟ اسکے پنجے شکر ہے پھینکے نہیں تھے اسی کا سوپ بنا دیا۔۔
اورپر پھینک دیئے تھے کیا۔۔۔
عروج نے منہ بنایا تو وہ سمجھیں نہیں۔
ہاں پر تو ۔۔ خیال آیا تو گھور کر بولیں
نخرے نہیں کرو جلدی سے پیئو اور بھئ کام ہیں۔ ابھی تو تمہاری بہن کو الگ بہلانا ہے روئے جا رہی ہے اسکا لاڈلا مرغا کٹوا دیا۔ اب بتائو دو دن سے سست تھا مر جاتا تو ضائع ہوجاتا پورا کلو بھر گوشت نکلا۔
امی کئ وضاحت پر اسکو اور الجھن آئی
یہ چیکو ہے؟
اس نے چیخ مار کر پیالہ دور کیا۔۔
اسکے پنجے کتنے گندے ہوتے تھے امی بٹ بھی ہوتی تھی بھری اس میں۔
اس نےخفا خفا سے انداز میں کہتے سوپ کھسکا دیا
ہاں تو دھویا ہے۔ امی نے گھورا۔۔
پنجوں کی کھال چولہے پر جلا کر الگ کی ناخن ٹوکے سے کاٹ کے الگ کیئے صاف ستھرا کرکے سوپ بنایا گندگئ کھلائوں گی اب میں تمہیں۔ آدھا گھنٹہ لگا ہے اور تم چکھے بغیر۔مین میخ نکالے جا رہی ہو
امی بری طرح خفا ہو کر اٹھنے لگیں تو اسے سب بھول بھال منانا پڑ گیا۔
اچھا رکیں سوری چکھتی ہوں۔
اس نے انکے ہاتھ سے پیالہ لے لیا۔ ڈرتے ڈرتے پہلا چمچ لیا۔
مرغی کے سوپ جتنا اچھا تو نہیں تھا مگر اچھا تھا
اورپنجہ بھئ ہلکے سے گوشت اورہڈی کو کڑ کڑا کر کھانا نیا مگر اچھا تجربہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصالحے سےلال مرغی کے پنجے کا ناخن سامنے لہرایا
کھائو نا۔ آہجومہ نےمتوجہ کیا۔۔
یہ۔
وہ۔گڑ بڑا سی۔گئ
انکے ہاتھ سے مرغی کا پنجہ لے لیا۔۔
دراصل مسلمان صرف حلال ہوا گوشت۔کھاتے ہیں۔ ایسا جانور جسکے گلے پر۔چھری۔پھیر کر اللہ کا نام لیکر ذبح کیا جائے۔۔ میں یہ سب نہیں کھا سکتی البتہ آپ کا ساتھ ضرور دوں گی۔ میرے پاس بیگ میں بسکٹ ہوں گے۔۔
وہ کہہ کر اپنے بیگ کو کھنگالنے لگی ایک بسکٹ کا پیکٹ نکل ہی۔آیا۔
اچھا۔ عجیب بات ہے پہلے ایسا نہیں سنا۔
وہ تھوڑی مایوس ہوئیں مگر کسی بحث میں نہیں الجھیں۔ خاموشی سے گمباپ کھانے لگیں۔
یہ لو۔ خاص کر تمہارے لیئے خالص سبزی پلائو لایا ہوں۔چینی ریستوران سے۔ کہہ کر کہ مجھے سب حلال چاہیئے
سیونگ رو ایک پیکٹ اٹھائے بولتا ہوا داخل ہوا۔ و۔ہ شائد باہرکہیں گیاہوا تھا۔ اسکے انداز میں عجلت تھی۔ وہ مسکرا دی
سیونگ رو نے کھانا لا کر اسکے سامنے کائونٹر پر سجا دیا
گما ووئو۔ وہ بے ساختہ شکر گزار ہوئئ
سیونگ رو نے ایک پل کو اسے نظر بھر کر دیکھا پھرجیسے عجلت میں ہو یوں پلٹ کر آنٹی سے مخاطب ہوا
دادی اماں آپکے ہاتھ کے ہیں نا۔ میرا حصہ رکھا ہے نا آپ نے
ہاں آدل تمہیں کیسے بھول۔سکتی ہوں ویسے تو میں نے الگ بچا کے بھی رکھا ہے مگر تم یہ کھالو یہ لڑکی تو ان میں سے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگا رہی۔۔
آہجومہ نے جیسے شکایت کی
چھوڑیں اس بد ذوق کو آئیں ہم مل کر کھائیں
وہ سائیڈ سے میز گھیسٹ کر اسکے سامنے سے ٹرے اٹھا کر اس پر رکھنے لگا۔ آہجومہ بھی رخ موڑ کر دوسری میز کی طرف کرسی کھسکا گئیں۔ سیونگ رو نے اپنے لیئے کرسی گھیسٹی اورمکمل طورپر کھانے کی۔جانب متوجہ۔ہوگیا
عروج نے میز خالی ہوئی تو اپنے لیئے لایا کھانا سجانا شروع کیا۔ سلاد تھئ کوئی چٹنی تھی جسے اس نے شک کے باعث کھولنے کی بھی زحمت نہیں کی۔چاپ اسٹکس کی جگہ پلاسٹک کا چمچ کانٹا تھا جو الگ سے شائد خریدا گیا تھا۔ وہ پیکنگ کھولتے مسکرا دی۔ چاولوں کا ڈبہ کھولا۔ سیونگ رو کو دیکھا اسکا دایاں رخ ہی نظر آرہا تھا بس۔ وہ رخ موڑ کر۔کھانا کھا سکتی تھی ۔ یہی سوچ کر اس نے چہرے سے ماسک۔ہٹانا چاہا تو چونک سی گئ۔ ماسک تو وہ کب کا۔اتار چکی تھی۔اس نے دزدیدہ نگاہوں سے سیونگ رو کو دیکھا جو مکمل طور پر خاتون کی جانب متوجہ ہنس ہنس کر کھانا کھارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیہون مزے لے لے کرفرائئ نوڈلز اڑا رہا تھا ساتھ پورک کےتلے ہوئے پارچے منہ میں رکھ لیتا چاپ اسٹکس سے۔
کھولتے سوپ سے نوڈلز اٹھا کر چاپ اسٹکس سے سڑکتا جانے زبان ہیٹ پروف تھی یا سوپ جھوٹی بھاپ اڑا رہا تھا
خیر نوڈلز اسکے منہ میں جگہ گھیرتے ہی تھے کہ وہ پارچہ چاپ اسٹک سے اٹھا کر کلے(گال) میں رکھ لیتا۔اس وقت منہ فٹ بال بنا ہوا تھا پورا بھرا ہوا گول ۔وہ جس طرح کھا رہا تھا اسکی اماں ہوتیں تو
اس کے تخیل نے بڑا پکا زور لگایا کہ اسکی امی سیہون کے پیچھے نمودار ہوئیں رکھ کے چپیڑ لگائی گدی پر
انسانوں کی طرح کھائو چبا کر آرام سے منہ بھر لیا ابھی اچھو ہو۔جائے گا۔۔
امی کا ہیولہ غائب ہوا سیہون کو اچھو سا ہوا۔سوجو کا گھونٹ بھی بھر لیا
منہ ہے یا عمرو عیار کی زنبیل۔ ایسے کھانے پر عمر بھر ڈانٹیں چپیڑیں کھائی ہیں کوئی دکھائو میری امی کو کہ انسان بھی ایسے کھاتے مجھے اب اپنے بچپن کی سب مار کا ازالہ کرکے دیں زیادتی کی ہے میرے ساتھ
سیہون پر نگاہ۔جمائے اسکے ذہن میں یہ مکالمے چل رہے تھے۔ چہرے پرجو تاثرات تھے سیہوں نے نگاہ اٹھائئ ڈپٹ کر بولا
تم اپنا پوپ کیک کھائو ۔ مجھے نظر نہ لگائو۔
آیا بڑا۔ وہ بھنائی۔
یہ خالص پاکستانی جملہ ہے۔ اسکے تمام حقوق ہمارے پاس محفوظ ہیں ہم پاکستانیوں کے سوا دنیا میں کسی کو کھانے پر نظر نہیں لگتی۔
فاطمہ کے کہنے پر اس نے لاپروائی سے کندھے اچکائے
ہاں تو یہ ڈائلاگ واعظہ کا ہی ہےوہ ہی کہتی ہے اگر کھانے کے دوران اسکی شکل۔دیکھ کر بات کر لیں تو۔ کہتی ہےمجھ سے کھایا نہیں جاتا۔
ہاں اسکا منہ چھوٹا ہےنا۔ وہ کانشس رہتی ہے۔
فاطمہ نے اپنے سامنے دھری فومک پلیٹ کو اپنی۔جانب کھسکایا۔
سیہون کو پھر اچھو لگا۔ وہ زور سے ہنسا
واعظہ۔کا۔منہ چھوٹا ہے؟ مزاحیہ۔بات ۔ اسکو ہائی اسکول میں ہم کرسٹل جنگ کہا کرتے تھے اسکی شکل کرسٹل جیسی ہوتی تھی۔
ہاں تو میں نے بھی منہ کا کہا ہے شکل کا نہیں۔
فاطمہ نے منہ بنایا۔
یہ پوپ کیک بنانے کا خیال کس گندے دماغ میں آیا تھا۔
وہ پوپ کیک اٹھا کر دیکھ رہی تھی۔ پوپ کی شکل کا کیک گو دیکھنے میں بس شکلا ہی پوپ ایموجی جیسا لگ رہا تھا مگر اسکا نام ہی گھنیانے کو کافی تھا
سچ مچ پوپ کا کیک تھوڑی یے۔
سیہون نے تسلی دینی چاہی
سچ مچ تو ظاہر ہے کون گو کھاتا پیتا ہوگا۔
اس نے منہ بناتے ہوئے پہلا لقمہ لیا۔ اسکے دانت لگنے سے اندر سے نرم سی چاکلیٹ ساس نکل آئی۔ شکل پر غور نہ کیا جائے تو بے حد نرم ذائقے دار کیک تھا۔
ہممم۔ ۔ اسے یقینا مزے کا لگا تھا۔ سیہون کو۔شرارت سوجھی
ڈرامائی انداز میں چاپ اسٹکس رکھ کر دونوں کہنیاں میز پر ٹکا اسکی۔جانب ذرا سا جھک کر رازداری سے بولا
اگر میں کہوں ہم اس طرح گو نہیں کھاتے مگر ابھی بھی گائوں وغیرہ میں شراب بنا کر پی جاتی ہے گو کی تو؟
تو میں کہوں گی ایکدم بکواس کررہے ہو۔فاطمہ نے ناک چڑھائی
تمہیں لگتا ہے میں گھن کھائوں گی؟ فاطمہ اتنی کمزور لڑکی۔نہیں۔ یہ پوپ کیک ہے نا میں اسکو مزے لیکر کھاتی ہوں
وہ باقائدہ چڑانے والے انداز میں دکھا دکھا کر کھانے لگی۔
بڑا سا لقمہ لیکر کسی بسکٹ کے اشتہار کی ماڈل کی طرح لطف اٹھانے کی اداکاری کر رہی تھئ
ہممم۔ سیہون مایوس ہوا۔ دوبارہ کھانے کی جانب متوجہ ہوا
ویسے سچ کہہ رہا ہوں۔پہلے زمانے میں جب مغربی دوائیاں نہیں ہوتی تھیں تو دیسی ادویات میں پوپ لیکر یعنی گو کی شراب بنائی جاتی تھی۔ ترجیحا بچوں کا گو لیا جاتا تھا سخت ہو تو بہتر۔ اسے مخصوص طریقے سے مرتبان میں مخصوص مقدار میں اجزاء ڈال کر کئی مہینوں کی۔محنت کے بعد شراب تیار کی جاتی تھی۔ اس شراب کو پینے سے جسم کی۔طاقت فوری بحال ہوتی تھی ۔ بخار میں تو خاص طور سے پلائی جاتی تھی۔
اس نے کہتے کہتے نگاہ اٹھا کردیکھا تو فاطمہ منہ میں کیک بھرے ہکا بکا شکل دیکھ رہی تھی
مزاق کر رہے ہونا۔ انداز ایسا تھا کہ اس نے انکار کیا تو گن پوائنٹ پر حلف اٹھوا لے گئ۔
بالکل نہیں۔ ہمارے گائوں میں آج بھی اس شراب کو بنایا جاتا ہے۔ بلکہ مجھے یاد ہے جب میں چھوٹا ہوتا تھا تو امی مجھے ایک کاغذ دے کر بھیجا کرتی تھیں باتھ روم میں کہ اس میں اپنا فضلہ
آخ۔بس۔
فاطمہ کی بس ہوگئ۔ جلدی جلدی کیک نگل کر ہاتھ جوڑ دئئے
رہنے دو اتنی تفصیل میں نہ جائو۔ حد ہوگئ۔ بچوں کا فضلہ نہ ہوگیا کیک ہوگیا کاغذ میں لپیٹ کر آخ۔۔
وہ گھن کھاتی ہوئی کافی کا گھونٹ بھرنے لگی
سن کر اتنا گھن کھارہی ہو۔ سیہون کو اسکی شکل دیکھ کر مزا آیا۔چسکے لینے کو اگلا جملہ بھی چپکا دیا
بلکہ مجھے تو یاد ایک بار بچپن میں مجھے ٹایفائڈ ہوگیا تھا تو آہموجی میرے لیئے بھی گو کی شراب لائی تھیں نہار منہ اسی سے دوا۔۔۔۔۔۔
اسکا جملہ۔یہاں تک پہنچا پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی
فاطمہ کا ابھی ابھی کافی سے گھونٹ بھرا تھا اسکی بات پر اتنی مہلت بھی نہ دی طبیعت نے کہ زرا سا رخ پھیر لیتی نتیجتا ساری کافی اس نے محاورتا نہیں حقیقتا سیہون کے منہ پر الٹی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد

جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *