دلداریاں رہیں ، نہ دل آزاریاں رہیں
خود داریاں وبال تھیں ،خود داریاں رہیں
جب تیرے ساتھ ایک زمانہ عزیز تھا
پھر تو خود اپنے اپنے آپ سے بیزاریاں رہیں
لمحوں میں ماہ و سال گزرنے کے دن گیے
اب ایک زندگی کی گرانباریاں رہیں
لہرائیں وہ گھٹائیں ، نہ وہ چاندنی کھلی
گو پھر بھی رات رات کی بیداریاں رہیں
دوش صبا پر تار گریبان اڑے پھرے
موسم میں گل سے دور بھی گلباریاں رہیں
رنگ خزاں نے اور بھی چمکائے دل کے داغ
جاتی ہوئی بہار کی گلکاریاں رہیں
شکر گناہ شوق کہ جی بھر کے جی لئے
اب ایک زندگی کی گنہگاریاں رہیں
ٹوٹ کوئی سترہ کہ پھوٹی نئی کرن
یا صرف داغ دل کی شرر باریاں رہیں
اک اہ سرد فصل شباب جنوں کے نام
پھر ہم نے ہوش کھویے نہ ہوشیاریاں رہیں
یہ دل بھی جل بجھے گا اگر اور کوئی دن
یہ شام بے چراغ یہ بے یاریاں رہیں
ارباب نظم ضبط کی حد سے گزر گیے
نا ظورہ غزل کی طرح داریاں رہیں
رسمی سی دھڑکنیں ہیں اب اور دل ہے اے شمیم
دلداریاں رہیں نہ دل آزاریاں رہیں
از قلم زوار حیدر شمیم