فکر و فن کا چراغ جلتا ہے
پہلے برسوں دماغ جلتا ہے
دل سلگتا ہے داغ جلتا ہے
سوچنے سے دماغ جلتا ہے
ایک امید ٹوٹتی بھی نہیں
دور دور ایک چراغ جلتا ہے
آپکو زحمت کرم بھی ہوئی
دل وہی با فراغ جلتا ہے
پھر شگوفے چمن چمن پھوٹے
پھر مرا داغ داغ جلتا ہے
ٹھہرو ، ٹھہرو ، ہواؤ ، طوفانو
دیکھو دیکھو چراغ جلتا ہے
اس نوازش سے دل کا حال نہ پوچھ
بارشوں سے یہ باغ جلتا ہے
از قلم زوار حیدر شمیم