میں یوں تو ہوں یہیں کہیں
سچ کہوں تو ہوں کہیں نہیں
میرا پتا بتاتے ہیں وہ لوگ
جنہوں نے دیکھا مجھے کہیں نہیں
میرے ملال مجھے جینے نہ دیں
مر سکوں نہ میں اس ملال میں
میری قدر تو میں خود نہ جان سکا
میری وقعت بھی اب کہیں نہیں
میرے شور و شر سے بے زار تھے
میرے اپنے مجھ سے بد گمان تھے
میں چپ ہوا تو پریشان ہیں
میرا شور تھا کہیں نہیں
مجھے معنی عشق معلوم نہیں
مجھے آداب وفا بھی یاد نہیں
میں الفتوں سے مکر ہوں گیا
میرا دنیا میں کوئی کہیں نہیں
مجھے غرور تھا اپنی ذات پر
اپنی شخصیت اپنے کردار پر
خودی کو روند گیا ہوں خود ہی
میرا اپنا آپ اب کہیں نہیں
اب پوچھ لے ہجوم بھی
کہاں گیے اپنے اور احباب بھی
کیا بتاؤں میں تنہائی میں بھی
میرے اس پاس کہیں نہیں
از قلم ہجوم تنہائی