Mujh may he hay rangon ki Kami – Episode 2

Mujh main hi hay rangoun ki kami Urdu Novels

مجھ میں ہی ہے رنگوں کی کمی

قسط 2

مجھ میں ہی ہے رنگوں کی کمی۔ اردو ویب ناول ہے stress dysphoria میں مبتلا ایک لڑکی کی کہانی جس کو معاشرے کے ابنارمل رویوں نے لڑکا بننے پر مجبور کر دیا۔ اپنے آپ سے الجھتی اپنے وجود پر سوالیہ نشان اور ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقتیں جانیئے۔۔ مجھ میں ہی ہے رنگوں کی کمی کی پہلی قسط میں۔۔
mujh main hi hay rangoun ki kami episode 2

تم نے چائے نہیں بنانی نہ بنائو میرے بارے میں کسی قسم کی فضول بکواس کی منہ توڑ دوں گا تمہارا۔ جائو نکلو یہاں سے۔گیٹ لاسٹ۔ 

اسکا انداز اتنا سخت تھا کہ باوجود خواہش کے کنزی بول نہ پائی شاکی نگاہ سے ماں کو دیکھتی پیر پٹختی باہر نکل گئ

بہت بد تمیز ہو گئ ہے یہ۔ اتنی زبان کب لگ گئ اسکے۔ سیدھا کرنا پڑے گا اسے اب۔ تم نماز وماز پڑھ لو میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔ 

امی سبھائو سے اسکے کندھے کو سہلاتی اٹھنے لگیں۔اپنی کنپٹی سہلاتی مزنہ چونک گئ پھر ٹھنڈی سانس لیکر ہموار لہجے میں بولی

مجھے نہیں پینی چائے۔لائٹ اور دروازہ بند کرکے جائیے گا۔ 

میں لیٹوں گی تھوڑی دیر۔

وہ بستر پر دراز ہوگئ

مگر بیٹا نماز کا وقت۔۔ امی نے ٹوکنا چاہا جوابا اس نے اپنا بازو آنکھوں پر ٹکا دیا۔امی چپ ہو گئیں۔اس وقت یقینا وہ کچھ سننے سنانے کے موڈ میں نہیں تھی۔ سواسکی ہدایت کے مطابق دروازہ اور بتی بند کرتی خود بھی باہر نکل آئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کنزی بیڈ پر کپڑے پھیلائے انہیں کھول کھول کر دیکھ رہی تھی۔

بہت بدتمیز ہو گئ ہو تم بڑی بہن سے ایسے مقابلہ بازی کرتے ہیں؟ ذرا سا چائے بنا کر دے دیتیں تو گھس جاتیں۔

امی نے کمرے میں آتے اسے آڑے ہاتھوں لے لیا۔ 

کنزی نے ایک نظر انہیں دیکھا پھر گلابی پھولدار پرنٹ کی خوبصورت قمیض بیڈ پر پھیلا کر بظاہر سرسری سے انداز میں بولی

امی یہ قمیض مزنہ کو آجائے گی نا؟ 

فٹنگ والی جدید تراش خراش کا وہ کرتا پاجامہ دیدہ زیب لگ رہا تھا سلنے کے بعد۔

یہ تو تمہارا سوٹ ہے مزنہ نے تو گرے رنگ کا مردانہ کرتا سلوایا ہے۔ امی اسکے بات بدلنے پر چیں بہ چیں ہوئیں 

ہاں تو کیا ہوا۔بہنیں ایک دوسرے کے کپڑے پہنتی ہی ہیں مزنہ پر یہ جچے گا آپ اسکو کہییئے گا کل یونیورسٹی  یہی پہن کر جائے۔۔

وہ احتیاط سے تہہ لگاتے ہوئے بولی

تمہیں پتہ تو ہے وہ کتنا خفا ہوگی۔ اس سے یہ کپڑے نہیں پہنے جاتے تنگ ہوتی ہے وہ۔ اسکے لیئے جوڑا سل کر آیا ہے نا وہی پہنے گی وہ۔

امی بیڈ کرائون سے ٹیک لگاتے آرام سے بیٹھتی ہوئی بولیں۔

کیوں؟ کنزی تیز ہو کر دھپ سے بیڈ پر آن بیٹھی

سب لڑکیاں ایسے کپڑے پہنتی ہیں۔اگر اسے ڈھیلے ڈھالے پسند ہیں تو ہم اسکے لیئےڈھیلے ڈھالے کپڑے بنوا دیتے ہیں۔کب تک وہ مردانہ کپڑے پہنا کرے گی؟آپ سمجھائیں نا اسے۔ اب بڑی ہوگئ ہے۔ دوپٹہ اوڑھا کرے جیسے میں اوڑھتی ہوں لڑکیوں والے کپڑے پہنا کرے آپکو اندازہ بھی نہیں ہے لوگ اسکے بارے میں کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں۔

کنزی کے کہنے پر وہ سنجیدہ سی ہو کر سیدھی ہوئیں

سچی بات تو یہ کہ وہ میری ایک نہیں سنتی۔جانتی تو ہو کتنی ضدی ہے۔قسمیں دے دے کراس کو بال کٹوانے سے منع کیا ہے اس پر بھی وہ کندھوں سے ذرا سا نیچے بال نہیں جانے دیتی۔ اب ایک بات منوائی ہے آہستہ آہستہ اسکو کپڑوں پر بھی منا لوں گئ

کب؟ یونیورسٹی تک تو پہنچ گئ ہے۔ نا بات چیت کا انداز بدلا ہے نا چال ڈھال کپڑے یا تو مردانہ کرتے پہنتی ہے یا جینز شرٹ۔اب تو اسے دیکھو تو پہلی نظر میں یہی گمان ہوتا کہ لڑکا ہی ہے۔ 

کنزی کے کہنے پر وہ آہ بھر کے رہ گئیں۔

حق ہاہ میری قسمت۔آج ہادی زندہ ہوتا تو اتنا ہی بڑا گھبرو جوان ہوتا دو سال کا ہی تو فرق تھا مزنہ اور ہادی میں۔اکٹھے کھیلتے تھے کپڑے بھی ایک جیسے پہنتے دوست بھی مشترکہ ہوتے تھے۔کتنی گم سم ہوگئ تھی اسکے جانے پر میرا خود حال برا تھا۔ اسکو ہادی کے کپڑے پہنے گھومتے دیکھتئ تو لگتا تھا ہادی ہی میری آنکھوں کے سامنے چل پھر رہا ہے۔ وہ کہتے کہتے آبدیدہ ہو گئیں۔مگر جانے کیوں ہر بار انکی ایسی کسی دکھ بھری بات پر تاسف سے انکو گلے لگا لینے والی کنزی آج بالکل نہ پگھلی۔ 

ہادی بھائی آج سے کئی برس پہلے گزر چکے۔ اس بات کو گرہ سے باندھ لیں۔ نہ وہ واپس آسکتے نا ہی انکی کمی کوئی پوری کر سکتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ مزنہ ہماری بہن ہے وہ چاہے جیسے مرضی۔۔۔

بولتے بولتے اس کی ماں کی آنکھوں سے جاری تواتر سے گرتے آنسوئوں پر پڑی تو خاموش ہی ہوگئ۔ 

جائو تم چائے بنائوایک چائے بنانے کیلئے کیا کیا تاویل نہ گڑھ لی بس زبان چلوا لو اس لڑکی سے ۔

آنسو پونچھتے ہوئے امی بگڑیں تو وہ جھلا کر اٹھ گئ۔

بنا رہی ہوں چائے۔ کبھی میری بات نہ سنئیے گا آپ نہ سمجھیئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح دونوں ہی خاموش تھیں۔ امی کا بھی منہ پھولا ہوا تھا۔ کنزی کی وین آئی تو مزنہ بھی ساتھ اٹھ گئ۔ وہ بائک نکال رہی تھی جب اس نے وین والے کو کہتے سنا

واپسی پر وین نہیں آئے گی مجھے بہت ضروری کام سے گائوں جانا ہے واپسی پر آپ لوکل آجائیں گا۔ 

کنزی سر ہلاتی وین میں بیٹھنے جا رہی تھی جب اس نے پیچھے سے آواز لگا ئی

تم دو بجے کالج سے نکل آنا میں آجائوں گا لینے 

اور کوئی وقت ہوتا تو کنزی خوش ہوجاتی مگر اس وقت پلٹ کر خاصے سخت انداز میں بولی

کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں میرے کالج آنے کی میں خود آجائوں گی وین سے۔

مزنہ نا سمجھنے والے انداز میں  دیکھتی رہی وہ آرام سے وین میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔ 

ذیادہ ہی دماغ خراب ہو رہا ہے اسکا۔ اسکو کیا لگتا معافی مانگوں گا میں۔۔ خود بدتمیزی کرتی ہے اوپر سے اکڑ بھئ رہی ہے۔ 

غصے سے بائک کو زوردار کک لگا دی۔ 

یونیورسٹی پہنچ کر حسب معمول اس نے ماہا کو ڈھونڈا تھا۔

نہ کینٹین میں نہ کلاس میں۔ کال ملائی تو کھلکھلاتے ہوئے بولی

میرے بغیر دل نہیں لگ رہا نا جانو؟ بس میں ابھی آئی ۔۔ 

اسکی کھلکھلاہٹوں کے درمیان بھی عادل کی آواز اسے سنائی دے گئ۔ 

وہ وہیں ڈیپارٹمنٹ کے باہر سیڑھیوں پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگی

بات سنیں۔ 

ایک منحنی سی لڑکی اسکے پاس آکر بولی۔ اس نے یونہی سر اٹھا کر دیکھا

میرا نام بیلا ہے میں میڈیا اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ سے ہوں ٹک ٹاک بھئ بناتی ہوں آپ نے دیکھا ہوگا۔

اسکا انداز اتنا پریقین تھا کہ جیسے مشہور سیلیبریٹی ہے اور مزنہ تو یقینا فین ہی ہوگی اسکی۔ 

اچھا پھر؟۔ مزنہ کے تاثرات ہنوز رہے تو وہ تھوڑا گڑبڑا سی گئ

وہ میں ٹک ٹاک بنا رہی ہوں آپ بس میرے ساتھ چل لیں گی۔ مجھے لڑکا چاہیئے اپنے ساتھ ذرا سا ایکٹ ہے آپکو کوئی ڈائلاگ بھئ نہیں بولنا ہوگا۔ پلیز۔ 

اس نے اتنے منت بھرے انداز میں کہا کہ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

اسکو ساتھ چلتے دیکھ کر وہ جیسے بے طرح خوش ہوئی تھی۔ وہ میڈیا اسٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ کی تھی انکو کوئی پراجیکٹ کرنا تھا جس کیلئے اداکاری کیلئے لڑکا درکار تھا یہ سب تفصیل اس نے چلتے چلتے بتائی تھی۔ 

کہاں رہ گئ تھیں اتنی بڑی یونیورسٹی میں ایک لڑکا نہ ملا تمہیں؟

اسکی سہیلیاں اسے دیکھتے ہی چلائیں۔ 

آگئ آگئی اور وہ جو بانہوں میں بانہیں ڈالنے والا سین تھا نا اسکا بھئ انتظام ہوگیا۔ 

بیلا چہکی۔مزنہ ان سب کو سوالیہ انداز میں دیکھتی رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا کی تین مسڈ کالز آچکی تھیں۔ وہ جلدی جلدی ٹک ٹاک بنوا کر بھاگی تو ماہا ڈیپارٹمنٹ کی لابی میں بے چینی سے منہ پھلائے گھوم رہی تھی۔۔ 

اس نے جاتے ہی اسکو پیچھے سے بانہوں میں بھر لیا ماہا خفگی سے خود کو چھڑانے لگی

چھوڑو جانے دو۔ جائو اپنے سب کام نمٹا لو ماہا جائے بھاڑ میں۔ 

وہ سخت خفا تھی اسے اس پر پیار ہی آگیا اسکا گال چوم کر اسکے کندھے پر تھوڑی ٹکا دی

اتنی خفگئ میری جان۔ایسے روٹھو گی تو میں تو مرجائوں گا۔ 

اسکے مکالمے پر ماہا کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ 

اچھا تو یہ سب سیکھ کر آئے ہو تم۔ 

اس نے کہا تو وہ ہنس دی۔ 

یار وہ بی ایس کی نئی بچیاں تھیں۔کوئی پراجیکٹ تھا انکا اسکے لیئے چھوٹی سی ویڈیو بنانی تھی۔ اب لڑکے کے تو گلے نہیں لگ سکتی تھی سو مجھ سے خوب لپٹ لپٹ کر ڈائلاگ بولے اس نے۔ یہ والے ڈائلاگ میرے تھے۔اف تھکا دیا پندرہ ری ٹیکس دیں میں نے۔ 

اول تو بی بی آپ بھئ بی ایس ہی کی ہیں فائنل ائیر ہے تو کیا ہوا ایویویں انکی اماں بن گئیں  بچیاں کہہ کر۔۔

ماہا نے کہا تو وہ ہنس کر بولی

اماں نہیں ابا۔۔ 

وہی۔ ماہا نے لاپروائی سے کندھے اچکائے۔

اچھا چلو آج ویسے بھی کوئی اہم پیریڈ نہیں ہے مجھے باہر جانا ہے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔ 

اس نے کہا تو مزنہ نے جتانے والے انداز میں یاد کرایا

جانا تھا نا عادل کے ساتھ۔ ابھی اسی کے پاس تو تھیں۔ 

ارے عادل عادل ہے وہ میری جانو کی جگہ تھوڑی لے سکتا۔ اب میں جتنی آسانی اور سکون سے تمہارے ساتھ گھوم پھر سکتی اس عادل کے بچے کے ساتھ تھوڑی جا سکتی۔

ماہا اسے مسکا لگاتے ہوئےبولی۔ 

خاص کر شاپنگ میں تو وہ اتنا تنگ کرتا ہے جلدی کرو ۔۔ 

خیر تنگ تو میں بھئ ہوتا ہوں ایک چیز کیلئے دس دکانیں کھنگالتی ہو تم۔

لگے ہاتھوں مزنہ نے بھی جتا دیا۔ 

لیکن تم جتنا بھی چڑ لو ہمیشہ میری شاپنگ مکمل ہونے تک میرا ساتھ نبھاتے ہو ۔ماہا اسکے کندھے سے جھول گئ

کاش تم پکے والا لڑکا ہوتے سچی میں نے عادل ہو لفٹ ہی نہیں کرانی تھی۔ ماہا بے تکی ہانک رہی تھی۔ 

میں اور تم ہمیشہ ساتھ رہتے اف اتنا گھومتے پھرتے آئیڈیل کپل ہوتےہم ہائیٹ بھی میچ کرتی ہے ہماری

اسکی باتوں پر مزنہ کو ہنسی آگئ۔ 

اچھا بس بہت مسکا ہوگیا جانا کہاں ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بائک پر ماہا اسکا کندھا دبوچے بیٹھی تھی۔ اور وہ آج اسے ڈرانے کو خوب تیز بائک اڑاتے لائی تھی۔ مال کے باہر بائک روکی تو وہ اچھل کر نیچے اتری ایک زور دار مکا لگا دیا اسکے کندھے پر

اگر تم یہ سمجھتے ہو نا  ایسے مجھے ڈرادوگے اور آئیندہ میں تم سے شاپنگ پر جانے کی فرمائش کرنا چھوڑ دوں گئ تو غلط فہمی ہے تمہاری آج اور آئیندہ بھی مجھے جب جب جانا ہوگا تم ہی مجھے لیکر آیا کروگے سمجھے۔ 

اسکے خونخوار انداز کے برعکس وہ سکون سے بائک کا انجن بند کر رہی تھی۔

ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا تحفہ عادل کیلئے تم نے لینا ہے تو میں کیوں تمہارے ساتھ یہاں خوار ہورہا ہوں بھئ

اسی کے ساتھ آنا تھا نا۔

لو۔ وہ برا مان گئ۔

پھر سرپرائز کیسے رہتا۔ ہماری منگنی کے بعد پہلی سالگرہ ہے اسکی مجھے اسکے لیئے بہت اچھا سا تحفہ لینا ہے۔

وہ جھوم جھوم کر بولی تھی۔ مزنہ اسے دیکھ کر ہی رہ گئ ۔ پھر مال میں عادل کی شاپنگ کہیں پیچھے رہ گئ جہاں اسے سیل لگی نظر آتی گھس جاتی ۔۔۔

پہلے عادل کیلئے کچھ لے لو۔ 

مزنہ کو ٹوکنا پڑا

ہاں تو عادل کیلئے تو سب سے بہترین تحفہ لینا ہے ایسے ہی تھوڑی کچھ اٹھا لوں گی کچھ دل کو جچے کچھ بھائے۔۔۔۔ اف کتنا پیارا ہے یہ

بولتے بولتے مشہور برانڈ کا بے حد خوبصورت کرتا پسند آگیا جھٹ اپنے ساتھ لگا کر دیکھنے لگی۔

تم غالبا عادل کی شاپنگ کیلئے آئی تھیں۔

مزنہ نے ٹوکا تو وہ ڈھٹائی سے ہنس دی

میں بھی تو عادل کی ہی ہوں۔۔عادل میرا میں عادل کی۔۔۔۔۔

کچھ ذیادہ ہی فدا ہو عادل پر اتنا بھئ پیارا نہیں ہے وہ  

خواتین کی سائیڈ کے مقابل ہی مردانہ کلیکش تھی وہ قصدا لاپروائی سے کہتی اسے چڑاتی اس جانب چلی آئی۔ماہا کسی اور جوڑے کی طرف مگن ہوگئ تھی اس نے دھیان نہ دیا شائد۔جبھی اسکا وار خالی گیا۔

مردانہ حصہ بالکل خالی پڑا تھا وہ ڈمی پر لگے اس خوبصورت کاٹن کے کرتے کی جانب چلی آئی۔ گلے پر ہلکا سا کام کلف لگا کرتا نیچے جینز ڈمی خوب سج رہا تھا

اس جانب لگا ہوا ہے یہ جوڑا اگر آپ ٹرائی کرنا چاہیں تو  

اسکے مردانہ حلیئے اور کرتے کو دیکھنے کے انداز سے یقینا اس سیلز گرل کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ بولتی قریب آئی تو اسے دیکھ کر جھجک سی گئ

سورئ میں سمجھی آپ اپنے لیئے دیکھ رہے میرا مطلب دیکھ رہی ہیں۔

خالص مردانہ کرتے واسکٹ اور جینز میں ملبوس خاتون کو دیکھ کر اسے یقینا حیرت کا  جھٹکا سا لگا تھا۔

وائو۔ مجھے پتہ تھا تم میری مدد کروائوگے۔ یہ واقعی بہت پیارا کرتا ہے۔عادل کیلئے دیکھ رہے ہو نا

ماہا حسب عادت شور مچاتی آئی۔کرتے کو توصیفی انداز سے دیکھتئ پسند کی مہر لگاتی

نہیں میں تو اپنے لیئے۔ 

مزنہ نے اسکی غلط فہمی دور کرنی چاہی مگر جلد باز ماہا مڑ کر سیلز گرل سے شروع ہوچکی تھی۔

مجھے یہ والا کرتا دکھائیں کونسا سائز بیسٹ رہے گا ہاییٹ ویسٹ بس کچھ اسی جیسی چاہیئے عادل کا بس ایک آدھ نچ ہی قد ذیادہ ہے مزنہ سے۔ 

سیلز گرل سے مستقل بولتے ہوئے وہ یہی کرتا نکلوا رہی تھی۔

پھر بل بنواتے تک بولتے بالتے اسے کائونٹرپر جیولری پسند آگئ

نازک سے زنجیر میں جھل مل کرتے نگینے جڑے آویزے۔۔ چین اتنی باریک تھی کہ دور سے دیکھنے پر لگتا نگینے ہوا میں معلق ہیں۔ 

یہ کیسے ہیں۔ کانوں میں سجا کر وہ اسکو دکھا کر پوچھنے لگی

جانے جگر جگر کرتے ہیرے جیسے نگینوں کی جھلملاہٹ تھی یا اسکے گالوں میں پڑتے ڈمپل سے اسکے چہرے ہر جگمگاہٹ تھی وہ بے تحاشا حسین لگ رہی تھی۔

بتائو نا کیسی لگ رہی ہوں میں؟ 

ماہا نے ٹوکا 

بہت پیاری بے حد حسین۔

اس نے دل سے کہا تو وہ پھر کھلکھلا دی۔ اسکا حسن دو آتشہ سا ہو چلا

مزنہ نے سنبھل کر اسکے گال پر جھولتی اس آوارہ سی لٹ کو احتیاط سے اسکے کان کے پیچھے اڑس دیا۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ روبیہ اور لیلی کے ساتھ کینٹین میں گپ شپ کرتی سموسہ چاٹ اڑا رہی تھی جب شمائلہ اپنے گروپ کے ہمراہ بن بلائے مہمان کی طرح نازل ہوگئ۔

تمہاری بہن تو بڑی سپر اسٹار نکلی۔ اوہ۔ وہ جان کے اٹکی۔ 

معاف کرنا سپر اسٹار نکلا۔ پوری ٹک ٹاک پر ٹرینڈنگ میں آرہا ہے۔ ہمیں پتہ ہوتا تو اس دن روک کرآٹوگراف لے لیتے۔۔ 

وہ آنکھیں مٹکا مٹکا کر چمک چمک کر بول رہی تھی۔اسکی سہیلیاں کھی کھی کرنےلگیں۔

میں تو کندھےسے لگ کر تصویر بھی بنوا لیتی ۔۔ اسکی سہیلی نے لقمہ دیا

ارے امی کو کیا بتاتیں کس کے کندھے سے لگ کر تصویر بنائئ ہے لڑکی یا لڑکا۔

یہ ہما تھی کہتے ساتھ ہی ہنسے چلی گئ۔ 

کیا بد تمیزئ ہے یہ شمائلہ۔ 

کنزی کا طیش سے منہ سرخ ہو چکا تھا۔ اسکا ہاتھ دبا کرروکتے ہوئےلیلی بولی تھی۔ 

بد تمیزی؟؟؟ ارے ہم تو تعریف کر رہے تھےسچی ہمیں نہیں پتہ تھا اسکی بہن ہیرو آتی ہے ٹک ٹاک پر۔

شمائلہ نے بھولا بن کراپنا موبائل اسکی نگاہوں کے سامنےلہرایا۔

کیا بکواس کر رہی ہو۔کنزی دونوں ہاتھ میز پر مارتی غضب کےمارےاٹھ کھڑی ہوئی

بکواس تعریف کر رہی ہوں دیکھو کتنا اچھا ایکٹر ہے تمہارا بھائئ۔ میرا مطلب بہن۔ 

شمائلہ کے چہرے پر چڑا دینےوالی مسکراہٹ تھی۔اسکا موبائل نگاہوں کے سامنے تھا کنزی نے تھامنا چاہا مگراس نے موبائل چھوڑا نہیں بلکہ ویڈیوچلا بھئ دی۔

مشہور بھارتی گانے پر وہ لڑکی بہت جھوم جھوم کر اس لڑکے کے کندھے سے لٹک لٹک کر گا رہی تھی۔لڑک بھی خوب موج میں اسے احتیاط سے تھام رہا تھا۔ لڑکے کی بس ایک دو بار جھلک ہی آئی تھی۔ویڈیو کےآخر میں دونوں نے اپنی پیشانیاں ٹکائیں اور رومانوی پوز دیا۔۔۔ لڑکی کو وہ نہیں جانتی تھئ مگرلڑکا وہ لاکھوں لوگوں میں پہچان سکتی تھی۔ وہ لڑکا۔ کوئی اور نہیں اسکی اپنی سگی ماں جائی تھی

وہ پتھرا سی گئ۔

کینٹین میں موجود سب لڑکیوں کی توجہ انکی جانب ہونے لگی

شمائلہ نے استہزائیہ انداز سے دیکھتے ویڈیو دوبارہ پلےکردی

بھئی مبارک باد دو کنزی کی بہن مشہور ہوگئ ہے ٹک ٹاکر کے طور پر۔ 

شمائلہ کی سہیلی نے اعلان کر ڈالا۔ لڑکیاں فورا متوجہ ہوئیں

یہ لڑکی کنزی کی بہن ہے؟ جانے کس نے پوچھا

نہیں یہ لڑکی نہیں اس ویڈیو میں جو لڑکا ہے وہ۔۔

شمائلہ اس تماشےسے بہت محظوظ ہورہی تھی۔ روبیہ اور لیلی نےکنزی کا ہاتھ پکڑ کر اس جمگھٹےسے نکلنا چاہا۔

کیا ہوا؟ کنزی کا بھائی ٹک ٹاکرہے؟ 

ایک لڑکی اسکو روک کرپوچھ رہی تھی

ارےکنزی کا بھائی نہیں بہن ہے ۔۔ اسکی بہن لڑکوں جیسی لگتی ہے۔ 

جانےکون اعلان کر رہی تھی کنزی نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔روبیہ اور لیلی کتنے جتنوں سے اسے کھینچ کھانچ کر کینٹین سےباہر لے کر آئیں۔سائکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے بیک سائیڈ اس وقت سنسان ہو تی تھیں دونوں اسے تھام کر وہیں لے آئیں۔ دیوار سے لگ کر بیٹھتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ 

مت روئو۔ شمائلہ کی عادت تو جانتی ہو۔ ایسا بھی کچھ عجیب نہیں یہ ٹک ٹاکر انیتا اسکومیں بھی فالو کرتی ہوں اسی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے جسمیں مزنہ آپی پڑھتی ہیں۔بنوا لی ہوگئ ویڈیو۔شمائلہ کا پتہ تو ہےتمہیں ہے ہی سڑی ہوئی جل ککڑی۔۔ 

لیلی اسکو بہلانےکو جو سمجھ آرہاتھا کہے جا رہی تھی۔

اسی مانوس گانےکی آواز سنائی دی تو لیلی نے گھور کر روبیہ کو دیکھا۔وہ سنجیدہ سی شکل بنائےویڈیودیکھ رہی تھی گڑ بڑا سی گئ۔ کنزی نے بھی سر اٹھا کر دیکھا۔ 

وہ میں بس دیکھنا چاہ رہی تھی کمنٹس۔ 

روبیہ نے صفائی دینا چاہی۔ کنزی نے دوپٹےسے آنسو پونچھے اور اسکا موبائل ہاتھ میں لیکرخود بھی کمنٹس پڑھنے لگی۔

ان لوگوں نے اس دن کم تماشا لگایا تھاجب مزنہ آپی اسکو چھوڑنے آئی تھیں۔ اب تو انکوپکاموقع ملا ہے

 روبیہ گہری سانس لیکر بولی

یار عجیب سائکو ہیں  یہ۔ہمیشہ لیٹ کالج آتی ہیں اس دن کنزی لیٹ ہو گئ تو دیکھ لیا ورنہ کتنی دفعہ تو مزنہ آپی اسے چھوڑ کر گئ ہیں لینےتو اکثر ہی آتی تھیں گارڈ تک پہچانتا انکو انہوں نےاس دن ایسے تماشا بنا دیا تھا جیسے

لیلی کو شمائلہ پرشدید غصہ آرہا تھا۔

کنزی خاموشی سے کمنٹس پڑھنے لگی۔

یہ لڑکی سائیکوہی ہے۔۔یونیورسٹی بھی ایسے ہی آتی ہے۔ 

یہ ہجڑا ہےکیا ؟؟؟؟ 

یہ دیکھنے میں تو کہیں سےلڑکی نہیں لگ رہی۔۔ 

یہ لڑکا ہے ۔۔اسکی۔۔۔۔۔۔۔۔ 

یہ تو گے کپل ہے۔۔۔

اسکے کانوں کی لوئیں تک سرخ ہونے لگیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالج سے آکروہ جلے پیرکی بلی کی طرح پھری تھی۔ امی نے سب ناراضگئ بالائے طاق رکھ کر اسکی بے چینی کا سبب بھی پوچھا مگر وہ سیدھا کنزی سے ہی بات کرنا چاہتی تھی۔امی اسے اسکےحال پر چھوڑ کر نماز کی نیت باندھنے لگیں۔

وقت گزرتا گیا شام کی چائےبن گئ۔ اس نے مزنہ کو فون کھڑکایا اس نے اٹھایا ہی نہیں ۔امی اطمینان سے آکر لائونج میں آٹھ بجے کاڈرامہ دیکھنے لگیں

وہ سنجیدگی سے انکے پاس آن بیٹھی۔

امی کی یونہی نظر پڑگئی تو تشویش سے پوچھنے لگیں

کیا ہوا کنزی۔۔ 

امی کا پوچھنا غضب ہو گیا۔ وہ بل کھا کر بولی

امی آٹھ بج رہے ہیں کنزی ابھی تک گھر نہیں آئی۔ 

امی نوٹس لیئے بنا بولیں۔

آتی ہوگی آج یونیورسٹی کے بعد ماہا کے ساتھ کہیں جانا تھا۔ اسے۔

ایک یہ ماہا آپی۔ مانا بچپن کی دوست ہیں مزنہ کی مگر ڈرائیور کی طرح پیش آتی ہیں مزنہ کے ساتھ۔ کہیں جانا فون کھڑکا دیا یہ بائک لیکر حاضر ہیں۔ لڑکیوں والی دوستی تو نہیں نبھاتیں الٹا مزنہ کو مستقل لڑکوں کی طرح ٹریٹ کر کرکے اور اسکا دماغ خراب کر دیا ہے۔ 

امی ہنس دیں۔

ہاں اسکا فون آیا تھا کنزی کے فون پر کنزی باتھ روم میں تھی تو میں نے اٹھا لیا کہہ رہی تھی۔ جانو بھول گئے آج ہم نے صدر جانا تھا مجھے تو اتنی ہنسی آئی اسکے ایسےبولنے پر اور وہ میری آواز سن کر اتنی شرمندہ ہا ہا ہا۔

دیکھا۔کنزی اپنا اندازہ درست ثابت ہونے پر تیز ہو کر بولی

اب انہوں نے صدر جانا تھا اور مزنہ انکے لیئے ڈرائیور ڈیوٹی کرے گی کیوں بھلا؟۔

ارے پرانے تعلقات ہیں۔ واحد تو دوست ہےمیں تو شکر کرتی ہوں ایک ہی سہی لڑکی دوست ہے ورنہ اسکا یاد ہے لڑکپن تک لڑکوں کے ساتھ ہی کھیلتی تھی آئوں گا جائوں گا کہتی تھی اب تو۔۔۔ امی کے ڈرامے میں اشتہار آگئے تھے سو فرصت سے بیٹی سے بات سے بات بڑھانے لگیں۔کنزی کو سمجھ نہ آیا کیسے بتائے۔سو بات بدل کر گھڑی کی جانب اشارہ کرنے لگی

اور وقت دیکھیں۔کبھی آپ نے مجھے اور حفصہ آپی کو تو اتنی رات گئےکہیں آنے جانے نہ دیا۔ حفصہ آپی کی تو شادی بھی ہو چکی ہےپھر بھی انکو آپ شام میں رکشے تک میں اکیلے نہیں جانے دیتیں ہمیشہ عامر بھائی  آتے پھر اسے کیوں نہیں ٹوکتیں۔ ساڑھے آٹھ ہو رہے ہیں کوئی اتا پتہ نہیں اسکا۔

امی اسکا لال بھبھوکا چہرہ دیکھتی ہی رہ گئیں پھر سبھائو سے سمجھانے لگیں۔

مزنہ ماشا اللہ سے سمجھدار بہادر لڑکی ہے اپنی موٹر سائکل لیکر گئ ہے..

امی لڑکیاں بہادر نہیں ہوتیں ہونا نہیں چاہیئے ہوں بھی تو لڑکی کو لڑکی تو لگنا چاہیئے یہ دیکھیں۔ 

اس نے غصے کے مارے ویڈیو نکال کر دکھا دی۔

کیسی ویڈیوز بنا رہی ہیں لڑکیاں یہ منگیتر بھی ہے اگر اسکا تو یوں لپٹنا۔۔ 

امی پہچانی ہی نہیں۔

غور سے دیکھیں امی یہ لڑکا نہیں ہے مزنہ ہے۔ 

کنزی نے سر پیٹ لیا۔

اچھا ہاں۔وہ مسکرا دیں۔

میں ماں ہو کر دھوکا کھا گئ ما شا اللہ میری مزنہ

اوفوہ امی۔ کنزی جھلا کر چیخ پڑی

ذرا کمنٹ کھول کر دیکھیں کیا کہہ رہے ہیں لوگ مزنہ کے بارے میں ہجڑا تک کہہ رہے ہیں اسے۔ اور آپ خود دیکھیں مزنہ بالکل بھی لڑکیوں جیسی نہیں ہے بولتی چلتی پہنتی اوڑھتئ سب لڑکوں کی طرح ہے لڑکی کہو تو غصے میں آجاتی ہے۔ بولتے بولتے اسکی نگاہ بائک کی چابی جھلاتی مگن سی لائونج میں داخل ہوتی مزنہ پر پڑی۔ مردانہ گہرے رنگ کی ۔ ٹی شرٹ جینز میں ملبوس دوپٹہ ندارد۔ہاتھ میں شاپر پھر کسی دکان کے چکر لگا کے آئی تھی۔مزید لوگ مزید الٹی سیدھی باتیں

چڑ کر کہہ دیا

اور یہ تو دوپٹہ تک نہیں اوڑھتی۔ باہر پھر پھر کر چہرے تک پر سختی آچکی ہے اسکےلڑکی لگتی ہی نہیں ہے اب۔

کیا فضول باتیں کر رہی ہو کہاں سے فضول باتیں ذہن میں آرہی ہیں تمہارے۔ 

امی کی پشت تھئ پھر بھی لاڈلی بیٹی کی حمایت میں کنزی پر خفا ہونے لگیں۔ ۔کنزی کو دیکھتےمزنہ وہیں رک کر سننے لگی تھی اب ماتھے پر کئی شکنیں بھی ابھر آئی تھیں۔

کنزی اٹھ کر کھڑی ہوگئ۔ 

یہ فضول باتیں نہیں ہیں۔ امی اسکو سمجھائیں یہ لڑکی ہے لڑکی رہے لڑکا بننے کی کوشش میں بیچ میں ہی نہ۔

بکواس بند کرو۔ مزنہ بھاری آواز میں چلا اٹھی۔

جتنا مرضی چلائومگر حقیقت سے نظر نہ چرائو تم دوپٹہ اوڑھو نہ اوڑھوآئوں گا جائوں گا کرو نہ کرو تم لڑکی ہو لڑکی رہو گی

کنزی بے خوفی سے دوبدو تھئ۔مزنہ طیش کے عالم میں اسکی جانب بڑھی۔ امی گھبرا کر مزنہ کو روکنے لگیں

ہوش کرو وہ تو چھوٹی ہے نادان ہے جانے کس کی باتوں میں آگئی

امی کے جملے اسے تیر کی طرح چبھے

چھوٹی ہوں نادان نہیں۔ آپ نادانی کر رہی ہیں۔کچھ اندازہ ہے آپکو لوگ پیٹھ پیچھےاسے سائکوخبطی پاگل کیاکچھ نہیں کہتے اور اب اس ٹک ٹاک والے کارنامے کے بعد تو ہجڑا اور گ۔۔ وہ فرط شرم سے چپ کر گئ

بولو کیا کہتے۔ مزنہ دانت کچکچا رہی تھی۔۔

گھر میں اتنی زبان چلتی ہے باہر جواب کیوں نہیں دیتیں تم

امی ان دونوں کو روکتے جھلا گئئیں۔

کس کس کو جواب دوں ؟کنزی چلائی تو کئی آنسو گال پر امنڈتےچلے آئے

کس کس کو روکوں۔ خالہ عامر بھائی محلے والے اور میری سہیلیوں تک تو منہ درمنہ مقابلہ کیا اب تو اسکو انجان لوگ تک۔ آپکو احساس کیوں نہیں ہوتا یہ غلط ہے شرم آتی ہے جب لوگ اسکو ۔۔ 

تو تمہیں بھی میرے وجود سے شرمندگی ہو تی ہےحفصہ کی طرح۔ ؟ تم چاہتی ہو میں تمہاری طرح نزاکت سے چلا کروں ہر وقت دوپٹے میں الجھی رہا کروں شلوار پہن کر بائک چلایا کروں؟؟

مزنہ دھاڑی۔ آنکھوں میں سرخ ڈورے بھاری آواز امی بھی ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگیں۔۔کنزی ہونٹ بھینچ کر رہ گئ۔

بات سنو مزنہ۔ امی نے پیار سے اسکا بازو تھام کر سمجھانا چاہا

کچھ نہیں سننا میں نے خوب سمجھ رہی ہوں میں اسکا مسلئہ۔مگر یاد رکھو میں جیسی بھی ہوں لڑکوں جیسی یا ہجڑوں جیسی ہر طرح سے تم سے بہتر ہوں۔یاد رکھو ایک درزی سے جوڑا لانے تک کیلیئےتم اسی مزنہ کی محتاج ہو۔ اگر لڑکیاں تم جیسی ہوتی ہیں تو میں لڑکا ہی ٹھیک ہوں۔

وہ مزنہ کا جوڑا ہی درزی سے لائی تھی۔ ہاتھ میں پکڑا شاپر 

کنزی پر اچھال کر حقارت بھرے انداز میں کہتی مزنہ کنزی کو اتنی مختلف اور اجنبی لگی کہ چند لمحے دیکھتی ہی رہ گئ

بہن کو غلط مت سمجھو بیٹا۔ اتنا غصہ مت کرو میری اچھی بیٹئ ہو نا تم

امی لجاجت سے بولیں تو وہ لمحہ بھر کو خاموش ہو کر انہیں دیکھنے لگی۔ اپنی پیشانی مسل کر خود کو ٹھنڈا کیا جیسے۔اس بات ہموار مگر اٹل لہجے میں بولی۔۔

بیٹی نہیں بیٹا ہوں میں امی آپکے ہادی کا پرتو۔میں لڑکا ہوں آپکا بیٹا۔اس حقیقت کو جتنی جلدی ہوسکےباور کرلیں۔ 

وہ کہہ کر رکی نہیں پیر پٹختی کمرےکی جانب بڑھ گئ

کنزی تو کنزی امی بھی سناٹے میں آگئ تھیں۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے وہ سنجیدہ سی شکل بنائے موبائل میں مگن تھی۔ جب امی تھکی تھکی سی کمرے میں داخل ہوئیں۔

جانے کس کی نظر لگ گئ ہے ایسا گھل مل کے بیٹھی رہتی تھیں میری بیٹیاں اب ہر وقت کا جھگڑا۔ 

امی اسے ڈانٹنے ڈپٹنے کے موڈ میں تھیں مگر وہ بے نیازی سے موبائل میں لگی رہی۔

جانے دوپہر کو کچھ کھایا یا شام کو میں نے اتنا پکارا تو دروازہ کھول لیا مگر کھانا کھانے کو تیار نہیں ہوا یہ جا کر دوبارہ منہ تک چادر تان کے لیٹ گیا ہے۔ 

امی بولتی ہوئی کمرے کی چیزیں سمیٹ رہی تھی

کھانے کو تیار نہیں ہوئی، دوبارہ منہ تک چادر تان کر لیٹ گئ ہے۔

وہ جتانے والے انداز میں چبا چبا کر بولی

امی آپ تو میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ موبائل ایک طرف رکھ کر وہ سیدھی ہو بیٹھی

کیا سمجھوں ۔امی چڑ گئیں۔

تم تو ایسی نہ تھیں اتنی پیاری بیٹی تھیں۔بہن سے اتنا پیار کرتی تھیں جب کوئی کچھ اسے کہتا تھا تو لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتی تھیں آج کیا کچھ نہ سنا دیا تم نے اسے۔

بالکل میں اب بھی وہی ہوں۔ امی۔ مگر آج جب کوئی اسے کچھ کہتا ہے تو مجھے یہ سمجھ بھی آرہا ہے کہ اس نے موقع دیا ہے دنیا کو باتیں بنانے کا۔ ایک دنیا کی لڑکیاں کیا کچھ نہیں کرتیں جہاز اڑاتی ہیں ، پہاڑ کی چوٹی سر کرتی ہیں سب کیا اپنی چال ڈھال حلیہ بدل لیتی ہیں؟ اسکو لڑکی کہہ دو تو اسے گالی کی طرح لگتا ہےامی یہ نارمل رویہ نہیں ہے خدا کاواسطہ ہے میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔ 

مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ بچپن سے ایسی ہے اب اچانک کیوں تمہیں اس میں اتنے کیڑے نظر آنے لگےہیں۔

امی ناراض ہوگئیں۔ 

کنزی سر تھام کے رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

صبح وہ کب اٹھی کب باہر چلی گئ انہیں پتہ نہ لگا۔وہ اتوار کی وجہ سے گیارہ بجے اٹھیں۔ کنزی کو جگایا اسے اٹھانے کمرے میں آئیں تو وہ گھر میں نہیں تھی۔ بائک بھی نہ تھی۔ 

ابھی فون کرکے پوچھنے کا سوچ ہی رہی تھیں کہ بائک پورچ میں آرکنے کی آواز آئی۔ وہ کچن سے تجسس میں باہر لائونج میں چلی آئیں تو داخلی دروازے سے حفصہ اور مزنہ اکٹھے اندر آرہی تھیں۔ 

اسلام و علیکم امی۔ 

وہ خوشگوار انداز میں آکر ان سے لپٹ گئ۔ 

وعلیکم السلام۔ کیسی ہو پورے دو ہفتے بعد ماں یاد آئی تمہیں ہیں۔ 

بیٹی کو کلیجے سے لگا نے پر ڈھیروں ٹھنڈ سینے میں پڑی تھی پھر بھی ہلکا پھلکا شکوہ کر ہی ڈالا۔ جوابا حفصہ کھلکھلائی

اف آپکو نہیں پتہ کتنی مصروفیت رہی ہے آخر کار خوشخبری ہے میرے پاس مگر امی پہلے اچھا سا پراٹھا بنا کر کھلائیں قسم سے پیٹ میں چوہے کود رہے ہیں۔

وہ بچوں کی طرح ٹھنکی۔ 

امی مجھے بھی ناشتہ کرادیں۔آپی نے نہار منہ بلوا لیا گیٹ پر انتظار میں کھڑی تھی بس جیسے ہی پہنچا بیٹھ کے واپس یہاں لے آئیں پانی تک کو نہ پوچھا۔

مزنہ اپنے ہمیشہ کے انداز میں بولتی ہوئی لائونج میں ٹی وی چلا کر صوفے پر گر گئ۔امی نے چونک کے شکل دیکھی۔نارمل انداز تھا رات والی تلخی کا شائبہ تک نہ تھا۔امی محبت سے مسکرا دیں

کیا کرتی امی  ردا  اپنی دادو اور اپنے تایا کے بچوں کے ساتھ کل سے اپنی پھپو کے گھر گئ ہوئی ہے۔ یہ صبح صبح گاڑی لیکر نکل گئے لاہور جانا تھا انہیں اب میں اکیلی تھی۔ کیا اپنے لیئے اہتمام کرتی سوچا آج ماں کے ہاتھ کا پراٹھا کھائوں۔

حفصہ لاڈ سے ماں کے کندھے سے جھول گئ

بس دو منٹ میں بناتی ہوں اپنی بیٹیوں کیلئے پراٹھے۔جائو کنزی کو بھی اٹھا لائو۔ امی کہتی فورا کچن میں گھس گئیں۔ حفصہ نے آلو کی ترکاری تیار کی گرم گرم پراٹھے۔کنزی اٹھ آئی تو بہن سے لپٹ گئ۔ ہنستے بولتے اسی نے چائے بنا دی۔ اہتمام سے جب ناشتہ کرنے بیٹھیں تب تک مزنہ آرام سےٹی وی کے چینل بدلتی رہی

اب مزنہ کو بھی گھر کے کاموں میں لگائیں کم از کم چائے تو بنانئ سیکھ لے۔ 

حفصہ نے تو یونہی بات کی مگر امی بری طرح سٹپٹا گئیں۔ او رآنکھ کے اشارےسے اسے چپ ہونے کا کہنےلگیں۔مزنہ تو بے نیازی سے ناشتہ کرتی رہی جیسے سنا ہی نہ ہو کنزی کے چہرےپر بڑی جتاتی مسکراہٹ آئی تھی۔ 

اتوار کے دن کے حساب سے کئی کام منتظر تھے مگر سر فہرست سودا سلف لانا تھا۔حفصہ کو اپنے ہاتھ کی بریانی کھلانے کیلئے انہوں نے فٹا فٹ سودے کی فہرست مزنہ کے حوالے کی وہ فورا بائک لیکر نکل گئ کنزی کو اپنا ادھورا اسائنمنٹ مکمل کرنا تھا سو کمرے میں گھس گئ

 حفصہ جو بات کرنے آئی تھی  اسکے لیئے اسے یہی وقت مناسب لگا۔امی کو لیکرلائونج میں آ بیٹھی۔

امی ابھی خالہ نے سب کو اطلاع نہیں دی مگر سعدیہ کا رشتہ طے ہو گیا ہے۔ اب جانے وہ کرامت والے بابا کا تعویز اثر کر گیا کہ کیا جھٹ پٹ سب کام ہو رہے ہیں ۔لڑکا اکلوتا ہے دبئی میں رہتا ہےباپ نہیں ہے ماں بھی ساتھ رہتی ہے ۔ اچھے لوگ ہیں۔

شکر ہے خدا کا۔بہت پریشان تھی میری بہن۔ اللہ نے اسکی مشکل آسان کی۔ شکر الحمد اللہ۔۔

امی کے دل سے بے ساختہ شکر نکلا۔ بھانجی انکی حفصہ سے بھی دو مہینے بڑی تھی مگر قسمت نہیں کھل رہی تھی۔حفصہ مسکرا دی۔ امی ہمیشہ سے ہی اتنی رقیق القلب تھیں اس دفعہ تو حفصہ کی وجہ سے ڈھیروں دعائیں انہوں نے بھی سعدیہ کیلیے کی تھیں جو مقبول ہوگئیں ۔جتنا شکر کرتیں کم تھا۔

اور ایک اور خاص بات امی۔ حفصہ کو اصل بات کرنے کی جلدی بھی تھی۔ڈر یہی تھا کہ مزنہ نہ آجائے اس سے پہلے بات کرلے

مزنہ کیلئے رشتہ ہے۔میری سہیلی کا دیور ہے۔میری شادی کی سالگرہ پراسکی ساس کی آپ سے اور کنزی سے ملاقات ہوئی تھی۔ ہمارا گھرانہ پسند آیا ہے انہیں۔انہوں نے توبات کنزی کی کی تھی مگر میں نے بتایا کہ ابھی تو فرسٹ ائیر کا امتحان دیا ہے کم ازکم گریجوایشن سے پہلے اسکا نہیں سوچنا تو خود ہی انہوں نے مزنہ کا ذکر کر ڈالا۔مزنہ بھی کم پیاری نہیں ہے بس اسکو لڑکیوں والے کپڑے پہنوا کر کسی دن انکو ملنے بلا لیں۔لڑکا عمر میں مناسب ہے اپنا کاروبار کر رہا ہےپڑھے لکھے لوگ ہیں۔ 

ایک ہی سانس میں سب سنا کر وہ بمشکل سانس لینے رکی تھی۔اتنا جوش و خروش دیکھ کر بھی امی ہچکچاہٹ کا شکارہوئیں۔

مگر بیٹا ابھی مزنہ شائد تیار نہ ہو شادی کیلئے۔

حفصہ تیز ہو کر بولی

کیوں نہیں؟  آخری سمسٹر ہے یونیورسٹی کا شادی طے ہو بھی جائے تو سال چھے مہینے لگ جائیں گے فارغ ہو جائے گی ڈگری سے۔۔ 

پھر بھی۔ ویسے بھی اس نے سارا گھر سنبھال رکھا ہے۔ 

امی گومگو میں تھیں کہ حفصہ کوکل والی لڑائی اور مزنہ کے مکالمے بتائیں نہ بتائیں۔جانے وہ واقعی ایسا سوچنے لگی ہے یا غصے میں کہہ گئ ہے۔ سمجھ نہ آیا تو بودا بہانہ تراش لیا۔ حفصہ کچھ اور ہی سمجھی

سارا گھر سنبھال لیا ہے تو کیا اسکی شادی ہی نہیں کریں گی؟ اور لڑکیاں گھر کے کام کرکے گھر سنبھالتی ہیں باہر کے کام کرکے نہیں

امی بے بسی سے اسکی شکل دیکھنے لگیں

بیٹا دکانوں کا حساب کتاب سب وہی دیکھتی ہے اور وہ تو کہتی ہے ڈگری کے بعد نوکری کرے گی 

امی بس کریں۔حفصہ جھلا گئ

ایک دنیا کی خواتین اپنے کام خود کرتی ہیں۔ آپ نے اچھا باہر کی دنیا کو ہوا بنا رکھا ہےاور اس چکر میں اسے بھی عجوبہ ماہی منڈا بنا دیا ہے۔ امی بیٹی ہے آپکی وہ۔ بیٹا نہیں۔ اگر عام سی لڑکی ہوتی تو پھر چلو دو چار سال ٹال جاتے اسکی شادی کا سلسلہ مگر اسے دیکھیں ذرا بالکل لڑکا بن کے رہ گئ ہے۔ابھی کم عمر ہے رعب میں ہے آپکے ڈانٹ ڈپٹ کر شادی کردیں یہ ماہی منڈا پن سب بھول بھال جائے گی  اسے ابھی اسکے حال پر چھوڑا تو بالکل ہاتھ سے نکل جائے گی۔

پہلے کنزی اوراب حفصہ دونوں کی ایک ہی بولی۔ انکو تو لگنے لگا تھا تمام عمر بس گھاس ہی کھودی ہے سب عقل شعور انکی بیٹیوں نے گھول کے پی لیا ہے۔

امی خود غرض نہ بنیں معاملے کو سمجھیں۔ حفصہ انکی طوہل خاموشی سے جھلا گئ

ابھی میری ساس اور شوہر نے ہمارے گھرانے کا بائکاٹ کردیا ہے نا خود آتے ہیں نہ ردا کو آنے دیتےہیں مجھے روک سکتے تو شائد میرا آنا بھی بند کرا دیتے۔طرح طرح کی باتیں بن رہی ہیں امی۔لوگ کہتے ہیں آپ مزنہ کی اب کبھی شادی ہی نہیں کریں گی۔آپکو کیا پتہ خاندان والے تک مزنہ کے بارے میں کیا کہہ جاتے حالانکہ بچپن سے دیکھ رہے ہیں اسے۔ 

دبے لفظوں میں اس نے خانداں میں پھیلی چہ مگوئیوں کا بھی تذکرہ کر ڈالا۔ 

امی ٹکر ٹکردیکھتی رہیں  یہ وقت بھی آنا تھا کہ انکی اپنی اولاد خود غرضی کے طعنے دے گی۔ سوچتی رہیں۔پھرتھک کر بولیں

نہیں خود غرض تو نہیں ہوں میں۔ چلو بلا لو کسی دن انکو مل لیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد۔ 

جاری ہے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *