روح انقلاب
مرے قدم میں مے و تو و شباب کی روح
ترا خیال ہے مرے خیال و خواب کی روح
ہر انقلاب بہاراں تری نگاہ کے ساتھ
ترا شباب ہے کل عالم شباب کی روح
گناہ شوق مسلسل سزا سے بے خبری
شباب روح ہے انکی یہ ہیں شباب کی روح
نہ چاہیے مجھے الطاف کی خنک بارش
میں پا گیا ہوں تری گرمی عتاب کی روح
ملا رہے ہیں نگاہیں فلک کے تاروں سے
نہاں ہے خاک کے ذروں میں آفتاب کی روح
یہ چرچے ہیں کہ گیا دور اضطراب مگر
سکوں کی آڑ میں اب بھی ہے اضطراب کی روح
بہار تازہ کی آمد کا غلغلہ بھی ہے
خزاں رسیدہ بھی ہے شبنم و گلاب کی روح
ضیائی روپ میں خونخوار ظلمتیں ! توبہ
وہ ظلمتیں کہ لرزی ہے آفتاب کی روح
تمیز ثروت و غربت کے کالے پردوں میں
مچل رہی ہے نئی صبح انقلاب کی روح
ہر اک زرہ بے حس کو بخشتی ہے تڑپ
بلند عزم ہے پستی میں آفتاب کی روح
فنا نہ ہوگا مذاق بلند پروازی
بدل سکے گا نہ کنج قفس عقاب کی روح
سنبھل کے دامن جرات نہ چھوٹنے پائے
سکوں میں ڈھال کے رہے گی اس اضطراب کی روح
ضمیر روشن و فکر بلند و عزم صمیم
انھیں میں چڑھتی ہے پاروں انقلاب کی روح
از قلم زوار حیدر شمیم