Salam Korea
By Vaiza Zaidi
وہ سب اس وقت یونیورسٹی کی ڈسپنسری
میں موجود تھے۔۔
شاہزیب کو ابتدائی طبی امداد دی جا رہی تھی اس کے سر پر چوٹ آئی تھی۔۔ پیشانی پرنیل آئے تھے گوارا کا بریسلیٹ یا انگوٹھی اسے لگی تھی۔۔ اور انجیکشن لگا کر اسے سلا دیا گیا تھا وہ سب اسکے بیڈ کے کنارے کھڑے
خاموشی سے ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے۔۔
چونکہ یہ غلط فہمی تھی اور آپ کے دوست کو زیادہ چوٹ آئی ہے سو میں معزرت میں پہل کرتا ہوں۔۔۔ یون بن نے کہا تو ایڈون بڑبڑایا۔۔
خیر ہے ہم پاکستانیوں کو ویسے بھی پرائے پھڈوں میں ٹانگ اڑا کر زلیل ہونے کی عادت ہے۔۔
وے؟ ۔۔ آئی مین واٹ ڈڈ یو سے؟ ہایون سمجھا نہیں
اسکا مطلب ہے ہمیں بھی ۔۔۔ اریزہ نے کہنا چاہا۔۔ وہ آگے سے کہنا چاہ رہی تھی اپنے کام سے کام رکھنا چاہیئےتھا۔۔
مگر وہ سب ایکدم اسے دیکھنے لگے اگلے الفاظ کھو ہی گئے
اٹس اوکے میرا مطلب تھا آئندہ ہم احتیاط کریں گے۔۔
ایڈون نے اس کی جگہ بات مکمل کی۔۔
ویسے آئی مسٹ سے تمہارے دوست کا ہاتھ بہت بھاری ہے۔۔ یون بن نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر ہنستے ہنستے کہا۔۔
مجھے حیرت ہے تم لوگ ایسے ملک سے ہوکر بھی جو ریپ کیسسز کی وجہ سے بد نام ہے انجان ملک میں انجان لڑکی کیلیے لڑ پڑے مجھے اسکی تعریف کرنی چاہیئے۔۔ گوارا نے کہا تو مگر طنز اسکے چہرے سے ظاہر تھا اسکا انداز اور بات دونوں ہی آگ لگا دینے والے تھے۔۔
وہاٹ؟
وہ چاروں چیخ پڑے۔۔
ہرگز نہیں۔۔
کیا نہیں ؟انڈیا کا حصہ نہیں ہے پاکستان؟
اس نے منہ بنایا۔۔
ہرگز نہیں ۔۔ ہمیں علیحدہ ہوئے ستر سال ہونے کو ہیں اور ہم لڑکیوں کی عزت کرنے والی قوم ہیں جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوا تھا ایسا پاکستان میں ہوتا تو اس سے جلدی اس سے برا حال کرتے ہم۔۔ ایڈون سخت جزباتی ہو گیا تھا۔۔ اس لڑکی کے پیچھے انکا دوست اسپتال میں پڑا تھا اوپر سے اس نے علیحدہ مار مار کر اسکا حشر کردیا معمولی افسوس تک چہرے پر نہیں تھا۔۔
یون بن نے غور سے اسکی شکل دیکھی۔۔
ہاں تو تم لوگوں۔۔ گوارا نہ جانے کیا کہنے جا رہی تھی یوں بن نے ہاتھ پکڑ کر روک دیا اسے۔۔
جو کچھ ہوا اس پر ہمیں افسوس ہے ۔۔ اب تمہارا دوست بھی ٹھیک ہے تھوڑی دیر سو کر اٹھے گا تو بہتر محسوس کرےگا ہم چلتے ہیں۔۔
اریزہ نے سر ہلا دیا۔۔
وہ تینوں خاموشی سے جھک جھک کر کہتے سر جھکائے نکل۔گئے۔۔
ایک تو اس کی مدد کی آگے سے نخرا دیکھو ہمیں الہام ہوا تھا یہ کراٹے جانتی ہے۔۔ ہم تو اسکے خیال سے مدد کو بڑھے تھے آگے سے یون بن روک رہا تھا اسے یہ رک ہی نہیں رہی تھی۔۔ اتنا دکھ تھا بوائے فرینڈ کے پٹنے کا تو اسے نخرے کیوں دکھا رہی تھی۔۔ ایڈون بھرا بیٹھا تھا ان کے نکلتے ہی غصے سے شروع ہو گیا۔۔
آہستہ ریلیکس شاہزیب جاگ جائے گا۔۔ سالک نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا شاہ زیب بے سدھ پڑا تھا اس نے تاسف سے اسکے نیلگوں ہوتے چہرے اور پھٹے ہونٹ کو دیکھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کم سن اور سنتھیا جب تک پہنچے وہاں سے بھیڑ چھٹ چکی تھی ایک اسٹوڈنٹ نے انہیں معرکے کے بارے میں بتایا تو دونوں ڈسپنسری کی طرف لپکے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تائیکوانڈو کا پہلا اصول کیا تھا گوارا ؟
یون بن نے ساتھ چلتے چلتے اس سے بظاہر سر سری انداز میں پوچھا۔۔
گوارا اسکا مقصد سمجھ گئ تھی جبھی کچھ کہنے سے گریز کیا۔ یون بن نےرک کر اسکی شکل دیکھی۔
سب سے پہلے اپنے آپ سے لڑو۔۔
اپنے جزبات پر قابو پائو۔۔ اپنی طاقت جب دکھانے کا سوچو جب سہنے کی طاقت ختم ہونے لگے۔۔ اور
جانتی ہوں سب۔۔ گوارا نے بات کاٹ دی۔۔ ہایون خاموشی سے ساتھ چل رہا تھا۔۔
پھر ؟ وہ رک کر اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔
میں اسکو پلٹ کر زیر کر سکتا تھا مگر میں اسے روکتا رہا پھر تمہیں میں روک رہا تھا تم سن نہیں رہی تھیں اتنا غصے میں اتنا بے قابو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تمہیں صاف لگ رہا تھا یہ۔مجھ پر آیا غصہ اتر رہا ہے اس بے چارے پر۔۔
ہاں ۔۔ وہ چلائی ۔۔وہ تمہارا غصہ اس پر اترا ہے۔۔ خوش؟
میرا غصہ مجھ پر اتارو۔۔ مجھے مارو ۔۔ اس نے بھی غصے سے اسکا ہاتھ پکڑا۔۔
مارو نا۔
اس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر مارنا چاہا اپنے منہ پر مگر گوارا نے ہاتھ چھڑا لیا۔۔
اور منہ پھیر کر دوسری جانب دیکھنے لگی۔۔ اسکی آنکھیں بھرنے لگی تھیں
وہ کچھ کہنے لگا ہایون نے اسکا بازو تھام لیا۔
وہ رک گیا۔۔
پھر سر جھکا کر اس سے کہنے لگا۔۔
میں کل جارو سے ملا وہ صرف اتفاق تھا ۔۔ اسے گھر چھوڑنا مجبوری بہر حال وہ میری اچھی دوست تھی میں اسے اس حالت میں بار میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔ تمہیں اگر دھوکا دینا ہوتا تو نہ تمہیں وہاں انوائٹ کرتا نہ۔۔
اسکا جملہ مکمل ہونے سے پہلے گوارا اس سے لپٹ گئ۔۔ اس نے گہری سانس لے کر اسے بھینچ لیا۔۔
ساتھ چلتے کم سن کے قدم رکے تھے ہایون کی بھی اسی وقت ان پر نظر پڑی
اسکے دوست سامنے تھے محفوظ تھے اسے آگے جانے کی ضرورت نہیں تھی وہ وہیں سے پلٹ گیا۔۔
سنتھیا نے حیرت سے اسے مڑتے دیکھا مگر وہ کچھ کہے بنا لمبے لمبے ڈگ بھرتا آگے بڑھ کیا۔۔ سنتھیا کندھے اچکا کر سیدھا جا نے لگئ ہیونگ سک کے پاس سے گزری تو اس نے روم نمبر بتا دیا وہ اشارے سے شکریہ ادا کرتی اندر چلی آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے ہی نک چڑھی بدتمیز۔۔
یاد ہے جب ہمیں روم میں چھوڑنے آئی تھیں کیسے دیکھ رہی تھی ہمیں جیسے ہم کیڑے مکوڑے ہیں۔۔
اسکا بوائے فرینڈ مگر تک کا بندہ تھا کوئی شک نہیں۔۔اریزہ کو جون تائی کا حلیم انداز بہت بھایا تھا۔۔
وہ دونوں اسی بات ہر تبصرہ کرتی ہاسٹل کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں
تم لوگ کیا بوڑھوں کی طرح سیڑھیاں چڑھ رہی ہو ۔۔ تھک گئ ہو؟
ان کے پیچھے چلتی جی ہائےنے نرم سے انداز میں کہا تھا دونوں چونک کر مڑیں
آپ جائو آگے۔۔ دونوں اک طرف ہو کر اسے راستہ دینے لگیں
آنیو۔۔ اس نے نفی میں سر ہلایا
میں اسلیئے کہہ رہی تھی کہ میں تم لوگوں کے پیچھے چلتے ہوئے نوٹ کر رہی تھی۔۔ وہ سہولت سے کہتی ریلنگ سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئ
تم لوگوں کی چار سیڑھیاں چڑھتے سانس پھول گئ بالکل بھی اسٹیمنا نہیں ہے تم میں۔۔ تم لوگوں کو میں نے بیٹھے دیکھا تو کندھے جھکا کر بیٹھی تھیں تم لوگ بڑے اور سست قدم اٹھاتی ہو ایسا لگتا تمہارے کندھوں پر بھاری بوجھ ہے۔۔
اس نے کسی ماہر فزیو تھیراپسٹ کی طرح انکا معائنہ ہی کر ڈالا تھا۔۔
دونوں آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھیں
خیر اگر تم لوگ اپنا پوسچر ٹھیک کرنا چاہو تو میں مدد کر سکتی ہوں ۔۔
وہ کہہ کر بے نیازی سے اپنا بیگ ٹھیک کرتی تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئ۔۔
یہ کیا تھا؟
سنتھیا حیرت سے اسے پھرتی سے سیڑھیاں چڑھتے دیکھتی رہ گئ۔۔
بیستی تھی اور صحیح بیستی تھی۔۔
اریزہ نے ہونٹ بھینچے
اسکو دیکھا کتنی چست تھی۔۔
جمناسٹک کی کھلاڑی ہے وہ پھرتیلی نہیں ہوگی تو کون ہوگا۔
سنتھیا نے اسکی عقل۔کا ماتم کیا
وہ تو ٹھیک ہے وہ بھی ہمیں کرتب نی دکھانے پر نہیں ٹوک رہی تھی یہ معمولی سیڑھیاں نہ چڑھ سکنے پر ٹوک رہی تھی ۔۔
اس نے پاس سے گزرتی دیگر لڑکیوں کو بھی اسی پھرتی سے چڑھتے دیکھتے ہوئے کہا۔۔
اب یہ سب تو جمناسٹک نہیں کرتیں۔۔
اس نے مزید کہا مگر مجال ہے سنتھیا نے اثر لیاہو۔۔
منہ لٹکا کر بولی۔۔
تیرہ اور سیڑھیاں چڑھنی ہیں۔۔۔
دونوں گہری سانس لے کر دوبارہ چڑھنے لگیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو سونے سے پہلے برش کرتے ہوئے اریزہ نے باتھ روم کے چوڑے سے آئنے میں بغور خود کو ہر زاویے سے دیکھا۔۔
برش منہ میں ہی پکڑ کر اس نے اپنے آپ کو ایک طرف سے دیکھا۔
وہ واقعی کندھے جھکا کر کھڑی تھی۔۔ اس نے کندھے سیدھے کیے پھر جھکائے
ہلکا سا سہی مگر اسکے کب نکلا ہوا تھا۔۔
واقعی ۔۔ وہ بے ساختہ بول اٹھی تو منہ میں بھرا ٹوتھ پیسٹ کا جھاگ گرنے لگا وہ فورا بیسن پر جھکی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منہ ہاتھ دھو کر نکلی تو سنتھیا کپڑے نکال رہی تھی۔۔
کل تو آف ہے سنڈے ہے نا؟
اس نے یہی سوچا بھول گئی ہے شائد۔۔
کل کی سنڈے پریئر میں جانے کا سوچ رہی ہوں ۔۔ ایڈون بتا رہا تھا پیدل کا راستہ ہے قریب ہی گرجا ہے۔۔میں نذر بھئ دوں گی۔اتنی دعائیں کی تھیں خدا وند سے کہ تمہیں بھی ساتھ جانے کی اجازت مل جائے انہوں نے سن لی مگر میں نے شکریہ ادا نہیں کیا۔۔۔
سنتھئا کی بات پر اسے اپنا حال یاد آیا۔کوئی نماز نہیں پڑھی تھی کوریا آکر۔ مگر یہاں وہ باتھ روم جاتے بالکل مطمئن نہیں تھی۔جانے اگلے دو تین سال کیسے گزارتی یہاں۔
کتنے دن ہوگئے میں نے پریئر نہیں کی ایسٹر پر گئ تھی آخری مرتبہ چرچ ۔۔ امی تو کہتی میں مسلی۔۔
اسے بولتے بولتے خیال آیا تو زبان دانتوں مین دبا لی۔۔ کیا کہنے جا رہی تھی۔۔
اس نے ڈرتے ڈرتے نگاہ اٹھائی اریزہ مسکرا دی۔۔
اسکی اپنی امی الفاط کانوں میں گونجے
دہریہ ہوگئ ہے دو دن سے نماز نہیں پڑھی چوڑی کہیں کی پاس مت آنا میرے
اس نے تولیہ اسٹینڈ پر ٹانگی۔۔
اریزہ تم نے بھی جب سے یہاں آئی ہو نماز نہیں پڑھی۔۔ سنتھیا کو یاد آیا۔۔
بال سنوارتے اسکے ہاتھ رکے۔۔
میں ویسے ہی کہہ رہی تھی اگر برا لگا تو سوری اس نے بیگ بند کرکے معزرت خواہانہ انداز میں کہا۔۔
نہیں برا نہیں لگا واقعی کافی دن ہوگئے امی تو مجھے دو لگا چکی ہوتیں۔۔ وہ قصدا ہنس کر بولی۔۔
پھر آرام سے اس کے بیڈ پر ٹک کر نائٹ کریم لگانے لگی۔۔
تم جاء نماز نہیں لائیں اسلیے نہیں پڑھ رہیں۔۔؟
انکا لایا سامان ایک دوسرے سے چھپا نہیں تھا۔۔ واقعی جا نماز ساتھ لانے کا تصور ہی نہیں تھا ظاہر ہے پاکستان میں جہاں جاتے وہاں جاء نماز ہوتی ہی تھی۔۔
وہ مسلہ نہیں ۔۔اس نے گہری سانس لی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکل آ سالک کے بچے مر گیا ہے کیا اندر۔۔۔
ایڈون دروازہ پیٹ رہا تھا
نکل رہا ہوں یار۔۔
سالک نے بے چارگی سے کہا۔۔ چند لمحوں بعد وہ تھکا تھکا سا باہر آیا۔۔ ایڈون شکر ادا کرتا بھاگ کے باتھ روم میں گھسا۔۔
انکا ڈورم تین بیڈ کا تھا
یون بن اپنے بیڈ پر نیم دراز اپنے لیپ ٹاپ مین مگن تھا۔ ایڈون باہر آیا تو سالک نے دہائی دی۔۔
یار تم لوگ کیسے اسے استعمال کرتے ہو قسم سے میں جب سے یہاں آیا ہوں ایک بار کھل کر فارغ نہیں ہوا۔۔ نماز علیحدہ چھٹ گئ ہے میری۔۔ اوپر سے پانی
۔۔ اسے کہتے کہتے خیال آیا کہہ کسے رہا تو چپ ہو گیا۔۔۔۔
ایڈون اسکی شکل دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔۔
قسم سے تیرے لیے لوٹا ڈھونڈتے رہے کل میں اور شاہ زیب پوری گنگنم مارکیٹ میں
وہ اسکا مزاق اڑا رہا تھا نرا۔
۔کہیں نہ ملا پر
ہاتھ سے اشارہ بھی کیا۔۔۔
لعنت ہے۔۔۔ وہ بھنا کر اپنے بیڈ پر گرا۔
اس سے پوچھوں؟ ایڈون کو شرارت سوجھئ۔۔ سالک نے رخ پھیر لیا۔
گنگنم مارکیٹ پوری چھان لی مگر لوٹا نہیں ملا ہمیں۔
اس نے انگریزئ میں پوچھا سالک نے بھنا کر گھورا اسے۔ایڈون ڈھٹائی سے ہنسا
گنگنم مارکیٹ سے کیا نہیں ملا۔۔ یون بن کو پوری بات تو نہیں پتہ چلی مگر کان کھڑے ہوگئے تھے۔۔
یار ایک برتن ہوتا جس میں ایسے۔۔ایک ناب لگی ہوتی ۔۔۔نہیں کیا کہیں گے اسے ۔۔ وہ سوچ میں پڑا
ہاتھی کی سونڈ بنی ہوتی
ایڈون نے اسے سمجھانا چاہا۔۔
ہاتھی کی سونڈ؟
جون تائی بھونچکا رہ گیا۔۔
وہ پوری توجہ سے سن رہا تھا۔
ہاں یوں سمجھ ایک گینڈا بیٹھا ہو اور اس کے پیٹ سے ہاتھی کی سونڈ نکل رہی ہو۔۔ ایڈون اپنی مثال پر خو د ہی ہنس ہنس کر پاگل۔ہو گیا۔۔
یون بن تصور میں بھی ایسا برتن نہ سوچ سکا۔۔
بند کرلے بک بک اپنی
سالک نے تپ کر ساتھ سے تکیہ اٹھا کر اسکے منہ پر مارا وہ ہنستے ہنستے جھکائی دے گیا۔۔
یار کیتلی سمجھ لے۔۔
مگر بڑی سی ہو کم از ک۔ دو لیٹر پانی آئے
۔۔ ایڈون نے کہا
سالک چیخا۔۔۔ منہ بند کرلے ایڈون ضائع ہوجائے گا میرے ہاتھوں۔۔
ارے کیتلی؟
ایسا برتن ہوتا ہے نا برتنوں کی دکان پر۔ جون تائی حیران تھا انہیں اتنی معمولی چیز نہ ملی
تم سمجھے نہیں اسکا استعمال ٹھہرو۔۔
ایڈون بولا تو سالک نے چھلانگ لگا دی اس پر۔۔
دونوں زمیں پر گرے تھے ایڈون ہنس ہنس کر پاگل ہو رہا سالک پیٹ رہا جون تائی الجھن سے دیکھ رہا اس میں ہنسنسے کی کیا بات۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنتھیا کا ہنس ہنس کر برا حال تھا
تھوڑی دیر تو اریزہ دیکھتی رہی پھر تکیہ اٹھا کر اسکی ٹھکائی شروع کر دی۔۔۔۔
وہ ہنس ہنس کر بےحال ہو رہی تھی ۔۔۔ اریزہ اسے مارتے مارتے تھکی تو اسی کے بیڈ پر بیٹھ گئ۔
میرے بیڈ پر نہ بیٹھنا میں مطمئن نہیں تمہاری۔۔۔
سنتھیا نے ہنستے ہنستے پھر چھیڑا اریزہ کا پھینکا گیا تکیہ منہ بن کر گیا وہ یونہی ہنسے گئ۔لوٹ پوٹ ہوتے لیٹ ہی گئ اریزہ اسے گھورتی رہی پھر خود بھی ہنس کر اسکے برابر ہی لیٹ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح نو بجے سنتھئا نک سک سے تیار خود کو آئینے میں دیکھ رہی تھئ۔
تم چلی جائوگی تو میں کیا کروں گی؟
اریزہ اسکے بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ رکھ کر اسے دیکھ رہی تھی
سنتھیا آف وہائیٹ لانگ ٹاپ وہایٹ جینز پہن کر تیار ہو رہی تھی آف وہائٹ اور پنک پرنٹڈ اسکارف پہن کر مکمل تیار تھی۔۔
ہلکی سی پنک لپ اسٹک لگاتے اس نے سوچا اس نے سوچا پھر پلٹ کر بولی۔۔
تم بھی چلو۔۔
پریئر کے بعد گھومنے چلیں گے۔۔
اس کا آئیڈیا اچھا تھا۔۔ اس نے سوچا پھر خوش ہو کر بولی
یہ ٹھیک ہے۔۔
جلدی سے تیار ہو جائو
ایڈون آتا ہی ہوگا ۔۔
اس نے ایڈون کی آتی کال نو کر دی۔۔ اب اسے اریزہ کے تیار ہونے تک یہی کرنا تھا
استری جس پر نہ کرنی پڑے وہ پہنو۔۔
اس نے تاکید کی تو اریزہ سوچ میں پڑی۔۔
اب لان یا کاٹن تو بنا استری کے نہیں پہن سکتی۔۔ جینز چلو پہن بھی لوں تو گرمیوں میں تو میں ٹاپ وغیرہ کم ہی پہنتی ہوں۔۔
چھوڑو۔۔ وہ اوپر جاتے جاتے اتر آئی۔۔
رکو ۔۔
دونوں کے سائز میں کافی فرق تھا۔۔
ایسا کرو جینز پہنو اور میرا یہ ٹاپ فری سائز ہے۔۔
وہ کہتی الماری میں گھس گئ۔۔
پیچ کلر کا گول سا گھیر والا سادہ سا ٹاپ تھا جس کا آگے سے دامن چھوٹا پیچھے سے تھوڑاگہرے گھیر کا تھا
یہ نہیں میں لے سکتی تم نے ابھی ایک بار بھی نہیں پہنا یہ وہی ہے نا یہاں آنے سے پہلے جو صدر سے لیا تھا ؟
اسے یاد تھا
واپس کر دینا نا ۔۔ سنتھیا نے منہ بنایا
مگر یار کوئی اور دیکھ لو بلکل نیا ہے یہ مجھے اچھا نہیں لگے گا۔۔
ٹایم نہیں ہے یار آگیا ہے وہ باہر گیٹ پر ہے بھاگ کر بدلو کپڑے۔۔ سنتھیا نے اسکی نا نا کرنے کے باوجود اسے دھکا دے کر اوپر بھیجا
ایڈون پھر کال۔کر رہا تھا
اس نے فون اٹھایا اور ڈپٹ کر بولی
کہاں کھڑے ہو ؟ نظر ہی نہیں آرہے ہم دو مرتبہ گیٹ سے جھانک کر جا چکے ہیں۔۔
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فٹ سا تیار ہو کرجلدی آئو پانچ منٹ میں ہم کہیں جارہے پھر نہ کہنا بتایا نہیں ۔
ہایون بے خبر سو رہا تھا جب اسے یون بن کی کال آئی بس اتنا کہہ کر بند کر دیا
اس نے کسلمندی سے وقت دیکھا صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔
وہ پہلے تو سو چا کروٹ بدل کر سو جائے
واقعی کروٹ بدل کر سونے لگا پھر فون بجا۔۔
کروٹ بدل کر سونے لگے ہو؟ اٹھو نا۔
اس بار کم سن چیخا۔۔
ایک تو یہ
وہ دانت کچکچا کر رہ گیا۔۔
آرہا ہوں ۔۔ اسے اٹھنا ہی پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریئر شروع ہو چکی ہوگی ۔۔
یون بن نے گھڑی دیکھ کر اطمینان سے کہا۔
وہ ایڈون شاہزیب سالک کم سن گیٹ پر کھڑے تھے۔۔
یار یہ لڑکیان بھی نا۔
ایڈون جھلایا۔
اگلے اتوار کا پروگرام رکھ لو۔۔
شاہزیب نے ایسے ہی کہا تھا۔
مگر ایڈون کی سلگ گئ گھور کر دیکھا۔۔
کوئی اخیر انتہا پسند لگا ہےایسے گھورتے ۔۔
وہ اردو میں بڑبڑایا۔۔
ہم ویسے آجائیں گے ایک گاڑی میں ؟
سالک نے کہا تو کم سن نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا یون بن کو وہ لاپروا بن کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔
تم لوگ ویسے بہت مزہبی ہو مجھے اچھا لگا۔۔
کم سن نے خلوص سے کہا تھا
سالک اور شاہزیب ایک دوسے کو دیکھ کر رہ گئے۔۔
ویسے تمہیں پیٹ میں دوبارہ تو تکلیف نہیں ہوئی۔۔
یون بن نے شاہزیب سے پوچھا تو وہ بھنا کر کر کچھ الٹا کہنے لگا تھا مگر یون بن بہت نرم سے انداز میں واقعی فکر کر رہا تھا
ٹھیک ہوں اب ۔۔
اس نے اتنا کہنے پر اکتفا کیا۔۔
آگئیں ایڈون نے انہیں خراماں خراماں چلتے آتے دیکھا تو اطلاع دی۔۔
ان کے آنے کا سن کر وہ سب جو باہر تین فٹ اونچی کیاری پر ٹکے تھے باری باری اترے اتر کر انہیں آتے دیکھا سالک دیکھتا رہ گیا۔۔
شاہزیب نے اسے دیکھ کر تقلید کی خود جم گیا۔۔
یون بن کو تجسس ہوا۔ وہ بھی۔ کم سن نے ان سب کو دیکھ کر جھانکا پھر ان سب کو حیرت سے دیکھنے لگا ایڈون جو انھیں آتے دیکھ کر مڑ چکا تھا دوبارہ چونک کر انہیں دیکھا۔۔
تم کدھر؟
وہ دونوں چلتی قریب آئیں تو اس نے بلا لحاظ اریزہ سے پوچھا۔۔
کیا؟ سنتھیا تیز ہو کر بولی۔یہ بھی ساتھ چل رہی ہمارے۔
یہ کیا کرےگی؟
ایڈون نے کہا۔۔
جو میں کروں گی ۔۔سنتھیا بگڑی تمہیں اسے کندھے پر اٹھا کر لے جانا ہے جو تکلیف ہو رہی یہ دو نمونے بھی تو جا رہے۔۔
اس نے ان دونوں کی جانب اشارہ کیا۔۔
یہ دونوں لڑکے ہیں باہر گھومتے رہیں گے۔۔
ایڈون نے کہا تو اریزہ بھی چڑ گئ۔۔
میں جا کر تم لوگوں کی پریر تھوڑی خراب کر دوں گی۔۔ بیٹھی رہوں گی ایک طرف۔۔
ایڈون سر جھٹک کر رہ گیا۔۔
یون بن نے دلچسپی سے پوچھا۔۔
کس بات پر بحث چل رہی۔۔؟
کچھ نہیں چلیں؟
ایڈون نے ٹال دیا۔۔
چلتے ہیں ۔۔۔ وہ سر ہلا رہا تھا۔۔
اسکی گاڑی سامنے کھڑی تھی
کیا مطلب؟
ابھی تو کہہ رہے تھے ہم لیٹ ہو رہے۔۔ ایڈون بگڑا
وہ تو ہو رہے ہیں ۔۔
اسکا اطمینان عروج پر تھا
پھر؟
کم سن بھی حیران ہوا۔
بندے گنو زیادہ نہیں ؟
اس نے ریموٹ سے گاڑی کا لاک کھولا۔۔
ان لاک کر دی ہے جو جو آتا ہے اسمیں جا کر بیٹھ جائو۔۔
ہشسس۔
کم سن نے سر پر ہاتھ مارا۔۔
مجھے کیوں اٹھایا میں نے پریر میں کونسا جانا تھا۔۔ میں پہلے جاتا ہوں ۔۔۔ وہ واپس جانے مڑا۔۔
میں بھی چلتی ہوں۔۔ اریزہ بھی پلٹی
ٹھہر جائو کیا جلدی
یون بن نے کم سن کو روکا
آریزہ
سنتھیا اسے پکار رہی تھی۔۔پھر ایڈون کو گھورنے لگی
یہ چندی آبادی کیوں اکٹھی کی ہے؟
ایڈون چندی آبادی پر بے ساختہ ہنسا۔
یہ چندی آباد معزرت کے ٹوکن کے طور پر ہمراہ ہے۔ خود اس یون بن نے آفر کی تھی ہمیں کہ۔۔
وہ وضاحت کر رہا تھا کہ
تبھی ایک اور بڑی سی گاڑی ان کے سامنے آرکی۔۔
یہ ہایون تھا
آجائو کم سن۔۔
اوئے پردہ مس پردہ آجائو۔۔یون بن پکارا
اریزہ نے مڑ کر دیکھا تو وہ اسے ہی بلا رہا تھا
مس پردہ؟
اسکا منہ کھلا
آجائو اریزہ۔۔
سنتھیا نے بھی اسے بلایا۔۔
وہ واپس آنے لگی تو یون بن کو گھور کر دانت کچکچا کر بولی۔۔۔
ار ری زا اریزہ نام ہے اسکا۔۔
وہ لاپروائی سے ہنستا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا
ہایون الگ حیران اسے آواز دے کر پوچھ رہا تھا جانا کہاں ہے ؟
میرے پیچھے آئو۔۔
یون بن نے پکار کر کہا
اریزہ اور سنتھیا اسی گاڑی کے قریب کھڑی تھیں سو ہایون نے گاڑی انلاک کی تو اسی کی پچھلی نشست کادروازہ۔کھول کر بیٹھ گئیں
سنتھیا اس گاڑی میں تھی سو ایڈون نے اسی میں جانا تھا
گھوم کر فرنٹ سیٹ پر آبیٹھا باقی چاروں لڑکے دوسری گاڑی میں سوار ہو گئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے یہاں آنے کیلیے مجھے زور دے کر بلایا۔۔
چرچ کر دیکھ کر وہ دانت کچکچا کر یون بن سے بولا۔۔
وہ۔مخصوص انداز میں ہنستا رہا۔۔
سال میں ایک آدھ بار چکر لگانے میں حرج نہیں
یہ سب چرچ آنا چاہ رہے تھے میں اکیلا کیا کرتا اسی لیے بلا لیا تمہیں
اس نے اسکو کندھے اسے ساتھ لگایا تو ہیون سر جھٹک کر رہ گیا وہ آپس میں کورین میں ہی بات کر رہے تھے۔۔
آپ نہیں آئیں گے۔۔ شاہ زیب اور سالک کو باہر نکلنے کے پر تولتے دیکھ کر کم سن انکے ساتھ ہی ہو نے لگا تو ایڈون نے اس سے پوچھ لیا۔۔
وہ اس سے پہلے کچھ کہتا یون بن نے اسکی جانب سے جواب دیا۔
اسکا یہاں کام نہیں یہ بڈھسٹ ہے۔۔
اسکی بات پر شاہزیب کو خیال آیا۔۔
اریزہ تم ۔۔۔ تم بھی چلوگی ہمارے ساتھ ۔؟
نہیں میں ٹھیک ہوں سنتھیا کے ساتھ رہوں گی۔۔ حسب توقع اس نے منع کردیا۔۔
یہ کیا کرے گی؟
سالک حیران تھا۔۔
یار ویسے شرمندگی ہو رہی۔ہمیں تو نماز پڑھے عرصہ ہوچلا ہے ۔۔شاہزیب کو الگ دکھ تھا۔
آج پکا لوٹا ڈھونڈ یں گے۔۔ انہوں نے مصمم ارادہ کیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائو۔۔
سامنے سے اتنا بڑا نہیں لگ رہا تھا یہ تو بہت عالیشان چرچ ہے۔۔
اریزہ بچوں کی طرح ہاتھ پھیلا کر گھومی تھی۔۔ بے حد خوبصورت اور بڑا سا ہال تھا جسکی چھت بے حد اونچی تھی۔۔ اس پر سے دیو ہیکل سنہری روشنیاں چھلکاتے فانوس سفید جالی کے براق پردوں سے سجاوٹ تھی کہیں کہیں کورین روائتی اندار کی جھالریں لٹک رہی تھیں جن پر ہنگل زبان میں ہی کچھ لکھا تھا۔۔ سامنے بڑی سی با ہیبت مورت جیزز سے منسوب تھئ۔۔ وہ مورت اتنی بڑی تھی کی اسکے نیچے کھڑےنن اور دیگر کورس بونے لگ رہے تھے
نن انکو مسکرا کر موم بتیاں پکڑا گئی۔۔ پریر شروع ہو چکی تھی سو تمیز کا تقاضا یہی تھا قریب ترین سیٹ سنبھال لی جائے۔۔ سنتھیا اور ایڈون اسکے دائیں جانب بیٹھے تھے وہ کچھ دیر تو سننے کی کوشش کرتی رہی پھر چپکے سے سنتھیا کے کان میں بولی۔۔
مجھے لگا تھا انگلش میں پریر کریں گے ۔
مجھے بھی۔۔ سنتھیا نے دزدیدہ نظروں سے ایڈون کو دیکھ۔ا جو پوری سنجیدگی سے ہمہ تن گوش تھا۔۔
کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا۔۔ دونوں اکٹھا بولیں۔۔ اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئیں
کیا ہوا؟ اسکے ساتھ بیٹھے ہایون نے پوچھا۔۔
کچھ نہیں۔۔ اس نے ٹالنا چاہا
پریر نہیں سننی؟۔۔ اچھی نہیں لگی۔۔ وہ مزید پوچھ رہا تھا
اب ٹالنا بدتمیزی تھی سو اسکی جانب تھوڑا سا جھک کر سر گوشی کی
وہ سمجھ نہیں آرہی پریر یہی بات کر رہے تھے۔۔
ہایون مسکرایا۔۔
دھن بلا شبہ دل موہ لینے والی تھی کورس کی آواز بھی بے حد اچھی تھی۔۔
یون بن مگن سن رہا تھا۔۔ بلکہ انکے سوا تو سب ہی مگن تھے ۔۔ وہ یونہی آرائش دیکھنے لگے تبھی اس کے سامنے ایک ہتھیلی پر بلیو ٹوتھ ڈیوائس اور ایک موبائل در آیا۔۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
نے اشارے سے اسے کان میں لگانے کو کہا اس نے لگایا تو ہیونگ سک نے موبائل میں ایک ویڈیو پلے کر دی۔۔ اسئ پریر کا انگریزی ترجمہ تھا۔۔ حضرت عیسی کی زندگی اور معجزات سے لیکر انکی مشکلات کا تذکرہ بے حد خوبصورت پیرائے میں بیان کیاگیا تھا۔۔ وہ بے حد دلچسپی سے سننے لگی۔۔ ہایون اسکے چہرے پر بکھرا اشتیاق دیکھ کر مسکرا دیا۔۔ آج وہ کافی عرصے بعد آیا تھا اور آ کر مزہ آیا تھا۔۔ اریزہ بالکل مگن ہو چکی تھی۔۔ وہ سیدھا ہوا تو یون بن اسکی کرسی کے ہتھے پر کہنی ٹکائے مٹھی بنا کر چہرہ رکھے دبی دبی مسکراہٹ سے اسے دیکھ رہا تھا
اس نے کھسیا کر اسکو دھکیلا۔۔
سامنے دیکھو۔۔
پریر کے اختتام پر سب کھڑے ہوئے ایک لائین سے شمع روشن کی جاتی رہیں۔۔ دیکھنے میں جیسے روشنی کی لہر سی بن گئ تھئ انکی باری آنے پر ایڈون نے اگلی رو سے کسی سے لیکر شمع روشن کی اور اپنی شمع سے سنتھیا کی۔۔ اس نے سنتھیا سے لیکر شمع روشن روشن کی ہایون اور یون بن اسکی لو سے مستفید ہوئےسب آنکھیں بند کر کے شمع روشن کرکے دعا مانگنے لگے تھے۔۔
وہ کیا کرے دعا مانگے؟اس نے سوچا۔۔
دعا کا وقت نہیں ہوتا جگہ نہیں ہوتی کبھی بھی کہیں بھی مانگی جا سکتی ہے اس نے سوچا۔۔
اس نے شمع اپنے سامنے ڈیسک پر ٹکائی اور دونوں ہتھیلیاں پھیلا لیں
یا اللہ میرے مالک میں جہاں بھی ہوں مگر میرا مخاطب تو ہی ہے۔۔ میں چاہتی ہوں اگلی دفعہ نماز پڑھ کر ہی تجھ مخاطب ہوں۔ اللہ میاں میں نے آپ سے بنا سوچے سمجھے مانگا ہے پھر بھی آپ نے مایوس نہیں کیا۔۔ پچھلے کچھ دنوں میں بہت شکوے بھی کیے مگر اب میں جہاں ہوں جس حال میں ہوں بہت مطمئن اور خوش ہوں شکریہ اس سب کیلیے جو آپ نے مجھے دیا۔ میرا ظرف وسیع کردیں تاکہ میں اپنی ماں سے ناراضگی ختم کر سکوں انہیں معاف کر سکوں مگر میرا ابھی غصہ بہت زیادہ ہے مجھے پتہ ہے انکا مجھ پر بہت حق ہے مگر میں بھی بہت عام اور معمولی انسان ہوں۔۔مجھ پر رحم کریں۔۔
اسکے جملوں کے حساب سے تا ثرات بدل رہے تھے۔۔ ہایون نے دعا کے اختتام پر شمع بجھائی تو اس پر نظر پڑی وہ سب کے برعکس ہتھیلی پھیلائے آنکھیں بند کیے بے آواز لب ہلا رہی تھی۔۔
ایڈون اور سنتھیا کسی بات پر بحث کرتے دوسری جانب سے نکل گئے باہر۔۔ وہ اور یون بن بھی نکلنے ہی لگے تھے کہ وہ اسے دیکھ کر رک گیا۔۔ وہ گرد و پیش سے بے نیاز کھڑی تھی۔۔ اسکی موم بتی اسکے سامنے ٹکی تھی اسکی لو بلند ہو رہی تھی۔۔ تبھی ہوا کا جھونکا آیا کہ کیاموم بتی کا شعلہ بڑھا اور موم بتی توازن کھو کر اس پر گرنے ہی والی تھی اس نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر موم بتی اپنے ہاتھ پر لے لی۔۔ گرم جلتی ہوئی موم اسکی ہتھیلی پر گری اس نے تڑپ کر ہاتھ کھینچا لو تو بجھ چکی تھی مگر اسکا ہاتھ موم سے بھر گیا تھا۔۔
مجھے میری ہر لغزش اور شکوے کیلیے معاف کیجیئے گا اور پلیز میرے والدین کو پنجتن کے صدقے لمبی عمر اور صحت دیں اور ہاں صارم کو بھی پاس کر دیں ۔۔ فی الحال مجھے بس یہی چاہیے۔۔ آمین۔۔
دعا کے اختتام پر جیسے ہلکا ہو کر مسکرا کر چہرے پر ہاتھ پھیرا۔۔ مڑ کر دائیں جانب دیکھا تو سیٹ خالی سنتھیا غائب تھی۔۔ اس نے گھبرا کر بائیں دیکھا تو ہایون اسکے متوجہ ہونے کا منتظر کھڑا تھا۔۔ اسے دیکھ کر بولا۔۔
چلیں۔۔۔ ؟
اس نے سر ہلایا۔۔ یہ تینوں جب باہر نکلے تو باقی سب گھوم پھر کر جمع ہو چکے تھے انہی کا انتظار ہو رہا تھا۔۔
چلو تم لوگوں کو سیول دکھاتے ہیں۔
یون بن نے کہا تو سب پر جوش ہو گئے۔۔
مال چلیں کسی یا ہنگن ریور یا کلب ؟ کم سن پوچھ رہا تھا۔
مال کیا کریں گے ریور چلتے ہیں۔۔
اریزہ نے کہا تو ہایون نے تجویز دی۔۔
انکو ایکوریم دکھاتے ہیں۔۔ مال چلتے ہیں کسی گیم کھیل لینا۔اسکیٹ کر لینا۔۔ کراوکے کر لینا۔۔
ایکوریم کیا کرنا دیکھ ۔کر بچے تھوڑی۔۔ شاہزیب بولا
۔ ایڈون کو بھی آیڈیا پسند نہیں آیا۔۔
ریور سائیڈ چلتے ہیں بوٹنگ کریں گے۔۔ ہایون انکی غلط فہمی دور کرنے لگا تھا کہ باقی سب کو بھی ریور جانے پر تیار دیکھ کر کندھے اچکا گیا۔۔
ہنگن ریور پر دھوپ پھیلی تھی دوپہر کے وقت یہاں آنا حماقت تھی وہ یہی بتانا چاہ رہا تھا۔۔ مگر ان لوگوں کو جتنی گرمی لگ رہی تھی پاکستانی اتنے ہی پر جوش تھے۔۔
دریا کنارے ریت پھیلی تھی وہ سب وہاں اچھلتے پھر رہے تھے۔۔
ایسا نہیں لگ رہا پہلی دفعہ انہوں نے دریا دیکھا ہو؟
یون بن کم سن اور ہایون پیچھے پیچھے آرہے تھے یہ پانچوں دریا کنارے پہنچ چکے تھے۔ یون بن نے کہا تو ہایون متفق تھا۔۔
کم سن مسسکرا دیا۔۔
وہ لوگ بے نیاز ہو کر صرف تفریح کر رہے ہیں۔۔ ورنہ کیا دریا پاکستان میں نہیں ہونگے۔۔
ایڈون اور شاہ زیب دریا کے قریب ترین پتھروں پر جا کر چلو میں پانی بھر کر اچھال رہے تھے۔۔
ان میں سے کوئی لڑھکے گا ہماری دوڑیں لگ جائیں گی۔۔ ۔۔ ہایون نے کہا تو یون بن کو خیال آیا۔۔
بھاگا۔۔
سنو یہ دریا ہے اسے ہلکا مت لو گر ور مت جانا تیز دھوپ میں تو لائف گارڈ بھی اندر کہیں ہونگے۔۔ اس نے کہا تو دونوں ہنستے ہوئے اوپر آگئے۔۔
کوئی کشتی وشتی نہیں یہاں؟
اریزہ نے کہا توتینوں ادھر ادھر دیکھنے لگے کم سن نے دور کھڑی ایک فیری ڈھونڈ ہی لی۔۔
ملاح نے انہیں دیکھ کر انجن اسٹارٹ کیا۔۔ یہ سب بھاگ کر پہنچے تھے وہاں
یون۔بن نے بھائو تائو کرنا چاہا تو مڑ کر دیکھا سالک شاہزیب اور ایڈون سوار بھی ہو چکے ہیں۔۔
تم لوگوں میں اتنی انرجی کیوں ہے۔۔ وہ ہنس کر رہ گیا۔۔
کشتی میں چھے افراد بیٹھ سکتے تھے۔۔ اریزہ ابھی باہر ہی تھی۔۔ ایڈون نے سنتھیا کا ہاتھ پکڑ کر اسے چڑھایا یون بن سوار ہوا کشتی پر تو کم سن اور ہایون رضاکارانہ طور پر پیچھے ہو گئے۔۔
میرا اس تپتی دھوپ میں راوئنڈ لے کر رنگ جلانے کا کوئی ارادہ نہیں۔۔
ہایون نے صاف کہا۔۔
میں اسے کمپنی دے لیتا ہوں ۔۔ تم جائو۔۔۔
اریزہ آگے بڑھی تو مگر پھر جھجک کر رک گئ۔۔
یون بن نے ہاتھ بڑھایا مگر سنتھیا سمجھ کر آگے ہوئی۔۔ اریزہ کا ہاتھ پکڑ کر اسکا پورا وزن سہہ کر اسے سوار کروایا۔۔ یون بن نے حیرت سے ایڈون کو دیکھا جس نے انکی مدد کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔۔
یہ لوگ پانی اچھالتے رہے ایک دوسرے پر سنتھیا اریزہ ایک طرف اپنی باتوں میں لگی رہیں جھک کر منہ پر چھپاکے مار لیے۔۔
یہ لوگ گھومتے رہے کم سن اور ہایون جینز چڑھا کر بیلون ہٹ کے سائے میں ریت پر بیٹھے انہیں دیکھتے رہے۔۔
واپسی پر سب کے چہرے تمتمائے تھے مگر بے حد پر جوش تھے۔۔
یار انکو گرمی نہیں لگتی؟
ہایون حیران ہو رہا تھا۔۔
کم سن ہنسا۔۔
میں بھی یہی سوچ رہا تھا مگر یون بن کو دیکھو انکے ساتھ مزے سے انجوائے کر رہا مجھے لگتا یہ گرم جوش لوگ ہیں۔۔
ہایون نے انہیں آتے دیکھ کر کپڑے جھاڑے کم سن بھی اٹھ کھڑا ہوا۔۔ کشتی کنارے آئی تو چاروں لڑکے چھلانگ مار کر باہر۔
ایڈون۔۔ سنتھیا چیخی تو وہ ہنس کر بولا وہیں رہو۔۔ اس نے منہ بنایا تو آگر بڑھ کر اسے اتارنے میں مدد کرنے لگا۔۔
اترتے ہوئے بھی خود تو سنتھیا ایڈون کا سہارا لے کر اتری البتہ اریزہ کو خود اتارا۔۔
یون بن نے اس بار ہاتھ بڑھانے کی کوشش نہیں کی۔۔ ہایون نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔۔
سنتھیا اریزہ کیلیے ڈھال بن جاتی ہے۔۔ اس نے سوچا۔۔
چلو کچھ کھائیں بہت بھوک لگی ہے۔۔ سالک نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔
شاہزیب اور ایڈون نے بھی تائید کی۔۔
بہت بھوک لگی تو چلو پھر قریب ترین ریستوران چلتے ہیں۔۔ یون بن نے زہن کے گھوڑے دوڑائے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
یون بن انہیں روائتی کورین ریستوران لایا تھا۔۔ دور تک دو یا چار لوگوں کے بیٹھنے کیلیے چوکیاں بچھی تھیں ان سب نے دو چوکیا ں قریب کر لیں اور لائن سے زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔۔
یار یہ کتنے مزے کی جگہ ہے۔۔ اریزہ کو کافی پسند آیا تھا ایسے بیٹھنا۔۔
ہاں ۔۔ ہم مسلمانون کو توفیق نہیں سنت پر عمل کرنے کی۔۔ شاہزیب نے منہ بنایا۔۔
تم لوگ سبزیاں کھائوگے؟
یوں بن نے پوچھا تو تینوں نے سر ہلا دیا
یوں بن نے خود ہی سوچ کر آرڈر دے دیا۔۔
سوپ کیوں آرڈر کر رہے اتنی گرمی میں۔۔ ایڈون حیران ہوا۔۔
تم لوگوں کو گرمی لگتی ہے؟ہایون نے کب سے روکا سوال نکال لیا منہ سے
ہاں۔۔ مطلب؟ وہ سب با جماعت حیران ہوئے۔۔
اتنی تیز دھوپ میں بوٹنگ کر کے آرہے تب گرمی نہیں لگی۔۔ کم سن نے وضاحت کی
سچ بتائوں بڑا مزا آیا۔۔ جواب یون بن نے دیا۔۔
بالکل گرمی کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔۔
ان تینوں نے کشتی والے کے اتنا ناک میں دم کیا یون بن
کو انکی حرکت یاد آئی۔۔
ہم اردو میں بول بول کر چیختے وہ گھبرا کر پوچھتا تو ہر بار اسے کشتی میں نیا نقص بتاتے شاہزیب نے تو سوراخ ثابت کر دیا اسکی کشتی میں رونے والا ہو گیا تھا۔۔وہ۔۔ ایڈون بتاتے ہوئے ہنس رہا تھا۔۔
خالی سوکھی کشتی اس کو ثابت کر دیا کہ اسے نظر نہیں آرہا ہمارے گھٹنوں تک پانی ہے۔۔ شاہزیب کو اپنی شرارت یاد آئی۔
بہت کمینے ہو تم لوگ ۔۔ کم سن نے کہا تو کسی اعزاز کی طرح وصول کیا ان لوگوں نے۔۔
تبھی ویٹریس نے آکر کھانا سرو کرنا شروع کیا۔۔
ان تینوں نے اپنی میز اور ان پانچوں کی میز کا موازنہ کیا پھر روہانسے ہو گئے۔۔
انکی میز پر۔۔ چکن بھنا ہوا ساسجز اور بیف سے سجی میکرونی۔۔ اور سادے ابلے چاول اور اسٹیک یہ بھی شائد بیف کا تھا۔ سوپ انہوں نے چکن کا منگوایا تھا جس میں لال لوبیا اور نوڈلز بھی تیر رہے تھے۔۔
انکیلیئے
پنیر میں پکی پالک۔۔ ابلے چاول جن پر نفاست سے ابلے انڈے بچھے تھے۔۔ہری گوبھی جیسی بھی کوئی چیز تھی جو ابلی ہوئی تھی میکرونی پر سجی ہوئی۔ دو پورے آلو بیک کیے ہوئے ساتھ کوئی چٹنی۔۔
سوپ مولی کا تھا اور واقعی بس مولی کا تھا
انکو چٹخارے لے کر کھاتے دیکھا تو صبر شکر کر کے نوالا لیا۔۔
گھر میں جب بھی پالک بنی سو نخرے کیے حالانکہ میری امی پالک گوشت بناتی تھیں۔۔ کبھی شوق سے نہیں کھایا اور آج۔۔ سالک نے چاول پر پالک ڈال کر نوالہ لیا تھا۔۔
یہ میری امی کے سامنے رکھو نا تو پھوہڑ قرار دے ڈالیں شیف کو۔۔ کچی ہے پالک۔۔ شاہزیب نے دہائی دی۔۔
آلو بیکڈ ہے یہ کھا لو۔۔ اریزہ کو ہمدردی ہوئی۔۔
آج امی کے ہاتھ کا کھانا یاد آرہا ہے۔۔ کیسی نرم ملائم روٹی بناتی تھیں۔۔ سالک رونے والا تھا۔۔
میری امی گوبھی کبھی سادہ نہیں بناتی تھیں گوشت ضرور ڈالتی تھیں۔۔ شاہ زیب کی نظر ساتھ والی میز سے ہو کر پلٹ آئی۔۔
تمہیں کچھ یاد نہیں آیا کھانا دیکھ کر۔۔ دونوں نے حیرانگی سے پوچھا۔۔
ہاہ۔۔ اریزہ نے ابلا انڈہ آلو چاول میں مکس کیا تھوڑی پالک بھی رکھی ہوئی تھی چٹنی بھی ڈال لی۔۔ اس کو منہ میں رکھا تو دونوں جواب کے منتظر چہرہ دیکھ رہے تھے۔۔
آیا نا یاد۔۔ اس نے نوالہ چبایا۔۔پھر نگلنے لگی
ایک بار میں نے تحری بنائی۔۔چاول ذیادہ تھے مصالحہ بالکل کم۔۔ ایکدم پھیکے بنے۔۔ امی نے لہسن کی خوب مرچیں ڈال کر چٹنی بنائی۔۔ میں نے چاولوں پر خوب چٹنی ڈالی سرخ کر لیے۔۔
وہ رکی۔۔ دونوں ہمہ تن گوش تھے۔۔
تب جو ذائقہ بنا تھا وہ اس سے بہتر تھا۔۔
اس نے منہ بسور کر کہا تو ان دونوں نے بھی منہ لٹکا کر اسے دیکھا۔۔ پھر تینوں قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔۔
ا نکو لگ رہا ہے کورین کھانا کافی پسند آیا۔۔
انکی ہنسی سے چونک کر یون بن نے خیال ظاہر کیا۔۔ ایڈون اور سنتھیا دبی دبی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔۔ ہایون انکے ذوق و شوق سے نوش فرمانے کو نوٹ کر رہا تھا مجال ہے جو کھانے کی مقدار میں کمی آئی ہو۔۔
اس شام گھومتے گھامتے ہاسٹل واپسی تک ان سب میں دوستی ہو گئ تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسٹل آکر نہا دھو کر اس نے سارے دن کی قضا نمازیں پڑھنے کی نیت باندھ لی۔ سنتھیا کچھ دیر تو اسکے فارغ ہونے کا۔انتظار کر۔تی رہی پھر سوچا کپڑے بہت جمع ہوگئے سنا تھا کہ۔لانڈری روم بھی ہے یہاں۔اسی کا۔پتہ کرلے۔
میں ذرا لانڈری روم کا پتہ کرلوں پھر کپڑے دھونے چلیں گے اکٹھے۔
نماز پڑھتئ اریزہ کو بتاتئ وہ احتیاط سے دروازہ بند کرکے باہر ڈو نوٹ ڈسٹرب کا نوٹ لگاتی نیچے چلی آئئ۔ اوپر سے قطار سے کمرے تھے نیچےلابی میں دائیں جانب کمرے تھے بائیں جانب کچن تھا اسکے برابر میں دو تین دروازے اور کھلتے تھے اسکا یہی اندازہ تھا کہ ان میں سے کوئی لانڈری روم ہوگا۔
اس نے کچن کے برابر والے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا۔وہ۔لاکڈ تھا۔ اسکے برابر والے کمرے میں ایک لڑکی دو تین جوڑے ہاتھ میں پکڑے داخل ہوئی۔تو وہ شاداں و فرحاں اسکی تقلید میں کمرے میں داخل۔ہوگئ۔
کمرہ مچھلی بازار بنا ہوا تھا۔ دیو ہیکل بڑی بڑی مشینیں تھیں ایک۔جانب دھونے والے کپڑوں کی مشینوں کے سامنے لڑکیوں کا جمگھٹا تھا دوسری جانب کپڑے سکھانے والی مشنیوں کے آگے بھی یہی حال تھا۔
وہ سب لڑکیاں خوب زور و شور سے باتیں کر رہی تھیں۔ اسے تو کسی نے دیکھا تک نہیں۔ وہ۔خود ہی آگے بڑھ کر لڑکیوں کو مشین استعمال کرتے دیکھنے لگی۔
ہنگل بولتئ چندی آنکھوں والی لڑکیوں نے استعجاب اور کچھ کچھ ناگواری سے اسے یہاں معائنہ کرتے دیکھا مگر بولیں نہیں۔
آپکے پاس چینج ہوگی ؟
ایک چندی آنکھوں والی لڑکی ہنگل میں پوچھ رہی تھی۔
میں سمجھی نہیں آپ کیا کہہ رہی ہیں۔۔
جوابا اس نے گہری سانس لیکر مدعا دہرایا۔
اسکے پاس پیسے تو تھے ریزگاری بھی مگر کمرے میں۔
جی مگر کمرے میں۔ آپ چلیں میرے ساتھ میں دے دیتی ہوں۔
اس نے شائستگئ سے کہا جوابا اس نے ناک چڑھائی
جائو۔لا۔کے دو۔ ۔۔۔۔
اتنی بےتکلفی۔ اس نے کندھے اچکا کر باہر کی جانب قدم بڑھا لیئے۔ آج تو یقینا باری نہیں آنے والی وہ اور اریزہ کل پرسوں کبھی آکر یہاں کپڑے دھو لیں گئ۔
وہ ارادہ باندھتی اوپرچلی آئی۔ اریزہ کی نماز جاری تھی۔وہ والٹ سے ریزگاری نکال کر پلٹی۔۔۔۔ چند سکوں کو مشین میں ڈالنے سے مشین استعمال کی جاتی تھی۔ وہ کمرہ بند کرتی باہر نکلی لمبی لابی میں وہی لڑکی بالکل سامنے تھی۔
اس کو جھٹکا سا لگا۔
اس لڑکی نے حیرت سے اسکی حیرانی کو دیکھا پھرسر جھٹک کر سیڑھیوں کی۔جانب بڑھ گئ۔۔
سنیں ۔ اس نے پکارا۔
جوابا وہ سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی
یہ۔لیں۔ اس نے پیسے والا ہاتھ بڑھایا ۔۔
اس لڑکی کے چہرے پر پہلے حیرانی نے ڈیرے ڈالے پھر ناگواری سے اسکا بڑھایا ہوا ہاتھ دیکھنے لگی
ویو؟ کیوں ؟
ویو اسے یہی لگا کہ۔واٹ کہا ہے ۔
ابھی تو مانگ رہی تھیں پیسے۔مجھ سے وہی تو دے رہی ہوں
سنتھیا کو حیرانی ہوئی۔
میں نے کب مانگےہیں پیسے اور کیوں مانگوں گی پیسے تم سے۔۔۔۔ رواں انگلش سے ہنگل پر فورا اتری
۔ بچھی سا۔( پاگل)
وہ۔لڑکی گھور کر بڑبڑاتی سیڑھیاں اتر گئ۔
ہیں۔ اسکو حیرانی ہوئئ ۔۔ انداز اسکا ایسا تھا کہ جیسے گالی دے کر گئ ہو۔ کندھے اچکا کر پیسے اپر کی جیب میں ڈالےواپس ڈورم میں جانے لگی کہ تبھئ سیڑھیوں پر قدموں کی آہٹ ہوئی اس نے نیچے جھانکا وہی لڑکی پھولی سانسوں کے ساتھ بھاگتی اوپر آرہی تھی۔ اسے سیڑھیوں کے سرے پر کھڑے دیکھا تو آنکھوں میں شناسائی کی رمق جاگئ
غیر۔ملکی۔ لے لیئے پیسے؟
وہ بے تکلفی سے آدھی سیڑھیوں پر کھڑی پوچھ رہی تھی۔
اس نے میکا نیکی انداز میں جیب سے سکے نکالے چند قدم اتر کر اسے تھمائے۔
گوموویو۔ پتہ ہے اتنی مشکل سے مشین کی۔باری آئی ہے میری میرے پاس ڈورم تک۔جانے کا بھی وقت نہیں۔۔
وہ خوش ہوکر واپس دوڑی۔
سنتھیا نے تھوک نگلا۔
اس لڑکی نے دوسرے رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔ وہ دوسری ہی لڑکی تھی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ان گندے بدبو ذدہ لوگوں کو چرچ لیکر گئے گھسنے کیسے دیا انہوں نے؟
گوارا نے آنکھیں پھاڑیں۔ براہ راست اگلی رو میں بیٹھے ان پانچوں کو دیکھتے خاصا با آواز بلند ہنگل میں کہا تھا۔
یون بن سٹپٹا کر ارد گرد دیکھنے لگا۔ سب طلباء اپنی اپنی نشستوں پر براجمان ہو رہے تھے۔کوئی متوجہ نہیں تھا انکی جانب۔
کیا بک رہی ہو۔ اس نے آنکھیں نکالیں۔
صحیح کہہ رہی ہوں۔یہ دونوں جی ہائے کے سامنےوالے ڈورم میں رہتی ہیں پہلے دن انکو میں وہاں لیکر گئ تھی۔اتنی بو آرہی تھی انکے پاس سے اور تو اور امریکیوں کی طرح کمرے میں داخل ہوتی چلی گئیں جوتے بھی نہیں بدلے۔
گوارا نے باالتفصیل بتایا۔
سوائے شمالی ایشیا کے ممالک کے اور کسی ملک کے باسیوں کو جوتے اتار کر گھر میں پھرنے کی عادت نہیں ہوتی اس سے آپ باقی دنیا کو گندا نہیں کہہ سکتے آپ لوگ بھی کچھ کے نزدیک گندے اور بدبو دار سمجھے جاتے ہوں گے۔۔۔
ان سے اگلی رو میں بیٹھے پریم سنگھ نے خاصے ناراضگی بھرے انداز میں ہنگل میں جواب دیا تھا۔
ہائش۔۔۔۔۔ گوارا نےمنہ بنایا
ایک تو انڈینز ہر جگہ انڈینز کی حمایت میں لڑنےکو تیار رہتے ہیں۔
اسکی بات پر پریم سنگھ نے ترچھی نگاہ ڈالی مگر بولا۔کچھ نہیں۔
تم مجھے پکا پٹوائو گی۔
یون بن ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ ہایون ابھی داخل ہوا تھا سیدھا اسکی شکل دیکھ کر اسکے پاس چلا آیاتھا۔۔
جی ہائے نہیں کلاس لے گی آج ؟
ہایون نے یونہی پوچھا تھا۔
جی ہائے ریہرسل کر رہی ہے آج کلاس نہیں لے گی۔
گوارا کی بجائے یون بن نے جواب دیا تھاگوارا غور سے ان پانچوں کو۔دیکھ رہی تھی۔ ٹہوکا۔دے کر یون بن کو متوجہ کیا
یہ لڑکی پہنتی کیا ہے۔ سر پرتو نہیں لیاہوتا اس نے ایویں اتنالمبا پردہ گلے میں ڈالے پھرتی ہے۔ اس دن اسکے پیچھے بیٹھی تھی میں۔ اسے اپنی شرارت یاد آئئ۔
نے اسکے دونوں سرے کرسی سے باندھ دیئے تھے۔
وہ اسکے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسی۔
تم پر مجھے شک تو ہوا تھا کوئی اندازہ ہے اسکو کتنی بری طرح جھٹکا آیا تھا اسکی گردن چھل بھی گئ تھی۔ وہ پردہ سر پر لے یا ہاتھ میں پکڑ کر چلے تمہیں کیا۔
ہایون کو جانے کیوں ایکدم سے غصہ آیا تھا۔ وہ اونچی آواز میں گرجتا نہیں تھا مگر اسکی دھیمی آواز بھی درشت تھی چہرے پر غصے۔کی سرخی بھی۔
کیا ہوگیا ہایون۔ یون بن نے اسکا ہاتھ پکڑا۔
ہلکی سی گرہ۔لگائی تھی ۔۔ گوارا کو یقین نہ آیا
اور ایسے کپڑے پہنتی کیوں ہے جنہیں سنبھال نہیں سکتی۔
اس نے ڈھیٹ بن کے دفاع کیا۔
وہ جو بھی کرے تمہیں ایسی شرارت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔
ہایون کا مئوقف واضح تھا۔
تم کیوں اتنا بھڑک رہے ہو۔ ایک دن ساتھ بیٹھ کر اسے گرل فریںڈ تو نہیں سمجھنے لگے۔
اسکا انداز استہزائیہ تھا
وہ جھٹکے سے اپنا بیگ اٹھاتا کھڑا ہوا تھا۔۔
کیا ہو گیا ہے ۔۔ یون بن کو سمجھ نہ آیا ان کا غصہ کیسے ٹھنڈا کرائے۔ تبھی سر کلاس میں داخل۔ہوئے۔۔
ہایون نے مزید بحث نہ کی آگلی دو رو چھوڑ کر سب سے آگے جا بیٹھا سداکو کے پاس۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بھی ملک جس میں سیا سی استحکام نہ ہو چل نہیں سکتا۔
یہ میں بہت زمہ داری سے کہہ رہا ہوں۔
جس ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہوگا حکومت کی رٹ قائم نہیں ہوگی وہاں امن نہیں ہوگا وہاں معاشی استحکام نہیں ہوگا کوئی بھی ایسی جگہ سرمایہ نہیں لگاتا جہاں اسکو یہ خوف ہو کہ اس کی سرمایہ کاری کبھی بھی کسی سیاسی سازش کا شکار ہو سکتی ہے۔۔
سر جا ن کہہ رہے تھے۔۔
آپ کسی بھی ترقی پزیر ملک کی مثال لے لیں آپ کو وہاں سب سے پہلا مسلئہ جو دکھائی دےگا وہ سیاسی عدم استحکام ہوگا۔۔
پھر آپ اب دنیا سے الگ رہ کر اپنا ملک نہیں چلا سکتے۔۔
سر شمالی کوریا کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
ایک طالب علم نے پوچھا تو سر نے الٹا اس سے سوال کر دیا۔۔
آپ شمالی کوریا کو کیسے دیکھتے ؟
وہاں سیاسی عدم استحکام نہیں ہے۔۔ مگر مجھے لگتا ہے ریاست اپنا وجود کھو رہی ہے۔۔
وہ جاپانی تھا بے لاگ تبصرہ کیا۔۔
سر مسکرائے انہیں اسکا جواب پسند آیا تھا۔
آپ کیسے دیکھتی ہیں شمالی کوریا کو؟
سر نے سب سے اگلی رو مین بیٹھی اریزہ کو مخاطب کیا۔۔
میں ۔۔ وہ یکدم کنفیوز ہوگئ۔۔
میں شمالی کوریا کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔۔
سر اسکا جواب سن کر بھی اسے ہی دیکھتے رہے تو اسکا چہرہ سرخ ہونے لگا۔۔
اس نے یونہی دوپٹہ کندھوں پر صحیح کر ڈالا۔۔
آپ کس ملک سے ہیں؟
سر نے اس سے پوچھا۔۔
پاکستان ۔۔ اس نے سنبھل کر جواب دیا۔۔
آپ جانتی ہیں پاکستان کے شمالی کوریا سے بے حد اچھے تعلقات ہیں بلکہ یہ بھی الزام لگا ہے ان دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو نیوکلیئر پاور بنانے میں مدد کی ہے؟
جی۔۔ اس کے فرشتوں کو خبر نہیں تھی۔۔
اس نے ہلکے سے نفی میں سر ہلایا۔۔ وہ مسکرائے۔
پاکستان کے بارے میں آپ لوگ جا نتے ہیں کیسا ملک ہے۔۔
سیاسی عدم استحکام کا شکار نیوکلیئر پاور۔
ایک مکمل دھمکی ہے عالمی امن کیلیے۔
اسکے تین اطراف جو ممالک ہیں ان سے اسکے تعلقات اچھے نہیں
صرف چین سے انکے اچھے تعلقات ہیں جسکی وجہ چین کی اندھا دھند پاکستان میں سرمایہ کاری ہے۔۔
ان پانچوں نے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا۔۔تو سر خالص ریسسٹ نکلے
بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی۔۔
آپکا نام کیا ہے۔۔
سر کو نہ جانے آج کیوں اس میں دلچسپی ہو رہی تھی۔۔
اریزہ ۔۔ اس کا انداز اب کھردرا تھا۔۔
اریزہ ۔۔ یہ ایسے ملک سے آئی ہیں جسکی باون فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے مگر یہ آبادی ملک کی ترقی میں حصہ نہیں لیتی کیونکہ ان پر تعلیم کے دروازے بند ہیں اگر تعلیم حاصل کر بھی لیں تو انکا معاشرہ انکو کمانے اپنے پیروں ہر کھڑے ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔۔
مین صحیح کہہ رہا ہوں نا اریزہ۔۔
وہ پوچھ رہے تھے۔۔
اریزہ نے جواب نہیں دیا۔۔
تو سر یہ یہاں پڑھنے ہی آئی ہے۔۔ ایڈون چپ نہ رہ سکا۔۔
بلکہ اس فیکلٹی میں جن پانچ اسٹوڈنٹس کو ان رول کیا گیا ہے ان میں دو لڑکیاں ہی ہیں اور اگر مزید اسکالرشپس ہوتیں تو مزید لڑکیاں بھی آپ کو یہاں نظر آتیں۔
سر بجائے چڑنے کے بہت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے اسے۔۔
آپ کو انگریزی بہت اچھی آتی ہے کیا وجہ ہے۔۔؟
سر ہم کنڈرگارٹن سے انگریزی سیکھتے ہیں۔۔ اسکو اس سوال کی وجہ سمجھ نہ آئی۔۔
کیوں ؟
انکا سوال اہم تھا۔۔
سرکاری زبان ہے سر اسکے زریعے ہی ہم ایک دوسرے سے رابطہ کرتے۔۔
اس بار سالک نے جواب دیا تھا۔۔
میں پانچ سال پاکستان میں رہا ہوں۔۔ سر نے بات بدل دی۔۔
میں وہاں مترجم کے فرائض ادا کرتا تھا ایک ادارے میں کچھ عرصہ پڑھایا بھی ہے میں نے اور اس ادارے کو اس ادارے سے وابستہ کرنے کی اور آپکے اس ایکسچینج پروگرام کی سفارش میں میرا کافی کردار رہا ہے۔۔ ہمیں پانچ میل اسٹوڈنٹس کی پروفائل بھیجی گئ تھی۔
اور ہم نے شرط رکھی تھی کم از کم دو لڑکیاں بھی یونیورسٹی اعلی تعلیم کیلیے یہاں بھیجے گی تب ہی اس پروگرام کو آگے بڑھایا جائے گا۔۔
وہ پانچوں چپ سے ہو گئے
اریزہ آپ کا نام یہاں سے تجویز کیا گیا تھا آپ جانتی ہیں ؟
اریزہ نے چونک کر سر اٹھایا۔۔
پینتیس ممالک کے درمیان ہونے والے تحقیقی مقالے لکھنے کے مقابلے میں آپ کا نمبر ساتواں تھا۔۔ ہے نا
سر اس سے پوچھ رہے تھے۔۔
اس نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا
سر نہ جانے کیا چاہ رہے تھے۔۔
میں آپکو یہاں بھی اپنے آپ کو منواتے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ کیا آپ سے میں امید رکھ سکتا ہوں۔
اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا پوری کلاس اسکی جانب متوجہ تھی۔۔
جی۔۔ اس نے یس نہیں کہا تھا۔۔
مگر سر کو جواب مل گیا تھا۔۔
سو آرام سے کلاس کی جانب متوجہ ہوئے۔۔
جلد ہی یونیورسٹی کی سالانہ تقریبات کا آغاز ہو رہا ہے ڈرامہ میوزک ڈانس اسپورٹس وغیرہ اس کلاس سے مجھے میکسیمم پارٹیسپیشن چاہیئے
کیونکہ میں منتظمین میں سے ہوں سو میں پرجوش بھی بہت ہوں۔۔ آپ سب تیار ہیں؟
ییس سر ۔۔۔۔ سب نے کورس میں جواب دیا تھا۔ گوارا نے بہت غور سے اس گوری سی لڑکی کو دیکھا تھا جس کا رنگ اسکے دوپٹے سے میل کھا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ذرا کچھ چیزیں لینے جا رہے ہیں تم لوگ ڈیپارٹمنٹ سے باہر نہ جانا۔ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ایڈون کی ہدایت پر سنتھیا تابعداری سے سر ہلا رہی تھی۔اریزہ کو اسکی تابعداری بالکل اچھی نہ لگی۔ فورا ٹوکا
چھوٹی بچی تھوڑی ہے گوارا ۔ ہم۔۔
میں نے تم دونوں کو کہا ہے۔ ایڈون نے جتایا۔ اسکا منہ کھلا رہ گیا۔
ایڈون سالک شاہزیب تینوں اکٹھے ہی کہیں جا رہے تھے۔ انکے جانے کے بعد خاصی بد مزا سی ہوکر بولی
یہ ایڈون خود کو تمہارا ابا سمجھنے نہیں لگا ہے؟
تمہارا مطلب مجھے اپنی ذمہ داری سمجھنے لگا ہے۔
سنتھیا کھلکھلائی۔ خود تو ٹاپ اور جینز میں تھی اسی کے دوپٹے کا کونا مروڑ کر دانتوں میں بھی داب لیا۔
اس نے بھنا کر دوپٹہ کھینچا۔
تمہارے جیسی لڑکیوں کی وجہ سے میرے جیسی لڑکیوں کے سر پر شادی تلوار بن کے لٹکتی رہتی ہے۔
اریزہ کے کہنے پر بھی وہ ڈھیٹ بنی مسکراتی رہی۔
مجھے ساجن کے گھر جانا ہے ۔۔
اس نے تان بلند کی۔ پھراسے کندھا مار۔کر لہک لہک کر گانے لگی۔ اریزہ دانت کچکچا رہی تھی جب پریم سنگھ نے پاس آکر ہلکا سا کھنکار کر متوجہ کیا۔ پھر شستہ انگریزی میں بولا
ہیلو ۔ میں پریم سنگھ ہوں ۔۔۔
سنتھیا ایکدم سنجیدہ ہوئی اریزہ بھی سنبھل کر سیدھی ہوگئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار ان سب کی شکلیں کچھ ذیادہ نہیں ملتیں۔
سنتھیا نے آنکھیں خوب کھول کھول کر ڈیپارٹمنٹ کی روش پر چلتے اپنےگرد و نواح کو گھورا۔
ہماری شکلیں شائد ان سب سے کچھ ذیادہ ہی الگ ہیں۔جبھی سب گھو ر رہے ہیں
اریزہ سٹپٹائی۔ درختوں کے سائے میں بیٹھے طلباء ڈیپارٹمنٹ کے شیڈز میں آڑ لیئے کھڑے طلباء اور تو اور روش پر چلتے اکا دکا طلباء بھئ انکو گھور کر۔دیکھتے جا رہے تھے
۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کونسی مخلوق ہے ؟ دور روش پر چلتی ان دو اجنبی شکلوں اور عجیب سے حلیئے والی لڑکیوں کو دیکھ کر گوارا ہنسئ۔
چھبیس ڈگری میں بیچ روش پر دھوپ میں خراماں خراماں چل رہی ہیں۔۔۔ ان دو احمقوں کے علاوہ جو بھی دھوپ سے گزر رہا ہے اس نے کم از کم بھی کیپ پہن رکھی ہے تاکہ دھوپ رنگ نہ جھلسائے۔
کوئی حیرت نہیں انکے پاس سے بو آتی ہے۔ انکو یقینا پسینے چھوٹ رہے ہوں گے۔
گوارا جیسے اہم راز پاگئ۔ یون بن نے ناپسندیدگی سے دیکھا
تم کیا بار بار بو آرہی ہے کہہ رہی ہو۔ میں ان پاکستانی لڑکوں کے ساتھ روم شئیر کر رہا ہوں ایسا کچھ نہیں ہے
یون بن کے کہنے پر گوارا حیرت سے گھومئ اسکی جانب۔
مانا ہم بین القوامی یونیورسٹی کے طلباء ہیں مگر انکو بین القوامئ طلباء کا ڈورم تو الگ رکھنا چاہیئے تھا کم از کم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے کیا کہتا ہے۔ اچھا لڑکا ہے اوپر سے ہم سے گھلنے ملنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
شاہزیب نے سالک کے اعتراض پر ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
بس وہ یہ غیر مسلم پاکی ناپاکی کا خیال نہیں رکھتے نا۔ میں کمرے میں نماز کیسے پڑھوں گا۔ سالک نے دھیرے سے کہا۔
شاہزیب اسے دیکھ کر رہ گیا۔ اب اسکے لئے کمرہ خالی کروانا تو ممکن نہ تھا۔۔۔ وہ لوگ پر ہجوم گنگم اسٹریٹ میں پھر رہے تھے جس کے بارے میں مشہور تھا سوئی سے ہاتھی تک ملتا ہے۔ واقعی ایک ٹھیلے پر ہاتھی مل رہا تھا۔
ایڈون مزے سے اس اسٹفڈ ہاتھی کو گھما گھما کر دیکھ رہا تھا۔
اب یہ نہ کہنا کہ سنتھیا کو ہاتھی گفٹ کرنے لگے ہو۔
شاہزیب نے پیچھے سے کندھے پر ہاتھ مار کر اسے چونکایا۔
یہ سالک کیلئے لیا ہے میں نے۔ ایڈون نے کہا تو سالک حیران رہ گیا۔
میرے لیئے کیوں؟
یہ دکھا کربرتنوں والے کو سمجھائوں گا کیسا برتن چاہیئے۔
ایڈون نے بے حد سنجیدگی سے کہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکاندار نے چار کپ چائے بنانے والی ایک مناسب سائز کی کیتلی سامنے لا رکھی۔
سالک شاہزیب کا منہ کھلا رہ گیا اور ایڈون نے بڑے پیار سے برتنوں کے نمائشئ ڈھیر کے درمیان شان سے بیٹھے ہاتھی کو پیار سے دیکھا۔
یہ ٹھیک ہے؟
اسٹیل کی گول پیندے والی اس کیتلی کا وزن کافی تھا۔ شاہزیب نے نہایت ماہرانہ انداز سے اسے گول گول گھما کر دیکھا۔
اس میں پانی کم آئے گا۔ اس سے بڑی ملے گی ؟
دے۔چندی آنکھوں والا وہ چاق و چوبند بوڑھا شخص واپس مڑ گیا دکان میں ادھر سے ادھر برتن پٹختے وہ نسبتا بڑی کیتلی ڈھونڈ رہا تھا۔
اس کیتلی کا پیندا بڑا ہونا چاہیئے۔
یہ بات ہنگل میں اسے بتاتو سکتے نہیں تھے۔ کیتلی پر ہاتھ پھیر پھیر کر زو رزور سے بگ کہہ رہا تھا سالک۔
آراتا آراسو۔
بوڑھا شخص سر۔ہلا رہا تھا۔
سالک مطمئن ہوا اب یقینا انکو مل ہی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اور سنتھیا کیفے جارہی تھیں جب گوارا نے انہیں آواز دے کر روکا۔
وہ بجری کی روش کے کنارے درخت کے نیچے بیٹھی تھی۔
یون بن نے حیرت سے اسے دیکھا کیوں روکا۔۔ وہ دونوں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔
وہ دونوں کافی فاصلے پر تھیں سو رک گئیں مگر انکا چلنے کا ارادہ نہ دیکھ کر وہ منہ بناتی اٹھی ہاشسس۔
اس نے ہاتھ میں پکڑا ڈرنک یون بن کے برابر میں بنچ پر رکھا اور تیز تیز قدم اٹھاتی انکے پاس چلی آئی۔۔
چند لمحے اریزہ کو گھورتی رہی۔ سنتھیا نوٹ کرکے آستین چڑھا ہی رہی تھئ کہ مزاج درست کرے تو وہ بولی
یہ جی ہائے کو دے دینا رات بارہ کے بعد ۔۔ اور اس سے کہنا میں اس ویک اینڈ پر ہی آئوں گی۔۔
اس نے جلدی میں ہی حکم دینے والے انداز میں کہہ کر ایک چھوٹا سا پیکٹ اسے تھمایا۔۔اور اسی تیزی سے واپس پلٹ گئ۔۔
ایکسکیوز می۔۔ سنتھیا کو اسکا انداز کھلا۔۔ اوہ ہیلو۔۔ اس نے روکنا چاہا مگر گوارا قصدا نظر انداز کر گئ۔۔
ارے۔۔ اسکا اندازدیکھو بات کرنے کا ہم اسکے باپ کے نوکر ہیں۔۔
سنتھیا بری طرح تپ گئ۔۔ اریزہ بھی حیران ہاتھ میں گفٹ پکڑے الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔۔
اور ہم جی۔ہائے کو کہاں دیکھیں گے ؟ہمیں کیا پتہ کون ہے جی ہائے سب تو ایک شکل کی ہیں پھینکو اسے یہاں پر اور چلو۔۔
سنتھیا نے کہا تو اریزہ جو گفٹ کو دیکھ رہی تھی چونکی۔۔
گفٹ کے اوپر چھوٹا سا کارڈ لگا تھا جس میں پیارا سا ٹیڈی بیئر ہیپی برتھ ڈے کہہ رہا تھا۔۔ اندر کچھ اور زبان میں لکھا تھا۔۔
نہیں یار یہ گفٹ ہے اور بھاری بھی ہے ۔اس نے دھیرے سے ہلایا۔۔
گوارا اور یون بن دور بیٹھے خوش گپیوں میں مگن تھے۔۔
ٹوٹ جائے گا۔۔ وہیں جا کر اسے دیتے ہیں کہ خود جیسے مرضی دے کر آئے۔۔
ایک تو اریزہ بندہ اتنا با مروت بھی نہ ہو۔۔ سنتبھیا کو غصہ آگیا۔۔
اس کا انداز دیکھا تھا مجھے پکڑاتی تو یہ گفٹ اسکی کھوپڑی پر ہی بجا دیتی ۔۔ اور تم نے تھاما ہی کیوں
یار مجھے کیا پتہ تھا ایک تو انگریزی بھی ایسے بولتی ہے کہ دماغ چکرا جاتا ہے جتنی دیر میں دماغ نے ترجمہ کیا بات سمجھی یہ آفت کی طرح آ کر یہ یہ جا وہ جا۔۔ اس نے ہاتھ سے یہ جا وہ جا کااشارہ کرتے ہوئے ہاتھ اونچا کیا تو اسی بنچ پر نظر پڑی جس پر یون بن اور گوارا بیٹھے تھے۔۔ وہ بنچ خالی تھا اب۔۔
یہ کہاں گئے۔۔ وہ پریشان ہوئی۔۔
سنتھیا نے پلٹ کر دیکھا پھر دانت کچکچانے لگی
اب بھگتو ۔۔ ڈھونڈو اس چڑیل کو یا پھر اسکی وہ کے جی کو۔۔
حد ہے یار۔۔
کے جی نہیں جی ہائے۔۔
اریزہ کو نام یاد تھا۔۔
تمہیں پتہ ہے کونسی ہائے جی ۔۔ ہے ؟
سب تو ایک جیسی لگتی ہیں۔۔ پتہ ہے رات کو میرے ساتھ کیا ہوا اس نے سب بپتا کہہ سنائی
ہاہاہہاہاہہاہ اریزہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہونے لگی۔۔
یہ تو اخیر حد ہے بھئی۔۔ ہا ہا ہا۔۔تم لڑکی کی شکل مکس کر گئں میں کہاں تھی؟
سنتھیا کو اسکے ہنسنے پر غصہ آرہا تھا۔۔
تم نماز پڑھ رہی تھیں رات کو جب ۔۔
ویسے کچھ زیادہ لمبی نماز نہیں تھی میں باہر ٹہلتی رہی نئی دوست بنا لی جب واپس آئی تب بھی تم تسبیح پڑھ رہی تھیں۔۔
خیر ہے؟
ہاں یار۔ اس نے گہری سانس لی۔۔ صبح ٹائم نہیں ہوتا رات کو ہی فریش ہو جاتے ہیں روز تو مین نے سوچا باتھ روم کا تو یہاں مسلئہ رہنے والا ہے سو رات کو نہا دھو کے آرام سے پورے دن کی قضا پڑھ لیتی ہوں نہ پڑھنے سے تو بہتر ہے۔۔ پھر معافی بھی مانگ لیتی ہوں خدا سے۔۔
سنتھیا نے کندھے اچکا دیئے۔۔ اچھا یہ بتائو یہ حے جی کو کہاں ڈھونڈو گی؟
اریزہ کے زہن میں جھماکا ہوا۔۔
گوارا کیساتھ ایک ہی لڑکی کو دیکھا تھا آج تک اس نے۔وہی بسکٹ والی لڑکی۔۔ میرا نام جی ہائے ہے تمہارا؟
وہ مسکرا کر پوچھ رہی تھی۔
وہ ہماری پڑوسن ہے۔ اریزہ نے بتایا تو سنتھیا بھی چونکی۔۔
وہ جمناسٹک والی۔۔
اریزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہائے کا کمرہ لاکڈ تھا
پاس سے گزرتی لڑکی نے انھہیں کھڑے دیکھا تو بتا یا۔۔
اسکی کل برتھ ڈے ہے وہ بازار گئ ہے چیزیں لینے۔۔
وہ کہتی اپنے کمرے میں گھس گئ
یہ دونوں پلٹ کر اپنے کمرے میں آگیئں
یار لانڈری نہ کریں کل ؟
کافی کپڑے ہوگئے ہیں۔۔
کل نہیں آج ۔۔ اریزہ نے جتایا۔۔ کہان ہیں تمہارے کپڑے ۔۔ اس نے پوچھا
سنتھیا آرام سے الماری میں گھس گئ۔ وہ سمجھی کپڑے نکالے گی سو منتظر تھی۔۔ ا س نے ذخیرہ کیے کھانے پہنے کے سامان سے بسکٹس نکال لیئے۔۔
وہ کافی کھانے پینے کی عادی تھی۔۔
کتنا کھاتی ہو جاتا کہاں ہے۔۔ اریزہ رشک سے بولی۔۔
دبلی پتلی نازک سی ایک وہ تھی ہمیشہ صحتمند لگتی چاہے فاقہ کرتی پھرے۔۔
یار میں موٹی نہیں ہوتی۔۔
وہ لاپرواہ تھی۔۔
مزے سے کھاتی بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئ۔۔
اریزہ دھونے والے کپڑے الگ کرنے لگی۔۔
سنتھیا نے پیر پھیلائے
میرے سارے میلے کپڑے ادھر کرسی پر پڑے ہیں
اریزہ سر جھٹکتی اٹھی اسکے کپڑے بھی اٹھالیے۔۔
چلو۔۔ ۔۔
ہاں آرہی ہوں ۔۔ یہ کھا لوں۔۔ تم جائو میں آرہی ہوں
اسکا ارادہ پیکٹ ختم کرنے کا تھا
اریزہ کمرے سے نکلی تو آرام سے فون اٹھا لیا۔۔
کہاں ہو؟
اس نے ٹائپ کرکے بھیجا۔۔
چند لمحوں میں جواب آیا۔۔
آپکے دل میں۔۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لانڈری روم کہاں تھا یہ تو اسے سنتھیا نے بتا دیا تھا مگر اس دیو ہیکل مشین کو جس پر ہدایات بھی ہنگل میں تھیں وہ گھورے جا رہی تھی۔
آپ دنیا کا بس وہی کام نہیں کرتے جس کو آپکو کبھی کرنا نہ پڑا ہو۔
اس نے مشین کی تصویر اتاری بلاگ پر لگا دی اس عنوان کے ساتھ۔۔
کوئی ہے جو مجھے اس مشین کو چلانا سکھا دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کمنٹ
میرے خاندان میں کسی نے ایسی مشین نہیں دیکھی۔
دوسرا کمنٹ
یہ تو چارہ کاٹنے والی مشین ہے ایڈمن۔
تیسرا کمنٹ
میری خواہش ہے آپ سب ایک بار ضرور میرا چینل وزٹ کریں ہم روزانہ کی۔بنیاد پر اقوال و شعر و شاعری ساجد خان کی سحر انگیز آواز میں اپلوڈ کرتے ہیں۔ لائک فار لائک کمنٹ فار کمنٹ۔۔۔ فالو فار فالو
چوتھا کمنٹ۔
یہ کیا کوئی اسپیس اسٹیشن ہے؟
پانچواں کمنٹ۔
ایک عدد لنک۔ نام بھی کوئی عجیب سا۔
اس نے لنک کھول لیا۔۔
اس مشین کو استعمال کرنے کا طریقہ ہی کسی نے اپلوڈ کر رکھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ہیں Lotte world میں ۔یہ ہے سیول کے بڑے ترین انڈر گرائونڈ مالز میں سے ایک۔۔۔ یہ ایکیوریم دنیا بھر میں مشہور ہے۔۔۔۔ ایکیوریم کے داخلی حصے پر یون بن کسی ماہر گائیڈ کی طرح بتا رہا تھا۔
کوئی انڈین ریستوران ہے یہاں۔۔ سالک کو بھوک لگی تھی۔۔
ہاں۔۔ یہاں سب ہے۔۔مگر باہر۔
کم سن نے ہنس کر کہا۔
کم سن اور شاہزیب روم میٹ تھے سالک ایڈون اوریون بن سو اکٹھے ہی پرگرام بنا کر نکلے تھے۔۔
مگر سنگل اس طرف جائیں اور کپلز اس طرف۔۔
وہ مال کے بیچ میں کھڑا اشارے کر رہا تھا دائیں اور بائیں
ان چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔
مطلب؟
مطلب تم لوگ ادھر جائو میں ادھر چلا۔ادھر دنیا کے سب نایاب پانی کے جاندار موجود ہیں۔ دیکھو انجوائے کرو۔
کم سن نے اسے بازو سے پکڑ کر روکا۔۔
میں گوارا کو رومینٹک کامیڈی فلم دکھانے جا رہا ہوں اف دو گھنٹے ٹک کر بور ہونگا
اس نے منہ بنایا۔۔
سوچ رہا ہوں نیند پوری کر لوں ساری رات سالک کے خراٹوں سے بار بار اٹھتا رہا ہوں۔۔
اس نے سالک کو گھور کر دیکھا تھا
تمہیں گوارا کو بلانے کی کیا ضرورت تھی ہم لڑکے لڑکے ہی تو بس آئے ہیں ۔۔
کم سن نے ٹوکا۔۔
لاسٹ ٹرپ کا پتہ چلنے پر اچھی خاصی ناراض ہوئی تھی۔۔
اسے یاد آیا۔۔۔۔ ذہن میں وہ منظر پوری آب و تاب سے روشن ہوا
اس نے بلا لحاظ اپنے بیگ سے ٹھکائی کی تھی
مجھے کیوں نہیں کے کر گئے تھے۔۔ کہتی جا رہی تھی لڑتی جا رہی تھی
ہم چرچ گئے تھے تمہیں پوچھا تھا تم نے کہا تھا کہ تمہیں دلچسپی نہیں۔
بعد میں تو گھومنا تھا نا بتاتے تو میں ویٹ کر لیتی۔۔
اس نے فیس بک کی تصویروں سے پکڑا تھا اسے رنگے ہاتھوں۔۔
اس نے جھرجھری لی۔۔
میں تیری وجہ سے آیا تھا کم سن نے اسے گھورا۔۔ وہ دونوں ہنگل میں بات کررہے تھے۔
ورنہ میں تو سیول میں نیا نہیں ہوں جو مجھے ایکوریم میں دلچسپی ہو۔۔
ٹھہر نا۔۔ یار اس نے ملتجی انداز میں کہا۔۔
گوارا کب سے مووی کا کہہ رہی تھی بس اسلیے اور تم نے اکیلے روم میں کیا کرنا تھا بیٹھ کر ان کے ساتھ گھوم پھر لے ایڈون نے گفٹ لینا اسکی مدد کر دینا یار انکو تو بالکل بھی ہنگل نہیں آتی ایویں لٹ جائیں گے۔۔
یہ تینوں خاموشی سے انہیں دیکھ رہے تھے
جون تائی کو احساس ہوا تو مسکرا کر اب انگریزی میں بولا۔۔
میں بس تھوڑی دیر میں آتا ہوں تم لوگ انجوائے کرو۔۔
وہ انکے کندھے پر ہاتھ مرتا سوری کہتا بھاگ گیا۔۔
چلو ۔۔کم سن کے پاس اب کوئی ا ور چارہ نہیں تھا۔۔
تمہاری کوئی گرل فرینڈ نہیں ؟ ایڈون نے موبائل میں میسج ٹائپ کرتے کرتے پوچھا تھا۔۔
شاہ زیب اور سالک ان سے ایک قدم آگے ہی باتیں کرتے چل رہے تھے۔۔
نہیں۔۔ کم سن نے سوچا پھر مسکرا دیا۔
تمہاری ہے کیا؟
ایڈون کے چہرے ہر بہت پیار بھری مسکراہٹ در آئی۔۔
کم سن نے بہت دلچسپی سے اسے دیکھا۔۔
ہاں بلکہ گرل فرینڈ نہیں فیانسی۔۔
تعلیم مکمل کرتے ہی ہماری شادی ہو جائے گی۔۔
کونسی ہے۔۔ آ ری زا؟
کم سن نے خیال ظاہر کیا۔۔
ٹائپ کرتے ایڈون کے ہاتھ رکے۔۔
چہرے پر سایہ سا لہرایا۔۔
نہیں ۔۔ سنتھیا۔۔
وہ ڈارک کمپکیکشن والی۔۔ کم سن نے اسے تھوڑا حیرت سے دیکھا۔۔
ہاں ۔۔ اسے کم سن کا ڈارک کمپلیکش کہنا اچھا تو نہیں لگا تھا۔۔
سیول کے سب لوگوں کو انگریزی آتی ہے۔
اسے فراٹے سے بولتے دیکھ کر سالک نے مڑ کر پوچھا۔
نہیں۔ در اصل ہایون امریکہ جا رہا ہے اس نے انگریزی زبان کے کورس میں داخلہ لیا تھا میں نے یون بن اور گوارا نے اسکے پیچھے داخلہ لیا۔ مگر فائدہ ہی ہوا ہے انگریزی سیکھنے کا۔ وہ ہنس کر بولا
سالک نے سر ہلایا۔
ہمیں فائدہ ہوا ہے ابھی تو انکے انگریزی سیکھنے کا۔
اس نے اردو میں ہی کہا تھا۔
ایک بات پوچھوں تم لوگوں سے؟ برا تو نہیں مانوگے؟
ایڈون قصدا ایک قدم آگے ہو گیا تھا تو کم سن نے ان دونوں کو مخاطب کیا۔۔
دونوں اپنی بات چھوڑ کر مڑ کر دیکھنے لگے۔۔
ہاں پوچھو۔۔
تم سب ایک ملک سے ہو۔
ایک شہر سے بھی ہیں۔۔ سالک نے لقمہ دیا۔۔
پھر اتنے الگ الگ سے کیوں لگتے ہو۔۔
ایڈون کی رنگت گہری ہے تم گورے چٹے ہو شاہزیب کا رنگ نا گہرا ہے نا چٹا۔۔
سوال غورطلب تھا۔۔
میں تو کشمیری ہوں پہاڑی علاقے کا اسلیے گورا ہوں۔۔
سالک نے کہا۔۔
شاہ زیب نے کہا
میں پنجابی ہوں تھوڑے گرم علاقے کا۔۔
اور ایڈون۔۔ وہ چپ ہو گیا۔۔
پاکستان انڈیا میں مختلف نسل کےلوگ رہتے انکا رہن سہن عادتیں مزاج سب الگ ہے ہماری ہر دو کلومیٹر کے بعد زبان اور لہجہ بھی بدل جاتا ہم پانچوں میں بس اریزہ اردو اسپیکنگ ہے باقی ہم سب کی اردو مادری زبان نہیں ہے۔۔ ایڈون نے تفصیل سے بتایا اسکا موڈ بحال ہو چکا تھا
تم سب کرسچن بھی نہیں ہو ہے نا؟
کم سن نے اندازہ لگایا۔۔ یہ رات کو کپڑا بچھا کر بیٹھ کر کچھ کر رہا تھا اس دن چرچ بھی نہیں گیا تھا۔۔
یہ دونوں مسلمان ہیں میں کرسچن ہوں۔۔
ایڈون نے کہا تو کم سن نے کندھے اچکا دیئے۔۔
وہ باتیں کرتے ایکوریم میں داخل ہو گئے تھے ۔
بڑی بڑی شیشے کی دیواریں اندر تیرتے خوبصورت جانور رنگ برنگی مچھلیاں۔نیلا پانی سمندری گھاس سے سجا
ان تینون نے ایسا کچھ پہلی بار دیکھا تھا۔۔ ان کے چہرے پر اتنا اشتیاق در آیا تھا کہ کم سن مسکرا کر رہ گیا پھر انکو مختلف جانور دکھانے لگا۔۔
ایکوریم کی دیوار کے ساتھ مختصر تعارف بھی انگریزی اور مقامی زبان میں درج تھا
انہیں اتنا پسند آیا کتنی دیر وہیں گھومتے رہے کم سن کے خیال کے بر عکس وہ بالکل بور نہ ہوا تھا۔۔
وہ تینوں ہر جانور کے ساتھ تصویر کھنچوا رہے تھے
اود بلائو آرام سے کونے میں بیٹھا تھا اسے منہ بنا بنا کر سالک نے متوجہ کیا اسے منہ چڑاتا رہا وہ بھی پورا منہ کھول کر لپکا ایڈون اور شاہ زیب دونوں سالک کے ساتھ تیار کھڑے تھے اس آتے دیکھا تو تینوں نے چیخ مارنے والے انداز میں پورا منہ کھولا کم سن نے اسی وقت تصویر کھینچ لی یہ تینوں اور انکے ساتھ چیختا چوتھا اود بلائو۔۔ تصویر کھینچ کر وہ وہیں لوٹ ہوٹ ہوگیا۔۔ کئی سیاح انکی مستیاں دیکھ کر انکی جانب ہی متوجہ تھے اور ہنس رہے تھے۔۔
رنگ برنگی مچھلیوں کو ایکوریم سے ہونٹ چپکا کر چومتے ہوئے۔۔
یار ہم لڑکیوں کو بھی لے آتے وہ زیادہ خوش ہوتیں یہ ایکوریم دیکھ کر۔۔
شاہزیب نے کہا تو سالک اور ایڈون نے تائید کی کم سن بٹر بٹر دیکھ رہا تھا ایڈون نے ترجمہ کیا۔
اس سے زیادہ بھی کوئی خوش ہو سکتا یہاں آکے؟
اس نے کہا تو یہ تینوں ہنس پڑے۔۔
یار مجھے گفٹ لینا یہاں کوئی اچھی گفٹ شاپ ہے۔۔۔؟
ایڈون کو یاد آیا تو کم سن نے فورا سر اثبات میں ہلایا۔۔
ہاں چلو۔۔
کم سن انہیں اییکوریم سے باہر لے آیا۔ اوپر چڑھ کر باہر نکلے تو ایک نئی دنیا تھی ۔ بڑے بڑے برانڈز کی اونچی سجی دکانیں۔ وہ انہیں نسبتا سستی جگہ لیکر آیا۔
یہ ایک بڑی سی شاپ تھی مگر پھیکے رنگوں کی
آل مینز اسٹف تھا ۔ٹائیاں شرٹس ٹراوزرز۔برانڈڈ گھڑیاں پرفیومز
ایک مکمل مردانہ اسٹور
شاہ زیب اور سالک اندر گھس گئے
ایڈون نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔۔
مجھے سنتھیا کیلیئے گفٹ لینا۔۔
اب مجھے الہام تھوڑی ہوگا کس کیلیے لینا۔۔کم سن ہنسا
گفٹ لینا ہے کہہ رہے تھے بس۔۔
ادھر آئو۔۔ وہ اس لے کر باہر نکل آیا۔۔
دو تین دکانیں چھوڑ کر کاسمیٹکس کی دکان تھی ساتھ ہی اندر ملحقہ گارمنٹس کی شاپ تھی۔۔
ورائیٹی اور چوائس کی بھرمار تھی ایک لمحے تو کچھ سمجھ نہ آیا کیا لے۔۔
اس نے یونہی ایک برانڈڈ کاسمیٹکس کی میک اپ کٹ اٹھا لی۔۔ قیمت مناسب تھی۔۔ اس نے پیک کرنے کو دے دیا سیلز گرل مخصوص انداز میں جھک کر اس سے کٹ لے کر پیک کرنے چلی گئ۔۔ کم سن اسے چھوڑ کر گارمنٹس شاپ پر کھڑا تھا۔۔
ایڈون بھی اسکے پاس چلا آیا۔۔
ایک خوبصورت سی ڈمی ہلکے فیروزی رنگ کی میکسی پہنے کھڑی تھی جسکے گلے پر بے حد خوبصورت گلابی نارنجی چھوٹے چھوٹےربن کے پھولوں کی سجاوٹ تھی ساتھ ہی ستارے دمک رہے تھے بلا شبہ بہت خوبصورت لباس تھا۔۔
کم سن اس لباس کو دیکھ رہا تھا۔۔
اس لباس میں کسی اور کو۔۔
بہت پیارا ہے ۔۔ ایڈون نے تعریف کی تو وہ چونکا۔۔
ہا ہاں لے لو۔۔ ڈسکاونٹڈ پرائس ہے اسکی۔۔
اس نے ٹیگ سے قیمت پڑھی۔۔
میں نے میک اپ کٹ پیک کرنے دی ہے۔۔
ایڈون نے بتایا۔۔تو وہ کندھے اچکا کر بولا۔۔
ویسے یہ ڈریس بہت پیارا ہے اگر میں اپنی گرل فرینڈ کو گفٹ کرتا تو یہ کرتا۔۔ تمہیں اچھا نہیں لگا؟
اچھا ہے وہ مسکرایا کلر بھی اچھا۔۔ مگر سنتھیا پہننے کو تیار نہ ہوتی۔۔
کیوں ۔۔کم سن نے حیرت سے پوچھا۔۔
بہت ریویلنگ ہے۔۔ اس نے گہرے سے گلے اور آف شولڈر کی طرف اشارہ کیا۔۔
کم سن الجھن سے دیکھ کر رہ گیا بولا کچھ نہیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کپڑے دھو کر سکھا کر تہہ کرکے باسکٹ اٹھا کر کمرے میں آئی تو سنتھیا وہیں ویسی ہی لیٹی موبائل میں مگن تھی۔۔ اس نے اپنے کپڑے احتیاط سے کرسی پر ٹکائے اس کے سارے تہہ شدہ کپڑے اٹھائے
وہ اتنی مگن تھی کی اریزہ کے آنے کا پتہ نہ چلا۔۔
اس نے پورا ڈھیر اس پر الٹ دیا پھر خود بھی اس پر چڑھ گئی
سنتھیا اس آفت کیلیئے تیار نہیں تھی چیخی مگر اریزہ نے نہ چھوڑا۔۔
تم نے کتنے اچھے کپڑے دھلوائے میرے ساتھ۔۔
یہ شرٹ یہ پینٹ یہ اسٹالر۔۔
وہ ایک ایک کپڑا اٹھا کر اس کے منہ پر مار رہی تھی
سنتھیا ہنستی جا رہی تھی سوری کہتی جا رہی تھی۔۔
یار سو سوری بالکل بھول گئ موبائل مین لگ کر۔۔
اریزہ اس پر باقائدہ چڑھ کر بیٹھی تھی
موٹی اٹھ جائو مر جائونگی میں پٹ پٹ کر ہنس ہنس کر اس کا برا حال تھا سانس پھول چکی تھی
کیا دیکھ رہی تھیں موبائل میں اس نے چھینا۔۔
پھر چونک گئ۔۔
یہ کہاں گئے ہوئے ہیں ؟ ہمیں کیوں نہیں لے کر گئے؟
اسے غم لگ گیا
کتنا مزہ کر رہے ہیں یہ برے لوگ۔۔ وہ روہانسی ہو کر تصویریں دیکھ رہی تھی
مجھے بھی دیکھنی ہے ادھر آئو۔۔
سنتھیا نے موبائل کھینچنا چاہا مگر اریزہ کی گرفت مضبوط تھی وہ نظریں ہٹائے بنا کھسک کر اس کے پاس لیٹ گئ۔۔
دونوں برا بھلا کہتی تصویرین دیکھنے لگیں۔۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی۔۔
کون ہے آجائو۔۔ انہوں نے اکٹھے ہی بولا۔۔
جی ہائے اندر چلی آئی دونوں کو دیکھ کر حیران ہی رہ گئ۔۔
دونوں نے اکٹھے نووارد کو دیکھا۔۔
ہائی۔۔ جی ہائے مسکرائی
ہائے۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کا سہارہ لیتی اٹھ بیٹھیں آئو بیٹھو؟
اریزہ نے خفت زدہ ہو کر کپڑے ایک طرف کرکے بیڈ کے اوپر جگہ بنائی
نہیں شکریہ۔۔
اس نے سہولت سے انکار کر دیا۔۔
وہ آج میں اپنی سالگرہ منا رہی ہوں بارہ بجے باہر ٹیرس پر آجانا کیک وغیرہ کاٹیں گے مزا رہے گا۔۔
اوہ اچھا شیور۔۔
دونوں نے اخلاق سے پیشکش قبول کی۔۔
کرم۔۔ میں پہلے جاتی ہوں۔۔۔۔ وہ کہتی مڑنے لگی۔تو اریزہ کو یاد آیا۔۔
ایک منٹ
گوارا نے تمہارے لیے تحفہ دیا ہے۔۔
اریزہ نے اپنی میز سے اسکا گفٹ اٹھا کر پکڑایا۔۔
یعنی وہ آج نہیں آئے گی۔۔ وہ تھوڑا مایوس سی ہوئی۔۔
خیر تم لوگ ضرور آنا میں انتظار کروں گی۔۔
وہ ایک بار پھر اصرار کرتی مسکراتی چلی گئ۔۔
یار کتنے اچھے طریقے سے ملی ہے۔ بلا کر گئ ہے ۔۔ اریزہ نے تعریف کی تو وہ انگڑائی لیتی بولی
دس بج رہے کون بارہ بجے تک جاگے گا۔۔ میں تو سونے لگی ہوں۔۔ اس نے جمائی بھی لے ڈالی۔۔
کپڑے تو سمیٹ لو۔۔ اریزہ نے کہا تو وہ سستی سے بولی
صبح ۔۔ یہ ذرا چارجنگ پر لگا دینا۔۔
اس نے الٹا موبائل تھما دیا۔۔ اریزہ گھور کر رہ گئ اسکا موبائل چارجنگ پر لگایا اسکے اور اپنے کپڑے سمیٹ کر رکھے اپنا موبائل چارجنگ سے نکالتی نیچے کی بتی بجھاتی اوپر چلی آئی۔۔
یہ بلاگ اپڈیٹ کرنے کا وقت تھا۔۔آج کام کرنا اسے کھلا تھا۔ سو کھل کر کہنے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔
کام کرنے کی سب سے بری بات یہ ہوتی کہ کرنا پڑتا۔۔کام چھوٹے بڑے ہوتے مگر کام کرنے والا ہمیشہ بڑا ہوتا ۔۔ ویسے زندگی میں ضروری نہیں آپ کو ہر قسم کا کام کرنا پڑے مگر جو کام کرنا پڑے اس کو کیئے بغیر گزارا بھی نہیں ۔۔ اور جو کام آپ۔کر لیتے آپ کو کرنا آجاتا۔۔ چاہے خود سے چاہے آپ سیکھ لیں۔ ویسے فارغ زہن شیطان کا گھر ہوتا ہے سو کچھ کر ہی لیا کریں ۔۔ خدا کرے آپ کو کبھی وہ کام نہ کرنا پڑے جوخود آپ کو پسند نا ہو۔۔
ویسے خدا کرے آپ وہ کام بھی نہ کریں جو خدا کوپسند نہ ہو۔۔
اس نے مطمئن ہو کر پوسٹ کر دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا کمنٹ
*کام ڈائون* ایڈمن
دوسرا کمنٹ
کام کرتے ہوئے یہ بلاگ پڑھ کر یہ الفاظ دل پر گہرا اثر کرگئے میں ہر کام سے توبہ کر رہا ہوں
تیسرا کمنٹ
مجھے انڈا ابالنا سکھادے کوئی۔ دعا دوں گا۔
چوتھا کمنٹ۔
کمینگی میں کام نہیں آتا۔ کام میں کمینگی آسکتی ہے۔ کام کیجئے کمینگی نہیں۔۔
ہاہ۔ اریزہ کا منہ کھلا رہ گیا۔
پانچواں کمنٹ۔
ایڈمن نے ذرا سا کام کیا دنیا بھر کو جتا رہی ہے۔ہم سب کو پتہ لگ گیا کہ ایڈمن نے کپڑے دھوئے ہیں۔ خاموشی سے کام کرنے والے احمق ہوتے ہیں ثابت ہوا ایڈمن عقلمند ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے۔