ستمگر بہ زعم ستم مسکرائے
خدا جانے کیوں اہل غم مسکرائے
کوئی تازہ دھوکہ ہے یا قرب منزل
راہ شوق کے پیچ و خم مسکرائے
میسر کہاں سب کو ایسا تبسم
جفاؤں کے جھرمٹ میں ہم مسکرائے
بہ زعم عمل مسکرائی تمنا
تمنا پہ لوح و قلم مسکرائے
ہمیں جانتے ہیں جو گزری ہے دل پر
ترا ساتھ دینے کو ہم مسکرائے
بہت زور مارا اندھیروں نے شب بھر
ستارے مگر دمبدم مسکرائے
از قلم زوار حیدر شمیم