جنوں کی راہ میں مشکل تو کوئی بات نہیں
شمیم سخت ہے منزل ہے تو کوئی بات نہیں
فریب راہبراں سے میں دل گرفتہ ہوں
وگرنہ دوری منزل تو کوئی بات نہیں
ہزار شکر فضائے چمن نکھر تو چلی
ہوا ہے خون مرا دل تو کوئی بات نہیں
یہ دیکھنا ہے کہ طوفان ہے کتنے پانی میں
حصول دامن ساحل تو کوئی بات نہیں
خدا کے بندوں پہ ایمان ہے کس قدر یارو
فقط خدا کے ہو قائل تو کوئی بات نہیں
یہ دیکھ شمع میں کتنے سہاگ جلتے ہیں
نشاط گرمی محفل تو کوئی بات نہیں
سلام سختی راہ وفا کے غماذو
سلامت آرزوّے دل تو کوئی بات نہیں
از قلم زوار حیدر شمیم