قسط 14
وہ سوچوں میں الجھی جب گھر میں داخل ہوئی تو راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔ گھر میں غیر معمولی خاموشی تھی۔ منے کچن میں کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔ دونوں کمروں کے دروازے پکے بند تھے۔ منا صوفہ خالی پڑا تھا۔ ایک کونے میں ایک بڑا سا کارٹن دھیرے دھیرے ہل رہا تھا اندر سے آواز بھی آرہی تھی جیسے کوئی کراہ رہا ہو۔۔ وہ حیران ہوتی لائونج میں آئی تو ایک اور حیرت ناک منظر سامنے تھا۔
الف اور فاطمہ دونوں مل کر پھل کاٹ رہی تھیں۔ نور نے پکوڑے تلنے شروع کر دیئے تھے۔ اسکے ساتھ ہی ہے جن کھڑا پکوڑوں کیلئے پالک کے پتے الگ کر رہا تھا۔
اس نے لائونج میں کھڑے کھڑے ہی طائرانہ نظر ڈال کر جائزہ لے لیا۔
صلح ہو گئ تم دونوں کی۔
وہ سرسری سے انداز میں کہتی اپنے کمرے کی جانب بڑھی
ہم صرف پھل کاٹ رہے ہیں۔
فاطمہ جتانے والے انداز میں بولی تو الف سلگ سی گئ۔
ہم نہیں صرف تم۔ میں نے اپنے حصے کے پھل کاٹ لیئے ہیں۔
الف کے کہنے پر فاطمہ نے حیرت سے دیکھا تو واقعی ٹرے میں موجود کیلوں ، سیب، امرودوں اسٹاربریز اور ایووکاڈو تقسیم ہوئے وے تھے اور جانے کس حساب سے کہ الف کے حصے میں سب کٹے ہوئے رکھے تھے وہ ہاتھ جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ فاطمہ نے اپنے حصے کے پھلوں پر نگاہ کی تو وہاں تین چار امرود ابھی بھی منہ چڑا رہے تھے۔
بات سنو یہ کس حساب سے تقسیم ہوئے ہیں۔
فاطمہ نے آستیںیں چڑھائیں۔
میری پھرتی کے حساب سے۔ اللہ کا شکر ہے امی کا ہاتھ بٹانے سے خاصی سگھڑ لڑکی نکلی ہوں میں دو منٹ میں سب کام کر لیتی۔ الف اترائی
میں بھی پچھلے آدھے گھنٹے سے۔۔۔۔ فاطمہ جانے کیا بتا رہی تھی
ناٹ اگین۔ واعظہ نے گہری سانس لی اور اپنے کمرے کا دروازہ کھولا۔ سامنے ہی اسکے بیڈ پر عزہ گھٹنوں میں منہ دیئے بیٹھئ تھئ
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔
ایک اور چھیڑ دینے والا جملہ اسکے منہ سے نکلا ۔ اسکا ارادہ سیدھا باتھ روم میں جانے کا تھا مگر اسکی آواز سن کر عزہ چوکنا ہو بیٹھی۔ متورم آنکھیں گلابی چہرہ وہ صرف گھٹنوں میں منہ دیئے نہیں بیٹھی تھی بلکہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔واعظہ کو دیکھ کر غم تازہ ہوگیا۔
آگئیں تم۔ پتہ ہے آج کیا ہوا؟
اسکے کہنے کا انداز ایسا تھا کہ واعظہ سمجھ گئ اگر اسے نہیں بھی پتہ تو اس وقت اسکی معلومات میں اضافہ ہوئے بغیر باتھ روم نصیب نہیں ہونا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلاور منے صوفے پر نڈھال سے بیٹھے تھے۔طوبی ساتھ ہی بیٹھی انکا کبھی سر دباتی کبھی ہاتھ سہلانے لگتی۔۔
انکے سر کو سینکیں۔ الف نے مشورہ دیا تو طوبی نے ترچھی نگاہ ڈالی اس پر۔۔مگر مشورہ مان لیا۔
میرے میاں بے چارے جب تم لوگوں کی مدد کو آتے ہیں پٹ پٹا کے ہی جاتے ہیں۔
دوپٹے کا گولا بنا کر منہ سے پھونکیں مار کر گرم کرتی طونی نےدہائی دی۔ وہ گرم کرکے میاں کی کنپٹی پر رکھتی جہاں پہلے لال اور اب سیاہی مائل نیل پڑتا جا رہا تھا۔ دلاور کو ابھی تک دنیا گھومتی ہی محسوس ہو رہی تھی۔
شکر ہے میں کون ہوں کہاں ہوں والی نوبت نہیں آ پائی تھی۔ وہ شائد اسکے اس گھر کے تیسرے چکر میں کثر پوری ہوتی۔
سنیں یہ کتنی انگلیاں ہیں۔
طوبی نے میاں کی آنکھوں کے سامنے انگلیاں کیں۔ مگر دو انگلیاں دکھائے یا تین اس میں خود ہی کنفیوز ہوگئ۔ پہلے دو دکھائیں تو تیسرئ بھی ساتھ ہی اٹھ گئ۔
تین۔ دلاور نے جب تک جواب دیا وہ واپس اپنی تیسری انگلی کو انگوٹھے سے دبا چکی تھی۔
ہائے انکو تو صحیح سے نظر بھی نہیں آرہا اب ۔ کیا کردیا میرے میاں کو۔ میاں کی کنپٹی سے دوپٹہ اٹھا اس نے آنکھوں پر رکھ کر رونا شروع کر دیا۔۔
نور عزہ عروج عشنا الف اور ہے جن کچی کے بچوں کی طرح قطار میں سر جھائے کھڑے تھے۔
طوبی ٹھیک ہو جائیں گے کوریا میں بہت اچھا علاج ہوتا ہے ۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک کی ٹکر کا انتظام ہے یہاں۔
عروج نے تسلی دینا چاہی
کوئی نہیں ہم جیسے تو جا کر پھنس ہی جائیں ایک لفظ انگریزی نہیں آتی انکو میں صبح کو تمہیں بلانے کا کہتی رہی نرس کوتو مجھے اٹھا کر باتھ روم لے گئ۔
عزہ نے اپنا دکھڑا رویا۔
انکو دیکھو عروج مجھے لگتا ہے انکو دکھائی وکھائی نہیں دے رہا۔ طوبی نے عروج کو کہا تو وہ ٹھنڈی سانس لیکر انکے سامنے اکڑوں آبیٹھئ۔
یہ کتنی انگلیاں ہیں دلاور بھائی۔
اس نے بھی تین ہی دکھائیں۔۔
تین۔ دلاور نے زرا کی زرا نظر اٹھا کر جواب دیا اور فورا نگاہیں جھکا لیں۔
طوبی آپی آپ نے انگلیاں ہی ٹھیک کھڑی نہیں کی تھیں۔
ہے جن نے کہنا چاہا۔
ایسے چیک کرنے کو نہیں کہا انکی چوٹ دیکھو
طوبی فکرمند تھی۔
بیلن پکڑ کر تھوڑی مارا تھا میں نے وہ تو ہاتھ سے چھوٹا تو تھوڑا سا لگ گیا انکو اتنی چوٹ تھوڑی آئی ہوگی کہ۔ وہ مرغی دئکھ کر میرے اوسان خطا ہو گئے تھے۔
الف چپ رہ جایے ناممکن۔ سہولت سے صفائی پیش کی جس پر طوبی مزید بھنا گئ۔
بتائو ایک چھوٹی سی مرغی سے اتنا ڈرتی ہو تم لوگ۔ ہاتھی تو نہیں لائی تھی میں۔
طوبی نے ہاتھ نچایا۔
ہاتھی کون صدقہ کرتا ہے۔ دلاور پیشانی سہلاتے ہوئے حیران ہوئے۔
ہاتھئ تو حرام جانور نہیں؟ عزہ کو بھی حیرت ہوئی
ہاتھی حرام اور نہایت قیمتی جانور ہوتا ہے طوبی جی اسکی پہلے ہی نسل ختم ہو رہی ہے اسکو صدقے ۔۔۔
عشنا نےبتفصیل بتانا چاہا تو
اوفوہ مثال دی میں نے۔ طوبی جھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
بہر حال مرغی لا دی ہے تم دونوں بہن بھائی ہاتھ لگا کر کسی غریب کو دے دینا اور مزید مصیبتوں سے بچنا ہو تو اس فلیٹ کو چھوڑو کہیں اور انتظام کرو اپنا۔ چلیں جی۔
وہ خفا خفا سی ہے جن سے کہہ کر میاں کا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ عروج سٹپٹا کر پیچھے ہوئی اسے طوبی کے تیوروں سے یہی خدشہ لاحق ہوا کہ پیروں میں آکر کچلی جائے گی۔
کیا کہہ رہیں ہیں آپ طوبی آپی۔
ہے جن منمنا کر بولا۔
میں بعد میں ترجمہ کر دوں گی۔
نور نے اسکو کندھا تھپک کر تسلی دی۔ طوبی سخت آف موڈ میں میاں کے ساتھ فلیٹ سے نکل گئ تو انہوں نے ٹھنڈی سانس لی۔ عروج وہیں صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی زمین پر۔کمر تختہ سی ہو رہی تھی اس نے انگڑائی لیکر اسے سکون پہنچانا چاہا تو گردن 160 کے زاویئے پر گھوم سی گئ اور نگاہ جم سی گئی کونے پر۔
یہ کارٹن کہاں سے لیا تم لوگوں نے؟
عروج کو کونے میں ہلتا کارٹن نظر آیا تو تجسس سے پوچھنے لگی۔
واعظہ کا ہے اس نے اس میں الم۔غلم جانے کیا کیا ڈائریاں رجسٹر بھرا ہوا تھا نکال کر میز کے نیچے رکھ دیا میں نے۔
نور نے ہاتھ جھاڑے اور اطمینان سے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بتایا
خلاف توقع باقیوں کے منہ سے آواز بھی نہ نکلی تو دوبارہ توجہ کی انکی جانب چاروں منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔
یہ واعظہ کی ڈائیریاں کس نے نکالیں؟ وہ بہت پوزیسو ہے انکے بارے میں جس نے جہاں سے بھی نکالیں ہیں خود ہی واپس وہیں رکھ دو۔ورنہ خیریت نہیں ہے اسکی جس نے بھی یہ کام کیا ہے۔
فاطمہ کمرے سے وارننگ دیتی نکلی۔ نور نے مڑ کر اسکے چہرے سے معاملے کی سنگینی بھانپنی چاہی۔
تمہیں پتہ ہے وہ اسکی بچپن سے اب تک کی ڈائیریز ہیں اور وہ اسکے لیئے اتنی قیمتی ہیں کہ وہ مر بھی سکتی ہے اگر انکو کچھ ہوا تو۔ اس نے خود کہا تھا مجھے۔
عروج نے نور کو اور ڈرایا۔
ہاں تو میں ایک اور کارٹن لے آتی ہوں فکر نہ کرو۔ نور نے حسب عادت کندھے جھٹکے۔ مگر اپنی جگہ سے ہلی بھی نہ تھی۔
واعظہ نے نکال باہر کرنا ہے سب کو اگر اسکی چیزوں کو کچھ ہوا بتا دوں میں۔ عروج وارننگ دیتی کمرے کی۔جانب بڑھ گئ۔
یار ویسے کچھ ذیادہ ہی۔بھونچال بھری زندگی نہیں ہوگئ ہماری۔
عزہ جمائی لیتے ہوئے نور کے برابر آگری۔
ہے جن کو بھوک لگنے لگی تھی سو کچن کی جانب رخ کیا۔
بھونچال تو زندگی میں آتا ہے۔ بھونچال بھری زندگی کبھی سنا نہیں۔
عشنا کہتی ہوئی فلور کشن سیدھا کرتی کارپٹ پر ڈھیر ہوئی
عروج صوفے سے ٹیک لگائے اب اونگھنے کی تیاری میں تھی۔
عروج کمرے میں جاکر آرام سے سوئو۔۔
فاطمہ اسے پھلانگ کر عشنا کے پاس آتے ہوئے بولی۔ عروج تھکے تھکے سے انداز میں اٹھ کھڑی ہوئی
جارہی ہوں خدارا میری اب نیند غارت مت کرنا دماغ پگھلنےلگا ہے میرا۔ وہ ملتجی انداز میں کہتی کمرے کی جانب بڑھ گئ۔
دماغ پھٹتا ہے پگھلتا نہیں ۔۔ عشنا ان سب کی نت نئی اصطلاحات کو ہضم نہیں کر پاتی تھی۔ عروج نے دروازے سے مڑ کر پہلے اسے گھورا پھر کمرے میں گھس گئ۔
تمہارا نام لغت جونئیر رکھ دینا ہے میں نے۔ عزہ اپنی تصحیح کیئے جانے پر بد مزا ہوگئ تھی۔ عشنا نے کندھے اچکا دیئے۔
فاطمہ نے اسکو اسکا موبائل پکڑایا اور خود اپنا موبائل لیکر کچن میں آگئ,
200,000.00 میں کیا کیا آجاتا ہے ہے جن؟
کافی کچھ کیوں؟
وہ ریمن بنا چکا تھا ساتھ کمچی بھی نکال۔کر رکھی تھی اور ایک سائیڈ ڈش بھی۔ گرم گرم بھاپ اڑاتا نوڈل کا پیالہ اس نے سلیب پر رکھ کر اسٹول گھسیٹا اور سہولت سے بیٹھ کر کھانے لگا۔
پھر بھی۔ وہ اکسا رہی تھی۔ عشنا کے کان کھڑے ہوئے
میرے جیسے طالب علم۔کیلئے تو کافی ذیادہ ہیں میں اپنے دوستوں کو ڈنر لنچ کروا سکتا ہوں اسپا میں جا کر مہنگا پیکج لے سکتا ہوں ، اچھا رہنے کا کمرہ لے سکتا ہوں اپنی ٹیوشن کا خرچہ نکال سکتا ہوں گیمنگ زون جائوں تو۔
ہممم۔ یعنئ کافی کچھ ہو سکتا ہے تم۔کبھی اپنے اتنے پیسے کسی آلتو فالتو کورین آئیڈل کی فین میٹنگ پر خرچ کروگے؟
فاطمہ پہلیاں بجھوا رہی تھی۔
میں تو ایک وون بھی نہ خرچ کروں ان پیسے کے پجاریوں پر۔ وہ نوڈلز نگل کر جھٹ سے بولا۔
عشنا چپکے سے اٹھنے لگی ۔
یہ فین میٹنگ تو سب سے احمقانہ کام ہے۔ ہزاروں فینز سے اپنی سی ڈیز خریدوا کر پیسہ کھینچتے ہیں پھر ان میں سے سو ایک لوگوں کو لارا لگا کر گھنٹوں لائن میں لگوا کر ہم سے پیسے لیکر ہم خو نخرے دکھا کر اپنے ساتھ دو چار تصویریں بنوانے کو اتنا پیسا لوٹ لیتے ہیں ہم سے ۔ اس سے بہتر بندہ فوٹو شاپ کا کورس کرلے اپنے ساتھ ان آئیڈلز کی۔تصویریں لگوائے پھر دوسروں کو بھی پیسے لیکر فوٹو شاپ کر دے۔
ہے جن نے تو تقریر ہی جھاڑ دی تھی۔
کتنے سمجھدار ہو تم ۔ فاطمہ نے رشک سے کہا۔
لوگ تو اتنے احمق ہیں کہ اپنی یونیورسٹی کی فیس ڈیو ہے کہیں کرائے پر رہ رہے ہیں نوکری پاس ہے نہیں اوپر سے دو لاکھ وون فین میٹنگ کیلئے بھر رہے ہیں۔ انکو تو سی ڈی بھی نہیں ملنی دو چار پوسٹر مل جائیں گے بس۔ فاطمہ باقائدہ عشنا کو۔نظروں میں رکھ کر بول رہی تھی۔
اس سے بڑی بے وقوفی نہیں ہے سچ مچ۔ میں نے کبھی کسی گروپ یا بینڈ کی فین میٹنگ میں پیسے نہیں جھونکے اتنی مشکل سے پیسے کمائے جاتے ہیں والدین کیا کچھ نہیں قربانیاں دیتے ہمارے لیئے۔ ان فالتو چیزوں پر برباد نہیں کرنے چاہیئے ۔ ہے جن سر ہلا رہا تھا عشنا سے مزید ضبط نہ ہو سکا۔
میری فیس جمع ہے چھے مہینوں کی، اور میں نے واعظہ کو اپنے کرائے کے پیسے دے دیئے تھے۔ یہ فین میٹنگ کے پیسے میں نے اوورٹائم کر کرے جاب سے خود جمع کیئے ہیں اپنے والدین کا پیسہ نہیں اڑایا ہے ان پر۔
عشنا کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔
پھر اگر اتنی محنت کر ہی لی تھی تو بچا لیتیں اگلے مہینے اگلے سمسٹر کیلئے کام آجاتا کچھ کپڑے بنوا لیتیں عید سر پر ہے کچھ اچھا کھا لیتیں یوں برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی تمہیں۔ فاطمہ اسے ڈانٹ رہی تھی۔ اسکا انداز اتنا مختلف تھا کہ عزہ اور نور دونوں اسے حیران ہو کر دیکھ رہی تھیں
کیا ہوا کس کی فین میٹنگ ہے؟ عزہ نے پوچھا۔
مجھے یہ سب بتانے کی ضرورت نہیں اگلا سمسٹر عید یا کھانا پینا جس پر چاہے میں پیسے خرچوں میرا معاملہ ہے تم اپنے کام سے کام رکھو سمجھیں
عشنا ضبط کھو کر انگریزی میں چلانے انداز میں کہہ اٹھی تھی۔
کیا ملے گا تمہیں لی من ہو کو دیکھ کر یہاں کی پاگل پرستار لڑکیوں کی طرح ہاتھ ملائوگی گلے لگو گی کیا کروگی لی من ہو کو دیکھ کر۔ فاطمہ اس سے زیادہ زور سے چلائی
آرام سے کیا ہوگیا ہے۔ نور اور عزہ معاملے کی سنگینی بھانپتے بھاگ کے ان کے بیچ آئی تھیں۔ فاطمہ تو ہتھ چھٹ بھی ہے نور نے احتیاطا فاطمہ کو بازو سے پکڑ لیا۔
تم پاگل ہوگئ ہو کیا بکواس کر رہی ہو؟ عشنا سے تعجب کے مارے بولا ہی نا گیا
بکواس نہیں سچ کہہ رہی ہوں کیا سرخاب کے پر لگے ہیں لی۔من ہو میں کہ دولاکھ وون اس کی فالتو سی فین میٹنگ پر خرچ کر رہی ہو۔ فاطمہ کو اس پر شدید غصہ آرہا تھا۔
میرا اتفاق سے قرعہ اندازی میں نام نکل آیا ہے لی من ہو ملٹری جا رہا ہے اسکی یہ آخری فین میٹنگ ہے اسکے بعد وہ دو سال تک جب واپس آئے گا تب تک میں یہاں سے جا چکی ہوں گی۔ میرا پہلا اور آخری موقع ہے اپنے پسندیدہ فنکار سے ملنے کا اس کیلئے جتنے پیسے بھی لگ جائیں مجھے فرق نہیں پڑتا۔عشنا ضدی سے انداز میں بولی۔
کیا کروگی لی من ہو سے مل کر یہاں کی لڑکیاں جاتی ہیں تو فنکاروں سے گلے لگتی ہیں ہاتھ ملاتی ہیں تصویر کھنچواتی ہیں تم ان میں سے کیا کیا کروگی؟
ہاں آپ لوگ تو مسلم ہیں یہ سب الائو نہیں نا آپ کو؟ ہے جن نے سادگی سے پوچھا۔
کیا مطلب کیا کیا کروں گی؟ تم اگر بی ٹی ایس کی فین میٹنگ ہوتی تو کیا نہ جاتیں؟ اپنی پسند کے فنکاروں سے ملنا انکے ساتھ تصویر کھنچوانق انکو تحفہ دینا جرم ہے کیا ؟ تمہیں موقع ملتا تو تم بھی جاتیں پھر چاہے تمہیں مفت میں کسی اجنبی کے اپارٹمنٹ میں رہنا پڑتا یا ۔ وہ کہتے کہتے ایکدم رک سی گئ۔ فاطمہ کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا۔
کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو روزے میں یوں غصے میں بے قابو ہو کر شیطان کو۔خوش کر رہی ہو تم دونوں اور کچھ نہیں۔
نور نے دونوں کو ڈپٹا۔ عشنا سر جھٹک کر پیر پٹختی اپنے کمرے کی۔جانب بڑھنے لگی۔
میں جاچکی ہوں بی ٹی ایس کی فین میٹنگ میں ۔۔۔ جمن ، شوگا ، جنگ کوک ایک ایک کے ساتھ تصویر ہے میری۔
فاطمہ نے سرد سے انداز میں کہا تو عشنا حیرت سے مڑ کر۔دیکھنے لگی۔عزہ اور نور کا بھی منہ کھلے کا کھلا رہ۔گیا تھا۔ہے جن نے سر جھٹکا۔۔
جبھی عقل آچکی ہے۔ وہ دھیرے سے ہنگل میں بڑ بڑایا۔
اور میں نے ڈیڑھ سو ڈالر خرچ کیئے تھے اپنی سیونگز کا بڑا حصہ انکے لیئے تحائف لینے پر خرچ کیا ان دوگھنٹوں جن میں سے صرف آٹھ منٹ مجھے اپنے پسندیدہ فنکار سے ملنے کیلئے ملے تھے۔ ان دو گھنٹوں خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین آرمی سمجھا تھا میں نے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سور کہاں سے آیا اس میں۔ پورا فلیش بیک دیکھ کر واعظہ جھلا سی گئ۔
بتا رہی ہوں۔ عزہ نے آنسو پونچھے۔
جلدی بتا دو مجھے باتھ روم جانا ہے۔ واعظہ بے چارگی سے بولی۔۔
پہلے مجھے یہ بتائو کیا واقعی فاطمہ بی ٹی ایس کی فین میٹنگ میں گئ تھئ؟ اور اسکے پاس ان سب کے سائن والی البم بھی موجود یے؟
عزہ متجسس تھی۔
ہاں ۔۔ وہ۔۔اسکے لیئے بھی فلیش بیک میں جانا پڑے گا۔ واعظہ بے کہا تو عزہ نے سر ہلا دیا۔
پہلے مجھے سور کہاں سے آگیا اس بی ٹی ایس اور لی منہو کے جھگڑے میں وہ بتائو۔۔۔
واعظہ کو بے چینی ہو رہی تھی۔۔ تجسس سے نہیں۔۔ آہم اسی وجہ سے۔
اطمینان سے بیٹھو واش روم خالی نہیں عشنا نہا رہی ہے دوسرے کمرے کو عروج نے لاک کیا ہوا ہے اب کم ازکم افطار سے پہلے کسی صورت نہیں کھلے گا۔۔
واعظہ کو خود پر بے تحاشہ ترس آیا۔
ایک وقت تھا یہ اپارٹمنٹ پورے دو کمروں کے ساتھ صرف میرا اور ابیہا کا ہوتا تھا۔ ہائے ابیہا کی یاد بھی کن لمحوں میں آئی۔ وہ اداس سئ ہوگئ۔ عزہ قصہ وہیں سے دوبارہ شروع کر چکی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افطار کا وقت ہو چکا تھا وہ سب دسترخوان کے گرد براجمان تھیں۔کھجوریں جن کا پیٹ چاک کرکے ان میں بالائی بھری تھئ ، پکوڑے کٹلس فروٹ چاٹ،مسور کی دال چاول چٹنی سلاد کے ساتھ سجی تھی۔ ایک بڑا سا جگ مکس جوس کا بھرا رکھا تھا۔۔
عزہ کا چہرہ ستا ہوا تھا وہ دانستہ منے لائونج میں کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ نور عشنا فاطمہ الف عروج سب افطارکے وقت کی دعائیں پڑھنے میں مصروف تھیں۔ واعظہ نے پانی کا جگ لا کر دسترخوان پر رکھا۔
ہے جن دزدیدہ نگاہوں سے عزہ کو دیکھ رہا تھا۔
آجائو عزہ افطاری تو کر لو۔ واعظہ نے بلایا تو وہ نفی میں سر ہلا گئ
مجھے بھوک نہیں میرا کونسا روزہ تھا جو افطاری کروں۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
نونا بیانئیے۔ معاف کردیں مجھے۔ ذرا بھی خیال نہیں تھا کہ آپ ۔۔
ہے جن بھی فورا اٹھ کر اسکے سامنے آکھڑا ہوا
ہوگیا افطاری کا وقت۔ نور کی۔نگاہیں گھڑی پر تھیں۔ اس کے کہنے پر عروج عشنا الف بھی افطاری کی۔جانب متوجہ ہوئیں ۔ ایک اور نئے ڈرامے سے قبل افطارئ لازمی تھی آخر کو توانائی درکار تھی ناظرین کو بھی۔
میں نے کچھ بھئ نہیں کہا تمہیں۔ہٹو میرے رستے سے مجھے تمہاری معزرت سے کچھ حاصل نہیں۔
وہ اسے ایک طرف کرکے کمرے کی۔جانب بڑھنا چاہ رہی تھی ہے جن نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
نونا میں بہت شرمندہ ہوں پلیز مجھے معاف کر دیں۔ جو بھی ہوا اس میں میرے ارادے کا عمل دخل نہیں تھا۔
میں نے کہا نا مجھے تم سے شکایت نہیں چھوڑو میراہاتھ۔
وہ جھٹکے سے ہاتھ چھڑا گئ۔ تن فن کرتی کمرے کی۔جانب بڑھتی عزہ کے سامنے واعظہ آگئ۔ اسے سمجھانے والے انداز میں بولی۔
کہا نا میں نے کچھ نہیں ہوتا ۔ بھول چوک معاف ہوتی ہے۔
چالیس دن تک جس جانور کا نام۔لینے سے زبان ناپاک رہتی ہے وہ میں نگل گئ یہ چھوٹی بات ہے؟ عزہ چلا کر کہتی پھر روپڑی۔
تمہیں نہیں پتہ تھا۔ کہ وہ ۔۔۔۔وہ کہتے کہتے رک سی گئ۔
بولو ۔چپ کیوں ہوگئیں نام لو ۔ اپنی باری نام تک زبان پر نہیں لا رہی ہو۔ عزہ تلملا اٹھی اسکے دوغلے معیار پر۔
سور۔ سور سور سور ۔۔ اب خوش۔
واعظہ بھنا کر چلائی۔الف ، عشنا ، نور اور عروج کے چلتے منہ رک گئے چاروں بھونچکا سی بیٹھی اسے دیکھ رہی تھیں۔ عزہ کا بھی تھوڑا سا حیرت سے منہ کھل گیا۔
کہو تو دس بار پورا کہہ دوں بلکہ کہہ دیتی ہوں۔ گنو عشنا۔ میں نام لینے لگی ہوں جانور کا۔ سور سور سور سور سور سور سور سور ہوگئے پورے۔
وہ باقائدہ مڑ کر اس سے پوچھ رہی تھی۔
نہیں آٹھ بار ہوا ہے ابھی صرف۔ عشنا نے ایمانداری سے کہا تو وہ سب باقائدہ اسے کھا جانے والی نگاہوں سے گھورنے لگیں واعظہ بھی دانت پیس کر رہ گئ۔ عشنا نے جلدی سے دوبارہ سر پلیٹ کی جانب جھکا لیا۔
سور کو حرام جانور قرار دیا گیا ہے اس لیئے اسکو اتنا حرام ہونے کی وجہ سے کراہیت سے نام تک لینے سے ہمیں ٹوکا جاتا ہے کیونکہ جو بھی چیز زبان زد عام ہوتی ہے اس کی برائی کراہیت ہمیں کم محسوس ہوتی ہے کہیں کم محسوس کرتے کرتے ہم کراہیت محسوس کریں ہی نا اسلیئے سور کا نام تک لینے سے ہمیں روکا جاتا ہے۔ نام لینے سے زبان ناپاک ہو تو قرآن میں خنزیر کا زکر کیوںکر ہوتا؟
مگر میں نےتو کھا لیا ہے۔۔۔ ۔ وہ پھر رو پڑی۔
ہےجن نے بال نوچ لیئے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا اسکی ہمدردانہ آفرکا یہ نتیجہ نکلے گا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام
جاری ہے۔۔۔۔۔۔