Desi Kimchi Episode 46

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 46

فاطمہ واعظہ بیڈ پر آلتی پالتی مارے بیٹھی بغور عشنا کو ملاحظہ کر رہی تھیں۔۔ عشنا نے اپنا بیگ کھنگالتے سر اٹھا کر دیکھا تو گڑبڑا گئ۔
وہ یہ میرا ہی بیگ ہے۔اس نے صفائی پیش کی تو فاطمہ اور واعظہ نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر دانت پیس کر اکٹھے بولیں۔
تم ہمیں اپنی سچی والی کہانی سنائو گی یا اس 25 ڈگری والے موسم میں گھر سے باہر کھڑا کر دیں تمہیں۔
یہ تڑی فاطمہ نے لگائی تھی۔ ذرا جو عشنا ڈری ہو۔ ایک نگاہ ڈال کر دوبارہ بیگ کھنگالنے لگی۔
اس سے ذیادہ تو میری ڈر گئ تھئ مجھ سے جب۔۔
فاطمہ واعظہ کے کان میں گھسی جوابا اسکی گھوری پر بریک لگا کر چپ ہوکے بیٹھ گئ۔
میں نے اپنے بارے میں سب سچ بتا دیا ہے آپ شائد یقین نہیں کر رہیں میرا۔
عشنا نے دھیرے سے سر اٹھا کر کہا تو واعظہ بھڑک اٹھی
یقین کروں تمہارا؟ نام تک نہیں جانتی میں تمہارا۔ہر بات جھوٹ ہر ڈاکومنٹ جعلی۔ کون ہو تم کہاں کی رہنے والئ ہو ہم کچھ ۔۔۔
۔عشنا نے اسکی بات کاٹ کر سکون سے کہا۔
میں حیدرآباد انڈیا کی رہنے والی ہوں۔۔ یہاں اسکالر شپ پر پڑھنے آئی تومجھے عشنا ملی میرے ساتھ میری ہم جماعت پاکستانی نژاد مسلمان لڑکی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکول کے پہلےدن کلاس کے داخلی دروازے پر سے ہی وہ گھبرائی سی متلاشی نظروں سے مانوس نقوش تلاش کر رہی تھی۔۔سب کے سب چندی آنکھوں اجنبئ زبان بولتے۔
راستہ دو کیا جم کے کھڑی ہو بیچ میں۔
اسکی چھے مہینے کی ہنگل کا کڑا امتحان تھا۔اتنی تیزی سے بولتی اسکو دھکیل کر پرے کرتی وہ چندی آنکھوں والی لڑکی۔جب تک اسکے حواس ترجمہ کر پائےوہ آگے بڑھ چکی تھی جبکہ وہ خود لڑکھڑاکرساتھ ہی پڑے خالی بنچ پرگر سی گئ۔
آپ ٹھیک ہیں؟
نرم مانوس جملے مگر یکسر اجنبی شکل والی وہ لڑکی مسکرا کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھ رہی تھی۔
جی۔ وہ اپنے کندھے پر بیگ درست کرتی شرمندہ سی ہونے لگی ۔
ہائے میرا نام عشنا ہے۔ آشنا نہیں۔ مگر پھر بھی تم میرے ساتھ بھاگ کے آسکتی ہو۔
وہ کہہ کرکھلکھلائی تھی۔ گوری رنگت گالوں میں دونوں جانب پڑتے گڑھے شہد رنگ بال۔ جینز شرٹ میں ملبوس اس لڑکی نے اسکارف بھی گلے میں ڈال رکھا تھا مگر اس کے نقوش اسے قطعی بھارتی نہیں لگے تھے۔ اسکا مزاق سر پر سے گزرنے کی وجہ سے وہ بس ہونقوں کی طرح مسکرا دی۔
آشنا کا نہیں پتہ؟ جان پہچان والے کو کہتے اردومیں۔۔۔
عشنا نے وضاحت کی تو وہ بس سر ہلا گئ۔ عشنا اسے بغور دیکھنے لگی۔
کھلتے ہوئے رنگ کی گھنگھریالے بالوں والی وہ لڑکی کرتی اور جینز میں ملبوس تھی مگر دوپٹہ ندارد تھا
انڈین ہو تم؟ اس نےاندازہ لگایا۔ جوابا اس نے زور وشور سے اثبات میں سر ہلایا۔
اچھا۔ مل کے خوشی ہوئی۔۔ انداز نسبتا مایوسی بھرا تھا۔مگر ہھر اپنی جون میں لوٹ کر بولی
۔ویسے میں پاکستانی ہوں۔
آپ ادھر آجائو ہم اردوبولنے والے لڑکے لڑکیوں کا گروپ ادھر اکٹھے بیٹھتا ہے۔تم شائد نئئ ٹرانسفر اسٹوڈنٹ ہو۔خیر نئے پرانے کیا۔ ہم یہاں کئی مہینوں سے جھک مار رہے مجال ہےکچھ پلے پڑا ہو۔بس ہم آپس میں گپیں ہانک کر مل بیٹھ کرکچھ پڑھ پڑھا لیتے ہیں
وہ لڑکی جو بھی تھی بہت باتونی تھی۔۔اسکا ہاتھ پکڑ کر کلاس کے دائیں جانب بڑھ گئ۔وہ اسکے ساتھ کھنچتی گئ تھی۔
کونے میں دو لڑکے ایک لڑکی بیٹھے باتیں کر رہے تھے ۔ اس نے اسے بیچ میں لے جا کھڑا کیا۔ وہ تینوں چونک کر چپ ہوئے۔
یہ اجے ہے یہ تمہارا ہم وطن ہے۔ یہ ثاقب اور یہ ثریا یہ دونوں بنگالی ہیں۔۔ اور یہ ہے۔۔
اس نے تفصیل سے ان سانولے سلونے لڑکوں کا تعارف کرایا
ہیلو۔ ہائے
انہوں نے گرمجوشی سے اسکا اپنے گروپ میں استقبال کیا تھا۔۔ لڑکی بھی سانولی سی تھی مگر گرمجوشی سے اسکی جانب ہاتھ بڑھا رہی تھئ تبھی عشنا چونکی۔
اور تم ؟ نام تو بتایا ہی نہیں تم نے؟
تم نے موقع ہی نہیں دیا ہوگا اسے بولنے کا؟۔ اجے نے درست اندازہ لگایا۔
عشنا تو مجھے لگتا ہے سوتے میں بھی بولتی ہوگی۔
ثاقب چھیڑ رہا تھا
ایویں۔۔ عشنا منہ پھلا گئ۔
میری دوست کو مت تنگ کرو بھئ۔ ثریا نےلاڈ سے اسکو اپنے ساتھ لگایا۔
تو اور کیا۔ تم لوگ خوامخواہ میں مجھے کہتے میں ذیادہ بولتی میں نے بول بول کر تم سب کی دوستیاں کروائئ ہیب اگرمیں اتنی فرینڈلی نہ ہوتی تو تم سب آج یہاں اکٹھے نہ ہوتےمیرا کمال ہے تم سب کو اکٹھا کیا۔ ورنہ یہ ثاقب اس نے پیچھےاکیلے بیٹھےبیٹھےہی پاس آئوٹ کرجانا تھا اور۔
عشنا نےاپنی کارکردگی جتائی۔
جی جی۔ مائی باپ آپ مہان ہیں۔ اجے نےہاتھ جوڑے اسکی تیز گام روکنےکیلئے۔۔
سر آگئے ہیں۔ سیٹ سنبھال لو سب۔
ثاقب نے کہا تو وہ سب جلدی جلدی اپنی اپنی جگہ سیدھے ہوگئے۔ وہ بھی مسکرا کر عشنا کے ساتھ بیٹھ گئ۔
یہ والے سر خبطئ ہیں۔ اکیلے بولتے رہتے۔ انکو سوال کرنے والے طلبا ء ذیادہ پسند نہیں۔ باقی اچھے ہیں یہ بولتے رہتے ہم باتیں کرتے رہتے۔ بس شور نہ کرو تو یہ اس طرف دیکھتے بھی نہیں۔
دھیمئ آواز میں وہ اسکے کان پر جھکی بولے جا رہی تھی۔
وہ دیکھو۔
اس نے کہنی مار کر متوجہ کیا۔
انکے بالکل آگے والی نشست پربیٹھا وہ چندی آنکھوں والا جوڑا ڈیسک پر نیچے بیٹھ گیا تھا۔۔
اس نے گڑبڑا کرنظرہٹائئ۔
اوئے تم تو بلش کرنے لگیں۔ عشنا ہنس پڑئ۔
گلابو ۔گلابو نام جچتا ہے تم پر وہ کیا گانا تھا گلابو ۔۔عطر گرا دو۔۔
وہ لہک لہک کر گارہی تھی سر کا رخ دوسری جانب تھا۔
سشس ۔۔ اس نے سٹپٹا کر اسے روکنا چاہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسٹوڈیو میں داخل ہوتے ہی اسے ویرانی کا سا احساس ہوا تھا۔ پروڈیوسر گنجے انکل اپنے معاون کے سر پر کھڑے کسی بحث میں الجھے تھے۔ وہ دانستہ انہیں نظر انداز کرتی ریکارڈنگ روم میں چلی آئی۔ وہی ریکارڈنگ روم وہی وہ۔ مگر سب کچھ جیسے بدل چلا تھا۔ اپنا بیگ رکھتے وہ کرسی سنبھالنے لگی جب پروڈیوسر کی گلاس وال سے اس پر نظر پڑی تو معاون کو انتظار کرنے کا کہہ کر وہ دروازہ کھول کر اندر چلے آئے۔
ہیلو مس الف۔کیسی ہیں آپ ۔
انہوں نے مروتا پوچھا جوابا اس نے مروتا بھی جواب نہیں دیا۔ ہیڈ گئیر اٹھا کر سر پر لگانے لگی

آج آپکو اکیلے شو کرنا ہوگا۔ ژیہانگ کا فون آیا تھا ناگزیر وجوہ کی بنا پر وہ آجکا شو نہیں کر سکتا۔ ویسے تو وہ پہلے ہی استعفی دے چکا تھا میری درخواست پر اس ہفتےکا شو کرنے کی حامی بھری تھئ مگر آج اچانک فون آگیا۔
آپ اکیلے سنبھال لیں گی نا ؟ آپکو بھی پتہ ہوگا ژیہانگ سے کافی دوستی ہوگئ تھئ نا آپکی۔
میں سنبھال لوں گئ پہلے بھی تو اکیلے کرتی تھی شو۔
الف کا لہجہ ایکدم تیز اور کھردرا ہوا تو وہ ہونٹ بھینچ کر سر ہلا گئے۔
ٹھیک ہے پھر آپ تیار رہیں۔
وہ کہہ کر رکے نہیں۔
میں سنبھال سکتی ہوں سب اکیلے۔
اس نے بڑ بڑا کر خود کو یقین دلایا تھا جیسے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس میں جگہ ملنا کوریا میں اتنا ہی آسان تھا جتنا سر میں کسی کی چڑھ آنے والی جوں نکالنا۔ پورا سر کھنگالو باریک کنگھی پھر کہیں جا کے اس ننھی مخلوق سے سامنا ہو پاتا۔ ایسے موقعوں پر فاطمہ کی تیزیاں دیکھنے لائق ہوتی تھیں
وہ آہجومہ اپنے بچے کا ہاتھ تھامتی اٹھیں تو سب کوریائیوں کو شکست فاش دیتے فاطمہ اتنی تیزی سے بچے کی چھوڑی جگہ بیٹھئ کہ اس نشست پر۔بری نگاہ گاڑے اس ہائی اسکولر کا منہ کھلا رہ گیا تھا۔ اس نے سر جھٹک کر برابر والی نشست پر بیٹھنا چاہا تب تک وہ فون میں الجھی واعظہ کو کھینچ کر پاس بٹھا چکی تھی۔
فون کان سےلگائےبات کرتی واعظہ نے صورت حال سمجھنے کی کوشش کی پھر کندھے اچکا کر بات سننے لگی۔
جی ۔ جی۔ اچھا۔ نہیں ہم بس وہیں آرہے ہیں۔
جی۔میری دوست ہے میرے ساتھ ہی ہے۔ فاطمہ۔ اسکی بولتے بولتے فاطمہ پر نگاہ گئ۔ حلق میں دل اچھل آیا۔۔
گھر گھر کر بادل آرہے تھے۔ بس کی کھڑکی سے ندیدوں کی طرح سر باہر نکال کر دیکھتی ہوئی فاطمہ کو اسکی پونی سے کھینچ کر ہی اندر کیا تھا واعظہ نے۔ فون بند کرکے بیگ میں رکھتی وہ بھنا گئ
مانا خالی ہی ہے مگر یہ استخوانی پنجرہ جو گردن پر سجا رکھا نا اسکا سرمہ میرے کسی کام کا نہیں ہے۔ سر اندر کرکے بیٹھو۔
واعظہ کی ڈانٹ اسکے سولہ سالہ تعلیمی کیرئر کا امتحان لے لیتی تھئ۔
استخوانی پنجرہ۔۔۔ وہ سوالیہ نشان ہوئئ۔
استخوان ہڈی کو کہتے ۔۔ واعظہ بدمزہ سی ہوئئ۔
اوہ ۔ فاطمہ جیسے سمجھ گئ زور و شور سے سر ہلایا۔
میرے سر کو استخوانی پنجرہ کہہ رہی ہو۔ مگر پنجرے میں کچھ تو ہے۔ محسوس ہوتا ہےمجھے اکثر خطرے کی گھنٹی سنائی دیتی ۔محتاط ہو جائو فاطمہ آگے راستہ خطرناک ہے۔
وہ ڈرامائی سے انداز میں آنکھیں مٹکاتی بول رہیتھی۔
تو محتاط کیوں نہیں ہوتیں تم؟ نئے سرے سے کسی نئی مشکل میں پھنستے وقت نہیں بجا کرتی یا خراب ہے۔
واعظہ بھنائی۔ مگر فاطمہ پر اثر ندارد تھا۔
جب بڑی مشکل ہوتی ہے تب بجتی ہے۔جیسے۔۔
اس نے سوچنا چاہا مگر کوئی ماضی قریب کی مثال سوجھی ہی نہیں۔ سر جھٹک کر بولی۔
تازہ ترین ابھی بج رہی ہے۔۔۔۔ اس نے مڑ کر واعظہ کی صورت تکی جس پر بیزاری ہی بیزاری تھی۔
یقینا وہ گھنٹئ کا مرکز پوچھنے نہیں والی تھی سو خود ہی بتانا پڑا اسے
ہم عشنا کو دوبارہ گھر میں جگہ دے کر غلطی کر رہے ہیں مجھے پکا لگ رہا ہے۔۔۔
اس نے کہہ کر سانس روک لی۔ واعظہ کا ردعمل ٹھس پھس سا تھا۔ ہلکا سا منہ بنا کر اس نے رخ پھیرا
مار لی بونگئ اب چپ ہوجائو۔
واعظہ کی بات پر اسکا منہ اتر گیا۔ اپنی طرف سے اس نے کافی دھماکے دار بات کی تھی۔
ہے ہی سڑیل۔
وہ منہ پھیر کر بڑبڑائی مگر اتنی آواز میں کہ اسکے برابر کندھے سے کندھا جوڑے بیٹھئ واعظہ کی سماعتیں محفوظ نہ رہیں۔
انکا اسٹاپ آچکا تھا ۔بس رکتے ہی سرعت سے واعظہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ فاطمہ کو بھی تقلید کرنی پڑی۔۔
تیز تیز قدم اٹھاتئ واعظہ کے پیچھے وہ لڑھکتی آرہی تھی۔
ارے۔ کیا ہوا ہے بھاگ کیوں رہی ہو۔ ٹھہروتو۔
فاطمہ نے زبان سے روکنا چاہا مگر اسکی رفتار نہ کم ہوئی سو بھاگ کےاسکے آگے ہوئی۔
دیکھو میری بات سنو۔مومن ایک سوراخ سے دوسری دفعہ نہیں ڈسا جاتا ہے۔مجھے واقعی لگتا ہے ہمیں عشنا پر دوبارہ اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔بلکہ وہ کیا نام بتایا اس نے۔
فاطمہ سوچ میں پڑی۔
میں مومن نہیں ہوں۔
واعظہ سہولت سے کہہ کر ایک جانب ہوکر آگے چل پڑی۔
ارے۔فاطمہ پوری گھوم گئ۔پھر لپک کر دوبارہ واعظہ کے آگے آکر اسکا راستہ روک لیا۔
یار بات تو سنو اتنئ لڑکیاں اکٹھے رہ رہی رہیں ہمیں یوں ایک انجان بلکہ ہندوستانی لڑکی کو گھر میں جگہ نہیں دینی چاہیئےجبکہ ہمیں ایک بار ہاتھ لگ چکے ہیں۔۔
اب اکٹھےاتنی لڑکیاں نہیں رہنے والیں۔ میں نے سب کو کہہ دیا اپنا انتظام کر لیں۔ میں لیزنہیں بڑھوا رہی اپارٹمنٹ کی۔
سکون سے جواب دے کر وہ پھر فاطمہ کے دائیں جانب سے ہو کر آگے بڑھی۔۔۔ اسکی بات پرچند لمحے ہکا بکا رہنے کے بعد وہ بے یقینی سے پلٹی ۔واعظہ کئی قدم آگے بڑھ چکی تھی وہ پھر بھاگ کےآگےآئی اسکو کندھوں سے پکڑ کر جزباتی انداز میں جھنجھوڑ ڈالا۔
کیا۔ یہ کیا کہہ رہی ہو۔میں کہاں جائوں گی؟ میرا کوریا میں تمہارے سوا ہے ہی کون۔۔
شوہر ہے نا۔ میں نے تمہاری شادی کروادی ہے اب اپنے شوہر کے گھر میں دل لگائو۔
واعظہ ذرا جو متاثر ہوئئ ہو اسکی جزباتیت سے۔۔
وہ گائوں گیا ہوا ہےبتایا تو ہے اکیلے گھر میں ڈر لگتا مجھے میں نہیں جاسکتی وہاں۔
اس نے منمنا کر اپنی مجبوری بیان کی۔
اچھا چلو دفتر آگیا اندر چلیں۔ ۔ واعظہ نے سکون سے سر ہلایا اور اس بار فاطمہ کے بائیں جانب سے نکل کر آگے بڑھی۔ وہ چلتے ہوئے اب دفتر کے احاطے میں پہنچ چکی تھیں۔ بڑا سا سنگی احاطہ آگے دفتر کی عمارت کا داخلی حصہ۔۔۔ چکنے فرش پر ہیل سے اٹکتی فاطمہ کو چند لمحے لگ گئے مڑنے میں اس میں بھی وہ ذرا سا پھسل سی گئ۔قدم سنبھال کر سیدھی ہوئئ۔
سنگدل۔۔ اوفوہ۔۔ ۔ اسکا راستہ روکنے کیلئےوہ دائیں جانب سے مڑ چکی تھی۔ واعظہ ندارد جھلا کر بائیں جانب مڑی تو سامنے سے آتے استخوانی کھمبے سے ٹکرا کر کئی قدم پیچھے ہونا پڑ گیا۔
آہ۔۔پیشانی سہلاتے ہوئے وہ کراہ کی آواز پر چونکی
یہ اسکی آہ ہرگز نہ تھی۔اس نے سر اٹھایا تو مقابل کو اپنی ناک سہلاتے پایا۔ خون کی پتلی سی لکیر اسکے لبوں تک آرہی تھی۔
اوہ آئی ایم سو۔۔
اس کےمعزرت کرتے الفاظ کہیں گم گئے۔
ایک ہاتھ سے نکسیر روکنے کے چکر میں ناک سہلاتے اس لڑکے کا دوسرا ہاتھ ایک اسٹریپ والا گہرا میرون پرس تھامےتھا اس نے اپنی کلائی میں اسٹریپ کا بل دے رکھا تھا۔
لمحہ لگا تھا فاطمہ کو بیگ پہچاننے میں اور دوسرے لمحے وہ اسکی کلائی موڑ کر کمر کے پیچھے لگا چکی تھی۔اس نے گھمایا پھرایا اسٹریپ اور بیگ ہوا میں اڑے۔جھماکے سے کلائی چھوڑ کر اس نے دائو لگاکر اسے گھوما دیا تھا۔وہ ایکچکر کھا کر گھٹنے کے بل زمین پر آیا۔ دوسرا گھٹنا زمین پر لگنے سے بچانے کو اسے نکسیر روکنے کیلئے مصروف ہاتھ کا استعمال کرنا پڑا۔
اکڑوں بیٹھ کر حواس بحال ہوئے تو اس نے سوچنا چاہا اسکے ساتھ ہوا کیا ہے۔۔مڑ کر پیچھے دیکھا تو وہ لڑکی بلیوں اچھلتے ہوئے اپنے بیگ کو ٹٹول ٹٹول کر اسکے ہر طرح سے صحیح و سالم ہونےکا یقین کر رہی تھی۔ مطمئن ہو کر باقائدہ بیگ کو چوما اب اسکو کھول کر دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی ٹھرکی توندل انکل کی ہمراہی میں سہج سہج کر چلتے وہ اس وقت کو کوس رہی تھی جب ہیل پہننے کا ارادہ کیا تھا۔ایک تو پوری عمارت میں ایسے چکنے ٹائلز تھے کہ دور سے دیکھو تو لگے پانی پڑا ہوا ہے۔ وہ سہج سہج کر قدموں پر نظریں گاڑے چل رہی تھی ۔ وہ لڑکا بھی اسکے ہمراہ تھا۔ اسکے برعکس اسکی ساری توجہ سر گھما گھما کر عمارت کا نقشہ دیکھنے پر مرکوز تھئ۔ یک رویہ کمروں کی یہ طویل راہداری تھی۔جسکو گزار کر وہ نسبتا کھلے حصے میں چلے آئےتھے۔ ایک جانب گلاس وال تھی جس سے سڑک نظر آرہی تھی دوسری جانب ریلنگ جس سے نیچے کی منزلیں اس پر چہل پہل رونق دیکھی جا سکتی تھی مگر اس منزل پر ہو کا عالم تھا۔
یہاں اس منزل پر اسٹوڈیو اور اس جانب سیٹس لگے ہیں۔
انہوں نے اشارے کرتے ہوئے انگریزی میں بتایا۔۔۔
اس جانب میک اپ رومز ہیں۔
آپ لوگوں کا سارا کام یہاں سیٹ پر ہوگا۔وہ انہیں لیکر ایک ہال کمرے کے دروازے پر لے آئے۔ ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا تو جیسے ایک طلسم کدہ کا دروازہ کھل گیا ہو۔ ۔اندر ماحول ہی کچھ اور تھا۔پورا محل نما گھر بنا ہوا تھا دو منزلہ جس پر کیمرے لائٹیں سیٹ کی جارہی تھیں۔ لوگ ہی لوگ آوازیں ہی آوازیں۔۔۔
وہ لڑکا باقائدہ منہ کھولے ہوئےوائو وائوکرتا دیکھ رہا تھا۔
کیسے پینڈوئوں کی طرح منہ کھول کر دیکھ رہا۔
پورےہال پر طائرانہ نگاہ ڈال کر اپنا کھلا منہ بند کرتے اس نے اپنے اس کام کے ساتھی کو ناگواری سے دیکھا جو منہ کھولے دیکھ رہا تھا۔
یہ ہمارا سیٹ ہے ۔یہ شوٹ 90 دن کی ہے ۔ ابھی عربی فنکار میک اپ روم میں ہیں آتے ہیں تو ان سے آپ دونوں کا۔تعارف کروادیتا ہوں۔
اس چندی آنکھوں والے انکے باس نے مڑ کر۔جیسے انکی تسلی دئ۔
جی۔ دونوں نے اکٹھے سر ہلایا تھا۔تبھی ایک اسپاٹ بوائےدو پلندے کاغزوں کے اور ایک شاپر لے آیا۔ بڑے اہتمام سے انہوں نے پلندے آگے بڑھائے۔
چونکہ بھاری بڑے لگ رہے تھے اس نے تکلفا بھی ہاتھ نہیں بڑھایا۔ اس۔لڑکے نے آگے بڑھ کر تھامنا چاہا انہوں نے نرمی سے رخ اسکی جانب پھیر لیا۔
یہ اسکرپٹ ہے۔اسے آپ پڑھ لیں۔عربی کورین دونوں طرح کا ہے۔ آپکو سین 13 اور 14 لالا کو یاد کروانے ہیں ۔
انہوں نے فاطمہ کو اسکرپٹ بڑھائے تھے۔ اس نے جھجکتے ہوئے ہاتھ بڑھایا۔ اٹھانے میں اسکا اندازہ چوک گیا۔ وہ پلندے پتھر کی سلوں جتنے وزنی تھے۔ اسکی شکل جو بنی تھی اس پر۔لڑکے نے منہ پھیر کر مسکراہٹ چھپائی تھی۔
جبکہ وہ اب شاپرکھنگال رہے تھے۔
یہ کارڈز آپ دونوں کے ہیں۔۔ان کو احتیاط سے رکھیئے گا جب تک کمپنی کی جانب سے ایمپلائی کارڈ نہیں آتے ان کارڈز کے بنا آپکو اس سیٹ کیا اس ڈیپارٹمنٹ میں بھی گھسنے نہیں دیا جائے گا۔
اور۔۔۔ ان توندی انکل نے انکو ایمپلائی کارڈز کی طرز کے کارڈ اور ہار تھماتے ہوئے اسکی روح فنا کر ڈالی تھی۔
کہہ رہے تھے۔
عربی لہجے میں کورین بولنا بہت مشکل کام ہے۔ ہم ڈبنگ کروائیں گے لیکن پھر بھی الفاظ بولنے تو درست پڑیں گے نا۔ ایسا کیجئے گا۔ ڈبنگ کیلئے آڈیشن دے دیجئے گا۔ یہاں روم 67 میں ہو رہے ہیں۔ کورین نا سہی عربی ڈبنگ میں آپکی آواز کام آجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سامنے شوٹنگ شروع ہو چکی تھی۔معروف کورین ادھیڑ عمر اداکار اپنا منظر عکس بند کروا رہے تھے۔ وہ ایک کونے میں بیٹھئ جمائئ پر جمائئ لیتے ہوئے اسکرپٹ پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
آد۔۔ راخ۔۔ لح۔ خالا۔۔ دخا۔۔
عربی کو بنا اعراب پڑھنے کا نا شوق تھا نا تجربہ۔ پورے جملے میں اسے خود ہی سمجھ نہ آیا کہ لفظ بنانا کیسے ہے۔
مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ اس سے پہلے کہ یہ لوگ مجھے دھکے دے کر نکالیں میں خود عزت سے انکار کر دیتی ہوں۔
اس نے اسکرپٹ بند کرتے ہوئے مصمم ارادہ کیا پھر اٹھ کھڑی ہوئی۔
تبھی سامنے سے دو کپ اٹھائے خراماں خراماں چلتے ہوئے وہ اسکے سامنے آکھڑا ہوا۔
یہ لیجئئےکافی۔۔ سر نے بھجوائی ہے۔ کہہ رہے تھے پہلا دن ہے ذیادہ اسٹریس مت لیں۔
وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ فاطمہ نے ایک نگاہ دیکھا پھر کپ تھام کر دوبارہ بیٹھ گئ۔ کافئ پی کر بھی ریزائن دیا جاسکتا تھا۔سر پھٹنے کو تھا ویسے بھی۔
مے آئی۔
وہ اسکے برابر کرسی گھسیٹ کر بیٹھنا چاہ رہا تھا مگر اجازت طلب کر رہا تھا اس نےسر ہلا دیا ۔تو شکریہ کہہ کر اس نے کرسی تھوڑا سا گھسیٹ کر دور مگر اسکے مقابل کرلی۔
آپکی کوئی چیز گمی تو نہیں۔ اس نے یقینا بات بڑھانے کو پوچھا تھا۔
اسکی بات پر فاطمہ چونکی۔
اگر گمی بھی تو مجھے یاد کہاں ہونا۔ وہ سوچ کے رہ گئ۔

دراصل یہ بیگ مجھے باہر احاطے میں کرسیوں کے پاس پڑا ملا تھا۔ میں نے اسکو گارڈ کو دینا چاہا تو اس نے صاف کہا کہ عمارت کے اندر کے ہم ذمہ دار ہیں باہر سے کچھ ملے تو اسے کوریا کے گمشدہ اشیاء کے مرکز میں جمع کرائیں۔۔۔ اس میں موبائل بھی تھامگر بیٹری چارج نہیں تھی۔ اسکو چارج کرکے میں نے کوشش کی رابطہ کرنے کی مگرناکام رہا۔ صبح مجھے واعظہ کی کال آئی وہ اس نمبر پر رابطے کی کوشش کر رہی تھیں تو ان سے بات ہوئی میری۔
کیا؟ وہ چلا ئی۔۔
واعظہ کو پتہ تھا میرا بیگ مل گیا ہے۔۔
جی وہ۔ وہ اسکے ردعمل پر گڑبڑا گیا۔
حد ہے۔ اس لڑکی کی تو۔ مجھے بتا تک نہیں۔ وہ کپ سائڈ میں رکھ کر فون بیگ سے نکالنے لگی۔ جھٹ کال ملائی فون اٹھاتے ہی شروع ہوگئ
واعظہ کی بچی تمہیں پتہ تھا میرا بیگ مل گیا مجھے بتایا تک نہیں۔ میں نے بلا وجہ ایک شریف آدمی پر دائو آزما دیا ناک پھوٹ گئ ابھی بھی سرخ ناک لیئے بیٹھا ہے میرے سامنے۔
اپنے اس تعارف پر اسے کافی کا گھونٹ بھرتےاچھو سا لگا تھا
آگے سے واعظہ کہہ رہی تھی۔
وہ سب چھوڑو یہ بتائو جاب چھوڑی کہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عزہ اپنی دھن میں اسٹاپ پر سے خراماں خراماں چلتی ۔ بیگ کندھے پر درست کرتی گھر گھر کر آتے بادلوں اور سرد ہوا کا مزا لیتی اپنے گھر کی جانب جاتی گلی میں مڑی ہی تھی کہ سامنے سے ہوا سے ہلکا ہلکا اڑتا خوب چوڑا گھیر دارسیاہ خیمہ سنسنان گلی میں اپنی جانب بڑھتا دیکھا تو لمحہ بھر کو لگا دل رک ہی گیا ہے۔
بب بھوت۔
جان چھوڑتے لڑکھڑاتے قدموں سے اس نے پیچھے کو الٹے قدم اٹھائے۔ خیمے کی رفتار بڑھی اڑتا اڑتا مزید قریب آیا۔
وہ خوفزدہ ہو کر گر سی گئ
لاحول ولا قوت۔
اس کے ورد کا اس مخلوق پر اثر نہ تھا۔
یہ بھوت نہیں تو کیا خ خلائی مخلوق ۔۔ اس نے آنکھیں مئچ لیں
یا اللہ مجھ سے ایسی کیا خطا سرزد ہوئی پہلے اغوا ہوئی اب یہ خلائی مخلوق۔۔۔۔۔
آنکھیں میچنے کے باوجود بھی کسی نے اسکے جسم پر نا دانت گاڑے نا ہی کوئی الیکٹرانک ڈیواس چپکائی تو اس نے ذرا سی آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہا
وہ خیمہ اسے کالی سی کوئی چیز پکڑا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *