ایک تھی سارا۔۔۔مختصر افسانہ

Afsanay (short urdu stories)

 چودہ اگست کے روز مینار پاکستان پر ٹک ٹاک بنانے کیلیئے آئی لڑکی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک۔ چار سو مردوں نے گھیر لیا کئی گھنٹے تک زدو کوب کرتے رہے لڑکی کے کپڑے پھاڑ دیئے۔ پولیس کو اطلاع دینے کے باوجود پولیس آدھے گھنٹے تاخیر سے پہنچی۔لڑکی کا نام سارا بتایا جاتا ہے۔۔ کہا جاتا ہے کہ لڑکی نے خود اپنے ٹک ٹاک اکائونٹ سے اپنے پرستاروں کو مینار پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔پہلے انکےساتھ تصاویر بنواتی رہی فلائنگ کسز بھی بھیجتی رہی جب ہجوم بڑھنے لگا تو لوگ قابو سے باہر ہونے لگے۔ لڑکی کو بانہوں میں لیئے جو لڑکا کھڑا ہے وہ اس لڑکی کا بوائے فرینڈ ہے اور اسکا نام ۔۔۔۔

اف۔اس نے

ویڈیو بند کر دی۔اس لڑکی کی مجمعے کے درمیان پھنسنے اور اسکا لباس تار تار ہونے کی مکمل ویڈیو بنا سنسر کیئے لگائے وہ جو کوئی بھی یو ٹیوبر تھا سنسنی خیز انداز میں واقعہ بیان کر رہا تھا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ چٹپٹے انداز میں چسکے لے لیکر بتا رہا تھا۔ اس انسانیت سوز واقعے میں بھی دلچسپی اور سنسنی کا پہلو ڈھونڈ لیا تھا۔

اس نے تبصرے کھولے تو کوئی لڑکی کو لعن طعن کر رہا تھا کوئی اسے مجمعے میں جانے کے اسلامی آداب سکھا رہا تھا کسی کو ویڈیو میں کوئی چسکے دار منظر نظر آیا تھا تو کوئی اس ٹک ٹاکر کو سبق ملنے کی وعید دے رہا تھا۔ایک نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ پبلسٹی اسٹنٹ ہے۔ ساتھ ہی اسکی ٹک ٹاک ویڈیوز کے اسکرین شاٹس تھے۔جن میں ریمبو نامی اسکا بوائے فرینڈ اسکے ساتھ بے تکلفی سے چھیڑ خانی کر رہا تھا۔ 

اسکی ساری ہمدردیاں رخصت ہونے لگیں۔

توبہ ہے یہ سب کرتی پھری ہے جبھی تو لوگوں کو موقع ملا۔ اور بھی تو ہزاروں لڑکیاں روز گھروں سے نکلتی ہیں پارکوں میں جاتی ہیں محرم ساتھ ہوتا ہے جبھی انکے ساتھ یہ سب کرنے کی ہمت نہیں پڑتئ۔ میں بھی  خود کبھئ بے حجاب باہر نہیں گئ مگر حجاب میں ہونے کی وجہ سے کبھی کسی ہمت بھی نہیں پڑی میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی حجاب والیوں کے پردے کی حفاظت بھی خدا کرتا ہے۔ 

اس نے یہی سب لکھ ڈالا۔ یہ کمنٹ کرکے اسے یک گونہ سکون ملا تھا۔ 

کہاں تو دو دن اس نے ہر خبر ہر ویڈیو ہر پوسٹ کو تلاشا تھا اس لڑکی کے غم کو دل سے محسوس کیا روئی بھی مگر جب ناصر امین اور انوار الحسان کے سامنے اسے کیمرے پر اپنا چہرہ دکھاتے اور سب واقعہ کی تفصیل بتاتے سنا تو اسکی رائے بدل سی گئ۔کوئی لڑکی اتنی ڈھیٹ کیسے ہوسکتی ہے کہ اتنا سب کچھ ہو جائے اسکے بعد ہمت سے کیمرے کے سامنے انٹرویو دے۔یقینا اسکو اب شہرت کی خواہش ہے۔ اس نے کمنٹ کھول کر پڑھے تو اکثریت کی رائے اس سے ملتی جلتی ہی تھی۔۔۔

کیا ہر وقت موبائل پر لگی رہتی ہو امی اکیلی لگی ہوئی ہیں کچن میں روٹی ہی ڈال دو جا کے۔ 

بھیا نے اسکے کمرے میں آکر ٹوکا تو وہ سٹپٹا کر موبائل رکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

جی بس جا رہی تھی آٹا میں ہی گوندھ کر آئی ہوں۔ اس نے صفائی پیش کرنی چاہی جوابا وہ ہلکے سے ہنکارہ بھر کے واپس ہو لیئے۔ وہ جلدی جلدی سر پر دوپٹہ رکھتی کچن میں چلی آئی۔ امی نے پہلی روٹی ہی ڈالی تھی۔ اس نے انکو آرام کی ہدایت کرتے ہوئے اندر بھیجا باقی روٹیاں خود پکانے لگی۔ 

قیامت کی نشانیاں ہیں یہ ٹک ٹاکرز جانے خود کو کیا سمجھتی ہیں بے غیرت ایک تو اپنا تماشا بنا لیا اوپر سے پاکستان کو بدنام کرتی پھر رہی ہے۔ کوئی شریف بی بی ہوتی منہ چھپا لیتی خود کشی کر لیتی۔ اسکی ڈھٹائی دیکھو دھڑلے سے سب کو اکٹھا کر کے انٹرویو بھی دیتی پھر رہی ہے۔ 

ابا غصے میں اونچا اونچا بول رہے تھے۔ بھیا کا انداز بھی تائیدی تھا۔ خبروں میں یقینا اسی خبر کا تذکرہ ہو رہا تھا دونوں باپ بیٹا خوب تائو کھا رہے تھے۔ وہ کچن تک با آسانی انکا حرف حرف سن رہی تھی اور متفق بھی ہو رہی تھی۔ واقعی ان ٹاک ٹاک والیوں کو بس شہرت چاہیئے۔ چاہے جیسے بھی سہی۔ اس نے سر جھٹکا۔ 

اللہ ہر بچی کا پردہ رکھے جانے کون بے غیرت تھے جیسی بھی تھی بچی اس کا دوپٹہ چھینتے بہت ظلم کمایا انہوں نے۔ 

امی گلوگیر لہجے میں کہہ رہی تھیں۔ 

اتنی بھئ مظلوم نہیں۔ اتنے ٹک ٹاک پر فالورز کما لیئے اس نے پہلے کوئی نام بھی نہیں جانتا تھا اب سب میں مشہور ہو گئ ہے بس یہی سب تو چاہیئے ہوتا ہے ان بے حمیت لڑکیوں کو۔یہ  فاحشائیں اپنا جسم دکھا کر پیسے کماتی ہیں۔۔ 

بھیا تنفر سے بول رہے تھے۔ وہ روٹیاں پکا کر ہاٹ پاٹ لیئے کمرے میں آئی تو ایکدم چپ سے ہوگئے امی نے بھی بات بدل دی

چلو دفع کرو کھانا کھائو تم لوگ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ رات کو پھر اطمینان سے سب کاموں سے فارغ ہو کر فیس بک استعمال کرنے لگی۔ ہر دوسرا صفحہ یہی سب لگا رہا تھا کوئی ویڈیوز لگا رہا کوئی مضحکہ خیز خاکے۔ 

وہ دیکھیں کیمرہ آپکے ساتھ چھوٹا سا مزاق کیا گیا ہے۔ 

اس لڑکی کی نازیبا تصاویر اور سر پر دوپٹہ رکھ کر انٹرویو دیتے وقت کی تصاویر جوڑ کر نت نئے مزاحیہ خاکے بنائے جا رہے تھے۔

بس اسے شہرت چاہیئے تو یہ سب بھی تو بار بار اسی کی بات کر کرکے اسے مشہور کر بھی تو رہے ہیں۔ایسے لوگوں کو مکمل اگنور کرنا چاہیئے۔ وہ یہی تو چاہ رہی ہے سب بار بار اسکا ذکر کریں اسے مشہور کریں ۔۔ 

اس نے یہی کمنٹ کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے پچاس لائکس آگئے۔کئی لوگوں نے اسکی رائے سے اتفاق بھی کیا۔ 

اس کی پسندیدہ مصنفہ نے اپنی انسٹا گرام بھر رکھی تھی اس لڑکی کے خلاف پوسٹس سے کہیں قرآن کا حوالہ تھا کہ کوئی خبر لے کر آئے تو پہلے خوب تحقیق کر لیا کرو والی آیت۔ اس نے وہ محفوظ کر لی۔واقعی اس لڑکی کے ساتھ ہوئے اس واقعے کی تفصیل سنے بناسب نے ہمدردی کر ڈالی۔ مردوں کو درندہ اور نجانے کیا کیا کہہ ڈالا۔ یہ بھی تو بہتان طرازی میں آتا ہے۔ اس نے سوچا۔۔ بہتان کے بارے میں بھی تو قرآن کچھ کہتا ہوگا ۔۔اسے جانے کیوں خیال آیا۔اس نے سر جھٹکا۔۔ اور موبائل بند کرکے رکھ دیا۔ 

توبہ آج تو کچھ بھی اچھا دیکھنے کو ہے ہی نہیں بس اس لڑکی پر سب باتیں کیئے جارہے۔فضول۔۔ 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرخ آسمان پتھریلی زمین وہ ننگے پائوں کسی میدان میں کھڑی تھی۔ اسکے گرد عجیب شور تھا فغاں تھی آہیں تھیں۔ لوگوں کا ہجوم تھا اور وہ اکیلی ان میں کھڑی تھی۔ ارد گرد اسکے سب مرد ہی مرد جنکے کندھے ننگے تھےاپنے ناخنوں سے اپنا ہی گوشت ادھیڑ رہے تھے۔  گردنوں میں طوق تھے جن سے انکی گردنیں اوپر کو سر  پشت کی جانب جھک رہے تھے۔  اپنا چہرہ خود پیٹتے دو قدم بڑھتے اپنی لمبی ہوتی زبان میں الجھ کر گرتے خونم خون ہوتے۔ اپنے ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ کاٹ کر گوشت الگ کرتے ۔۔۔ اس نے خوفزدہ سا ہو کر اپنے گرد دیکھا۔ وہ اکیلی اس ہجوم بیکراں میں تھی۔ سب رو رہے تھے فغاں کر رہے تھے

ہائے ہم ظالم تھے۔ ہائے ہم نے خود پر ظلم کیا۔ 

روتے چیختے اس ہجوم سے اسے وحشت سی ہونے لگی۔ بےساختہ اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ ڈالے۔ اس نے مڑ کر دیکھنا چاہا تو دور دور تک اسے مرد ہی مرد نظر آئے

چار سو چار ہزار یا شائد چار لاکھ۔ 

وہ ہوش کھونے لگی۔ پاس سے گزرتے کسی مرد نے اپنے پیروں میں الجھتی زبان کو جھٹکا دے کر کندھے پر ڈالا تو ایک بھاری ضرب اسکے چہرے پر لگی۔ 

یہ کیا ہو رہا ہے کونسی جگہ ہے یہ میں کیوں ہوں یہاں۔ 

وہ پاگلوں کی طرح ایک ایک کو روک کر پوچھنے لگی۔اسے جواب دینے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔ان پر اپنی ہی آہوں کا بوجھ تھا۔ 

قیامت آگئ ہے۔ پاس سے گزرتے اس نوجوان نے اسکی بے چینی دیکھتے نگاہ جھکا کر دھیرے سے بتایا۔ 

کیا؟۔ وہ حیرانی سے چیخ پڑی۔ 

کب کب آئی قیامت۔ابھی تو۔۔ 

اس کی بات سننے کا جیسے وقت نہ تھا اسکے پاس۔ سر جھکائے آگے بڑھا۔۔

وہ حیران پریشان سی دیکھ رہی تھی۔ اتنے بڑے ہجوم میں کوئی اس سے ٹکرایا بھی نہ تھا۔سب کے اپنے درد تھے اپنی چیخیں۔ مگر اسے سمجھ نہ آیا وہ یہاں کیوں تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر دوڑ کر اسی نوجوان کو جالیا۔۔ 

یہ کون لوگ ہیں کہاں جا رہے ہیں۔۔ انکی ایسی حالت کیوں ہے۔ 

اس نوجوان نے رک کر ایک نظر ہجوم پر ڈالی ۔۔ 

ایک اور منظر اسکے ذہن میں تازہ ہوا تھا جب یہی سب مانوس چہرے ہنس رہے تھے کھلکھلا رہے تھے اپنی طاقت کے زعم کے نشے میں چور۔آج خود کو اپنے ہی دانتوں سے خود بھنبھوڑتے۔ 

یہ سب ظالم ہیں۔دنیا میں اپنے اعمال سے بے خبر اپنے وجود پر متکبرہو کر ایک لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی انہوں۔ اسکے کپڑے پھاڑ دیئے تھے اسکو جس جس جگہ ہاتھ لگایا اسکی سزا کے طور پر اپنا ہاتھ خود ادھیڑ رہے ہیں۔ 

وہ نرم دل انسان ان سب کے درد پر خود بھی رو رہا تھا۔

اور تم ۔۔ اس نے غور سے اسے دیکھا۔ نا تو اسکی زبان لمبی تھی نا ہی وہ ان سب کی طرح اپنے آپ کو بھنبھوڑ رہا تھا۔مگر وہ انکے ساتھ اپنے انجام کو جا رہا تھا کیوں؟؟؟

میں۔ میں ان میں سے نہیں تھا۔ میں اور میرے دوست وہاں موجود ضرور تھے مگر ہم بس دیکھنے کے گناہگار ہوئے۔۔۔کاش ہم روکنے والوں میں سے ہو جاتے۔۔۔۔۔ ہم روکنے کی ہمت نہ کرسکے۔

وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا کر رو دیا۔ 

مگر وہ لڑکی تو ٹک ٹاکر تھئ۔۔ اسکے ساتھ ہوئے پر اتنے سارے مجرم کیسے ہوگئے۔ 

اس نے کہنا چاہا۔ وہ بے تابی سے بات کاٹ گیا۔۔

ان سب کے اعمال اسکی معافی پر ٹکے ہیں۔ اسی ٹک ٹاکر کی۔ یہ دنیا کا نظام نہیں یہ قیامت کی گھڑی ہے یہاں ہر شخص اپنے کیئے کا بدلہ پائے گا۔اسکی چھوٹ اس بات پر نہیں ہو پائے گی کہ اس نے جس پر ظلم کیا وہ کتنا متقی تھا۔ اس ظلم کا بوجھ اٹھانے والی کے اختیار میں ہے ان سب کو معاف کرے نہ کرے۔۔۔ اور تم تم نے اب تک اپنا محاسبہ نہ کیا اتنے مردوں کے بیچ ایک تم کیوں کھڑی ہو کیا تم اس لڑکی کو بے لباس کرنے والوں میں سے نہ ہو کر بھی مجرم کیوں قرار پائی ہو؟؟؟؟؟؟؟؟

اس کے چلانے پر وہ سناٹے میں آگئ۔ وہ کیوں تھی یہاں؟؟؟؟؟ اور اسکے اپنے کہاں تھے۔۔؟؟ اس نے بےتاب نگاہوں سے چاروں اطراف دیکھا۔ لوگوں کا ہجوم کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے بے تاب ہو کر ہجوم چیرنا شروع کیا۔۔ 

امی۔۔۔ ابا۔۔۔۔۔۔ بھیا۔۔۔ 

وہ حلق کے بل چلا رہی تھی۔ مگر ان سب اجنبیوں میں کوئی ایک شناسا نہ تھا۔

امی ابا۔۔ 

اس نے لوگوں کو دھکے دیئے ان کو دھکیل دھکیل کر راستہ بنایا انکی لمبی زبانوں سے اٹک کر دو بار گری انکے گلے میں لٹکے طوق چوٹ کھائی انکی زنجیریوں سے اسکی ہتھیلیاں انگلیاں سب زخمی ہو چلی تھیں ۔ وہ تھک کے گھٹنوں کے بل گری۔۔

یا خدا میرا کیا قصور ہے۔۔ تڑپ کر آہ بھر کر وہ آسمان کو دیکھتے پکاری۔ رو روکر آنکھوں سے بھی خون جاری ہو چلا تھا۔ ہچکیاں لیتے جو سر اٹھا کر دیکھا تو اسکی نگاہ مانوس چہروں پر پڑی ۔۔

ابا بھیا۔۔ وہ حلق کے بل پکاری۔ سر جھکائے بڑھتے ان دونوں نے نگاہ بھی نہ اٹھائی 

اپنی زبانوں سے بندھے ہاتھوں کو جوڑے وہ روتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ انکے پیچھے چلتے سفید لبادے میں ملبوس لوگ ان دونوں کی پشت پر کوڑے لگاتے جا رہے تھے۔ 

ابا بھیا۔ وہ تڑپ تڑپ کر آوازیں دے رہی تھی مگر وہ سننے کی حالت میں نہ تھے۔۔ یونہی حلق سے آوازیں نکالتے آگے بڑھتے چلے گئے۔۔ 

اف خدایا۔۔ میرے ابا بھیا تو دونوں اس واقعے کے مجرمان میں سے نہ تھے ان پر کیوں؟؟؟؟؟ 

وہ مٹھیاں بھینچ بھینچ کر روتی وہیں بیٹھ گئ۔تبھئ کوئی مانوس خوشبو نتھوں سے آن ٹکرائی اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔۔ اسکی پیاری ماں آنکھوں میں نمی لیئے اسکے سر پر ہاتھ رکھ رہی تھی۔

عائشہ۔۔ سنا نہیں  تھا تم نے؟؟ 

 

Surat No 24 : سورة النور – Ayat No 4 

 

وَ الَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ  شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً  وَّ لَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً  اَبَدًا ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ  الۡفٰسِقُوۡنَ ۙ﴿۴﴾

 

 جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو ۔  یہ فاسق لوگ ہیں ۔ 

 

سارا ٹک ٹاکر تھی فاحشہ کہتے ہوئے تمہارے باپ بھائی کی زبان کانپی؟ انکے پاس ثبوت تھےکہ اس لڑکی نے یہ سب اپنے ساتھ اپنی مرضی سے کروایا؟ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔

امی کا چہرہ غیض و غضب سے سرخ ہو رہا تھا۔ 

آج کے دن تو ہر کسی کو اسکے کیئے ایک ایک عمل کا جوابدہ ہونا ہے۔۔۔ تم نے بھی تو بیٹھے بٹھائے ایک صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا ہے تمہیں تو احساس تک نہ ہوا ابھی تک۔۔ 

مم۔ میں نے؟ وہ بے یقینی سے دیکھنے لگی۔۔ امی نے گہری سانس لی۔۔۔۔ پھر جیسے تھک کر بولیں

ہاں۔ بدگمانئ کا بوجھ ۔۔۔

اسکو اپنے کندھے نادیدہ بوجھ سے شل ہوتے محسوس ہونے لگے تھے۔

۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔      

 

پسینے میں تر پیشانی دھونکنی کی طرح چلتا سانس اسکی ایک۔جھٹکے سے نیند ٹوٹی تھی۔ 

اپنئ پیشانی سے پسینہ پونچھتے اس نے موبائل اٹھا کر وقت دیکھنا چاہا۔ ابھی فجر باقی تھئ۔ابھئ قیامت آئی نہیں تھی ابھی مہلت تھی اسکے پاس۔۔ وضو کرنے کیلئے اٹھنے سے پہلے اسے اس بوجھ کو اپنے کندھوں سے ہٹانا تھا 

وہ۔جھٹ اٹھ بیٹھی۔۔ 

اپنے کمنٹس ڈھونڈ ڈھونڈ کر ڈیلیٹ کرتے ہوئے اسے احساس ہوا تھا اسکے کہے الفاظ تو کچھ بھی نہ تھے ان تبصروں کے آگے جو لوگ کر رہے تھے۔ بس ان میں اور اس میں یہ فرق تھا کہ وہ آنے والی قیامت سے خوف کھا چکی تھی باقی شائد اس دن ہی اپنے اعمال کا بوجھ اٹھانے والے تھے۔ 

اس نے سوچا پھر موبائل رکھتے ہوئے وضو کرنے اٹھ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *