Desi Kimchi Episode 10

Desi Kimchi Urdu Novels

دیسی کمچی قسط دس۔
یہ ٹھیک ہے بس بے ہوشی کی دوا ذیادہ ہونے کی وجہ سے نڈھال ہو گئ تھی ۔ فکر مت کرو۔ اسے جگا سکتی ہوں مگر چونکہ اسے کافی گہرا شاک پہنچا ہے بہتر ہے سو کے اسکے اعصاب پرسکون ہو جائیں۔
عروج عزہ کے بیڈ کے پاس کھڑے ہے جن کو تسلی دے رہی تھی۔اس نے ابھی عزہ کا دوبارہ چیک اپ کیا تھا۔ اسٹیتھسکوپ کانوں سے ہٹا کر وہ ہے جن کا کندھا تھپتھپا کر تسلی دے رہی تھی خود جسکے سر پر پٹی بندھی تھی۔ بازو پر گہرا زخم تھا شکر ہے ہڈی بچ گئ تھئ۔ اپنے ڈرپ اسٹینڈ سمیت عزہ کے بیڈ کے کنارے کھڑا فکر مند ہو رہا تھا۔ عزہ کی رنگت زرد ہو رہی تھی مگر وہ پرسکون سو رہی تھی۔
اب تم جا کر سو جائو سارے مسلز اینٹھے ہوئے ہیں تمہارے ۔
وہ یونہی عزہ کے پاس کھڑا تھا۔ تو عروج کو اسے ٹوکنا پڑا۔
میں ٹھیک ہوں نونا۔۔ وہ ضدی بچوں کی طرح اینٹھا کھڑا تھا۔
لغت کہاں گئ۔ عروج نے چڑ کر واعظہ کی تلاش میں نگاہ دوڑائی تو وہ وارڈ کے داخلی دروازے سے آتی دکھائی دی۔
اسکے ہاتھ میں کچھ شاپر بھی تھے ۔
انہیں دیکھ کر اسکے قدموں میں بجلی کی تیزی آئی تھی۔
تم پھر اٹھ آئے ؟ کہا بھی تھا بیڈ پر سے ہلنا مت۔
اس نے قریب آکر بلا تکلف اسکے مجروح بازو والے کندھے پر مکا لگایا۔
سن ہی نہیں رہا کب سے اطمینان دلا رہی ہوں اسے کچھ نہیں ہوا۔ عروج نے بھی شکایت لگائی۔
چلو اب اتنا مہنگا پرائیوٹ روم بک کروایا ہے میرے پیسے ضائع مت کرو چلو جائو اور یہ بھی لیکر جائو کھانا شروع کرو ہم آتے ہیں۔
واعظہ نے ڈانٹنے والے انداز میں کہا تو وہ سر جھکا گیا۔ ایک ہاتھ میں بڑا سا شاپر پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے اسٹینڈ گھسیٹنا چپ چاپ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
تمہاری کیسی سنتا ہے کب سے اسکو کہے جا رہی ہوں کہ جائو کچھ نہیں ہوا میری بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی جیسے۔
عروج کو دوبارہ غصہ آنے لگا۔ واعظہ آگے بڑھ کر عزہ کی پیشانی چھو کر دیکھنے لگئ۔
ٹھیک ہے یار یہ۔ بس انہوں نے ڈرگز بہت ہی کوئی ذود اثر استعمال کی تھی یہ تو فوری بے ہوش ہوئی ہوگی۔
عروج نے خیال ظاہر کیا۔
واعظہ کی نگاہ میں وہ منظر گھوم گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے جن کو پکارنے پر بھی وہ جب نہ رکا تو اسے جانے کیوں کچھ انہونی کا خوف لاحق ہوا بنا سوچے اس نے بھی دوڑ لگا دی تھی ہے جن کے پیچھے۔
گاڑی ہستگی سے عزہ کے پاس آتی جا رہی تھی۔ گاڑی میں سے دو دیو ہیکل مرد جنہوں نے کالے اپر پہنے تھے منہ پرکالا نقاب اور سر پر کالی ہی پی کیپ پہنے اترے۔
لمحوں کا وقفہ ہوگا انکو عزہ کے پیچھے بڑھتے دیکھ کر وہ پوری جان سے چلایا
عزہ نونا پیچھے دیکھو۔ ہنگل میں چلاتے اسے یہ خیال نہ آیا تھا کہ عزہ کو اسکی بات سمجھ نہیں آئے گی۔ تاہم عزہ نے اپنے نام پر مڑ کر دیکھا تو ان میں سے ایک اسکی ناک پر رومال جما چکا تھا۔
عزہ نونا۔ چھوڑو عزہ کو۔ وہ چلاتا پکارتا پوری جان سے دوڑ رہا تھا
پالی پالی۔ ( جلدی کرو)
ایک نے عزہ کو پکڑا دوسرے نے پاس آجانے والی گاڑی کا دروازہ کھولا سختی سے رومال جمائے جمائے اسکا ہاتھ پھسلا تھا اور عزہ کے چہرے سے نقاب اتر گیا تھا۔
ریو یہ دیکھو۔ ایک نے گھبرا کر عزہ کا چہرہ دوسرے کو دکھایا
تب تک ہے جن انکی گاڑی کے قریب آچکا تھا
جو بھی ہے لے چلو۔
دوسرے نے ہے جن کو آتے دیکھ کر عجلت میں کہا
مگر ہے جن پھرتی سے عزہ کا بازو کھینچ کر ان دونوں کے آگے آگیا تھا۔ کورین ہائی اسکولرز کو سکھائی جانے والی سیلف ڈیفنس کی مشق اس وقت کام آئی تھی اس نے ایک ہی چکر میں گھوم کر لات جما دی تھی اغوا کار کے کندھے پر ۔ اسکے ہاتھ سے عزہ کا بازو چھوٹا اب انکا ارادہ راہ فرار اختیار کرنے کا تھا ایک تو گاڑی میں چڑھ گیا دوسرا کندھے پر لات کھا کر گاڑی سے نیچے آگرا ہے جن اس پر پل پڑا لاتیں مکے تبھی دوسرا بھی گاڑی سے اتر کر بری طرح ہے جن کو پیٹنے لگا دیو ہیکل دو مردوں کا مقابلہ دبلا پتلا نازک سا ہے جن نہیں کر سکتا تھا اس بار ڈرائیور نے ہارن بجایا تو انہوں نے ہے جن کو زخمی کرکے دوبارہ عزہ کی جانب بڑھنا چاہا۔۔پتھر کی طرح کوئی چیز ریو کی کنپٹی پر آکر لگی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو کسی لڑکی نے بھاگ کر قریب آتے اب اسے اپنا بیگ بے دریغ منہ ہی منہ پر مارا ساتھ ایک لات اسکی ران پر جما دی۔ اس نے آگے بڑھ کر ہیڈ لاک لگا دیا۔وہ وہیں دہرا ہو کر گرا اسکے ساتھی نے ہے جن کو پلٹ کر مکا مارا۔ یہ دھمکی تھی جسے سمجھ کر واعظہ نے ریو کو چھوڑ دیا ریو کے چہرے سے ماسک اتر گیا تھا ایک لمحے کو اسکا چہرہ واضح ہوا پھر وہ تیزی سے کہنی سے چہرہ ڈھانپتے ہنگل میں چیخ کر اپنے ساتھی کو گاڑی میں بیٹھنے کا کہتا گاڑی کی جانب دوڑا۔ دونوں نے چھلانگ لگائئ اور گاڑی نے لمحہ بھر کا توقف کیئے بنا رفتار بڑھا دی۔
ایک انہونی ہونے سے رہ گئ ۔
منہ اور بازو سے نکلتے خون کی پروا کیئے بنا ہے جن سڑک پر بے ہوش پڑی عزہ کی۔جانب بڑھا۔۔ گھٹنے کے بل بیٹھ کر اس نے عزہ کا سر گود میں لے لیا۔
عزہ۔ اسکے گال تھپتھپاتے۔ اسکے سر میں ٹیس اٹھی تھی
اس سے پہلے کہ وہ بھی چکرا کر سڑک پر پڑا ہوتا واعظہ نے اسکو بانہوں میں بھر لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب اسپتال آنے کو تھیں بہت مشکل سے روکا ہے میں نے ۔۔ کہا کہ صبح تو آجائے گی بھلی چنگی ہو کر سو اسپتال میں رش نہ لگائیں۔
عروج بتا رہی تھی مگر واعظہ کسی سوچ میں گم رہی تو اس نے آکر اسکا کندھا ہلایا
تم تو نہیں دوبارہ پٹ آئی ہو؟ دکھائو ابھی تو کاسٹ اترا تھا تم نے بھی ہاتھا پائی ضرور کی ہوگی آس پاس ہو اور مسلئے میں نہ کود پڑو یہ ناممکن ہے تمہارے لیئے۔ عروج اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
نہیں۔ اس نے گہری سانس لی اور سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئ۔
میں بچ گئ واقعی اس بار۔۔ چلو روزہ کھلنے میں بس پندرہ بیس منٹ ہی رہ گئے ہیں۔ میں کھانے پینے کا سامان لے آئی ہوں ہے جن کے کمرے میں چل کر کھاتے ہیں۔
عزہ کو آج یہیں رہنے دو میری نائیٹ ہے دیکھ لوں گی اسکو یہاں یہ اکیلی بھی نہیں ہے۔ عروج نے کہا تو وہ بس سر ہلا کر رہ گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویہئو کیسے ممکن ہے کہ تم اسکے حلیئے کے بارے میں بھی صحیح طرح نہیں بتا رہے ہو پٹتے وقت کوئی جسامت کا اندازہ بھی نہیں ہوا تمہیں؟
وہ دونوں ہے جن کے کمرے میں داخل ہوئیں تو دو پولیس اہلکار ہنگل میں ہے جن کا بیان نوٹ کر رہے تھے
آندیو۔ ہے جن بے زار سے انداز میں بولا
کہہ تو رہا ہوں انہوں نے جسم کو مسلکولر دکھانے والے جیکٹ پہنے ہوئے تھے فوم بھرا ہوا تھا انکے بازوئوں میں ورنہ میرے جیسی جسامت کا لڑکا ان سے بھڑ سکتا تھا؟ اچھے خاصےمکے میں نے بھی مارے ہیں۔
ہے جن نے بات دہرائی تو وہ گہری سانس لیکر اپنی کاپی بند کرکے اسے بغور دیکھ کر بولا
ویسے لحیم شحیم تو رہے ہونگے تمہاری جو حالت کی ہے دیکھ کر یہی لگتا۔
اسکی بات پر جہاں دوسرے اہلکار نے منہ پھیر کر مسکراہٹ دبائی وہاں ہے جن دانت پیسنے لگا تھا
آہش۔ آراسو۔ ( ہاں مان لیا) وہ کوریا کے اول درجے کے صحتمند طاقتور غنڈے تھے اور تم چوزے جیسے پولیس والوں کے بس کی بھئ بات نہیں انکو پکڑنا۔
ہے جن نے کہا تو اہلکار تلملا کر اسکے سر پر گھنٹی بجانے ہی لگا تھا کہ واعظہ نے مداخلت کی
آپکو کہا بھی ہے کل بیان لینے آ جائیں شائد عزہ نے دیکھا ہو ہے جن بھی کل تک کچھ پرسکون ہوگا تو بیان دینے کے قابل ہوپائے گا اتنی عجلت کس بات کی ہے۔
اسکا انداز سخت تھا دونوں نے کچھ کہنے کو منہ کھولا پھر رک سے گئے۔
چھے سو ہمبندا۔ ہم کل آتے ہیں۔ دونوں جھک کر سلام کرتے باہر نکل گئے۔
چلو کھانا کھائیں۔ کھانا ٹھنڈا ہو گیا ہوگا ان دونوں کو کہہ دینا تھا کہ بعد میں آئیں۔ انکا کام ہے انتظار کریں۔ پہلے اتنا میرا دماغ کھا چکے ہیں۔
واعظہ بے زاری سے کنپٹی سہلا رہی تھی۔ عروج نے آگے بڑھ کر بیڈ ٹیبل سرکا کر ہے جن کے سامنےلگائی۔ ہے جن کھانے کا شاپر بیڈ سائیڈ ٹیبل سے اٹھانے بڑھا مگر عروج نے روک دیا اور خود اٹھا کر شاپر سے کھانا نکال کر میز پر سجانے لگی۔
افطار کا وقت ہو گیا۔۔ ہے جن نے اپنے پیر سمیٹ لیئے تھے وہ دونوں بھی بیڈ پر جگہ بنا کر بیٹھ گئیں۔
دس منٹ ہیں۔ واعظہ نے گھڑی دیکھی
چکن برگر کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے ہے جن رک سا گیا
تم شروع کرلو۔ بی پی لو تھا تمہارا جبھی ڈرپ لگا دی تھی میں نے۔ کھانا وانا ڈھنگ سے نہیں کھاتے تم کیا؟
عروج نے کہا تو وہ چپ سا رہ گیا پھر دھیرے سے بولا
میں بھی دس منٹ بعد کھائونگا آپکے ساتھ۔
کیوں بھئ شروع کرو اور۔یہ جوس بھی پیئو اتنا خون بہا ہے آج تمہارا تمہیں اپنا خیال رکھنا چاہیئے۔ تمہارا کونسا رمضان چل رہا۔۔
عروج نے کہا تو وہ بات کاٹ کر بولا
میرا بھی آج روزہ ہے نونا۔
اسکی بات پر واعظہ اور عروج دونوں نے چونک کر اسکی شکل دیکھی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نہیں جا رہیں آج ریڈیو؟
عشنا نے الف کو منے لائونج کے قالین پر آرام سے بے ترتیب حلیئے میں دراز دیکھ کر حیرت سے پوچھا۔
میں نے بتا دیا ہے ژیہانگ کو وہ آج سولو شو کر لے گا۔۔وہ لاپروائی سے چینل بدل کر بولی
کیوں بھئ؟ کس خوشی میں؟تم نے تو کہا تھا کہ تمہیں چھٹی نہیں ملتی۔۔ عشنا نے پوچھا تو اس نے لمحہ بھر کو نور کے ٹی وی کے آگے سے گزر جانے کا انتظار کیا پھر دوبارہ چینل بدل کر ریموٹ سے اسکی جانب اشارہ کرتے ہوئے جتاتی نظروں سے عشنا کو دیکھا۔۔
نور منے لائونج میں بھی ادھر سے ادھر ٹہل ٹہل کر اپنی پریشانئ دور کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔ چلتے چلتے ٹی وی کے سامنے سے گزرتی کوئی اور وقت ہوتا تو الف جھاڑچکی ہوتی مگر اسکی پریشانی کا لحاظ تھا دوسرا خود کونسا پرسکون بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی چینل پر چینل بدل رہی تھی۔
خوشی ؟ پاگل آج جو کچھ ہوا اسکے بعد اور اس چکور کو چکر کاٹتے دیکھ کر میں کیسے شو کرنے جا سکتی ہوں بھلا؟
الف نے کہا تو عشنا کچھ کہتے کہتے رک گئ۔
تم پریشان نہ ہو میں ٹھیک ہوں۔ اور عشنا ہے نا میرے پاس تم جانا چاہو تو چلی جائو۔
نور اسکی بات سن کر اسکے سامنے آبیٹھی۔ آلتی پالتی مار کر اب انگلیاں چٹخاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
الف نے پیار بھری نگاہ ڈالنی چاہی مگر تاثرات ناپسندیدہ چیز کو دیکھنے جیسے کڑوے ہوگئے
میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم فرینج کٹوا کر بالکل جاندی لگنے لگو گی۔
وہ دھیرے سے بڑ بڑائی جسے صرف عشنا ہی سن پائی
واقعی میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔
عشنا دھیرے سے سرگوشیانہ انداز میں قریب ہو کر کان میں بولی۔
دیکھو ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوریا ہے یہاں اندھیر تھوڑی ہے۔کہ دن دیہاڑے کوئی آئے گا پستول دکھا کر ڈاکا ڈال جائے گا۔
نور اپنے ہاتھ توڑ لینے پر اترئ ہوئی تھی انگلیاں چٹخا چٹخا کر۔۔ چہرے پر گھبراہٹ اوپر سے اسکے جملے ۔ وہ ان سے ذیادہ خود کو تسلی دے رہی۔تھئ۔۔تاثرات بھی کچھ کچھ جاندی جیسے ہی ہو چلے تھے
ہاں تو ڈاکا تو نہیں ڈالا بس بال کاٹ کے چلا گیا کوئی۔۔
عشنا نے یاد دلایا تو جہاں الف اسے دانت پیس کر گھورنے لگی وہاں نور کو دوبارہ یاد آگیا۔ اپنی پیشانی پر بکھرے بالوں پر ہاتھ پھیر کر روہانسی سی ہوگئ۔
تمہیں دیکھ کر ہمدردئ ہونئ چاہیئے پر۔ الف کا جملہ منہ میں تھا جب زوردار اطلاعئ گھنٹی بجنے پر تینوں اچھل پڑیں۔
کون آگیا۔
الف شائد اب تک کی دیسی کمچی کی قسطوں میں پہلی بار دروازہ کھولنے کے ارادے سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ الف اور عشنا دائیں بائیں اس سے لپٹ گئیں
مت کھولنا۔جانے کون ہو۔ نور باقائدہ کانپ رہی تھی
کہیں وہی صبح والا۔ خوف کے مارے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
صبح والا کیوں ہوگا ۔اب کیوں آئے گا وہ؟۔ الف نے چڑ کر بازو چھڑانا چاہا
ہو سکتا ہے اب وہ چوٹی کاٹنے آیا ہو۔ عشنا نے خیال ظاہر کیا تو اس بار نور نے دانت کچکچا کر گھورا الف البتہ اپنے شولڈر سے تھوڑا سا نیچے آتے بالوں کی چھوٹی سی چوٹی چھو کر خوفزدہ ہوئی۔۔
کیوں آئے گا چوٹی کاٹنے میں اسکی ناک کاٹ ڈالوں گی۔
نور کا خوف غصے میں بدلا۔ جھٹ کچن کائونٹر پر سے چھوٹی سی قینچی جو انہوں نے پیکٹ کھولنے کیلئے رکھی تھی جھپٹ کر اٹھا لائی۔ کسی ہتھیار کی طرح لہراتے وہ سب سے آگے تھئ الف اور عشنا پیچھے۔
اطلاعی گھنٹی پھر بج اٹھی۔
کھولو دروازہ الف۔ نور ہمت مجتمع کرکے الف سے کہہ رہی تھی۔
الف نے گھور کر اسے دیکھا۔ گھنٹی پھر بج اٹھی۔
لگتا یے کوئی ہے نہیں اندر۔
مردانہ آواز پر تینوں اچھل پڑیں۔
مت کھولو اس وقت تو واعظہ اور فاطمہ بھی نہیں۔
عشنا گھبرا اٹھی
ہےجن بھی تو نہیں ہے گھر پر۔ نور کو خدشہ ستایا
ظاہر ہے وہ اور عزہ دونوں اسپتال میں ہیں۔
عشنا نے جیسے سر پیٹا۔
کون۔۔
الف نے ہمت مجتمع کر کے کی ہول سے باہر جھانکا۔
کوئی اونچا لمبا سا انسان کھڑا تھا کالے لمبے کوٹ میں کی انکی جانب پشت تھی۔۔وہ کچھ بول رہا تھالف کے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔
ہم۔تین ہیں وہ ایک۔ میں دروازہ کھولوں گی تم دونوں پیچھے سے حملہ کردینا ٹھیک۔۔
الف نے کہا تو دونوں نے منڈیا ہلا کر سگنل دیا۔ نہایت آہستہ سے بنا آواز کیئے ہینڈل گھما کر اس نے دروازہ کھولا سال خوردہ دروازے نے چررررر کی اتنی زور دار آواز کی کہ انکے عین دروازے کے سامنے کھڑا وہ آہجوشی چونک کر مڑا ۔ اسکے ہاتھوں میں کچھ تھا جسےدیکھ کر الف اور عشنا
کی آنکھیں کھل سی گئیں اور وہ ایکدم چونک کر سیدھی ہوئیں انکو ڈرتے دیکھ کر نور نے اپنی آج تک کی زندگی کی جمع شدہ ہمت مجتمع کی اور پیچھے سے قینچی چلاتے ہوئے اس آہجوشی پر دھاوا بول دیا۔ قینچی کا رخ سیدھا آہجوشی کی آنکھ کی جانب تھا جسے اسکے مدافعتی نظام نے انتباہ تصورکرکے ایکدم رخ موڑنے پر مجبور کر دیا۔ اسکے ہاتھ میں موجود پلیٹیں چھوٹیں الف نے کسی ماہر گول کیپر کی طرح چھلانگ لگا کر انکو کیچ کیا تھوڑے سے چاول احتجاجا باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے بقیہ وہ گرتے گرتے بچا گئ عشنا وہ تماشائی تھی جسے بیک وقت دو الگ الگ نظارے دیکھنے تھے سو فرط شوق سے اسکا منہ کھلا رہ گیا تھا۔ میٹرکس کے ہیرو کی طرح ان تین لڑکیوں کو ڈاج کرتے آہجوشی پشت کے بل دھاڑ سے گرے تھے اور ان سے پہلے انکے ماتھے سے کٹ جانے والا خوبصورت پف وہ بالوں کا گچھا زمین پر آرہا جسے صبح دیکھ کر طوبی نثار ہوچلی تھی۔ اب آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی کہ وہ گچھا اب یادگار کے طور پر فریم کیا جا سکتا تھا آخر اسکے محبوب شوہر کے بال تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا؟ تم نے کس خوشئ میں میرا۔ مطلب۔ عروج گڑ بڑائی
میں نے نماز بھی پڑھی ہے آج دوپہر کو امام صاحب نے پڑھوائی۔ روزے کے ساتھ نماز ضروری ہوتی ہے نا؟ ۔
آہاں۔ عروج گڑ بڑائی
ہے جن سادگی سے بتا رہا تھا۔عروج اچنبھے سے کبھی اسے دیکھ رہی تھی کبھی واعظہ کو۔ جو نہایت سنجیدگی سے ہمہ تن گوش تھی۔
مجھے دلاور آہجوشی اپنے ساتھ روز مسجد لیکر جاتے رہے ہیں۔ میں نے کافی کچھ اسلام کے بارے میں جان لیا ہے اچھا مذہب ہے۔ وہ مسکرا کرکہہ رہا تھا۔ واعظہ بے چین سی ہو گئ۔
تم۔ تم سچ بتا دیتے طوبی کو۔ تمہیں کوئی ضرورت نہیں تھی اس جھوٹ کو اس حد تک نبھانے کی۔ نماز پڑھنے روزہ رکھنے کو کس نے کہا تھا تم سے۔ میں طوبی سے خود بات کرلوں گی۔تم آئیندہ اس حد تک جانے کی کوشش مت کرنا
واعظہ رواں ہنگل میں مخاطب تھی انداز بہت سخت تھا۔ہے جن لیئے اسکا ردعمل کافی حیران کن تھا اسے لگا تھا کہ وہ خوش ہوگی حوصلہ افزائی کرے گی پر وہ۔۔ عروج بھی اتنی ہنگل تو جانتی ہی تھی سو اسے ٹوکنے لگی مگر اردو میں۔۔
کیا ہو گیا ہے۔ اچھی بات ہے یہ تو تمہیں اسکا دل بڑھانا چاہیئے نا کہ ۔۔
عروج تم چپ کرو۔ تم سمجھ نہیں رہی ہو کہ ہمارا ایک چھوٹا سا مزاق کیسا عجیب موڑ لے گیا ہے۔ خود کو ہے جن کی۔جگہ رکھ کر سوچو۔ میں کہوں تم ہے جن کی بہن ہو اور کوئی تمہیں پکڑ پکڑ کر بدھ مت کے مندر لے جائے بھجن گوائے کیسا لگے گا تمہیں؟
واعظہ کا انداز ہنوز تھا عروج نے اسے سمجھانا چاہا
دیکھو بات الگ ہے ہےجن بچہ نہیں ہے اگر وہ روزہ رکھ رہا ہے نماز پڑھتا ہے تو کیا پتہ وہ کل مسلمان ہو جائے۔
بچہ ہی ہے یہ۔ واعظہ چلا اٹھی۔
اٹھارہ سال اسکی کورین ایج ہے۔ کوریا میں یہ بچے کی عمر کا حساب اسکے ماں کے بطن میں آنے سے ہی رکھتے ہیں ۔ ورنہ اصل میں سترہ کا بھی پورا نہیں ہوا ہے۔ اتنے چھوٹے سے کچے ذہن کے بچے کو مذہبی تعلیم دے کر کسی راہ پر لگانا بے معنی ہے آج یہ سب کر رہا ہے کل کو اسکا دل بدل سکتا ہے اسکو اسکے ماں باپ بہن بھائی سے کاٹ کر مسلمان بنانا ابھی بالکل غلط ہے ۔ یہ باشعور ہوتا سمجھدار ہوتا
واعظہ جو کہہ رہی تھی عروج کو وہ بھی بالکل غلط نہیں لگ سکا تھا۔ ان دونوں کو اجنبی زبان میں بحث کرتا دیکھ کر بات سمجھ نہ آنے کے باوجود اسے موضوع گفتگو اپنا آپ ہی لگ رہا تھا سو اسے ٹوکنا پڑا
نونا تحمل سے بات کریں۔ مانا میں عزہ کا اصل بھائی نہیں ہوں مگر یقین کیجئے آج مجھے احساس ہوا کہ عزہ میرے لیئے اتنی ہی عزیز ہے جتنی مجھے اپنی بہن ہوتی۔ اس جھوٹ کو میں 100 فیصد جھوٹ نہیں مانتا ہوں۔ آپ طوبی آپی کو کچھ مت بتائیے۔۔۔
اسکے آپی کہنے پر دونوں چونک کر اسے دیکھنے لگی تھیں۔
میں مانتا ہوں شروع میں وہ زبردستی مجھے لے جاتی تھیں ۔ میں انکو صاف انکار نہیں کر پاتا تھا مگر بعد میں جب امام صاحب کا خطبہ سنتا تھا وہ ہنگل میں جب سمجھاتے تھے آپکی کتاب کا مطلب تو مجھے سننا اچھا لگتا تھا۔ میں بعد میں خود بھی بڑے شوق سے جاتا رہا ہوں۔۔
ہے جن سر جھکا کر جیسے کسی جرم کا اعتراف کر رہا تھا۔
تو کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟۔ عروج بے صبری سے بولی تو ہے جن کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں طوبی کے سامنے سر جھکائے کھڑی تھیں وہ صارم کو گود میں لیئے منے صوفے پر براجمان کڑے تیوروں سے گھور رہی تھی انہیں۔۔
سوری طوبی یقین کیجئے یہ سب غلطی سے ہوا آپکے سامنے ہے آج جو کچھ ہوا ہم نے بتا دیا۔ ہم سچ مچ بہت ڈرے ہوئے تھے ہمیں لگا وہی صبح والا بال چور آیا ہے۔
نور کی تو اب بولنے کی بھی ہمت نہیں تھی سو الف ہی صفائی دے رہی تھی۔
غضب خدا کا۔میری مت ماری گئ کہ آج پلائو بنایا افطاری کیلئے تو سوچا تم لوگوں کو بھی بھیجوں ایک بار کہا بس انکو سامنے پلیٹ دے آئیں تراویح پڑھنے جا رہے تھے ایک ذرا سا جو انکار کیا ہو فورا پلیٹ تھام لی ۔ اتنا سادہ معصوم ہے میرا میاں۔۔۔ اور تم لوگ اسے بال چور سمجھ بیٹھیں۔ طوبی غضبناک ہوئی۔۔ پھر سوچ میں بھی پڑی
بال چور کیا ہوتا ہے؟۔
وہ اس چور نے بس نور کے بال کاٹے اور وہ بال ہمیں ملے بھی نہیں تویقینا وہ بال چرا کر لے گیا ہے۔۔ ہم نے اسکا نام بال چور اسی لیئے رکھا۔
عشنا نے تفصیل سے بتایا۔
مگر چور بالوں کا کیا کرے گا؟ ۔الف کو اچنبھا ہوا۔
ویسے کورین ڈراموں میں دکھاتے ہیں نا شمن جو ہوتے وہ بالوں کے ساتھ پتہ نہیں کیا کیا پڑھتے۔ عشنا کو خوب معلومات تھیں سو اس نے جھاڑنا ضروری سمجھا۔ الف نے قائل ہونے والے انداز میں سر ہلایا۔
بال چور۔ طوبی نے ذہن میں کڑیاں ملائیں۔ ان تینوں پر نظر ڈالتے نور پر نگاہ گئ وہ شرمندہ سی ہو کر نظر چرا گئ۔ ہاتھ میں پکڑی قینچی۔ اس نے دونوں ہاتھ جھٹ پیچھے کر لیئے۔ طوبی کی پرسوچ نگاہیں اسکی جاندی جیسی فرینج پر تھیں۔
ایک لٹ تو اس نے نور کی لے لی اور دوسری۔
باآواز بلند سوچتے اسے جھٹکا لگا تو جھٹ اٹھ کھڑی ہوئی۔ صارم اسکی گود سے گرتے گرتے بچا اسکو کمر پر سنبھالتی اس نے دوڑ لگا دی تھی رخ داخلی دروازے کی۔جانب تھا عشنا الف نور کچھ نہ سمجھتے پیچھے دوڑیں مگر طوبی کو اپنے میاں کئ اس لٹ کی حفاظت کرنی تھی جو نور کی بدولت انکے سر سے الگ ہو کر بے یارو مددگار دروازے کے باہف
زمین پر پڑی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دسویوں قسط کا اختتام۔۔

جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *