قسط 19
کچھ کھائو پیو گی؟ فاطمہ نے فریج سے پانی نکال کر پیتے ہوئے یونہی پوچھا تھا ازراہ تفنن مگر ان سب نے زور و شور سے گردن اثبات میں ہلائی۔۔ تو وہ گھور کر رہ گئ۔
کمروں کا انسپیکشن مکمل کرکے عشنا تو وہیں بیڈ پر سحری میں اٹھانے کی ہدایت کرتئ بے سدھ ہوئی الف اور عروج کا ارادہ رات کو عبادت کا تھا سو اس وقت کافی پی کر سستی بھگانے کا سوچ کر لائونج کے صوفوں پر سستی سے پڑی تھیں۔ عزہ منہ ہاتھ دھو کر کمر ے کی بتی بجھاتی کچن میں چلی آئی۔
عروج صبح ہاسپٹل نہیں جانا کیا۔
کافی کا ایک ساشے کم تھا سو اس نے ڈبہ اٹھا کر بندیاں گنیں پھر عروج سے بڑی آس سے پوچھا۔
چھٹی ہے میری کل۔ عروج نے دونوں بازو اوپر اٹھا کر انگڑائی لی فاطمہ دانت کچکچا کر رہ گئ۔
ایکسپریسو کافئ اسٹرانگ ہوتی ایک کپ اور بن جائے گی اگر مکس بنائوں۔۔
اس نے ساسر پر کھولتے پانی میں دودھ چینی سب اکٹھے چڑھا رکھے تھے ابال آنے پر سارے بچے کھچے ساشے کھول کر پتی کی طرح ڈال دیئے۔
اب اگلے ابال آنے پر چائے کی طرح تیار کی گئ کافی تیار ہوجانی تھئ۔ خود ہی اپنا کندھا تھپک کر شاباشی بھی دے ڈالی۔ یقینا کوئی امریکی ایکسپریسو کو ایسے بنتے دیکھ لے تو سر پیٹ کر جنگلوں میں نکل جائے۔
ان سب کیلئے کافی بناتئ فاطمہ خود ہی اپنی حرکت پر ہنس رہی تھی ۔۔ اسکا خوشگوار موڈ دیکھتی عزہ نے اسکے قریب آکر سرسری سے انداز میں پوچھا تھا۔
تم نے سیہون بھائی سے شادی کیوں کی؟
فاطمہ کا اوپر کا سانس اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا۔
دزدیدہ نظروں سے لائونج میں خوش گپیوں میں مصروف عروج اور الف کو دیکھا پھر کہنی سے پکڑ کر عزہ کو کھینچ کر قریب کر لیا آواز دبا کر وہ جیسے غرائی۔۔
خبردار جو منہ سے کوئی بھاپ بھی نکالی۔ مجھے ویزے کی غرض سے پیپر میرج کرنی پڑی ہے بس ۔
کس سے چھپا رہی ہو؟ عزہ نے اطمینان سے سینے پر بازو لپیٹے
بستر خالی کرتے ہوئے عروج کو تمارے نئے شناختی کارڈ بنوانے کی درخواست ملی جو اس نے باآواز بلند پڑھی بھی۔
عروج۔ کی بچی۔ فاطمہ نے الف کی۔کسی بات پر ہنستی عروج کو دانت پیس کر گھورا
عشنا کو پتہ تھا، واعظہ کو تو ناممکن ہے پتہ نہ ہو ، یعنی ساری رازداری مجھ سے عروج اور الف سے تھی جیسے ہم تمہاری پھپوپھیاں ہیں اور تمہاری شادی کی اطلاع ہونے پر پھڈا ڈال دیں گئ کہ ہمیں کیوں نہیں بلایا
طنزیہ بولتے اسکی آواز خودبخود بلند ہوگئ تھی۔ الف اور عروج اپنی بات چھوڑ کر ان دونوں کی جانب متوجہ ہوگئ تھیں
فاطمہ بھنا کر کپ پٹخ کر اسکی جانب گھومئ۔
کوئی ایسی فخرکی بات بھی نہیں تھی کہ میں اعلان کرواتی سب کو پکڑ پکڑ کر بتاتئ کہ میری شادی ہوگئ ہے۔اور
عشنا تو رہتی ہی میرے اور واعظہ کے ساتھ تھی اس سے کیسے چھپا سکتے تھے یہ بات۔۔۔۔ اور سیہون اور میں نے نکاح نہیں کیا صرف میرج پیپر سائن کیا ہے اسکو شادی شادی کہہ کر مجھے گلٹ نہ فیل کرائو۔
یہ صرف پیپر میرج ہے تو یہاں کیوں رہنے آگئیں؟
الف سنجیدگئ سے کہتی اٹھ کر انکے پاس آگئ
کیا مطلب کرائے دار ہوں یہاں جیسے واعظہ کے فلیٹ میں تھی۔ فاطمہ کو اسکا انداز چبھا۔
مگر فلموں ڈراموں میں ایسے حالات میں ہیرو ہیروئن کو ساتھ رہتے محبت ہوجاتی ہے۔ الف نے جیسے ڈرایا
ابے چل۔ فاطمہ نے کان پر سے مکھی اڑائی
خالص پاکستانی ذہنیت…. ساتھ رہو تو محبت بھی کرو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئ ہم ابھی تک لڑکا اور لڑکی ساتھ دیکھ کر بس ایک ہی معاملہ سوچتے۔
عروج نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
بالکل۔ فاطمہ کو یہ مدد غیبی لگی
میں مسلمان وہ بدھسٹ ہمارا رہن سہن زبان مزہب کسی طور بھی کوئی مماثلت نہیں ہم میں کم ازکم میرے ذہن میں ایسی کوئی بات کبھی نہیں آسکتی۔۔
اس نے جیسے فیصلہ سنایا اور پلٹ کر چولہا بند کرکے کافی کپوں میں نکالنے لگی۔
اور سیہون کے زہن میں ایسی کوئی بات آگئ تو؟
الف نے پرسوچ انداز میں کہا تو جانے کیوں کافی نکالتے ہوئے اسکا ہاتھ ڈگمگا سا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی جونگیا۔۔
برستی بارش میں چھتری کا سایہ کیئے آتئ گرمیوں کی خوشگوار سی ڈھل چکنے والی شام میں گھر کا راستہ ناپتی وہ مانوس راستوں پر تیز تیز قدم اٹھاتی گامزن تھی جب کوئی اسکے پیچھے صدیوں کا فاصلہ طے کرتا بھاگتا آیا تھا۔۔
وازیہ۔
مانوس آواز۔۔
پھولی سانسوں سے جان لگا کر پکارتا کوئی۔ اسکے قدموں کی رفتار دھیمی ہوئی مگر وہ رکی نہیں۔
وازیہ ۔۔ تم کو کیا ہوا۔ کیا برا لگ گیا تمہیں؟ ایسے کیوں چلی آئیں۔
اسکو رکتا نہ دیکھ کر وہ جان لگا کر بھاگتا ہوا ایکدم اسکے سامنے آگیا تھا۔ وہ بروقت رکی ورنہ ٹکرا ہی۔جاتی۔
گرے پینٹ سفید شرٹ والا مخصوص بیج والا یونیفارم بارش میں بھیگ چکا تھا۔ اسکول سے وہ یقینا بھیگتا ہوا بھاگتا آیا تھا۔ اسکے پاس صبح بھی چھتری نہیں تھی مگر صبح خود اسے چھتری شیئر کرکے اسکول تک بنا بھیگے پہنچانے والی وہ لڑکی اس وقت کٹھور سی ہوگئ تھی۔یکسر اجنبی نگاہوں سے کم جونگ وون کو دیکھتی وہ لڑکی ۔
اس نے سر جھٹکا۔
اپنی سانسیں بحال کرتا وہ جیب سے پمپ نکال رہا تھا۔ منہ میں انہیلر لیکر اس نے جلدی جلدی دوا حلق میں انڈیلی۔
ایستھما کا مریض برستی بارش میں بھاگ رہا تھا اسکی سانس بری طرح اکھڑ چکی تھی۔۔۔ کتنے لمحے وہ بات کرنے کے قابل نہ رہا۔ اتنے لمحے کسی کو خود کو سمیٹنے میں لگ گئے تھے
میرے لیئے تو پارٹی نہیں تھی نہ میں ٹریٹ دے رہی تھی۔ سو میرے رکنے کا کوئی ٹھوس جواز نہیں تھا۔
لڑکی نے بے نیازی سے کندھے اچکائے۔
مگر میں نے کچھ پوچھا تھا تم سے۔۔۔۔۔ وہ چیں بہ چیں ہوا۔
جواب کا منتظر تھا ۔۔۔۔۔۔وہ سینے پر ہلکے ہلکے مکے مار رہا تھا۔ سانس پھولتی اٹکتی ۔ اسے یقینا بولنا نہیں چاہیئے تھا مگر وہ بول رہا تھا۔بے تابئ سے بے چینی سے۔۔
تم بنا جواب دیئے ایسے۔۔
کہا تو تھا آندے۔
لڑکی نے بے نیازی سے کندھے اچکائے اور ایک طرف سے ہوکر نکل جانا چاہا۔
جونگ نے اسکا بازو تھام۔کر روکا
سرعت سے اس نے بازو چھڑایا تھا۔ جونگ کی چندی آنکھوں میں حیرانی سی اتر آئی۔ وہ لڑکی آج لحاظ کرنے کو تیار نہ تھی کتنا بیمار تھا وہ۔زرا خیال اسکی آنکھوں سے نہ چھلکا۔
تم ۔۔ تم ایسے کیسے۔ ۔۔ میرا مطلب۔ ہاہ آہ۔
وہ پھر سانسیں بحال کرنے لگا۔۔
سوچ کے۔۔ جواب دینا چھے بال۔
وہ منت کرنے پر اتر آیا۔۔
میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی جونگیا۔
لڑکی نے پرسکون سے انداز میں اسکی بات سنی پھر ہموارلہجے میں کہتی وہ اٹھارہ سال کی ہائی اسکول کی طالبہ اس وقت جیسے جست لگا کر اسی سال کی بردباری دکھا رہی تھی۔
کیوں ۔؟ ویئو؟
وہ جیسے تڑپ سا اٹھا تھا۔
کیا مطلب کیوں ؟۔۔
وہ جیسے حیران ہوئی۔۔
میں اور تم اچھے دوست ہیں بس۔ اس سے ذیادہ اور کچھ نہیں۔
اس نے کندھے اچکائے۔
ہم بہت اچھے۔۔ بہت اچھے دوست ہیں۔ ہماری دلچسپیاں، عادتیں ،خیالات سب ملتے ہیں ۔۔ ہم جب اکٹھے ہوتے ہیں تو ۔۔
آکھوں ۔۔ وہ کھانسنے لگا تھا۔۔
میرے دلچسپیاں ، عادتیں خیالات ، کیتھرین سے بھی ملتے اسے ڈیٹ کرنے لگوں کیا؟
وہ ہنسی۔۔ ہنستے ہوئے جونگ کو وہ دنیا کی سب سے ذیادہ سنگدل اور کٹھور لڑکی لگی تھی۔
بارش تیز ہورہی ہے بھیگو گے تو طبیعت اور خراب ہوگی گھر جائو صبح ملاقات ہوتی ہے اسکول میں۔ آننیانگ
نرم سے انداز میں کہہ کر اس نے پھر اپنی راہ لی تھی۔
چھتری تیز ہوا سے اڑ رہی تھی مگر اس نے مضبوطی سے تھام رکھی تھی۔
اسے جاتے دیکھ کر اسے لگا تھا جیسے وہ اس سڑک سے نہیں اسکی زندگی سے جارہی ہے
وہ پھر تیزی سے اسکی جانب بڑھا آگے بڑھ کر اسکو کندھے سے تھام کر اسکا رخ اپنی جانب موڑا
اور جیسے ساری توانائیاں لگا کر چیخا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نونا۔۔
پکار پر وہ فورا پلٹی۔ہے جن اس سے کچھ فاصلے پر بھاگتا آرہا تھا
پھولی سانسوں کے ساتھ اس نے پکار کر اسے روکنا چاہا تھا
اور وہ رک بھی گئ۔ ان سے کچھ فاصلے پر سیہون سڑک پر ٹیکسی روک رہا تھا۔ ہے جن کو واعظہ کو بلانے کا ٹاسک اسی لیئے دیا تھا کہ یقینا وہ ہے جن کو برستی بارش میں اپنے ساتھ بھگو کر بیمار ہونے نہیں دے گی۔
اف نونا بہت تیز چلتی ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہیونگ پچھلی گلی میں آدھی گلی تک گئے میں یہاں سڑک کی جانب مڑ گیا تو آپ نظر آئیں پھر ہیونگ کو کال ملاکر بلایا تو آپ پھر غائب۔ اف۔سارا کھانا ہضم ہوگیا میرا۔ اب کل روزہ نہیں رکھا جانا مجھ سے۔۔
ہے جن شکایتی انداز میں کہہ رہا تھا۔ اسکے انداز پر واعظہ کو ہنسی ہی آگئی۔
اچھا بہانہ ہے ۔ اس نے اسکے بال بگاڑدیئے۔
وہ منہ بناکر بال ماتھے پر بکھرانے لگا۔
سیہون ٹیکسی میں بیٹھ کر ٹیکسی ریورس کروا کر انکے پاس ہی لارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں بھیگے مرغے بنے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تھے۔
ملگجا اندھیرا چھایا ہوا تھا یقینا سب سوچکی تھیں۔سیہون دروازے پر ہی جھجک کر رک گیا۔
واعظہ اور ہےجن جوتے بدل کر اندر چلے گئے بتیاں جلا۔دیں گھر کا مالک دروازے پر ہی کھڑا رہا۔
کیا ہوا دعوت نامہ بھیجوں؟ واعظہ حیرانی سے اسے دروازے میں جمے دیکھ کر طنزیہ بولی۔ ہے جن سیہون کے کمرے کا دروازہ کھولنے لگا۔
وہ دو ہی تو کمرے میں میں۔۔ وہ ابھی کہہ ہی رہا تھا ہے جن نے دروازہ پورا کھول دیا
خالی ہے یہ کمرہ۔ آجائیں۔
ہے جن کے اعلان پر وہ حیران ہو کر اندر چلا آیا۔ کمرے میں جھانکا تو وہ جوں کا توں ویسے کا ویسا تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔
یہ سب لوگ ایک کمرے میں ایڈجسٹ ہوگئ ہونگی۔ ہمیں عادت ہے ایسے رہنے کی تم دونوں کو لیکن کمرہ شئیر کرنا پڑے گا ۔ ہے جن کو کوئی اپنا نائٹ ڈریس دے دو۔ سارا بھیگ گیا ہے۔
واعظہ کے کہنے پر ہے جن جہاں مسکرایا وہیں سیہون اسکی۔نقل۔اتار کر بولا۔
ہے جن کو دے دو۔ ہونہہ میرے لیئے تو بارش میں پانی کی۔بجائے دھوپ کی کرنیں گر رہی تھیں سوکھا ہوا ہوں میں ۔
واعظہ ان سنی کرتی دوسرے کمرے کا دروازہ کھولنے لگی۔
اندر منظرہی کچھ اور تھا۔
عشنا ، فاطمہ ، عروج عزہ قطار میں چادریں بچھائے ستائیسویں کے اعمال کرنے میں مشغول تھیں۔
انکو دیکھ کر اسکی پیشانی عرق آلود سی ہوئی۔
آج ستائیسویں ہے اور میں بھول ہی۔گئ اعمال کرنا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ستائیسویں ہے اور مجھے اعمال تو دور نماز کا موقع بھی نہ مل سکا۔
وہ گھٹنوں میں منہ دے کر سسک اٹھی۔ باہر آسمان بھی چھاجوں مینہ برسا رہا تھا کوٹھری کے چھوٹے سے روشندان سے آتی بادلوں کی گھن گھرج۔۔ نیم تاریکی ۔
اس چھوٹی سی کوٹھری میں اسکے سوا ایک اور عورت بھی تھی۔ دیوار سے لگے بنچ خوب چوڑے تھے کہ ان میں سے ایک پر وہ خود بیٹھی تھی تو دوسرے پر وہ عورت سر تک چادر تانے جانے سو رہی تھی یا نہیں۔ نہ خراٹوں کی آواز نہ ہل جل۔۔۔
اسکی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں۔سحری میں جانے کتنا وقت باقی تھا۔۔ یہاں کون اسے سحری کراتا۔ بنا سحری کے نیت کرلے کیا کرے۔ وہ بے چین ہو کر آنسو پونچھنے لگی۔
اللہ ہی اس مصیبت کو دور کرے گا۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اللہ۔ بس تو ہی میری مدد کر۔
بڑ بڑاتے ہوئے وہ خود کو تسلی دیےرہی تھی۔ جیل کی سلاخوں میں سے باہر جھانکنا چاہا تو کچھ فاصلے پر میز کرسی پر ایک موٹی سی حوالدارنی اونگھ رہی تھی۔
سنو۔ اس نے پکارنا چاہا۔
خرر خرخر۔ خراٹوں کی آواز بلند ہوئی۔ اس نے مڑ کر بنچ پر سوتی عورت کو دیکھا پھرحوالدارنی کو۔
جانے دونوں میں سے کس کے خراٹے بلند ہوئے تھے۔
یا اللہ ایک گھڑی تک نہیں میرے پاس۔ کیا کروں۔
وہ سلاخوں سے ٹیک لگا کر وہیں بیٹھتی چلی گئ۔
ویو۔۔ کسی نے اسکی پسلی میں ڈنڈا سا چبھویا۔ وہ بری طرح ڈر کر سیدھی ہوئی۔ حوالدارنی اسکے بری طرح ڈرنے پر تھوڑا نرم ہوئی۔
وییو کیا چاہیئے؟۔
ٹائم۔ ۔۔ اس نے کہنے کے ساتھ اپنی کلائی کو دوسرے ہاتھ سے ٹھونگے مار کر بتایا۔
سوا چار۔
وہ کہہ کر جمائی لیتی پلٹ گئ۔
واٹ؟ ۔۔ اسے سمجھ نہ آیا۔
ٹائم۔۔ اس نے بے تابی سے دھرایا۔
کیا مصیبت ہے رو رو کے بھی اسکی توانائیاں ختم نہ ہوئیں کہ اٹھ کر میرے سر پر بک بک کرنے بیٹھ گئ۔ میرا پہلے ہی دماغ خراب ہوا ہے اب اگر یہ سوئی نہیں تو ہمیشہ کیلئے سلادوں گی اسے میں۔
بنچ پر سوتا وجود ایک جھٹکے سے دھاڑتا ہوا اٹھ بیٹھا
سرخ آنکھیں سرخ چہرہ بھاری تن و توش کی وہ مخصوص کڑخت تاثرات جو نور کی آمد پر اس کے تھے چہرے پر سجائے کورین آہجومہ۔
جملے کے معنی ککھ پلے نہ پڑنت خے باوجود نور کی روح فنا ہونے کوآئی تھئ۔
صبر سے کام لو۔ نئی آئی ہے دو ایک دن میں سیٹ ہو جائے گی۔
حوالدارنی اسے دیکھتے ہوئے تسلی آہجومہ کو دے رہی تھی۔
مجھے وقت بتادیں میں نے روزہ رکھنا ہے۔
نور نےملتجی انداز میں حوالدارنی کو کہا ۔
بتایا تو یے۔ وہ حیران ہوئی۔۔ یقینا یہاں زبان کا فرق آڑے آرہا تھا۔
وقت / ٹائم۔ نور نے دوبارہ گھڑی کا اشارہ کیا۔تو وہ حوالدارنی پریشان ہو کر نہ جانے اپنی زبان میں کیا کیا بولنے لگئ
دے؟ وہ نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگی جو نور کی پشت پر کسی کو دیکھتی گھبرائی تھی۔ اسکی نگاہوں کے تعقب میں دیکھا تو جم سی گئی۔
چادر ایک۔طرف کرکے خونخوار نظروں سے گھورتی وہ آہجومہ سیدھا اسکی جانب بڑھ رہی تھی۔ اسے تحمل سے کام۔لینے کا کہتی گھبرائی ہوئی حوالدارنی اور نور جو ڈر کے مارے پیچھے ہوتی سلاخوں سے چپک گئ تھی مزید پیچھے ہونا ممکن نہیں تھا ۔۔ آہجومہ بھنائی ہوئی آئی مکا لہرایا سیدھا اسکے منہ کی جانب نور نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیں۔
چند ثانیوں میں ناک منہ گال پر کوئی مکا پڑنے کا احساس نہ ہوا تو خود ہی ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں۔
آہجومہ اسے گھور رہی تھیں مگر اسکے مکے کی جگہ کلائی اسکی نگاہوں کے عین سامنے تھی۔
جس کے بڑے سے کالے ڈائل پر دمکتی سوئیاں اسے وقت دکھا رہی تھیں۔۔ اسکی سینے میں دم توڑتی سانسیں بحال ہونا شروع ہوئیں۔۔کہ آہجومہ حلق کے بل چلا اٹھی۔
دیکھو اچھی طرح وقت اور اب اگر تم نے دوبارہ کسی سے بھی وقت پوچھا تو تمہارا وقت الٹا چلا دوں گی سمجھیں۔
جانے ڈراموں میں کیسے ایسے موقعوں پر لڑکیاں مزے سے بے ہوش ہو جاتی ہیں ۔نور کے تو چودہ طبق روشن ہو چکے تھے۔ یوں لگتا تھا حواس اگلی کئی صدیوں تک ساتھ چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افطاری کرتے ہی وہ سب عید کی شاپنگ کرنے گنگم اسکوائر آئی تھیں۔کوئی کورین فیسٹیول قریب نہیں تھا سو رش بھی ذیادہ نہیں تھا اور چونکہ قوت خرید بھی انکی ذیادہ نہیں تھی سو بڑے بڑے مالز میں صرف ونڈو شاپنگ کرکے وہ سب خالص پاکستانی طرز کئ مارکیٹ میں چلی آئیں۔
اسکرٹ ٹرائوزر جینز۔ بہت ورائٹی تھی۔ لانگ فراکس شرگز بھی مل جاتے تھے سو دھڑا دھڑ شاپنگ شروع ہوچکی تھی۔۔
انکو انکی۔پسند کے کپڑے چننے کیلئے چھوڑ کر وہ اور فاطمہ مردانہ کپڑوں کی دکان میں چلی آئیں۔
شرٹ ٹرائوزر نکلواتے اسے یا سب اچھے لگ رہے تھے یا سب کے سب بکواس۔ وہ بے دلی سے چھآنٹ رہی تھئ۔
کس کیلئے لے رہی ہو؟ سیہون کیلئے؟ فاطمہ نے یونہی پوچھا جوابا واعظہ نے جن نظروں سے دیکھا تو وہ کھسیا کر شرٹ اٹھا کر دیکھنے لگی۔باہر عشنا عروج عزہ اور الف جیولری اور کلپس کے اسٹال کی جانب بڑھ گئیں۔ مگر ہیئر پنز اور کلپس جو یہاں کی لڑکیاں شوقیہ لگائے پھرتی تھیں انکے گھنے لمبے بالوں کیلئے چھوٹے اور ناکافی تھے۔ عزہ عروج عبایا پہنا ہوا تھا تو الف نے اسکارف لے دے کر عشنا کی شامت آئی ۔ اسکے بالوں پر ایک ایک کلپ پن لگا کر دیکھی گئ۔ آدھے سے ذیادہ اسٹال انہوں نے یہ الا بلا کا خرید ڈالا۔ بریسلٹ ، ٹاپس ، انگوٹھیاں ، کیچر مصنوعی جوڑا تک خرید کر وہ سب مطمئن ہوگئ تھیں۔ اب بس مخصوص کورین سریوں والی پنیں ہی بچی تھیں جواب تو شائد کورین لڑکیاں بھی نہ خریدتئ ہوں ۔۔
جب عشنا ٹھیک ٹھاک کارٹون بن گئ سارے بال اجڑ گئے تب اسکی خلاصی ہوئی۔ آہجومہ نے اتنی ساری کلپس بکتے دیکھ کر ازراہ ہمدردی اسکو آئینہ اور کنگھا فراہم کیا۔
میں کچھ ذیادہ ہی تم لوگوں کے ساتھ سویٹ نہیں؟ ناجائز فائدہ اٹھاتی ہو تم لوگ میرا۔
آئینہ دیکھتے ہی وہ مڑ کر انہیں گھورنے لگی۔ نقابوں میں عزہ عروج کی بتیسی تو نہیں نظر آرہی تھئ مگر آنکھیں کورین جیسی چندی ہو چلی تھیں ہنس ہنس کر۔ بال سنوار کر شکریے کے ساتھ اس نے دونوں چیزیں واپس کیں۔
کوئی تقریب ہے خاص کیا؟ جسکی تیاری ہے؟
آہجومہ نے بڑے اشتیاق سے ان سب کو اپنا آدھا اسٹال خریدتا دیکھ کر پوچھا تھا۔ اسکی بات عروج نے سمجھ لی تھی سو اسی نے جھک کر جواب دیا۔
ہماری عید ہے۔ ہمارا مزہبی تہوار اسلیئے ہم اتنی خریداری کر رہی ہیں۔
دے دے۔ وہ آہجومہ سر ہلا کر انہیں جانے کیا اشارہ کرتی اسٹال انکے اوپر چھوڑکر مڑ کر اپنا سامان کھنگالنے لگیں
اب یہ کیا کرنے لگیں؟ عشنا حیران ہوئی
چینج لے رہی ہونگئ۔ الف نے اندازہ لگایا
بھائو تائو بنا چیز لیتے عجیب سا نہیں لگ رہا ۔۔ عشنا نے کہا تو وہ سب سر ہلانے لگیں۔
۔۔۔ کیسا ہم کبھی درزی کے چکر کبھی چوڑیاں کبھی میچنگ کیلئے سب کزنز اکٹھے ہو کر جاتے تھے۔ عزہ نے ہونٹ لٹکا کر کہا
مجھے کرتا پاجامہ پہننا ہے۔ الف نے بھی اداس سی شکل بنا لی۔۔
میں تو ہمیشہ چاند رات پر جوتا خریدتی ہوں یہاں تو عید کے دن سر میونگ کی کلاس لے رہی ہونگی۔۔
عزہ نے اتنی حسرت سے کہا کہ وہ سب اس سے لپٹ ہی تو گئیں۔
ہم تمہیں چاند رات کو۔جوتا دلانے آجائیں گے۔ سر میونگ کیلئے بھی لے لینا عید کا تحفہ۔
عروج نے مسخرے پن سے کہا تو وہ سب ہنس پڑیں۔
مگر عزہ کو اپنی جوائینٹ فیملی سسٹم میں ڈھیروں ڈھیر کزنوں کے ساتھ گزاری عید یاد آرہی تھی چچائوں ماموئوں اور بڑے کزنوں سے اینٹھی گئ عیدی کا بھی خسارہ جھیلنا تھا اس بار تو۔
کچھ بھی ہو عید کا تصور ہی یہاں محال ہے۔ اس نے فیصلہ سنایا۔
آگاشی۔۔
آہجومہ بوری سے خوش خوش جانے کیا برآمد کرکے انکو اشارے سے متوجہ کرنے لگیں۔
کورین طرز کی شہزادیاں جو سریئے جیسی کلپس لگاتی تھیں بالوں میں جس کے کنارے پر چڑیا پھول اور جانے کیا کیا نقش و نگار تھے پلاسٹک ریپ میں ایکدم چم چم کرتی نئی نکور۔ گن کر چار انکی جانب بڑھانے لگیں
اتنا کچھ تو لے لیا اب یہ کیا کریں گے لیکر۔ عزہ حیران ہوئی
عروج ان سے کہو بس بہت چیزیں لے چکے اب عید ہے تو کیا انکی پوری دکاں خرید لیں۔
الف نے لقمہ دیا۔
آدھی تو خرید لی ہے پوری بھی لے لیں کیا حرج ہے۔ عروج نے کندھے اچکایے اور بیگ کھولنے لگئ
ہاں یار کتنی بوڑھی ہیں میری دادی کی عمر کی لگتی ہیں۔ عشنا کو بھی انکے جھریوں زدہ بوڑھے چہرے کو دیکھ کر ترس آگیا۔ آنکھوں میں شوق کا جہاں آباد کیئے وہ انکو دونوں ہتھیلیوں میں پنیں سجائے پکڑا رہی تھیں
کتنے ہوئے۔ کئی ہزار وون کے نوٹ نکال کر عروج پوچھ رہی تھی
آندے آندے۔ آہجومہ زور و شور سے نفی میں سر ہلانے لگیں۔
پھر ہنگل میں کچھ کہتی چلی گئیں عروج کا پیسے بڑھاتا ہاتھ رکا واپس ہوا اس نے آگے بڑھ کر آہجومہ کو جھک کر شکریہ ادا کیا پھر بڑھ کر انکے گلے لگ گئ۔
اسے کیا ہوا؟ وہ تینوں بھونچکا دیکھتی رہ گئیں۔۔
آہجومہ کی آنکھیں جھلملا سی گئیں پیار سے عروج کا کندھا تھپتھپا کر وہ آنسو پونچھنے لگیں۔۔
کیا کہہ رہی تھیں؟ تینوں عروج کے سر ہوگئیں
انہوں نے کہا۔۔ عروج نے کہنا شروع کیا۔ فلیش بیک میں آہجومہ کی تصویر پر عروج کئ آواز ڈب ہونآ شروع ہوگئ تھی
تم سب اپنے وطن سے اپنوں سے دور تہوار منا رہی ہو یہ چھوٹا سا تحفہ عید کا سمجھ کر رکھ لو ۔ اپنی ماں جیسی کی طرف سے۔
فلیش بیک ختم ہو چکا تھا
آہجومہ نے آنسو پونچھ کر سر اٹھایا تو تین مزید لڑکیاں جزباتی سے انداز میں بانہیں پھیلائے ان سے گلے لگنے کو تیار کھڑی تھیں۔
کتنی عجیب بات ہے ایک انجان ملک میں انجان عورت انجان گاہک کی خوشی میں شریک ہونے کو تحفے دے رہی اور ایک ہم ہیں عید کا تہوار قریب ہو تو قیمتیں آسمان تک پہنچا دیتے تحفہ تو دور پیسے دے کر بھی مہنگی سے مہنگی چیز دیتے اپنے گاہکوں کو۔ ہم مسلمان قوم۔۔
عروج نے تاسف سے سوچا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آتے آتے انہیں ٹھیک ٹھاک دیر ہوگئ تھی۔ سیہون اور ہے جن دونوں گھر میں نہیں تھے۔ واعظہ اپنے شاپرز اٹھا کر سیہون کے کمرے میں رکھ آئی تھی اور اب ان سب کیلئے چائے بنانے کچن میں گھس گئ ۔ یہ اسلیئے تھا کہ خود چائے کی طلب ہو رہی تھی اور کسی اور کے ہاتھ کی پسند نہ تھی اسکا فلسفہ تھا چائے بنانے لگو تو پھر ایک کپ بنائو یا ایک سو کپ کیا فرق پڑتا ۔ ان سب نے سیدھا لائونج میں پڑائو ڈالا
یہاں سے وہاں تک شاپرز پھیلا دیئے تھے سب شاپنگ کھول کھول کر دیکھی جا رہی تھی
میں اسے پہن کر آتی ہوں۔
شوق سے لایا پیچ ٹاپ عزہ جھٹ لیکر کمرے کی جانب دوڑی جب پہن کر آئی تو وہ سب اوہ کر کے رہ گئیں۔
ٹاپ کھنچنے والے کپڑے کا تھا جو نازک سی عزہ کے جسم سے چپک ہی گیا تھا اور وہ بہت نازک سی لگ رہی تھی۔ ٹاپ گھٹنوں سے اوپر تک تھا جو پیچھے سے تھوڑا گھیر والا تھا آستینیں شکر ہے پوری تھیں گلے پر سلور ستارے سےتھے جو سلور لائننگ کے ساتھ بل کھاتے دامن تک آرہے تھے۔ ٹاپ یقینا بے حد خوبصورت تھا وہ بہت خوش خوش ماڈلز کی طرح پوز مار رہی تھی۔
سفید ٹائٹس اور سفید اور پیچ خوبصورت سا اسکارف۔ میچنگ پوری تھی
عزہ عید پر بالوں کو کرل کرکے یہ والی پن لگانا ۔ الف نے سلور سی پن نکال کر دی۔
میچنگ ائیر رنگ پہن کر وہ جتنی تعریف کروانا چاہ رہی تھی اسکی اتنی تسلی نہیں ہو پائی تھی۔
واعظہ دیکھو کیسی لگ رہی میں۔
واعظہ کچن میں تھی بس وہی رہ گئئ تھی سو بطور خاص اسے دکھانے چلی آئئ۔
پیاری۔ اس نے مسکرا کر تعریف کی۔
یہ میرا عید کا ڈریس ہے پاکستانی لک دے ہی ڈالی میں نے اسے۔
وہ اپنا ٹاپ لہرا کر گھومی۔
ہوں اچھا کیا۔ زبردست۔
وہ کہہ کر پتی ڈالنے لگی۔۔
عید پر اسکے ساتھ بال کھول کر کرل کر لوں یا اسٹریٹ ذیادہ اچھالگے گا؟
اسے تسلی نہیں ہو رہی تھی شائد اسکا دبا دبا جوش دیکھ کر وہ جوش آتئ چائے کا چولہا دھیما کرکے اسکی جانب مڑی۔
تم اتنا تیار ہو کر پھر اسکے اوپر عبایا پہن کر یونیورسٹی جائوگی؟
یونیورسٹئ کیوں عید کے دن کون۔۔ جاتا۔
بولتے بولتے خیال آیا تو وہ بجھ سی گئ ۔جوش جھاگ کی طرح بیٹھتا گیا۔
یونیورسٹی تو عبایا کرکے جاتی ہوں چھٹی بھی نہیں ہوگی یہاں تو۔ ایویں اتنا کھڑاگ کیا۔ عید تو سر کا لیکچر سنتے گزرنی ۔۔
وہ بری طرح اداس ہو کر رہ گئ۔ سر جھکاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتئ کمرے کی جانب بڑھ گئ کپڑے بدلنے۔ واعظہ مڑ کر چائے کپوں میں نکالنے لگی
کیا واعظہ حقیقت کا تھپڑ مارنا ضروری تھا؟ بچی خوش ہو رہی تھئ۔
فاطمہ اپنے لیئے کافی بنانے آئی تو انکی گفتگو سن کر کہے بغیر نہ رہ سکی۔۔۔ آگے بڑھ کر چینی کا ڈبہ اٹھانے لگی تو واعظہ نے اسکے ہاتھ پر چپت لگادی فاطمہ ہاتھ سہلاتی گھورکرررہ گئ
اب یہ کس لیئے؟ اسے غصہ آگیا تھا۔
اتنی کافی مت پیا کرو چائے بنا دی ہے اسی کو پیو۔
ایک کپ اسکی جانب بڑھا کر وہ ٹرے میں کپ لگا نے لگی۔
فاطمہ نے بھنا کر کافی بنانے کا ارادہ کیا پھر اسے ایک مرتبہ پھر گھور کر اپنا کپ شرافت سے اٹھا کر لائونج میں چلی آئی۔ یہاں ۔ عروج کو نیا دکھ لگا تھا۔عید کیلئے لایا ٹاپ بنا شرگ پہننے لائق نہ تھا۔
یار وہاں میں نے غور ہی نہیں کیا کہ شرگ کے بغیر اس میں آستین ہی نہیں۔ بتائو شرگ علیحدہ سے لاکھ وون کا تھا کیوں لیتی اتنا مہنگا میں مگر اب اسکا کیا کروں۔
عروج نے ایک لانگ ٹاپ خود سے لگا کر۔آئینے میں دیکھا وہایٹ پلین لانگ ٹاپ سلیو لیس تھا۔ اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر واپس رکھ دیا۔
ہاں تو تم نے عید کے دن کونسا اپنے سسرال جانا ہے ؟ ڈاکٹرز گائون پہن لوگی اوپر سے کسی کو کیا پتہ لگے گا کہ سلیو لیس ہے۔
الف دور کی کوڑی لائی۔ عروج نے زور و شور سے کدو ہلایا۔
منحصر ہے کہ عید 29 کی پڑے یا 30 کی 29 کی عید ہوئی تو میری چھٹی بنتی ہے۔ دعا کرو چاند ہوجائے۔
عروج کھلکھلا ئی۔
یہاں تو ہو ہی جائے گا یہاں کونسا چاند دیکھنے پر جھگڑے ہوتے۔۔
واعظہ چائے کی ٹرے اٹھائے یہیں چلی آئی۔ اسکی بات میں وزن تھا۔
اعلی چائے واعظہ۔ چائے کا۔کپ اٹھاتے ہی عشنا نے گھونٹ بھر کر داد دی۔
واعظہ تم تو کہہ رہی تھیں کہ پاکستانی ایمبیسی میں کوئی تقریب ہوگی عید کے دن ہم جائیں گے؟ عروج نے اشتیاق سے پوچھا۔ عزہ کپڑے بدل کر سابقہ موڈ میں واپس آئی آتے ہی وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔
میری کلاس ہوئی تو کوئی بھی نہیں جائے گا سمجھیں۔ سب۔۔۔۔
اسکی وارننگ کو ان میں سے کسی نے سنجیدہ نہیں لیا تھا۔
یار ہمیں دلاور بھائی کو دیکھنے جانا چاہیئے تھا۔ ہاسپٹل۔
عشنا کو اچانک طوبی یاد آئی تو کہہ بیٹھی۔
دو گھنٹے میں ڈسچارج ہو۔گئے تھے وہ۔ اب تو گھر میں بیڈ ریسٹ پر ہیں چک آگئ ہے انکی کمر میں۔ میں نے اپنے کولیگ سے پتہ کروایا تھا۔
عروج نے بتایا ۔۔
تو انکو کوئی وارننگ نہیں ملی انکو گھر جانے دیا پولیس والوں نے ؟
الف کو خالص پاکستانی تشویش ہوئی۔
جب ہم گھر نہیں جا سکتے تو وہ کیوں گئے گھر؟
کیونکہ سارا خونم خون ہمارا گھر ہوا وا تھا بھلے کسی کی بھی وجہ سے۔
عشنا نے وضاحت دینا ضروری سمجھا۔
یار کیا عید ہوگئ ہماری کتنے پلان بنائے تھے نور تو کہہ رہی تھئ ہم بیچ پر جاتے دوبارہ لیکن اب تو۔۔۔ کیا نور ۔۔۔
نور کی عید جیل میں گزرے گی؟ ۔ عزہ اداس سی ہو گئ تھی
عید جیل میں گزر جانا بہتر ہے ایک عمر جیل میں گزار دینے سے۔ واعظہ اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے بولی۔۔
جو اسکا کیس بنا ہے اس میں معاملہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ میں اسکے والدین سے مزید یہ معاملہ چھپا نہیں سکتی یہ تیسری کال ہے اسکی امی ۔۔ کی۔
اس نے اپنے موبائل کی اسکرین انکو دکھائی جس پرابھی بھی نور کئ امی کی کال آرہی تھی ۔ ہمیشہ سے سائلنٹ موڈ پر اسکا فون یقینا کسی دن اسے پھنسوانے والا تھا۔
پلیز ایسا غضب مت کرنا اسکے گھروالے اسکی پڑھائی ختم کرکے واپس بلالیں گے
الف تڑپ کر بولی۔
اب تک تو بہانہ بنایا ہی ہے مگر پاکستان ایمبیسی سے وہ لوگ رابطہ کریں گے ہی اور ظاہر ہے معاملہ یونہی ختم نہیں ہو سکتا کیس بنا چلا تو واعظہ نہ نور کی ماں لگتی نا باپ یہ کس طرح اسکی سرپرست کے طور پر کوئی فیصلہ لے سکتی ہے بھلا؟
فاطمہ حسب عادت تیز ہو کر بولی تو وہ سب چپ ہی رہ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے