دیسی کمچی
قسط تین۔۔
یار اس میں چمک ہوئی تو ہے۔۔
ابیہا نے کہا تو نور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاپ اسٹکس سے بنےگھر کو دیکھنے لگی۔۔
مجھے تو ایک قمقمہ بھی جگمگاتا نظر نہیں آرہا۔
نور گھر کو ہی اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔
ٹھہرو بہت کم روشنی ہے میں کمرے کی۔بتیاں بجھا کر دکھاتی ہوں۔
ابیہا کہہ کر فٹ سے اٹھی اور سوئچ بورڈ سے سب بتیوں کے سوئچ بند کر دئیے۔۔ کمرے میں گھپ اندھیرا ہو جاتا اگر نور کا لیپ ٹاپ نہ دمک رہا ہوتا۔۔
نور نے گھور کر دیکھا وہ بجائے بتیاں جلانے کے بھاگ کے اسکے سامنے آبیٹھی اور لیپ ٹاپ بھی اوپر سے ہاتھ مار کر بند کر دیا۔۔
یہ تو گھپ اندھیرا ہو گیا۔۔
ابیہا کی آواز آئی بس نور کو تصویر نظر نہ آئی۔۔ نور بیٹھی دانت پیس رہی تھی۔۔
ابیہا کی بچی گھپ اندھیرے میں سرکٹ کیسے جوڑوں گی؟۔۔ اس نے بھنا کر ہاتھ نچایا تو چاپ اسٹکس کے گھر کو لگ گیا۔۔ ایک منا سا جھماکا ہوا۔۔
اوئے۔۔
نور چونکی۔۔
پھر گھر کے سرکٹ میں چاپ اسٹک سے دو تین پاکستانی انداز کی تھپکیاں دیں ۔۔ ایک قمقمہ جل بجھ کرتا تھک کر ٹمٹمانے لگا۔۔
جل گیا۔۔ ابیہا نے خوش ہو کر تالی بجائی۔۔
نور کا بس نہیں تھا گھر میں ہی گھس کر دیکھ لے آخر چمکا کیا ہے۔۔
نیم اندھیرے میں دونوں اس چھوٹے سے گتے سے بنے گھر میں جگمگ کرتا قمقمہ دیکھ رہی تھیں۔۔
یار یہ تھوڑی سی روشنی ہوئی تو ہے۔۔
نور نے مایوسی سے گھر میں دمکتا ننھا قمقمہ دیکھا جو ایک کمرے کی دیوار تک کو روشن کر سکنے میں ناکام رہا تھا۔۔
ہم نے گھر تو پورا جوڑ دیا ہے اب یہ ڈی سی پاور سپلائی وغیرہ عزہ جوڑ لے گی ہم اتنا ہی کر سکتے تھے۔۔
ابیہا نے بھی ہار مان کر موبائل ایک طرف رکھ دیا۔۔ یو ٹیوب سے ویڈیوز کھول کھول کر طریقہ کار دیکھ دیکھ کر عزہ کے بنائے گھر سے چھوٹا مگر نیا گھر بنا دیا تھا مگر اب مسلئہ یہ تھا کہ اس گھر میں بجلی کا ربط کیسے دیں۔۔
ڈی سی انور ٹر۔۔
نور نے ہار نہ مانتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپ کی جانب ہاتھ بڑھایا۔۔
تم لوگ روح بلا رہی ہو۔ ؟
فاطمہ انکے سر پر آکھڑی ہوئی۔۔
امی۔۔ ہائے اللہ۔۔
دونوں اچھل کر چیخی تھیں۔۔
واعظہ گھبرا کر سوئچ بورڈ کی طرف بڑھی مگر پائوں بڑے زور سے ہر فن مولا میز سے ٹکرایا جس پر لیپ ٹاپ شان سے براجمان تھا۔۔ وہیں سی کرتی بیٹھ گئ۔
اف اللہ ابھی دم نکل جاتا میرا فاطمہ کی بچی۔۔
ابیہا نے دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ فاطمہ کی ٹانگوں پر دو ہتھڑ جمائے۔۔
اف ابیہا کتنا بھاری ہاتھ ہے۔۔ فاطمہ تڑپ کر سہلاتی اسکے پاس ہی گر سی گئ۔۔
اتنا دبے پائوں کیوں آئی ہو تم لوگ اور وقت دیکھا ہے؟ پاکستان میں نہیں ہو تو کیا گھر واپس بھی نا آئو گی ؟۔ نور نے حواسوں میں آتے ہی ملگجے اندھیرے میں ہی کلاس لی۔۔
اف بتیاں کیوں بجھائے بیٹھی ہو؟ اتنی زور کی۔چوٹ لگی ہے مجھے۔۔
واعظہ بھی قریب ہی کہیں بیٹھی کراہی۔۔
افوہ ہم سرکٹ جوڑ رہے تھے دیکھو انورٹر کام کر نے لگا۔۔نور نے خوش ہو کر تالی بجائی۔۔
توبہ ہے رات کے ایک۔بجے بھی چین نہیں تم لوگوں کو۔۔
الف بڑبڑاتی کمرے سے برآمد ہوئی۔۔ باہر گھپ اندھیرا
کیا ہوا لائٹ چلی گئ؟۔۔
اس نے پوچھا تو ابیہا ہنسی۔۔
پاکستان میں نہیں ہو تم ۔۔ لائٹ بند کی ہوئی ہے جلا لو۔۔
فاطمہ نے چڑ کر کہا تھا۔
شور کم کرو عزہ اٹھ جائے گی ہم صبح اسے اس گھر کو دکھا کر بھونچکا کر دیں گے۔۔۔
یہ نور تھئ اسکی اپنی ہی خوشیا ں تھیں۔۔
تبھی روشنی کا جھماکا ہوا۔۔
کسی نے ساری بتیاں جلا دی تھیں ۔۔ ان سب نے مڑ کر دیکھا تو عزہ تھئ
الف جو سوئچ بورڈ کی۔طرف بڑھ رہی تھی وہیں رک گئی۔۔ عزہ حیران پریشان کھڑی سامنے کسی کو دیکھ رہی تھی۔۔الف نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو وہ بھی ہکا بکا سی ہو کر دو قدم پیچھے ہوئی
تم لوگ روح بلا رہے تھےنا؟آگئ۔۔الف نے سرسراتی آواز میں کہا۔۔
نہیں ہم تو گھر۔۔ ابیہا نے کہتے سر اٹھایا تو سراسیمہ رہ گئ۔۔
لیکن کوئی روح آگئ ہے ۔۔
ابیہا کے منہ سے نکلا تھا۔۔ واعظہ اور فاطمہ اچنبھے سے دیکھ رہی تھیں انہیں ابییہا بھاگ کر عزہ کے پاس آئی تھی۔۔
کیا کہہ رہی ہو۔۔ واعظہ پائوں سہلاتے حیران دیکھ رہی تھی۔۔
نور نے حیران ہو کر کہتے مڑ کر دیکھا پھر حلق کے بل چلائی۔۔
آآا۔۔
وہ گھبرا کر ابیہا سے جا لپٹی۔۔
بھاگو فاطمہ لغت۔۔ چڑیل۔۔
لا حول ولا قوت۔۔
الف نے حواس قابو میں کرتے ہوئے زور سے کہا۔
فاطمہ اور واعظہ نے پلٹ کر دیکھا تو بری طرح چونک کر تھوڑا سا سہہ مگر پیچھے کو کھسکی تھیں۔۔
لمبا سا براق سفید ٹاپ سفید ہی جینز کے ساتھ پہنے عشنا خود بھی انکے ردعمل سے سہمی سی کھڑی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بیدار تو ہو ہی گئیں تھیں سب سو چائے کا دور لازمی تھا۔ سب ننھے لائونج میں دائرہ بنا کر بیٹھ گئیں تھیں بیچ میں چپس رکھے تھے جو عزہ نے چپکے سے اپنے قریب کر لیئے تھے۔۔
یار ویسے براق سفید لباس میں اجنبی شکل گھر میں کھڑی نظر آئے تو انسان نے اسے بھوت ہی سمجھنا ہے۔۔ مگر تمہیں چڑیل کہا اسکیلئے معزرت خواہ ہوں۔۔
شان بے نیازی قابل دید تھی نور کی۔۔ عشنا سے کہہ کر سر جھٹکا پھر چائے کا کپ ہونٹوں سے لگا لیا۔۔
میں معزرت خواہ ہوں میری وجہ سے آپکو تکلیف ہوئی۔۔
عشنا نے شرمندہ سے انداز میں سر جھکا کر معزرت کی تھئ۔۔ الف کو چائے کا گھونٹ بھرتے اچھو ہوا۔۔
اتنی اردو۔۔ ایک اور واعظہ۔۔
وہ زیر لب بڑ بڑائی۔۔
اور جو مجھے الٹے سیدھے نام دئیے ہیں اسکی معزرت کون کرے گا۔ واعظہ نے بنا لحاظ کائوچ سے کشن اٹھا کر نور پر اچھالا۔۔ وہ بروقت جھکائی دیتے کپ بچا گئ۔۔
سوری سوری۔۔ بالکل زہن میں نہیں رہا تمہیں منہ پر لغت کہہ گئ معزرت۔۔
اس نے بھی جوابا سفید جھنڈی لہرا دی۔۔
منہ پر یعنی پیٹھ پیچھے مجھے لغت ہی کہتی ہو تم۔۔۔
واعظہ کو شدید صمہ پہنچا تھا۔۔
یار واقعی نور اب منہ پر تو الٹا سیدھا نام لینا بد تمیزی ہے۔ اب عزہ واعظہ کو امی کہتی اسکے روک ٹوک کرنے کی وجہ سے مگر واعظہ کو آج تک پتہ نہیں چلا۔۔
یہ ابیہا تھی۔۔
عزہ نے ماتھا پیٹ لیا۔۔تو الف اور نور کھل کر ہنسی تھیں۔۔عشنا کا منہ کھلا تھا تو ابیہا کو بول چکنے کے بعد احساس ہوا کیا کہہ گئ سو چپ کر کے اپنی چائے پر دھیان کیا۔ ۔
عزہ تم بھی۔۔ واعظہ کہے بنا بس گھور رہی تھی۔۔
یہ چپس۔۔
اس نے کھسیا کر چپس کی پلیٹ اسکی جانب بڑھائی۔۔
یہ منایا جا رہا تھا اسے۔۔
واعظہ بھنا کر اٹھنے لگی تو سب اس سے چمٹ گئیں۔۔
اچھا نا خفا تو نہ ہو۔۔ بھئ اب تم امائوں کی طرح ہمارا خیال رکھو گی تو امی ہی کہوں گی نا تمہیں۔ عزہ لاڈ سے اسکو ساتھ لگا کر بولی تو نور کو بھی معزرت خواہانہ جملہ سوجھا۔۔
تو اور کیا ہر لفظ بولتے تم ٹوک کر اسکی اردو بتائو گی تو لغت ہی کہوں گی نا میں تمہیں۔۔
اور ابھی تو میں نے بتایا ہی نہیں جب تم میرے براہ راست پروگرام میں کال کر کے جھوٹی تعریفیں کرتی ہو میری تو میں تمہیں کیا کہتی۔۔
الف نے کہا تو واعظہ تو واعظہ باقی سب بھی اسکو منہ کھول کر دیکھنے لگیں۔۔
وہ اپنی دھن میں کہہ رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں تو واعظہ ہے نا تمہارا الہ دین کا چراغ اسی کو رگڑو۔۔ مجھے اس وقت بہت کام ہیں میں تمہارے فالتو پروگرام میں کال کر کے جھوٹی تعریفیں نہیں کرنے والی۔۔
عروج اس بھورے امریکی کو گھورتے ہوئے فون کان سے لگائے تھئ۔۔
اخیر کوئی چپکو آدمی تھا۔۔ کہاں اسے اسامہ بن لادن کی بہن سمجھ کر ڈر رہا تھا کہاں ابھی ایک ٹک میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے؟ اس نے نرس کو دیکھتے حیرت سے پوچھا تھا جوابا وہ سر ہلا کر بولی
دیح۔۔
اچھا۔۔ وہ الجھن سے اپنا لیب کوٹ پہنتی اسکے ساتھ چل پڑی۔۔ نرس اسے ایک پرائویٹ روم کے پاس لا کر چھوڑتی جھک کر سلام کرتی آگے بڑھ گئ۔
اس نے ہلکے سے دستک دی تو گاڑھے امریکی لہجے میں کسی نے کہا تھا۔
کم ان۔۔
وہ اندر داخل ہوئی تووہی امریکی مریض جسکے آپریشن میں اس نے مدد کی تھی بیٹھا بیڈ ٹیبل پرسوپ کا پیالہ رکھے سوپ پی رہا تھا اسے دیکھ کر کھل سا گیا۔۔ اتنا کہ عروج لمحہ بھر کو گڑ بڑا ہی گئ۔۔اتنی خوشی تو کبھی آئینہ دیکھ کر مجھے خود تک نہ ہوئی۔اس نے سوچا
۔ پیا لہ چھوڑ چھاڑ مسکرا کر سر جھکا کر بولا
ہیلو ڈاکٹر عروج۔۔
ہیلو۔۔ اب کیسی طبیعت ہے آپکی۔۔
وہ آگے بڑھ کر اسکی۔فائل دیکھنے لگی
بالکل ٹھیک ہوں۔۔ جب سے آپکے ہاتھوں نے میرے دل کو چھوا ہے یوں لگتا میرا دل اب دوبارہ جوان ہو گیا ہے۔۔یا یوں کہہ لیں ۔۔
واٹ؟۔ عروج اسکی لن ترانی پر پوری آنکھیں کھول کر چلائی۔۔
آہستہ۔۔ ابھی دل اتنا بھی توانا نہیں ہوا میرا۔۔
وہ کراہ کر فورا دل تھام گیا تھا۔۔
اس دن آپکو دیکھ کر سچ تو یہ مجھے آپ پر بنیاد پرست مسلمان ہونے کا گمان ہوا تھا۔۔
دل تھامے وہ رقت بھرے انداز میں کہہ رہا تھا۔۔
یوں لگا تھا آپ مجھے امریکی ہونے کی وجہ سے اپنی نفرت کا نشانہ بنا دیں گی۔۔ مجھے کوئی غلط ٹیکا لگا دیں گی۔۔ وہ اب اپنے بازو میں خیالی ٹیکا گھونپ رہا تھا۔ عروج منہ کھولے تھی مگر ماسک سے باہر تھوڑی دکھائی دے رہا تھا خیرہے۔
یا میری ڈرپ نوچ کر پھینک دیں گی ۔۔ وہ اب ڈرپ نکال رہا تھا۔۔ خیالی۔۔
یا کچھ نہیں کچھ نہیں تو مجھے غیر ضروری دوا کی خوراک دے کر ابدی نیند سلا دیں گی۔۔
وہ ابدی نیند پر بیڈ پر گرنا چاہتا تھا مگر ابھی ایک سو ساٹھ ڈگری والا ہی اینگل بنا پایا تھا کہ میز اس پر الٹنے ہی لگی تھئ عروج نے جلدی سے آگے بڑھ کر میز کو توازن دیتے تھاما ۔۔ وہ بری طرح جلتے بچا تھا اب نہارتی نظروں سے دیکھنے لگا
لیکن آپ تو میرے لئیے جیزز کا بھیجا خاص مسیحا نکلیں۔۔ میری جان بچائی ابھی بھی بچا لی۔۔
آپ میرے لیئے خدا کا بھیجا خاص فرشتہ ثابت ہوئیں ہیں مس عروج۔ بلکہ آپ تو خدا۔۔
بس۔۔ عروج سے مزید سننا محال ہوا۔۔ ہاتھ اٹھا کر اسے بریک لگائی۔۔میز کو ٹکا کر دونوں ہاتھ جیب میں ڈال کر کڑے لہجے میں بولی
میں ڈاکٹر ہوں میرا فرض تھا ۔۔ اور آپکے آپریشن میں میں نے بس سرجن کی معاونت کی تھی اگر آپ واقعی اتنے مشکور ہیں تو میں سرجن کم کو بھیج دیتی ہوں انکا شکریہ ادا کر لیں۔۔
آپکی آواز بھی آپکی طرح میٹھی ہے۔۔ یقینا آپ بہت اچھ دل کی ہو گی۔۔ گو آپ مستقل ماسک پہنے رہتی ہیں میں آپکی شکل تو نہیں دیکھ سکتا مگر مجھے یقین ہے آپ اپنی آواز کی۔طرح خوب صورت ہی ہونگی۔۔
وہ میز پر کہنیاں ٹکائے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں چہرہ سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
تبھی ڈاکٹر کم دستک دیتے اندر چلے آئے۔۔ وہ نرس کے ساتھ رائونڈ پر نکلے تھے شائد۔ نرس ٹرالی میں دوائیں رکھے مریض کے سرہانے کی جانب بڑھی اور ڈاکٹر صاحب مسکراتے عروج کی جانب۔۔
ہاں تو مل لیئے ڈاکٹر عروج سے آپ۔۔ وہ خوشدلی سے مریض سے انگریزی میں میں۔۔۔مخاطب تھے۔۔
مریض نے نرس سے بی پی چیک کرواتے زور و شور سے گردن ہلائی۔۔
عروج میں نے بتایا انہیں کہ آپ نے آپریشن میں کتنی مدد کروائی تھی میری۔
وہ مزید کہہ رہے تھے
تو یہ آپکا کارنامہ ہے۔۔ عروج نے ہونٹ بھینچے۔
دراصل مجھے نرس نے بتایا تھا اس مریض نے آپکے ساتھ تعصب برتتے ہوئے علاج کروانے سے انکار کیا تھا سو۔۔ میں نے انکو جتانا ضروری سمجھا ڈاکٹر روج۔۔
وہ ہتھیلی کی آڑ کرتے ہوئے اس سے ہنگل میں مخاطب ہوئے تھے۔۔
دے۔۔ وہ سر جھکا کر بولی۔۔
گھمسامنیدہ سن بینیم۔۔ ۔۔( شکریہ جناب)
اس نے کوریائی انداز میں جھک کر کہا تو ڈاکٹر کم زور زور سے ہاتھ ہلانے لگے۔۔
آنیو آنیو۔۔ ( نہیں )۔۔
مطلب شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں۔۔ کوریا میں اگر آپ احسان مند ہو کر کسی کا شکریہ ادا کریں تو وہ آگے سے نہیں نہیں کہتا ہے مطلب جیسے ہم کہتے جوابا کوئی بات نہیں۔۔ وہ بس نہیں کہہ کر ہی گزارا کرتے۔۔
ڈاکٹر کم مجھے رات کو سینے میں درد اٹھ جاتا ہے کیا ایسا ممکن کہ آپ رات کو مجھے دیکھ جایا کریں ۔۔
مریض نے معصوم سی شکل بنائی
ابھئ بھی ہو رہا کہیں درد۔۔ ؟۔ ڈاکٹر کم فورا معائنے کو تیار ہوئے۔۔
نہیں بس رات کو ہوتا۔۔
میری تو ڈیوٹی ختم ہونے والی ہے۔ ڈاکٹر عروج آپ کی رات کی ڈیوٹی ہے نا۔۔
اثبات میں سر ہلاتے عروج اس وقت کو یاد کر رہی تھی جب اس مریض کی زندگی اور موت کا فیصلہ کیا جاسکتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرشل بریک ختم ہونے والی ہے کمرشل بھی نہیں ملے آج تو ہمیں زیادہ پلیز کچھ کر دو نا عروج۔۔
واعظہ فاطمہ کوئی فون نہیں اٹھا رہی ابیہا نے صاف انکار کرکے فون ہی بند کردیا اب تم ہی میرا آخری سہارا ہو۔۔
الف فون کان سے لگائے بس نہیں تھا فون سے ہی عروج کو کھینچ لے۔۔ نظر لمحہ بہ لمحہ گزرتے وقت پر تھئ
یقینا دوسری جانب ہٹلر کی جا نشین ہی رہی ہوگی کوئی اتنی منتوں کے بعد تو شائد ہٹلر بھی پورا شو سننے بیٹھ جاتا۔۔۔
ژیہانگ تاسف سے اپنی ساتھی میزبان کو دیکھا تھا۔۔
نائیٹ ڈیوٹی کا بار سہتی عروج چڑ گئ۔۔
وہی امریکی مریض چہرے ہر ہزار معصومیت سجائے بازو اوپر کیئے بی پی کا معائنہ کروانے کو آستین اوپر چڑھائے تیار بیٹھا تھا وہ ایک ہاتھ سے فون کان پر لگائے ایک ہاتھ سے بی پی اپریٹس کی اسٹرپ لپیٹنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔ مریض اسکی الجھن دیکھ کر بھی مجال ہے جو سرموق جنبش بھی کرنے کو تیار ہو۔۔
مسجمے کی طرح ساکت سانس تک روکے
بیٹھا تھا۔۔
اب کیا کروں ہاسپٹل میں بیٹھی ہوں ایک ٹھرکی مریض کا بی پی دیکھ رہی اسی سے بات کرادوں ؟۔۔
تنگ آکر اس نے کندھا اچکا کر دوسرا ہاتھ بھی خالی کیا اور لپیٹ دیا۔۔
انگریزی آتی ہے اسے تو کروا دو۔۔ زرا جو تم پگھلی ہو۔۔ ترس بھی نہیں آرہا بہن کی نوکری دائو پر لگی ہے۔۔
وہ روہانسی ہو چلی تھی۔۔
اینی پرابلم ڈاکٹر عروج۔۔
مریض نے آنکھ پٹ پٹائی۔۔ عروج اسے گھورنے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الہ دین کا چراغ۔۔
واعظہ روہانسی ہوئی۔
پتہ ہے اس نے کال کی اسکے بعد پے در پے ہمیں اتنی ساری انگریزی لوگوں کی کال آئی لوگ امریکہ میں بیٹھ کر ہمارا شو سن رہے تھے۔ انٹر نیٹ پر۔۔ ہا نا مزے کی بات
اس نے خوش ہو کر تالی بجائی۔۔
مزے کی؟ عجیب بات ہے
ابیہا نے ٹوکا۔۔
امریکی انٹرنیٹ پر کوریا کے ایک غیر معروف ریڈیو شو کی غیر معروف میزبان کا شو نہ صرف سن رہے تھے بلکہ اس میں کال بھی کر لی دوسرے ملک میں مانا امریکی دنیا میں عجیب حرکتوں کی وجہ سے مشہور ہیں مگر یہ تو عجیب ترین بات ہے۔۔
ابیہا نے پوری تقریر جھاڑ دی تھی۔۔
عزہ اور عشنا نے ہاں میں ہاں ملائی تو الف تپ ہی تو گئ۔
تمہیں لگتا میں جھوٹ بول رہی؟ واقعی امریکیوں نے ہی کال ملائی تھی ہمارے پاس نمبردکھائی دیتے ہیں۔۔ اور ایسی بھی کوئی بات نہیں ہمیں چینیوں نے بھی کال کر کرکے شو کی کامیابی پر مبارکباد دی۔۔ انہیں زیادہ انگریزی تو آتی نہیں بس چند جملے سب بول رہے تھے۔۔ مگر۔۔
الف کا جوش سے منہ سرخ ہو چلا تھا ایسا کیسے ہو گیا کہ اسکی بات پر یقین ہی نہیں ہورہا کسی کو۔۔
اسے نئی دلیل سوجھی تھی۔۔
اب امریکی چلو نہ یقین کرو چین تو پڑوسی ہے کوریا کا ہم نہیں انڈین پروگرام دیکھتے۔۔ ؟
کیونکہ ہمیں انکی زبان سمجھ آتی ہے۔ نور نے جتایا۔۔
چینیوں کو کورین سمجھ نہیں آتی۔۔ ایکسو گروپ بینڈ بھی ہر گانا چینی ورژن الگ شائع کرتا ہے خاص ان مداحوں کیلئے۔ واعظہ نے بھی بحث میں حصہ لیا
اچھا میں پوری لسٹ کی نقل اٹھا کر کل لیکر آئوں گی دیکھنا تم سب ۔۔
وہ منہ پر ہاتھ پھیرتی اٹھی۔ پیر پٹختی کمرے کی جانب بڑھی۔۔
ہر چیز کو اتنا سنجیدہ کیوں لیتی ہو ۔۔ اس کو
خفا ہو کر جاتے دیکھ کر ابیہا نے آواز لگائی تو فاطمہ نیند میں کسمسائی۔۔ وہ ساری گفتگو کے دوران جانے کب کشن سر کے نیچے ٹکائے بے خبر ہو چلی تھی۔۔ سچی بات تو یہ عشنا بھی آنکھیں مل رہی تھی مگر وہ سب اتنا مگن گپیں ہانک رہی تھیں کہ کہنا بد اخلاقی لگا ورنہ گھڑی سوا چار بجا رہی تھی
یہ تو ٹن ہے۔۔ واعظہ نے اسکا کندھا تھپکا تو وہ واقعی بے خبر ہوگئ۔
عزہ اپنے گھر کا سرکٹ کھولے تھی نور اپنا لیپ ٹاپ بند کر رہی تھی یعنی اسکا سونے کا ارادہ بن چکا تھا۔
چلو عشنا کم از کم آج کیلئے نرم آرام دہ بستر تمہارا ہوا۔۔
واعظہ کہتی اٹھ کھڑی ہوئی تو ابیہا نے بھی تقلید کی۔۔
گھڑی نے پونے پانچ بجائے تھے جب عزہ کا گھر جگمگا اٹھا تھا۔۔
یس۔۔ وہ خوش ہوگئ۔
یہ دیکھو پورا روشن
وہ کہتے ہوئے اپنی کارکردگی دکھانے مڑی تو پتہ چلا اکیلی بیٹھئ ہے۔بس ایک فاطمہ کو کارپٹ پر سوتا پایا باقی عوام کب کی۔رخصت ہوچکی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارا پڑھنے پڑھانے پر زیادہ یقین نہیں ہے ۔۔؟۔۔
تین دن کلاس ہوتی ہفتے میں اس میں بھی چھٹی کر لیتی ہو حاضری کم۔ہو جائے گی۔۔
سستی سے سر کھجاتی بارہ بجے اٹھ کر آتی واعظہ کو دیکھتے ہی عروج نے آڑے ہاتھوں لیا۔۔
یہ کونسا وقت ہے چپس کھانے کا ؟۔ میں پکوڑے بنانے کیلئے آلو لیکر آئی تھی دو دن بعد رمضان ہے کچھ خبر ہے؟۔
واعظہ کی اسکے سامنے رکھی فرنچ فرائز کی بھاپ اڑاتی پلیٹ پر نظر پڑی تو الٹا اسکو لتاڑ ڈالا۔۔
اور یہ کامیاب زندگی کا اصول ہے جب آپکے پاس جواب نہ ہو تو اگلے سے الٹا ایسا سوال کرو کہ وہ لاجواب ہو کر رہ جائے۔۔
عروج کھسیائی۔۔
ناشتے کا وقت ہے ابھی سو کر اٹھی ہوں۔۔
ناشتے میں فرنچ فرائز کون کھاتا۔۔ وہ منہ بناتی فریج کھول کر دیکھنے لگی۔۔
تم بھی کھالو۔۔
اس نے زرا سا پلیٹ کھسکا کر اسے بھی دعوت دی۔۔ کیونکہ اسے یقین تھا وہ نہیں کھائے گی۔۔ واعظہ کو چپس پسند نہیں تھے بلکہ آلو کی کوئی بھی چیز پسند نہ تھی اور عروج کو اتنا ہی آلو پسند تھے۔۔
ویسے یہ لڑکی کون ہے۔ کہا ں ٹکری؟۔
عروج نے عشنا کو کمرے کے کھلے دروازے سے کھڑکی میں کھڑے باہر جھانکتے دیکھا تو پوچھ بیٹھی
یار رات کو ملی ہے ۔۔۔
واعظہ کا انداز سر سری سا تھا۔
وہ سا س پین چولہے پر رکھ کر چائے چڑھا رہی تھی۔۔
ہوں۔۔ عروج کا انداز سوچتا ہوا سا تھا۔۔
فاطمہ کہاں ہے؟ موصوفہ جا ب پھر چھوڑ چکی ہیں۔۔
یعنی اس بار کرائے کی امید نہ ہی رکھوں۔۔
واعظہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔
فاطمہ تو گھر میں نہیں ہے میں جب اٹھی تو بس یہ لڑکی ہی جاگ رہی تھی باقی سب جا چکی تھیں
عروج نے بتایا تو واعظہ سوچ میں پڑی۔۔
یار رمضان سر پر ہے ہم عید پر اس بار ہنبک نہ بنوا لیں؟۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنگنم اسٹریٹ میں وہ چندی آنکھوں والا جوڑا ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوم رہا تھا۔۔ ہر دکان پر تو لڑکی اٹک جاتی کبھی کوئی ٹاپ پسند آگیا توکبھی کوئی میک اپ کی دکان نظر آگئ۔۔ کبھی جھمکے کبھی گھڑی کچھ نہیں کچھ نہیں تو بڑھیا کے بال دیکھ کر ٹھنک گئ۔
مجال ہے جو کنجوس مکھی چوس لڑکےنے اسے کچھ دلایا ہو۔ ہر جگہ سے ونڈو شاپنگ کر کے باہر۔۔
کاٹن کینڈی کے ٹھیلے پر پر شائد سستا ہونے کی وجہ سے رک کر اسے دلا ہی دیا۔۔ اب دونوں کاٹن کینڈی اپنی اپنی لہرا کر میدا نیدا کر رہے تھے۔۔
میدا نیدا ویسے تو کوئی خاص حرکت ہے نہیں بس وہ کوریائی زبان میں اتنا آتا کہ بس یہی یا د رہ جاتا ۔۔
چلتے چلتے پارک میں گھس گئے۔۔ انکے پیچھے مناسب فاصلہ رکھتی نور فٹ پاتھ پر چل رہی تھی۔۔ دو رویہ چیری بلاسم کے درخت پھول بکھیر رہے تھے۔۔ ہلکی ہلکی سرد چلتی ہوا۔۔ گرمی تو نام کو نہ تھی سو وہ مزے سے گھوم رہے تھے اور اتنا چلنے کی عادت نور کو نہ تھی۔۔ وہیں دم دے گئ۔۔
خدایا ٹانگیں نقلی ہیں کیا انکی پوری گنگم اسٹریٹ پیدل گھوم لی اب بھی اتنی توانائی باقی کہ پارک۔۔
چلتے چلتے کالے غلاف میں لپٹا وجود ہانپ اٹھا۔۔
پاس سے گزرتے چندی آنکھوں والے اسے گھور گھور کر دیکھ رہے تھے۔۔
گلے میں کیمرہ لٹکائے وہ مکمل طور پر اپنے آپ میں مگن تھی۔۔
چھوگیو۔ ۔
اسے اچانک کسی نے مخاطب کیا تھا۔۔
چھوگئو۔۔یعنی عزت سے مخاطب کیا تھا۔۔ ایکسکیوز می۔۔کی طرح
دے۔۔ وہ پلٹ کر دیکھنے لگی۔۔
ایک تصویر بنا دیں ہماری۔۔
وہ ایک اور چندی آنکھوں والا جوڑا تھا خوب گورا سا۔۔ لڑکی نے اسکرٹ پہن رکھی تھی اسکی آنکھیں وہیں جم گئیں۔۔ مطلب اتنا کچھ پہن کر میں کپکپا رہی اور یہ۔؟۔۔
چھوگیو؟۔ لڑکے نے اسکے سامنے چٹکی بجائی تو وہ چونکی۔۔
دے۔۔ اس نے انکے ہاتھ سے موبائل لیکر حسب منشا دو تین تصویریں بنا دیں۔۔ ایک اپنے اچھے والے کیمرے میں بھی کھینچ کر دستی انکو ہوائی ربط سے بھیج دی۔ جھک جھک کر شکریہ ادا کرتے وہ آگے بڑھے اور وہ اپنے دھندے پر واپس۔۔
پ
اتنے بڑے پارک میں انکو ڈھونڈنا۔۔
وہ ایک۔نظر دوڑا کر ہی ہار مان کر پلٹنے کو تھی جبھی اسکا فون بجا۔۔۔
یہ۔۔ اس نے فون دیکھا پھر ادھر ادھر دیکھا۔۔
کونسا پیچھے کا منظر بہتر رہے گا۔۔ اسکے پاس چند سیکنڈ تھے بس۔۔
امی ویڈیو کال کیوں پسند ہے آپکو اتنی۔۔
بے وقت کال نے اتنا بھونچکا کیا کہ سلام نہ دعا چھوٹتے ہی کہہ بیٹھی۔۔ آگے بھی روائتی پاکستانی امی تھیں۔۔
نہ سلام نہ دعا ساری تمیز کوریا میں بیچ کھائی ہے ؟۔۔
سوری امی۔۔ وہ کھسیائی۔۔
غضب خدا کا انجان ملک میں تنہا جوان لڑکی سو وہم ستاتے میرا بس چلے تو چوبیس گھنٹے کی ویڈیو کال ملائوں۔۔امی جزباتی ہو چکی تھیں۔۔ چوبیس گھنٹے کی۔۔
نور دل ہی دل میں کراہی۔۔
شکل تک دیکھنے کو نہیں ملتی منہ پر نقاب چڑھا کر بیٹھئ رہتی۔ ارے ماں کو کبھی شکل تو دکھا دو۔۔ ہٹائو نقاب۔۔
انہوں نے ڈپٹا تو وہ بے بسی سے بولی
امی گھر نہیں ہوں میں۔نقاب نہیں ہٹا سکتی
جب دیکھو گھر نہیں ہوں سوتی بھی یونیورسٹی میں ہو کیا؟ آجائو بس واپس بہت ہوگیا ۔۔ جو پڑھنا یہیں پڑھو۔۔بتائو زرا اتنا سا منہ نکل آیا ہے تمہارا۔۔
امی پر رقت طاری ہونے لگی تھی اور نور کو ہنسی آگئ۔۔ پارک پر اسکی مستقل نظر تھی امی کو تسلی دیتے بھی آنکھیں گردش میں تھیں
نظر کہاں آرہا ہے میرا منہ امی حد کرتی ہیں اتنی فکر نہ کیا کریں میری۔۔
ہاں تو دکھا دو نا ماں سے بھی پردہ کرنا شروع کر دیا ہے۔۔ حد ہے وہاں اس جب بات کی ساحل کنارے توبھی منہ پر نقاب چڑھایا ہوا تھا۔ عجوبہ ہیں ہماری صاحبزادی پردہ دار بوا۔۔ تم۔۔
اسے نظر آگئے تھے دونوں۔۔ دور ایک سنگی نشست پر بیٹھے وی کا نشان بناتے اپنی تصویر خود لیتے۔
یار ایک تو یہ وی انکی شناختی علامت لگتا ہے۔۔ ہر تصویر میں ایک ہی۔حرکت ۔۔ عاجز نہیں آجاتے۔۔؟
اس نے منہ بنا کر سوچا۔۔
اچھا میں ایسا کرتی ہوں آپکو گھر جا کر ویڈیو کال کرتی ہوں شکل دیکھ لیجئیے گا ٹھیک خدا حافظ۔۔
اس نے جلدی سے کہہ کر فون بند کر دیا ۔۔ اب تماشا شروع ہونے ہی والا تھا۔
اس نے اب تک کی ساری کھینچی تصویریں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی تھیں اور اس لڑکے کو ٹیگ کیا تھا چند منٹ لگے تھے۔۔
پہلا تبصرہ اسکی ہی محبوبہ کا تھا۔۔
تھی تو ہنگل سی ٹرانسلیشن کیا تو عجیب سا جملہ بنا۔۔
تمہارے گھر میں بندھا کتا میرا پالتو ہے۔۔ جیسا کچھ۔۔
شائد یہی لکھا تھا اس نے۔۔
اس لڑکے کو بھی شائد ویڈیو کال ہی آئی تھی۔۔ اس نے تھوڑا گھبرا کر نو ہی کرنا چاہا تھا کہ لڑکی نے اسےہاتھ سے موبائل چھین کر کال وصول کر لی۔۔
دے؟ اسکی دے اس نے اس سے کافی فاصلے پر کھڑے ہو کر بھی آسانی سے سن لی تھی لڑکے کے کان کا پردہ جانے سلامت رہا ہوگا کہ نہیں
اس مسکراتی لڑکی میں اچانک جان سینا کی روح آسمائی تھی۔۔ بپھری شیرنی کی طرح اسکی۔جانب بڑھی
ناپھودا۔۔
شہہ بال ۔۔ جیہرال۔۔
وہ چندی آنکھوں والی لڑکی بے دریغ گالیاں دیتے اس چندی آنکھوں والے لڑکے کی اپنے پرس سے ٹھکائی کر رہی تھی۔۔
انکے گرد لوگ جمع ہو رہے تھے۔۔
دور نقاب پوش کالے عبایا میں کھڑی لڑکی انکی تصویر کھینچ کر اپلوڈ کر رہی تھی ہیش ٹیگ۔۔
پنگا نہیں چنگا ۔۔۔
دیسی کمچی قسط تین
دوسرا حصہ
یار ویسے مجھے ایک بات بہت پسند ہے کوریا کی پبلک ٹرانسپورٹ۔ اب ہماری کتنی بچت ہو جاتی ہے گھر سے اسٹاپ بھی قریب ہے۔۔ اور یونی سے بھی پیدل کا راستہ ورنہ پاکستان میں تو وین لگانی پڑتی تھی۔۔ اور اسکول اور کالج کے دو سال سب سے پہلے مجھے پک کرتا تھا سب سے آخر میں میں ڈراپ ہوتی تھی۔۔ پورے ڈیڑھ گھنٹے وین میں۔۔
یونیورسٹی سے نکلتے ہوئئ عزہ پر پبلک ٹرانسپورٹ کی اہمیت آشکار ہوئی تھی۔۔ وہ ابیہا اور الف اکٹھے ہی آتی جاتی تھیں ہوتی تو نور بھی ساتھ مگر آج نہیں تھی۔۔ تینوں ہم قدم تھیں۔۔
گھنٹہ تو ہمیں بھی لگ جاتا گھر پہنچتے۔ اور تم گھر کے دروازے پر اترتی تھیں محترمہ ۔۔ ابیہا نے یاد دلایا تو وہ کندھے اچکا گئ۔
ہاں مگر وہاں ایسے گھومنا بھی تو محال تھا نا۔۔ الف نے منہ بنایا۔۔ تبھئ پاس سے گزرتئ چندی آنکھوں والی آنٹی بغور ان تینوں کے حلیئے کو دیکھتی گزریں
ہاں ۔۔۔ یارکیسا لوگ گھور گھور کر دیکھتے ہیں ہمیں۔۔
ابیہا بڑ بڑائی تو الف سمجھی پاکستان کی بات ہو رہی۔۔
ہاں کبھی کبھی ٹھرکی عوام ٹکر جاتی ہی تھی مگر شکر ہے یہاں کوئی گھور گھور دیکھتا نہیں گزرتا۔۔
الف جوش سے بولنا شروع ہوئی پھر آواز مدھم ہوتی چلی گئ۔۔ اس بار باقاعدہ دو چندی آنکھوں والے لڑکے گھورتے گئے تھے انہیں۔۔ مگر انکے دیکھنے میں حیرت نمایاں تھی۔۔
یار سال ہونے کو آرہا ابھی تک لوگ ہمارے عبایا سے مانوس نہیں ہوئے۔۔ عزہ نے ٹھنڈی سانس بھری۔
یار ا س دن میں نے ایک نئے ڈرامے کی جھلک دیکھی اس میں ہیروئن برقعہ پہنے پھر رہی تھی۔۔
ابیہا کو مس ہمورابی کا ٹریلر بروقت یاد آیا تھا بڑا خوش ہو کر بتایا۔۔
ہیں ؟ مسلمان بنی ہے ؟ کون ہے؟۔۔
عزہ اور الف کو بھی دلچسپی ہوئی
گوارا ہے ۔۔ لڑکا نہیں پتہ بڑا پیارا ہے مگر۔۔ پتہ نہیں کیا کہانی مگر لڑکی نے نقاب تک کیا ہوا تھا۔۔
ابیہا نے آنکھیں میچ کر جوش سے بتایا۔
بس دو دن بلکہ اب تو ایک دن ہی رہ گیا آگے رمضان ہے کے ڈرامے ایک مہینے کیلئے ٹا ٹا با ئے بائے۔۔
عزہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر بتایا۔۔
کیوں؟ افطار کے بعد تو دیکھ سکتے۔۔ ابیہا کو اسکا خیال پسند نہ آیا۔۔
ہاں تو اور کیا معصوم سے ڈرامے ہوتے ہم افطار کے بعد دیکھ سکتے۔۔ الف نے بھی ہاں میں ہاں ملائئ۔۔ عزہ کو اعتراض کوئی نہیں تھا اس نے بس یونہی بات کی تھی۔۔
تینوں چلتے چلتے اسٹاپ پر پہنچ گئیں۔۔ دو تین لڑکیاں اسٹاپ پر بنی سنگی نشست پر براجمان تھیں۔۔
انہیں دیکھ کر سسمٹ کر رخ پھیر لیا۔۔
تینوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔۔
یار یہ کیا ہے۔۔ ابیہا کی نگاہ تبھی بس اسٹینڈ پر لگے اشتہار پر پڑی۔۔ بھاگ کر اسکے قریب جاکر پڑھنے لگی۔۔ نشستوں پر براجمان لڑکیاں اسکو اپنے اوپر آجھکتے دیکھ کر بھونچکا رہ گئیں مگر وہ اپنی دھن میں تھی لڑکی کا سر دھیرے سے ایک طرف کر کے جی چھانگ ووک کی تصویر اور اس پر لگی عبارت پڑھنے کی۔ناکام کوشش کرنے لگی۔۔ پورا اشتہار ہنگل میں تھا۔
کیا کررہی ہو؟ لڑکی نے بد مزا سا ہو کر اسے پیچھے کیا۔
یہ کیا لکھا ہے ۔۔۔ ابیہا نے بے تابی سے اس کا کندھا ہلایا۔۔
لڑکی نے برا سا منہ بنا کر مڑ کر اپنے سر کے اوپر لگے اشتہار کو دیکھا پھر مڑ کر ساتھی لڑکی کوکان میں کچھ بتایا دونوں اب ابیہا کو دیکھ کر ہنس رہی تھیں۔۔
پلیز بتا دیں۔۔ ابیہا ان سے ہنگل میں ہی مخاطب تھی۔۔
جب اتنی ہنگل بولنی سیکھ لی ہے تو پڑھنی بھی سیکھ لو۔۔
لڑکی مفت مشورے سے نوازتی اپنا بیگ اٹھا کر کھڑی ہوگئ۔۔ اسکی بس آگئ تھی دونوں انہیں تمسخر سے دیکھتی ہوئی بس میں چڑھ گئیں۔۔ ابیہا مایوسی سے انہیں دیکھ کر رہ گئ۔۔
انکو کیا ہوا تھا؟۔۔ عزہ اور الف ابیہا کے دائیں بائیں آکھڑی ہوئیں۔۔
پتہ نہیں ہنگل پڑھنی نہیں آئی ابھی تک مجھے ووکی کا اشتہار پڑھنے کا کہہ دیا تو مزاق اڑاتی چلی گئیں۔ پتہ نہیں کیا لکھا ہے یہ؟۔۔
وہ مڑ کر حسرت سے اسکے پوسٹر پر ہاتھ پھیرنے لگی جیسے ہاتھ پھیرنے سے تو ہنگل کے حروف بول پڑیں ہم یہ لکھے ہیں موصوفہ۔۔
کسی اور سے پڑھوا لیتے ہیں۔
الف سے اسکی مایوس شکل نہ دیکھی گئ۔۔
ٹھہرو۔۔
وہ آگے بڑھ کر اشتہار کونوچ کر اتارنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ عزہ بھی اسکی مدد کرنے کو آگے ہوئی۔۔
ایک تو کوریا والے بڑی پکی گوند سے چپکاتے ہیں۔۔ ابیہا اشتہار نوچتے جھلائی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چپ چپ تو محسوس ہی نہیں ہو رہی ۔۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے اسے۔۔
عروج ہاتھ گیلے کیئے ملتی ہوئی غسل خانے سے نکلی۔
کمرے میں بس نور ہی بیڈ پر لیپ ٹاپ کھولے آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔۔
کسے چپ چپ کرنا تھا؟۔ اس نے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے مصروف انداز میں پوچھا۔۔
سینی ٹائزر کو لگ رہا پانی ہاتھ پر مل رہی ہوں۔۔ عروج الجھن سے اپنے ہاتھ دیکھ رہی تھی۔۔ نور چور سی ہوئی۔۔ ڈرتے ڈرتے سر اٹھایا مگر ابھی عروج پر انکشاف ہوا نہیں تھا۔۔
ہاں تو ایکسپائر ہو گیا ہوگا۔۔ دوسرا لے لو۔۔
اس نے تھوک نگل کر دزدیدہ نظروں سے اسے دیکھتے مشورہ دیا۔۔
پوری شیشی ہے بھری۔۔ مجھے تو لگا تھا آدھی رہ گئ ہوگی مگر یہ تو کافی بچا ہوا ہے۔۔
وہ شیشی ہلا ہلا کر اندازہ لگا رہی تھی۔
خراب جو ہوگیا یے۔۔اسکو پھینکو نیا لے لو۔۔
نور نے اسے منانا چاہا مگر عروج کا ارادہ اپنی حلال کی کمائی کو یوں ضائع کرنے کا نہیں تھا۔۔
ایسے ہی ۔۔ میں اسے جا کر فارمیسی والے کے منہ پر ماروں گی۔۔ دو نمبری کرتا ہے۔۔ پانی بھر کے دے دیا۔۔ یہ پاکستان تھوڑی۔۔فارمیسی کا لائیسنس کینسل ہو جائے گا ۔۔
وہ کہتی یوں جوش سے دروازے کی طرف بڑھی جیسے ابھی جا رہی ہو فارمیسی والے کی شکایت کرنے۔۔
ارے رکو۔۔ نور اچھل کر بیڈ سے اتری اور بھاگ کر اسے کندھے سے جا لیا۔۔
دیکھو اسکی سیل تم نے خود کھولی تھی نا۔۔ فارمیسی والے کا کیا قصور یہ تو کمپنی کا مال ہی غلط آیا ہے نا۔
نور نے کہا تو عروج اسے گھورنے لگی۔۔
پھر بات سمجھ آئی۔ تو سر ہلا کر بولی
ہاں۔۔ مجھے اسکی صارف مددگار میں شکایت کرنی چاہیئے۔ وہ پلٹ کر بیڈ کی جانب فون اٹھانے بڑھی۔۔ نور اچھل کر اسکے سامنے آگئ
تم نے استعمال کر تو لیا تھا سا را بس تھوڑا سا ہی تو بچا تھا آدھی بوتل تک۔۔ اسکی کیا شکایت کرنی۔۔ دفع کرو۔ ایکسپائر ہوگیا ہوگا نیا لے لو۔۔
نور نے حتی المقدور کوشش کرتے ہویے اسے باز رکھنا چاہا۔
آدھا بھی سہی۔۔ اتنی جلدی ایکسپائر تو نہیں ہو جانا چاہیئے نا۔۔ اب کل دو ڈیڈ باڈیز کو چھونا پڑا مجھے۔۔ انکے مردہ ہونے کی تصدیق کرنی تھی ۔۔ ڈیوٹی بھی ختم ہونے والی تھی ہاتھ دھویا مگر سینیٹائزر سے دھونا بھول گئ۔ گھر آکر اسی سے ہاتھ دھوئے تھے اگر یہ ایکسپائر ہو گیا ہوا ہے تو اس نے تو۔۔ ابھی عروج نے اتنا ہی بتایا تھا نور کے زہن میں صبح کا منظر لہرایا۔۔ وہ یونیورسٹی جانے کو تیار کھڑی تھئ جب عروج نے باتھ روم سے آواز لگائئ۔۔
یار عزہ میری تولیہ زمین پر گر گئ ہے نئی پکڑاتی جائو۔
اس نے مصروف سے انداز میں سامنے پڑی اپنی تولیہ ہی اٹھا کر اسے تھما دی تھی اور باہر نکل گئ تھی۔۔
اس نے خوفزدہ ہو کر آنکھیں میچ لیں کانوں پر ہاتھ رکھ کر چیخ اٹھی۔۔
نہیں۔۔
کیا ہوا۔۔ عروج گھبرا کر اسے تھامنے کو بڑھی۔
نہیں دور رہو۔۔
وہ بوکھلا کر پیچھے ہوئی۔۔
مجھے مت چھونا۔۔ پہلے بتائو تم نہائی تو تھیں نا گھر آکر؟
وہ گھبرائے ہوئے انداز میں اس سے تصدیق چاہ رہی تھی۔
ہاں نہائی تھی صبح تم سے ہی تو تولیہ مانگی تھی۔۔
عروج نے معصومیت سے بتایا اسکو سمجھ نہیں آرہا تھا اسے اچانک ہوا کیا۔۔
چلو۔۔ نہا لیں پاک ہو گئیں مگر جراثیم۔۔ ۔وہ زیر لب بڑ بڑا رہی تھی۔۔
میری تولیہ۔۔ اس نے متلاشی نظروں سے تولیہ کو کمرے مین تلاشا۔۔
وہ رہی۔۔ ابھی تم ہی تو ہاتھ پو نچھ رہی تھیں اس سے۔۔ عروج نے کرسی کی جانب اشارہ کیا جس کی ہتھی پر سوکھنے کی نیت سے لٹکائی تھی۔
میرے ہاتھ۔۔ وہ بوکھلا کر باتھ روم کی جانب دوڑی
اسے کیا ہوا۔۔ عروج الجھن سے اسے دیکھتی جھک کر بیڈ سے فون اٹھانے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ آپ کیا کر رہی ہیں۔۔
کسی نے شستہ انگریزی میں ان سے پوچھا تھا۔۔ تینوں چونک کر مڑیں تو ایک چندی آنکھوں والا گورا سا لڑکا چہرے پر ماسک پہنے ان سے مخاطب تھا۔۔۔
وہ تینوں سنگئ نشست پر گھنٹنے کے بل چڑھی اشتہار کھرچ رہی تھیں۔ دفتری اوقات کا وقت نہیں تھا جبھی اس وقت رش نہیں تھا بلکہ اس وقت اسٹاپ پر بس وہ تینوں ہی تھیں۔ تینوں فورا سیدھی ہو کر بنچ سے اتر گئیں۔۔ ہمارے یہاں تو عموما چور ڈاکو ہی چہرہ چھپاتے مگر کوریا میں اکثر لوگ دھوپ سے بچنے یا گرد و غبار سے بچنے کو ماسک پہن لیتے ہیں مگر یہ لڑکیاں کسی اور قسم کا ماسک پہنے تھیں ۔۔ ماسک والا لڑکا الجھن میں پڑا تھا۔
وہ ہم یہ اشتہار اتار رہے تھے۔۔ ابیہا نے اسے ہنگل میں بتانا چاہا
آپکو یہ اشتہار پسند ہے؟۔وہ لڑکا ہنگل میں ہی بولا
دے؟۔ ابیہا نے فورا سر ہلایا۔
ماسک والے لڑکے کو ہنسی آگئ تھی۔۔ ماسک کے نیچے یہ اتنی بڑی گالوں کو چیرتی مسکراہٹ در آئی تھی۔۔
تو آپ اسے اتارنے کی بجائے تصویر کھینچ لیں اس کی۔۔
اس نے ابیہا کے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی جانب اشارہ کرکے کہا تو ابیہا کھسیانی سی ہوئی یہ تو خیال ہی نہیں آیا۔
یہ کیا کہہ رہا ہے۔ عزہ نے ابیہا کو کہنی ماری۔
مجھے نہیں پتہ۔۔ ابیہا صاف مکر گئ۔۔
یہ گیلا کر کے اترے گا۔۔ پانی ہے آپکے پاس؟ ۔۔ وہ آگے بڑھ کر اشتہار کو چھو کر دیکھنے لگا۔۔
آنیمیتا۔۔(نہیں) ابیہا نے جواب دیا تو الف اس کے بازو پر چٹکی بھر کر بولی۔۔
اشتہار اتروانے کی بجائے اس سے کیوں نہیں پوچھتی ہو کہ کیا لکھا ہوا ہے؟۔۔
ابیہا کے بھی دماغ کی گھنٹی بجی۔۔ یہ بھی خیال نہ آیا کیوں بھلا؟۔
لڑکے نے ماسک چہرے سے نیچے کیا اپنا انگوٹھا منہ میں لیکر گیلا کیا اب اشتہار کے کونے پر رگڑا۔۔ کونا اکھڑ آیا۔۔
اور ابیہا عزہ اور الف کو کراہیت ہوئی۔
اب اگر یہ اشتہار اتار بھی دے تو کون پکڑے گا اس اشتہار کو۔۔عزہ کی بات میں وزن تھا ابیہا متفق تھی البتہ
الف اسے دیکھ کر سوچ میں پڑگئی کہاں دیکھا ہے اسے۔۔۔
چھوڑیں اسے۔ مت اکھاڑیں۔ کیا آپ پڑھ کر بتا سکتے ہیں یہ کیا لکھا ہوا ہے؟۔
عزہ نے سیدھا سیدھا پوچھ لیا اس سے انگریزی میں۔۔
جی ضرور۔۔ اس نے فورا ہاتھ روکے۔۔ اشتہار اکھڑ تو رہا تھا مگر پھٹ بھی رہا تھا۔ وہ ہاتھ جھاڑتا سیدھا ہوا۔۔
یہ جی چھانگ ووک کی پھین میتنگ( فین میٹنگ) کا اشتہار ہے۔۔ وہ رکا۔۔اسکی انگریزی بہت رواں نہیں تھی مگر بات سمجھا سکتا تھا۔۔
ابیہا کی سانس بھی رکی۔۔فین میٹنگ جی چھانگ ووک کیا اسے دیکھ سکنا ممکن ہے۔ وہ خیالوں کی رو میں بہکنے کو تھی۔۔
مگر یہ پرانا اشتہار ہے چھے مہینے پرانا ۔۔ اس نے مسکرا کر انگریزی میں ہی بتایا۔۔
ابیہا کے اوپر یاسیت چھائی۔ نقاب منہ پر ہونے کے باوجود بھی آنکھوں سے چھلکتی مایوسی اس سے مخفی نہ رہ سکی۔
بیانئیے۔ وہ کوریائی انداز میں معزرت کرتا ان سے اجازت لیتا آگے بڑھ گیا۔
یار اسکو میں نے کہیں دیکھا ہے۔ الف اسکی چوڑی پشت کو نظروں میں رکھے رکھے بولی۔ گرے پینٹ اور آف وائیٹ لائننگ والی فل آستینوں والی شرٹ کو اس نے موڑ کر کہنی تک چڑھایا ہوا تھا۔۔
سب ہی تو اسی شکل کے ہیں۔۔۔ عزہ نے ہاتھ جھاڑے۔۔
دور سے اسے بس آتی دکھائی دے رہی تھی۔
ہاں مجھے جی چھانگ ووک کی شکل کا لڑکا ٹکرا تھا پچھلے سال مال میں پھرتے۔۔ جب میں اسے سب بتا چکی کہ میں نے کے ٹو ہیلر کتنی بار دیکھا ہےا سکے پیچھے تب اس نے مجھے بتایا میں جی چھانگ ووک نہیں آگے سے ہنس بھی رہا تھا کمینہ۔۔ دل تو کیا تھا دانت ہی توڑ دوں اسکے۔۔
ابیہا کو پچھلے سال کا واقعہ پوری جزئیات کے ساتھ یاد آیا تھا۔۔ بلبلا کر بتانے لگی۔ عزہ زور سے ہنسی تھی۔
یہ تو صحیح بستی ہوئی پھر تو آپکی۔ وہ ابیہا کو کندھا مار کر چھیڑنے لگی۔ ابیہا بھنا کر اسے پیچھے کرنے لگی
الف ابھئ بھی اسی لڑکے کو ہی دیکھ رہی تھی۔ سڑک کنارے لاپروائی سے کھڑا ادھر ادھر دیکھتے فون پر بات کر رہا تھا۔۔
کا ش کبھی یونہی چلتے پھرتے سیہون ہی مل جائے۔۔
اسے گھورتے جانا کافی غلط بات تھئ سو آہ بھر کر اس نے یونہی اپنا موبائل کی اسکرین روشن کرکے وقت دیکھا۔ ایکسو انگوٹھے اور انگلی والا دل بنائے بڑے انداز سے دیکھ رہے تھے اسکرین پر۔
مانوس چہرے۔۔ اسکے زہن میں جھماکا سا ہوا۔
اس نے چونک کر نظر اٹھائی۔ اس لڑکے کے پاس ٹیکسی آ رکی تھئ۔۔ اس لڑکے کا آدھا چہرہ دکھائی دے رہا تھا اب۔۔
اسکے کانوں میں واعظہ کی آواز گونجی تھی۔۔ اسے بتا رہی تھی
یار رچ مین شروع ہوا ہے تمہارے کیا نام ہے اس لڑکے کا یار۔۔ وہ پیشانی مسل رہی تھی۔
یار وہ جو ایکسو والا لگتا گال میں پان دبا کر بیٹھا ہے ہونٹ بھینچ کر جو بولتا ہے۔۔
اس نے نشانی بتا کر بجھوانا چاہا۔۔
سو ہو۔۔ الف فورا پہچان گئی تھی۔۔
سو۔۔ ۔۔ اسکے لب ہلے۔۔ اس لڑکے نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا
سو ہو۔ اس کے لبوں سے ہلکی سی آواز نکلی۔ لڑکا ایک ٹانگ اندر کر کے آدھا بیٹھا ہی تھا۔۔ اس نے اپنی ساری ہمت مجتمع کر کےجوش کی انتہا پر خوش ہوتے پکار لیا۔ آواز نکلی۔۔ اور کیا پاٹ دار آواز نکلی۔۔
سوووہو۔۔۔۔
بس کے پائدان پر پیر رکھنے کو اٹھاتی ابیہا اچھلی تھی۔
عزہ دہل کر ہاتھ سے موبائل چھوڑ بیٹھی تو آدھا بیٹھا سوہو آواز کے منبع کو جانے بنا بھی گھبرا کر وہیں اسی انداز میں جم کر مڑ کر دیکھنے لگا۔۔
سفید جینز لمبا سا کلیجی رنگ کا لمبا سا کرتا اور ساتھ ہمرنگ لمبا سا لہراتا پردہ۔ ( دوپٹہ) سر پر سفید اسکارف باندھے وہ لڑکی بھاگتی ہوئی اسکی جانب آرہی تھی اور پیچھے اسکے دو کالے لمبے لبادے پہنے لڑکیاں پورے چہرے پر نقاب بس آنکھیں ہی نظر آرہی ہوں۔۔
سو ہو۔۔ سر۔ اس کوپھر آواز آئی تھی۔۔
وہ دھپ سے نشست پر ٹکا۔۔اسکی پرستار ایسے حلیئے میں تو نہیں ہوتی ہیں۔ اور یقینا ابھی ہونے والی گفتگو انکو بھڑکا دینے والی نہیں تھی۔۔ پھر اس طرح بھاگ کر آنے کا مقصد۔
چلیں؟۔ ٹیکسی ڈرائیور مڑ کر اس سے پوچھ رہا تھا۔۔
ایک ٹانگ سڑک پر دھرے وہ شش و پنج میں تھا آیا دروازہ بند کر کے ٹیکسی ڈرائیور کو ٹیکسی بھگانے کا کہے یا۔ ۔۔ ۔یا کا موقع ختم ہوا۔۔ وہ تینوں اسکے سر پر آپہنچی تھیں
پھولی سانسوں کو برابر کرتی الف بمشکل جوش و خروش سے سرخ چہرے کے ساتھ کہہ پائی تھی۔۔
آپ آپ۔۔ ہو۔۔ ( سانسیں چڑھی ہوئی تھیں اسکی) سو ہو ہیں نا؟۔۔ سوہو ہو۔۔ سو۔۔ وہی والے وہ رچ ۔۔ والے میں آپکی ۔۔۔۔ بلکہ ایکس۔۔ ہوووو ۔۔ کی ہی۔ الف کوخود پتہ نہیں تھا اسکے منہ سے کیا نکل رہا۔۔ اور پھر ایسے موقع پر انگریزی بھئ کہیں بھاگ جاتی ہے۔۔
تین لڑکیاں اجنبی حلیے میں اجنبی زبان میں جانے اس سے کیا کہہ رہئ تھیں۔
اسکے چہرے پر سراسیمگی سی چھائی تھی تھوک نگل کر اس نے پوچھنا چاہا۔۔
دے؟ واٹ ڈڈ یو سے؟۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔
دیسی کمچی قسط تین
حصہ سوئم
اس نے صبح سے تین جگہ انٹر ویو دئیے تھے۔۔ تینوں انٹر ویو اسکی زندگی کے یادگاری انڑویو تھے۔۔
گلاس ڈور دھکیلتے ہوئے فاطمہ بڑے اعتماد سے کمرے میں داخل ہوئی۔۔ یہ کوریا کی مشہور موبائل کمپنی کے صارف مددگار کال گاہ( کال سینٹر) کا مرکزی دفتر تھا۔۔
بڑی سے میز پر تین افراد براجمان تھے ایک ادھیڑ عمر مینجر ایک نسبتا جوان لڑکا اور ایک خاتون۔۔
آننیانگ ہاسے او۔۔
فاطمہ نے جھک کر کوریائی انداز میں مسکرا کر سلام کیا۔ آموکچھورو ۔۔( برائے مہربانی)
انجے سے ہیو۔۔
( تشریف رکھئیے)
اھیڑ عمر چندی آنکھوں والے نے بڑی تمیز سے کہا تھا
دیح؟۔۔ دے۔۔
وہ سمجھی نہیں تو انہوں نے اشارے سے بیٹھنے کا کہہ کر جملہ دہرایا۔۔
تھینکس ۔۔ وہ سر ہلا کر بیٹھ گئ۔
اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔۔ چندی آنکھوں والا اس سے خالص ہنگل میں پوچھ رہا تھا۔۔
جی۔۔ اسکے منہ سے اردو نکلی تھئ۔۔
ٹھیل اش شم تھن آبائوٹھ یو۔۔
نسبتا جوان خالص کوریائی لہجے میں اس سے انگریزی میں پوچھ رہا تھا۔۔
ٹیل اس سم تھنگ ابائوٹ یو۔۔
ہمیں اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔۔
اچھا۔۔ اس بار اسکا زہن چلا تھا۔ پھر چلتے چلتے پاکستان جا پہنچا۔۔
وہ اس انٹرویو سے پہلے پاکستان میں دیئے جانے والے انٹرویو میں پہنچ گئ۔۔ دفتر کم و بیش وہی تھا ۔مگر سامنے چندی آنکھوں والے کے بجائے بڑی آنکھوں والا گندمی رنگت والا تقریبا جوان بندہ اس سے شستہ انگریزی میں مخاطب تھا۔۔
سو ٹیل می سم تھنگ ابائوٹ یو۔۔
فاطمہ نے گہری سانس لی ۔ پہلا انٹرویو تھا وہ تھوڑا سا گھبرائی ہوئی تھی۔۔ تھوک نگل کر بولنا شروع کیا
میرا نام فاطمہ ہے میں۔
ابھی اتنا ہی بتایا تھا اگلے نے فورا ٹوک دیا۔
انگلش پلیز۔ وی نیڈ گڈ اسپوکن انگلش ایز یو نو۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے لمبا سا فراٹے دار انگریزی میں دیا جانے والا واعظ تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ امریکی اسکول سسٹم میں جو بچے پڑھ رہے ہیں وہ آدھے تیتر آدھے بٹیر ہیں اردو انہیں بس اتنی ہی آتی کہ اپنے ملازم سے اپنا زاتی کام کروا سکیں سو اگر آپ انہیں انگریزی پڑھانا چاہتی ہیں تو آپکو فراٹے سے انگریزی بولنا آنا چاہیئے ۔ لکھنے میں بھلے آپ کو دو سو لفظوں کا مضمون لکھنا آتا ہو۔ انگریزی ادب میں ماسٹر کی فرسٹ ڈویژن میں ڈگری لے رکھی ہو
سب بے کار ہے۔۔ انگریزی بولنا فی زمانہ کامیابی کی دلیل ہے ورنہ آپ زلیل ہیں خوار ہیں ہم جیسوں کے آگے۔
اسکی لمبی تقریر نے گھبرائی ہوئی فاطمہ کی رہی سہی انگریزی بھاپ بنا کر اڑا دی تھی۔۔
اس نے سر جھکا کر کہا تھا ۔۔
جی۔۔
زندگی کا پہلا انٹرویو۔
انگریزی مادری فادری زبان نہ ہونے کے باوجود اس نے سیکھی تھی پڑھی تھئ اسے آتی تھی بولنی بھی آتی ہوتئ اگر اسکے والدین امریکی ہوتے برطانوی ہوتے اسکے آباواجدا دانگریزوں کی غلامی سے نجات کیلئے لڑے نہ ہوتے ابھی بھی غلام ہوتے انگریزوں کے تو کیوں نہ آتی ۔۔ مگر ستر برس قبل اسی تنازعے پر علیحدہ وطن بنا کر انہوں نے انگریزی اور انگریزوں سے نجات حاصل کرنا چاہی تھی۔۔ مگر نجات مل نہ سکی تھی۔۔ انکی زہین فطین اولاد جس نے انگریزی ادب گھول کر پیا تھا انگریزی طوعا کرہا کیا مجبورا و شوقیہ بھی سیکھی۔۔مگر بولتے تو آپ وہی زبان ہیں نا جو آپکے ارد گرد بولی جاتی ہو جو آپکے اردگرد لوگ سمجھتے ہوں۔۔ جو آپ بچپن سے استعمال کرتے ہوں۔۔ اور پاکستانی معصوم بچی کو انگریزی پڑھا دی سکھا دی سمجھا دی اب بلوانا بھی ضروری کیا؟ کم از کم بولنے کی تو پابندی نا لگائو۔۔ صد افسوس۔
اسے بڑی تہزیب کے ساتھ جواب دیا گیا تھا کسی بھی بڑے ادارے میں جائو کم از کم زلیل کرکے نہیں نکالا جاتا اتنا احسان کر دیتے ہیں پڑھے لکھے لوگ۔۔ خیر اس دن اس نے تہیہ کیا تھا انگریزی بولنا بھی سیکھے گی۔۔
اسکو اپنے پل پل کی محنت مشقت یاد تھی۔۔
گھنٹوں بیٹھ کر بور سے بور سی این این بی بی سی فاکس نیوز کی خبریں سنی تھیں ہر طرح کی ہارر ایکشن انگریزی فلم دیکھی تھی گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر انگریزی بول بول کر اسپوکن انگریزی بہتر کی تھی۔۔ جنون ہو گیا تھا اسےجو اس ایک انٹر ویو میں ہوا ہے وہ آئندہ نہ ہونے پائے۔۔ اور کامیاب بھی رہی۔انگریزی کی بنیاد پر دبئی کے ایک کال سینٹر میں نوکری مل گئ اسے۔۔ وہ جانتی تھی کیسے اپنے گھر والوں کو ضدیں کرکے منایا کس طرح روئی جھگڑی کھانا پینا چھوڑا مگر ضد منوا لی۔۔ دبئی میں د ومہینے نوکری کرکے ہی اسکا کم از کم نوکری کا شوق اترا تھاوہی خاندان والے جو اکیلی لڑکی کو اتنی دور بھیجنے پر سو سو باتیں بنا رہے تھے دھڑا دھڑ اسکیلیئے رشتے بھیجنے لگے مگروہ اب اس ماحول سے نکل آئی تھی سو واپسی ناممکن تھی۔ اسے ایک کوریا میں موجود کسی فلاحی ادارے میں نوکری کا اشتہار ملا۔۔ لمبا چوڑا نام۔ تھا این جی او کا ۔ دبئ آگئ تھئ تو آگے کوریا جانا کیا مشکل تھا۔۔کوریا میں ہنگل کے جانے بغیر جانا مشکل تھا۔ سو اس نے کے پاپ کے ڈرامے دیکھنے شروع کیئے۔ مگر ہنگل اور انگریزی میں ایک بنیادی فرق یہ آیا تھا انگریزی وہ کنڈر گارٹن سے پڑھ اور سیکھ رہی تھی صرف بولنا مشکل تھا ۔ جبکہ ہنگل بولنا پڑھنا سیکھنا سمجھنا۔۔ کچھ بھی آسان نہ رہا تھا خیرکسی طرح ۔۔اسے نوکری مل گئ تھی۔۔ وہ دبئی سے کوریا آگئ۔۔ لیکن۔۔ یہاں آکر احساس ہوا انجمن میں نوکری کرنا آسان کام نہیں۔۔ زہنی بیمار کرنے لگا تھا اسے۔۔کام۔ سارا دن مخصوص موضوعات پر مقالے ڈھونڈنا لکھنا دنیا کی بے ثباتی کیا خوب آشکار ہوئی تھی وہی ہنستا مسکراتا ڈراموں والا خوش لوگوں والا کوریا کدھر ہے؟ شوہروں کے ظلم و ستم کا شکار خواتین،بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں، نوکری کی تلاش میں فلپائن جا کر غلط ہاتھوں میں پڑ کر زندگی برباد کروا لینے والے کوریائی۔۔چین میں شادیاں کر کے واپس آجانے والے انکو ڈھنوڈتے انکے اپنے۔ شمالی کوریائی محاجرین اور ان پر گزری ظلم و ستم کی داستانیں اسکے سامنے آجاتیں۔۔جن کو اسے مضامین کی شکل دینی ہوتی تھی جو پھر انکی دفتری ویب سائٹ اور ماہناموں میں چھاپا جاتا۔ تین چار مہینے میں ہی اسکی بس ہوگئ۔۔ اس نے شد و مد سے نوکری ڈھونڈنا شروع کی مگر اس سے پہلے کہ دوسری نوکری ملتی اسکو نوکری سے نکال دیا گیا۔ وجہ اسکا لکھا ایک مقالہ بنی جس میں اس نے شمالی کوریائی محاجروں کی صرف مشکلات کا زکر کیا تھا۔ خالصتا سچائی۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ شمالی کوریا میں رہتے ہوئے جو مشکلات آئیں انکے ساتھ ساتھ جنوبی کوریا میں انکے ساتھ ہوا برا سلوک بھی لکھ ڈالا۔ اسکا لکھا مضمون پہلے دیکھا جانا چاہیے تھا مگر ایڈیٹر صاحب کا اس پر اندھا اعتماد کہہ لو یا کام چوری وہ سیدھا چھپ گیا ماہنامے میں۔ بس دفتر ہل گیا اسکو اظہار وجوہ کا نوٹس آیا پھر بحث ہوئی اور آخر میں فاطمہ کے اندر کی دوٹوک بولنے والی لڑکی انگڑائی لیکر جاگ اٹھئ۔۔
المختصر نوکری گئ۔ ویزا کا مسلئہ پڑا پاکستانی ایمبیسی کے چکر لگے وہیں اسکی ملاقات واعظہ سے ہوئی تھی۔
واعظہ جسکے بھائی ایمبیسی میں اچھے عہدے پر فائز تھےوہ کسی کام سے انکے پاس آئی ہوئی تھی جب فاطمہ کا مسلئہ اسکے سامنے آیا۔ وہ ایمبیسی کے روئیے کو سخت تنقید کا نشانہ بنائے خوب غصے میں اسکے بھائی پر برس اٹھی تھئ۔ نڈر۔۔ بااعتماد۔ غلط بات پر ہتھے سے اکھڑجانے والی فاطمہ واعظہ کو پسند آگئ۔ بھائی اسکا جانے کیسے ضبط کیئے تھا۔ وہ اسکو سمجھا رہا تھا کہ اگر اسے یہاں نوکری نہیں ملتی تو یہاں رہنا مشکل ہوگا بہتر ہوگا وہ پاکستان واپس چلی جائے جب واعظہ نے ہاتھ اٹھا کر اپنے بھائی کو روکا اور اسے لیکر باہر لان میں لے آئی۔ اسکا مسلئہ سنا تسلی دی اور پھر حل کرنے کی کوشش بھی۔۔ تب اسے پتہ چلا ۔ واعظہ کے بھائئ بھابی کوریا میں ہی رہتے تھے اپنے بچوں کے ساتھ اور وہ الگ ایک اپارٹمنٹ لیکر سہیلی کے ساتھ رہتی تھئ۔۔ اس نے نا صرف اسکا رہائش کا مسلہ حل کیا بلکہ کہہ سن کر اسکی جاب بھی لگوا دی ایک مقامی انگریزی اخبار میں ڈیٹا انٹری اسکا کام ہوتا تھا سارا دن ٹائیپ کرتے نیوز پڑھتے سناتے کبھی کبھار سوشل میڈیا استعمال کر لیتی تھی۔۔ ایک دفعہ اسے تنبیہہ ملی اور دوسرئ بار نوکری سے برخواستگی کا خط۔۔
ہق ہاہ۔
جس پر اتنا کچھ ہو گزرا ہو اسے نوکری کا شوق نہیں رہتا۔ اب مجبوری تھی اسکی۔
چند لمحوں میں کئی مہینے کی کہانی گھومی تھی اسکی نظروں کے سامنے۔۔
میرا نام فاطمہ ہے ۔ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ میں کوریا میں نوکری کیلئے آئی ہوں ۔ میں نے ایم اے انگلش کیا ہے پاکستان کی مشہور یونیورسٹی سے۔۔ ( کونسا جا کر تصدیق کریں گے۔مانتے تو ہیں نہیں پاکستانی ڈگریوں کو ہونہہ۔ ) اس نے فراٹے سے انگریزی بولتے ہوئے دل میں ہی سوچا تھا۔
ساتھ ساتھ مجھے کمپوٹر کی بنیادی معلومات ہیں۔ بلکہ گریجوایشن تک اختیاری مضمون بھی رہا ہے کمپیوٹر۔۔
میں دبئی گھوم چکی ہوں وہاں کال سینٹر میں نوکری کرتی تھئ مگر چونکہ میں مہم جو اور تجربے کرنے شوقین لڑکی ہوں سو مجھے وقت گھما کر یہاں لے آیا۔۔ میں یہاں ایک این جی او کے ساتھ منسلک رہی ہوں میری محنت اور قابلیت نے مجھے مشکل ترین اس نوکری میں سرخرو کیا۔۔ ( اور کیا بتائوں)۔ میں ہر طرح کے ماحول میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ مددگار طبیعت ہے میری جتنی محنت سے کام کرتی ہوں اتنے ہی خلوص سے اپنے کام کرنے والے ساتھیوں کے ساتھ پیش آتی ہوں۔ یہ سب تفصیلات اس سی وی میں میں نے شامل بھئ کی ہیں۔۔
وہ بات ختم کر کے مسکرائی تھی۔۔ تینوں باقائدہ منہ کھولے ششدر سا اسے دیکھ رہے تھے۔ یہ ریل گاڑی اس تھوڑی بہت انگریزی جاننے والے کے بھی سر پر سے گزری تھی یقینا۔ اسکا چہرہ بتاتا تھا۔۔ فاطمہ دل ہی دل میں مغرور سی ہوئی خود کو خیالی تھپکی بھی دے ڈالی۔ شاباش چھکے چھڑا دئیے۔۔نوکری پکی تمہاری انکےخاندان میں کسی نے اتنی انگریزی بولی پڑھی نا سنی ہوگی کیا یاد کریں گے فاطمہ سے پالا پڑا ہے۔۔
اسکا سی وی لیکر ادھیڑ عمر شخص نے بغور دیکھا تھا۔۔ چھے مہینے میں دو نوکریاں بدلنے والی فاطمہ۔ دونوں ہی نوکریاں اور انکا تجربہ انہیں درکار نہ تھا مگر خیر۔ وہ بڑے ادارے والے بات۔ یاد آئی؟۔۔۔۔
ہنگل آرا۔۔۔۔؟۔۔۔۔ کوٹ اسکرٹ پہنے خاتون نے پہلو بدل کر اس سے پوچھا تھا۔۔
ہنگل سمجھ آتی ہے؟۔۔
اتنا تو سمجھ آگیا تھا۔ اسے۔۔
دے۔۔ اس نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیری۔۔ دل دھک دھک کرنے لگا تھا۔
آپکی انگریزی اچھی ہے مگر ہمیں انگریزی صارفین سے اتنا واسطہ نہیں پڑتا۔ اس مددگار کال سینٹر میں عموما کوریائی لوگ ہی کال کرتے یا رابطہ کرتے ہیں۔ سو ان کی مدد کرنے کیلئے ضروری ہے آپکو ہنگل بھی آتی ہو۔
نسبتا جوان والے ٹو پیس میں ملبوس لڑکے نے شائستگی سے اسے انگریزی میں بتایا تھا۔۔
مگر اشتہار پر تو آپ نے انگریزی بولنے کو ترجیح دیں گے لکھا تھا۔
فاطمہ بگڑ گئ۔ ناحق وقت ضائع کیا میرا۔۔
اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر تینوں کے انداز مزید شائستہ ہوئے۔۔
درست فرمایا اکثر یہا ں پر غیر ملکی صارفین آتے تو انگریزی ہم نے ترجیح رکھی تاکہ ہم انکو بھی سہولت دے سکیں مگر ہمارا واسطہ زیادہ تر ہنگل بولنے والے صارفین سے ہی پڑے گا۔
اس نے مزید مسکرا کر شائیستگی سے بتایا۔۔
بیانئیے۔ ادھیڑ عمر والے چندی آنکھوں والے انکل نے معزرت خواہانہ انداز میں اس سے کہا۔
اورینن ہنگ کھوکمینے سنوہے کوشیہئے تا۔۔
ہم کوریائی قومیت رکھنے والوں کو ترجیح دیں گے۔۔
فاطمہ گہری سانس لیتےواپس جانے کیلئے۔ اٹھ کھڑی ہوئی۔
رکھیں جی اپنے لوگوں کو۔ آپ ہم لوگوں جیسے تھوڑی ہیں۔ ہمارا واسطہ غیر ملکیوں سے ککھ نہیں پڑتا مگر ہماری ترجیح انگریزی بولنے والے ہوتے ۔۔ عجیب ہی حال ہے۔۔
وہ اردو میں خود کلامی کر رہی تھی۔ وہ تینوں اب بھی ہمہ تن گوش تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجیب صورت حال تھی۔۔ واعظہ نور اور عشنا منے لائونج میں آلتی پالتی مارے بیٹھی گود میں کشن دبائے اس پر تھوڑی جمائے بیٹھی عروج کو ادھر سے ادھر چکور کی طرح چکر کاٹتے دیکھ رہی تھیں۔۔ عروج منے سے لائونج میں بھی ادھر سے ادھر ٹہلتےصارف مددگار پر کال ملائے برس رہی تھی۔۔
آپ لوگوں کی صحت سے کھیل رہے ہیں ۔ سینی ٹائزر ایکسپائر ہوگیا اسکا مطلب پتہ ہے؟ میں ڈاکٹر ہوں ایک سے ایک خطرناک بیماریوں میں مبتلا مریضوں اور لاشوں سے واسطہ پڑتا میرا اگر مجھے کوئی سنگین بیماری لاحق ہو گئ تو؟۔۔
مجھے خبر ہوتی عروج اتنا کھڑاگ پھیلائے گی تو میں تمہاری آنکھیں پھوٹ جانے دیتی اسکا سینی ٹائزر نہ اٹھاتی۔
نور نے دھیرے سے واعظہ کی جانب جھک کر سرگوشی کی تھی۔۔ واعظہ نے دانت پیس کر اسے گھورا تھا۔۔ کچھ کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ ساتھ بیٹھی عشنا نے اسکو بازو سے پکڑا اور بڑی معصومیت سے بولی
بات سنیں انکی اتنی اچھی ہے کورین ان سے کہیں مجھے بھی کورین سکھا دیا کریں میں انکو پے کروں گی ۔۔ مجھے ہنگل آجائے تو نوکری آسانی سے مل جائے گی۔
واعظہ نے اب اسکو جواب دینے کی نیت سے منہ کھولا تھا کہ نور جو اسکے بائیں جانب بیٹھی تھی اسکا بازو دبوچ کر بولی۔
کیا خیال ہے ہم ابھی جا کر اسٹور سے نیا سینی ٹائزر نہ لائیں۔۔
ابھی بھی یہ سوچا ہی تھا اس نے۔۔ واعظہ نے پھر دانت پیس کر کچھ کہنا چاہا۔۔
بتائیں نا۔۔ یہ مجھے سکھا دیں گی ہنگل؟ میں نوکری ملتے ہی انکو منہ مانگے پیسے دوں گی۔ پلیز۔
عشنا اسکا دایاں بازو دبوچ کر منت بھرے انداز میں کہہ رہی تھی۔
دونوں اسکے دائیں بائیں بیٹھی تھیں۔۔
پاکستان سے ہوں جبھئ کہہ رہی ۔غیر ملکیوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں آپ لوگ؟۔ ابھی پاکستان ہوتا تو ملاوٹ زدہ سینی ٹائزر فروخت کرنے پر آپکا اریسٹ وارنٹ جاری ہو جاتا بلکہ آپکی کمپنی کی سیل ہی بند کر دی جاتی تحقیقات مکمل ہونے تک۔۔ کم از کم
عشنا اور نور کی خیر تھی۔۔ واعظہ باقائدہ پورا منہ کھول کر اسے دیکھنے لگی۔ عروج کی چلتے چلتے اس پر نظر پڑی تو کھسیا کر گھوم گئ۔
دوسری جانب لڑکی منمنا کر اسے کہہ رہی تھی۔۔
ہم آپکی شکایت درج کر رہے ہیں مگر آپ نے حکومتی ادارے میں کال ملائی ہے کمپنی میں نہیں سو ہمیں آپکی شکایت پر کام کرنے میں وقت درکار ہے۔
دے۔۔ عروج کو بھی اندازہ ہوا زیادہ ہی جزباتی ہوگئ میں۔۔
سو لہجہ دھیما کیا۔
یار تم روکتی کیوں نہیں ہو عروج کو۔۔ ہزار دو ہزار وون کہ چیز پر اتنا فس۔۔۔
نور کا بس نہیں تھا واعظہ کو ہی اٹھا کر عروج کے سر پر بجا دے۔۔
فس ؟ ۔۔ واعظہ نے فورا اسے ٹوکنااور متبادل اردو لفظ بتانا چاہا کہ عشنا نے کھینچ لیا۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہیں؟۔ آپ ساتھ ساتھ بتائیں بھی تو لغت۔
عشنا اسکا دایاں بازو کھینچے اشتیاق بھری نظروں سے عروج کو روانی سے ہنگل میں میدا نیدا کرتے دیکھ رہی تھی۔
دے۔۔ گھمسامنیدہ۔۔
عروج نے شکریہ کہہ کر آخر کار فون بند کر دیا۔
شکایت لگا دی میں نے۔ اندھیر کھاتا تھوڑی ۔۔ پاکستان ہوتا تو برداشت کر جاتئ مگر کورینوں کو میں کرپشن کرنے نہیں دے سکتی۔۔
عروج فخر سے جتا کر اترائی۔۔
ہاں کورینوں کا تو سماج سدھار ٹھیکہ لے رکھا تم نے۔ کیا تھا اگرتھوڑی سی غیر معیاری چیز استعمال کرنا پڑ گئ۔۔ باقی تو ہر چیز خالص ملتی ہے با احسان فراموش۔۔ سہہ جاتیں شکایت ضروری تھئ کیا۔۔ نور اس پر چڑھ دوڑی تھی۔۔ عروج اسکے غصے کی وجہ سمجھنے سے قاصر منہ کھولے دیکھ رہی تھی۔۔
تم کیوں اتنا غصے میں آرہی ہو ؟ تمہاری شکایت تھوڑی کی ہے ۔۔ اور یہ کمپنی تمہارے سسرالیوں کی نہیں ہے جو آگ لگ رہی تمہیں۔
یہ شکایت کر رہی تھیں؟۔ کیا خراب ہوگیا انکا؟ عشنا نے اسکا بازو ہلایا۔
خدا نہ کرے جو میرے سسرالی کورین ہوں تم لوگوں کی طرح اوپائوں پر کرش نہیں ہوتے مجھے۔ سمجھیں۔۔
نور کو اسکا طعنہ تیر کی طرح لگا تھا۔۔ بلبلا کر کھڑی ہوگئ عروج کے سامنے۔۔
اب یہ کیا معاملہ کرش ہوتے ہیں ہمیں تو کیا ہمارے سسرالی کورین ہونگے۔ نور کچھ بھی کہتی ہو۔۔
عروج کے زہن میں جانے کیوں سیونگ رو لہرا گیا۔۔ خدا نہ کرے دل میں کہتی دہل کر جوابا حملہ کیا تھا اس نے۔
واعظہ اوپا تو لی من ہو کو کہتے نا؟ انکو بھی لی من ہو پسند ہے؟
عشنا اوپا کے نام پر بس اسی کو جانتی تھی سو واعظہ کے کان میں منمنائی۔۔ واعظہ پھر منہ کھولنے کی کوشش ہی کر کے رہ گئ کیوںکہ ان دونوں کی آوازیں بلند ہوتی جارہی تھیں۔۔
تم نے شروعات کی تھی۔ میرے سسرالی کورین بنا کر۔ واعظہ سچ بتا دو اسے اس سے پہلے کے اسکے سسرالی اسکی شکایت کی تحقیقات کرنے آجائیں۔۔
نور واعظہ کا کندھا ہلا رہی تھئ۔۔
یہ لوگ تو لڑنے لگیں آپ انکو سمجھائیں۔۔
عشنا واعظہ کا دوسرا کندھا ہلا رہی تھی۔۔
اس نے جوابا کچھ کہنے کیلئے منہ کھولا کہ عروج تنتانی اسکے سامنے آکھڑی ہوئی۔۔
دیکھ رہی ہو بار بار کورینز کو میرا سسرالی کہے جا رہئ اس سے کہو زبان سنبھال لے۔۔
اور تم اپنے آپ کو اتنی سی بات کا کتنا بتنگڑ بنا لیا تم نے۔۔ نور کو بھی غصہ آگیا تھا۔۔
عشنا واعظہ سے کہہ رہی تھی
واعظہ آپکو بیچ میں پڑنا چاہیے۔۔
چپ۔۔
واعظہ کی برداشت کی حد تمام ہوئی دونوں ہاتھ اٹھا کر حلق کے بل چلائی پھر تڑپ کرگود میں رکھے کشن پر منہ چھپاگئ۔۔ درد کئ شدید لہریں اٹھی تھیں اسے تینوں اپنی بات بھول کر اسکی جانب لپکیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوہو کو بس فین لفظ ہی سمجھ آیا تھا سو وہ مسکراتا ٹیکسی سے اتر آیا تھا۔۔
یہ تینوں تمیز سے راستہ دیتی پیچھے ہٹ گئیں۔۔
میرا نام الف ہے یہ عزہ اور یہ ابیہا۔۔
الف کا چہرہ خوشی سے تمتما گیا تھا نہایت جوش بھرے انداز سے مخاطب تھی۔۔ اسے تو ایکسو شدید پسند تھے ہی عزہ اور ابیہا بھی زندگی میں پہلی بار کسی فنکار کو اتنا قریب سے سامدنے دیکھ رہی تھیں خوش تو ہوئی تھیں مگر لحاظ تینوں کو مانع تھا۔
سوہو مسکرا کر آننیانگ کہتا جھکا تھا جوابا ان تینوں نے بھی کوریائی انداز میں جواب دیا مگر ہاں سر ہی جھکایا بس
ہم آپکی بہت بڑی فین ہیں۔۔ ایکسول ہمارا پسندیدہ ترین بیںڈ ہے۔۔ الف نے کہتے ہوئے عزہ کو کہنی ماری تھی عزہ کی پسلی میں لگی بلبلا اٹھی مگر سر اثبات میں ہلا دیا۔۔ویسے بھی جو سامنے ہو وہی پسندیدہ ترین پرستاروں کی یہ قسم سب سے بے ضرر اور اچھی ہوتی ہے۔۔
۔۔اور آپکا ڈرامہ بھی ہم شوق سے دیکھ رہے ہیں بہت اچھی اداکاری کرتے ہیں آپ۔۔ رچ مین میرا پسندیدہ ترین ڈرامہ ہے۔۔
گھمسامنیدہ۔۔ وہ خوش دلی سے مسکرا دیا۔۔
وہ محتاط انداز میں سڑک پر بھی نظر ڈال رہا تھا۔۔
اسکارف اور عبایا والی لڑکیاں یقینا فاصلے پر ہی رہتیں۔۔ مگر اگر کوئی مقامی پرستار ٹکر جاتے تو اسکیلئے مصیبت بن جاتی۔۔
ابیہا نے اپنی ڈائری نکال کر اسکی جانب بڑھائی۔۔
آٹوگراف پلیز۔۔
شیور۔۔ وہ خوشدلی سے اسکے ہاتھ سے لیکر کر آٹوگراف لکھنے لگا۔۔
آپ کس ملک سے ہیں۔۔ انڈیا سے؟ اس نے یونہی بات برائے بات پوچھا تھا
نہیں اسکے پڑوسی۔۔۔ پاکستان۔سے۔۔ تینوں اکٹھے بول پڑیں تھیں۔۔ وہ ہلکے سے ہنسا۔
آپ لوگ جانتے ہیں مجھے جان کر خوشی ہوئی۔۔ انڈیا گیا تھا میں تو وہاں تو لوگ جانتے بھی نہیں تھے ایک مقامی نے تو مجھے اپنا کیمرہ تھما کر تصویر بھی بنوا لی تھی مجھ سے۔۔
وہ ہنس کر بتا رہا تھا۔۔
جاہل لوگ۔ عزہ کوغصہ آگیا تھا ۔۔۔
کوئی ایکسو سے بھی یہ سلوک کرتا؟۔۔
پرانی بات ہے تب شائد ایکسو اتنا مشہور نہیں تھے۔
اس نے نرمی سے وضاحت کی تھی۔۔
بہرحال آپ سب سے مل کر خوشی ہوئی۔۔
اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر الوداعی کلمات ادا کرنے چاہے
تینوں شش و پنج میں مبتلا ہو کر ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں اتارا کاسٹ زیادہ ٹارزن بننے کا شوق تمہیں۔۔
عروج نے پے در پے دو تین چپتیں اسکے سر پر لگا دیں تھیں۔۔ مجروح ہاتھ دفاع کو اٹھاتی واعظہ دوبارہ رکوع میں چلی گئ تھئ۔۔
ہائے مارو تو نہیں پہلے ہی تکلیف میں ہے۔۔
نور اسے بچانے کو آگے ہوئی۔ واعظہ آنکھوں میں آنسو بھرے معصوم سی شکل بنائے سر اٹھا کر دیکھنے لگی اسے۔۔
عشنا اسکیلئے پانی کا گلاس بھر کر لائی تھی۔
سچ میں اتنا غصہ آرہا ہے ۔مجھے۔ دوائیں بھی نہیں کھا رہی ہوگئ یہ موٹی۔۔
عروج کو بالکل ترس نہ آیا۔۔ اسکے گھٹنے پر لات جما دی۔۔
ہائے موٹی تو نہ کہیں ٹھیک ہیں بہت پتلی بھی لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں۔۔
واعظہ کی جانب پانی کا گلاس بڑھاتی عشنا کو بھی ترس آگیا تھا۔۔ واعظہ نے شکریہ کہہ کر گلاس تھاما نور واعظہ کا کاسٹ لگا بازو دھیرے سے سہلا رہی تھی۔۔ تو عشنا دنیا جہان کا ترس اور ہمدردی آنکھوں میں سمائے اسے دیکھ رہی تھئ۔۔
عروج کو ان دونوں پر غصہ آگیا تھا ہاتھ بڑھا کر گلاس واعظہ سے چھین کر غٹا غٹ چڑھا گئ۔۔
میں اور پانی لاتی ہوں۔۔ عشنا اٹھ کر جانے لگی تو واعظہ نے اسے ہاتھ سے روک دیا۔۔
یہ باقی سب آئی کیوں نہیں ابھی تک فاطمہ بھی غائب ہے۔
عروج کا جملہ منہ میں ہی۔تھا کہ تینوں چیخیں مارتی ہوئی داخل ہوئیں۔۔
عروج واعظہ فاطی۔۔ الف بے تابئ سے پکاری۔۔
سنو آج پتہ ہے کیا ہوا۔ابیہا نے تجسس میں ڈالنا چاہا۔
۔ ہمیں سو ہو ملا۔۔ عزہ نے جھٹ بتا دیا۔۔
تینوںکے برعکس یہ تینوں بالکل آرام سے انہیں دیکھتی رہیں۔۔
تو؟۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوبی بیٹے کو گود میں لیئے دلیہ کھلا رہی تھی جب اچانک چیخوں کی آواز سے دہل کر اسکے ہاتھ سے چمچ چھوٹ گیا۔۔
یا اللہ خیر پڑوس میں کیا ہوگیا۔۔
دہل کر اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔۔
اسکا بیٹا ماں کی توجہ بٹتے دیکھ کر ہمکنے لگا تھا۔۔
اسکی۔ دونوں بچیا ں ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہی تھیں۔
میں ابھی آتی ہوں بھائی کا دھیان رکھنا ۔۔
وہ بیٹے کے منہ میں نپل ڈال کر احتیاط سے صوفے پر بٹھاکر بچیوں کو ہدایت کرنے لگی۔۔
جی مما۔۔
بچی نے تابعداری سے سر ہلایا۔
یہ دوپٹہ ٹھیک کرتی عجلت میں دروازہ کھولتی باہر نکل آئی۔۔ کھلے سے گولائی میں بنے کاریڈور میں پانچ فلیٹوں کے دروازے کھلتے تھے جن میں دو خالی تھے ایک ساتھ والے میں آیک چھڑا چھآنٹ لڑکا رہتا جو رات گئے ہی واپس آتا تھا یہ آواز یقینا سامنے والے فلیٹ سے آئی تھی۔
وہ تیزی سے بنا سوچے دروازہ کھٹکانے کی نیت سے بڑھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا پھر کیا کیا تم لوگوں نے؟۔۔ ملایا ہاتھ سوہو سے؟
عروج نے حیرت بھری چیخ ماری تھی۔۔
ہاتھ ملا لیا؟ یار فنکار ہیں تو کیا ہوا ہیں تو لڑکے۔۔
نور کو شاک لگا تھا۔۔
میں نے آج چھٹی کیوں کر لی۔۔ ہر اہم واقعہ میری غیر موجودگی میں ہی کیوں پیش آتا ہے
واعظہ افسردہ ہوئی۔
آپ کل چلی جائیے گا کیا پتہ کل پھر وہاں آجائے۔۔
عشنا نے فورا ساتھ لگا کر تسلی دی۔۔
روز تھوڑی آئے گا وہ فارغ تھوڑی ۔۔
الف نے برا ہی مان لیا اسکا سوہو ایکسو اتنے فارغ تھوڑی وہ تو اگر انکی شکل اور انداز غیر ملکی نہ ہوتا تو وہ تھوڑی ان سے مخاطب ہوتا اپنے راستے جاتا۔۔
لیکن ہاتھ نہیں ملانا چاہیئے تھا۔
نور کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔۔
ابے ایسا سمجھتی ہو ہمیں۔ ہاتھ کیوں ملاتے ہم؟ کوریا میں ہیں تو کیا ہوا ہیں تو پاکستانی مسلم لڑکیاں ہم۔
ابیہا تنک کر بولی تھی۔۔
وہ خود احتیاط سے کام لے رہا تھا اس نے ہماری جانب ہاتھ بڑھایا ضرور تھا مگر اس ہاتھ میں موبائل تھا۔۔
وہ ہم سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ہمارے ساتھ سیلفی بنوالے۔
عزہ نے سنجیدگی سے کہا تو سب یقین نہ کرنے والے انداز میں گھورنے لگیں
آئی بڑی سیلیبریٹی تم لوگ وہ تم لوگوں کے ساتھ تصویر بنوانے کیلئے پوچھ رہا کم پھینکو اب تو مجھے شک ہو رہا سوہو ہی تھا کہ کوئی راہ چلتا بے وقوف بنا گیا تم لوگوں کو۔۔
نور نے کہا تو عزہ اور ابیہا ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں اب کیسے یقین دلائیں واقعی ایسا ہی ہوا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ لوگ برا نہ منائیں تو کیا میں اپنی پاکستانی پرستاروں کے ساتھ تصویر بنا سکتا اسکو میں اپنے پروفائل پر لگانا چاہتا ہوں۔۔ ایک میسج کے ساتھ۔۔
سوہو کے کہے گئے الفاظ پر انہیں یقین نہ آیا تھا۔۔ تینوں ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگیں۔۔
اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو مڑ کر معزرت خواہانہ انداز میں انتظار کرنے کو کہا ۔۔ پھر مسکرا کر انہیں جواب طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ دیکھو۔۔ خاموشی سے موبائل میں لگئ الف نے سوہو کا انسٹا گرام کھول کر سامنے دکھایا ۔۔ سب اسکے موبائل پر جھک آئیں۔
ایک اسکارف سر پر لپیٹےلڑکی دو پورے برقعے نقاب میں ملبوس لڑکیا ں ان سے ایک قدم آگے کھڑا مسکرا کر سیلفی لیتا سوہو۔۔
آج میرا دن خوشگوار تھا شوٹ سے واپسی پر سر راہ مجھے ایکسو کی پاکستانی پرستار ملیں ۔ مجھ سے مل کر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا مگر انکے انداز سے جھلکتئ تہزیب اور لحاظ مجھے بہت متاثر کر گیا ۔۔ مجھے پرستار تو پوری دنیا کے ملے ہیں مگر مجھے یہ ماننا پڑے گا ان پرستاروں سے سیلفی کا تقاضہ میں نے کیا تھا۔۔
مجھے پاکستان کی انتہائی با تمیزمسلمان لڑکیوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی تھئ۔ مجھے اب پاکستان جانے کا شوق ہوا ہے میں ایسے مزید ایکسو کے پرستاروں سے ملنا چاہتا ہوں۔۔
اسلام و علیکم پاکستان۔
اتنا پیارا پیغام وہ بھی اپنے پسندیدہ ترین فنکاروں میں سے ایک کی۔طرف سے۔۔ ان سب کی آنکھیں بھر آئیں۔۔
پاکستان کا کتنا خوبصورت تاثر پڑا تھا ان پر ۔۔
یار ہمیں اندازہ نہیں ہوتا مگر ہمارا اٹھایا ہر قدم پاکستان کی نمائندگی کرتا ہے۔ ابھی اگر ہم بھی باقی دنیا کے فینز کی طرح ہو جاتے اسکو گھیر لیتے سیلفی کا تقاضا کر تے تنگ کرتے چھونے کی کوشش کرتے یا جب اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا تھا تو اپنی تہزیب بھول کر اس سے ہاتھ ملا لیتے تو۔۔۔۔۔
الف نے جزباتی انداز میں کہا تھا۔
صحیح کہہ رہی ہو۔۔ عروج نے اپنی آنکھیں پونچھیں۔۔
مجھے آج فخر ہو رہا ہے اپنی تربیت پر اپنے پاکستانی ہونے پر۔۔
یہ ابیہا تھی۔۔
ہمیں تو سیلفی لینے کا دھیان بھی نہیں آیا تھا سچی ہم پرجوش ہی اتنے تھے۔۔ عزہ ہنسی۔۔
لیکن ہم نے اچھے الفاظ میں بس اپنی پسندیگی جتائی تھی چھچھوری حرکتیں نہیں کی تھیں جیسے باقی سب کرتے۔۔
الف نے جتانا ضروری سمجھا۔۔
سیلفی کا دھیان نہ آنا تو حماقت تھی تم لوگو ں کی اب آتو گراف کون لیتا سب سیلفی لیتے ہیں۔ نور منہ بنا کر بولی
یار آٹو گراف تو دکھائو۔
عروج کو یاد آیا ۔۔
کیوں دکھائوں ؟ ہم تو نقلی سوہو سے مل کر آئے ہیں نا۔۔
الف نے چڑایا۔۔ ابیہا اپنا بیگ کھول رہی تھئ۔ نور اس کے کندھے سے جھول کر جیسے بیگ میں گھس کر ہی آتو گراف دیکھنے لگی تھئ۔۔ عزہ اور عشنا بھی جملے بازی کرتی ہنس رہی تھیں۔۔
پانچوں چھے یوں میں دھکم پیل مچی ہوئی تھی
واعظہ چوٹ نہ لگ جائے احتیاط سے ان سے تھوڑا سا پیچھے ہٹتئ صوفے کا سہارا لیکر اٹھ کھڑی ہوئی۔
ایک دو تین۔۔
اسے ملا کر سات لڑکیاں ہوئی تھیں۔۔
اب یہ آٹھویں کہاں ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے
اگلی جھلک
اف اللہ میرا تو روزہ ہے اتنا چلا مارا ہے ۔۔ افطار سے پہلے لگ رہا میں افطار ہو جائوں گی۔۔
نور نے چمکتے سورج کو ہاتھ کی آڑ کرکے دیکھا تھا۔۔110
دیسی کمچی قسط تین
حصہ چار
شام سے تھوڑا پہلے وہ ہنگن دریا کے پاس آئی تھی۔۔ وہ نسبتا سنسان گوشہ ڈھونڈ کر بنچ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر دریا کو گھورنے لگی۔
دور چلتی فیریز نے دریا کے سکوت میں دراڑیں ڈال دی تھیں۔۔ لہریں بن رہی تھیں ہلکی ہلکی سی۔۔ کنارے پر
دریا کےحسب معمول ٹھیک ٹھاک رش تھا۔۔ اور اسے اس وقت چڑ آرہی تھی لوگوں سے۔۔ تبھئ اسکے فون کی بیل گنگنا اٹھی۔۔
امی۔۔
اس نے بیزاری سے کاٹ دیا۔۔
چند لمحوں کے بعد دوبارہ بیل بجی۔۔
کیا ہے۔۔ تکلیف مجھے بات نہیں کرنی کسی سے۔
فون اٹھا کر اس نے حلق کے بل چلا کر کہا تھا ۔۔ سامنے سے گزرتی لڑکی ڈر کر ہاتھ سے کاٹن کینڈی چھوڑ بیٹھی۔۔ اسکا ہاتھ تھام کے چلتے اسکے محبوب نے گھور کر دیکھا تھا اسے اس لیئے نہیں کہ اس کی چند وون کی کاٹن کینڈی گرا دی تھی بلکہ اسلیئے کہ اسکی منی کو ڈرا دیا۔۔
کے ہسیکی۔۔
لڑکی بڑبڑا ئی۔۔
فاطمہ تنتنا کر اٹھ کھڑئ ہوئی۔ فون کان سے ہی لگا تھا۔
تم کے ہسیکی ۔۔ تمہارا یہ للو بوائے فریںڈ ہوگا کے سیکی۔
بلکہ تم خود پاگل ۔۔ ساری چڑ نکلی۔۔ جملوں میں ۔ سرخ بھبوکا چہرہ غصے سے تن فن کرتی یقینا وہ جو کہہ رہی تھئ ان کے اوپر سے گزرا تھا مگر الفاظ نہ سمجھنے کے باوجود فاطمہ کے لہجے کے شعلے ان کی سماعتوں سے گزر کر دل و دماغ تک پہنچ گئے تھے۔۔
چندی آنکھوں والا جوڑا اب چندی آنکھوں والا نہیں رہا تھا دونوں کی آنکھیں حجم سے دگنی کھل چکی تھیں بلکہ منہ بھی پورا کھول کر اسے دیکھ رہے تھے۔
کھوجو۔۔
لڑکے نے حوا س بحال ہوتے ہی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر نکلنے کی کی۔۔
بس ؟ اور نہیں کہنا کچھ۔۔ گالی تو زبان پر اٹکی پڑی منہ کھلا باہر گری۔۔ بد تمیزکہیں کی۔۔ کیا کہا تھا میں نے تمہیں۔۔ جو گالئ دی مجھے۔۔
وہ حلق کے بل چلائی تھی۔۔ واعظہ نے تڑپ کر فون کان سے پیچھے کیا تھا۔ چندی آنکھوں والا جوڑا بھاگا تھا
انکو تیز تیز قدم اٹھا کر جاتے دیکھ کر بھی اسکا پارہ نیچے نہ آیا تھا۔۔
دریا پر بیٹھئ ہو۔۔
واعظہ نے گہری سانس لی۔ اس نے فیری کی آواز سن کر اندازہ لگایا تھا
نہیں مریخ پر بیٹھی ہوں۔ ظاہر ہے کوریا کا ویزا لگا ہوا ہے وہیں ہونگی ہونو لولو تو ہونے سے رہی اور فکر مت کرو بہت جلد واپس جانے والی ہوں۔۔ رہنا آرام سے اماں میری۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔ واعظہ کا اطمینان عروج پر تھا۔۔
وہ کچن میں ایک ہاتھ سے چکن دھو رہی تھی۔ کندھے پر فون ٹکا کر اس سے بات بھی کر رہی تھی۔۔کاسٹ دوبارہ چڑھ چکا تھا اور عروج کی سختی سے ہدایت تھی اتارا تو دوسرا بازو بھی توڑ دے گئ۔
کیو ں فون کیا ہے تم نے۔۔
اسکا لہجہ دھیما پڑا۔۔
چکن پلائو بنا دو آکر۔ دل کر رہا ہے کھانے کا۔۔
عروج تو بھوکی ہی جا رہی ہے ہاسپٹل بے چاری باقی سب کی کوکنگ کا تو پتہ تمہیں۔
واعظہ دنیا جہان کی معصومیت اور بے چارگی لہجے مین سمو کر بولی تھی۔
اچھا آرہی ہوں۔۔
فاطمہ کا پارہ ایکدم سے چڑھنا چاہیئے تھا مگر اتنی ہی تیزی سے نیچے آیا تھا۔۔
ٹھیک۔۔ واعظہ نے فون بند کیا تو وہ گہری سانس لیکر وہیں بنچ پر بیٹھ گئ۔۔
ہنگن ریور پر چہل پہل تھی۔ لوگ ہنس رہے تھے خوش تھے کہیں لوگ خاندان کے ساتھ دریا کی ریت پر بیٹھے پکنک منا رہے تھے تو درجنوں جوڑے دریا کنارے چہل قدمی کر رہے تھے۔
وہ بیزاری سے بیگ اٹھاتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاگل تو نہیں ہو۔۔
عزہ کا منہ کھلا رہ گیا تھا۔۔
اپنے کارنامے کی روداد بتا کر نور نے داد چاہنے والے انداز میں دیکھا تھا مگر ان سب کا ردعمل اسکی توقع کے بالکل بر عکس تھا۔۔
عروج اوور آل پہنتی کمرے سے نکلی تھی جب نور کا قصہ اپنے بام پر پہنچا تھا سو وہ وہیں رک کر کھڑے کھڑے اسکارف وغیرہ ٹھیک کرنے لگی تھی۔ الف چائے کے برتن سمیٹ کر ٹرے اٹھائے کھڑی تھی سن وہ بھی رہی تھی مگر ارادہ تھا کچن میں برتن بھی رکھ آئے اب کچن دور ہی کتنا تھا ویسے بھی نور کا جوش کے مارے آواز کا درجہ بلند ہی تھا۔ سو جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئ۔۔
ابیہا منہ کھولے اسکی شکل دیکھ رہی تھی۔۔ عزہ کی طرح ۔۔ منا لائونج ابھی تک آباد تھا ان سب سے۔۔
پاگل کی اس میں کیا بات۔
نور کو انکے ردعمل سے لگا کچھ غلط ہو گیا ہے۔
کچن میں نلکا بند کرکے واعظہ اطمینان سے مڑی۔
سائبر کرایمزاینڈ کنٹرول کے بارے میں سنا ہے آپ نے محترمہ نور؟ پاکستان میں نہیں ہیں آپ۔ آپکے اس چندی آنکھوں والے کی ایک شکایت پر کہ آپ نے غیر قانونی طور پر اسکی آئی ڈی کھول کر اسکی زاتی معلومات کی تشہیر کی ہے۔۔ نہ صرف پرچہ کٹ سکتا آپکے خلاف بلکہ گھر سے آپکو اٹھا کر لے جائیں گے پولیس والے اور پھر کوریا کی جیل کی سیر بھی کر لینا۔
ہیں۔
نور تو نور الف ٹرے پکڑے ہکا بکا اسکی جانب مڑی۔
واقعی واعظہ؟
واعظہ نے ہیرو کی طرح کا بے نیاز انداز بناتے ہوئے سینے پر بازو لپیٹنے چاہے پھر ناکام ہو کر بازو سہلا کر رہ گئ
تم ٹرے رکھ دو یہ نہ ہو کہ انڈین ہیروئنوں کی طرح اسے چھوڑ بیٹھو۔۔ ایک ایک کپ ہی ہے بس سب کے نام کا بے کپے رہ جائیں گے۔
عروج نے الف کو ٹوکنا ضرور ی سمجھا۔ ۔
ہیں واعظہ۔
ہاں یہ سب سے ہلکا پھلکا کام ہے جو ہو سکتا باقی اگر وہ جزباتی نفسیاتی بندہ ہوا بیر باندھ لیا تو اسکے لیئے آئی پی ایڈریس سے تمہارے گرد و نواح کا اندازہ لگا کر تمہارے گھر تک آپہنچنا مشکل نہیں ہوگا اور پھر یہاں ہے ہی کون ہم لڑکیاں سب الگ الگ وقت پر اپنے اپنے کام سے جاتی ہیں۔ تم سے بدلا لینے پر تل گیا تو۔
نور نے تھوک نگلا۔
یہ عروج تھی۔۔ بظاہر سرسری انداز میں کہہ کر
دنیا جہان کی سنسنی لہجے میں سمو کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔۔ الف ٹرے سمیت عزہ ابیہا اور نور اسکے چہرے پر مزاق کی رمق تلاشنے مڑی تھیں۔
سارا دن پکا سا منہ بنا کر زندگئ موت کی خبر دینے والی عروج کو بھی اپنے تاثرات چھپانے نہ آتے تو کسے آتے۔۔ بے نیازی سے اپنی کلائی پر گھڑی باندھنے لگی۔
واعظہ کو البتہ کوئی مجبوری نہ تھی سو رخ پھیر پر باقاعدہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی روکی۔
ایسا نہیں ہو سکتا۔ نور نے جھٹلانا چاہا۔۔
کیوں ؟ تم ہیک کر سکتی ہو تو بے چارہ اپنی آئی ڈی ریکور بھئ نہیں کر سکتا ؟ عروج کا انداز ہنوز تھا۔۔
پھر بھی۔۔ میں نے ایسا بڑا کیا کر دیا۔ اس نے پوری کلاس کے سامنے میرے عبایا کا مزاق اڑایا تھا اتنی بستی ہوئی تھی میری سب ہنس رہے تھے مجھ پر یہ جو کورین ڈراموں میں بلنگ کا سین دکھاتے نا بالکل ویسا ہی سین ہوا تھا میرے ساتھ۔۔
نور کی بولتے بولتے آواز بھرا گئ تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمپیوٹر لیب میں سب اپنے اپنے کمپیوٹر پر جھکے مصروف تھے۔ سر نے آئی ٹی کا پراجیکٹ دیا تھا جسکی کل آخری تاریخ تھی سو جن جن نے آجکا کام کل پر ٹالا تھا وہ سب دھڑا دھڑ کی بورڈ بجا رہے تھے۔۔
وہ مطمئن انداز میں اپنا کام کرکے پرزینٹیشن بنا کر سیو پر کلک کر نے ہی لگی تھی جب اسے اسکی کلاس فیلو کی آواز آئی تھی۔۔اس سے دو تین اسٹیشن دور بیٹھی اسے پکار رہی تھی۔۔
نور یہ دیکھ دو۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا۔
اس نے کہا تو وہ سر ہلاتی اٹھ آئی۔۔ وہ اپنی انسٹا کی آئی ڈی کھولے بیٹھئ تھی۔۔اسکی تصویر پر کسی نے عربی میں تبصرہ کیا ہوا تھا۔۔ ایک تو جب سے کے پاپ کے ڈرامے مشہور ہوئے تھے ان جیسے درجنوں کورینز بھی مشہور ہو گئے تھے ۔ ایک دو کے پاپ ویڈیو یا ڈراموں کی جھلکیاں ڈال کر دنیا بھر سے پیروکار اپنی آئی ڈی پر اکٹھے کیئے تھے اب ٹک ٹاک ایپ سے روز ہی کوئی نہ کوئی ویڈیو بنا کر شئیر کرتی تھی سو ہر طرح کا تبصرہ بھی ملتا تھا۔۔
مجھے نہیں پتہ۔۔ نور کہہ کر کندھے اچکا کر پلٹی ایک طالب علم اسکے اسٹیشن کے پاس سے ہنستا ہوا اٹھا تھا۔اسکی سرسری نظر پڑی تھئ کہ سوہری نے اسکا ہاتھ تھام لیا
پلیز یہ تو دیکھ دو سی ٹرانسلیشن پر کلک کیا ہے۔
وہ لجاجت سے پوچھ رہی تھی۔۔
کورینز ہم لوگوں کی طرح کنڈر گارٹن سے انگریزی نہیں پڑھتے ہمارے پرائمری پاس بچوں کو انکے بیچلرز لیول کے طلبا سے زیادہ انگریزئ آتی ہے ۔ عام بول چال میں بہت سے اپنی بات سمجھا سکنے جتنی انگریزی جاننے کے باوجود وہ انگریزی پڑھنے لکھنے میں کہیں نہ کہیں سٹپٹا جاتے۔ نور نے گہری سانس بھر کر پڑھنا شروع کیا۔۔
If you are dates then I am sacred. So fight to cow and till date awsome so i am cheer ful garden so dates are good. Hahahah انتئ کلبی
نور نے تین بار دھرایا مگر زہن متن سمجھنے سے قاصر تھا۔۔انگریزی بھی اپنی مرضی کی ترجمہ کی تھی ٹرانسلیٹر نے۔۔
ہاں انتی تم ہوتا اور کلب کتے کو کہتے ۔۔ اتنی عربی اسے آتی تھی۔
وہ یہی سمجھا کر پلٹنے کو تھی کہ انکے جرمن پروفیسر بڑے زوردار انداز میں چلائے تھے۔۔
یہ کس کا ہے؟۔۔ کون بیٹھا تھا یہاں؟
وہ ایک اسٹیشن کی۔جانب اشارہ کرکے کہہ رہے تھے۔
سب طلبا سناٹے میں آکر اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو چکے تھے۔نور بوکھلا کر اپنے اسٹیشن کی جانب بڑھی تو اندازہ ہوا وہ اسی کے اسٹیشن کے پاس کھڑے چلا رہے تھے۔
سر واٹ ہیپنڈ۔۔ اس نے پوچھا تو انہوں نے ہونٹ بھینچ کر اسکے اسٹیشن کے مانیٹر کی جانب اشارہ کیا۔
اس نے اسکرین پر دیکھا تو وہیں جم گئ ۔۔ اسکرین پر جاپانی کوئی سائیٹ کھلی تھی جو اخلاقیات سے کافی عاری تصاویر دکھا رہی تھئ۔۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے ونڈو بند کی تھئ۔ پچاس ساٹھ طلبا اسکی جانب متوجہ تھے۔
سر خود تو سر سے پائوں تک لپٹ کر آتی ہے اور شوق ایسے ہیں۔۔
اس لڑکے نے زور سے کہہ کر ساتھی دوست کے ہاتھ پر ہاتھ مارا تھا۔ اسکے دوست ہنس پڑے تھے جرمن سر چند لمحے اسے دیکھ کر پلٹ گئےتھے۔ نور کادل کیا تھا زمین پھٹے اور وہیں سما جائے۔۔
لیزا سوہری اٹھ کر اسکے پاس آئی تھیں۔۔ وہ کرسی گھسیٹ کر اس پر ڈھے سی گئ۔۔
کیا ہوا۔؟ وہ دونوں اس سے پوچھ رہی تھیں۔ اسے خود نہیں پتہ تھا ۔۔ جانے کون ان چند منٹوں میں اسکے اسٹیشن پر آکر یہ گھٹیا حرکت کر کے گیا تھا۔۔
وہ دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر میز پر کہنیاں ٹکائے تھی جب اسکے زہن میں جھماکا ہوا تھا۔وہ جب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر تو صحیح کیا تم نے۔۔ بلکہ اسے دو ایک خود بھی لگانی چاہیئے تھیں۔ پتہ لگتا اسے پنگا کس سے لیا ہے اس نے۔۔
ابیہا جزباتی انداز میں ہاتھ نچا کر بولی تھی۔۔ الف اور عزہ نور کے دائیں بائیں آ بیٹھی تھیں ۔۔الف نے نور کاسر اپنے کندھے سے بھی لگا لیا تھا۔۔نور کا رونے کا ارادہ ہرگز نہیں تھا مگر جزباتی ہو کر رو ہی پڑی۔ عروج کو افسوس ہوا شرارت میں اسے یونہی رلا دیا۔ مگر وقت کم تھا سو تیزی سے خدا حافظ کہتی بیرونی دروازے کی جانب بڑھی ۔دھاڑ سے دروازہ کھولا۔ پھر اتنی ہی زور سے اسکے منہ سے چیخ نکلی تھی۔۔ بری طرح ہاتھ جھٹکتے وہ دو تین چیخیں اور مار گئ
ماتھے پر سرخ ہوتی پٹی گال سوجا ہوا آنکھ کے نیچے نیل کا نشان ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ پکڑے معصوم سی شکل بنائے جے ہن بوکھلا کر دو تین قدم پیچھے ہوا تھا
نونا۔۔۔۔ کین چھنا۔۔ وہ بے چارہ بوکھلا اٹھا تھا تبھی اسکی نظر زمین پر پڑی۔ اسے اسکے چیخنے کا منبع سمجھ آیا ۔ وہ بھی تیزی سے اندر کی جانب بڑھا۔۔
آخ وہ اسکی جانب دیکھے بغیر واپس پلٹی اسکی چیخوں سے بوکھلائی سب کی سب لابی میں بھاگی آئیں
کیا ہوا۔۔ عزہ کا دل دھڑ دھڑ کر رہا تھا
بھاگو یہا ں سے زمین پر چھ۔۔
عروج بد حواس ہوئی ان کو بھی پیچھے کو دھکیل رہی تھی۔
کیا ہوا۔۔
واعظہ باورچی خانے سے دوڑی آئی ابیہا۔۔ اور الف عروج کو پکڑ رہی تھیں
وہ وہاں۔۔عروج کے منہ سے لفظ بھی نہیں نکل رہے تھے۔۔
الف چلائی ۔۔
کون ہے۔۔
پھر خیال آیا انگریزی میں بولی۔۔
ہو از دئیر۔۔یہ سوچے بنا لابی تھی ہی دو تین قدم کی خود وہ لائونج کے سرے پر موجود تھئ۔۔
ابیہا عروج کو تسلی دے رہی تھی ساتھ واعظہ کو کہہ رہی دیکھو کون ہے دروازے پر۔۔ اتنے ہنگامے میں کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی
نور کو یہی لگا تھا وہ لوفر گھر آپہنچا ہے بھاگ کر کمرے میں گھسی بیڈ سے کیمرہ اٹھایا اور لمحہ بھر بھی ضائع کیئے بنا ریکارڈ نگ آن کرتی باہر بھاگی۔۔
عزہ ہمت کر کے کاریڈور کی جانب بڑھی تو عروج کے اس بری طرح خوفزدہ ہوجانے کی وجہ وہ سفید ٹی شرٹ اور نیلی جینز میں ملبوس زخم زخم ہوا کھڑا لڑکا سمجھی۔
سٹی گم ہوئی دو قدم پیچھے ہوئی۔
کورین بھوت تو بڑے دیدہ دلیر ہیں اتنی روشنی میں بھی دکھائی دے رہے۔۔
اسکا دل پسلیاں توڑ کر باہر نکلنے کو آگیا۔۔
پیچھے ہو عزہ ہٹو۔۔
عروج ابیہا سے لگی تھر تھر کانپتی چلائی۔
ہوا کیا ہے۔۔ ۔واعظہ انکو پیچھے کرتی لابی میں آئی سامنے جے ہن کھڑا سپر مین والا پوز دے رہا تھا۔
ہٹو ہٹو۔۔
نور مووی بناتی نکلی تھی سب کو سامنے سے ہٹاتی واعظہ کے پاس آ کھڑی ہوئی الف نے کاریڈور کی بتی جلا دی تھئ۔۔
تیز چمکتی روشنی میں ٹوٹا پھوٹا سپر مین کھڑا تھا۔ اسکو ویڈیو بناتے دیکھا تو وی کا پوز دیا پھر اپنے جوتے کی جانب اشارہ کیا وہ کیمرے کا رخ اسکے چہرے سے سینے پر کرتی نیچے لائی ٹانگیں شروع ہوئیں ختم بھی پھر جوتا کیمرے کا رخ جوتے پر جیسے ہی ہوا اس نے پائوں اٹھا دیاوہ وہی مخلوق تھی جس سے دنیا کی تقریبا ساری ہی لڑکیاں ڈرتی ہیں ۔۔ ہاں چھپکلی۔ جے ہن کے جوتے کے نیچے آکر اسٹیکر بنی ہوئی اسکی لاش سے خون تو نہ نکلا
موٹی موٹی آنکھیں پھسی ہوئی تھیں۔۔
نور کیمرہ ایک طرف کرتئ ابکائی روکنے لگی۔۔
تبھئ کسی نے بے تابی سے دروازہ بھی کھٹکا دیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے پر تھی میں نے دروازہ کھولا تو اسی پر ہاتھ پڑا وہ اچھل کر نیچے گری اور میرے پیچھے ہی آنے لگی تھی۔۔
عروج کی آنکھیں سوجی تھیں گلا بیٹھ گیا تھا۔۔ وہیں لائونج کے صوفے پر اسے بٹھا کر ابتدائی طبی امداد دی جا رہی تھی۔۔
نونا اتنا چھوٹا دل آپ تو ڈاکٹر ہیں۔۔
ہے جن کہے بغیر نہ رہ سکا۔۔ جوابا عروج نے اسے بری طرح گھورا۔
لاشوں سے ڈر نہیں لگتا صاحب ۔۔ چھپکلی سے لگتا ہے۔
واعظہ نے اپنا مجروح ہاتھ عروج کے کندھے ہر ٹکاتے ہوئے ڈائلاگ مارا تھا۔عروج نے جوابی حملہ کرنا چاہا مگر مجروح بازو کو دیکھ کر رہ گئ۔ ۔ ہے جن کی بات ان دونوں کے سوا بس ابیہا کو سمجھ آئی سو اس نے واعظہ کے ڈائلاگ کا حظ اٹھاتے ہنسنا ضروری سمجھا۔
ہے جن کو اب انکی بات سمجھ سے باہر سو وہ طوبی عشنا الف نور عزہ سب خاموشی سے دیکھ رہی تھیں۔۔
آپ سب یہیں رہتی ہیں۔۔
طوبی کو تعجب ہوا تھا ۔۔
وہ سب چونکی تھیں۔۔ اسکو تو بھول ہی گئی تھیں۔۔ صوفے اور لائونج کے مختصر کارپٹ پر سب کہیں نہ کہیں ٹکی بیٹھی تھیں تو کھڑے صرف دونوں مہمان ہی تھے۔
جی۔
عزہ کو مہمان داری کا خیال آیا ۔۔
آپ بیٹھیں۔۔ چائے پیئیں گئ؟
نہیں میں بس اب چلوں گی بچے اکیلے ہیں گھر میں۔۔
یہ بھائی ہے آپکا۔ ؟ اسے تجسس ہوا تھا ہے جن کو دیکھ کر۔۔
جی۔ میرا بھائی ہے۔
عزہ نے سب کو زحمت سے بچا لیا تھا۔
دل ہی دل میں بڑ بڑائی بھی۔۔ سب چندی آنکھوں والے بھائی ہیں میرے۔
اوہ اچھا۔۔ شکل ملتی ہے۔۔ طوبی نے بغور اسکی چندی آنکھیں دیکھیں۔ وہ بے چارہ سٹپٹا کر جھکا۔
آننیانگ۔ ۔
عزہ بل کھا کر رہ گئ۔۔ میری چندی آنکھیں؟۔۔
ویسے خوشی ہوئی جان کر کہ پڑوس میں ہم وطن رہتی ہیں۔ یہی سوچ رہی تھی کہ کل سحری کے وقت اکیلی اٹھوں گی لگتا ہے مگر شکر ہے دوسراہٹ ہوئی۔۔
طوبی کو واقعی خوشی ہوئی تھی۔۔ بہت خلوص سے عزہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا تھا
جی ۔۔ اس نے بھی جوابا خوشگوار ہی انداز سے مصافحہ کیا۔۔
اسکے بعد نیچے کارپٹ پربیٹھی ابیہا ، الف ، نور صوفے پرعشنا۔۔وہ ہاتھ ملا ملا تھکی سو عروج کو اشارے سے ہی خدا حافظ کہہ دیا واعظہ نے بھی ہاتھ بڑھا دیا تھا مگر نظر انداز ہوا۔۔ اس نے سر جھکا کر واپس کھینچا۔۔
خداحافظ کہہ کر نکلتے ہوئے فاطمہ سے بھی ملاقات ہوگئ۔
سلام دعا کرکے نکلتے وہ چکرا کر سوچ رہی تھی۔
بچوں کو یہاں چھوڑ کر میں کل شاپنگ پر جا سکتی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب کچن میں جمع تھیں۔ ننھا کچن ابل رہا تھا۔۔ اتنا کہ چاولوں کو دم لگاتی فاطمہ بھنا گئ۔۔
پیچھے ہٹو ابھئ دیگچی مجھے پر آرہتی۔۔
اس نے غصے سے ابیہا کو کہا تو وہ اس سے تھوڑا ہٹ کر ماربل سلیب سے جا ٹکی۔
واعظہ عشنا نور الف اور عزہ بیچ میں گھیرا ڈال کر کھڑی تھیں۔۔
عروج ہاسپٹل کے لیئے انکی گول کچن دائرہ کانفرنس کو دیکھتی سر جھٹکتی نکلی تھی۔
ہے جن منے صوفے پر دراز بازو آنکھوں پر دھرے پڑا تھا۔۔
جانے جاگ رہا تھا کہ نہیں مگر کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑتا تھا۔ اسے کونسا سمجھ آرہا تھا کیا بول رہی ہیں مگر بول مسلسل رہی تھیں گرما گرم بحث چل رہی تھی مگر کیوں؟
دو کمرے ان میں دو ڈبل بیڈ اور ایک سنگل بیڈ ۔ چار چار لڑکیاں ان میں پوری نہیں پڑتی ہیں تم ایک عدد لڑکا بھی گھسا رہی ہو گھر میں۔ ؟ کیوں کیوں کیوں۔۔
یہ ابیہا تھئ۔۔ بس نہیں تھا گنجا ہی کر دے واعظہ کو۔
صحیح کہہ رہی ہیں۔
الف نے سر ہلایا۔۔
تو میں اسے کمرہ تھوڑی دینے کو کہہ رہی ۔ واعظہ سٹپٹائی۔
پھر تو بس کیبنٹس ہی ہیں دیکھ لو اگر جگہ ہو تو۔۔
فاطمہ نے سرسری سے انداز میں کیبنٹ کھولتے ہوئے کہا تھا۔ عشنا اسکے قریب ہی کھڑی تھی تو اپنی جھونک میں کیبنٹ میں جھانک لیا۔ فاطمہ نے گھور کر دیکھا پھر پتی کا ڈبہ نکال کر کیبنٹ پورے زور سے بند کی۔ صوفے پر سویا بنا پڑا ہے جن لرزا تھا
آرام سے۔۔ ٹوٹ جائے گی۔۔
نور نے موبائل میں لگے لگے ٹوکا۔
کیبنٹس میں کوئی کیسے رہ سکتا بھلا۔ الف حیران ہوئی۔
پھر یہ کچن کائونٹر پر سلادینا بستر لگا کر۔۔
ابیہا نے چڑ کر کہا تھا۔۔
ویسے وہ لائونج میں بستر لگا کر سو سکتا ہے صوفہ چھوٹا ہے بے چارہ پورا نہیں آرہا۔
عشنا نے ترس کھاتئ نظروں سے ہے جن کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔
ہاں وہی تو کہہ رہی۔ بس ایک مہینے کی بات ہے اسکا سمیسٹر مکمل ہو جائے گا تو ظاہر ہے پھر تو کالج میں داخلہ لے گا ابھی تو اسکول بھی اسکا یہیں سے قریب ہے۔
بہت خوددار بچہ ہے۔۔
بچہ؟ چھے فٹ کا؟۔۔ نور نے آنکھیں پھاڑیں
یار ہم سب میں تو سب سے چھوٹا ہے ۔
الف کو بھی اس کی مجروح حالت پر ترس آیا تھا۔۔
مگر آگے رمضان ہے ہم عبادت کریں گے کیسے ہم ایک کافر کو گھر میں گھسا لیں؟
فاطمہ نے حسب عادت لگی لپٹی رکھے بغیر کہا تھا۔۔
ہم اسے گھر میں جگہ دے رہے ہیں ۔ اسکے عقائد اپنانے نہیں لگے۔
عزہ نے سنجیدگئ سے کہا تھا۔۔ واعظہ اسے نثارہوتی نظروں سے دیکھ کر رہ گئ۔۔
صبح اسکول شام کو جاب پر بس رات سونے کیلئے آئے گا
یہاں لائونج میں ایک کونے پر اسکا بستر لگا دیں گے ہم ۔ بالکل تنگ نہیں ہونگے ہم۔
واعظہ کا انداز منانے والا ہو گیا تھا۔۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ چھوٹے بھائی جیسا ہی ہے ۔۔
عزہ نے ہاتھ اٹھا کر جیسے اسکے حق میں ووٹ دیا۔۔
مجھے بھی۔۔
نور موبائل میں بری طرح لگی تھی شائد سنا بھی ٹھیک سے نہیں ہوگا مگر ہامی بھر لی
تم عشنا۔۔
واعظہ نے مدد طلب نظروں سے دیکھا۔
ابیہا فاطمہ نظروں سے اسے گھور گھور کر نہیں کا اشارہ کر رہی تھیں وہ بے چاری گڑ بڑا کر رہ گئ۔
میں وہ۔۔ کوئی بات نہیں۔۔ اس نے کہہ ہی دیا۔ واعظہ خوش ہو کر الف کی جانب مڑی۔۔ اور تم۔وہ امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔
میری ایک شرط ہے۔ اگر
الف نے ہاتھ اٹھا کر کہا تھا۔۔۔فاطمہ ابیہا اور واعظہ نے ٹھنڈی سانس بھری تھی۔۔ اسکے بتائے بنا بھی اسکی شرط وہ جانتی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے حد ہی تھی۔ ایک چھپکلی پر اتنا ڈر گئ۔۔
عروج مریضہ کے کان سے آلہ نکال کر بخار دیکھتیکر زیر لب بڑ بڑائی۔۔
ہائش۔۔ ایک سو تین۔۔ اسکی آنکھیں کھلیں۔۔
چندی آنکھوں والی وہ ادھیڑ عمر کی خاتون بخار سے تپ رہی تھیں۔۔ بے چینی سے سر پٹختے ہائے ہائے کر رہی تھیں اپنی زبان میں۔۔
نرس انکے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھو۔۔
وہ نرس کو ہدایت دیتی خود انکی ہسٹری دیکھنے لگی۔۔
چھوگیو۔۔
انہوں نے زرا سا سہارا لیکر اٹھتے اسکی کلائی تھام لی۔۔
گرم انگلیوں کا لمس وہ چونک کر مڑی۔
چھنن بونئے کھننل مانیاگو شپھل چھیتا گرے چھوریل پھنا رگو پوتھا کھپ شتھے آگو کھن یو گیاریگے چھونا ہیئے
지난 번에 그녀를 만나고 싶을 때 제 딸에게 저를 방문하라고 부탁하십시오. 그녀에게 전화 해.
ٹوٹتی آواز کے ساتھ غنودگی میں جاتے جاتے وہ اسے کہہ گئیں۔۔ انکی گرفت کمزور پڑی تھی اسکی کلائی پر۔
جی۔ ۔۔ عروج کو انکا لہجہ کچھ سمجھ آیا کچھ نہیں۔۔
انکی سانسوں کی آواز مدھم ہوئی تھی دل کی دھڑکن بتاتی مشین ایک دم سے شور کرنے لگی تھی۔۔ ںرس ایک دم مستعد ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔