Desi Kimchi Episode 30

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 30
سعدیہ اسپیشل۔۔

تمہیں کوئی آسان سی ڈش نہیں سوجھی تھی یہ انوکھا تجربہ ضرور کرنا ہے تمہیں۔۔
الف جھلائی ہوئی اسکے ساتھ سپر اسٹور میں گھوم رہی تھی
بہت سادہ اور شان ترکیب ہے۔تم دیکھنا سب کو پسند آئے گی۔
عزہ پر جوش تھئ۔ الف سرجھٹک کر آگے بڑھ گئ۔ عزہ گھوم گھوم کے چیزیں اکٹھی کرنے میں لگی تھی۔ تیتر کے انڈوں کا لفافہ اٹھا کر مطمئن ہو کر مڑ کر دیکھا تو الف غائب ہو چکی تھی۔
اب یہ کہاں گئ۔ اس نے ٹرالی گھسیٹتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا تو دور کھڑی نظر آہی گئ۔
وہ دبے قدموں اسکی جانب بڑھی۔ وہ کاسمیٹکس والے حصے میں کھڑی تھئ۔ کریم اور لوشن ہاتھوں پر لگا لگا کر دیکھتی مگن کھڑی تھئ۔
اس نے اسکے قریب جا کر اسکی کمر میں انگلیاں پستول کی طرح گھونپ کرکان میں زور سے پکارا
ہینڈ اپ۔۔
پٹاخ سے کریم کی نئی شیشی اسکے ہاتھ سے گر کر ٹوٹی تھی۔ بری طرح دہل کر الف خود بھئ کائونٹر کا سہارا لیئے تھر تھر کانپ رہی تھی۔ سیلز گرل ان دونوں کو دیکھتی کائونٹر چھوڑ کر بھاگی تھی۔
عزہ کی بچی دم نکل جاتا ابھی میرا۔ چند لمحے لگے تھے الف کو سنبھلنے میں سیدھی ہو کر عزہ کا کندھا بجا دیا۔
توبہ ہے کتنا بھاری ہاتھ ہے۔ نقاب پوش عزہ تڑپ کر رہ گئ۔
دن دہاڑے اتنا ڈرتا ہے کوئی بھلا۔ اب جانے کتنی مہنگی کریم توڑ دئ
ٹرالی ایک طرف کرکے وہ جھک کر شیشی او راس سے بہتے سفید مواد کو دیکھنے لگی
اب جتنا بھی مہنگا ہو پیسے تم دوگی تمہاری وجہ سے ٹوٹی ہے۔
الف نے فورا حساب کرنا چاہا۔ عزہ گھور کر رہ گئ
اب ہاتھ کیوں لگا رہی ہو کانچ چبھ جائے گا۔ فکر بھی تھی اسے عزہ کی۔
ریپر دیکھ رہئ ہوں قیمت کا اندازہ تو کریں اس سے قبل کہ یہ ہمیں مہنگی بتا کر لوٹنے کی کوشش کریں۔
آپس کی باتوں میں انہوں نے دھیان ہی نہ دیا کہ عجیب سا بے ہنگم شور ہے انکے گرد اور باقی لوگ تیزی سے داخلی دروازے کی جانب بھاگ رہے ہیں۔
یہ اسٹور خالی کیوں ہو گیا اتنا جلدی؟
الف حیران ہو کر مڑی۔
ہینڈز اپ۔ ایک بار پھر انکو سنائی دیا تھا۔ دونوں نے مڑ کر دیکھا تو ڈیپارٹمنٹ کے سیکیورٹی گارڈز ان پر پستول تانے کھڑے تھے۔
وہ عبایا پوش لڑکی اس اسکارف پوش لڑکی کے قدموں میں بیٹھئ تھی ۔ صورت حال غیر متوقع تھی۔ مگر انہیں ان دونوں پر گمان دہشت گرد کا ہی ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے لگتا تھا کہ بس ہم پاکستانی ہی سوری کا بے جا استعمال کرکے جان بچاتے ہیں مگر پوری دنیامیں ہی معزرت کے الفاظ کو اسی طرح ناجائز استعمال کرتے ہیں۔
الف مٹھیاں بھینچ رہی تھی مگر چونکہ دونوں ہاتھ شاپروں سے بھرے تھے سو ایسا ممکن نہ ہوسکا
خیر انہوں نے کریم کے پیسے بھی نہیں لیئے بلکہ اسی طرزکی نئی شیشئ دے دی ہے۔ خوشبو تو اچھی ہے کریم کی۔۔
عزہ کے بھی دونوں ہاتھوں میں شاپر بھرے تھے مگر سرد ہوا چلنے سے ناک بھی چل پڑی تھی سو ایک ہاتھ بار بار اسکا ناک پونچھنے کے کام آرہا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ ہاتھ شاپر سمیت اٹھا کر ٹشو سے سڑ سڑ کرتی۔
کوئی احسان نہیں کیا۔ ہم سو کر سکتے تھے ان پر جو انہوں نے بے عزتی کی ہماری۔
الف غصے سے بھری تھئ۔ عزہ کو پھر چھینک آگئ۔ دونوں قریبی اسٹور تک ہی آئی تھیں سو پیدل ہی دو ذیلی گلیاں پار کرنی تھیں۔ سہ پہر کا وقت تھا لوگ کم ہی تھے اور جو تھے وہ اپنے کام سے کام رکھتے جا رہے تھے۔
تم نے بھی تو حد کی۔ عزہ چھینک مار کر فارغ ہوئی
ہینڈز اپ کہا تھا بس تم تو ایسے ڈریں جیسے سچ مچ گولی مار دی میں نے۔
ہاں تو انجان ملک اکیلی لڑکی میں ۔ اوپر سے اتنے عرصے کے بعد کریم دیکھی میں نے کھو گئ تھی میں۔
الف منظر یاد کرتے ہوئے ہی کہیں گم سی گئ۔۔
ہاں تو اتنی خود اپنے ہاتھوں سے کریم و لوشن بنا کے دیئے انکی کوئی قدر نہیں۔ ۔
عزہ نے منہ پھلایا تو الف بھنا کر اسے گھورنے لگی۔ ان دونوں کے سر پر فلیش بیک چالو ہوا تھا۔۔
یہ رہی 99 % ایلوویرا جیل اور یہ رہی کافی۔
دونوں کو برابر ملایا تو بن گئ نائٹ کریم ٹا ڈا۔۔
نہیں کورین کیا کہتے۔ چن۔۔۔
عزہ نے چٹکی بجائی۔ وہ سب اسکی اوور ایکٹنگ سے بیزار نائٹ کریم کے اس متبادل کو منہ پر ملنے لگیں۔عزہ الف عشنا عروج نور اور فاطمہ سب بھورا ماسک منہ پر لگاکے سوئی تھیں۔
اور صبح۔
سب کی سب افریقنیں لگ رہی تھیں۔ سب کا رنگ نا سفید رہا نا سانولا ۔ سب کی سب تانبے کی رنگت والی افریقی لڑکیوں سی رنگت چرا لائی تھیں
یوٹیوب ویڈیو میں تو جلد اچھی ہوگئ تھی۔ عزہ بسوری
گرائونڈ کافی ڈالنی تھی وہ بھی تھوڑی سی کس نے مشورہ دیا تھا ایکسپریسو وہ بھی چمچ بھر بھر کے ڈالو۔
یہ فاطمہ تھی مٹھیاں بھینچ کر چلائی تھی۔ ایک ان سب میں اسکا ہی رنگ سب سےگورا تھا اب وہ بھی بھورا ہو چکا تھا۔۔
واعظہ منے صوفے پر بیٹھی انکا حال دیکھ کر محظوظ ہو رہی تھی
آج یہ خاص ہلدی کوکونٹ آئل اور خشخاش والا ماسک لگائیں گے تم سب کا رنگ ایکدم نکھر جائے گا۔
عزہ اگلے دن رات کو پھر نئے ماسک کے ساتھ حاضر تھی۔
خشخآش؟ واعظہ نے سرکھجایا۔
مل گئ تھی یہاں؟
اگلا دن اس سے بھیانک نتیجہ لایا تھا۔
فاطمہ کی جلد پر چھوٹے چھوٹے لال دانے نکل آئے تھے ،عروج کو چہرے پر خارش اتنی ہو رہی تھی کہ اس نے مسل مسل کر گال لال کر لیئے تھے۔ عشنا کا چہرہ اکڑ سا گیا تھا وہ بولنے میں بھی احتیاط کر رہی تھی۔ الف کے چہرے پر فی الحال کچھ نہ تھا مگر ان سب کا حال دہلا گیا تھا اسے۔
عزہ اپنے چہرے پر برف کی ڈلی پھیرتے اور عروج کو برف دیتے اسے ڈرتے ڈرتے دیکھ رہی تھی۔
میں رات کو اٹھی تھی تو منہ دھو لیا تھا۔ اس نے حیرانی دور کی ۔۔
مگر یہ خشخاش لگ تو نہیں رہی۔
واعظہ نے آگے بڑھ کر شیشی اٹھائی۔۔
عزہ نے ہاتھ مار کر فلیش بیک ختم کیا
بس کرو۔ کتنا تو تم سب لڑیں تھیں دل بھرا نہیں جو یہ قصہ لے بیٹھیں دوبارہ۔
تمہاری اس فضول شاپنگ جس میں تم نجانے کون کون سے اوٹ پٹانگ ٹوٹکے کرنےکیلئے جڑی بوٹیاں تک اٹھا لائیں تھیں میرے سارے پیسے برباد الگ ہوئے تھے اور اچھی جلد کیلئے ترس الگ گئ تھی میں۔ جبھی تو آج کریم دیکھ کر مجھ سے رہا نا گیا اور کھو گئ میں پینڈوئوں کی طرح اسے دیکھ کر۔
الف دانت کچکچا رہی تھی۔
اوہو لیکن دیکھو فائدہ ہوا۔ اپنے غلط اندازے پر شرمندہ ہو کر معافی مانگتے ہوئے انہوں نے نا صرف ہمیں دس فیصد رعائیت دی بلکہ کریم کے پیسے ما نگنے کی بجائے مفت میں دے دئ اتنی اچھی کریم۔۔
عزہ نے مثبت پہلو نکال لیا۔
اور جو مفت کی بے عزتئ ہوئی۔
الف گھور کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائیو اسٹریم میں بے عزت ہوئی ہے۔ اب اصل ہو تو چینل بھی بند کرلے اپنا۔ عروج مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔ وہ دونوں بس میں بیٹھی تھیں۔ جو لبا لب بھری ہوئی تھی۔ آگے پیچھے دائیں بائیں کوئی مردو زن کی تشخیص نہیں تھی۔ عروج کھڑکی کی جانب بیٹھی تھی ۔ جھٹکا لگنے پر واعظہ کے منہ سے ہائے سی نکل گئ کیونکہ سر پر کھڑی لڑکی کا بیگ سیدھا ناک پر لگا تھا اسکے۔
بیانیئے سننے کو سر اٹھایا تو موصوفہ کو موبائل میں گم پایا۔ ٹھنڈی سانس بھر کر اس نے رخ عروج کی جانب کیا۔
میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی اتنی مکار چڑیل لڑکی ہوگی۔مگر جانتی نہیں کس سے پالا پڑا ہے اسکا۔
اگر وہ کوریا کی چڑیل ہو سکتی ہیں تو ہم پاکستانی لڑکیاں بھی ڈائن سے کم نہیں۔ سمجھتی کیا ہے خود کو۔
اسکی تشبیہہ پر واعظہ کھانس کر رہ گئ۔
مطلب کوئی آخری حد نہیں۔ چڑیل بمقابلہ ڈائن۔
اس کا تخیل ویسے ہی اڑان بھرتا رہتا تھا۔فورا منظر تیار تھا۔
مشیل اور عروج دونوں ریسلنگ کے رنگ میں کھڑی تھیں۔
مشیل لال جوڑے میں ملبوس پھنکاری ۔ انتہائی خوبصورت چندی آنکھوں والی دوشیزہ نے گھونگھٹ اٹھا کر ترچھی نگاہ ڈالی تھی۔ لال کرتی جس پر گوٹا کناری لہنگا جس کا ذرا سا کونا اس نے سمیٹا تو اسکے پائوں دکھائی دیئے۔ پائوں کی گلابی ایڑیاں۔
ہیں۔ اس نے جھٹ اوپر دیکھا چہرہ سامنے ہی تھا دوبارہ پیر پر نگاہ کی۔۔ پیر تو الٹے تھے۔
عروج۔ اس نے مڑ کر عروج کو دیکھا۔
ڈاکٹرز والے مخصوص گائون میں منہ پر ماسک چڑھائے وہ اب آستین بھی چڑھا رہی تھی۔
مشیل لپکی عروج کی گردن میں دانت گاڑےعروج کو ایک جانب پھینکا اور اسکی جانب متوجہ ہوئی
بتائو ہم میں سے کون جیتا۔ ؟
چندی آنکھوں والی چڑیل اسکی۔جانب بڑھی۔
واعظہ تھر تھر کانپتے پیچھے ہوئی تو رنگ کے رسے سے ٹکرا گئ۔ چڑیل اسکی جانب بڑھے جا رہی تھی۔
مم۔ مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو۔میں کیوں بتائوں؟
کانپتے لبوں سے بمشکل پوچھا۔ پھر اپنے حلیئے پر نگاہ کی تو ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ریفری کی طرح کی دھاری دار شرٹ اور کالی پتلون میں خود کو ملبوس پایا۔ یعنی وہ ریفری؟؟؟
دے؟ ہنگل میں بولو مجھے اردو نہیں آتی۔
چندی آنکھوں والی اردو فراٹے سے بولی تھی۔ ( بھئی اب سچ مچ تھوڑی مشیل تھی وہ تو واعظہ کا تصور تھا اور تصور میں کچھ بھی ہو سکتا)
مم۔ اسکی سٹی گم ہوگئ تھی
بولو اب چپ کیوں ہو۔ چڑیل تن فن کرتی بڑھی کہ اچانک ٹھٹھکی اسکے منہ سے خون کا فوارہ نکلا جو واعظہ کے چہرے پر چھینٹوں کی صورت پڑا۔ اس نے آنکھیں میچ لی تھیں
آخ آخ۔ اسکے منہ سے چیخ نکلی چڑیل اسکے قدموں میں ڈھیر ہو چکی تھی۔
اس نے خود کو ٹٹولا تو ثابت سالم پایا جھٹ آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا تو ٹیڑھئ گردن سے دیکھتی عروج ہاتھ میں ایک لال نرم سی چیز پکڑے چبا رہی تھی
کھائو گی؟ اس نے اسکی جانب بڑھایا
آخ۔ ایسا خونخوار تخیل اسے الٹی ہی آگئ۔
فورا حال میں تشریف آوری ہوئی۔
میں اس پر سو کروں گی دیکھنا سمجھتی کیا ہے خود کو پھینی ناک والی۔
عروج ابھی تک بڑ بڑا رہی تھی۔
اب بس بھی کرو سبق سکھا دیا نا ہم نے اس فضول یو ٹیوبر کو۔
واعظہ نے تسلی دینا چاہی۔
یو ٹیوبر مجھے تو یو ٹیوب سے بھی نفرت ہوگئ ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موبائل کائونٹر پر نمک دانی سے ٹکا کر اس نے یوٹیوب پر مطلوبہ ویڈیو کھولی۔ اس ویڈیو کی ڈسکرپشن میں ایک عدد ویب سائیٹ کا لنک تھا جسے کھولنے پر پوری اسکرین پر کیڑے مکوڑے بکھر گئے۔
اب یہ کونسی زبان ہے؟ الف نے حیران ہو کر پوچھا۔
مجھے کیا پتہ کوئی سائوتھ انڈین زبان ہی ہے ۔ نیچے دیکھو انگریزی میں بھئ لکھی ہے ترکیب۔
عزہ دیگچی میں مصالحہ بھون رہی تھی وہیں سے پکاری۔
زیر لب بڑ بڑاتے الف نے ترکیب پڑھنی شروع کی۔
یار یہ کہاں ہڑپہ کے کھنڈرات سے کھود کے نکالی ہے ترکیب ۔یہ تیتر کے انڈے کون مرغی کا پیٹ کھول کر اس میں بھرتا ہے بھلا؟
الف کی حیرانی عروج پر پہنچی۔
یار نئی چیز ہے سوچا آزما کے دیکھوں۔ عزہ پر جوش تھی۔
الف کو بھی جوش چڑھ گیا چٹکی بجا کے بولی۔
چلو پھر میں کوئی میٹھی چیز بناتی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج اور واعظہ جب تھکی تھکی گھر میں داخل ہوئیں تو چاول کے دم نکلنے کی خوشبو پھیلی تھی جبکہ الف کسٹرڈ بنا کر فریج میں رکھ رہی تھی۔
دونوں منے صوفے پر ڈھیر ہوئیں تو انکی اتری شکلیں دیکھ کر دونوں پاس چلی آئیں۔فکر مندہو کر نہیں متجسس ہو کر۔
کیا ہوا؟ منہ کیوں سوجے ہیں تم دونوں کے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشیل کا اپنا ذاتئ دو کمروں کا فلیٹ تھا جس کے ایک کمرے کو اس نے اسٹوڈیو بنا رکھا تھا۔ وہ دونوں اسکے گھر میں داخل ہوتے ہوئے جھجک سی گئیں۔ عروج نے چٹکی ہی کاٹ لی واعظہ کے بازو میں۔
آہ۔ وہ سسکی بھر کے رہ گئ۔
آجائو اندر۔۔ آرام سے آئو۔ مشیل نے انکو دروازے میں رکتے دیکھا تو مسکرا کر بولی
تم اکیلی رہتی ہو یہاں۔ بازو سہلاتے ہوئے واعظہ نے پوچھا۔
ہاں۔ یہاں آجائو یہ اسٹوڈیو ہے میرا ۔وہ مصروف سے انداز میں کہتی ایک کمرے کا دروازہ کھول کر انکو اندر آنے کی دعوت دینے لگی
اوہ ۔دونوں اطمینان سے آگے بڑھ آئیں
بس میرا بوائے فرینڈ ہی ہوتآ ہے یہاں میرے ساتھ۔
اسکا جملہ اب مکمل ہوا تھا۔ دونوں سٹپٹا گئیں۔ وہ ایک نسبتا درمیانے سائز کا کمرہ تھا جس کے ایک کونے میں صوفے رکھے تھے دوسرے کونے کو اس نے سجا بنا رکھا ایک جانب کیمرے رکھے تھے بڑا سا اسٹینڈ لائٹ ٹرائی پوڈ دیوار پر اسکے یو ٹیوب چینل کا مخصوص بیک گرائونڈ وال اسٹیکرز کے زریعے بنا رکھا تھا ایک طرف چھوٹی الماری سی تھی جس میں مائکس وغیرہ رکھے نظر آرہے تھے تو اسکے بالکل مخالف ایک چندی آنکھوں والا لمبا سا لڑکا سجا تھا جو ایک کیمرہ کھولے نجانے اسکے کیا کل پرزے دیکھ رہا تھا۔
واعظہ تمہیں پٹخنی دینی آتی ہے نا؟
عروج کی ہنگل انگریزئ سب بھک سے اڑ گئ تھی۔
ہاں مگر ابھی کاسٹ اترے ذیادہ دن نہیں ہوئے۔
واعظہ نے اپنا مجروح بازو چھوتے ہوئے خود پر ترس کھایا۔
اس چندی آنکھوں والے لمبوترے لڑکے کے بازو کی مچھلیاں بلا مبالغہ بلیوں سی موٹی تھیں۔
منہ اٹھا کے دونوں اوکھلی میں سر دینے آگئی تھیں اب سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والا حال ہوتا یا موصلوں سے ڈرنا نصیب میں لکھا جو بھی تھا بھگتنا ہی تھا۔
آجائو۔ہم پہلے بات کر لیتے ہیں پھر لائیو اسٹریم شروع کریں گے۔
وہ اسٹوڈیو والے کونے میں سجے دو اسٹولوں میں سے ایک پر بیٹھ گئ اور دوسرے پر اسے بیٹھنے کی دعوت دینے لگی
عروج نے واعظہ کو دیکھا پھر اسکے آنکھوں سے اشارہ کرنے پر گہری سانس لیتی اسکے مقابل آبیٹھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عروج مشیل کا چینل کھولے بیٹھی تھی وہ سب اسکے موبائل پر جھک آئیں صرف پندرہ منٹ کی اسٹریم دو گھنٹے میں ملین ویوز کراس کر چکی تھی۔دھڑا دھڑ کمنٹ بڑھ رہے تھے
تو جناب جو جو لوگ مجھے چیلنج دے رہے تھے انکو بتا دوں کہ آج میں نے اپنا وعدہ پورا کیا ۔ میری ویڈیو فیک نہیں تھی وہی لڑکی جو میری ویڈیو میں زور زور سے چیخیں مار رہی تھی میرے ساتھ بیٹھی ہے۔ انہی کپڑوں میں۔
میں نے اپنا پہلا چیلنج پورا کر دیا ہے۔
اب چیلنج کا اگلا حصہ پورا کرنا ہے سو جلدی جلدی سب آجائو۔
وہ خالص ہنگل میں بول رہی تھی۔
اور عروج ذرا ناظرین کو بتائیں اپنے بارے میں؟
اس بار وہ عروج کی طرف مڑ کر انگریزی میں پوچھ رہی تھی۔
عروج روانی سے انگریزی میں اپنا تعارف کروانے لگی۔
واعظہ کی اسکے الفاظ پر اور حرکات پر بھرپور نگاہ تھی۔
میرانام عروج ہے ۔پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہوں ۔ میرا تعلق پاکستان سے ہے میں یہاں ہانگوک یونیورسٹی ہاسپٹل میں کام کرتی ہوں۔ مجھے تقریبا چار سال ہو رہے ہیں کوریا میں۔ بہت ذیادہ اچھی تو نہیں مگر کچھ ہنگل سمجھ لیتی ہوں میں۔ وہ مسکرا کر بولی۔
مشیل کا واضح طور پر رنگ سا اڑا تھا۔
۔ اس نے تھوڑا گڑ بڑا کر اپنے بوائے فرینڈ کو دیکھا تھا جو بظاہر بے نیازی سے موبائل پکڑے ایک جانب کھڑا تھا
یو ٹیوب پرلائیو اسٹریم سامنے اسٹینڈ پر ایک فوکس پر رکے کیمرے سے ہو رہی تھی تو اسکا بوائے فرینڈ کیوں اتنا ساکت کھڑا ہے۔
اسکی نگاہوں کے ساتھ واعظہ کی بھی نگاہ اس پر گئ تھی پھر اسکا سر بھی گھوما تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویڈیو دیکھتےہوئے وہ دونوں بھی بالکل سنجیدہ ہو چکی تھیں۔۔
یقینا اگلے کچھ منٹ بہت دھماکے دار ہونے والے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے چیلنج کا دوسرا حصہ جلد ہی پیش خدمت ہے آپ لوگ تحائف بھیجتے رہیئے یونہی جلدی جلدی۔
بیچ میں رک کر وہ ایک ادا سے بولی تھی۔
وہ کسی دوسری ایپ سے بھی آن لائن تھی یقینا جس میں ورچوئل گفٹس کسی گھٹیا چیلنج کو پورا کرنے کیلئے اکٹھے کیئے جا رہے تھے۔
تو تم مسلمان لڑکیاں اپنا چہرہ ڈھانپ کے رکھتی ہو؟ کیوں بھئی رنگ کم ہوتا ہے تم لوگوں کا اسلیئے؟
اسکا انداز تسمخر اڑانے والا تھا۔
نہیں بلکہ۔ عروج نے تپ کر جواب دینا چاہا
واٹ ایور۔ وہ ہاتھ ہلا کر بات بدل گئ۔
میرے لیئے بڑی دلچسپ بات ہے میرے ساتھ ایسی لڑکی بیٹھی ہے جسکا چہرہ دنیا میں کسی نے نہیں دیکھ رکھا ہا ہا ہا۔ گھر والوں نے بھئ نہیں ہا ہا ہا۔
بھئ تم خود اپنا چہرہ دیکھتی ہو یا خود بھی ماسک لگا کے آئینہ دیکھتی ہو۔
وہ ٹھٹھا لگا کے ہنس رہی تھی۔
یہ ہرگز بھئ اچھا مزاق نہیں ہے۔ عروج تپ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔تمہیں اس طرح اسلامئ شعائر کا مزاق اڑانے کا کوئی حق نہیں۔
اوہو کہاں جا رہی ہو۔ مشییل نے لپک کر اسکا بازوپکڑا۔
بیٹھو بھئ ابھی تو سب سے اہم کام باقی ہے۔
اسکی گرفت غیر معمولی طور پر سخت تھی اس نے کھینچ کر عروج کو اسٹول پر دھکا ہی جیسے دے ڈالا عروج ابھی سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ اسکے کان میں مشیل کی تمسخرانہ آواز گونجی
تو جناب دیکھیں میری ویڈیو میں موجود لڑکی کا اصل چہرہ ۔۔۔۔۔۔
میں نے آپکا دیا چیلنج پورا کردیا ۔
اس نے کہتے ساتھ ہی عروج کے چہرے سے ماسک نیچے کرڈالا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند لمحوں کا پردہ پڑا تھا کیمرے پر اتنا ہی وقت عروج کو سنبھلنے کو درکار تھا۔ وہ فورا ہاتھوں میں چہرہ چھپاتی کیمرے کے فوکس سے نکل گئ۔جھٹ ماسک ٹھیک کرنے لگی
مشیل کو عروج کا بازوپکڑ کر کھینچتے دیکھ کر واعظہ نے لمحہ بھر کا بھی موقع نہیں دیا تھا۔ اس نے اپنے گلے میں سے اسکارف کھینچ کر اسٹینڈ پر لگے کیمرے پر ڈالا تھا اور گھوم کر لات ماری تھئ اسکے بوائے فرینڈ کے ہاتھوں پر موبائل اسکے ہاتھ سے گولی کی طرح نکلا تھا۔ اوپر پھر دھڑام سے زمین پر۔
اسکا بوائے فریںڈ اس اچانک حملے سے سنبھل کر ایکدم واعظہ کی جانب لپکا تھا جب عروج نے اسٹینڈ گھما کر کیمرے کا رخ اسکی جانب کیا۔
کیمرے میں فیچر ہوتے دیکھ کر وہ فورا رکا تھا۔ لائیو ایک دنیا دیکھ رہی تھی کہ وہ لڑکی پر ہاتھ اٹھائے لپکا تھا۔تبھئ بھونچکا کھڑئ مشیل عروج کی جانب لپکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنی دھوکے باز لڑکی نکلی۔ تم دونوں کو اسکے دانت توڑ دینے چاہیئے تھے۔
الف کا خون کھول اٹھا تھا۔
ہم نے اسکی ساکھ برباد کر دی ہے۔ اسکی ویڈیو پر اسلام و فوبیا بحث چل پڑی ہے پوری دنیا کے مسلمان غصے میں بھر کر اسے برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ یہ اسٹریم یقینا بلاک ہو جائے گی
عروج کو کمنٹس دیکھتے ہوئے اطمینان سا ہوا تھا۔
پھر بھی۔ بہت غلط حرکت کی ہے اس نے۔ عزہ کو بھی غصہ آرہا تھا۔
مجھے تو پتہ بھی نہ چلتا کہ اسکے کیا ارادے ہیں میں احمق سمجھی کہ واقعی وہ میرا ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے انٹرویو لینا چاہ رہی ہے۔یہ تو واعظہ نے کمنٹس کھول کر دیکھے تو پتہ چلا کہ اسے نیٹیزنز نے یہ چیلنج دیا تھا کہ اصل شکل دکھائے ماسک والی لڑکی کی تو یقین کریں گے کہ ویڈیو فیک نہیں ورنہ جس طرح لڑکی ڈر کر چیخ رہی ہے یقینا کوئی پیڈ ایکٹریس ہے جو منہ چھپائے اداکاری کر رہی ہے۔
اور اس نے چیلنج قبولتے کہا تھا کہ وہ اس لڑکی کو ڈھونڈ نکالے گی اور اسکا لائیو چہرہ دکھائے گی۔ ۔
عروج نے تفصیل سے بتایا۔
کمینی گھٹیا لڑکی میں ہو تی تو منہ توڑ دیتی دوبارہ اپنی بوتھی دکھانے لائق نہ رہتی۔
اسکا چینل رپورٹ کرتے ہیں
الف اور عزہ اسکے غائبانہ لتے لینے لگیں۔
واعظہ انکی گفتگو سے الگ بالکل خاموش بیٹھئ سوچ میں گم تھی۔
تم کیا سوچنے بیٹھ گئیں۔
عروج اس سے پوچھے بنا نہ رہ سکی
میں یہ سوچ رہی تھی ہمیں جانا ہی نہیں چاہیئے تھا ۔ اس نے ہمیں اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہم نے اسکا نقصان کردیا ہے۔
وہ جو بھی سوچ رہی تھی کم از کم یہ سوچ آئی ہوگی اسکے دماغ میں اسکا ان تینوں کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔

کیا مطلب دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟
۔تینوں بھونچکا ہی رہ گئ تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آندھی طوفان کی طرح وہ لڑکی بھاگتی ہوئی آئی تھی لفٹ میں۔ لفٹ کا دروازہ بند ہونے کو تھا جب اس نے زبردستی اینٹری ماری تھئ۔ سعدیہ فورا ایک قدم پیچھے ہوئی ورنہ وہ لڑکی اس سے آر پار ہو جاتی۔ طوبی بھئ ہاتھ بچاتی پیچھے ہوئی۔۔ گھورنا چاہا اس بے نتھے بیل کو شناسائی کی رمق آنکھوں میں در آئی
ایک تو میں نہ ہوں تو ضرور کسی مصیبت میں ٹانگ پھنسائے بیٹھئ ہوتی ہیں یہ۔ بڑ بڑاہٹ۔
فاطمہ ۔طوبی نے پکارا تو وہ بڑبڑاہٹ روک کر مڑی۔
ارے طوبی کیسی ہیں آپ کہاں سے آرہی ہیں؟ یہ ہاتھ کو کیا ہوا۔
فاطمہ پرتپاک سے انداز میں طوبی سے گلے ملی اور ہاتھ پکڑ ہی لیا۔ سعدیہ کے منہ سے بے ساختہ سسکاری سی نکلی۔ مگر طوبی بے نیاز ی سے بولی
کچھ نہیں ذرا سا جل گیا۔چاولوں کی پیچ سے
ذرا سا بہت جل گیا ہے چلیں ڈاکٹر کے پاس ۔ فاطمہ بند لفٹ میں ہی اسکا ہاتھ تھامتی چل پڑی تھی
ارے میں دوا لے آئی ہوں عروج کودکھا دوں گی۔
طوبی کو پیار ہی آگیا اسکئ فکر پر۔
ارے تم دونوں کا تعارف تو کروایا ہی نہیں۔ یہ فاطمہ ہے ہماری پڑوسی اور فاطمہ یہ سعدیہ ہے۔
ہیلو۔ سعدیہ نے مسکرا کر ہاتھ بڑھایا جسے فاطمہ نے بھی گرم جوشی سے تھام لیا
آپکی بہن ہے یہ طوبی؟ بالکل آپ جیسی۔
فاطمہ نے فوری اندازہ لگایا۔
نہیں۔ سعدیہ ہنس دی
اچھا اچھا دلاور بھائی کی بہن ہے نند ہوئی آپکی۔
فاطمہ نے سر ہلایا۔
ارے نہیں میری نند نہیں یہ تو ۔۔اس بار طوبی نے غلط فہمی دور کرنی چاہی
اوہ تو واعظہ نے اسے کرایہ دار رکھ لیا۔
اس نے لمحہ بھی نہ۔لگایا اگلا اندازہ لگانے میں اور فورا غصے میں بھر گئ۔
اف کہا بھی تھا میری جگہ کسی کو نہ دے میں نے ہمیشہ تھوڑی حد ہے مجھے نکال ہی دیا کے فلیٹ سے ابھی پوچھتی ہوں۔
تبھی لفٹ کا دروازہ کھلا تو ان دونوں سے وضاحت لیئے بنا تن فن کرتی باہرنکلی۔
چلو۔ طوبی نے حیران کھڑی اس آندھی طوفان سی لڑکی کو دیکھتئ معصوم سی سعدیہ سے کہا
ہم نے بھی اسی فلور پر جانا ہے۔
طوبی نے وضاحت کی تو وہ سر ہلا گئ۔ اسی فلور پر آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں لگ رہا تھا۔
فاطمہ اپنے فلیٹ کے دروازے سے کان لگائے کھڑی۔تھی۔ سعدیہ سے باتیں کرتی اپنے فلیٹ کئ گھنٹی بجاتئ طوبئ نے اسے دیکھا تو رہا نا گیا۔ تشویش میں مبتلا ہو کر اسکی جانب بڑھ آئی۔
کیا ہوا۔؟
طوبی اندر سے کوئی آواز نہیں آرہی نا چیخنے کی نا لڑنے کی۔سب ٹھیک تو ہیں نا۔ فاطمہ گھبرائی
ہاں ٹھیک ہی ہونگی خدا خیر کرے۔طوبی بھی گھبرا سی گئ
کورین اپارٹمنٹ سائونڈ پروف ہوتے ہیں عموما۔
سعدیہ نے تسلی دینی چاہی۔ دونوں نے مڑ کر اسے دیکھا تو وہ چپکی سی ہو رہی۔
یہ نہیں جانتی کہ اندر آوازیں کونسی ہوتی ہیں جو سات محلوں تک زندگی کا پتہ دیں۔
فاطمہ نے دروازہ زور سے کھٹکایا۔
طوبی نے جھٹ سے ہینڈل پورا گھما دیا ۔ پنجابی تشویش زدہ لڑکی کے ہاتھ لگنے سے سال۔خوردہ ہینڈل نے مزید احتجاج مناسب نہ سمجھا۔
دروازہ کھلا۔دلاوربنیان اور کھلے پاجامے میں مسکراتے ہوئے نکلے
آگئیں جان میں ابھئ۔
آگے کا جملہ منہ میں روح فنا۔
طوبی کی جگہ اجنبی پیاری سی لڑکی کھڑی تھی۔
وہ۔ سعدیہ نے بتانا چاہا کہ دلاور نے سٹپٹا کر دروازہ بند کردیا۔
ہائش۔ اسکے منہ پر دروازہ بند ہوا تو اس نے چارو ناچار مڑ کر طوبی کو دیکھنا چاہا۔ سامنے والے فلیٹ کا دروازہ کھلا تھا اور طوبی اور فاطمہ غائب تھیں۔ اس نے کندھے اچکائے اور اسی دروازے کی جانب بڑھ گئ۔
دھڑ دھڑ دل قابو کرتے وہ جلدی میں بھاگ کر آئے اور اپنی ٹی شرٹ پہنی۔ اجنبی جوان جہان لڑکی کے سامنے وہ بنیان میں۔ انہوں نے جھرجھری لی۔
بھاگے بھاگے آئے دوبارہ دروازہ کھولا تو لڑکی گم۔ اور انکی سٹی بھی۔
ڈھلتی سہ پہر میں جنوبی کوریا میں خالص پاکستانی شکل کی لڑکی دیکھنا اور اسکا یوں غائب بھی ہونا۔
کون تھی وہ لڑکی بھی تھی یا؟
یہ خیال انکی رگوں میں خون جما گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جھجکتے ہوئے اندر داخل ہوئی اندر زور و شور سے بحث جاری تھی۔
منے لائونج میں وہ سب اکٹھی تھیں۔ آلتی پالتی مار کے کانفرنس ہو رہی تھی سوائے فاطمہ کے سب آلتی پالتی مارے بیٹھی تھیں۔ واعظہ اور عروج صوفے پر طوبی عزہ اور الف کارپٹ پر۔۔ جبکہ فاطمہ اس منے لائونج میں بھی ٹہل ٹہل کر شائد گینیز ورلڈ ریکارڈ بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔
یہ یو ٹیوبرز ایسے ہی ہوتے ہیں چار ویوز اور لائکس کیلئے کوئی بھی گرا ہوا کام کرسکتے تم دونوں کو سوجھی کیا تھی۔
کیا شوق آیا تھا یو ٹیوب ویڈیو میں آکر اپنا تماشہ بنانے کا۔
فاطمہ بڑھ بڑھ کر بول رہی تھی۔چلتے چلتے عزہ کا ہاتھ پائوں کے نیچے دے دیا وہ ہاتھ دباتی دہری ہوگئ۔
ہٹو موٹو۔ اس نے تڑپ کر اسکی ٹانگ پر چپت لگائی۔
فاطمہ کی بات جاری تھی یہ لفظ بھی اچک لیا
یا رموٹو بھئ کوئی۔۔بولتے بولتے عزہ کو گھورا پھر تصحیح کی۔
اوہو عقل بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
یار مسلئہ ہمارے ثقافتی فرق کا ہے اورکچھ نہیں اس کو گمان نہیں گزرا کہ پردہ اتنا بڑا مسلئہ ہو سکتا ہے ہمارے لیئے۔
یہ واعظہ تھی الگ ہی کوئی منطق سمجھانے میں مصروف۔۔۔

دیکھو وہ لڑکی اگر واقعی اچھی نیت سے کام کرتی تو یہاں کتنی ساری پاکستانی اور انڈین لڑکیاں بھی کام کر رہی ہیں یو ٹیوب چینل چلا رہی ہیں انکا انٹرویو لیتی سعدیہ کا لے لیتی۔ تمہیں یہاں کوئی جانتا نہیں پہچانتا نہیں تمہیں بلایا اور تم چلی بھی گئیں۔
یہ طوبی تھی رسان سے سمجھانے لگی۔
بالکل سعدیہ کو بلاتی۔ فاطمہ نے ہاں میں ہاں ملائی پھر مڑ کر طوبی سے پوچھنے لگی
کون سعدیہ؟
سعدیہ یو ٹیوبر ہے نا ۔عزہ نے چٹکی بجائی۔
یہیں کوریا میں ہوتی ہے وی لاگ بناتی ہے۔ اتنی مزے کی ویڈیوز ہوتی ہیں اپنے دن رات کی روٹین دکھاتی ہے۔ کوریا کی سیر کرواتی ہے میں اسکی ہر ویڈیو شوق سے دیکھتی ہوں
صرف دیکھا کرو نا مرغی کے پیٹ میں تیتر کے انڈے بھر کر پکانے نا بیٹھ جایا کرو۔ بھوک سے آنتیں پلٹ رہی ہیں شاہی کھانا ہی پک کے نہیں دے رہا۔۔۔یہ کون ہے ۔
طوبی عزہ کی پشت تھی الف صوفے سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھئ تھئ تو اسی کی بولتے بولتے سب سے پہلے نگاہ لائونج کی دیوار کے پاس جھجکی سی کھڑی سعدیہ پر پڑی تھی سو روانی میں بولتی گئ۔
یہ لڑکی میں نے کہیں دیکھی ہے۔ ہے یاد نہیں آرہا
اسکے کہنے پر سب نے مڑ کردیکھا تو سعدیہ سٹپٹا سی گئ
اسلام و علیکم۔
یہ سعدیہ ۔۔ سعدیہ ہے نا؟
عزہ خوشی سے اچھل کر کھڑی ہوگئ۔
واعظہ نے بھی اسکی ویڈیوز دیکھ رکھی تھیں سو پہچان کر فورا استقبال کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ہاں یہ وہی تو ہے جسکی وجہ سے عزہ مرغی کے پیٹ میں تیتر کےانڈے بھر رہی تھی۔
الف نے اس بار۔ پہچان لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاطمہ :یہ بتائو تم کب سے ہو یہاں؟
عزہ: پتہ یےمیں سال بھر سے تمہاری سب وی لاگز دیکھ رہی ہوں
طوبی: یہ دائود کم کی ویڈیو میں بھی آئی تھی
عروج : تمہیں ہنگل پوری سمجھ آجاتی ہے؟
الف: یار مجھے تو ایک لفظ ابھی تک نہیں سمجھ آتی
طوبی: یار یہاں کھانے پینے کا کیا حل ہے ہم میاں بیوی تو سوکھے منہ واپس آجاتے سمجھ نہیں آتا کچھ کھا سکتے ہیں کہ نہیں؟
عزہ: ہمدردی سے: تو طوبی آپ پاکستانی یا انڈین ریسٹورنٹ چلی جایا کریں نا
طوبی آہ بھر کر: اب کوریا میں رہ کر بھی دیسی ہی کھانا ہے تو کیا فائدہ
الف: سعدیہ تم ویسےکیا پڑھ رہی ہو یہاں؟
عزہ: تم اکیلی رہتی ہو ؟ ڈر نہیں لگتا؟
فاطمہ: ڈر کیسا کوریا ہے یہ
عروج : یار اکیلے رہتے لگتا ہی ہوگا اندھیرے سے بھوت پریت سے۔
عروج کئ بات پر سعدیہ تھوڑا گھبرائی۔
عزہ: کوریا میں بھی بھوت ہوتے ہونگے؟
الف:ہاں ہونگے تو مگر ایک فائدہ ہے
سعدیہ بوکھلا کر : کیا؟
الف : پیارے ہی ہوتے ہونگےسامنے آ بھی جائیں تو ڈر نہیں لگے گا 😍
الف کی بات پر عزہ نے اسکے سر پر بلا تکلف چپت لگائی سعدیہ کی بھی اسکا جملہ سن کر جان میں جان آئی۔
منے لائونج میں اب سعدیہ بھی کارپٹ پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی ان سب کے نرغے میں اور سوالوں کی۔بوچھاڑ جاری تھی سب اکٹھے پوچھ رہی تھیں اکٹھے ہی جواب دے رہی تھیں۔ خود ہی سوال خود ہی جواب۔ اچھا انٹرویو ہو رہا تھا سعدیہ کا۔
بس کرو اسکو اتنا تنگ مت کرو کہ دوبارہ کبھی ملنے کا سوچ کر بھی کانوں کو ہاتھ لگائے۔
یہ واعظہ تھی مسکرا کر ان اوور ایکسائیٹڈ لڑکیوں کو ٹوکا۔وہ کچن سے ٹرے میں کھانا لگا کے لارہی تھی۔
اسے کھانا لاتے دیکھ کر جھٹ پٹ الف اور عزہ بھی اٹھ گئیں
پلیٹیں چمچ گلاس منا دسترخوان بچھا کھانا سجا
کھانا ایک الگ سرپرائز تھا
یہ کیا ہے۔
فاطمہ طوبی عروج کے منہ سے استعجابیہ اور صدماتی جملہ نکلا تو سعدیہ خوشگوار حیرت میں پڑ گئ۔ واعظہ الف کو یہ صدمہ پہلے پہنچ چکا تھا ایک بڑی سی طشتری میں سالم روسٹ مرغ مصالحے دار چاولوں پر اکڑا بیٹھا تھا اکڑا یوں بیٹھا تھا کہ چونکہ پیٹ میں افراد کو مد نظر رکھتے ہوئے عزہ نے انڈے بھرے تھے تو کچھ ذیادہ بھر گئے نتیجتا اسکو بٹھانا پڑ گیا تھاہاں ٹانگوں میں رسی مطلب دھاگا بندھا تھا۔
یہ تو۔۔ سعدیہ حیران سی رہ گئ تھئ
کوزی نرا چاٹو ۔۔۔ چن۔
عزہ خالصتا کوریائی انداز میں دونوں ہاتھوں سے انگلی انگوٹھے والا دل بنا کر لہرائی۔
تمہاری ویڈیو دیکھ کر اسکو بنانے کا دل کیا تم سب لوگ اتنا چٹخارے لیکر کھا رہے تھے کہ میں نے ٹھان لی کہ ضرور یہ بنائوں گی۔
عزہ بچوں کی طرح پرجوش تھی۔ سعدیہ اسکے انداز پرہنس دی۔
چکھ کر بتائو کیسا بنا۔
عزہ بڑے اشتیاق سے اس سے کہہ رہی تھی۔ سعدیہ نے اثبات میں سر ہلایا اور اپنی پلیٹ میں چاول نکال لیئے۔
پہلا نوالہ چمچ سے لیکر منہ میں رکھنے لگی تو ٹھٹک سی گئ
وہ سب اسےبغور دیکھ رہی تھیں۔
اس نے جھجکتے ہوئے نوالہ منہ میں لیا۔۔
دیکھنے میں وہ بیٹھا ہوا مرغ جتنا بھی عجیب لگ رہا ہو ذائقہ چاولوں کااصل پکوان سے قریب قریب تھا۔کافی مزے کا
بہت مزے کا بنا ہے عزہ۔ سعدیہ نےکھلے دل سے تعریف کی تو عزہ کو لگا محنت وصول ہوگئ
اسکو اطمینان سے کھاتے دیکھ کر باقیوں نے بھی ہمت کی اور اپنی پلیٹ میں نکالنے شروع کیئے چاول
یار یہ انڈے اتنے چھوٹے کیوں ہیں؟
عروج نے ہی مرغ کا آپریشن سب سے پہلے کیا تھا
یہ تیتر کے انڈے ہیں۔ سعدیہ نے حیرت دور کرنی چاہی اسکی
تیتر حلال ہوتا یے نا۔۔
الف کے منہ سے بے ساختہ نکلا
ہاں نا یہ ڈش سعدیہ خود بیٹھی کھا رہی تھی اسی کے چینل سے تو پتہ چلاکوزی نرا چاٹو بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
عزہ نے سمجھایا تو طوبی جھٹ بولی
یہ عید والی ویڈیو تھی نا اس میں تم نے سرخ سوٹ پہنا ہوا تھا نا میں نے بھی دیکھ رکھی ہے۔

انکی یادداشت پر سعدیہ حیران ہو کر ہنس دی
مجھے نہیں پتہ تھا آپ لوگ میری وییڈیوز اتنے شوق سے دیکھتے ہیں۔
اچھا ایک بات بتائو جو لوشن وغیرہ تمہاری ویڈیوز میں ہوتے ہیں ان میں سور یا گھوڑے کی۔چربی تو نہیں ہوتی نا ہم وہ استعمال کر سکتے ہیں؟
طوبی کواچانک خیال آیا تو پوچھ بیٹھی۔
ہیں سعدیہ حیران رہ گئ تھئ
ایسا بھی ہوسکتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طویل ترین دن کا اختتام ہوا تھا کھانے کے بعد باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں لگا تھا ۔واپسی پر سب سعدیہ اور فاطمہ کوبس ااسٹاپ تک چھوڑنے آئی تھیں۔ سعدیہ اور فاطمہ بس میں چڑھ گئیں توان سب نے ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہا بس نظروں سے اوجھل ہوگئ۔پھر واپسی کی راہ لی۔ رات کے ساڑھے نو ہو رہے تھے اس وقت بس اسٹاپ پر بالکل رش نہیں تھا ۔وہ سب آرام سے چہل قدمی کر رہی تھیں۔موسم سرد سا تھا۔ خنک سی ہوا جسم میں پھریری سی دوڑا دیتی تھئ۔
یار یہ کیا مزاق ہے یہاں اتنی سردی کیوں ہوگئ ہے ابھی سے۔
الف بھنائی۔ وہ سب دو دو کرکے چل رہی تھیں۔عروج اور واعظہ پیچھے تھیں آگے الف اور عزہ
یار ویسے سعدیہ کتنی سویٹ سی ہے نا؟
عزہ دل سے خوش ہوئی تھی اس سے مل کر باتیں کرکے۔
میں نے اس سے کہا ہے اگلی ویڈیو میں ہم سب کا نام۔لے۔
عزہ نے مڑ کر عروج کو بتایا تو وہ چھیڑنے لگئ
ہاں ساتھ یہ بھی بتائے کیسے الف نے کھولتا ہوا کسٹرڈ کھلا کر اسکا منہ ہی جلا دیا تھا۔
جان کے تھوڑی کیا تھا۔ کب سے تو کسٹرڈ فریج میں رکھا تھا اب وہ اوپر سے جم گیا مگر اندر سے کھولتا ہوا نکلا۔
الف کھسیا سئ گئ تھئ۔ سعدیہ کا چہرہ ایکدم سرخ ہوا تھا
کسٹرڈ کو فورا فریج میں نہیں رکھتے احمق پہلے روم ٹیمپریچر پر ٹھنڈا کرتے ہیں۔ عروج اسے مت دے رہی تھی۔
مجھے کیا پتہ تھا۔الف نے کندھے اچکائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اف اپنے گھر میں جیسے ہی داخل ہوئی اسکا پالتو کتالوسی دوڑتا ہوا آیا تھا اور اسکے قدموں میں لوٹنے لگا۔۔
ہائے لوسی۔۔ اس نے فورا اسکو بانہوں میں بھر لیا تھا۔۔
تھکی تھکئ سی کمرے میں آکر وہ فورا بستر پر دراز ہوئی ۔
اف تھک گئ۔ کتنا بولتی ہیں یہ لڑکیاں مگر مزا آیا اتنے سارے ہم وطنوں اور ہم زبانوں سے مل کر۔
اس نے اپنے موبائل میں ابھی تازہ کھینچی ڈھیروں ڈھیر تصویروں کو اسکرال کرنا شروع کیا۔
پھر اپنی آج کی تصویر انسٹا پر لگا کر عنوان دینے لگی۔
کچھ یادیں ہم کیمرے میں قید نہیں کر پاتے مگر وہ دل میں قید ہو جاتی ہیں اور ہمیشہ ایک مسرت بھرا احساس ہمراہ رہ جاتاہے۔ عزہ ، الف ، واعظہ ، عروج اور طوبی جن سے میری ملاقات تصوراتی رہی مگر دلچسپ بھی۔ یہ احوال وی لاگ کے ذریعے دیکھنے کو نہ سہی مگر بلاگ کی صورت میں آپ سب کو پڑھنے کو مل سکتا ہے۔سو ضرور پڑھیئے گا دیسی کمچی۔
پھر ملیں گے انشا اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد ۔۔۔ جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *