Desi Kimchi Episode 31

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 31

سیونگ رو ہنسا تھا پھر ہنستا چلا گیا تھا۔ وہ غصے میں منہ پھلا کے اسے گھورتی رہی۔
اب اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ اسکا انداز خفگی بھرا تھا۔
وہ دونوں دریا کے کنارے یونہی ٹہلنے چلے آئے تھے۔ قریب ہی کچھ نوجوان بچے گٹار وغیرہ سجائے گانے گانے میں مصروف تھے۔وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر سرجھٹک کر آگے قدم بڑھا دیئے۔ سیونگ رو ہنستے ہنستے چپ ہوا چند لمحے اسے قدم بہ قدم خود سے دور جاتا دیکھتا رہا پھر سر جھٹک کر اسکی جانب بھاگ کر آیا۔
ہم طیش میں آکر اکثر ایسا ردعمل دے ڈالتے ہیں جو ہمیں تو بالکل جائز لگتا ہے مگر کسی دوسرے کیلئے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔اگر ہم بس لمحہ بھر کو اپنے طیش پر قابو پا لیں تو کسی کا بہت نقصان کرنے کی بجائے اپنی بات اسے سمجھا کر اپنا اور اسکا دونوں کا نقصان ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
سیونگ رو کی اس لمبی تقریر پر اس نے حیران ہو کر اسکی شکل دیکھی۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟
اس نے گہری سانس بھری پھر اپنا موبائل نکال کر اس پر انگلیاں چلانے لگا کچھ نکال کر اسکرین اسکے سامنے کردی۔
بین مشیل، بین مشیل وی لاگز، اسٹاپ مسلم فوبیا، مشیل ازایکسٹریمسٹ، بائکاٹ مشیل ۔۔۔۔۔۔۔بیانئے مسلم آگاشی( معاف کردو مسلمان لڑکی)۔۔
وہ اسکرال کرتے کرتے تھکنے لگی۔
کوریا کے سوشل میڈیا پر ٹاپ تھری ٹرینڈز مشیل کے خلاف چل رہے تھے۔ لوگ اس کے خلاف بلاگز لکھ رہے تھے۔ اسکا یو ٹیوب چینل بند ہو چکا تھا۔ وہ ایک ویڈیو میں روتے ہوئے معزرت کر رہی تھئ۔
اس نے موبائل واپس کردیا۔ اب اسکے ساتھ جو بھی ہو اسے دلچسپی نہیں تھئ۔
اتنی چھوٹی سی بات پر پتہ ہے تم نے مشیل کا کیریئر ہی ختم کردیا ہے۔ سیونگ رو نے دھیرے سے کہا تو اسکے تن بدن میں آگ ہی لگ گئ۔چیخ ہی تو پڑی
چھوٹی سئ بات؟ یہ چھوٹی بات ہے مجھے دھوکے سے بلا کر جھوٹی کہانی سنا کر براہ راست میرے چہرے سے نقاب نوچ کر وہ دنیا کو میرا چہرہ دکھانے لگی تھی۔ ؟
تمہارا چہرہ کیا دنیا نہیں دیکھ سکتی؟
سیونگ رو نے سادگی سے سوال کیا۔
وہ جینز او رکرتے کے اوپر ہاسپٹل گائون میں ملبوس سر پر اسکارف اور چہرے پر ماسک پہنے ابھی بھی اپنے روز کے حلیئے میں ہی تھئ۔
میں پردہ کرتی ہوں۔ مکمل شرعی پردہ۔ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو حق نہیں کہ میرا پردہ برباد کرنے کا سوچے بھی۔
اسکا انداز قطعی تھا۔
یہ بات تم نے مشیل کو بتائی تھی؟ اس سے یہ بات کی تھی کہ تم اپنا چہرہ دنیا کو نہیں دکھا سکتیں؟ کیونکہ تمہارا مذہب منع کرتا ہے تمہیں اس سے؟
سیونگ رو رک کر اسکی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔
وہ تیزئ سے کہنے لگی تھی کچھ مگر چپ سی ہوگئی۔
اس نے جب پہلی ملاقات میں چہرہ دکھانے کی۔بات کی تھی تب اس نے صاف منع کیا تھا وجہ نہیں بتائی تھی پھر بھی مشیل کی غلطی ہر طرح سے تھی۔ سیونگ رو کو شائد اپنی ہم وطن کا درد فضول میں اٹھ رہا تھا۔
اسے خاموش دیکھ کر سیونگ رو جانے کیا سمجھا مزید اسے سمجھانے والے انداز میں کہنے لگا۔
تمہاری ویڈیو وائرل ہوئی تھی تو میں نے بھی دیکھی تھی تمہارے عبایا سے تمہیں فورا پہچان لیا تھا۔ وییڈیو کے نیچے کمنٹس میں لوگ مشیل کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے کہ اس نے پیڈ ایکٹریس سے کلپ بنوایا ہے جبھی اتنا مکمل بنا ہے۔ اس کے پاس یہی راستہ تھا کہ تم سے وضاحت دلوادے۔ اب خود سوچو وہ تمہیں آکر یہ کہتی کہ لوگ تمہارے مزاحیہ ردعمل پر چسکا لیتے ہوئے تمہاری حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو کیا تم جاتیں اس کے چینل پر؟ چھے ملینز فالوورز کا اسکا چینل اسکی کمائی کا ذریعہ تھا۔ اس نے غلط بیانی کی مگر تم اسکے گھر اسکے اسٹوڈیو میں کھڑی تھیں اس نے جزباتی پن دکھایا مگر یہ بھی تو دیکھو وہ اور اسکا بوائے فرینڈ دونوں نے تم دونوں کو قطعی کوئی نقصان پہچانے کی کوشش نہیں کی۔تم لوگ اسکا کیمرہ توڑ کر آئیں تھیں۔ اس نے تم دونوں سے نقصان کی بھرپائی تک نہیں مانگی۔۔۔۔
اس سب کئ بجائے اگر تم وہیں اس سے براہ راست وضاحت کردیتیں تو بہتر نہ رہتا ؟
عروج کو یاد آیا تھا اس نے اس ٹرائی پوڈ کو غصے سے دھکا دیا تھا وہ اسکے سامنے پٹاخ سے کیمرہ سمیت زمین پر گرا تھا۔ مشیل آندے کرتی کیمرے کی جانب لپکی تھی تب وہ تن فن کرتی باہر نکل آئی تھی۔ اسکے پیچھے مشیل کے بولنے کی آواز آئی تھی مگر اس نے انکا پیچھا نہیں کیا تھا۔
سیونگ رو کی بات پر اسکی پیشانی تپ اٹھی تھی
تم وہاں موجود نہیں تھے۔ انتہائی بدتمیزی اور جارحانہ انداز میں وہ مجھ پر پل پڑی تھی۔۔ اگر میں اس وقت یہ سب نہ کرتی تو یقینا وہ میرا تماشا بنا چکی ہوتی دنیا میں۔مگر تمہیں وہ غلط نہیں لگ رہی کیونکہ وہ کورین ہے۔ یہ اسکا ملک ہے غلط میں ہوں جو یہاں ہوں ۔ نہ معاشرتی مماثلت ہے ہم میں نہ مذہبی اسکا قدم قدم پر احساس ہوتا ہے مجھے۔ ناحق کوریا آئی نہیں آنا چاہیئے۔تھا۔
وہ دانت کچکچا رہی تھی مٹھیاں بھینچ رہی تھی۔
۔میں نے زندگی میں کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ یہاں کوریا میں مجھے یہ کام بھی کرناپڑا، زندگی میں کبھی ویڈیو نہیں بنوائی یہاں میری ویڈیو بن کر وائرل ہوگئ۔ زندگی میں۔
وہ کہتے کہتے رک گئ۔
فارگیٹ اٹ۔ اس نے سرجھٹکا۔
کیا فائدہ تھا اس تقریر کو جھاڑنے کا۔ سیونگ رو نے ہونٹ بھینچ لیئے۔
کیا میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں؟۔
سیونگ رو کی بات پر اس نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ جواب طلب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ اتنا حیران ہوئی کہ پلک جھپکن ہی بھول گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اور سیہون بھاگے بھاگے پولیس اسٹیشن آئے تھے۔ نور اپنے والد کے ہمراہ پولیس اسٹیشن کے تفتیشئ کمرے میں بیٹھئ تھئ۔ ایک وکیل اسکی ضمانت کی کاروائی مکمل کروا رہا تھا۔ وہ بے چینی سے اسکا انتظار کر رہی تھی۔ کاغذی کاروائئ مکمل کرکے جیسے ہی نور کمرے سے باہر آئی وہ بھاگ کے اس سے لپٹ گئ
بہت بہت مبارک ہو۔
نور کی آنکھیں چھلک اٹھیں۔ وہ واعظہ سے لپٹ کر رو دی۔
نور کے والد ہمراہ تھے سیہون نے آگے بڑھ کر ان سے مصافحہ کیا تو وہ بھی اپنی جھلمل آنکھیں پونچھتے دکھائی دیئے۔ اس نے انکو سہارا دے کر ویٹنگ ایریا میں لگے بنچ پر بٹھایا اور انکے لیئے پانی لینے چلا گیا۔
بس بس اب مت رو۔ واعظہ نے اسکی ہچکی بندھتے دیکھئ تو اپنے سے الگ کرکے ڈانٹنے لگی۔
اتنی ہمت دکھائی اتنے دن اب اچانک کیا ہوگیا ہے۔ حوصلہ کرو انکل بھی پریشان ہو گئے ہیں۔
اسکے ڈپٹنے پر اس نے اپنی آنکھیں پونچھ کر باپ کی جانب دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ چہرے پر تھکن تھی مگر آنکھوں میں اطمینان تھا۔ وہ باپ کے پاس ہی بیٹھ گئ
آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں نا ابو؟
انکے شانے پر سر ٹکا کر وہ رندھی سی آواز میں پوچھ رہی تھی۔
انہوں نے اسکو پیار سے ساتھ لگا لیا اور سر تھپکنے لگے۔
سیہون پانی لیکر آیا تو اکیلا نہیں تھا ساتھ یون بے تھئ۔ ہاتھ میں ایک ٹفن کا ڈبہ پکڑے۔
مبارک ہو نور۔
کس دقت سے اس نے یہ لفظ بولا تھا اسکے چہرے سے نمایاں تھا۔ نور اور واعظہ دونوں کو ہنسی آگئ تھی مگر چھپا گئیں۔ اس نے جھک کر روایتی انداز میں سلام کرتے ہوئے اسے ڈبہ پکڑایا۔
کھمسا۔ نور کو بھئ بس اتنی ہی ہنگل آتی تھی۔
میں نے کہا تھا نا نور۔ہم بے گناہوں کو سزا نہیں دیتے بلکہ تفتیش کے ذریعے اصل مجرم تک پہنچنا ہمارا فرض ہے۔ ہم نے اس لوکل گینگ کو پکڑنے کیلئے اپنی تمام تر مشنری لگا رکھی تھی۔ دو دن قبل غیر قانونی طور پر کشتی کے ذریعے ملزم چین جانے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہم بروقت پہنچ گئے۔ اور جیسے ہی اس نے قبولا اپنا جرم ہم نے تمہارا نام اس سب سے کلیئر کر دیا۔ آزادی مبارک ہو۔
اس نے شستہ ہنگل میں تفصیل سنائی تو جوابا سیہون نے مترجم کے فرائض نبھائے
بہت شکریہ۔ اسکے والد یون بے کا شکریہ ادا کررہے تھے۔
تمہارا تین ہفتوں میں پڑھائی کا کافی حرج ہوگیا ہوگا۔
واعظہ کو خیال آیا تو وہ جیسے چونک اٹھی
بس تین ہفتے؟ مجھے تو لگنے لگا تھا کہ سالوں سے جیل میں ہوں۔
وہ دن رات یاد کرکے پھر آبدیدہ ہو چلی تھی۔
بس اب مت رونا۔ گھر چلو نہائو نماز شکرانہ ادا کرو یہ وقتی مصیبت ختم ہوئی۔ واعظہ نے گھرکا تو وہ سر ہلانے لگی۔
باقی سب کیسی ہیں؟ آئی کیوں نہیں؟
اس نے سوال کیا۔ اس سے قبل کہ واعظہ جواب دے پاتی یون بے نے انکو مخاطب کر لیا۔
یہ کوڑا بنایا ہے میں نے۔ آپ لوگ کھا کر تو بتائیں کیسی بنی ہے؟ دراصل مجھے بہت شوق تھا آپ لوگوں سے رائے لینے کا میرے گھر تو سب کو بہت پسند آئے کوڑا ( ہاں کوڑے والا کوڑا ہی کہا تھا)۔
اسکی بات پر ان دونوں کے منہ کھل سے گئے۔
کیا بنایا ہے؟ نور پوچھے بنا نہ رہ سکی
کوڑا۔کھا کر تو دیکھو وہی ترکیب آزمائی تھی جو وازیہ نے بتائی تھی۔
اس نے جوش سے مسکرا کر کہا توواعظہ سٹپٹا گئ۔
نا کرو۔کس نے کہا تھا کہ میری بتائی ترکیب ہی آزمائو۔
اسکے بڑ بڑانے پر نور نے نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھتے ہوئے ٹفن کھولا ۔
اندر گہرے بھورے رنگ کے گول گول پکوڑے گرم گرم سجے تھے۔
کھائو۔ یون بے مشتاق تھئ
یہ؟ نور متزبزب تھی۔
یہ وہی ہے نا جب ہم تم لوگوں کے گھر گرفتار کرنے آئے تھے تو تم لوگ کھا رہے تھے ہمیں بھی کھلایا تھا۔
لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتا سیہون بھی واعظہ کی شکل دیکھ کر گڑ بڑ کو بھانپ گیا تھا۔
ویجی ٹیرین ہے آلو اور گوبھی اور پالک ہے یہ۔
اس نے وضاحت کی۔ نور نے مدد طلب نگاہوں سے واعظہ کو دیکھا وہ سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
پکوڑے لگ رہے ہیں کھا لو نا نور۔
اسکے ابو نے کہا تو نور نے ڈرتے ڈرتے ایک توڑ کر منہ میں رکھ لیا۔ پالک اور آلو باریک کٹے ہوئے تھے اور گوبھی کا پھول پورا تھا۔ یہ پکوڑا ان تینوں کا تھوڑا تھوڑا ذائقہ دے رہا تھا مگر پکوڑے کا ہی ذائقہ نہیں آیا اسے
کھائو نا تم بھی۔تمہاری بتائی ترکیب ہے۔
یون بے اب واعظہ سے کہہ رہی تھی۔ اس نے بے چارگی سے نور کو دیکھا جو منہ میں پکوڑا بھرے اسے یوں گھور گھور کر چبا رہی تھی جیسے پکوڑے کی جگہ واعظہ اسکے دانتوں تلے ہو۔
تم بھی کھائو بیٹا۔ نور کے ابو نے سیہون اور یون بے کو بھی دعوت دی۔ بھر کے بڑا سا ٹفن تھا۔ ایک انہوں نے بھی چکھنے کیلئے اٹھا لیا تو سیہون اور واعظہ کو بھی اٹھا کے کھانا پڑا۔
پکوڑا پکوڑا ہی تھا واعظہ کی بتائی ترکیب سے ہی بنا تھا بس جب یون بے ان دونوں کو ڈھوںڈ کر پکوڑے کی ترکیب پوچھنے آئی تھی تب واعظہ کو غصہ تو آنا ہی تھا۔ جان نکال دی تھئ اس فالتو ترکیب کے پیچھے۔
یہ کس چیز کا پکوڑا ہے؟ اسکے ابو بھی درست اندازہ نہیں لگا پائے تھے۔
یہ مکئی کے آٹے کا پکوڑا ہے۔ یون بے آئیندہ اسی ترکیب میں بیسن ڈال کر بھی دیکھنا وہ اس سے بھی مزے کا بنے گا۔
نور کی گھورتی نگاہوں سے نظر چرا کر وہ یون بے کو ہدایت دے رہی تھی۔
ہاں ضرور اگلی دفعہ بیسن اور گندم کے آٹے سے بھی بنا کر دیکھوں گئ۔ یون بے پر جوش انداز میں کہتے ہوئے سر ہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی گاڑئ میں اسکے بابا کو ہوٹل میں ڈراپ کرکےسیہون اسے اور واعظہ کو اپارٹمنٹ چھوڑنے آیا تھا۔
آئو کھانا کھا کر جانا ۔ واعظہ دعوت دے رہی تھی مگر وہ سہولت سے انکار کر گیا۔
صبح دفتر جانا ہے تم سہیلیاں تو آج رت جگا منائوگی ہے نا۔
وہ مسکرا کر بولا تو واعظہ بھی نور کو دیکھتے مسکرا کر سر ہلا گئ۔ وہ تیزی سے گاڑی باہر نکال لے گیا۔واعظہ اسکا چھوٹا سا یونیورسٹی بیگ اٹھائے اندر کی جانب بڑھنے کو تھی جب سر اٹھا کر اس وسیع و عریض عمارت کو دیکھتئ نور حسرت بھرے سے انداز میں بولی۔
کچھ بھی نہیں بدلا یہاں ہے نا واعظہ۔
ہاں۔ واعظہ کندھے اچکا کر رہ گئی۔
بس میں بدل گئ ہوں۔
یہ جملہ اس نے منہ ہی منہ میں بدبدا کر کہا تھا۔
چلیں۔ واعظہ اسکا انتظار کررہی تھئ۔
ہم ۔وہ بھاگ کر اسکے ہم قدم ہو لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تو بندہ بیوی کا فرمانبردار بھی نہ ہو۔ سب کچھ لے کر آیا ایک دہی بھول گیا رات کے گیارہ بجے لینے بھیج دیا۔ جیسے صبح ناشتے میں دہی نہیں ہوگا تو ناشتہ حرام ہو جائے گا۔ اب یہاں اس وقت کتنی ٹھنڈ پڑنے لگی ہے۔ دہی کھانا چاہیئے بھلا۔ اتنئ ٹھنڈ میں گلا خراب ہوگا۔
زور و شور سے اپر کا ہڈ چڑھا کر سر پر درست کرتے سرخ ہوتی ناک رگڑ کر وہ بڑ بڑاتے ہوئے دکان میں داخل ہوئے۔
ایک انکا ہی ہم۔عمر چندی آنکھوں والا شخص کائونٹر پر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔
وہ والا دہی لینا جس پر گائے بنی ہوئی ہے بھوری سی اور منہ کھول کر دیکھ رہی ہے کیمرے میں۔
فریج کھولا ہی تھا کندھے کے پاس سے طوبی کا تصوراتی ہیولہ منہ نکال کے بولا۔
پہلے تو انہوں نے دہی کو ہی پہچاننا شروع کیا۔ تکونے کم باپ سے بھرے فریج میں سے عجیب کچی کچی سی مہک بھی اٹھ رہی تھی۔جھک کر اوپر نیچے ٹٹولتے جب انہیں کافی دیر ہو چلی تو یونہی زرا کمر سیدھی کرتے ہوئے جو مڑ کر دیکھا تو انکے پیچھے قطار بنی ہوئی تھی۔ چار پانچ لوگ اپنئ چندی آنکھیں بڑئ کرکے گھور رہے تھے۔ وہ کھسیا کے پیچھے ہوئے۔
آپ لے لیں۔
یہ خیال ہی نہ رہا کہ ہنگل یا انگریزئ میں بولتے ۔ مگر انکی اردو بھی اس چھوٹے سے اٹھارہ انیس سالہ لڑکے کو سمجھ آگئ تھی جبھئ آگے بڑھ کر اپنے لیئے سوجو کی بوتل نکالنے لگا۔
آپکو کیا چاہیئے۔ ؟
وہ اپنی دونوں بوتلیں سنبھال کر اب ان سے پوچھ رہا تھا۔
دہی۔ انہوں نے انگریزئ میں بتایا۔
اس نے ایک لمحہ تو حیران ہو کر گھورا پھر نچلے خانے میں سب سے آگے رکھا دہی کا پیکٹ نکال کر تھمایا۔
یہ نہیں جس پر گائے کی تصویر بنی ہو۔ کیمرے کے ساتھ۔
انہوں نے دہی کا پیکٹ الٹ پلٹ کیا پھر سمجھانے لگے۔
وہ لڑکا اور اسکے گرد دیگر اسکے ہم وطن منہ کھول کر دلاور کو دیکھ رہے تھے جو فلیش بیک میں کھڑے کھڑے جا چکے تھے۔
انکے منمنانے پر کہ اگر گائے کی شکل والا دہی نہ ملا تو؟دوسرا کوئی چلے گا؟
طوبی سمجھانے والے انداز میں بولی
ہوگا تو وہ دہی ہی مگر گائے کی تصویر پر اس لیئے زور دے رہی ہوں کہ گائے بنی ہے تو مطلب گائے کے دودھ سے ہی بنا دہی ہے یہ ثبوت ہوا نا۔ کوریا والے تھوڑی یہ کرتے ہونگے گائے کی تصویر بنا کر اندر سور کے دودھ کا دہی بھر دیں؟
بات میں دم تھا۔ وہ منڈیا ہلانے لگے تھے۔
اس لڑکے نے دہی انکے ہاتھ سے لیکر واپس فریج میں رکھا دروازہ بند کیا اور انہیں گھورتا ہوا کائونٹر کی جانب بڑھ گیا۔
انہوں نے آگے بڑھ کر دوبارہ فریج کے ہینڈل کی جانب ہاتھ بڑھانا چاہا تو قطار میں لگے انکے ہی قریبا ہم عمر نے بہت تمیز سے انکے ہاتھ کو پرے کرتے ہوئے ہینڈل تھام کر فریج کھولا اور مطلوبہ چیز نکالنے لگے۔ یہ ترکیب کارگر رہی قطار میں موجود بقیہ پانچ چھے لوگوں نے بھی آزمائی ۔دلاور صبر سے باری کا انتظار کرتے رہے۔
کائونٹر پر پیمنٹ کرتے اس لڑکے کی یونہی جاتے جاتے نگاہ پڑی تو دلاور کو پھر فریج سے نبرد آزما پایا۔
آہجوشی۔
پکارنے پر سر اٹھا کر دیکھا تو وہی لڑکا گائے کی شکل والا دہی اٹھائے کھڑا تھا۔
یہ لیں۔
وہ خوش ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے
یہ کہاں تھا؟ وہ جھٹ تھام کر پوچھنے لگے۔
اس لڑکے نے فریج کا دروازہ بند کیا اور اسکے بالکل برابر ہی دوسرے قد آدم فریج کئ جانب اشارہ کیا۔
گلاس ڈور سے پورے ریک میں گائے جھانک رہیں تھیں باہر
دلاور کھسیا سے گئے۔ابھی انکی ایک فریج کی تلاش ہی مکمل نہ ہوئی تھئ۔
گھمسامنیدہ۔
انہوں نے جھک کر اسکا شکریہ ادا کرنا چاہا۔کمر سے چٹاخ پٹاخ کی آواز آئی۔ سیدھا ہو کر اس شکریہ کا جواب وصولنا چاہا تو معلوم ہوا راہی تو جا چکا۔ وہ لڑکا تیز تیز قدم اٹھاتا دروازے کی جانب بڑھ چکا تھا۔ وہ کمر سہلاتے کائونٹر کی جانب بڑھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واعظہ موبائل میں لگی تھی۔ اسی نے ہی فلور کا بٹن دبایا لفٹ میں۔۔دروازہ بند ہونے ہی لگا تھا جب خراماں خراماں چلتے دلاور آتے دکھائی دییئے۔
اس نے خیر سگالی انداز میں دروازہ بند نہ ہونے دیا۔ وہ اسے پہچانتے نہیں تھے پھر بھی اس نے سلام۔کر دیا۔ جواب انہوں نے سر کے اشارے سے دیا تھا اور سلام۔طلب نگاہوں سے واعظہ کو دیکھنے لگے۔ مگر اس نے سر اٹھا کے نہ دیا۔
وہ بھی تھوڑا رخ پھیر گئے۔
فلور آتے ہی سب سے پہلے دلاور نکلے تھے۔ ان لڑکیوں سے انکے ستارے جانے کیوں گردش کھانے لگ جاتے تھے کسی بھی بری قسمت سے بچنے کو یہی بہتر تھا کہ ان سے دور رہا جائے۔ یہی سب سوچتے وہ سیدھا اپنے اپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گئے۔ اور جلدی سے اطلاعی گھنٹی بجانے لگے۔
وہ دونوں لڑکیاں اپنے اپارٹمنٹ کے دروازے کی جانب بڑھ گئیں۔
یار کچھ ذیادہ خاموشی نہیں سب سو رہے ہیں کیا۔
دروازہ کھولتے ہوئے نور نے کہا تھا۔ انکی پشت تھی انہوں نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ان لڑکیوں کی خاموشی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔
طوبی ۔۔
وہ دروازہ نہ کھلنے پر جھلا کر پکارنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپارٹمنٹ میں گھپ اندھیرا سا تھا۔
اتنا اندھیرا کیوں ہو رہا ہے ہے جن سو رہا ہے کیا لائونج میں؟
نور نے اندازہ لگایا۔
اندھیرا کچھ ذیادہ ہی تھا سو واعظہ نے ٹارچ آن کردی۔
ہلکی ملگجی روشنی میں وہ آگے بڑھئ راہداری۔ختم ہوتے ہی سامنے کچھ ہیولے سے دکھائی دیئے۔
اس سے قبل کے وہ سمجھ پاتی۔ زور دار پٹاخہ سا بجا جھماکے سے روشنی ہوئی عزہ سوئچ بورڈ کے پاس ہی کھڑی تھئ۔
ویلکم ہوم نور۔
عزہ، عشنا ، فاطمہ، عروج ، الف طوبی سب ہی پرجوش انداز میں چلائیں ان سب کے ہاتھوں میں پارٹی پاپرز تھے اسکے قریب آتے ہیں وہ چمکیلی پنیوں میں نہا سی گئ اسکےچاروں طرف افشان رقص کر رہی تھی۔کوئی غبارے پھاڑ رہی تھی تو کوئی پارٹی پاپرز طوبئ پلیٹ میں پنیوں سے بھری مٹھائی لیئے اسے کھلانے پر تلی تھی تو الف آنسو پونچھتی اسکا ہاتھ تھامے جانے کلائی میں کیا چڑھا رہی تھی۔ اسکی سکھی سہیلیاں خوشی سے جھومتی چیختی اس سے آلپٹی تھیں۔ وہ جو ایسے لمحوں میں ہمیشہ ایک طرف ہو کر وییڈیو بناتی رہتی آج احساس ہوا تھا کہ لمحوں کو اسی وقت جینا ذیادہ خوش کن احساس ہے بہ نسبت گزر جانے والے لمحوں کی یادیں اسکرین پر دیکھتے جانا۔ آج وہ یہ سب اپنے ذہن میں ریکارڈ کر رہی تھی۔ پھول تحفے مسکراہٹیں محبتیں خلوص کی تیز بارش برس رہی تھی اس پر آج وہ اس بارش میں نہا کر خوش ہوئی تھی بہت خوش۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہزا بار سوچا تھا اب نہیں دہلنا کچھ ہو جائے چیخیں دھماکا بم ہی پھٹ جائے وہ حواس بحال رکھیں گے۔ آج کامیاب بھی رہے۔ حسب توقع اس خاموشی کا شور و غل بے ہنگم دھماکوں کی گونج سے اختتام ہوا تھا۔
زرا سا فطری طور پر ہی چونکے پھر سر جھٹک کر مبارکباد دئ خود کو
دل کر رہا تھا زور زور سے چلائیں وہ بھی I survived
اپنی بچکانہ سوچ سے محظوظ ہوتے دروازے کے کھلتے ہی خوشی خوشی اندر داخل ہوئے۔یہ انکی بڑی بیٹی تھی جو دروازہ کھول کر انکو اندر آنے کا راستہ دیتی ایک طرف ہو گئ ۔مگر انکی ایک ہی بیٹی تھوڑی تھی بس۔ دوسری بھی آس پاس ہی تھی جسکو انہوں نے دیکھا ہی نہیں۔ بابا کہتی ٹانگ سے لپٹی۔وہ جو اپنی جھونک میں سیدھے اندر چلے آئے بیٹی کو ہی پائوں تلے دینے لگے تھے۔
اوہ اوہ۔ بمشکل دیوار کا سہارا لیکر انہوں اسے بچایا تھا دونوں ہاتھوں سےاوپن کچن کے کائونٹر سلیب کو تھام کر ایک اور چوٹ لگنے سے خود کو اور بچی کو بچالیا۔
مگر دونوں ہاتھ سنگئ دیوار پر تھے تو جو ہاتھ میں تھا وہ کہاں گیا۔
بابا سارا دہی گر گیا اب امی ڈانٹیں گی۔
بیٹی کی آواز پر جو مڑ کر زمین پر دیکھا تو ہزار جوکھم اٹھا کر لایا گیا دہی کا پیکٹ زمین بوس ہو کرپھٹ چکا تھا۔۔۔
آہش۔
جی بالکل کورین آہجوشی کی طرح ہی بولے تھے دلاور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختتام۔۔۔
جاری ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *