Desi Kimchi Episode 37

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 37
اسکے تیسری دستک دینے پر دروازہ کھلا تھا۔جون کی نگاہوں میں اسے دیکھ کر خاص قسم کی چمک آگئ تھی جیسے شکاری کو اپنا شکار دیکھائی دے گیا ہو۔
ہاں پیسے لے آئے۔۔
تیجون نے سر ہلایا تو اسے اندر آنے کا اشارہ کرتا جون پلٹ گیا۔ جام بنائے یقینا اپنے اپارٹمنٹ میں جون اس وقت تنہا تھا۔
ایک کمرے کا فلیٹ جسکے لائونج میں کائوچ پر لیپ ٹاپ چپس کے پیکٹ اور۔شراب کے خالی۔کین پڑے تھے۔ سامنے میز پر انسٹنٹ نوڈلز کا بھرا پیالہ اور کئی کین شراب کے پڑے تھے۔اسے دیکھ کر عجیب سے انداز میں مسکراتا وہ صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔ نوڈلز کا بائول اٹھا کر اطمینان سے کھاتے ہوئے وہ گہری نگاہوں سے تیجون کو دیکھ رہا تھا۔
یہ پیسے۔
تیجون نے جیب سے لفافہ نکال کر اسے دینا چاہا۔ اس نے پیسے تھامنے کیلئے ہاتھ بڑھایا ہی نہیں۔
تمہیں پتہ ہے تمہیں میں نے اندر کیوں بلایا؟
اس نے خود ہی یہ پزل حل کرنا چاہا۔
اسے اندر بلانے کا مقصد اسے سمجھ نہ آیا تھا سو چپ چاپ دیکھتا رہا
وہ دیکھو۔ چاپ اسٹکس سے اس نے سامنے دیوار پر لگی ایل ای ڈی کی جانب اشارہ۔ کیا۔
اس نے رخ پھیرا تو ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ سی دوڑ گئ
اسکی اور اسکی گرل فرینڈ کی کرائوکے بار میں خفیہ بنائی گئ ویڈیو اس وقت چل رہی تھی۔
اس سے بچکانہ ویڈیو آج تک نہیں دیکھی میں نے۔
وہ۔ہنس رہا تھا۔
اس کے تو پیسے مانگتے شرم بھی آرہی ہے مجھے مگر دیکھو ہم نے ڈسکائونٹ دیا ہے۔تمہیں۔وہ شرارت بولا
کیونکہ چھوٹے بچوں کی ویڈیو بڑے مسلئے پیدا کر سکتی ہے لہذا حسب وعدہ یہ لو۔۔۔
اس نے ایل ای ڈی سے منسلک اپنے لیپ ٹاپ پر اس ویڈیو کو کٹ پیسٹ کرکے یو ایس بی میں منتقل کیا۔۔
ہم بے ایمانی کا کام ایمانداری سے کرتے ہیں۔
یو ایس بی اسے تھماتے ہوئے اس کو معمولی سا بھی تیجون کی مزاحمت کا خوف نہیں تھا۔
ویسے اتنے پیسے ہائی اسکولر کے پاس آئے کہاں سے؟ ماں کا زیور چرایا ہے ؟
وہ مزاق اڑا رہا تھا۔
تیجون نے یو ایس بی ہاتھ میں پکڑنی چاہی مگر انگلیاں کانپ رہی تھیں۔یو ایس بی اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر میز پر جا گری۔ جون ہاتھ سے لفافہ لیکر وہ اطمینان سے صوفے پر بیٹھ کر نوٹ گننے لگا تھا چونکا۔۔ پھر ہنسا
ارے۔
بیان۔
تیجون نے گھبرائے ہوئے انداز میں معزرت کی اور میز پر سے یو ایس بی اٹھاکر الٹے پیر جانے لگا۔
آننیانگ۔
اس نے پیچھے سے آواز لگائی تھی۔مگر تیجون نے مڑ کر نہیں دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آکر اس نے سب سے پہلے اپنی گرل فرینڈ کو فون کیا تھا۔
میں لے آیا ہوں اب فکر کی کوئی بات نہیں۔
وہ اسے تسلی دینا چاہ رہا تھا۔
انکے پاس کاپی ہوگی وہ اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ تم نے انکی منت کرنی تھی۔ہمارے پاس روز روز اتنے پیسے نہیں آسکتے۔ آج میری آہموجی اپنا بریسلٹ ڈھونڈتی رہی ہیں۔ میں بہت پریشان ہوں تیجون۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
پریشان مت ہو انکے انداز سے لگ نہیں رہا تھا کہ وہ مزید ہمیں تنگ کریں گے۔
تیجون نے تسلی دینی چاہی جوابا وہ چیخ اٹھی
تم اٹھائئ گیروں بدمعاشوں پر کیسے بھروسہ کر سکتے ہو۔
اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ انکے پاس اس ویڈیو کی کوئی کاپی نہیں ہوگئ یا وہ ہمیں دوبارہ۔
اس نے خوف کے مارے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔۔۔
تیجون نے جیب سے یو ایس بی نکال لی۔
اس نے میرے سامنے کاپی نہیں ویڈیو کٹ کی تھی۔یو ایس بی میرے پاس۔۔
وہ۔کہتے کہتے رک سا گیا۔
جو یو ایس بی اس نے تھمائی تھی وہ بالکل کالی تھی۔ اس یو ایس بی پر لال نشان لگا ہوا تھا۔
میں بعد میں بات کرتا ہوں۔
اس نے فون ایک طرف رکھا پھردوڑ کر اپنی اسٹڈی ٹیبل پر رکھے اپنے لیپ ٹاپ میں یو ایس بی لگا کر دیکھنے لگا۔
وہ یو ایس بی واقعی مختلف تھی۔
اس میں جو مواد تھا وہ کسی کی خفیہ بنائی گئ ویڈیو نہیں تھی بلکہ دن دیہاڑے اسی جیسے کسی اور ہائی اسکولر کو پیٹ کر اس پرغلاظت ڈال کر تماشا بنانے کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر موسم ابر آلود ہو چکا تھا۔موٹے چیک والے سوئٹر مفلراور دستانوں میں ملفوف ہو کر وہ نکلے تھے۔
آہجوشی سوچ لیں ایک بار پھر۔
تیجون منمنایا۔ انکے موٹے اپر میں وہ کہیں بیچ میں ہی کھو گیا تھا۔ دبلا پتلا منحنی سا تیجون ۔۔انہوں نے لمحہ بھر رک کر اسے دیکھا۔ خاور ہی لگا تھا انکو ایک پل کیلئے۔ خاور انکا منا سا چھوٹا بھائی۔ حالانکہ خاور کے لانبے چہرے پر موٹی موٹی آنکھیں تھیں رنگ بھی سانولا سا تھا ڈیل ڈول میں تیجون سے کہیں بڑا صحت مند تھا مگر۔۔۔۔
انہیں رکتے دیکھ کر تیجون بھی رک سا گیا تھا۔یقینا وہ جزباتی ہوکر اسکے ساتھ نکل آئے تھے اب سوچ رہے تھے۔ ایک ٹک اسے دیکھتے صاف لگتا تھا زہن کہیں اور ہی ہے۔
ماتھے پر سات ٹانکے پٹی نیلوں نیل گال وہ غصے میں کھول۔گئے تھے اپنےبھائی کی حالت دیکھ کر
کس سے لڑ کے آئے ہو ؟
وہ دھاڑے تھے۔
وہ بھائی ادھر وہ۔۔
اس سے جواب نہیں بن پڑا تھا بھائی کے غصے سے وہ پہلے ہی ڈرتا تھا
کتنی دفعہ کہا ہے اپنی چوہدراہٹ گھر چھوڑ کر نکلا کرو۔
تمہاری یہ حالت ہے تو جسے پیٹ کر آئے ہو اسکا کیا حال کیا ہے؟
انکے سوال پر خاور نے سر مزید جھکا لیا تھا۔
آئیندہ ایسی شکل بنوا کر میرے سامنے مت آنا ورنہ مزید شکل بگاڑ دوں گا سمجھے۔
انہوں نے اسے زخمی دیکھ کر ہلکا ہاتھ رکھا تھا۔۔
انکے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ انکا صحت مند جوان کڑیل بھائی کسی کو پیٹ کر نہیں بلکہ کسی کی غنڈہ گردی کا شکار ہوا ہے۔
اور جب یقین آیا تب۔۔۔
آہجوشی۔ تیجون نے دھیرے سے پکارا۔
ہوں۔ وہ کسی خیال سے چونکے۔
پھر آگے بڑھ کر اسکی گردن میں لپٹے اسکارف کو مزید ٹھیک کرنے لگے۔
یہ جو بلیک میلر ہوتے ہیں انکی ساری بہادری بس وہاں تک ہوتی ہے جہاں تک انکو مقابل خوفزدہ نظر آتا ہے۔ انکا ڈٹ کر سامنا کرو۔۔ احمق۔
آپ میرے والدین کو نہیں جانتے۔ وہ کبھی میرا یقین نہیں کریں گے۔
تیجون نے سر جھکا لیا۔
ان سے ہم بعد میں بات کریں گے فی الحال یہ بتائو کہاں ملے گاوہ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انہیں اس کلب میں لیکر آیا تھا۔ ایک کونے میں نشست سنبھال کر وہ بیٹھ گئے۔تیجون ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ میں وہ داخل ہوا تھا۔ فیڈذ جینز پھلتروں والی کالی لیدر کی جیکٹ کانوں میں آویزے سر پر گھنے بال جنکو بینڈ سے جکڑ رکھا تھا۔ایک ڈریگن ٹیٹو گردن پر اور ہونٹوں پر چھلا چپکائے لوفر انہ مسکراہٹ تھوڑی پر داڑھی سے الگ نقش نگار بنائے تھے حلیئے سے وہ کہیں سے یونیورسٹی کا طالب علم نہیں لگ رہا تھا۔
وہ سیدھا تیجون کے پاس آیا تھا۔
ہاں بھئی مینڈک یو ایس بی لائے ہو؟
تیجون نے ہونٹ بھینچ کر جیب سے یو ایس بی نکال کر سامنے رکھ دی۔
جیسے ہی اس لڑکے نے یو ایس بی اٹھانےکو ہاتھ بڑھایا تیجون نے یو ایس بی پر ہاتھ رکھ کر اسے روک دیا۔
میری جو ویڈیو بنائی تھی مجھے وہ ڈیلیٹ کرو پہلے۔
تیجون کے مطالبے پر اس نے منہ بنایا پھر جیب سے اپنا موبائل نکالا اسکی ویڈیو نکال کر اسے دکھاتے ہوئے ڈیلیٹ کا بٹن دباتے دباتے ہاتھ پیچھے کر لیا
پہلے اپنے موبائل میں اسکو لگا کر مجھے دکھائو کہ یہ یو ایس بی اسی ڈیٹا سے بھری ہے بھی کہ نہیں جو مجھے درکار ہے۔
اس نے یقینا کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔
تیجون کا حلق خشک سا ہونے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیول کی دوپہریں خاموش تو نہیں ہوتیں مگر اس ہائی اسکول کی عقبی تنگ گلی میں اوندھے منہ پڑے تیجون کو صرف اس دنیا میں اپنے تیز تنفس کی آواز کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اسکی ناک پر پڑنے والا مکا کافی زوردار تھا کہ اسکی ناک سے خون جاری ہو چکا تھا مگر ٹھڈوں لاتوں سے پیٹ میں اس سے کہیں ذیا دہ تکلیف ہو رہی۔تھی۔
میرے پ پاس سچ مچ یو ایس بی نہیں ہے۔ سن بے میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔
اس نے کوئی دسویں بار اپنی بات دہرائی مگروہ یقین کرنے کو تیار نہ تھے۔
وہ دونوں ان سے دو تین سال سنیئر تھے۔ انکی بدمعاشی غنڈہ گردی سے انکے اسکول سے پاس آئوٹ ہو جانے کے باوجود بھی جان نہیں چھٹ سکی تھی انہوں نے جانے آگے کہیں داخلہ لیا بھی تھا کہ نہیں مگر جس باقاعدگی سے اسکول آنا جانا تھا اس سے یہی لگتا تھا کہ۔انکے پاس کرنے کو مزید کوئی کام نہیں۔
اتنا پٹنے کے بعد بھئ جھوٹ بولے جا رہا ہے سالا۔
جون سن بے نے پھر ایک لات جما دی تھی اسے۔ وہ کراہ کر رہ گیا۔
اب اسکی ویڈیو اپلوڈ کرنی ہی پڑے گی۔
مائک نے دھمکاتے ہوئے جیب سے موبائل نکالا

آندے۔وہ چیخ کر سیدھا ہوا تھا۔
کیوں ڈر لگ گیا؟ چوزے کو؟
جون نے آگے بڑھ کر اسکا چہرہ پکڑ کر سیدھا کیا۔
تو منے پھر اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری اور تمہاری گرل فرینڈ کی ویڈیو کل ٹرینڈنگ پر نہ آئے تو کل تک ہر قیمت پر وہ یوایس بی ہمیں واپس لا دینا ۔۔ورنہ۔۔۔
اسکے لہجے اور نگاہوں میں کسی طرح کی رعائت نہیں تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یقینا طوبی تھی۔ انہوں نے اسکو دو عبایا والی لڑکیوں کے ساتھ اندر داخل ہوتے دیکھا تو ہاتھوں سے طوطے اڑ گیے۔
طوبی یہاں۔وہ۔فورا سے پیشتر میز کے نیچے چھپ بیٹھے۔
تیجون نے خشک ہوتے گلے کے ساتھ گردن ہلکے سے موڑ کر دلاور کو دیکھنا چاہا مگر وہ اسے کہیں نہیں نظر آئے
بے وقوف سمجھا ہوا ہے مجھے۔
جون نے بنا لحاظ اسکا سربالوں سے اٹھا کر میز پرمارا۔۔
چھناکے سے گلاس میز سے اچھل کر نیچے گرا تھا۔
اس نے تیجون کو کالر سے پکڑ کرکھینچا اور گھسیٹ کر باہر لے جانے لگا۔
تیجون کو اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔
کلب سے باہر نکل کر وہ اسے دائیں جانب تنگ سی سنسان گلی میں لے آیا تھا۔
ایک مکا دومکے۔ تین۔
اسکا سر گھوم گیا تھا ناک سے خون بہہ نکلا تھا مزید کوئی گنتی یاد نہ رہی۔
تبھی جون کا سر آکر اسکے کندھے پر لگا۔وہ بے دم سا ہو کر گرنے کو۔تھا جب کسی مہربان ہاتھ نے اسے تھام لیا تھا۔
اس نے سر اٹھا کر دیکھا تودلاور مسکرا دیئے۔۔
معزرت تھوڑی سی دیر ہوگئ مجھے آنے میں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لڑکھڑاتے قدموں سے کائونٹر پر پہنچ کر طوبی نے زور دار آواز میں گرج کر کہا
یہ شربت کھانسی کا۔۔ میرے بچوں کو شراب۔
نہیں یہ کھانسی کا شربت بچوں کیلئےہوتا۔۔ مجھے کھانسی
وہ کائونٹرکا سہارا لیئے ہونق ہوئے ویٹر سے مخاطب تھی۔ وہ ہکا بکا اسکی باتوں کا مفہوم سمجھنے میں لگا تھا
دے؟؟؟
چھے سو نگییو۔
عزہ اور نور نےبھاگ کر آکر طوبئ کو پکڑا۔۔
کہاں لے جا رہی ہو مجھے۔
رخصتئ ہو رہی ہے کیا میری؟ طوبی ہنسی۔ عزہ اور نور اسے پکڑ کر زبردستی باہر لے جانے لگیں۔ کلب سے باہر نکل کر اسے زور دار الٹی آئی تھی۔
اف۔۔ دونوں کا سر گھوم سا گیا۔ عین داخلی دروازے پر الٹی کی۔تھئ۔ اندر آنے والوں کا منہ بننے لگا۔
چھے سو ہمبندا۔۔
دونوں جھک جھک کر معزرت کرتی اسے باہر تازہ ہوا میں لائیں۔ اس وقت مارکیٹ میں رش نہیں تھا وہ سامنے کنونیئس اسٹور کے باہر لگی میز کرسیوں پر اسے لابٹھایا۔
اف انکو تو چڑھ گئ ہے۔۔ عزہ نے جیسے انکشاف کیا۔
بڑی نئی بات بتائئ۔ نور چڑی
مگر ہم نے بھئ تو پی تھی ہمیں تو نہیں چڑھئ اوپر سے خالص الکوحل نہیں تھی یہ ۔۔۔۔
عزہ کھسیائی۔۔مگر اسکی بات میں دم تھا۔
یہ ہم دونوں نے چکھی تھی بس جبکہ طوبی پوری پی گئ تھیں۔ دوسرا بی بی آپ بار میں تھیں کیا معلوم انہوں نے کس تناسب سے الکوحل ڈالی ہوگی ۔ یہ لوگ تو اتنی اتنی پینے کے عادی ہوتے ہیں انکے لیئے اس طرح کی شراب صرف زرا سا جھومنے پر مجبور کر دیتی ہوگی جبکہ ہم نے تو آج تک کبھی زبان پر نہ رکھی ہمارے تو حوا س گم کرنے کو کافی ہے۔
نور نے تفصیل سے کہا تو عزہ نے سر ہلایا۔ طوبی میز پر بازو لمبا کیئے سر بازو پر رکھے بڑ بڑا رہی تھئ۔
مجھے اتنی جلدی رخصت کردیا ۔ اتنا لمبا سفر۔ گھر نہیں آیا۔
سسکی۔
مجھے بھوک لگ رہی۔۔
عزہ نے آگے بڑھ کر طوبی کو دیکھا تو آنسو ایک تواتر سے اسکی آنکھوں سے نکل رہے تھے۔
میں اکیلی اتنا بڑا گھر اکیلا امی مجھے ڈر لگ رہا۔۔۔۔۔
طوبئ کے جملے پر عزہ سر اٹھا کر نور کو دیکھنے لگی۔
میں کوئی دوا پتہ کرتی ہوں۔ نور اسٹور کے اندر گھس گئ
عزہ طوبی کے مقابل بیٹھ گئ۔ طوبی نے زرا سا چونک کر سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر سرگوشی کے انداز میں منہ بسور کر کہنے لگی۔
مجھے پراٹھا بنانا آتا ہے پر۔۔۔ سسکی
مجھ سے مٹئ کے چولہے پر روٹی نہیں بنتی۔
آنٹی ڈانٹتئ ہیں مجھے کام نہیں آتا
دلاور بھی ڈانٹتے۔۔۔ مجھ سے غلطی ہوجاتی ہے۔ پر
اس نے کہتے ہوئے آنکھیں رگڑ یں۔ پر
مجھے شہر جانا ہے امی بابا کے پاس۔
اس وقت طوبی اسے معصوم چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی ہونٹ لٹکا کر روتے اسے خیال آیا تو جیسے چونک سی گئی
مگر بابا تو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی کے اپارٹمنٹ میں لانگ صوفے پر بیٹھے وہ اسکے موبائل اور لیپ ٹاپ کو فارمیٹ کررہے تھے۔سنگل صوفے پر بیٹھے جون نے سر اٹھا کر انکو دیکھا پھر ہونٹ بھینچ کر رخ پھیر لیا۔
تیجون ان تینوں کیلئے کافی بنا کر لایا تھا۔ جون کے سامنے کپ رکھ کر وہ دلاور کے ساتھ بیٹھ کر چسکیاں لینےلگا۔
یہ اپارٹمنٹ کس کا ہے؟
انہوں نے سرسری سے انداز میں پوچھا مگر جب جون نے جواب نہیں دیا۔تو ترچھی نگاہ سے اسے دیکھا
ہم تین دوست مل کر رہتے ہیں
وہ دھیمے انداز میں بولا
تیجون کو اسے دیکھ کر چڑ آئی۔ اس کے سامنے کیسے ہیرو بن رہا تھا اب بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے۔
اورکون کون شامل یا تم لوگ کس حد تک۔جاتے ہو مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مگر آج کے بعد تیجون کو تمہاری جانب سے معمولی سا بھی گزند پہنچا تو تمہارا اعتراف جرم میرے فون میں محفوظ یے اور یہ یو ایس بی۔۔
انہوں نے یو ایس بی اٹھا کر اسکی نگاہوں کے سامنے لہرائی۔
یہ پہلے ضرور خالی تھی مگر اب اس میں میں نے تمام ڈیٹا کاپی کر لیا ہے۔ یہ دونوں چیزیں تمہیں جیل کی سیر کروانے کیلئے کافی ثبوت ہیں۔سمجھ آئی۔ ؟
وہ اسکی آنکھوں میں جھانک رہے تھے۔ اس نے سر جھکالیا
دے۔ جون کی منحنی سی آواز۔
تین دوست ۔ باقی دونوں کہاں ہیں؟
دلاور نے کہا تو وہ سر جھکا گیا۔
یونیورسٹی گئے ہیں۔
یہ ہائی اسکولرز کو ہی بس بلیک میل کرتےہو یا کوئی بڑی آسامی بھی بھی شکار کرتے ہو؟
دلاور کو لیپ ٹاپ وغیرہ سے اندازہ ہو تو گیا تھا
ہم بس بچوں کو ہم خود طالب علم ہیں ہم کوئی بڑا غلط کام نہیں کرتے۔تیجون کے علاوہ اور کسی کی ایسی ویڈیو نہیں ہمارے پاس۔
گھگھیاتا ہوا صفائی پیش کرتا یہ جون اس جون سے کہیں مختلف تھا جو ابھی کل تک اسے ٹھڈے مار رہا تھا۔ تئجون کو اس سے کراہیئت محسوس ہوئی۔
کوئی بڑا غلط کام ۔۔۔۔
دلاور استہزائیہ ہنس پڑے۔
تم تینوں پر تعلیمی سلسلہ بند ہو سکتا ہے کیریئر برباد ہو سکتا ہے یہ چھوٹا غلط کام جو دھڑلے سے کر رہے ہو تم لوگ۔ کوئی اندازہ ہے اس وقت اگر تیجون پولیس کے پاس جائے تو تم
چھے سو نگئےہو۔( میں معزرت خواہ ہوں)
جون ایکدم سے انکے آگے دو زانو بیٹھ کر رونےلگا۔
مجھے یونیورسٹی فیس کیلئے رقم چاہیئے تھی۔ تین پارٹ ٹائم جابز کے باوجود میرے پاس اتنے پیسے کم
وہ بات مکمل نہ کرسکا۔
بیانیئے۔ آہجوشی
میرا مستقبل تباہ ہو۔جائے گا پلیز۔
اسکے یوں ہچکیاں لیکر رونے پر اسکے کانوں سے لٹکتے آویزے زور زور سے جھول رہے تھے۔ پسینے کی دھاریں اسکی۔گردن پر بہہ رہی۔تھیں۔ سیمی پرممنٹ ٹیٹو گیلا ہو کر۔داغ چھوڑ رہا تھا۔
تو یہ۔تھا وہ خطرناک۔حلیہ۔ ہونٹوں کا چھلا وہ جانے کہاں گرا آیا تھا اب کانپتے لبوں سے معزرت خواہانہ الفاظ۔
دلاور نے تیجون کواسکا لفافہ تھماتےہوئے نکلنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔وہ چند لمحوں بعد باہر آئے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں صرف اٹھارہ سال کی تھی۔ ابھی تو میرے انٹر کے امتحان کا نتیجہ آنا تھا مجھے بی اے کرنا تھا کہ ۔۔
طوبی نے جیسے سسکی لی۔
پتہ ہے عزہ ہم بہت خوشحال نہ سہی مگر میرے گھر میں ہر سہولت موجود تھی ہم شہر میں رہتے تھے ۔ایکدم سے گائوں پہنچی تو جیسے بیس سال پیچھے کے دور میں چلی گئ۔ مہینوں لگے بولی سمجھنے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور
وہ بے دردی سے آنکھیں پونچھ رہی تھی۔
سالوں لگے لوگوں کو سمجھنے میں۔۔۔دلاور خفا ہیں خوش ہیں مجھ سے سمجھ ہی نہیں آتا تھا۔ ایک نگاہ بس ایک نگاہ اٹھتی تھی میری جانب اس سے سو مفہوم نکالتی پھر بھی غلطی ہو ہی جاتی تھئ۔احمق اتنا کہا گیا مجھے کہ اپنا نام ہی احمق لگنے لگا تھا مجھے۔۔۔طوبی احمق۔۔ احمق طوبی۔۔۔
وہ ہنسنا چاہ رہی تھی مگر رو دی۔ اسکو دیکھتے عزہ کو سمجھ نہ آیا کیا کہے کیا کرے۔۔
میں اٹھا رہ سال کی تھی یار کتنا میچیور سمجھدار ہوسکتی تھی؟ ۔ زندگی میں اسکول کالج کے سوا کیا دنیا دیکھی ہوگی مگرسسرال نے دنیا کے ایسے ایسے رنگ دیکھائے کہ۔۔ پتہ ہے۔
وہ جانے کیا بتانے لگی تھی۔ نور اسٹور سےنکل آئی۔ طوبی کھٹکے پر چپ سی ہوئی۔۔ عزہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا اسے کیا کہے۔ اس نے طوبی کے دونوں ہاتھ تھام لیئے۔ طوبئ نے نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر سرگوشیاںہ انداز میں بولی۔
پتہ ہے ہر کھٹکے پر اتنا ڈر لگتا تھا مجھے۔ لگتا تھا ابھی کوئی اپنے کمرے سے نکلے گا اور مجھے برا بھلا کہنے لگے گا۔ دلاورگھر آتے تھے تو میں خوف کے مارے۔۔
نور نے اشارے سے عزہ سے پوچھا کیا چل رہا اس نے کندھے اچکا دیئے۔ تبھی سامنے اندھیرے میں مدغم ہوتے سائے پر نگاہ پڑی۔
طوبئ چلیں گھر چلتے ہیں۔۔رات ہوگئ ہے۔۔ نور نے ہینگ اوورڈرنک لا کر سامنے رکھا تو عزہ اسکی پشت پر اس سائے کو دیکھ کر گڑبڑا کر بولی۔
مجھے اپنے گھر جانا ہے۔ میں تھک گئ ہوں عزہ۔
طوبی نے سر میز پر ٹکا دیا۔
کوئی مجھ سے خوش نہیں ہوتا۔ میں کسی کو خوش نہیں رکھ پاتی۔ صرف ایک خاور تھا جو میرے آگے پیچھے پھرتا تھا۔
میرے لیئے لڑ پڑتا تھا اپنی امی سے بہنوں سے۔ اور انہوں نے اسے بھی مجھ سے دور کردیا۔ کہتی تھیں وہ میرا چھوٹا بھائی نہیں دیور ہے۔ مگر میں تو اسے چھوٹا بھائی سمجھتی تھی۔۔
پتہ ہے۔ وہ ایکدم سے سر اٹھا کر بولی
میرا چھوٹا بھائی بھی ہے۔ شادی سے پہلے صرف میرے قابو آتا تھا۔ اسکو تو میں پڑھاتی تھی آپی آپی کہتا میرے پیچھے پیچھے پھرتا تھا۔کسی نے نہیں سوچا وہ میرے بعد کس کے قابو آئے گا۔ اس نے پڑھائئ ادھوری چھوڑ دئ۔۔کتنا روئی میں کسی کو نہیں پتہ۔۔۔۔۔۔ میں مہینوں اسے یاد کرکے روتی تھی جب گھر جاتی تو میلوں فاصلے ہمارے درمیان آگئے تھے۔ اب اسکوبھئ شائد آپی کی ضرورت نہیں رہی ۔۔جیسے ہے جن کو نہیں رہی۔ میں جس سے پیار کرتی وہ مجھ سے دور ہوجاتاہے۔ عزہ۔
وہ بازوئوں میں چہرہ چھپاگئ۔
وہ سایہ قریب آیا۔ نور اور عزہ ساکت سی رہ گئیں۔
کم از کم اس وقت جب طوبی کی یہ حالت تھی اس کو یہاں نہیں ہونا چاہیئے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو اپنے اپنے بستر میں گھس کر بھی ان سب کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔
عروج سٹر پٹر کرتی پھر رہی اپنے چہرے کی سیوا میں مگن تھی۔ جانے کون سا ماسک لوشن منہ پر بھر بھر کر لگاتے آئینے میں گھسی جا رہی تھی۔ الف اپنے بیڈ پر ان سے رخ موڑے لیٹی جانے جاگ رہی تھی یا سو رہی تھی ۔ عزہ اور نور دونوں ڈبل بیڈ پر چت لیٹی چھت گھور رہی تھیں۔
یار آج مجھے بہت دکھ ہوا۔ کتنی مشکل زندگی گزاری ہے طوبی نے۔ گائوں کی زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے۔
نور نے کہا تو عزہ نے بھی تائیدی انداز میں سر ہلایا۔
کتنی مشکل ہوتی ہے کیا بات ہوئی مجھے بھی بتائو۔
عروج رخ موڑ کر پوچھنے لگی ۔تو نور اٹھ کر بیٹھ گئ۔
پتہ ہے طوبی اتنی بڑی نہیں ہیں انکی اٹھارہ سال کی عمر میں ہی شادی ہو گئ تھی۔ وہ بھی گائوں میں۔ اتنی مشکلیں سہیں اتنے سنگ دل اور کٹھور سسرال والے تھے انکے۔ اوپر سے دلاور بھائی غصے والے تھے اب جا کے انکا غصہ کم ہوا ہے اتنے سالوں بعد ورنہ طوبی کی جان نکال کے رکھتے تھے اتنا ڈانٹتے تھے طوبی کو اور جب وہ روتی تھیں تو اور غصہ کرتے تھے۔
اچھا؟ عروج کو حیرانی ہوئی۔
ایسے لگتے تو نہیں۔ ہم نے کتنی کتنی درگت بنائی ہے انکی۔
وہ بے چارے تو سیدھے سے لگتے ہیں۔
ہاں تو اب اتنے غصے والے نہیں رہے نا۔ انکا غصہ تب کم ہوا جب انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو مارا اور وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ آج تک نہیں پتہ وہ کہاں ہے۔
عزہ بھی جوش میں اٹھ بیٹھی۔
ہیں؟ کیا ؟
عروج تجسس میں سب چھوڑ چھاڑ انکے پاس چلی آئی
کس نے بتایا یہ سب تم لوگوں کو؟
آج ہم جب باہر گئے نا تو غلطی سے طوبی نے الکوحل والی ڈرنک پی لی انکو تو چڑھ گئ۔ میں اور عزہ انکو اتنی مشکل سے باہر لیکر آئے تو انہوں نے رونا شروع کردیا۔ پہلے تو وہ اپنی رخصتی والے دن میں پہنچ گئیں پھر انکو جو ایک ایک دن اپنے سسرال میں گزرا یاد آنا شروع ہوا۔ قسم سے اتنی مشکل سے ضبط کیا میں نے دل کر رہا تھا انکے ساتھ بیٹھ کر رونا شروع کردوں۔
نور واقعی دکھی تھئ۔ عزہ بھی اداس سی شکل۔بنائے بیٹھی تھی۔
یار عروج انسان کی یادداشت پیچھے کو چلی۔جاتی ہے جب وہ شراب پیتاہے ؟ نور نے پوچھا تو عروج اسے گھور کر رہ گئ
مجھے کیا پتہ میں کوئی الکوحلک ہوں؟ ویسے بھی سب کی عجیب عجیب الگ عادتیں ہوتی ہیں پی کے ٹن ہونے کے بعد سب اپنی مرضی کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
عروج نے تفصیل سے پھر بھی بتا دیا۔
وہی۔ نور نے منہ۔لٹکا لیا۔
اچھا یہ۔بتائو یہ دلاور بھائی کے بھائی والی کیا بات تھی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طوبی آپ سو گئیں؟
عزہ نے تھوک نگلتے ہوئے اسکا کندھا ہلایا۔ طوبی ایکدم سے سیدھی ہوبیٹھی۔ اپنے کوٹ کی آستین چڑھا نے لگی۔
نہیں میں نہیں سوئئ سب کام کر لیئے میں نے اور جل۔بھی گئ۔
وہ جیسے ڈر کر اٹھی تھئ۔
طوبی میں عزہ ہوں۔
عزہ نے لاچار سا ہو کر اسکا بازو ہلایا تو وہ چند لمحے خالی خالی نگاہوں سے دیکھتی رہی پھر۔ سر ہلانے لگی۔
ہاں ہاں۔ عزہ یہ یہ۔ نشان۔ دیکھو۔ اس نے بازو پر لگا ایک پرانا جلے کا نشان دکھایا۔
عزہ میری شادی کو دوسرا ہفتہ تھا میں ناشتہ بنا رہی تھا نا جب ۔ مٹی کے چولہے پر جس میں نا آگ قابو آتی تھی نا دھواں۔ جلتی آنکھوں سے پراٹھا پلٹا تو آگ پر ہاتھ جا پڑا تھا۔ گھر میں زرا تکلیف پ پر گھنٹوں رونے والی طوبی نے بس سسکی بھری تھی ایک سسکی۔ اور۔۔۔
میری ساس بولیں۔۔ مکر کر رہی ہے سچ میں بہت تکلیف ہوئی تھی مجھے۔
نور اور عزہ چپ سی اسے دیکھ رہی تھیں۔
پھر میری ساس بولیں گھر میں اوپر کا سب کام کرنے کیلئے نوکر ہیں بہو سے بس ایک باورچی خانہ نہیں سنبھالا جاتا۔ ایک باورچی خانہ۔۔ تمہیں بتائوں کتنے لوگوں کا کھانا بنتا تھا حویلی کے سب گھر والے نوکر چاکر ڈیرے کے کام والے کل ملا کر پچاس لوگ ہو جاتے تھے۔ سب کہتے شہری لڑکی ہے بھاگ جائے گی۔
میری جٹھانی عمر میں مجھ سے کم ازکم بھی دس سال بڑی تھیں چھے بچے انکے تھے۔ پھر بھی مجھے اکیلے لگا دیکھ کر ہاتھ بٹانے بیٹھ جاتی تھیں۔کہتی تھیں۔ تم بہت نازک ہو اتنا کچھ اکیلے نہیں کر سکتیں آہستہ آہستہ ہی سیکھ جائو گی سب۔
پھر سب سیکھ لیا میں نے۔ساس سسر دیور جیٹھ نندوں سب کا خیال رکھنا بچے سنبھالنا۔سب کچھ۔۔ کب صبح ہوتی کب شام عمر میں سال لگتے گئے کیسے گزرے طوبی کو خبر ہی نہ ہوئی۔۔ اب دیکھو میں لڑکی سے عورت بن گئ تین بچوں کی ماں۔۔ مگر میں طوبی نہیں رہی۔ میں طوبی کہاں رہی
وہ پل پل بدل رہی تھی۔۔
طوبی کہاں گئ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم لوگوں کو دیکھ کر لگ نہیں رہا کہ سونے کا ارادہ ہے کافی بنانے لگی ہوں پیئو گی ؟
ساری بات سن کر عروج ہاتھ جھاڑتی اٹھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔
عزہ اور نور دونوں نے سر ہلایا۔
یہ الف سوگئی کیا۔ الف پینی ہے کافی؟
عروج نے اچک کر الف کے بیڈ پر۔جھانکنا چاہا۔اس نے سر پر تکیہ رکھ لیا
نہیں اور تم لوگ باہر جائو میں نے سونا ہے۔
اس نے سخت سے انداز میں کہہ کر کمبل اوپر کھینچ لیا۔
ارے واہ ہم تین لوگ جائیں یہاں سے آئی بڑی شہزادی۔
نور چمک کر بولی۔
یار تھک گئ ہوگی فنکشن سے کتنی دیر میں واپس آئی ہے۔اسے سونے دیتے ہیں باہر چلتے ہیں

عزہ نے امن کا سفید جھنڈا لہرایا
یار ویسے واعظہ تن و تنہا اکیلے کمرے میں راج کر رہی ہے ہم چاروں یہاں ایک۔کمرے میں کیا یہ۔کھلا تضاد نہیں

نور منہ بنا کر کہتی اٹھی۔
جوابا عروج اور عزہ بھی ہاں میں ہاں ملاتی اسکے ساتھ کمرے سے نکل گئیں۔
اس نے ان کے جانے کے بعد زرا سا سر اٹھا کر اطمینان کیا پھر سائیڈ ٹیبل سے ٹشو کا رول۔نکال لیا
اتنی دیر سے مستقل رونے سے چہرہ بھیگا ہوا تھا اس نے بے دردی سے آنکھیں صاف کیں پھر دوبارہ رونے کا کورم پورا کرنے لگی۔ اس بار ٹشو زاد راہ تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے شائد ابیہا کے جانے کے بعد پہلی دفعہ یہ کھڑکی کھولی تھی۔ سنسان گلی کن من مگر مسلسل برستی بارش کے باعث بھیگی ہوئی تھی۔ سرد ہوا کا جھونکا۔۔۔ ۔۔۔اس نے ذرا سا ہاتھ بڑھا کر بارش کے قطرے ہتھیلی میں سمیٹ لیئے۔۔۔
ذہن میں کسی کے غصے سے بھرے جملے گونجے
بالکل کررہا ہوں تم جیسی دس ہزار لڑکیوں میں بھی کھڑی ہو تو پہچان سکتا ہوں اسے

تم دس ہزار لڑکیوں میں بھی چھپ۔کر کھڑی ہو تو بھی پہچان سکتا ہوں۔
اس بار لہجہ نرم آواز مختلف تھئ۔
باہر کن من برستی بارش نے ایکدم تندی اختیار کی اسکے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
یہ کورین لڑکے سب ایک ہی جملہ بولتے ہیں ہرلڑکی کو کیا۔
اس نے سر جھٹکا۔۔ اور کھڑکی کی۔چوکھٹ سے ٹک کر بارش دیکھنے لگی۔۔
محبت بارش سی ہے۔
بھگو دیتی۔۔۔
تن من۔
پر یہ بارش۔۔۔
جو۔۔۔
سمیٹینا چاہو تو مٹھی بھر کا کھیل ہے۔
مٹھی میں آتی ہے۔۔
قطرہ قطرہ ۔۔۔
پھسلتی جاتی ہے۔۔
یہ بارش مٹھئ میں لمحہ بھر ٹھہرتی۔۔
خوش کردیتی یے۔۔۔
ایسے ہی محبت لمحوں کا کھیل ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری ہے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *