Desi Kimchi Episode 42

Desi Kimchi Urdu Novels

قسط 42
مس عروج۔
وہ حسب معمول رائونڈ لگا کر واپس اپنے کیبن میں آکر تھک کر بیٹھی تھی۔ حسب عادت میلز دیکھنی شروع کیں مگر جس میل کا شدت سے انتظار تھا وہ ہی نہیں آئی تھئ۔ تھک کے کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں میچ لیں۔
اللہ میاں پلیز مجھے اسپیشلائزیشن کرنی ہے ہر صورت وسیلہ بنا دیں ۔۔
دونوں ہاتھ اس نے منت کرنے کے انداز میں جوڑ رکھے تھے۔خوب دل سے دعا کرکے جیسے دل پرسکون سا ہوگیا۔
نانی اماں کی بات یاد آئی۔
چودہ سالہ عروج جائے نماز بچھائے دونوں ہاتھ پھیلا کر خوب زور و شور سے آنکھیں بند کیئے نماز پڑھ رہی تھی۔
اللہ میاں اس والے میتھ کےٹیسٹ میں میرے سب سے ذیادہ نمبر آئیں اور اسکے بعد سالانہ میں بھی۔ پلیز اللہ میاں آپکو پیارے رسول ص کا واسطہ۔ بے شک پورے نہ آئیں مارکس۔ بس رابعہ سے ذیادہ آجائیں۔ اللہ میاں وہ جو سوال کا جواب غلط آیا وہ مس کو نظر نہ آئے وہ مجھے پورے نمبر دے دیں۔ سب اسٹیپس ٹھیک تھے اللہ میاں بس آنسر۔۔۔
اری بھنو میری صندل کی تسبیح دیکھی کہیں صبح سرہانے تھی اب گدھے کے سر کے سینگ کی مانند غائب۔
نانی اپنی صندل کی تسبیح ڈھونڈتی کمرے میں آئیں ۔ تو اسکی معصومانہ دعائوں نے انکی توجہ کھینچ لی۔ ایک دھیمی سی مسکراہٹ انکے چہرے پر در آئی۔ کمرے کے کونے میں جاء نماز بچھائے عروج کا بس دایاں رخ ہی نظر آرہا تھا۔ مگر اسکے چہرے پر اضطراب بے چینی ان سے مخفی نہ رہ سکی۔ وہ وہیں اسکے قریب ہی موڑھا کھئنچ کر آبیٹھیں۔ انکی صندل کی تسبیح اسکی ہتھیلی پرہی دھری تھی۔
آمین۔ اس نے دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
نانی آپ۔ وہ انکو اپنے قریب دیکھ کر چونک گئ۔
میری بیٹی پریشان ہے ٹیسٹ اچھا نہیں ہوا کیا؟
انہوں اسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو وہ کھسیا سی گئ۔
نانو سب صحیح لکھا بس آنسر غلط ہوگیا۔ مگر میتھ میں اسٹیسپس کے تو مارکس ملتے ہیں۔ تو وہی دعا کر رہی تھی۔۔
آپکی تسبیح ہاتھ میں لیکر۔ آپ جب یہ تسبیح ہاتھ میں لیکر دعا کرتی ہیں تو پوری ہوتی ہے نا۔
اس نے تسبیح لہرائی تو نانی اسکی بات پر ہنس دیں۔
بیٹا دعا وہ قبول ہوتی جو دل سے مانگی جاتی۔ صاف اور سچے دل سے جس دعا میں بس اپنی بھلائی درکار ہو کسی کا برا نہ چاہا ہو۔
انہوں نے دھیمے سے ٹوکا تو وہ سر کھجا گئی۔
آپ نے سن لیا۔۔ نانی وہ آپ نہیں جانتی رابعہ بہت شوخی سی ہے اس نے مجھے چیلنج کیا تھا اس بار فرسٹ وہ آئے گی۔ اگر اسکے نمبرمیتھ میں مجھ سے ذیادہ آگئے تو وہ فرسٹ آجائے گی۔
اس نے معصوم سی شکل بنا کر کہا۔
تو تمہیں یہ دعا مانگنی چاہیئے تھی کہ تم فرسٹ آئو۔ یہ تو دعا مانگی ہی نہیں تم نے۔
نانی کے ٹوکنے پر وہ سر پر چپت مار گئ
اوہو خیال ہی نہیں رہا۔ ابھی دعا مانگتی ہوں مگر نانی دعا تو مکمل کرلی اب دوبارہ مانگوں یا اب کل جب نماز پڑھوں تب مانگوں؟
دعا کا تو کوئی وقت نہیں دعا تو ہروقت مانگی جا سکتی۔نماز میں انسان سب سے قریب ہوتا ہے اللہ کے تبھی نمازکے بعد آخر میں دعا مانگی جاتی ہے۔ لیکن دعا مانگنے کا طریقہ ہوتا ہے بیٹا۔
نانی کے ناصحانہ انداز نے اسے سوچ میں ڈال دیا۔
مجھے پتہ ہے ایسے دونوں ہاتھ اٹھا کے مانگتے ہیں نا ؟
اس نے ہتھیلیاں جوڑ کر پھیلائیں
ہاں اور جب ایسے ہاتھ پھیلاتے ہیں نا اللہ کے سامنے تو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے در سے کسی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتا۔ دعا سنتا ہے اجر دیتا ہے۔ جو مانگو وہ دیتا ہے کیونکہ وہ تو کہتا ہے مجھ سے مانگو میں دوں گا۔ مگر بیٹا دعا جب مانگو تو بس جو مانگنا وہی مانگو اس یقین سے مانگو کہ ملے گا۔ اور جب تک دل نہ ٹھہرے تب تک شدت سے گڑ گڑا کر مانگو۔۔ اللہ کو کبھی یہ نہ بتائو کہ وہ تمہاری دعا قبول کیسے کرے۔ اسکو تو بس یہ بتائو تمہیں کیا چاہیئے۔ دینا اسکا کام ہے کیسے دے وہ بہتر جانتا ہے۔
دل ٹھہر جانا کیا ہوتا ہے نانی؟
عروج کا ذہن الجھا۔
جو اضطراب بے چینی دل میں مانگی گئ چیز کی طلب ظاہر کرے وہ ختم ہوجانا۔ یعنی اللہ نے سنا جو مانگا اب یا تو دے دیا یا اس سے بہتر نصیب میں لکھ دیا۔ اللہ دیکھتا ہے جو تمہیں چاہیئے وہ کتنی شدت سے چاہیئے۔ بہت شدت سے چاہو تو وہ دل کو سکون دے دیتا ہے۔اب پریشان نہ ہو تمہاری سن لی گئ ہے۔۔۔۔
نانی نے پیار سے سمجھایا۔
دھڑ دھڑ کرتا دل قابو میں آنے لگا۔
اب یا تو مجھے مل گیا جو چاہیئے۔۔ یا مجھے اس سے بھی بہتر نصیب ہوگیا ہے۔
عروج نے خود کلامی کرتے پرسکون ہو کر آنکھیں کھولیں۔
سامنے ہی ڈاکٹر عبدالقادر کھڑے تھے۔ وہ گڑبڑا کر سیدھی ہوئی
آئم سوری وہ میں اندازہ نہیں لگا پایا کہ آپ جاگ رہی ہیں یا سوگئ ہیں اسلیئے یوں خاموش کھڑا تھا یہاں۔
انہوں نے سٹپٹا کر صفائی پیش کی۔
عروج سر ہلا کر رہ گئ۔
اسے الجھن ہو رہی تھی کیا کام ہے بھئ۔
ڈاکٹر عروج مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔
عربی لہجے میں شستہ انگریزی۔۔ عروج نے انہیں سامنے بیٹھنے کی دعوت دی وہ شکریہ کہتے بیٹھ گئے۔۔
دراصل ۔۔ وہ لمحہ بھر کا وقفہ لیکر گلا صاف کرنے لگے۔۔

وہ آپ تو جانتی ہیں میں کچھ دنوں میں واپس مراکش جانے والا ہوں۔
عروج نے ترچھی نگاہ سے ان سن بے کو دیکھا۔
تو میں کیا کروں؟؟؟
وہ نقاب کی وجہ سے اسکے تاثرات دیکھ تو نہیں پارہے تھے مگر نگاہوں سے اندازہ یہی لگایا کہ جو بھی کہنا ہے جلد کہنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارئ سینئر ڈاکٹر جو مسلمان ہیں جو مراکش سے ہیں تم سے کوئی پانچ سات سال ہی بڑے ہوں گے اپنے ملک واپس جانے سے قبل تمہیں پرپوز کرگئے۔ واہ۔ زبردست۔ تمہاری تو نکل پڑی عروج۔ میری بہنیا بنے گی دلہنیا۔۔
فاطمہ تو اچھل ہی پڑی۔ لہک لہک کر گانا بھی شروع کردیا
واعظہ اور عروج دونوں کو فورا فون کان سے دور کرنا پڑا
فاطمہ حوصلہ رکھو۔ واعظہ کو ٹوکنا ہی پڑا
مگر عروج ایسے کیسے دیکھا تک تو ہے نہیں انہوں نے تمہیں۔
واعظہ کی بات میں دم تھا۔ فاطمہ بھی گانا چھوڑ چھاڑ نئی فکر میں پڑ گئ
عروج تم نے تو انہیں دیکھا ہے نا کیسے ہیں؟ ہیںڈسم سے ؟ عادات کے کیسے؟ پانچ سال بڑے یا سات سال
بریک لگائو فاطمہ۔ عروج جھلائی۔
دس سال بڑے ہیں وہ سرجن ہیں۔ اور میں نے تو دیکھا ہوا ہی ہے انہوں نے بھی مجھے دیکھا ہوا ہے میرا ملازمتی کارڈ جو گلے میں لٹکائے پھرتی ہوں میں تصویروالی طرف اندرکرکے وہی میرے ڈاکٹری پروفائل پک بن کر منتظمیں کے ڈیٹا بیس میں لگئ ہے اور وہ منتظم اعلی ہیں ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے میری ایک ایک معلومات انکے ایک کلک پر ہے
عروج نے تفصیلا بتایا تاکہ کوئی الجھن باقی نہ رہے۔
اوہ فاطمہ کا جوش و خروش کم ہوا۔
اچھا پھر بھی عربی ہیں تو پیارے ہونگے ہی۔
مراکش افریقی مسلم ملک ہے بی بی۔ ہاں رنگ صاف ہے انکا شکلا پاکستانی ہی لگتے۔
ٹھہرو میں انکی تصویر وٹس ایپ کرتی ہوں
اسکی تفصیل بتاتے بتاتے ہی۔فاطمہ نے مسترد بھی کردیا
رہنے دو پھر۔ انکار کردو۔ اب کوریا میں رہ کر بھی پاکستانی۔شکل ملنی تو پاکستانی ہی ٹھیک ہے بہن کم از کم جو بولے گا سمجھ تو آئے گی۔
عروج نے تصویر بھیجی تھی۔ فاطمہ نے جھٹ کھولی
شکلا پاکستانی۔۔۔دیکھنے میں بس ٹھیک ہی تھے۔ مگر تصویر دیکھنے کے بعد فاطمہ کا خیال تھا کہ پاکستانیوں کی۔طرح عمر میں ڈنڈی مار گئے ہیں پندرہ بیس سال بڑے ہونگے۔
یہ تو بہت بڑے ہیں۔ہاں تو نہیں کردی؟
فاطمہ کو تشویش ہوئئ۔
نہیں۔ہاں تو اگر یہ لی من ہو بھی ہوتے تو فورا نہ کرتی۔ کل پرسوں تمیز سے انکار کروں گی۔کوئی اخیر پسند آجاتے تو بھی میں سوچتی اب ایویں یونہی بھی تذکرہ کردیا نا گھر والوں سے تو یہیں شادی کروادیں گے یہ سوچ کر کہ۔مجھے پسند آگئے ہیں۔
عروج نے ہنستے ہوئے کہا تو فاطمہ ہنسنے لگی
صحیح کہہ رہی ہو۔ یہ واعظہ کہاں گئ۔کال کٹ تو نہیں گئ
فاطمہ نے کہا تو واعظہ کو بولناپڑا
میرے بولنے کی جگہ تھی دونوں مستقل تو بول رہی ہو۔ عروج جو تم نے دو تین جگہ اپلائی کیا تھا اسپیشلائزیشن کیلئے تو کیا بنا؟
اس نے بات ہی بدل دی۔
ہاں وہ بس دعائیں کر رہی ہوں۔ ابھی تو کہیں سے میل نہیں آئی۔ ویسے آج دعا کرکے سکون سا ملا دل کو یقینا کہیں داخلہ ہونے والا ہے میرا۔
عروج کے انداز میں اتنا یقین تھا کہ دونوں بے ساختہ آمین کہہ گئیں۔
اچھا واعظہ یہ تو بتائو جب میں نے بتایا کہ مجھے میرے کولیگ نے پرپوز کیا ہے تو تم نے فٹ سے سیونگ رو کا نام لیا تھا کیوں؟سیونگ رو کہاں سے آگیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح حسب معمول وہ دس بجے تک اٹھی۔ منہ ہاتھ دھو کر باورچی خانے میں آئی تو فریج پر اسٹکی نوٹ چپکا تھا۔
اس نے آرائشی ایفل ٹاور کے نیچے چپکا نوٹ اتار کر احتیاط سے اسے واپس لگا دیا۔
میں گائوں جا رہاہوں چار دن بعد آئوں گا۔
بندہ معزرت ہی کرلیتا ہے۔ تمہاری پھوپھی کی لڑکی نہیں ہوں جسے اتنا کچھ سنا کر دفع ہو گئے تم۔
وہ اسٹکی نوٹ کو مسل کر بھنائی۔
اٹھ گئیں تم۔
سیہون کی آواز اسکے کندھے کے پیچھے سے آئی تھی۔
کمرے سے اپنا بیگ کھینچ کر نکالتا وہ پوچھ رہاتھا۔
فاطمہ بری طرح ڈر گئ۔ اسے حواس باختہ۔دیکھ کر وہ اپنی۔چندی آنکھیں کھول کر گھور نے لگا۔
کیا ہوا؟
وہ یہ نوٹ لگا ہوا تھا تو مجھے لگا تم جا چکے ہوگے۔
اس نے اپنی گھبراہٹ پرقابو پاتے ہوئے بتایا تو وہ۔سر ہلانے لگا
مجھے لگا تھا تم بارہ ایک تک اٹھو گی جبھی ابھی نوٹ لگا کر جا رہا تھا میں۔ رات تین بجے تک تو یہیں بیٹھی پارٹی کر۔رہی تھیں۔
اس نے کچن کائونٹر کی جانب اشارہ کیا تو وہ نظر چرا گئ۔
اپنی طرف سے تو چھپ چھپا کے ٹھونس رہی تھی۔
میں نے کائونسل کو بتایا ہے کہ ہم دونوں گائوں جا رہے ہیں۔کم ازکم بھی پندرہ دن کیلئے تواس ہفتے وہ نہیں آئے گئ۔
ہوں۔ میں گروسری رکھ کے جا رہا ہوں ۔ گوشت کے حلال ٹیگ والے ہی پیکٹ لایا ہوں استعمال کر لینا۔
فاطمہ کو جانے کیوں شرمندگی نے آگھیرا تھا۔ کل جانے اسے کیا ہوا تھا اس وقت وہی سیہون تھا۔ سادہ سا مسکین سا۔ جسکے چہرے اور لہجے میں ہمیشہ کا نرم سا تاثر تھا۔
آننیانگ۔
وہ جانے کیلئے مڑا چند قدم اٹھا کر رکا۔ پھر واپس پلٹ کر اسکے مقابل آکھڑا ہوا
کل شائد میں کچھ سخت لہجہ اختیار کرگیا۔ میں نے بہت کچھ کہا جو شائد مجھے کہنا نہیں چاہیئے تھا۔ میں معزرت خواہ ہوں۔
کوریائی انداز میں جھک کر معزرت کرتا سیہون۔ وہ لمحہ بھر کو تو سنٹ سی کھڑی رہ گئ۔
آئیم رئیلی سوری۔
وہ چند لمحوں بعد کہہ کر دوبارہ جھکا۔ تو وہ جیسے ہوش میں آئی۔
نہیں۔
آئ مین اٹس اوکے۔ ڈونٹ
ہڑبڑا کر اس نے اسے معزرت کرنے سے روکا۔ مگر الفاظ گم سے رہے تھے۔
بائے۔ وہ معزرت قبول کروا کر مسکرا کر الوداع کہتا نکل گیا۔۔۔۔
اس نے گہری سانس لیکر سر جھکالیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دفعہ۔جھک جھک کے معزرت۔ اس معزرت نے تو اس زلیل کرنے والی تقریر سے ذیادہ شرمندہ کردیا ہے مجھے ۔۔ گوڈے گوڈے ڈوب گئ ہوں شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں۔ بلکہ دلدلد میں اوریہ شرمندگی لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے میں ڈوبنے والی ہوں جلد ہی قسم سے میری غیرت جاگ گئی ہے۔ اب میں جاب کر کے رہوں گی۔
واعظہ کے ساتھ سڑک کنارے تیز تیز قدم اٹھاتے اور سارا قصہ بتاتے سانس پھول رہی تھی اسکی۔ اسکی باتوں پر کان نہ دھرتی لانگ گھٹنوں تک کے گلابی ٹاپ اور سفید ٹائٹس میں پرس کندھے سے اور فائل سینے سے لگائے تقریبا دوڑ ہی رہی تھی ۔فاطمہ سے رہا نہ گیا تو ٹوک ہی دیا
اوفوہ ایک تو آہستہ چلو ان ننھی ننھی ٹانگوں میں اتنی رفتار موٹر فٹ کروالی ہے کیا کوئی۔
وہ باقائدہ رک کر اسکے فراک نما گھیر والے ٹاپ کو چٹکی سے پکڑتی جیسے سچ مچ موٹر ڈھونڈنے لگی تھی۔
واعظہ نے کندھے سے پھسلتا پرس سنبھالا ہاتھ میں پکڑی فائل بنا لحاظ اسکے سر پر جمائئ۔اور چلنے کا شغل جاری رکھا فاطمہ سر سہلاتی لپکی
کم۔از کم ڈوبتے کو تنکے کا سہارا تو دو۔
مسکین سی شکل۔
تم ڈوبو مرو جو مرضی کرو میرا پیچھا چھوڑو۔ آگے مجھ پر بھی بڑا برا وقت آیا ہے اس بارپکا میں نے کسی پرائے پھڈے میں ٹانگ نہیں اڑانی اور اپنا الو سیدھا کرنا ہے کمینگی دکھانی ہے بس پکی میں نے۔
وہ دانستہ اسکی شکل نہیں دیکھ رہی تھی۔ فاطمہ دائیں جانب سے اپنا مظلومیت بھرا چہرہ دکھانے آئی تو رخ بائیں جانب کرلیا اور جب وہ گھوم کر آئی تو پوری مڑ گئدوسری جانب۔ بس اسٹاپ آگیا تو وہ جھٹ سے بنچ پر۔جا بیٹھی نتیجتا فاطمہ کو گھنٹے کے بل ہی اسکے سامنے بیٹھ کر اسکے گھٹنوں پر دونوں بازو رکھ کر چہرہ ہتھیلیوں کے پیالے میں دھر کر مسکین سی شکل بنا کردیکھنا پڑا۔ اسے دیکھ کر واعظہ نے آنکھیں بند کر لیں۔ چند لمحے بند آنکھوں کو دیکھتے فاطمہ کی چونچالی سرد ہوتی گئ ہونٹ لٹکا کر جب سچ مچ مظلومانہ سے تاثرات چہرے پر آگئے شومئی قسمت واعظہ نے تب ہی آنکھیں کھول بھی لیں۔
دونوں نے اکٹھے اتنی سرد آہ بھری کہ پاس سے گزرتی کورین آہجومہ بازو سکیڑتی بڑبڑا گئیں
اف ان بوڑھی ہڈیوں کو تو اب ذرا سی ہوا بھی برداشت نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیوٹئ ختم ہونے پر وہ تھکی تھکی سی بیگ سنبھالتی اسپتال سے نکل رہی تھی۔۔۔ ہاتھ میں بڑا سا بیگ بھی تھا۔ کندھے پر لٹکے پرس کا بوجھ ہی دگنا لگ رہا تھا ۔
شاپر ایک طرف رکھ کر وہ عزہ کو فون ملانے لگی۔
ہیلو؟ عزہ نے فورا فون اٹھا لیا تھا۔ وہ لابی میں کلاسیں کھول کھول کر جھانکتی پھر رہی تھی۔ پہلی میں۔۔ کلاس ہو رہی تھی۔ جھک کر اشارتا معزرت کرتی وہ دروازہ بند کرتی باہر نکل آئی
ہیلو ہاں عزہ فری ہو تو میں گھر جا رہی ہوں کیب کروں گی تمہیں بھی اٹھا لوں؟
عروج مصروف سے انداز میں پوچھ رہی تھی۔
کیب کیوں کرنے لگی ہو؟ اسٹاپ تو قریب ہے نا اسپتال سے
؟ میٹرو بھی ۔۔۔
وہ اگلی کلاس کا دروازہ کھول رہی تھی۔۔ اندر ایک جوڑا بیٹھا تھا جتنا زور سے وہ ہڑ بڑایا اس سے ذیادہ زور سے سٹپٹا کر اس نے دروازہ بند کیا۔
توبہ ہے۔ دانت کچکائے دھڑ دھڑ کرتے دل پر ہاتھ رکھا دروازے کو خوب گھورا
ہاں وہ بس کچھ سامان ہے ساتھ۔ عروج نے مختصرا جواب دیا
کیسا سامان؟ شاپنگ کرلی ؟ عزہ پوچھتے ہوئے اب اگلا دروازہ کھول رہی تھی
نہیں بھئی ایک مریضہ انتقال کر گئ ہے اس نے تحفہ دیا ہے بڑا سا بیگ ہے شاپنگ کا۔
کیا تحفہ دیا؟ عزہ کا انداز اشتیاق بھرا تھا
پتہ نہیں کیا ہے اس میں بھاری تو ہے۔ سوچا تھا دیکھ لوں گی مگر پے در پے ایمرجنسیاں ہی آتی رہیں موقع نہیں ملا دیکھنے کا جانے مجھے کیا تحفہ دے گئیں وہ خاتون آخری وقت میں۔ بے چاری۔
چلو اللہ مغفرت کرے۔۔ عزہ نے تاسف کا اظہار کیا۔
ہاں بے چاری بہت اذیت میں تھیں۔
عروج کو تھکن سی محسوس ہوئی تو اسپتال کے باہر بنی سنگی کیاری سے ٹک گئ
کینسر تھا اتنی تکلیف ہوتی تھی انکو بہت روتی تھیں۔۔ وہ تفصیل سے بتانے لگی
اوہ ۔۔ ہاں میں نے بھی سنا ہے کینسر کے مریضوں کی جو کیمو تھراپی ہوتی ہے اس میں شدید درد ہوتا ہے۔ سوئیاں چبھنے جیسا۔۔ بال بھئ ختم ہو جاتے ہیں۔۔
قسمت سے خالی کمرہ مل ہی گیا سکون سے دوڑ کر وہ نرم نرم سے بنچوں کی۔جانب بھاگی۔۔کانفرنس ہال جیسی کلاس تھی سب سے نیچے پہلے بنچ پر وہ جا ٹکی۔ اوپر جو رو تھیں وہاں تک چڑھائی چڑھنے کا ارادہ نہ تھا بیگ رکھ کر آرام سے وہ نیم دراز ہوگئ۔
ہاں یار بہت برا حال تھا بس یوں سمجھو اذیت ختم ہوئی۔ اب ٹھیک تو ہونا نہیں تھا انہوں نے۔ آخری اسٹیج تھی۔ سانسیں اٹکی۔تھیں بس بیٹی میں۔ وہ آکر ملی تو بس سکون سے آنکھیں موند لیں۔ عروج نے تائید میں سر ہلایا۔
ہائے۔۔۔ عزہ نے بھی آنکھیں موند لیں۔کمر تختہ۔ہورہی تھی یوں نیم دراز ہو کر سکون ملا تھا۔۔
اور تم سنائو کیسا گزرا دن۔۔
گزرا کہاں گزر رہا دو کلاسیں ہوئیں کمر تختہ ہو رہی ہے اس وقت بھی کلاس ہونے والی ہے مگر یہاں کی سیٹیں کتنی آرام دہ ہیں دل کر رہا سو ہی جائوں
ہوں ۔۔ وہ سوچ میں پڑئ۔۔
یار ایک کلاس ہے تو مگر اس جاپانی شکل کے کورین انکل کو جانے ہم غیر ملکیوں سے کیا دشمنی ایک لفظ انگریزی کا بولنے کو تیار نہیں ہوتے بیٹھے مکھیاں مارتے ہیں ہم اس دن بھی جب ہم نے درخواست کی تھوڑا سا انگریزی میں سمجھا دیں تو دو تین انگریزی مصنفوں کی کتابوں کے نام۔بتائے اور بھاگ لیئے۔۔
عزہ کی کہانی شروع تھی۔۔
اب بتائو ایسے کیسے سب سمجھ آسکتا ہمیں خود ہی۔کتاب پڑھ کے۔۔
عزہ کی بات پر عروج نے سر ہلایا۔۔
ہاں ان لوگوں کو انگریزی آتی نہیں نا تو بہت گھبراتے ہیں ہمارے بس ایک استاد۔۔۔۔ بولتے بولتے عروج کو خیال آیا تو چونک کر سر کھجانے لگی۔
کیا ہوا تمہارے استاد کو؟ آج ویسے بڑی فرصت سے بات کر۔رہی ہو کوئی مریض وریض نہیں آئے تم نیم حکیموں کے ہاتھوں بیڑا غرق کروانے؟
عزہ چھیڑ رہی تھی۔
ارے نہیں ڈیوٹی تو کب کی آف ہو چکی دو گھنٹے ایک آن لائن لیکچر لیتی رہی تو لیٹ ہو گئ۔۔ اور۔۔
عروج کو یاد آگیا جو بھولی تھی تڑپ کر اٹھ کھڑی ہوئی
اور اب گھر جانا تھا کیب لینے لگی تھی تم نے باتوں میں لگا لیا عزہ کی بچی۔
وہ چلائی تو عزہ بھی جزباتی ہو کر اٹھ بیٹھی
کیا کیا۔۔ میں نے باتوں میں لگا لیا ؟ تم نے مجھے فون کیا ہے بی بی۔ ایک تو میں یونیورسٹی میں پڑھائی کے گھنٹوں کے دوران تم سے بات۔۔۔
اوفوہ تو وہی پوچھنے فون کیا نا کہ کیب لینے لگی ہوں چلنا ہے تم نے۔ عروج کا اپنے بال نوچنے کا دل کرنے لگا تھا۔ ایک تو آپکی زندگی میں ایک۔انسان ایسا ضرور ہوتا ہے
جس سے کوئی سوال کرو تو جواب میں وہ سوال داغتا ہے وہ بھی بالکل غیر متعلق۔
عزہ پوچھ رہی تھی۔۔
اکیلی ہو یا کوئی اور بھی ساتھ ہے؟
جلدی بتائو آئوں تمہیں لینے کہ نہیں پہلے ہی جان نکلی پڑی ہے تھکن سے اتنا بھاری بیگ اٹھائے ہوں تمہاری کہانیاں نہیں مک رہیں۔
عروج چیخ ہی پڑئ۔۔ تب ہی سیونگ رو اسکے پاس آکر بولا
گھر جا رہی ہو۔ آئو میں ڈراپ کردوں
عروج نے فون کان سے ہٹا کر حیرت سے اسے دیکھا۔
تم گئے نہیں؟ مجھے تو لگا تھا گھر پہنچ کے سوبھی گئےہوگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے ہفتے سسیو ای جی اور کم سوہیون مہمان ہونگے ہمارے۔
ژیہانگ نے قریب آکر دھیرے سے اسے بتایا تو بری طرح چونک سی گئ۔ موبائل چھوٹ کر اسی کے قدموں میں جاگرا
وہ مگن سی اسٹوڈیو میں بیٹھی اپنے موبائل میں فیس بک اسکرال کر رہی تھی۔ اسکی کزن کی شادی ہورہی تھی اوپر نیچے سب خاندان نے بس تصویریں ہی۔تصویریں لگا رکھی تھیں اسکی۔نیوز فیڈ لال ہوئی پڑی تھی ۔
ژیہانگ نے اسکا فون اٹھا کر اسے تھمایا۔ وہ لاتعلق سی ہوں کرکے دوبارہ فون میں لگ گئ۔
ناراض ہو ؟
ژیہانگ نے چند لمحے اسکو دیکھا۔ وہ نظریں محسوس کررہی تھئ مگر بے نیاز بنی بیٹھی رہی
نہیں۔ کیوں۔
اس نے جھٹ سے کہا۔ ژیہانگ کو اسکے انداز سے اتنی اجنبیت محسوس ہوئی کہ آگے کچھ کہتے کہتے رک سا گیا۔ رخ موڑ کراپنا مائک وغیرہ سیٹ کرنے لگا۔
اسکی بے نیازی پر الف کی پیشانی تپ سی گئ۔
کیا انداز ہے جیسے ٹھیک ہے بھاڑ میں جائو پروا نہیں۔ جیسے کوئی فرق نہیں پڑتا ٹھیک ہے مجھے بھی فرق نہیں پڑتا۔
وہ موبائل رکھتئ ذہن میں بڑ بڑا رہی تھی۔کہ خیال آیا۔ ہونٹوں پر باقائفہ انگلی رکھ کر دیکھا ہل ول تو نہیں رہے۔ جب سے اسے پتہ لگا تھا کہ۔ژیہانگ اردو جانتا تب سے کوشش کرکے باقائدہ بڑبڑانے کی عادت ختم کرنے کی کوشش کی ۔ پھر بھی برے وقت کا پتہ تو نہیں ہوتا نا۔
تم چپ ہی ہو۔ جو کہا ہے دل میں کہا ہے فکر نہ کرو۔
اسکی حرکت ژیہانگ سے چھپی نہیں رہی تھی۔اپنا کافی کا مگ اٹھا کر لبوں سے لگاتے محظوظ سی مسکراہٹ
الف کو شک گزرا۔ فورا سیدھی ہوئی گڑبڑ ہوہی گئ۔
بھاڑ میں جائو میں نے تمہیں نہیں کہا۔۔۔ اس نے فورا صفائی دی۔
میرا مطلب تھا کہ۔تمہارا انداز ایسا ہے کہ بھاڑ میں جائو مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔
ژیہانگ نے کپ رکھ کر باقائدہ قہقہہ لگایا۔ ہنستا گیا۔ الف کان کھجانے لگی۔
ہنستے ہنستے اسکی آنکھوں میں پانی بھر آیا۔
تو تم کہہ رہی۔تھیں۔بھاڑ میں جائو۔
وہ صحیح لطف لے رہا تھا۔ مسکراتی نگاہیں ہنستا چہرہ۔
الف نے سر جھکا لیا۔
کوریا کی ہوا میں ہی کوئی مسلئہ ہے۔لڑکیوں سے خودبخود حماقتیں سرزد ہونے لگتی ہیں ہم ایویں انیوں کو احمق بونگا کہتے تھے یہاں آکر۔
وہ اس بار ہونٹ بھینچ کر سوچ رہی تھی۔
ژیہانگ نے اسکا پارہ چڑھتے دیکھا تو ہنسی کو روکتا سیدھا ہو بیٹھا۔۔پھر بولا۔
تم نے واقعی کچھ نہیں بولا۔مگر تھینکس اپنے دلی جزبات بول کر بتا دیئے۔ محترمہ سمجھ تو میں گیا۔تھا کہ۔کوئی۔ناراضگی ہے اور پروگرام۔کے بعد پکا تفصیل سے دور کرنے کا بھی ارادہ تھا۔
محترمہ زندگی میں کبھی اتنا اچھا نہ لگا تھا سننے میں جتنا اب لگا۔
وہ گھور کر رہ گئ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یونیورسٹی کے باہر ٹہل رہی تھی جب گاڑی کے نام پرچم چم کرتی کالےرنگ کی جن کی بچئ پاس آکر کھڑی ہوگئ۔
آیا کوئی ممی ڈیڈی بچہ۔
اس نے منہ بنا کر رخ پھیرا۔
جانے لوگوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آجاتا ہے۔ چم چم تو ایسے کر رہی جیسے شوروم سے سیدھا یہاں آگئ۔
اوئے عزہ کی بچئ میں ہوں آئو بیٹھو۔
عروج پسنجر سیٹ سے شیشہ نیچے کرکے چلائی۔
یہ اتنی بڑی چم چم کرتی۔گاڑی کہاں سے آئی تمہارے پاس؟ تمہیں ڈرائیونگ آتی ہے؟
عزہ بھرپور حیرانی کا اظہار کرتی اسکی جانب بڑھی
ہیں اس گاڑی میں اسٹئیرنگ نہیں؟ وہ کھڑکی سے اب اندر جھانک رہی تھی
بدھو لیفٹ ہینڈ ڈرائیوہے یہاں گاڑی میں نہیں یہ چلا رہا۔
وہ نشست کی پشت پر چھپکلی کی۔طرح چپک گئ۔ تو عزہ کو اسکے وجود کی آڑ میں چھپا چندی خوب چمکتی آنکھوں اور سو واٹ کے بلب کی طرح روشن ہوئے چہرے والا سیونگ رو دکھائئ دیا۔
اسلام و علیکم۔
اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر وہ گڑبڑا کر سیدھی ہوئی سلام۔بھی جھاڑا۔
وعلیکم السلام۔ کم ان۔
اس نے مسکرا کر کہتے دعوت دی۔ اسکے شستہ جواب شائستہ انداز نے عزہ پر کافی اچھا اثر ڈالا۔
اوئے یہ مسلمان ہے ؟
پچھلی نشست سنبھالتے ہی پہلا پیغام عروج کو یہ موصول ہوا۔ سیونگ رو نے گاڑی اسٹارٹ کر لی تھی۔
نہیں ۔ اور اب مسج مت کرنا۔
ساتھ غصے والا۔اسمائیلی اس نے جھٹ پیغام بھیج کر موبائل بیگ میں ڈال دیا۔عزہ میسج پڑھ کر کھسک کر عروج کے بالکل پیچھے ہو لی ذرا دیر سوچا پھر
کون ہے یہ؟
اس نے کھڑکی کی جانب سے منہ آگے کرکے سرگوشی کی۔
عروج اچھل پڑی۔
کولیگ ہے۔ ۔۔دانت کچکچا کر جواب دیا۔ اور رخ موڑ لیا۔
اس بار بائیں جانب سے کان میں سرگوشی ہوئی وہ بھی پے در پے لگاتار۔
دوست بھئ ہے تمہارا؟ اتنا امیر کیسے ہے؟ فلموں میں کام کرتا۔۔اسکی شکل لی من ہو سے نہیں ملتی؟
مانا ہینڈسم ہے مگرلی من ہو کی لک بھی نہیں آرہی۔ عشنا ہوتی تو غش کھا جاتی تمہیں اس میں لی من ہو ڈھونڈتے دیکھ کر۔
عروج سب احتیاط بھول بھال کر پلٹ کر بحث میں الجھی۔
کیوں؟ ایسا بھئ کیا۔ عزہ برا مان گئ۔ لی من ہو کوئی دیوتا تھوڑی۔ انسان کی انسانوں سے ہی شکل ملتی ہے۔
مجھے ویسے اکثر لوگ کہتے ہیں میری شکل لی من ہو سے ملتی ہے۔ شستہ انگریزی دھیما لہجہ انداز محظوظ ہونے والا تھا۔
آپ اردو سمجھ سکتے ہیں؟
عزہ کی آنکھیں حجم سے دگنی ہوگئیں۔ عروج کا منہ کھل گیا۔
دے ؟
وہ۔سمجھا نہیں۔ تو عزہ کو انگریزی میں بتانا پڑا۔
آندے۔ وہ کھل کر ہنسا۔
آپ نے جو بولا اس میں بس ہیلپنگ ورب ہی اردو کے استعمال۔ہوئے ہینڈسم ، لک ، وغیرہ تو عام انگریزی کے الفاظ ہیں اور لی منہو تو واقعی مجھے اکثر لوگ کہہ جاتے ہیں۔ تو مجھے مفہوم سمجھنے میں مشکل نہیں ہوئی اگر میں غلط نہیں تو۔
وہ بیک ویو مرر سے عزہ سے مخاطب ہوا۔ وہ سر ہلا کر اب ہلکی آواز میں بڑ بڑا نے لگی۔
نہیں آپ غلط نہیں سمجھے مگر ہماری غلطی ہے انگریزی بھر لی ہے اردو میں کوئی پرائیویسی ۔۔۔ اف کوئی۔۔۔۔
اس نے ذہن کےگھوڑے دوڑانے چاہے مگر وہ بس ہنہنا کر رہ گئے۔ تو تھوڑا آگے ہو عروج سے ہی پوچھنے لگی۔
یار ۔۔ عروج پرائویسی کو اردو میں کیا کہتے۔؟؟؟
میرا سر۔۔عروج یہی۔جواب دے سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد۔
جاری۔یے۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *