Hajoom e tanhai zehni bahali markaz case 567

Afsanay (short urdu stories) Suspense/Mystry Urdu Stories

 ہجوم تنہائی ذہنی بحالی مطب۔ 

مسیحامحترمہ ہجوم تنہائی۔۔

نفسیات دان۔

عالمہ پی ایچ ڈی زندگی کے تجربات

ہجوم بیکراں۔

وہ ایک سولہ سترہ سال کا لڑکا تھا۔ اضطراری انداز میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا۔ گلے میں گٹار لٹکا رکھا تھا۔دونوں ہاتھ گٹار کو بجانے میں مصروف تھے۔ کہنی کرسی کے ہتھے پر ٹکا ئے  ہتھیلی پر تھوڑی جمائے تنہائی اپنی آرام دہ کرسی پر دراز تھی ۔ دوسرا ہاتھ میز پر دھرا تھا جس کی انگلیوں سے وہ گول سا پیپر ویٹ گھما رہی تھی۔ مستقل مسلسل وہ ایک چکر میں تھامگر اس سے بے نیاز بیزاری سے اسکے چلتے وجود کے ساتھ نظریں گھماتی تنہائی مکمل طور پر عزم کی جانب متوجہ تھی۔عزم ٹہلتے ٹہلتے تھکا ہاتھ شل ہو رہے تھے گٹار کی تار ٹوٹی اور اسکی تان بھی۔ رکا ٹھٹکا پھر پلٹ کر تنہائی کی جانب بڑھا۔ م

  سنا آپ نے۔ عزم خود کو کسی مشہور پاپ فنکار سے کم نہ سمجھتے ہوئے اس سے داد چاہنے والے انداز میں پوچھ رہا تھا۔

تنہائی نے نفی میں سر ہلایا۔

کیسے ممکن ہے اتنی دیر سے بجا رہا ہوں گٹار آپ نے سنا ہی نہیں ۔۔

اسکی حیرت دو چند ہو گئ۔ چیخ ہی تو پڑا

تنہائی نے ہونٹ بھینچ لیئے۔

یہ دیکھیں گٹار بجا بجا کے میری انگلیاں فگار ہو گئیں۔۔

اس نے اپنی زخمی انگلیاں دکھائیں۔

گٹار ٹوٹ گیا یہ لٹکتے تار پر  جما یہ خون۔ وہ چلا اٹھا تھا میز پر دونوں ہاتھ مارتے وہ  جھلاہٹ کی انتہا پر تھا۔ تنہائی پر اسکے کسی ردعمل کا کوئی اثر نہ تھا اسی بے تاثر چہرے سے دیکھ رہی تھی اسے۔ وہ چند لمحے جواب طلب نظروں سے دیکھتا رہا پھر مایوس سا ہو کر رخ موڑ کر جانے کو تھا کہ تنہائی کی آواز نے ٹھٹکا دیا۔

تم نے کسی اور کو سنایا گٹار کبھی؟

اسکا دم رکنے کو آیا۔ سانس سینے میں اٹکی رہ گئ۔ چند لمحے دم بخود سا رہ گیا۔

تنہائی نے سوال دہرایا تو پلٹ کر سراسیمہ سے انداز میں وہ تنہائی کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔

کیا آپکو بھی گٹار کی آواز سنائی نہیں دی؟ کیا آپکو بھی نہ گٹار دکھائی دیا نا ہی میری زخمی انگلیاں؟

اسکی آواز میں خوف لرز رہا تھا۔آنکھوں میں التجا جھلک رہی تھی۔

کہہ دو ہاں۔ دیکھا سنا زخم دیکھے۔

مجھے نہ گٹار دکھائی دیا نا سنائی۔ تمہاری فگار انگلیاں دکھائی دے رہی ہیں بے چینی سے جیسے انکو اس چھڑی پر چلا رہے تھے زخمی تو ہونا تھا انہوں نے۔

تنہائی تو دنیا سے بھی ظالم نکلی۔ اسکے اپنے اسے جھٹلاتے رہے گٹار کے وجود سے انکاری رہے اسکو نفسیاتی سمجھ کر تنہائی کے پاس علاج کروانے بھیج ڈالا مگر تنہائی نے تو گٹار کو گٹار سمجھا بھی نہیں معمولی چھڑی قرار دے ڈالا۔

وہ وحشت ذدہ سا ہو کر اپنے ہاتھوں میں تھامی چھڑی دیکھنے لگا۔

یہ لو انگلیوں پر لگا لو صبح تک زخم ٹھیک ہو جائیں گے۔

اسے سوچ میں پڑا دیکھ کر تنہائی نے سیدھا ہو کر اپنی میز کی دراز کھولی۔ آئنمنٹ اور پلاسڑ نکال کر اسکی جانب بڑھا دیا۔

عزم نے حیرت سے تنہائی کو دیکھا۔

یہ ۔۔ یہ کیا ہے؟

اس نے کاغذ کے ٹکڑوں اور تیل میں بھیگے کوئلے کو آئنمنٹ اور پلاسٹر کہہ کر اسکی جانب پھینکا تھا۔

آئنمنٹ اور پلاسٹر۔

تنہائی کا انداز سادہ سا تھا۔ مزاق کی رمق تک نہ تھی۔

پاگل سمجھا ہے مجھے کیا؟ یہ عزم نے غصے سے دونوں چیزیں اٹھا کر دیکھیں پھر میز پر پھینک دیں

سفید براق کاغذ کالا ہو چلا تھا تو تیل میں بھیگے کوئلے سے اسکی انگلیاں۔

یہ تیل میں بھیگے کوئلے اور کاغذ تم مجھے دوا کہہ کر دے رہی ہو ؟ تم مجھے پاگل سمجھ رہی ہو مگر خود پاگل ہو چکی ہو۔

وہ حلق کے بل چکایا۔ 

میں کیوں کوئلے تیل میں بھگو کر اپنی دراز میں رکھوں گی بھلا؟

اسکے انداز کے برعکس تنہائی نے نہایت رسان سے

جواب دیا تھا

ادھر لائو میں تمہارا زخم صاف کردوں۔

وہ حیرت زدہ سا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔اسے ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر وہ خود اٹھ کر اسکے پاس آئی نرمی سے ہاتھ تھام کر کوئلے کا لیپ کیا اور کاغذ سے انگلی کو لپیٹ دیا۔ کاغذ ٹک نہیں رہا تھا تو سفید ٹیپ میز سے اٹھا کر اس پر چپکا دی۔

تنہائی کی انگلیاں کالی ہو چکی تھیں۔ اپنے چہرے پر آتی بے پروا کالی لٹ کو اس نے کان کے پیچھے اڑستے ہوئے گال پر کالا نشان لگا لیا تھا۔ مگر اسکا اطمینان قابل دید تھا۔اتنا کہ عزم کو اپنے یقین پر گمان غالب  آنے لگا۔جھجکتے ہوئے اس لڑکی سے جو عمر میں چند سال بڑی تھی اس سے کہنے لگا

میں ہوں نا فنکار۔ یہ گٹار بجانا آتا ہے نا مجھے؟

میں کیا جانوں کبھی گٹار بجا کے سنوائو تب ہی بتا سکتی۔

وہ اطمینان سے کہہ کر دوبارہ اپنی نشست کی۔جانب بڑھ گئ۔

وہ مایوس سا ہو گیا تھا۔

پھراسکا کیا کروں؟

اس نے مایوس سے انداز میں پلٹ کر پوچھا۔ تنہائی کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ رہی تھی۔اسکی بات پرچونکی۔

فی الحال تو گھر جائو اور سو جائو یہ نسخہ ہےاگلی بار اگر پھر اپنا آپ گٹار بجاتے ہوئے محسوس ہو تب ہی آنا ورنہ میرے حساب سے تمہارا علاج ہو گیا ہے۔

وہ پیشہ ورانہ مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولی تھی۔

میکانکی انداز میں عزم نے اس سے پرچہ پکڑا۔

دو تین کلو دوائیاں پھر اسکے نصیب میں کھانا لکھی تھیں۔

وہ کندھے سے لٹکتے گٹار کے بوجھ کو سہارتا سر اثبات میں ہلاتا مڑ کر جانے لگا۔

اگر بوجھ ذیادہ ہے اس چھڑی کا تو یہاں دروازے پر رکھ دو۔

عقب سے نرم سی آواز آئی تھی تنہائی کی۔

اس نے لمحہ بھر سوچا پھر گٹار کا فیتہ اپنے گلے سے اتار کر احتیاط سے دروازے کے پاس دیوار سے ٹکا دیا۔ اور احتیاط سے دروازہ کھول کر شکستہ سے انداز میں باہر نکل گیا۔ خود۔کار دروازہ اپنے بوجھ سے واپس بند ہوا تو وہ اطمینان سے دراز سے آئینہ نکال کر میز پر رکھے ٹشو باکس سے اکٹھے کئی ٹشوز کھینچ کر چہرے پر لگی کالک صاف کرنے لگی۔

چہرہ صاف کر کے اس نے احتیاط سے آئینہ واپس رکھا۔ اور دراز سے اپنی ذاتی ڈائری نکال کر لکھنے لگی۔

کیس 567

عزم بہت برا گٹار بجاتا ہے اسکو سننے سے بہتر یہی ہے کہ عزم یہ سمجھے کہ گٹار گٹار نہیں چھڑی ہے۔ یقینا اسکی زندگی اب آسان ہو چکی ہوگی۔

اس نے لکھ کر ڈائری بند کردی۔

تو آج مزید کوئی اپائنٹمنٹ نہیں ہے میری ۔

اس نے خوش ہو کر زیر لب کہتے ہوئے دونوں بازو  اوپر کر کے زوردار انگڑائی لی۔ اٹھی دفتر پر تنقیدی طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے  دروازے کے پاس آئی عزم کے گٹار کو اٹھایا۔ بس ایک ہی تار الگ تھی اسکو نہ چھیڑتے ہوئے وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اور گٹار کا فیتہ کندھے سے گزار تے ہوئے آنکھیں بند کرتے ہوئے گٹارپر اپنی پسندیدہ دھن چھیڑ دی۔۔۔۔

ختم شد۔

از قلم واعظہ زیدی (ہجوم تنہائی) #اردو #اردوویب #ناول #hajoometanhai

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *