جو ہو تخریب انجام ایسی تعمیر جہاں کیوں ہو
نہ لرزے جس سے خود بجلی وہ مرا آشیاں کیوں ہو
ہم ایک دن خود بہ فیض جذب دل منزل کو جالیں گے
کوئی گم کردہ منزل رهنمایے کارواں کیوں ہو
زمین کی گردشیں بھی جب مٹا سکتی ہیں انسان کو
بتا اے خالق کونین دور آسمان کیوں ہو
ہمیں تم کو بے شک جور کے قابل بنایا ہے
بجا کہتے ہو پھر شکوہ نہ ہو کچھ لب پہ ہاں کیوں ہو
خجل ہوں ان خیالوں سے جو لب پر لا نہیں سکتا
نہ ہو جب ازن گویائی تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
کہو ذوق دل آزاری تمہارا خیر سے تو ہے
شمیم خستہ دل پر آج اتنے مہربان کیوں ہو
از قلم زوار حیدر شمیم