سچ کو سچ اور نہ بہانے کو بہانہ سمجھیں
تم ستاؤ ہمیں ہم جور زمانہ سمجھیں
غیر کو غیر یگانے کو یگانہ سمجھیں
یہ تو جب ہو کہ ذرا رنگ زمانہ سمجھیں
جھوٹ کو جھوٹ فسانے کو فسانہ سمجھیں
وہ بھی دن آئے کہ اسرار زمانہ سمجھیں
ہم تو انساں کو دکھی دیکھ کر ہنسنے سے رہے
آپ سمجھیں غم دوراں کو فسانہ سمجھیں
ہم ہیں جو دیتے ہیں آہوں کو ہنسی کا آہنگ
کم ہیں جو غم کو مسرت کا خزانہ سمجھیں
دھڑکنیں ہر دکھے دل کی ہیں میرے سینے میں
میں کہوں اپنی تو لوگ اپنا فسانہ سمجھیں
آپ اٹھائیں تو سہی درد کا پرچم لے کے
اہل دل جتنے بھی ہیں شانہ بشانہ سمجھیں
ہے مرا شعر مرے درد کی تصویر شمیم
آپ سے نوحہ ، کہ نعرہ ، کہ ترانہ سمجھیں
از قلم زوار حیدر شمیم